Daily Fairy Meadow

Daily Fairy Meadow Daily Fairy Meadow is the only bilingual i.e Urdu and English news paper in Gilgit Baltistan, Pakist

12.12.2023
11/12/2023

12.12.2023

اسلام آباد نے 50ویں آئین کی سالگرہ اور تجارتی میلے کے موقع پر #کوئی جواز نہیں 16 روزہ مہم کا اختتام کیا۔اسلام آباد 11دس...
11/12/2023

اسلام آباد نے 50ویں آئین کی سالگرہ اور تجارتی میلے کے موقع پر #کوئی جواز نہیں 16 روزہ مہم کا اختتام کیا۔

اسلام آباد 11دسمبر 2023- دارالحکومت اسلام آباد نے16 روزہ مہم #کوئی جواز نہیں کامیابی کے ساتھ مکمل کر لی ہے، جو کہ قومی کمیشن برائے وقار نسواں، یو این ویمن اور حکومت جاپان کی جانب سے ایک تعاون پر مبنی اقدام ہے۔ اس تاریخی مہم نے نہ صرف خواتین اور بچیوں کے خلاف تشدد کے نازک مسئلے کو حل کیا بلکہ آئین پاکستان کی 50 ویں سالگرہ کے جشن کو بھی مارک کیا، جس سے بنیادی حقوق اور مساوات کے عزم کو تقویت ملی۔
نیلوفر بختیار، نیشنل کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن کی چیئرپرسن نے اپنے استقبالیہ کلمات میں کہا، "جب ہم ان 16 دنوں کی سرگرمی کا اختتام کر رہے ہیں، تو آئیے اپنے آئین کے اصولوں کو تجارتی تحریک کے ساتھ جوڑیں۔ اجتماعی کوششوں اور معاشی تبادلے کے ذریعے، آئیے ایک ایسے پاکستان کی راہ ہموار کریں جہاں پاکستان کے ہر شہری کے لیے مساوات پروان چڑھیں، تشدد ختم ہو، اور خوشحالی آئے "۔
صنفی بنیاد پر تشدد کے خلاف 16 دن کی سرگرمی ایک بین الاقوامی سول سوسائٹی کی زیر قیادت سالانہ مہم ہے۔ یہ 25 نومبر کو خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے عالمی دن سے شروع ہوتی ہے، اور 10 دسمبر، انسانی حقوق کے دن پر ختم ہوتی ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ خواتین کے خلاف تشدد دنیا بھر میں انسانی حقوق کی سب سے بڑی خلاف ورزی ہے۔
سامعین سے خطاب کرتے ہوئے، یو این ویمن پاکستان کی کنٹری نمائندہ شرمیلا رسول نے کہا کہ "ہماری مہم #کوئی جواز نہیں انصاف اور مساوات کے 50 سال کی یاد مناتے ہوئے، پاکستان کے آئین کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہے۔ خواتین اور لڑکیوں میں #کوئی جواز نہیں اور اسٹریٹجک سرمایہ کاری کو اپناتے ہوئے، ہم ہر شہری کے حقوق کی حفاظت کرنے والے آئینی ڈھانچے کو روشن کرتے ہیں۔ ایک ساتھ مل کر، ہم ایک ایسی قوم بناتے ہیں جہاں بہانے ختم ہو جائیں اور معاشی بااختیاریت بغیر کسی رکاوٹ کے سب کے لیے مساوی حقوق کے ساتھ جڑجاے ۔
کلیدی تقریر میں، وفاقی وزیر برائے ثقافت جمال شاہ نے کہا "ہمیں خواتین کے کردار کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ باخبر فیصلہ ساز ہیں۔ ایک معاشرہ تبھی ترقی کر سکتا ہے جب وہ اہم پالیسی فیصلوں میں خواتین کو جگہ فراہم کرے"
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق خلیل جارج نے کہا، "کوئی جواز نہیں ایک اصول سے زیادہ ہے ، یہ ہمارا رہنما ہے۔ ہمارا نقطہ نظر پالیسیوں سے آگے بڑھتا ہے۔ یہ ہمارے روزمرہ کے تانے بانے میں انسانی حقوق کو بُننے کے بارے میں ہے۔ اجتماعی طور پر ہر شہری کے وقار اور حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے، ہم 16 دنوں کے جاری مہم کی اہمیت پر زور دیتے ہیں جو کہ خواتین اور لڑکیوں پر سرمایہ کاری کرنا ہے۔
#کوئی جواز نہیں مہم کا آغاز موہنجو دڑو سے کیا گیا ۔ جس کے بعد کوئٹہ ، پشاور اور اب اسلام آباد میں اختتام پذیر ہوا۔اس اقدام کے پیچھے بنیادی تصور ان شہروں میں تاریخی مقامات کو اورنج کلر کے ساتھ روشن کرنا شامل ہے، اس کے ساتھ خواتین کے معاشی استحکام کی اہمیت پر مبنی اسٹریٹ تھیٹر کی کارکردگی بھی شامل ہے۔ اس تقریب میں گھر پر کام کرنے والے کارکنوں کے تعاون کو اجاگر کرنے کیلئے ایک نمائش کا بھی اہتمام کیا گیاہے جس میں وہ خواتین شامل ہین جنہوں نے اقوام متحدہ کے معاشی بااختیار بنانے کے اقدام کی مدد سے اپنی زندگیاں بدل دیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یے مہم اس سال کی تھیم، "خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کو روکنے کے لیے سرمایہ کاری کریں" کو فعال طور پر فروغ دیتی ہے اور اسکی وکالت کرتی ہے ۔
یہ مہم آئین پاکستان کی 50 ویں سالگرہ کے موقع پر تھی، یہ ایک سنگ میل ہے جو انصاف، مساوات اور انسانی وقار کے اصولوں کو برقرار رکھنے کے لیے قوم کے عزم کو واضح کرتا ہے۔ اس جشن کو مہم میں شامل کرکے، منتظمین نے اس آئینی ڈھانچے پر زور دینے کی کوشش کی جو جنس یا عمر سے قطع نظر ہر شہری کے حقوق کی حمایت کرتا ہے۔
اس کے علاوہ، مہم نے تجارتی میلے کے ساتھ تعاون کیا، ایک ایسا پلیٹ فارم بنایا جہاں کاروبار، تنظیمیں، اور عوام خیالات کے تبادلے، مصنوعات کی نمائش، اور نیٹ ورکس کو مضبوط کرنے کے لیے اکٹھے ہو سکیں۔ تجارتی میلے کے ساتھ مہم کے اس سنگم نے نقطہ نظر کے متحرک تبادلے کو تقویت دی، کمیونٹی کی شمولیت اور مشترکہ ذمہ داری کے احساس کو فروغ دیا۔

