30/01/2024
کل سے آپ آزاد ہو۔
گلگت بلتستان میں گزشتہ چند سالوں سے ایک عجیب و غریب ذہنیت کےحامل لوگ رہبرورہنما بن کر سامنے آرہے ہیں جنہیں نہ عوام کی سمجھ ہے اور نہ ہی عوام کو ان کامدعی سمجھ آرہا ہے مسئلہ جو بھی ہو کسی کے پائپ میں پانی نہ آئے یا گھر کی بجلی چلی جائے ان نام نہاد رہنماؤں نے نعرہ آزادی کا لگانا ہے اور مطالبہ الگ ریاست کا کرنا ہے اگر حکومت پاکستان آپ کا یہ مطالبہ مان لیتی ہے اور اعلان کر دیتی ہے یکم فروری 2024سے آپ آزاد ہو گلگت بلتستان ایک الگ ریاست ہے تو پھر کیا ہوگا ؟
آزادی اور خود مختاری کے نعرے لگا کر سادہ لوح عوام کے دلوں میں نفرتیں بھرنے والے ان نام نہاد رہنماؤں سے کوئی پوچھے اس الگ ریاست کا صدر کون ہوگا ؟چیف جسٹس کون ہوگا ؟وزیراعظم کون ہوگا ؟ جی بی میں آپ جیسے رہنماؤں نے اتنی نفرتیں پھیلائی ہوئی ہیں کہ ایک محلے کا بندہ دوسرے محلے میں نہیں جا سکتا ہے وہاں پبلک ٹرانسپورٹ سے لیکر سرکاری نوکری تک آپ کے مرہون منت مذہب علاقہ اور قومیت کے نام پر تقسم ہے تو پھر ایک الگ ریاست بنا کر آپ لوگ کیسے سنبھال لو گے؟ پہلے تولیں پھر بولیں لاکھوں سرکاری ملازمین کی تنخواہیں جو اربوں روپے بنتے ہیں کہاں سے ادا کرو گے؟ انڈیا جو بھوکے بھیڑیے کی طرح تیار بیٹھا ہے اسکا مقابلہ کیسے کرو گے ؟ فوج ہتیار مزائل کہاں سے لاؤ گے؟ جن پہاڑوں اور دریاؤں پر فخر کرتے ہو ان سے فائدہ حاصل کرنے کی صلاحیت کہاں سے لاؤ گے؟ جبکہ حقیقت تو یہ ہے گلگت بلتستان کے کل اثاثوں کی قیمت کے برابر تو صرف دیامر بھاشا ڈیم میں مشینری لگی ہوئی ہے، مائننگ لیز اگر غیر مقامی لوگوں سے لیکر جی بی کے مقامی لوگوں کو دیا جاتا ہے تو کیا گلگت بلتستان میں کسی کے پاس اتنی مشینری ہے جو ان پہاڑوں کو کاٹ کر قیمتی ذخائر نکال سکے ؟ جب آپ کسی غیر مقامی بندے کو جی بی میں برداشت نہیں کرو گے تو جو جی بی کے ہزاروں لوگ پاکستان میں کاروباراور ملازمتیں کر رہے ہیں ان کو کون برداشت کرے گا؟ آپ اپنے آزاد خودمختار ریاست میں خواتین یونیورسٹی میڈیکل کالج انجینئرنگ کالج بنا کر چلا سکو گے ؟ جبکہ ایک قراقرم یونیورسٹی تو آپ مہینے میں دس مرتبہ اپنے اندرونی مسائل کی وجہ سے بندکرنے پر مجبورہو جاتے ہو؟ اس طرح کے اور بھی بہت سے سوالات ہیں جن کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ لہذا آزاد اور خودمختار ریاست کے نعرے لگانے والوں سے گزارش ہے کہ نعروں سے پہلے ان سوالات کا جواب دیں پھر عوام کے سامنے آئیں
عوام سے میری یہی گزارش ہے آزادی اورخودمختاری کے نعرے لگانے والوں سے ان سوالات کے جوابات ضرور لیں ۔اور جو مطالبات جائز ہیں ان کو بھر پور انداز میں ریاست کے سامنے رکھیں اور اپنے مسائل حل کروانے کی کوشش کریں یاد رکھیں ریاست مخالف کوئی بھی بیانیہ نا ہمارے آنے والی نسلوں کے حق میں ہے نا گلگت بلتستان کے مفاد میں ہے حکومت پاکستان اور صاحب اقتدار نمائندوں سے بھی درخواست ہے عوام کے مسائل آپ نظر انداز کرو گے تو پھر عوام مجبوراً سڑکوں پر آئیں گے اس لئے آپ اپنی ذمہ داریاں پوری کریں عوام کے اندر جو احساس محرومی ہے اسے ختم کریں ورنہ حالات تو آپ کے سامنے ہیں اور عالمی قوتیں کتنی شدت سے اس لاوا کو بڑھکانے میں مصروف ہے آپ سے بہتر کون جانتا ہے۔
میری سوچ
شہزاد عالم