Worldroof Media Services

Worldroof Media Services Media services providers in Gilgit-Baltistan
(3)

26/06/2024
25/06/2024

گلگت :
چیف سیکریٹری گلگت بلتستان ابرار احمد مرزا کے خصوصی احکامات پر سرکاری محکموں میں ملازمتوں کے پورے نظام کی طویل المیعاد منصوبہ بندی کیلئے ایڈیشنل چیف سیکریٹری ترقیات کی سربراہی میں قائم ریشنلائزیشن کمیٹی کی سفارشات پر سرکاری ملازمین کی تصدیق کا عمل جاری ہے۔

سرکاری ملازمین کے ڈیٹا کا اے جی پی آر سے تصدیقی عمل اور سکروٹنی کے بعد محکمہ مواصلات و تعمیرات میں 83 گھوسٹ ملازمین کی نشاندہی ہوئی ہے جس کے بعد محکمہ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کو فوری طور پر مزید انکوائری کرکے قانونی کاروائی کو جلد حتمی شکل دینے کی ہدایت جاری کر دی گئی ہے۔

چیف سیکریٹری گلگت بلتستان نے محکمہ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کو محکمہ تعلیم، محکمہ برقیات اور محکمہ صحت سمیت دیگر سرکاری محکموں میں ملازمین کے کوائف اکھٹا کرکے جانچ پڑتال کے بعد گھوسٹ ملازمین کو فوری طور پر برطرف کرنے اورغیر قانونی بھرتیوں میں ملوث سرکاری ملازمین کے خلاف کرپشن اور اقربا پروری کے ذریعے سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانے پر فوری طور پرقانونی کاروائی بروئے کار لانے کے احکامات بھی جاری کر دئیے گئے ہیں۔

23/06/2024

ترجمان گلگت بلتستان حکومت فیض اللہ فراق نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ بجٹ میں صحافیوں کیلئے انڈومنٹ فنڈ کی مد میں 10 کروڑ کی رقم رکھی گئی ،یہ وزیر اعلی گلگت بلتستان حاجی گلبر خان کی صحافت دوست پالیسیوں کا نتیجہ اور مقامی میڈیا کو استحکام دینے کی نوید ہے۔

12/06/2024

بھارت امریکہ بڑھتے تعلقات اور پاکستان

تہریر: شہزادہ ارسلان حیدر.

ایشیا کے جس مستقبل کے بارے میں عرصہ دراز سے جو
پیشن گوئیاں ہو رہی تھیں وہ اب حال بننا شروع ہو چکا ہے۔افغانستان میں امریکہ کی پندرہ برسوں کی کارِ لاحاصل،چین کی تیزی سے عالمی طاقت کے طور پر ابھرنے ،ایران پر سے عائد عالمی پابندیوں کے خاتمے کے بعد اس کی عالمی سیاست میں بڑھتی ہوئی اہمیّت، پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے اور پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف کامیابی سے جاری آپریشن ضرب عضب کے باعث بھارت کی بڑھتی ہوئی بے چینی کے نتیجے میں خطّے کا نیا سیاسی منظر نامہ تشکیل پارہا ہے۔ نئے حالات میں پرانے مقاصد کے حصول کے لئے جاری پالیسیاں تبدیل ہورہی ہیں اور نئے مقاصد پورے کرنے کے لئے نئی پالیسیاں بننے کا آغاز ہورہا ہے جو خطّے کے ممالک کے درمیان باہمی تعلقات میں تبدیلی کا باعث بن رہا ہے۔اس میں سب سے اہم پاک امریکہ تعلقات میں پیدا ہونے والی کشیدگی اور امریکہ کے بھارت کے ساتھ تعلقات میں اضافہ ہے۔ جب تک امریکہ افغانستان میں جنگ لڑنے میں مصروف تھاتب تک اسے اس جنگ میں سب سے زیادہ ضرورت پاکستان کی تھی اور پاکستان اس کا اتحادی اور بہترین دوست تھا لیکن اب جبکہ امریکی افواج اس ملک سے تقریباً نکل چکی ہیں اور وہ براہ راست اس جنگ میں زیادہ عرصے کے لئے شامل نہیں رہے گا اس لئے امریکہ کے لئے پاکستان کی افادیت کم ہوگئی ہے اور اس کے رویّے میں پیدا ہونے والی سرد مہری رفتہ رفتہ تعلقات کی کشیدگی کا باعث بن گئی اورآخرکار دونوں ممالک کے درمیان تعلقات انتہائی نیچے کی سطح تک آگئے ہیں۔

