Media Lens

Media Lens Challenging mainstream narratives, promoting independent journalism and critical analysis.

اسلام آباد - سنو لیپرڈ فاؤنڈیشن نے پہاڑوں کے عالمی دن کے موقع پر عالمی برادری کے ساتھ مل کر پہاڑی ماحولیاتی نظام کے تحفظ...
10/12/2024

اسلام آباد - سنو لیپرڈ فاؤنڈیشن نے پہاڑوں کے عالمی دن کے موقع پر عالمی برادری کے ساتھ مل کر پہاڑی ماحولیاتی نظام کے تحفظ اور ان پر انحصار کرنے والی مقامی آبادیوں کی زندگیوں میں بہتری لانے اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے اپنے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اس سال کا موضوع "پائیدار مستقبل کے لیے پہاڑی حل - جدت، موافقت، اور نوجوانوں کی شمولیت" ہے جو کہ سنو لیپرڈ فاؤنڈیشن کے مشن سے ہم آہنگ ہے جس کے تحت پہاڑی علاقوں میں آبادلوگوں کو تحفظ، تعلیم، بہتر ماحول کی فراہمی اور پائیدار ترقی کے ذریعے بااختیار بناتا ہے۔

ایشیا کے عظیم پہاڑی علاقے، جن میں ہمالیہ، قراقرم، ہندوکش، اور پامیر کے سلسلے شامل ہیں، اہم ماحولیاتی نظام ہیں جنہیں زمین کا "تیسرا قطب" کہا جاتا ہے۔ یہ علاقے موسمیاتی تبدیلیوں کے شدید اثرات سے دوچار ہیں، جن میں عالمی اوسط سے دوگنی تیز رفتاری سے گرمی بڑھ رہی ہے۔ پگھلتے ہوئے گلیشیئرز لاکھوں افراد کی تازہ پانی کی ضروریات کو خطرے میں ڈال رہے ہیں، جبکہ جنگلات کی کٹائی، شہری توسیع، اور وسائل کا بے جا استعمال ان خطوں میں بسنے والی برادریوں اور جنگلی حیات پر دباؤ بڑھا رہے ہیں۔ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو اور نوویں بلند ترین چوٹی نانگا پربت سمیت آٹھ ہزار میٹر سے بلند چودہ اولین چوٹیوں میں سے پانچ پاکستان میں ہیں۔عالمی دن منانے کا مقصد پہاڑوں کا قدرتی حسن برقرار رکھنے کے لیے اقداماتاٹھانا اور شعور اجاگرکرنا ہے۔

اپنے خصوصی پیغام میں، ڈاکٹر محمد علی نواز، ڈائریکٹر ایس ایل ایف نے پہاڑوں کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ پہاڑ زمین کے لیے زندگی کی علامت ہیں۔ یہ تازہ پانی کی فراہمی اور کاربن کو ذخیرہ کرنے جیسی اہم ماحولیاتی خدمات فراہم کرتے ہیں جو اربوں انسانوں کی بقا کے لیے ناگزیر ہیں۔اس موحولیاتی نظام کا تحفظ نہ صرف برفانی چیتے جیسے خطرے سے دوچار جانوروں کے لیے بلکہ عالمی موسمیاتی استحکام کے لیے بھی اہم ہے۔

ڈاکٹر جعفرالدین، ڈپٹی ڈائریکٹر ایس ایل ایف نے برفانی چیتے کو پہاڑی ماحولیاتی نظام کی بقا کی علامت قرار دیتے ہوئے کہاکہ برفانی چیتا نہ صرف قدرتی حسن کی حیثیت رکھتا ہےبلکہ یہ پہاڑی ماحول پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا ایک اہم اشارہ بھی ہے۔ اس کی بقا کے لیے ہمیں جدیدیت، مقامی آبادیوں کی شمولیت، اور نوجوانوں کے فعال کردار پر مبنی اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔

سنو لیپرڈ فاؤنڈیشن کا کام گلگت بلتستان، خیبر پختونخوا، اور آزاد جموں و کشمیر کے پہاڑی علاقوں میں روزگار کی بہتری، صلاحیتوں کی تعمیر، کمیونٹی پر مبنی تحفظ، تعلیم و آگاہی، اور موسمیاتی موافقت پر مرکوز ہے۔ یہ اقدامات ان خطوں کو درپیش منفرد چیلنجز کو حل کرتے ہوئے مقامی آبادیوں کو ایک پائیدار مستقبل کی تعمیر میں معاونت فراہم کرتے ہیں۔

ایس ایل ایف جدت کے ذریعے پہاڑی ماحولیاتی نظام کو درپیش چیلنجز کا حل پیش کرنے پر یقین رکھتا ہے۔ ڈیجیٹل مانیٹرنگ ٹیکنالوجیز سے لے کر موسمیاتی حالات کے مطابق زرعی طریقوں تک، جدیدیت ان مسائل کے مؤثر حل میں مدد دیتی ہے۔ ساتھ ہی، پہاڑی برادریوں کے روایتی علم کو پائیدار حکمت عملیوں کی تشکیل میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔

سنو لیپرڈ فاؤنڈیشن نوجوانوں کو متحرک کرنے پر بھی توجہ دیتی ہے، اس یقین کے ساتھ کہ وہ مثبت تبدیلی لانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ تعلیم، قیادت، اور کاروباری صلاحیتوں کو فروغ دے کر ایس ایل ایف نوجوان نسل کو تحفظ اور ترقی کی کوششوں میں حصہ لینے کی ترغیب دیتا ہے۔