نیشنل کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن (این سی ایس ڈبلیو) اور یو این ویمن  کے اشتراک سے  صنفی بنیاد پر تشدد کے  خاتمہ کیلے  11 ...
11/12/2023

نیشنل کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن (این سی ایس ڈبلیو) اور یو این ویمن کے اشتراک سے صنفی بنیاد پر تشدد کے خاتمہ کیلے 11 دسمبر (پیر ) کو عظیم الشان تقریب کا اھتمام کیا جارھا ھے۔ جو کہ 16 روز سرگرمیوں کا حصہ ھوگی۔ رہے ہیں۔ یہ تقریب سلام آباد کے جناح کنونشن سینٹر میں منعقد ھوگی۔ جس کا دورانیہ صبح 10 بجے سے رات 10 بجے مقرر کیا گیا ھے تفصیلات کے مطابق نیشنل کمیشن سٹیٹس ان ویمن اور اقوام متحدہ کے خواتین کی حیثیت سے قومی کمیشن فورسز میں شامل ہونے کے لئے فیلڈ پر مبنی تشدد کے خلاف جنگ کے بعد 16 دن کی سرگرمی کے خلاف فاصلہ شامل ہے. اقوام متحدہ کے خواتین کے ساتھ خواتین کی حیثیت (قومی طور پر)، قومی سطح پر اسلام آباد میں جشن کے کنسلٹنٹ سینٹر پر ایک قومی واقعہ، 2023، 10 بجے سے 10 بجے سے، جنس پر مبنی تشدد کے خلاف جنگ کے 16 دن کے اختتام پر نشان زد کیا گیا ہے. اس سال کی تقریب، تھیم "متحد! خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کو روکنے کے لئے سرمایہ کاری،" ابتدائی، پالیسیوں، اور پروگراموں کو آگے بڑھانے کے لئے اہم ضرورت کو فروغ دیتا ہے جو خواتین کے خلاف تشدد سے متعلق طور پر ایڈریس اور روکنے کی ضرورت ہے. اس مقصد کے ساتھ سیدھ میں، یہ واقعہ خواتین کے تجارتی میلے کو ظاہر کرے گا، گھر پر مبنی کارکنوں اور مختلف خواتین کے کاروباری اداروں کے لئے ایک پلیٹ فارم فراہم کرے گا، جن میں کارپوریٹ، چھوٹے اور درمیانے درجے کے اداروں بھی شامل ہیں. خواتین کی تجارتی میلے صرف ایک نمائش سے زیادہ کام کرتی ہے؛ خواتین کی اقتصادی بااختیار بنانے کو فروغ دینے کی طرف سے یہ ایک اہم قدم ہے. نیٹ ورکنگ، ڈسپلے اور فروخت کے لئے ایک جگہ پیش کرتے ہوئے، ایونٹ کا مقصد خواتین کی متنوع تخلیق اور فروغ دینے کا مقصد ہے، انہیں اقتصادی زمین کی تزئین میں نمایاں طور پر شراکت دینے میں مدد ملتی ہے. اس ایونٹ میں خواتین کے تجارتی میلے میں شامل ہونے والی اقتصادی ترقی میں کھیل کردار ادا کرنے والی اہم کردار ادا کرتا ہے. خواتین کی اقتصادی بااختیارت صرف مساوات کا معاملہ نہیں بلکہ کمیونٹی اور قوموں کی خوشحالی میں ایک اسٹریٹجک