خطّے کے ان تبدیل ہوتے حالات نے حالیہ برسوں میں امریکہ اور بھارت کے تعلقات کو ایک نیا رخ دیا ہے،جب سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے اپنی حکومت کے آخری برسوں میں یہ اعلان کیا کہ 21ویں صدی میں امریکہ کے عالمی مفادات بھارت کے ساتھ بہترین تعلقات کے ساتھ وابستہ ہیں تو سمجھنے والے اسی وقت ہی سمجھ گئے تھے کہ امریکہ کی مستقبل قریب میں ایشیا کی پالیسی کیا ہوگی کیونکہ اس سے قبل دونوں ممالک کے تعلقات کبھی مثالی نہیں رہے تھے بلکہ بھارت کی قربتیں سرد جنگ کے زمانے میں غیر وابستہ تحریک کا حصّہ ہونے کے باوجود امریکہ کے حریف ملک روس کے ساتھ تھیں۔یہ اعلان یقیناً دونوں ملکوں کے تعلقات میں ایک بڑا قدم ٹھہرا۔ اس کے بعد2008میں دونوں ممالک کے درمیان سول نیوکلےئر معاہدے کی صورت میں ایک اور پیش رفت دیکھنے میں آئی۔لیکن امریکی صدر جو بائیڈننے اقتدار میں آنے کے بعد جب پیوٹ ایشیا پالیسی کا آغاز کیا تو ان تعلقات میں انتہائی تیزی دیکھنے میں آئی۔ امریکہ نے اقوام متحدہ کے اہم ادارے سلامتی کونسل میں بھارت کو مستقل رکنیت فراہم کرنے کی بھرپور کوششیں کیں، اس کو نان نیٹو اتحادی ملک کا درجہ دیااور اب جو بائیڈن انتظامیہ بھارت کو Nuclear Suppliers Group
کی رکنیت دینے کے لئے بھی کوشاں ہے جو کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے حالیہ دورہ امریکہ کا ایک اہم ایشو تھا۔