اس سال پہاڑوں کے عالمی دن کے موقع پرایس ایل ایف تمام لوگوں کو دعوت دیتا ہے کہ وہ پہاڑی ماحولیاتی نظام کے تحفظ اور ان پر انحصار کرنے والی کمیونٹیز کی بہتری کے لیے تعاون کریں۔ جدت، موافقت، اور نوجوانوں کی شمولیت کے ذریعے ہم پہاڑوں اور ان کے باسیوں کے لیے ایک زیادہ مستحکم اور پائیدار مستقبل تخلیق کر سکتے ہیں۔

10/12/2024

اسلام آباد-وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف سے بذریعہ خط اوربذریعہ ملاقات گلگت بلتستان کے انتہائی اہم مسائل کی نشاندہی اورانھیں حل کرنے کے لئے اقدامات واحکامات جاری کرنے کی درخواست کی تھی جس پر وزیر اعظم پاکستان نے وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب کی سربراہی میں اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی تھی وزیراعظم پاکستان کی جانب سے مسائل کے حل کرنے کے لئے حتمی سفارشات پیش کرنے کا مینڈیٹ خصوصی کمیٹی کودیا گیا ہے اس کمیٹی کا تیسرا اہم اجلاس وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی سربراہی میں منعقد ہوا اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حاجی گلبر خان نے کہا کہ گلگت بلتستان کیلئے وفاق کی جانب سے 100فیصد مقامی گندم فراہم کرنے کا ای سی سی میں فیصلہ ہوا تھا جس پرعملدرآمد اور گندم کے بروقت اجراء کیلئے پاسکو کو ہدایات جاری کی جائیں۔ حکومت گلگت بلتستان کو محدود وسائل کی وجہ سے عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے میں مشکلات درپیش ہیں جس کی وجہ سے صوبائی حکومت اور عوام کو مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ گلگت بلتستان کو دیگر صوبوں کی طرز پر این ایف سی ایوارڈ میں حصہ نہیں ملتا لہذا حکومت گلگت بلتستان اور وفاقی وزارت خزانہ آذاد کشمیر طرز پرایک مالی معاہدہ طے کرے تاکہ گلگت بلتستان کے عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے لئے ہمیں مالی مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ گلگت بلتستان میں سخت موسمی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ترقیاتی بجٹ فنڈز کے اجراء کے عمل کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے چالیس فیصد اورساٹھ فیصد کے فارمولے پر لایا جائے تاکہ ترقیاتی منصوبوں پر میں کام جاری رکھا جا سکےاور بروقت تکمیل کو یقینی بنایا جا سکے وزیر اعلی۱ نے مذید کہا کہ صوبائی حکومت کی اس وقت اولین ترجیح عوا م کو درپیش اعصاب شکن لوڈشیڈنگ سے نجات دلانا ہے اس وقت بھی گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں اٹھارہ سے بیس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے جس کی وجہ سے عوام ذہنی اذیت کا شکار ہیں اور معاملات زندگی اور کاروبار بھی بری طرح متاثر ہو رہے ہیں اس ضمن میں وزیراعظم پاکستان کی جانب سے حالیہ اعلان کردہ توانائی کے 100میگاواٹ سولر منصوبے کو جلد عملی جامعہ پہنانےکی ضرورت ہے اور پی ایس ڈی پی کے تحت جاری توانائی کے منصوبوں پرجلد کام شروع کرنے اور جاری منصوبوں کے حوالے سے واپڈا اور دیگر متعلقہ اداروں کو فنڈز کے اجراء کے لئے ہدایات جاری کی جایئں تاکہ ان منصوبوں کی تکمیل سے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا مستقل حل نکالا جاسکےوزیراعلی۱ نے مذید کہا پی ایس ڈی پی کے تحت منظور ہونے والے بڑے توانائی کے منصوبوں پر واپڈا نے ابھی تک کام شروع نہیں کیا اس بابت خصوصی توجہ کی ضرورت ہے ۔ وزیر اعلیٰ نے اس موقع پر مذید کہا کہ عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی اور امن وامان کی صورتحال کو یقینی بنانے کیلئے وفاقی وزارت خزانہ کوانتہائی ضروری لگ بھگ 3000 آسامیوں کی تخلیق کی سفارش کی گئی ہیں ان آسامیوں کی جلد تخلیق کو یقینی بنایا جائے، گلگت بلتستان میں بیشتر سکول ،ہسپتال اور دیگر سرکاری عمارات تیار ہیں مگر ابھی تک ان منصوبوں کا پی سی فورمنظور نہیں جس کی وجہ سے یہ منصوبےعوام کو فائدہ نہیں دے پا رہے لہٰذا پی سی فورز کی منظوری کو یقینی بنایا جائے تاکہ صرف شدہ فنڈزبھی ضائع نہ ہوں وزیر اعلیٰ نے کہا کہ گلگت بلتستان کا جغرافیہ دیگر صوبوں سے بالکل مختلف ہے لہٰذا گلگت بلتستان میں گڈ گورننس اور بہترسروس ڈیلوری کو یقینی بنانے کیلئے بنائے گئے نئے چار اضلاع کو فعال بنانا انتہائی لازمی ہے جس کیلئے صوبائی حکومت کو وفاق کی مدد درکار ہے لہذا اس اہم مسلے کے حل کو بھی یقینی بنانے کے لئے ہماری دی گئیں سفارشات پر عمل کیا جائے ۔ اس موقع پر وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان انجینئر امیر مقام نے کہاکہ وزیر اعظم پاکستان کے دورہ گلگت بلتستان کے موقع پر کئے گئے اعلانات پر عملی جامعہ پہنانے کے لئے وفاقی حکومت صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر عملی اقدامات کر رہی ہے ملک کے تمام صوبوں کیلئے مقامی اور درآمد شدہ گندم کی فراہمی کے حوالے سے ایک فارمولا طے ہے لیکن گلگت بلتستان کیلئے ای سی سی کے فیصلے کا جائزہ لے کر کوشش کی جائے گی کہ مقامی گندم گلگت بلتستان کو فراہم کی جائے۔ گلگت بلتستان اور وفاق کے مابین کشمیر طرز کے معاہدے کا بھی جائزہ لیاجائے گا۔ اس موقع پر گلگت بلتستان میں تعمیر و ترقی کے عمل کو تیز کرنے کیلئے ترقیاتی بجٹ کے فنڈزکے اجراء کو یقینی بنایا جائے گا۔ گلگت بلتستان میں بجلی کے بحران کے حل کیلئے خصوصی کوآرڈینشن کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو واپڈا اورفیڈرل پی ایس ڈی پی کے تحت شروع ہونے والے اور جاری توانائی کے منصوبوں کا ہر ماہ جائزہ لے گی اور ایک مربوط سسٹم قائم کیا جائے گا وفاقی وزیر خزانہ اور وفاقی امور کشمیر و گلگت بلتستان نے اجلاس میں یقین دہانی کرائی کہ وزیر اعلی۱ گلگت بلتستان کی جانب سے پیش کی گئی سفارشات گلگت بلتستان کے عوام کو درپیش مسائل کی عکاسی ہیں انھیں حل کرنے کے لئے عملی اور فوری اقدامات کئے جایئں گے۔وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب کی سبراہی میں ہونے والے اس اجلاس میں وزیر اعلی۱ گلگت بلتستان حاجی گلبرخان ، وفاقی وزیر امور کشمیروگلگت بلتستان انجینئرامیرمقام کے علاوہ صوبائی وزراء انجینئر محمد اسماعیل ، انجینئر محمد انور، سابق وزیر اعلی جی بی حافظ حفیظ الرحمان، وفاقی سیکریٹری کے اینڈ جی بی ، چیف سیکریٹری جی بی ، فنانس سیکریٹری جی بی اور دیگر اعلی۱ افسران شریک ہوئے جبکہ بذریعہ ویڈیو لنک بورڈ آف انوسمنٹ جی بی کے چیرمین فتح اللہ خان بھی اجلاس میں شریک رہے۔