سرمایہ کاری ہے. خواتین کے کاروباری اداروں کو اپنی مصنوعات کو ظاہر کرنے اور فروخت کرنے کے مواقع کے ساتھ فراہم کرنے کے ذریعے، اس ایونٹ کو اقتصادی رکاوٹوں کو توڑنے اور زیادہ سے زیادہ جامع اور منصفانہ معاشرے کو فروغ دینے میں مدد ملتی ہے. بااختیار خواتین نے نہ صرف کاروباری ترقی کی ترقی بلکہ معاشرے کے مجموعی طور پر اچھی اور لچکدار میں حصہ لے لی. کنسینس سینٹر، کلب روڈ، اسلام آباد میں، 10 دسمبر، 2023 تک، اپنے کیلنڈروں کو 10 بجے سے 10 بجے تک. آپ کی شرکت صرف حاضری نہیں ہے؛ یہ خواتین کی اقتصادی بااختیارگی کی حمایت کرنے اور صنف پر مبنی تشدد کے خلاف کھڑے ہونے کی عزم ہے. ہم آپ کی موجودگی کے منتظر ہیں، ساتھ ساتھ، ہم ایک اور صرف ایک اور برابر دنیا کے حق میں ایک مستقل بیان کرتے ہیں.

11.12.2023
10/12/2023

11.12.2023

استوری مارخور کا شکار اور ڈالروں کی بارش   تحریر ذاکر حسین استوریحکومت پاکستان کی طرف سے سنہ 1997 میں شروع کیا گیا ہنٹنگ...
08/12/2023

استوری مارخور کا شکار اور ڈالروں کی بارش

تحریر ذاکر حسین استوری

حکومت پاکستان کی طرف سے سنہ 1997 میں شروع کیا گیا ہنٹنگ سکیم کا اصل مقصد ملک میں۔ مارخور کی غیر قانونی شکار کو روکنا نایاب نسل مارخور کو تحفظ دینا اور شکار کی مد میں حاصل کی گئی رقم سے مقامی لوگوں کے ذریعے براہ راست کمیونٹی کو صحت، صاف پانی، تعلیم، سمیت غریب، و مسکین بےسہارا بیواؤں اور مستحق افراد کی مدد کیلئے رقم فراہم کرنا تھا۔مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں کرپشن اوپر سے نیچے نہیں بلکہ نیچے سے اوپر تک جاری و ساری ہے۔
جس کی وجہ سے امیر دن بدن امیر تر اور غریب کی قسمت میں تین وقت کے بجائے ایک وقت کی دال روٹی کا حصول بھی ناممکن ہوکے رہ گیا ہے۔ضلع استور کا پشتنی و تاریخی اعتبار سے مشہور قبائل ڈشکن خوش قسمتی سے دنیا کا نایاب و انوکھا نسل مارخور کا مسکن ہے ۔ڈشکن کے ملحقہ علاقے ڈیچل نالہ اور شلتر نالے میں مختلف نایاب نسل کے جنگلی جانور پائے جاتے ہیں
جن میں مارخور ،برفانی چیتا ، ہرن ، لومڑی ، چکور، و دیگر جانور قابل ذکر ہیں ۔سنہ 2006 میں ڈسٹرکٹ استور گاؤں ڈشکن کے کچھ شخصیات کی طرف سے ایک کمیٹی گلگت میں کنزرویٹو DMT نام سےریجسٹرڈ کرائی گئی۔جو کہ تین رکنی کمیٹی تھی۔اس کمیٹی کے زیر اثر اج تک کل 7 ٹرافی استور مارخور کا شکار کروایئے گے ہیں