امریکہ کی بھارت پر اتنی نوازشوں اور مہربانیوں کی کئی وجوہات ہیں،دراصل امریکہ کے لئے آنے والے کئی عشروں تک اس خطّے میں اپنے مختلف النّوع مفادات کے حصول کے لئے بھارت کی اہمیّت بہت زیادہ ہوگئی ہے، امریکی پالیسی سازوں کو بھارت کی خطّے میں بالادستی حاصل کرنے کی خواہش کا خوب احساس ہے اور وہ اس بات کا فائدہ اٹھا کر خطّے میں اپنے مفادات کا تحفظ کرنا چاہتا ہے۔ مثال کے طور پر سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکہ جس طرح واحد عالمی طاقت کی حیثیّت سے پوری دنیا میں اکیلے ہی اپنے مفادات حاصل کر رہا تھاوہ اب دنیا کے مختلف خطّوں میں نئی طاقتوں کے ابھرنے سے مستقبل میں ممکن نہیں رہے گا۔ یہی معاملہ ایشیا میں بھی ہے جہاں عالمی سیاسی منظرنامے پر ابھرتا ہوا چین امریکہ کے مقابلے میں تیزی سے اثر ورسوخ بنا رہا ہے۔چین کی کئی پالیسیاں اور منصوبے خطّے میں امریکہ کی روایتی حیثیت کے لئے خطرے کا باعث بن رہی ہیں۔مثلاً چین کی جانب سے
Asian Infrastructure Investment Bank (AIIB)
کے قیام کے بعد ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف جیسے اداروں‘ جو کہ امریکہ کے کنٹرول میں ہیں‘کی اہمیت اس خطے میں نسبتاً کم ہوگئی ہے۔یہ بنک خطّے میں کئی منصوبوں کی تکمیل کے لئے رقوم فراہم کرے گا جس سے چین کے سیاسی معاملات میں بھی اہمیّت مزید بڑھ جائے گی،چین کے ون بلٹ ون روڈ جیسے منصوبوں کے ساتھ یہ ملک عالمی معیشت کا بھی مرکز بننے جا رہا ہے۔ تیسری وجہ چین اور روس کے تعلقات میں ہونے والا اضافہ ہے۔ امریکہ اور روس سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بھی دنیا کے کئی خطّوں میں پراکسی جنگیں لڑ رہے ہیں جس کی مثال شام ، یوکرائن اور کئی دیگر ممالک میں جاری تنازعات ہیں۔ دوسری جانب نیٹو اتحاد کا بڑھتا ہوا اثر ورسوخ بھی روس کے لئے پریشانی کا باعث ہے، ان حالات میں جب روس نے اپنے پڑوسی ملک کریمیا پر قبضہ کیا تو مغربی دنیا نے امریکہ کی سرکردگی میں روس کی تیل و گیس کمپنیوں پر پابندیاں لگا کر اس کی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا اور وہ شدید مشکلات کا شکار ہوگیا،اس مشکل وقت میں چین نے حالات کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے روس کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور دونوں ممالک کے درمیان 400بلین ڈالر مالیّت کا گیس معاہدہ ہوا جس نے امریکی پالیسی سازوں کو ششدر کر کے رکھ دیا۔یہاں سے عالمی سیاست میں ایک بار پھر بلاک سسٹم وجود میں آنے کے آثار نمودار ہونا شروع ہوگئے جو مستقبل میں کئی جنگوں کا باعث بن سکتا ہے۔امریکہ کو اس اتحاد سے بھی خطرے کی بو آنے لگی اور اس نے اس خطرے کے تدارک کے لئے بھارت کو علاقائی معاملات میں کھلم کھلا طور پر سپورٹ کرنا شروع کردیا ۔اب امریکہ کی کوشش ہے کہ بھارت کے ساتھ مل کر مختلف سیاسی، معاشی اور سٹریٹجک پالیسیوں کے ذریعے چین کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کو مسدود کیا جائے جس کے لئے اس نے بھارت ، چین اور پاکستان کے درمیان نئے تنازعات کا مرکز بننے والے بحر ھند میں بھارت کو شہہ دینا شروع کر دی۔آبنائے ملاکا، آبنائے ہورمز، لومبوک اور آبنائے سندا کی حامل جیوسٹریٹجک اہمیّت کے حامل بحرہند میں بھارت مسلسل اپنا اثرورسوخ بڑھا رہا ہے جو کہ چین اور پاکستان کے لئے انتہائی خطرے کا باعث ہو سکتا ہے۔یہاں اپنی مشترکہ پالیسیوں کے ذریعے امریکہ چین پر اور بھارت چین اورپاکستان دونوں پر غلبہ پانا چاہتا ہے۔اس گٹھ جوڑ کے ذریعے بھارت افغانستان میں بھی اپنا اثر ورسوخ بڑھا کر پاکستان کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کر رہا ہے،جہاں امریکہ نے مبینہ طور پر ایران سے پاکستان میں داخل ہونے والے افغان طالبان راہنما ملّا اختر منصور کو پاکستان کے صوبے بلوچستان میں ڈرون حملے میں نشانہ بناکر افغان مسئلے پر چار فریقی مذاکرات کو سبوتاژ کرکے وقتی طور پر افغانستان میں پاکستان کی اہمیّت کم کرنے کی کوشش کی اوربھارت نے افغانستان کے ساتھ مل کر ایران کے ساتھ چابہار بندرگاہ معاہدے پر دستخط کرکے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے اور گوادر بندرگاہ کے خلاف عملی طور پر اپنی مہم کو مہمیز دی ۔نیز بھارت امریکہ کے تعاون سے اہم بین الاقوامی اداروں کی رکنیتیں حاصل کر کے عالمی سیاست میں اپنا اثرورسوخ بھی قائم کرنا چاہتا ہے۔خطّے کے تیزی سے بدلتے ہوئے یہ حالات پاکستان کے لئے نہایت مشکلات پیدا کر رہے ہیں ،وہ کچھ اپنی غلطیوں اور کچھ عالمی سازشوں کا شکار ہے اور بھارت ان حالات سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کو سفارتی سطح پر تنہا کرنے کی کوششیں کر رہا ہے جس کا اظہار بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے خطّے کے مختلف ممالک کے حالیہ دوروں کے دوران اپنی تقریروں میں پاکستان مخالف اسلوب اختیار کرنے سے مسلسل ہو رہا ہے۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ڈائینامک شفٹ لینے کا وقت آگیا ہے،عالمی سیاست کا یہ نیا دور پاکستان کے لئے نئے چیلنجز لا رہا ہے جس سے نمٹنے کے لئے حقیقت پسندانہ اور انتہائی فعال خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے۔بے شک یہ ایک مشکل وقت ہے لیکن اس صورتحال سے نکلنے کے لئے کئی آپشنز موجود ہیں۔بھارت چابہار کے بعد اب بنگلہ دیش کے ساتھ بھی اس کی پائرہ بندرگاہ کو ترقی یافتہ بنانے کے لئے معاہدہ کرنا چاہتا ہے، اس صورتحال میں پاکستان کو اپنی بندرگاہوں اورمارا،گڈانی اور پسنی کو بھی جدید خطوط پر استوار کرنا چاہئے۔ہمارے پالیسی سازوں کو اسلامی دنیا میں نہایت متحرک سفارتکاری کرنی چاہئے اور اسلامی ممالک کے ساتھ مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانا چاہئے۔ اس کے علاوہ یورپ پاکستانی ڈپلومیسی کے لئے ایک نہایت مفید میدان ثابت ہوسکتا ہے جہاں بین الاقوامی سیاست کے کئی بڑے بڑے فیصلے ہوتے ہیں، چین کے ساتھ تعلقات مزید مضبوط کرنے اور روس کے ساتھ تعلقات کے ایک نئے اور خوشگوار دور کے آغازکو دوام دینا چاہئے لیکن یہ تعلقات امریکہ کی قیمت پر نہیں ہونے چاہئیں ، امریکہ کے ساتھ تعلقات دوبارہ معمول پر لانے کے لئے ہر ممکن لیکن باوقار طریقہ اختیارکرنا ہی بہترین پالیسی ہوگی