از قلم اشفاق احمد ایڈوکیٹ مہذب دنیا میں قومی ریاستیں ایک آئین کے تحت اپنے شہریوں کو کچھ اہم حقوق مہیا کرتی ہیں جنھیں بنی...
10/12/2024

از قلم اشفاق احمد ایڈوکیٹ

مہذب دنیا میں قومی ریاستیں ایک آئین کے تحت اپنے شہریوں کو کچھ اہم حقوق مہیا کرتی ہیں جنھیں بنیادی انسانی حقوق کہا جاتا ہے اور ہر ریاست ان حقوق کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے جو وہ برقرار رکھتی ہے بقول مشہور سیاسی مفکر لاسکی کسی بھی ملک کے آئین سے بنیادی انسانی حقوق کا پتہ چلتا ہے چونکہ آئین بنیادی طور پر انسانی حقوق کا ضامن ہوتا ہے۔
انسانی حقوق کی تاریخ کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ سب سے قبل پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ نے انسانی حقوق کو تحفظ دیا تھا اور یہ فرمایا تھا کہ کسی عربی کو عجمی، کالے کو گورے پر کوئی برتری نہیں۔
بعد ازاں میگنا کارٹا میں بھی انسانوں کے حقوق کو تحفظ دیا گیا پھر ورجینیا ڈیکلیریشن آف رائٹس 1776 میں انسانی حقوق کو تسلیم کیا گیا تھا اس لئے اس ”اقرار نامہ“ کو دنیا میں بنیادی حقوق کا پہلا جمہوری دستوریت کے دستاویز کی ایک عمدہ مثال کہا جاتا ہے جس میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ تمام بنی نوع انسان پیدائشی طور پر برابری کے حامل ہیں جنہیں ان کے خالق نے کچھ مخصوص حقوق سے نوازا ہے جن میں زندہ رہنے کا حق، آزادی کا حق اور خوشی کی تلاش کا حق شامل ہے ”۔
زمانہ قدیم میں بنیادی حقوق کا مطالبہ شہروں سے شروع ہوا یہ مڈل ایجرز کا زمانہ تھا جب یورپ میں کاروبار اور انڈسٹریز نے ترقی پائی علم اور ہنر کی اہمیت بڑھتی گئی اور لوگوں نے اپنے بنیادی حقوق کا مطالبہ کرنا شروع کیا تعلیم اور شعور کے ساتھ بنیادی حقوق کے حصول کی جدوجہد شروع ہوتی ہے۔
چنانچہ ان بنیادی انسانی حقوق کو یقینی بنانے کے لیے لوگوں نے خود حکومتیں قائم کیں اور اپنی منشاء سے اپنے اوپر انصاف کے مطابق حکومت کرنے کا حق عوامی نمائندوں کو دیا جس سے عام الفاظ میں معاہدہ عمرانی کہا جاتا ہے۔
امریکن بل آف رائیٹس دس ترامیم پر مشتمل ہے جو بنیادی حقوق سے متعلق ہیں اس کے بعد 1789 میں فرانس میں انسان کے حقوق کا اعلامیہ اہمیت کا حامل ہے اسی طرح جرمنی میں 1848 میں انقلاب کے بعد شہریوں کے بنیادی حقوق کا اعلان کیا گیا۔
اٹھارہویں صدی کے دوسرے حصے میں برطانیہ کے عوام میں نیچرل رائیٹس کی بابت بات چیت شروع ہوئی جس سے امریکہ اور فرانس کے انقلابی دور سے تشبیہ دی جاتی ہے۔
جنگ عظیم اول سے قبل ریاست اپنے ریاستی دائرہ اختیار کے اندر جو مرضی اپنے شہریوں کے ساتھ سلوک کرے بین الاقوامی کمیونٹی زیادہ پوچھ گچھ نہیں کرتی تھی چونکہ ریاست کی اقتدار اعلیٰ تقریباً مقدس سمجھی جاتی تھی مگر پہلی جنگ عظیم کے بعد ساری دنیا میں پرامن ترقی اور خوشحالی کے قیام کے لیے انسانی حقوق کو یقینی بنانا لازمی قرار دیا گیا اور لیگ آف نیشنز اور انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن نے بنیادی حقوق پر قانون سازی پر زور دیا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ کا قیام عمل میں لایا گیا اور ریاستوں کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے اصول کو تسلیم کیا گیا مگر اس کے ساتھ اقوام متحدہ کے چارٹر میں انسانی حقوق کی بابت 7 حوالہ جات بھی دیے گئے اور بین الاقوامی سطح پر بنیادی انسانی حقوق کے لیے قانون سازی شروع ہوئی جس کی ایک اہم وجہ عالمی جنگ کے درمیان رونما ہونے والے ہولوکاسٹ کا تجربہ اور جنگ کی ہولناکی تھی جس نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا اور انسانی حقوق کو پامال کیا گیا تھا۔ چنانچہ انیسویں صدی کا دوسرا حصہ اور بیسویں صدی کی شروعات میں دنیا کے بیشتر ممالک نے اپنے دساتیر میں انسانوں کے بنیادی حقوق کو تسلیم کیا۔
ان تمام ممالک کو اس بات کا احساس تھا کہ اگر وہ بنیادی حقوق کی آئین میں ضمانت نہیں دیتی ہیں تو اسی صورت میں شہریوں کے حقوق کو یقینی بنانا ممکن نہیں، نہ ہی بنیادی حقوق کی عدم موجودگی میں انسانی شخصیت کی تعمیر اور تکمیل ممکن ہو سکتی ہے۔
