14/01/2022
(زلزلے تھمتے نہیں)
مخلوقِ خدا خطرے کی زد میں
(ڈاکٹر ریاض رضیؔ)
روندو کے بعض علاقے گنجی، یلبو، سبسر، گونڈ، سِلبو، یوچی، چھماچھو، تلو، تلو بروق، کھٹومچ اور ارد گرد کے موضعات اب بھی زلزلوں کی زد میں ہیں۔ آج آدھی رات کو پھر دو زلزلے محسوس کئے گئے اور جن کی شدت 4 اعشاریہ سے زائد بتائی جارہی ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو مبادا کسی بڑے نقصان کا خدشہ ہے۔ قبل اس کے کہ وہ خطرہ نمودار ہو، تدراک کےلئے اقدامات ضروری ہیں۔ خیموں (ٹینٹ) کی تقسیم، مقدور بھر راشن کی ترسیل اور ہمدردی کے دو بول اپنی جگہ صحیح، لیکن اِن اُمور سے خدانخواستہ کسی بڑے خطرے کے رونما ہونے سے روکا جاسکتا ہے؟ یہ سوال تمام تر قیل و قال اور اعتراضات سے ہٹ کر سنجیدہ قسم کے اَمر کی طرف اشارہ ہے۔ جیسا کہ ہماری سوسائٹی کا دستور ہے کہ یہاں سوالات و اشکالات اور تنقیدی نگاہ بہت وسیع ہے۔ ہم میں سے ہر شخص معترض تو ضرور ہے لیکن "حل" کی طرف رہنمائی شاید ہم نہیں کرتے۔ زلزلوں کے جھٹکے آرہے ہیں اور مخلوقِ خدا خطرے میں ہے۔ ہم سب کی شعوری نگاہ دیکھ رہی ہے کہ ان زلزلوں کی وجہ سے نقصان ہوسکتا ہے لیکن "حل" کیا ہے اُس جانب ہم متوجہ نہیں ہوتے۔ فی الفور جن چیزوں کی ضرورت تھی، وہ حتی المقدور فراہم کی گئی ہے۔ لیکن سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ آگے کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟ ہماری نگاہ میں دو اہم اُمور ہیں کہ جن پر عمل کرنا کسی حد تک تدراک ہوسکتا ہے۔
اوّل: متعلقہ مقام (جو زلزلہ کی بنیاد بنا) کا جامع سروے کہ آئندہ زلزلوں کی نوعیت شدید ہوسکتی ہے یا اسی طرح ہلکے پُھلکے جھٹکے آتے رہیں گے۔ یہ عمل مقامی لوگوں کی خود اعتمادی میں اضافہ کا باعث بنے گا۔ کم سے کم لوگوں کو حفظ ما تقدم کے طور پر محفوظ راہ تلاش کرنے کا موقع تو ملے گا۔ روز روز کے ہلتے جُلتے انسانی ابدان اس بات کو قبول تو کرلیں گے کہ:
" آنے دو ان زلزلوں کو، یہ تو روز کا معمول ہے۔ ایک اور جھٹکا سہی، بعض "دلیر" قسم کے لوگ تو جملہ بھی پھینکیں گے کہ کچھ نہیں ہوتا۔ ان جھٹکوں سے ڈرنا کیا، یہ صرف زمین کو ہلاتے رہیں گے بس! "
کسی بڑے انسانی المیہ کا جنم لینے سے تو یہ خود اعتمادی بدرجہا بہتر ہے۔ اتنے سارے لوگ اور خواتین و بچوں کی بڑی تعداد کی موجودگی میں،ان سب کو کہاں ایڈجسٹ کیا جائے؟ اور نہ ہی خیمہ بستی زیادہ دیر تک آباد رکھی جاسکتی ہے۔ ایک تو شدید سردی اور اوپر سے 17 جنوری سے بارشوں اور برف باری کی پیشنگوئی بھی ہے۔ ایسی صورت حال میں متعلقہ مقام کا جامع سروے ضروری ہے تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ زلزلوں کا سلسلہ جاری بھی رہے تو کسی بڑے نقصان کا خدشہ نہیں۔ یا اگر خدشہ ہے تو محفوظ مقامات کی طرف ہجرت کی جاسکے، بھلے ہی انسانی المیہ جنم لے اور مسائل و مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔
دوم: اجتماعی طور پر خود احتسابی کا عمل کہ ہم میں سے ہر شخص کس قدر پانی میں ہے اور کس قدر خُشکی میں۔ نصیحتیں، اخلاقی باتیں اور اچھائی کی طرف میلان بہت ہوچکا، محراب و منبر اور دینی تعلیمات کا حوالہ بھی ہر منٹ اور ہر لمحہ بہت دیا گیا۔ لیکن! تصویر بھی جوں کی توں ہے، سماج کا اجتماعی چہرہ بھی ویسے کے ویسے ہے اور ہمارا کردار بھی ٹیڑھا کا ٹیڑھا ہے۔ ہم میں اگر ہمت ہے تو اپنی چوبیس گھنٹے کی زندگی کا حساب نامہ تیار کریں اور سوال و جواب کے دو خانے ترتیب دینے کے بعد نتیجہ نکالیں تو شاید کہ کوئی مثبت اشارہ مل سکے۔(▪)
(▪) میں نے اپنی دوسری کتاب: "نظمِ اجتماع کا سماجی و تہذیبی معیار" میں انسان کی چوبیس گھنٹے کی زندگی پر تفصیلی بحث کی ہے اور اُن اخلاقیات کو نمایاں کیا ہے جو ہماری ہر سکینڈ کی زندگی کے ساتھ نتھی ہیں۔ نیز اُن بد اعمالیوں کی ایک فہرست بھی مرتب کی ہے جو ہماری تنہائی اور اجتماعی زندگی کو بہت زیادہ متاثر کرتی ہیں۔
ہم نے سماج کو ہر بُرائی کے نزدیک لاکر، باہمی معاملات اور لین دین میں خُرد بُرد کرکے قرار دیا ہے کہ ہم مذہب کے سب سے بڑے شیدائی ہیں۔ پل بھر میں ہم "اچھا" بننے کی پریکٹس کرتے ہیں اور پل بھر میں (بلکہ تنہائی اور موقع ملتے ہی) ہم شیطانی روپ دھارتے ہیں۔ کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ احساس پروگرام کے مستحق نہ ہونے کے باوجود ہم میں سے اکثر اس لئے مستحق ہوئے کہ ہم نے غلط بیانی سے کام لیا۔ خود کو لاچار، مجبور اور کسمپُرسی کے گروہ میں شامل کرکے "لینے" والے بن گئے۔ اب اللہ نے ان زلزلوں کے ذریعے واقعی "لینے" والے بنادیا۔
آفات و بلیات کا انسانی اعمال سے براہ راست تعلق نہیں ہے۔ یہ زمینی تغیر و تبدل سے رونما ہوتے ہیں یا آسمانی گھن گرج کی وجہ سے طوفان آتے ہیں۔ لیکن تاریخی واقعات شاہد ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی بداعمالیوں کی سزاء ان آفات و بلیات کے ذریعے دی ہے۔ قوم نوح کو سمندری طوفان کا سامنا کرنا پڑا، وجہ نافرمانی تھی۔ قوم طوط کو زمین کی اُلٹ پلٹ کی سزاء دی گئی، گویا زلزلوں نے زمین کی بنیادیں ہلادیں۔ وجہ بدکاری تھی۔ قومِ عاد و ثمود کو ناپ تول میں کمی کی سزاء دی گئی اور ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ کے دور میں حارث بن نعمان فُہری نامی شخص کو نافرمانی کی وجہ سے آسمان سے پتھر نازل کرکے سزا دی گئی۔ غرض یہ کہ انسانی بداعمالیاں بعض اوقات زمینی اور آسمانی جاہ و حشم میں تغیر و تبدل کا باعث بنتی ہیں۔ لہٰذا اس پہلو سے بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ بطور سماجی رکن ہمارا اخلاق و آداب کہیں حدوداللہ سے باہر تو نہیں ہوئے۔
(غور و فکر کرنے میں کوئی حرج نہیں۔۔نیز خود احتسابی بھی ضروری ہے۔)