کھلے تھے پھول جو میرے چمن میں کاغذی سے
کچل دیے ہیں ابھی پھر کسی نے بے حسی سے
میں اپنے بخت کو روتے ہوئے کہاں جاؤں
مرے تو خواب بھی لوٹے گئے ہیں بے دلی سے
نگاہِ سوختہ بے ساختہ سی تر ہوئی ہے
ہوا ہے کون بر آمد پرانی روشنی سے
جتن نہ کیجئے پیچیدگی کا آپ کبھی
ہمیشہ مات ہی کھائی ہے میں نے سادگی سے
میں اپنی موت کو دھمکا کے پھر سے آ گیا ہوں
بہت سے کام جو کرنے ہیں مجھ کو ملتوی سے
جہاں میں میں ہوں فقط اور میری تنہائی
مجھے تو خوف ہے بس اپنی بے سپردگی سے
کوئی نہ بن سکا منصؔور بے نیاز یہاں
کوئی بھی بچ نہ سکا ہے اسیرِ بے بسی سے
منصؔور محبوب
06/08/2023
روزنامہ پہچان پاکستان کا ماہانہ ایڈیشن اگست 2023 شائع ہوگیا ہے .
ممتاز شاعر اور دانشور شفیق احمد خان کو جناب فرحت عباس (Farhat Abbas Shah) کی سرپرستی میں تخیل ادبی فورم کی جانب سے بہ دستِ خاکسار لائف ٹائم اچیومینٹ ایوارڈ کی سپردگی کی مفصل رپورٹ۔۔
ممنون بالخصوص جناب یوسف علی یوسف
Yousuf Ali
27/07/2023
سلام یا حسین علیہ السلام
مومن کا ہے سہارا ولایت حسین کی
مردود سے نہ ہوگی اطاعت حسین کی
کرتا ہے جب بھی کوئی بغاوت جو ظلم سے
اس کے لئے بہت ہے امامت حسین کی
تیروں کے سائے ان کی نمازیں ہوئیں ادا
نیزے پہ بھی ہوئی ہے تلاوت حسین کی
کوئی کہے ولی انھیں، کوئی کہے امام
اللّٰہ ہی جانتا ہے حقیقت حسین کی
اے راہِ حق کے راہی، تو کرتا ہے فکر کیوں
غازی کا جب ہے کعبہ، شہادت حسین کی
شیعہ مجھے سمجھ تو یا سنّی سمجھ مجھے
میرا عقیدہ بس ہے، عقیدت حسین کی
منصؔور، چھوڑ دے تو زمانے کی بندگی
کافی ترے لئے ہے، شفاعت حسین کی
07/07/2023
یہ ہے جون ایلیا
عمر گزرے گی امتحان میں کیا
داغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا
میری ہر بات بے اثر ہی رہی
نقص ہے کچھ مرے بیان میں کیا
مجھ کو تو کوئی ٹوکتا بھی نہیں
یہی ہوتا ہے خاندان میں کیا
اپنی محرومیاں چھپاتے ہیں
ہم غریبوں کی آن بان میں کیا
خود کو جانا جدا زمانے سے
آ گیا تھا مرے گمان میں کیا
شام ہی سے دکان دید ہے بند
نہیں نقصان تک دکان میں کیا
اے مرے صبح و شام دل کی شفق
تو نہاتی ہے اب بھی بان میں کیا
بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا
خامشی کہہ رہی ہے کان میں کیا
آ رہا ہے مرے گمان میں کیا
دل کہ آتے ہیں جس کو دھیان بہت
خود بھی آتا ہے اپنے دھیان میں کیا
وہ ملے تو یہ پوچھنا ہے مجھے
اب بھی ہوں میں تری امان میں کیا
یوں جو تکتا ہے آسمان کو تو
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا
ہے نسیم بہار گرد آلود
خاک اڑتی ہے اس مکان میں کیا
یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا
ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا
07/07/2023
انشاءاللہ حاضری ہوگی
24/12/2022
بے دھڑک کھول دیجے دروازہ
موت دستک نہیں دیا کرتی
منصؔور محوب
15/12/2022
احمد ندیم قاسمی صاحب کی زمین میں بیٹے منصور کی ایک غزل ۔۔
Mansoor Mehboob - منصؔور محبوب
چھوڑ دے عشق کو، اب چل خودی کی غاروں میں
غم میسر نہیں اب حسن کے درباروں میں
جن کو عجلت میں اٹھایا تھا تحفظ کے لئے
کھڑکیاں ڈھونڈتا ہوں اب انہی دیواروں میں
وار، ہتھیار، طریقہ، تو بتاتے ہیں یہی
میرا قاتل ہے چھپا، میرے طرف داروں میں
اس لئے ہوتے ہیں سب اہلِ نظر گوشہ نشین
شیخ بک جاتے ہیں تشہیر کے بازاروں میں
کاغذی ٹکڑوں میں ہی آؤ کوئی رنگ بھریں
پھول بے رنگ سے اب کھلتے ہیں گل زاروں میں
حق پرستی کے لئے رب نے تھمائیں تھیں جنھیں
بے گنہ سانسیں پرو لائے وہ تلوراوں میں
مجھ کو جب علم ہوا تو بھی تماشائی ہے
نام لکھوانا پڑا مجھ کو اداکاروں میں
ایک وہ ہے جو ہے مخبر بھی خبر بھی، ہے خبیر
ایک میں ہوں کہ چھپا کرتا ہوں اخباروں میں
سر کٹا کر بھی وہ دستار بچا لیتے ہیں
بس یہی بات ہوا کرتی ہے سرداروں میں
اک ہنرمند کواس کا ہی ہنر چاٹ گیا
لاش فنکار کی پائی گئی فن پاروں میں
سب دل و جان لٹاتے رہے تجھ پر منصؔور
کوئی تو ہم نوا مل جاتا تجھے یاروں میں
Be the first to know and let us send you an email when اردو ادب - Urdu Adab posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.