جس کے تحت حکومت گلگت بلتستان نے 80%۔ رقم ڈشکن کنزرویٹو کمیٹی کو دی جا چکی ہیں تفصیلات کچھ یوں ہیں 2006 -2007 میں پہلا شکار Mr, Aritiono Morts نامی شکاری جو کہ سپین کا شہر تھا نے اس وقت 32000 ہزار ڈالر کی بولی میں شکار کیا اسوقت ڈالر ریٹ 60روپے تھی اس حساب سے 19 لاکھ 20ہزار روپے بنتے ہیں سنہء2007اور 2008 میں Mr. Fainando نامی سپین کا شہری نے استور مارخور کا 39200 ہزار ڈالر کی بولی دیکر شکار کی جو کہ اسوقت ڈالر ریٹ 60روپے تھا 23لاکھ 25 ہزار روپے سرکار نے ڈشکن کمیٹی کو دی 2008 اور 2009 میں Mr Mokoim King نامی برٹش شہری نے 30,000 ہزار ڈالر کی شکار کھیلی جوکہ پر ڈالر 85 روپے کے حساب سے 30 لاکھ 60 ہزار روپے بنتے ہیں۔ 2010 سے 2016 چھ سالہ عرصہ بغیر کسی شکار کے رہا 2017اور 2018 میں Mr, Huk Bran Adam نامی کنیڈین شہری نے استور مارخور کی 53,400 ہزار ڈالر کی بولی دیکر شکار کی جو کہ پر ڈالر 107 روپے کی حساب سے 73 لاکھ 18 ہزار 800 روپے ڈشکن کی ڈی ایم ٹی کمیٹی کو دئیے گئے30دسمبر 2020 کو Mr,Adward Joseph Hudson نامی امریکی شہری نے استور مارخور کی 61,500 ہزار ڈالر کی بولی دیکر شکار کی جوکہ اسوقت ڈالر 160.75 روپے کی حساب سے 98 لاکھ 75 ہزار 125 روپے بنتے ہیں یہ رقم بھی سرکار اپنا 20% حصہ اٹھاکے 98لاکھ 75 ہزار 125 روپے ڈشکن کی کمیٹی کو بذریعہ چیک ہینڈ اوور کی 2020 اور 2021 میں مسٹر سید مرتضی زیدی نامی پاکستانی شہری نے 10100 ہزار USA.ڈالر کی بولی کے ساتھ شلتر نالے میں شکار کی جوکہ اسوقت ڈالر ریٹ 156 روپے کی حساب سے 15 لاکھ 75 ہزار 600 روپے ڈشکن کمیٹی کو دئے گئے ساتواں شکار ایک ہفتہ پہلے قبائل ڈشکن کا نالہ گاوں شلتر میں استور مارخور کی 2023 کی بولی 1 لاکھ 77000 ڈالر میں شکار کی جوکہ آج کی ڈالر ریٹ 284 روپے کے حساب سے 5کروڑ 26 لاکھ 8000 روپے بنتے ہیں غالباً یہ رقم فلحال پروسیز میں ہوگی کنزرویٹو کمیٹی ڈشکن کو رقم وصول نہیں ہوی مگر رقم اتنی ہی بنتی ہے۔
اب سوال یہ ہے پچھلے 18سال سے تین رکنی کمیٹی کی قیادت میں 2021تک 2کروڑ 61 لاکھ 22 ہزار 525 روپے کی خطیر رقم وصول کی جا چکی ہے مگر دنیا کا نایاب نسل انوکھا بل کھاتے لمبے سینگ والا مشہور ترین مارخور اپنے سینے میں بسائے ہوئے ڈشکن کا نالہ شلتر میں اج بھی پینے کیلئے صاف تو کیا؟ عام پانی بھی میسر نہیں نہ ہی سر درد کا پیناڈول لینے کیلئے کوئی عارضی کیبن نما ڈسپنسری کی سہولت مہیا ہے۔ روڑ یا دیگر سہولیات تو دور کی بات انتہائی ضروریات زندگی کی معمولی بھی کسی قسم کی سہولیت نہیں پھر یہ خطیر رقم 2 کروڑ 61لاکھ 22 ہزار روپے مقامی کیمونٹی کیلے خرچ ہوگا کا ڈونگ کس کھاتے کا رچایا جارہا ہے ۔سیم اسی طرح کی صورتحال ڈشکن کا دوسرا اور تیسرا گاؤں مشکن اور خودکشت کی ہے