12/06/2024

نیٹکو انتظامیہ اور لیپرڈ کورٸیر سروس LCS کے درمیان معاہدے کے بعد گزشتہ روز سامان کی ترسیل کا آغاز ہوا۔ نیٹکو نے کارگو کورٸیر 16 گھنٹوں میں راولپنڈی سے گلگت بلتستان پہنچا دی۔ (اس معاہدے کے تحت ادارے کو ماہانہ 25 لاکھ روپے آمدنی متوقع ھے۔)
اس سلسلے میں لیپرڈ کورٸیر سروس کے منیجر نے نیٹکو انتظامیہ کی کاوشوں کو سراہا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ مسقبل قریب میں کورٸیر کارگو کو ملک کے دیگر بڑے شہروں تک پھیلاٸیں گے۔

10/06/2024

ضلع غذر کے علاقے بوبر سے کے لئے اعزاز!

ضلع غذر سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر بشری علی نے یونیورسٹی آف پنجاب سے جینڈر اسٹیڈیز میں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کرلی
ڈاکٹر بشریٰ علی چیف انجینئر ریٹائرڈ علی امان شاہ کی بیٹی ہیں۔

09/06/2024

Prince Rahim Aga Khan Inaugurates HBL MfB’s RHQ Gilgit-Baltistan:
A Commitment to Sustainability and Environmental Stewardship

Gilgit, Pakistan – 9th June 2024 – HBL Microfinance Bank (HBL MfB) inaugurated today its new Regional Headquarters for Gilgit Baltistan. The ceremony was attended by Prince Rahim Aga Khan, Chair of the Executive Committee of the Aga Khan Fund for Economic Development (AKFED); Mr. Sultan Ali Allana, Chairman, HBL; Mr. Muhammad Nassir Salim, President & CEO, HBL; Mr. Rayomond Kotwal, Chairman, HBL MfB; and Mr. Amir Khan, President & CEO, HBL MfB.

The building underlines the Bank's commitment to sustainability, innovation, and local community development. A blend of modern architecture and local cultural elements, the building meets some of the highest international standards of green construction. It has earned the LEED Gold certificationand EDGE Advanced certification, one of the first buildings in the country to achieve this. The LEED Gold certification from the U.S. Green Building Council highlights the building’s superior performance in energy and water efficiency, sustainable site development, and indoor environmental quality. The EDGE Advanced certification, granted by the International Finance Corporation (IFC), underscores the building’s commitment to resource efficiency, achieving significant energy and water savings. The building is well equipped to produce 40 percent of the overall electricity required for its day-to-day functions.

“The inauguration of HBL Microfinance Bank's Regional Headquarters Gilgit-Baltistan is a remarkable milestone for both the Aga Khan Development Network (AKDN) and the Bank,” said Prince Rahim Aga Khan. “It is a major step towards AKDN’s goal of achieving Net-Zero by 2030. As we continue our journey to a better and more sustainable future, this building serves as a symbol of continued progress, sustainability, and prosperity for the people of Gilgit-Baltistan.”

Mr. Rayomond Kotwal, Chairman HBL MfB, remarked, "The inauguration of our Regional Headquarters, Gilgit Baltistan is a testament to our commitment to sustainable development and the well-being of the communities we serve. Gilgit holds a special place in the journey of HBL Microfinance Bank, as we started here more than two decades ago. This building is a symbol of our dedication to fostering economic growth while preserving the region’s environment. By integrating sustainable practices with local culture, HBL Microfinance Bank has set a new benchmark in environmental stewardship and corporate responsibility. We take pride in contributing to the development of the Gilgit Baltistan region and look forward to continuing our support for all Pakistanis."

Mr. Amir Khan, President & CEO HBL MfB, added, "The flagship Regional Headquarters Gilgit Baltistan exemplifies the strength, stability, and resilience of Pakistan's best microfinance bank. The Regional Headquarters not only boosts our operational capabilities but also represents progress and hope for the Gilgit Baltistan region. Throughout the project, particular attention was paid towards the area, which is why 27 percent of the total project cost was allocated to boost the local economy, through the onboarding of regional suppliers and the creation of employment opportunities."

09/06/2024

پاک آرمی کی طرف سے ہنزا علی آباد ڈی ایچ کیو ہسپتال میں فری آٸٹیزم سکرینیگ کیمپ کا انعقاد کیا گیا ۔
کیمپ میں آٸٹیزم سے متعلق آگاہی لیکچر کا بھی انعقاد کیا گیا جہاں لوگوں اور والدین کو آٸٹیزم کے متعلق أگاہی فراہم کی گٸ۔
۔ کیمپ میں والدین کو ٹرینگ بھی فراھم کی گٸ ۔
ِ پاک آرمی ھمیشہ سے دور دراز علاقوں میں فری کیمپ کا انعقاد کرتی رہتی ہے۔
۔ لوگوں نے پاک آرمی کے اس اقدام کو سراہا اورشکریہ اداکیا کہ پاک فوج نے ان کے دروازے پہ سہولت فراہم کی.
*پریس ریلیز*

09/06/2024

Prince Rahim Aga Khan the other day visited Hunza district in Gilgit-Baltistan to launch the development of Duiker Phase II and Nasirabad Solar Power Plants with a total capacity of 3.6 MWp.