اس لئے 10 دسمبر 1948 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومین رائٹس پاس کیا جس کے ساتھ انٹرنیشنل کاویننٹ آن سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس اور میثاق برائے اکنامک، سوشل اینڈ کلچرل رائٹس مل کر انٹرنیشنل بل آف ہیومین رائٹس کی تشکیل کرتے ہیں جن کے تحت اقوام متحدہ کے ممبر ممالک نے انسانی حقوق پر ایک قانونی معاہدے کے تحت بنیادی انسانی حقوق کو تسلیم کیا ہے اور ان میں بنیادی انسانی حقوق کے علاوہ سول حقوق، سیاسی حقوق، اکنامک حقوق، سوشل اور کلچرل حقوق بھی شامل ہیں۔
آج دنیا میں انسانی حقوق پر 9 اہم بین الاقوامی معاہدے موجود ہیں جو انسانی حقوق کے تحفظ اور فراہمی کے لیے اہم کردار ادا کرتے ہیں اور دنیا کے اکثریتی ممالک نے ان معاہدوں پر دستخط کیے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور عدم فراہمی پر جوابدہ ہیں۔
حکومت پاکستان نے بھی 23 جون 2010 کو International Covenant on Civil and Political Rights کی توثیق کی ہے جبکہ سترہ اپریل 2008 میں International Covenant on Economic ,Social, and Cultural Rights کی توثیق کی ہے ؛ اس طرح 12 مارچ 1996 کو Convention on the Elimination of All Forms of Discrimination against Women
پر دستخط کیا ہے جبکہ 21 دسمبر 1966 کو ایک اور بین الاقوامی معاہدے کی توثیق کی ہے جس سے International Convention on the Elimination of All Forms of Racial Discrimination کہتے ہیں ان کے علاوہ 20 نومبر 1990 میں بچوں کے حقوق کے حوالے سے Convention on rights of the child کی بھی توثیق کی ہے۔ جبکہ 23 جون 2010 کو
Convention against Torture and other Cruel, Inhuman and Degrading Treatment or Punishment کی بھی توثیق کی ہے اور اس کے علاوہ 5 جولائی 2011 کو
Convention on the Rights of Persons With Disabilities . کی بھی توثیق کی ہے۔
حکومت پاکستان نے بہت سارے بین الاقوامی دستاویزات پر دستخط کیے ہیں جو معاشرے کے کمزور گروہوں کو تحفظ مہیا کرتے ہیں جن میں خواتین، بچے، اقلیتیں، افراد باہم معذوری شامل ہیں۔ لیکن ان تمام بین الاقوامی دستاویزات اور معاہدوں کی توثیق کرنے کے باوجود بھی وفاق پاکستان کے زیر انتظام گلگت بلتستان کے بیس لاکھ عوام کو تاحال بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے جو کہ لمحہ فکریہ ہے۔
مثلاً گزشتہ 75 سالوں سے گلگت بلتستان میں بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے کوئی آئین موجود نہیں ہے اس لئے ایک صدارتی حکم نامہ کے تحت گلگت بلتستان کے بیس لاکھ عوام کی زندگیوں کے فیصلے کیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا ممکن نہیں ہے۔
دنیا کے جمہوری ممالک میں آئین کے مطابق ریاستی ادارے مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنے امور سر انجام دیتے ہیں مگر گلگت بلتستان دنیا کا واحد خطہ ہے جہاں ریاست کے ان اہم تین ستونوں کے اختیارات کی تقسیم اور چیک اینڈ بیلنس کا تصور ابھی تک قابل اطلاق نہیں ہے کیونکہ اس اہم اسٹرٹیجک خطہ کے معاملات کسی آئین کے تحت نہیں بلکہ ایک صدارتی حکم نامہ کے تحت چلائے جا رہے ہیں جس کے تحت عوامی منتخب نمائندوں کے پاس اس صدارتی آرڈر میں ترمیم کا اختیار بھی نہیں۔
چنانچہ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے تعین اور اس خطے میں صدیوں سے آباد عوام کے بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان میں دائر مشہور مقدمہ الجاد ٹرسٹ بنام فیڈریشن آف پاکستان کا فیصلہ سناتے ہوئے سال 1999 میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے فیصلہ میں لکھا تھا کہ ”یہ بات سمجھ نہ آنے والی ہے کہ کن بنیادوں پر شمالی علاقہ جات ( گلگت بلتستان ) کے لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق دینے سے انکار کیا جاتا ہے جن حقوق کی ضمانت آئین دیتا ہے۔
سپریم کورٹ نے اس فیصلہ میں لکھا ہے کہ بنیادی حقوق کی دو اقسام ہیں پہلی قسم کے حقوق میں شخصی حقوق شامل ہیں دوسری قسم کے حقوق ملک کے شہریوں کے متعلق ہوتے ہیں۔