ہیٹنگ سکیم کے تحت پورے ڈشکن میں کہیں بھی کوئی سکیم لگی ہو تو اہل علاقے کا کوئی فرد یا شکار کمیٹی کا کوئی ممبر دیکھا دیں عوامی مفاد کے لیے کوئی 1 لاکھ کی سکیم کہیں نہیں لگی یعنی پورے گاؤں میں کسی پروجیکٹ کا ثبوت نہیں ہے ۔ پھر عوامی مفاد کیسا یا کمیونٹی کا 80% حصہ کہاں سے آیا۔ عرصہ دراز سے بطور ایک زمہ داری شہری ہینٹنگ سکیم کی رقم اور انکی عوامی مفاد میں خرچ پر مسلسل سوالات اٹھاتے رہے ہیں ۔۔ نہ سرکاری طور پر کوئی رقم کی شفافیت کا طریقہ کار طے ہے اور نہ ہی کمیٹی کے اندر بھی خود احتسابی عمل کا کوئی نظام ہے ۔۔ ایسے میں کیمونٹی کی جانب سے اٹھایے گیے سوالات کے عجیب و غریب جوابات سننے کو ملتے رہے ہیں۔ DMT کمیٹی کا کہنا ہے ہماری محنت ہمارا پیسہ عام عوام کو من پسند خودساختہ کہانیاں جوڑ کر سنایا جاتا ہے
جس میں خاص بات یہ ہے۔ مفت میں شکار ڈشکن کے حصے میں نہیں آتی 12 لاکھ سیکرٹری کو دئے 10 لاکھ کلرک کھاگیا 8 لاکھ شکاری کو شلتر لانے اور واپس لے جانے میں لگے 5 لاکھ سرینہ ہوٹل کے بل کی مد میں گے 20% سرکار نے اپنا حصہ رکھ لی اور بقیہ رقم تو ہماری محنت کے ہوئے ۔۔ یہ لیلیٰ مجنوں والی کہانیاں ہر ہینٹنگ پروگرام کے بعد روٹین کے ساتھ سنایا جاتا ہے
ایسے میں کامیاب شکار کے بعد لوکل اخبارات میں شکار کی مد میں حاصل ہونے والی رقم کا 80% حصہ عوامی فلاں و بہبود پر خرچ ہونگے کی سرکاری بیانات اور کنزرویٹو کمیٹی کے ممبران کے شادیانے مخص اپنی خوشی کیلے بجا رہے ہیں اہل علاقے کی عوام کو ایک روپے سے کوئی سروکار نہیں بلکہ عوامی اکثریت کی راے میں یہ رقم چند لوگوں کی ذاتی ملکیت تصور کیا جاتا ہے حد تو یہ ہے انہیں تین رکنی کمیٹی کے نام پر ایک برائے نام جوائنٹ بینک اکاؤنٹ ہے رقم کے حوالے سے کسی قسم کی معلومات گاؤں کے کسی بھی فرد کو اج تک معلوم نہیں اس وقت گلگت بلتستان میں ایک نکمے ٹولے کی حکومت ہے ان سے بہتری کی امید یا احتسابی عمل میں بہتری لانے کی اپیل آہ بیل مجھے مارنے کے مترادف ہے
البتہ وفاقی حکومت وزیراعظم پاکستان چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل سید عاصم منیر سے بلخصوص اور چیرمین نیب اور FIA سمیت دیگر تمام تحقیقاتی اداروں سے اپیل ہے زبردستی قابض شدہ گروپ سے 18 سالہ دور کی ایک ایک پائی کا حساب کتاب اور تحقیقات کی جایے ۔۔ جس کیلئے ھم پچھلے 6 سال سے مسلسل کوشش بذریعہ سوشل میڈیا اور اخباری کالمز کے ذریعہ اس بے ضابطگیوں پر احتجاج اور آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ کمیٹی ممبران کی جانب سے کبھی دھمکیاں کبھی ذاتی حملے اور کبھی لڑائی جھگڑے اس بات کی نشاندہی ہے کہ صرف گڑبڑ ہی نہیں بہت ہی زیادہ گڑبڑ ہے یقینا' ھم ہینٹنگ کے خلاف نہیں مگر چند حضرات کی ذاتی ملکیت اور من پسند کی شاہ خرچیوں کا حساب مانگتے ہیں ہمیں امید ہے اعلیٰ حکام بڑے پیمانے پر کرپشن کا نوٹس لیں گے