Phase I of Duiker Solar Power Plant, which has a generation capacity of 1MWp and 0.6MWh battery storage, commenced operations in November 2023, increasing the daily power availability for more than 11,000 people, from 10 to 17 hours in summer and from four to nine hours in winter. When commissioned in November 2024, Duiker Phase II will expand generation capacity from 1MWp to 1.6MWp, and battery storage from 0.6MWh to 1MWh, providing increased electricity to an additional 8,760 people. Crucially, Duiker replaces diesel power generation, leading to an annual reduction of 1,100 metric tons of CO2 equivalent.

A 2MWp Solar Power Plant with 1MWh battery storage will also be constructed in Nasirabad in lower Hunza. This will supply power to an additional 23,400 people. The Nasirabad Solar Power Plant is expected to be commissioned in June 2025.

NPAK Energy Ltd, a subsidiary of Industrial Promotion Services (IPS), the industrial and infrastructure development arm of the Aga Khan Fund for Economic Development (AKFED), is investing $6m in these projects. Project financing blends equity, sustainable debt, and grants. An additional $14m has been secured from development partners for the enhancement of the region’s energy infrastructure.

Over the next five years, NPAK Energy will mobilise additional investments in clean, sustainable sources of electricity across Hunza and surrounding areas, addressing the region’s acute energy deficit while contributing to global efforts to mitigate climate change. The company is committed to improving public service delivery by creating a sustainable, self-reliant utility operation that catalyses economic opportunities and job creation, and models an innovative and efficient public-private partnership that contributes to sustainable development.

-- AKDN

08/06/2024

تحریر: شکور خان ایڈووکیٹ

ہمارا ریڈیو

یاسن کے آخری گورنر محبوب علی خان تھے۔ وہ ریڈیو خرید لائے تھے۔ 1966 میں فوت ہوئے تو ان کی اولاد نے ریڈیو درزی محمد کاظم تھاوس والے کو دیا۔ وہی ریڈیو میرے والد محمد کاظم مرحوم سےخرید لائے۔

ان دنوں اّس پڑوس میں کسی کے ہاں ریڈیو نہ تھا۔ میری نظر پہلی بار ریڈیو پر پڑی تو خوشی نہیں مایوسی ہوئی۔ ریڈیو کیا تھا صندوق نما لکڑی کا بوسیدہ ڈبہ تھا جس کے فریم کا رنگ جگہ جگہ سے اڑا ہوا تھا، کونے گِھسے ہوئے تھے، خارش زدہ کتے کی سی شکل بن گئی تھی، ہمیں وہ ذرا بھی اچھا نہ لگا۔

بجا کے دیکھا، مُوا بجتا خوب تھا۔ والد سے کہا وہ اتنی بے زیب، واہیات چیز کیوں اٹھا لائے، وہ بولے: بھئی شکل سے کیا لینا دینا، نہ بجتا ہو تو بتاو۔

والد کی غیر موجودگی میں فیصلہ ہوا کہ یہ بد ڈیزائن چیز محمد کاظم کو واپس دے آتے ہیں۔ قیمت آبا خود وصول کریں گے۔ اسے چادر میں لپیٹا، پیٹھ پہ لاد کر تھاوس کی طرف چل پڑا۔

ریڈیو پر نظر پڑتے ہی محمد کاظم کے چہرے کے تاثرات بدل گئے۔ پیشانی پہ شکنیں نمودار ہر گئیں، پوچھا اسے کیوں لائے؟ کہا، جی، ہمیں پسند نہیں۔ بولے: تمہارے والد پسند کرکے لے گئے تھے پھر کیا ہوا؟ میں بولا: ماں، بھابی، بھانجے کو اور مجھے بھی پسند نہیں۔ یہ سن کر مرحوم نے لمبا سانس لیا، کہا: اچھا! والد نے بھیجا ہے؟ میں بولا نہیں وہ گھر پہ نہیں تھے۔ یہ سن کر ایک بار پھر سر سے پاوں تک میرا جائزہ لیا، مسکرائے، بولے، بچے صبح اسے واپس لے جاو۔ آپ کے والد کو پسند نہ آئے تو وہ خود دے جائیں گے۔ رات ان کے ہاں گزاری صبح چارو ناچار ریڈیو واپس گھر لے آیا۔ پھر آہستہ آہستہ ہم اس کے عادی ہوگئے، بدصورتی سمیت اسے قبول کر لیا گیا۔