آئین پاکستان 1973 کے تحت آرٹیکل نمبر 9، 10، 11، 12، 13، 14، 21، 22، 24 یہ وہ آرٹیکلز ہیں جو شہری اور غیر شہری کے درمیان تفریق نہیں کرتے ہیں بلکہ یہ آرٹیکلز شخص کی بات کرتے ہیں جبکہ حقوق کی دوسری قسم جو کہ صرف ملک کے شہریوں سے متعلق ہیں جن میں آئین کے آرٹیکل نمبر 15 تا 20 اور آرٹیکل 23، و 25 شامل ہیں۔
سپریم کورٹ نے اس فیصلہ کے پیراگراف نمبر 14 میں لکھا ہے کہ یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ ناردرن ایریاز ( گلگت بلتستان ) میں ریاست کے ادارے بحیثیت De-facto Executive, De-facto legislature De-facto judiciary کام کرتے ہیں اس لیے ان اداروں کے اقدامات قانوناً درست ہیں۔ چونکہ اس کیس میں دلیل یہ دی گئی کہ ان علاقوں یعنی گلگت بلتستان پر
Doctrine Of De-Facto Administration لاگو ہوتا ہے۔ اور پاکستان نے گلگت بلتستان پر موثر طریقے سے کنٹرول جاری رکھا ہوا ہے اور بحیثیت فرمانروا کام کر رہا ہے اور یہ علاقہ پاکستان کے زیر انتظام ہے اور پاکستان کے زیادہ تر قوانین ناردرن ایریاز (گلگت بلتستان) میں لاگو ہیں بشمول سٹیزن شپ ایکٹ آف پاکستان اس لیے ناردرن ایریاز کے لوگ پاکستان کے دیگر شہریوں کی طرح بنیادی حقوق مانگ سکتے ہیں اور ساتھ ہی وہ ٹیکس ادا کرنے اور دیگر محصولات مکمل طور پر لاگو ہو تو ادا کرنے کے پابند ہیں۔
سپریم کورٹ نے اس فیصلہ میں لکھا ہے کہ ہم یہ بھی مشاہدہ کرتے ہیں یہاں تک کہ یونیورسل ڈیکلیریشن آف ہیومن رائٹس جس کا پاکستان Signatory ہے اس کے تحت بھی انسانوں کی نسل، حیثیت اور ماخذ کے بنا ہی انسانوں کے کچھ بنیادی حقوق ہوتے ہیں۔ جس بارے میں آرٹیکل تا 10 اور 13، 15 و 21 کے بابت یونیورسل ڈیکلریشن کا حوالہ دیا جاسکتا ہے اور پاکستان کے آئین میں درج بنیادی حقوق یونیورسل ڈیکلیریشن میں درج مندرجہ بالا حقوق کی عکاسی کرتے ہیں، جو کہ انٹرنیشنل کنونشن آف سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس، یورپین کنونشن برائے انسانی حقوق اور امریکی کنونشن برائے انسانی حقوق کے مطابق ہیں۔
سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ کسی ملک میں بنیادی حقوق کو صرف اس وقت معطل کیا جاتا ہے جب بیرونی جارحیت اور بیرونی خطرے کے پیش نظر ایمرجنسی نافذ کی گئی ہو۔ یا قومی جنگ میں کامیابی کو یقینی بنانے کے لازمی ہو تاکہ لوٹ مار اور غلامی سے بچایا جا سکے، یہاں تک کہ اس کے حصول کے لئے افراد کی آزادیوں اور شہریوں کے دیگر حقوق کو قربان کیا جاسکتا ہے ایسی صورتحال کے متعلق ایک لاطینی محاورہ ہے when there is an armed conflict، the law remain silent۔ مگر گلگت بلتستان میں ایسی کوئی صورت حال نہیں ہے لیکن اس کے باوجود یہ بات سمجھ نہیں آتی ہے کہ گلگت بلتستان کے حقوق کیوں معطل کر دیا گیا ہے؟
حالانکہ یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس کے مندرجہ بالا آرٹیکلز اور موجودہ مقدمے میں بہت مطابقت ہے اور اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ریاست جموں وکشمیر کے بارے میں فیصلہ اقوام متحدہ کی نگرانی اور تحفظ میں بذریعہ استصواب رائے ہونی ہے اور اقوام متحدہ نے ہی یونیورسل ڈیکلیریشن آف ہیومین رائٹس کی سرپرستی کی ہے۔
اس لیے یہ بات طے ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کا حق ہے کہ وہ پاکستان کے دوسرے شہریوں کی طرح آئین پاکستان میں درج بنیادی حقوق کا مطالبہ کریں چونکہ انصاف تک رسائی بنیادی حقوق میں شامل ہے۔ اور یہ حق ایک آزاد عدلیہ کی غیرموجودگی میں جاری نہیں رکھا جاسکتا ہے۔
آئین کے تحت جمہوریت کے بنیادی اہم ترین رہنما اصول آزادی، مساوات، برابری، صبر، عدل اور سماجی انصاف جنھیں اسلام نے واضح طور پر بیان کیا ہے جن پر مکمل طور پر عمل کیا جائے۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 2 A اور 17 کے تحت گلگت بلتستان کے لوگ اپنے علاقے پر حکومت کرنے کے حقدار ہیں اور ایک آزاد عدلیہ کے ذریعے اپنے بنیادی حقوق کو لاگو کرنے کے حقدار ہیں۔