09.12.2023
08/12/2023

09.12.2023

Chairperson of the National Commission Status on Women Ms. Nilufar Bakhtiar said that the media has a very critical role...
08/12/2023

Chairperson of the National Commission Status on Women Ms. Nilufar Bakhtiar said that the media has a very critical role in efforts to prevent violence against women and create awareness on the issue of early marriage.

ISLAMABAD: Chairperson of the National Commission Status on Women Ms. Nilufar Bakhtiar said that the media has a very critical role in efforts to prevent violence against women and create awareness on the issue of early marriage. Journalists have a critical responsibility to play their full role in highlighting these issues. He expressed these views on Thursday at the launch of the second National Media Fellowship refresher course. He further said that all risk factors need attention in our society. It is especially important to take into account the safety, identity, self-respect and social status of the victim of violence or abuse. He further said that this training program is very close to his heart as he considers it a timely step in the right direction to achieve gender equality and equal rights for women and girls in Pakistan. In his concluding remarks, he further said that child marriage is a deep-rooted serious problem across Pakistan, especially in rural areas, which deprives children of their right to a safe and healthy childhood, quality education, and its harsh economic conditions. There are also effects. He further said that his team is trying in every way to eradicate GBV but it cannot happen without the active and responsible participation and support of the media. (December 7-10) was the first session of the refresher course. which was jointly organized by the National Commission for Women’s Dignity (NCSW), Center for Excellence in Journalism at the Institute of Business Administration (CEJ-IBA), and UNFPA in Islamabad today. NMF is a unique training program that aims to focus and create awareness among journalists on social issues such as gender-based violence (GBV) and child marriage.
For the first time, NCSW along with its supporting institutions launched a media fellowship in 2022 to sensitize and train journalists to report on gender issues in the media. In the first phase of NMF, 37 journalists were trained on this specific topic and produced 2 documentaries on GBV, child marriage and 162 stories on the impact of climate change on women which were nationally known. Also published by media houses.
In the second round of Media Fellowship, a group of forty mid-career journalists from across Pakistan will receive special training. They will be trained and trained on various critical aspects of reporting on these critical issues. Initially, he spoke at CEJ-IBA in September this year on sensitive aspects of GBV and child marriage in Pakistan.
Attended ten days training module. Upon completion, the group will produce more than 180 stories focusing on GBV, girls and women’s rights.
Addressing the orientation session held at NCSW on the first day of the refresher, Chairperson Ms. Nilofar Bakhtiar said that the media has a very critical role in efforts to prevent violence against women and create awareness on the issue of early marriage. . Journalists have a sensitive responsibility when they are reporting or writing about these issues because of the many risk factors in our society, especially the safety, identity, self-esteem and social status of the victim of violence or abuse. It is necessary. He further said that this training program is very close to his heart as he considers it a timely step in the right direction to achieve gender equality and equal rights for women and girls in Pakistan.
In his concluding remarks, he further said that child marriage is a deep-rooted serious problem across Pakistan, especially in rural areas, which deprives children of their right to a safe and healthy childhood, quality education, and its harsh economic conditions. There are also effects. He further said that his team is trying every way to eradicate GBV but it cannot happen without the active and responsible participation and support of the media.

08.12.2023
07/12/2023

08.12.2023

Address

Gilgit Baltistan
Gilgit
11550

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Daily Fairy Meadow posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Daily Fairy Meadow:

Videos

Share