میرے چچازاد اٹھارہ سال کے دراز قد وجیہہ نوجوان تھے۔ وہ والد سے ناراض تھے، ہمارے گھر آنا جانا چھوڑ دیا تھا۔

اس کی ماں آتی جاتی تھی۔ ایک دن بولی: جب سے آپ کے گھر ریڈیو آیا ہے میرے بیٹے کو کچھ کچھ ہو گیا ہے۔ بات جہاں کہیں کی کہیئے بیچ میں ریڈیو کا ذکر لے آتا ہے۔ کہتا ہے تایا کے ہاں سے ریڈیو لے آو کچھ دیر سن کر واپس کر دیں گے۔ یوں چچی نے دبے لفظوں میں ریڈیو لے جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ماں نے ان کی بات سنی آن سنی کر دی۔

ہمارے صحن میں خوبانی اور شہتوت کے پیڑ تھے جن پر صبح صادق سے رات گئے تک طرح طرح کی چڑیاں اڑتی اترتی رہتی تھیں، ان کی چہچہاہٹ سے لطف اندوز ہوتے، کبھی غلیل سے پتھر اچھال اچھال کر انہیں اڑاتے۔ کچھ لڑکے بالے غلیل سے چڑیوں کا شکار کرتے۔

ایک صبح وہی چچاذات غلیل لیے شہتوت کے پیڑ کے قریب ٹہل رہا تھا۔ اسے دیکھ کے حیرت ہوئی، وہ ہم سے ناراض تھا آج کیسے ہمارے صحن تک آگیا! اس نے آبا کا پوچھا پھر ریڈیو کا پوچھا۔ میں بولا: ریڈیو گھر میں ہے آبا باہر گئے ہیں۔ بولے، ریڈیو لے آو۔ میں نے انہیں گھر آنے کی دعوت دی، ساتھ ہی سوچتا رہا اسے تجسس بہت ہے دراصل اس نے ہمارے ریڈیو کی شکل نہیں دیکھی، جب دیکھ لے گا سارا شوق کافور ہو جائے گا۔ سوچا کیوں نہ میں اسے پہلے ہی بتا دوں تاکہ ریڈیو پر نظر پڑتے ہی نہ دھچکا لگے نہ الٹے پاوں بھاگے۔
میں نے کہاں: بھائی جان، ریڈیو تو ہے لیکن "کوئی خاص ریڈیو نہیں ہے"۔ بولے: خاص ریڈیو کیا مطلب؟ میری ماں کہتی ہے بہت اچھا بجتا ہے!

میں نے کہا: ہاں بجتا خوب ہے۔ گھر داخل ہوتے وقت اس کے چہرے پہ تجسس اور خوشی کی ملی جلی کیفیت صاف نظر آرہی تھی جیسا کہ اپنی ہونے والی منگیتر کی جھلک دیکھنے آیا ہو۔ ہم گھر میں داخل ہو گئے۔ میں ریڈیو اٹھا لایا، میری نظریں اس کے چہرے پہ مرکوز تھیں، اس نے ریڈیو میرے ہاتھ سے لیا الٹ پلٹ کر دیکھا واپس مجھے تھما دیا، بولے: بجاو، میں نے بٹن گھما کر آن کیا، ایک چینل پر گانے لگے تھے پتا نہیں کس زبان میں تھے۔ چچازاد کا چہرہ خوشی سے دھمک اٹھا۔ آن آف کرنا سوئی آگے پیچھے گھمانا مجھ سے سیکھ لیا۔ اس دن کے بعد روز آنے لگے ، والد سے ناراضی ختم کر دی۔ والد سے اجازت لے کر ریڈیو ساتھ لے جانا روز کا معمول بن گیا۔

ایک دن پاس والے گاوں کے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا دور پار سے موسیقی کی صدا سنائی دی، لڑکے کھیل چھوڑ کر اس طرف متوجہ ہوگئے، اتنے میں دیوار کی آڑ سے کزن ریڈیو لیے نمودار ہوا۔ تھوڑی دیر رکا، لڑکوں نے انہیں مزید رکنے کا کہا تاکہ وہ ریڈیو سن سکے، ان کی ایک نہ سنی، فل والیوم میں ریڈیو بجاتا اگلے گاوں کی طرف روانہ ہوگیا۔

اس نے ہمارے ریڈیو کے لیے کمخواب کا پوشش بنایا تھا، سفید رومال جس پر نامعلوم دوشیزہ نے ایک طرف خوبصورت پھولوں کی کشیدہ کاری کی تھی دوسری طرف بیل بوٹے کاڑھے تھے، وہی رومال اس نے ریڈیو کے دستے کے ساتھ لپیٹ رکھا تھا، گلاب کے تازہ پھول ننھی کلیوں کے ساتھ چُن کر ریڈیو کے کمخواب والے غلاف میں پرویا تھا۔
چچیرا پھولا نہیں سماتا تھا ریڈیو کو لے کے، سارا سارا دن اسے لے کے گھومتا رہتا تھا۔