لیکن سپریم کورٹ آف پاکستان کے 1999 کے فیصلے کے باوجود بھی تاحال گلگت بلتستان اسمبلی کے منتخب نمائندوں کو اپنے شہریوں کے لیے آئین سازی کا اختیار حاصل نہیں ہے۔
لیکن اس فیصلے پر گذشتہ 23 سالوں سے عمل درآمد نہیں ہو سکا۔
تو ایک مرتبہ پھر سے 17 جنوری 2019 کو چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 7 رکنی بنچ نے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت پر دائرہ کیس سول ایوی ایشن اتھارٹی بنام سپریم اپیلیٹ کورٹ گلگت بلتستان وغیرہ میں فیصلہ دیا کہ گلگت بلتستان کے عوام کو تمام تر بنیادی انسانی حقوق فراہم کیے جائیں اور وفاق پاکستان کو حکم دیا کہ ایک نیا صدارتی حکم نامہ آرڈر 2019 کو پندرہ دنوں کے اندر گلگت بلتستان میں لاگو کریں مگر ایک بار پھر وفاق پاکستان نے سپریم کورٹ اف پاکستان کے حکم پر تاحال عملدرآمد نہیں کیا ہے اور آرڈر 2018 کو گلگت بلتستان میں بدستور نافذ رکھا ہے جس کے تحت بطور چیرمین گلگت بلتستان کونسل تمام تر اختیارات وزیراعظم پاکستان کو حاصل ہیں۔
تلخ سچ تو یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام پر لاگو کیے گئے تمام تر صدارتی حکم نامے خواہ 2009 کا حکم نامہ ہو یا آرڈر 2018 ان حکم ناموں کے بنانے میں بھی گلگت بلتستان کے منتخب نمائندوں کی کوئی منشا اور رائے شامل نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے منتخب نمائندوں کے پاس آرڈر 2018 میں ترمیم کا بھی اختیار نہیں ہے۔
گلگت بلتستان کے سپریم اپیلیٹ کورٹ اور چیف کورٹ میں گلگت بلتستان آرڈر 2018 کی Validity کو چیلنج نہیں جاسکتا ہے نہ ہی گلگت بلتستان کی اعلی عدلیہ کے پاس جوڈیشل ریویو کا اختیار ہے۔
پاکستان کے برعکس گلگت بلتستان کی اعلی عدلیہ میں ججز کی تقرری بھی جوڈیشل کمیشن کی بجائے ایگزیکٹیو اتھارٹی کے تحت وزیراعظم پاکستان کرتا ہے حالانکہ سپریم کورٹ نے اپنے 1999 کے فیصلہ میں صاف الفاظ میں لکھا ہے کہ آزاد عدلیہ جو غیر جانبدار، منصفانہ اور Adjudicatory frame work و انصاف اور عدل پر مبنی ہونی چاہیے یعنی ایک جوڈیشل درجہ بندی موجود ہو۔ عدالتیں اور ٹربیونلز جنھیں افراد اور ایگزیکٹیو کے ذریعے چلائی جاتی ہو مشکل سے ہی کہا جاسکتا ہے کہ عدلیہ آزاد ہے ”۔
اس کے علاوہ پاکستان کے 4 صوبوں اور وفاق پاکستان کے زیر انتظام ریاست آزاد جموں و کشمیر کے برعکس گلگت بلتستان کے عوام کو حق ملکیت اور حق حاکمیت بھی حاصل نہیں ہے نہ ہی آئینی تحفظ حاصل ہے۔
چنانچہ بلتستان اسمبلی کے لیڈر آف دی اپوزیشن امجد حسین ایڈووکیٹ نے گلگت بلتستان میں حق ملکیت اور حق حاکمیت کے نام سے خالصہ سرکار ارضیات کے خلاف ایک تحریک بھی چلائی تھی لیکن یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکا۔ بقول امجد حسین ایڈووکیٹ انہوں نے حق ملکیت بل گلگت بلتستان اسمبلی میں جمع کروایا ہے لیکن اس پر پیش رفت ہونے نہیں دیا گیا۔
گلگت بلتستان کی اس تلخ صورتحال پر پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ گلگت بلتستان کے نوجوانوں کی آنکھوں میں غصہ دیکھا ہے وہ برملا کہتے ہیں کہ ریاست نے ان کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔
بقول سینیٹر فرحت اللہ بابر گلگت بلتستان میں 18 ویں ترمیم کا نفاذ اس لئے نہیں کیا جاتا ہے کیونکہ اس سے گلگت بلتستان کے عوام کو حقوق ملتے ہیں۔
آزاد کشمیر کے برعکس گلگت بلتستان میں بعض ایسے قوانین کا اطلاق کیا گیا ہے جو عوام کے حقوق کے خلاف ہیں مثلاً گلگت بلتستان میں شیڈول 4 اور ATA کا قانون لاگو ہیں لیکن آزاد کشمیر میں اس طرح کا کوئی قانون لاگو نہیں۔
اس طرح گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق کو تحفظ دینے والے قانون سٹیٹ سبجیکٹ رول کو 1978 سے معطل کر دیا گیا ہے جبکہ آزاد کشمیر میں سٹیٹ سبجیکٹ رول برقرار ہے۔
اس طرح عوام کے حقوق کے خلاف قانون خالصہ سرکار جو پنجاب کے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور کا نوآبادیاتی کالا قانون ہے جس کے ذریعے گلگت بلتستان میں عوامی اراضیات کو خالصہ سرکار قرار دیا گیا ہے اور اس مسئلہ پر عوام مسلسل سراپا احتجاج ہیں لیکن بدقسمتی کوئی شنوائی نہیں ہو رہی ہے البتہ زمینوں پر قبضوں کی ویڈیوز وقتاً فوقتاً منظر عام پر آ رہی ہیں۔
