28/01/2022
اس تصویر کو غور سے دیکھیں اور اس پر غور کریں۔۔۔
ان لاورث اور یتیم گھٹریوں میں معلوم نہیں کتنے ہی غریب نوجوانوں کی امیدیں ہیں۔۔۔ کتنے خاندانوں کےواحد کفیل نوجوانوں کی قابلیت اور صلاحیتوں کا خون ہے۔۔۔ کتنے نوجوانوں کے جذبوں کا بے دردی سے قتلِ عام ہے۔۔۔ان گھٹریوں میں جن نوجوانوں کی درخواستیں اور اسناد ہیں انہوں نے کتنی امید اور یقین سے بھیجی ہوں گی لیکن ان کی درخواستوں اور امیدوں کو جلا کر خاکستر کا دیا جائے گا۔۔۔
اس ملک کے نوجوانوں نے بھی قسم کھا رکھی ہے کہ چاہے کتنے ہی قابل اور باصلاحیت کیوں نہ ہوں کرنی تو نوکری ہی ہے۔۔۔ چاہے کچھ بھی ہوجائے نوکری کے سوا کچھ نہیں سوچنااور جب تک نوکری نہیں ملے گی کچھ اور نہیں کرنا۔۔۔ ایک نوکری کے حصول کے لئے سالوں سال انتظار کیا جاتا ہے سینکڑوں دفاتر میں انٹرویوز دے دے کر اپنی چپلیں گھسا دی جاتی ہیں۔۔۔ ایک کے بعد دوسرے بیسیوں دفتروں کے چکر کاٹ کر بھی سبق حاصل نہیں ہوتا بس ایک ہی دھن سوار ہوتی ہے کہ کرنی ہے تو صرف نوکری ہی کرنی ہے۔۔۔ اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کےمطابق کوئی مشورہ دینے والا اور صحیح راستہ دکھانے والا نہیں ہوتا اور بہت سے نوجوان تو اپنے کام کا مشورہ قبول ہی نہیں کرتے کیوں کہ وہ ان کے سٹیٹس اور معیار کے مطابق نہیں ہوتا۔۔۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے بیسیوں دفتروں کی خاک چھان کر اور اداروں کے چکر کاٹ کاٹ کر تھک جاتے ہیں اور پھر اپنے معیار اور ڈیمانڈسے کہیں کم معاوضے اور تنخواہ والی جگہ پر راضی ہوجاتے ہیں۔۔۔
ان سرکاری اداروں سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کہ جب آپ لوگ نوکریاں دے نہیں سکتے تو پھر اس طرح نوجوانوں کو ذلیل کرنے کی کیا تُک بنتی ہے۔۔۔ ان سے درخواستوں اور فیسوں کی مد میں رقم کیوں اینٹھی جاتی ہے۔۔۔ جب سب کو معلوم ہے کہ ملک میں بیروزگاری کا تناسب زیادہ ہے لاکھوں نوجوان بیروزگاری کی وجہ سے حالات کی چکی میں پس رہے ہیں تو ایسے حالات میں ان کی امیدوں کا خون کیوں کیا جاتا ہے۔۔۔؟؟؟
ہمارے ملک کے وہ ادارے جو آپس کی ملی بھگت سے ہر کچھ دن بعد ویکنسیاں اشو کرتے ہیں لیکن ان کی حقیقت کچھ بھی نہیں ہوتی کیوں کہ ان سیٹوں پر یہ لوگ پہلے سے ہی اپنے قریبی اور چہیتوں کو جگہ دے چکے ہوتے ہیں مزید یہ کہ ان سیٹوں کی باقاعدہ بولیاں لگتی ہیں جس کی سفارش اور رشوت زیادہ ہوتی ہے اسے ہی سیٹ تھما دی جاتی ہے۔۔۔لیکن یہ لوگ باقاعدہ پلاننگ سے اخبارات میں اشتہارات دیتے ہیں اور ویکسنیاں دیتے ہیں ملک بھر سے بیروزگار نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد درخواستیں جمع کرواتے ہیں لیکن کسی کو جگہ نہیں ملتی۔۔۔باقی درخواست کی فیس اور ٹیسٹ کی رقم جو کہ دیکھنے میں تو دو تین سو ہی ہوتی ہے لیکن ملک بھر سے ہزاروں نوجوان بیک وقت درخواستیں بھیجتے ہیں تو وہ سب رقم سب کی ملی بھگت سے ان کی اپنی جیبوں میں ہی جاتی ہے۔۔۔کیوں کہ اس ملک میں بیروزگاری اور غربت سے زیادہ حکمرانوں اور اداروں کےافسرانِ بالا کی من مانیاں اور عیاشیاں زیادہ مقدم ہیں۔۔۔ انہی غریبوں کا خون چوس کر یہ عیاشیاں کرتے ہیں اورانہی غریبوں کو سنہرے خواب دکھا کر لوٹا جاتا ہے۔۔۔ ہر جگہ یہی غریب پستا ہے اور کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔۔۔
کاش کہ اس ملک کا کوئی مضبوط نظام اور ترتیب ہوتی اس ملک کے حکمران جو وعدہ کرتے وہ نبھانے والے بھی ہوتے۔۔۔ اداروںمیں رشوت اور سفارش کے بجائے قابلیت اور صلاحیت کی مانگ ہوتی اور اسی کے دَم پر آگے لایا جاتا ۔۔۔ لیکن نہیںپورا کا پورا نظام ہی ملی بھگت سے چل رہا ہے ۔۔۔ اور اس نظام کی چکی میں ہمیشہ سے غریب ہی پستا آیا ہے۔۔۔ غریب کو امید دلائی جاتی ہے اسے یقین دلایا جاتا ہے اور ہر بار کوئی چہرہ مسیحا بن کر آتا ہےاور غریبوں کا ہی خون چوستا ہے۔۔۔
اللہ رب العزت ہم سب کے ساتھ عافیت والا معاملہ فرمائے اور ہمارے حال پر رحم فرمائے اور تمام ضرورت مندوں کی امیدوں کو پورا فرمائے آمین۔۔۔