وہ بوسیدہ ریڈیو کو لے کر رقیب پہ روپ جمانا چاہتا تھا، معشوقہ کا دل جیتنا چاہتا تھا یا مدھر سُروں کا شیدائی تھا اس کا صحیح اندازہ نہ ہو سکا۔

سالہا سال استعمال کے بعد ہمارا ریڈیو کباڑ ہونے کے قریب تھا، تواکل خان تھاوس والے کا اللہ بھلا کرے جس نے اسے خرید لیا۔ تواکل خان کے پاس نقد پیسے تھے نہ کوئی اور جنس، صرف ایک عمر رسیدہ گدھا تھا وہ ہم خوشی خوشی لے آئے۔

08/06/2024

The President of the Islamic Republic of Pakistan, Asif Ali Zardari, today conferred the Nishan-e-Pakistan, the nation’s highest civilian award, on Prince Rahim Aga Khan. The award recognises individuals who have rendered services of the highest distinction to Pakistan, and was given at Aiwan-e-Sadr, the President’s official residence in Islamabad. Prince Rahim is currently visiting Pakistan to review AKDN projects in renewable energy, microfinance, and information technology, as well as meet government officials and leaders of the Aga Khan Development Network (AKDN) and the Ismaili community.

Noting Prince Rahim’s role as Chair of the Executive Committee of the Aga Khan Fund for Economic Development and Chair of the Aga Khan Development Network’s Environment and Climate Committee, the award citation states:

“Prince Rahim Aga Khan, through his many leadership roles within the Aga Khan Development Network, has, for more than a quarter century, dedicated his untiring efforts to improving the quality of life of peoples in resource-constrained regions of Asia and Africa...His personal engagement in assuring that initiatives impacting the economic, health, educational and cultural well-being of poor and marginalised communities respond to evolving and contemporary needs, upholds a multigenerational legacy that traces its origins, in Pakistan, to the founding of the nation.”

Upon receiving the Nishan-e-Pakistan, Prince Rahim said: “I am honoured to accept such a distinguished award on behalf of the Aga Khan Development Network, my colleagues, our staff, and the many volunteers who work tirelessly to improve the lives of the people of Pakistan. I express my warmest gratitude to the President and Government of Pakistan for this immense recognition.”

His Highness the Aga Khan, founder and Chairman of the Aga Khan Development Network, received this award in 1983 for his social and economic welfare activities in Pakistan, in the Muslim Ummah as a whole, and in the developing world. Past recipients include other world leaders, such as Nelson Mandela and Queen Elizabeth II.

07/06/2024

ضلعی انتظامیہ استور کے زیر اہتمام ضلع استور کا دور افتادہ علاقہ داسخرم میں کھلی کچہری کا انعقاد کیا گیا. کھلی کچہری میں ڈپٹی کمشنر استور محمد طارق, ایس ایس پی استور عبد الصمد, اسسٹنٹ کمشنر شونٹر محمد حسین بٹ, محکمہ جات کے سربراہان اور داسخرم کے لوگوں کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی. کھلی کچہری سے خطاب کرتے ہوۓ ڈپٹی کمشنر استور محمد طارق نے کہا کہ کھلی کچہری منعقد کرنے کا مقصد آپ لوگوں کے مسائل کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا اور آگاہی حاصل کرکے ان مسائل کا حل تلاش کرنا ہے تاکہ آپ کے مسائل آپ کے گھر کی دہلیز میں حل ہوسکے. جو مسائل سردست حل طلب ہوں تو ان مسائل کا فوری حل نکال کر آپ کو سہولت فراہم کرنا ہے. ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ داسخرم کے لوگ بڑے بہادر اور جفاکش ہیں. یہی وجہ ہے کہ وہ ان سخت موسمی حالات کا مقابلہ کرنے سمیت دور دراز علاقوں میں رہائش پزیر رکھتے ہیں.ہمیں یہاں کے مسائل کے حوالے سے آپ لوگوں کی توسط سے معلوم ہوا ہے.انشااللہ ہماری پوری کوشش ہوگی کہ ہم رات دن آپ کے مسائل کے حل کے لیے ایک کرینگے اور ہم پُرامید ہیں کہ آپ کے بہت سارے مسائل ہم اپنی بساط کے مطابق اپنے لیول پر ہی حل کرینگے . انہوں نے کہا کہ گندم کا مقررہ کوٹہ بروقت پہنچانے کی کوشش کریں گے تاکہ آپ لوگوں کو تکلیف نہ ہو. چونکہ داسخرم کے لوگ مال مویشی پر زیادہ انحصار کرتے ہیں ایسی لیے محکمہ امور حیوانات یا لائیو سٹاک ڈیپارٹمنٹ کے ماہرین نے لوگوں کو اس حوالے سگ شعور اور آگاہی دینے کے لیے تربیتی سیشن کا اہتمام کیا ہے تاکہ لوگوں کو مال مویشی کے حوالے سے بہتر معلومات فراہم کی جاسکے. ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ تعلیم اور صحت کے شعبے میں بھی جو کمی ہے اس کو بھی فوری طور پر حل کرنے کی کوشش کرینگے تاکہ یہاں کے لوگوں کو صحت کے حوالے سے جو مشکلات درپیش ہیں انہیں کم کیا جاسکے. بوائز ہائی سکول داسخرم کی چار دیواری سمیت دیگر مسائل کو بھی ترجیحی بنیادروں پر حل کرنے کی کوشش کی جاۓ گی. کھلی کچہری سے ڈاکٹر غلام عباس, قاری لیاقت اور فضل حق نے بھی خطاب کیا اور علاقے کے مسائل پر روشنی ڈالی.