درحقیقت گلگت بلتستان میں اندر ہی اندر ایک لاوا پک رہا ہے جو کسی روز پھٹ سکتا ہے لیکن اس مسئلہ کو بروقت حل کرنے کی بجائے عوام کے بنیادی حقوق کے لئے آواز بلند کرنے والے سیاسی کارکنوں کو شیڈول فور میں ڈالا جاتا ہے۔
اس وقت قوم پرست رہنما انجنیئر منظور پروانہ، مذہبی رہنما آغا علی، سماجی کارکن یاور عباس، سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ حسنین رمل کے علاوہ دیگر سیاسی و سماجی کارکن شیڈول فور کا شکار ہیں۔ حالانکہ شیڈول 4 کا قانون بنیادی طور پر کالعدم تنظیموں کے ممبران اور دہشت گردوں کے لئے بنایا گیا ہے۔
اس کے علاوہ MPO اور تعزیرات پاکستان کے دفعات کے تحت سیاسی کارکنوں کو بغاوت کے مقدمات میں بھی نامزد کیا جاتا ہے، جو انتہائی پریشان کن صورتحال ہے۔
گلگت بلتستان اسمبلی کے رکن غلام شہزاد آغا بھی انسداد دہشتگردی ایکٹ 1997 کے تحت گزشتہ چار سالوں سے شیڈول 4 کا شکار ہیں۔ شہزاد آغا کا کہنا ہے کہ ایک سال قبل گلگت بلتستان اسمبلی کے 8 th سیشن میں گلگت بلتستان اسمبلی کے سپیکر امجد زیدی نے رولنگ دیا تھا کہ رکن اسمبلی کو فوری طور پر 4 th شیڈول سے نکالا جائے۔ مگر انتظامیہ نے گلگت بلتستان اسمبلی کے سپیکر کی رولنگ کو نظرانداز کیا اور ان کا نام تاحال شیڈول 4 میں موجود ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ گلگت بلتستان کی اسمبلی کتنی با اختیار ہے؟
حالانکہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 2 A میں واضح طور بیان کیا گیا ہے کہ ریاست عوام کے منتخب نمایندوں کے ذریعے اپنے پاور اور اتھارٹی کو استعمال کرتی ہے لیکن گلگت بلتستان میں نظام اس کے برعکس چل رہا ہے۔
بقول مشہور فلسفی ژاں ژاک روسو ”انسان آزاد پیدا ہوا ہے مگر جدھر دیکھو وہ پایہ زنجیر ہے“۔ ان الفاظ کے ساتھ روسو اپنی کتاب معاہدہ عمرانی ”شروع کرتا ہے۔ روسو نے بلاشبہ انسانی آزادی، مساوات، حکومت جمہوریہ کو انسان کا حق ثابت کیا ہے اور ان کا ماننا ہے کہ معاہدہ عمرانی کے رو سے تمام شہری برابر ہیں اور قدرتاً ہر شخص آزاد پیدا ہوا ہے اس لیے یہ کہنا کہ غلام کی اولاد غلام ہوتی ہے گویا اس کے انسان ہونے کے وجود سے انکار کرنا ہے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ریاست انسانوں کے حقوق تخلیق نہیں کرتی ہے بلکہ حقوق کو تسلیم کرتی ہے مگر گلگت بلتستان کے عوام کے ان بنیادی حقوق کو تاحال تسلیم نہیں کیا گیا ہے جس کی وجہ سے بنیادی انسانی حقوق کو تحفظ حاصل نہیں اس لیے عام طور پر گلگت بلتستان سر زمین بے آئین کہلاتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ وفاق پاکستان نے گلگت بلتستان کا انتظامی کنٹرول معاہدہ کراچی 28 اپریل 1949 کے تحت حکومت آزاد کشمیر سے حاصل کیا ہے اور اس بابت گلگت بلتستان کے عوام کی مرضی و منشاء پوچھنے کی ضرورت تک محسوس نہیں کی گئی تب سے آج تک گلگت بلتستان میں بنیادی انسانی حقوق کو تحفظ حاصل نہیں ہے
لہذا اب وقت کا تقاضا ہے گلگت بلتستان کے عوام کی محرومیوں کا ازالہ کیا جائے اور جس طرح معاہدہ کراچی کے تحت ریاست آزاد جموں وکشمیر کو ایک آئینی نظام کے تحت بنیادی جمہوری حقوق اور قومی تشخص دیا گیا ہے اس بنیاد پر تا تصفیہ مسئلہ کشمیر آئین پاکستان کے آرٹیکل 257 اور اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 80 کی روشنی میں گلگت بلتستان کے عوام کو بھی آزاد جموں و کشمیر کی طرح بذریعہ لوکل اتھارٹی حکومت قائم کرنے کا اختیار دیا جائے اور ایک عمرانی معاہدہ کے تحت گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق و فرائض کا تعین کیا جائے تاکہ گلگت بلتستان میں تیزی سے ابھرتی ہوئی سماجی اجنبیت کا خاتمہ ہو اور 75 سالہ محرومیوں کا بروقت مداوا ہو سکے چونکہ موجودہ معروضی حالات میں دن بدن ریاست اور عوام کے درمیان خلا بڑھتا جا رہا ہے جس کا مداوا بعد ازاں ممکن نہیں ہے۔