شعبہ اطلاعات
*ضلعی انتظامیہ استور*
استور. 6 جون 2024
ڈپٹی کمشنر آفس استور

*پریس ریلیز*

06/06/2024

معاون خصوصی برائے اطلاعات ایمان شاہ کی پریس کانفرنس کے بعد سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے ۔ یہ بحث ایمان شاہ کے اس بیان کے بعد شروع ہوئی جس میں انہوں نے کہا کہ چند سرکاری اداروں میں عارضی ملازمت کے نام پر خواتین کا استحصال کیا جاتا ہے

اس بیان کے بعد ایڈووکیٹ ثنان احمد نے میڈیا لینز کو بتایا کہ ایمان شاہ خود حکومت میں ہیں اور ان کو ایسے سرکاری ملازمین کے خلاف قانونی کارروائی کرنی چاہیے جو ایسے برے کاموں میں ملوث ہیں۔ ایڈووکیٹ ثنان نے کہا کہ اس کام کے لئے وہ معاون خصوصی ایمان شاہ کو قانونی خدمات مفت میں ہیش کرتے ہیں ۔

06/06/2024
05/06/2024

گلگت بلتستان میں قومی سلامتی ورکشاپ کا انعقاد

ہیڈکوارٹر ایف سی این اے کے زیر نگرانی تین روزہ نیشنل سیکورٹی ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔ ورکشاپ کے مہمان خصوصی کمانڈر ایف سی این اے میجر جنرل کاشف خلیل ، (ستارہ جرأت) نے اُووپننگ سرمنی میں شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے ان کو خوش آمدید کہا۔
ورکشاپ میں گورنر جی بی، اراکین جی بی اسمبلی ، بیورکریٹس ، سول سوسائٹی ، میڈیا کے نمائندوں اور یونیورسٹی کے طلباء و طالبات کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔
ورکشاپ میں آگاہی کے لیکچرز کے لئے پاکستان بھر سے بلائے گئے معروف سکالرز اور سینئر ٹیکنوکریٹس نے لیکچرز دیئے۔ جنہوں نے اہم قومی سلامتی کے مسائل ، بروقت فیصلہ سازی میں نیشنل سیکورٹی ایشوز، سوشل میڈیا کے مثبت استعمال اور خطے کے مسائل اور ان کے حل کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
ورکشاپ کے شرکاء نے جی بی اسمبلی اور ریگر جگھوں کا دورہ بھی کیا۔
کمانڈر ایف سی این اے میجر جنرل کاشف خلیل ، (ستارہ جرأت)نے ورکشاپ کی اختتامی تقریب سے خطاب کیا اور انتظامیہ کو کامیاب تقریب کے انعقاد پر مبارکباد ری۔
کمانڈر نے شرکاء پر زور دیا کہ ہم اس طرح کے ودکشاپ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں اور اسے عملی زندگی میں استعمال کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ "گلگت بلتستان مواقع کی سرزمین ہے اور ابھرتے ہوئے جغرافیائی سیاسی ماحول کے پیش نظر پوری دنیا کی توجہ گلگت بلتستان پر مرکوز ہے"۔ انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ صرف ہم آہنگی سے ہی چیلنجز سے نمٹا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دور دراز علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی سہولت کے لیے فوج کا آؤٹ ریچ پروگرام گلگت بلتستان میں خوشحالی لانے کی کوششوں میں بھرپور طریقے سے جاری ہے ۔ ورکشاپ کے شرکاء نے انٹرایکٹو سیشن کے دوران صحت، تعلیم اور انفراسٹرکچر کے شعبوں پر مختلف تجاویز دیں۔شرکاء نے پاک فوج کا شکریہ اداکیا چس نے ایک ایسا پلیٹ مارم مہیا کیا جس کی وجہ سے لوگوں کو کھل کہ اپنی بات پہنچانے کا موقع ملا۔
Press Release

Address

#1, Ameer Complex, Near Sadpara Chowk, Zulfiqar Abad
Gilgit

Website

http://worldroofmedia.com/

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Worldroof Media Services posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Worldroof Media Services:

Videos

Share