‏آئی ایس پی آر12 اگست 2024ء کو پاکستان آرمی ایکٹ کی متعلقہ دفعات کے تحت لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف فیلڈ جنرل...
10/12/2024

‏آئی ایس پی آر

12 اگست 2024ء کو پاکستان آرمی ایکٹ کی متعلقہ دفعات کے تحت لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کی گئی، آئی ایس پی آر

فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے اگلے مرحلے میں لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو باضابطہ طور پر چارج شیٹ کردیا گیا ہے، آئی ایس پی آر

ان چارجز میں سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا، آفیشل سکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزیاں کرتے ہُوئے ریاست کے تحفظ اور مفاد کو نقصان پہنچانا، اختیارات اور سرکاری وسائل کا غلط استعمال اور افراد کو ناجائز نقصان پہنچنانا شامل ہیں، آئی ایس پی آر

فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے عمل کے دوران ملک میں انتشار اور بدامنی سے متعلق پرتشدد واقعات میں لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے ملوث ہونے سے متعلق علیحدہ تفتیش بھی کی جا رہی ہے، آئی ایس پی آر

ان پرتشدد اور بدامنی کے متعدد واقعات میں 9 مئی سے جڑے واقعات بھی شامل تفتیش ہیں، آئی ایس پی آر

ان متعدد پرتشدد واقعات میں مذموم سیاسی عناصر کی ایماء اور ملی بھگت بھی شامل تفتیش ہے، آئی ایس پی آر

فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے عمل کے دوران لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو قانون کے مطابق تمام قانونی حقوق فراہم کیے جا رہے ہیں، آئی ایس پی آر

10/12/2024

CHITRAL : An 11-year-old Kashmir Markhor was hunted on Sunday by American hunter Ronald Joe Whitton for a staggering $271,000 (Rs. 75 million). This historic bid is the highest-ever permit price in Pakistan’s trophy hunting history.

According to Divisional Forest Officer Chitral Wildlife Division, Farooq Nabi, Whitton secured the permit during an open auction conducted by the Khyber Pakhtunkhwa government in October. The hunt took place in the Toshi-Shasha community-managed game reserve.

Whitton used an automatic rifle to hunt the Markhor, which boasted horns measuring 49.5 inches. “This achievement underscores the success of local conservation initiatives and the global appeal of Pakistan’s unique wildlife,” Nabi remarked.

Wildlife officials confirmed that 80% of the permit fee was directed to the local community, managed by the Village Conservation Committee, and invested in collective welfare projects. This approach rewards the community for its role in conserving the endangered species.

They further noted that another hunt at the same price is planned soon, with a third scheduled for March next year at a reduced price of $231,000.

Trophy hunting in Pakistan began in 1999 after a decision made at a 1997 international conference on endangered species trade. Initially, six permits for Markhor hunting were issued annually, later increased to 12.

10/12/2024

گلگت بلتستان میں سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی گرم ملبوسات کا استعمال شروع ہو گیا ہے۔ لیکن مہنگائی کے باعث گرم کپڑوں کی خریداری عوام کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔
دیکھتے ہیں میڈیا لینز کی رپورٹ
کیمرہ مین نعمان انصار
۔
۔
۔


10/12/2024

چلاس: شاہراہ قراقرم دوسرے روز بھی بند، متاثرین دیامر بھاشا ڈیم کا احتجاج جاری

چلاس: متاثرین دیامر بھاشا ڈیم کا شاہراہ قراقرم پر احتجاجی دھرنا دوسرے روز میں داخل ہوگیا۔ مظاہرین گزشتہ 24 گھنٹوں سے اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے شاہراہ قراقرم ہر قسم کے ٹریفک کے لیے بند ہے۔

ٹریفک کی صورتحال:
احتجاج کے باعث مسجد اقصیٰ کے سامنے شاہراہ بند کر دی گئی ہے، جس کے دونوں اطراف گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ چکی ہیں۔ باب چلاس اور زیرو پوائنٹ کے مقامات پر بھی گاڑیوں کا رش ہے، جبکہ سینکڑوں گاڑیوں میں ہزاروں مسافر، بشمول خواتین، بچوں اور بیمار افراد، پھنسے ہوئے ہیں۔

احتجاج کے مطالبات:
متاثرین دیامر بھاشا ڈیم نے 21 نکات پر مشتمل چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا ہے، جن میں چولہ پیکج کی ادائیگی، معاہدوں پر عمل درآمد، زرعی زمین اور پلاٹوں کی حوالگی، مہنگائی کے تناسب سے پیکج، مفت بجلی کی فراہمی، اور ملازمتوں میں کوٹہ مختص کرنا شامل ہیں۔

مذاکرات کی ناکامی:
انتظامیہ اور واپڈا حکام کے ساتھ مذاکرات دو بار ناکام ہو چکے ہیں۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ جب تک ان کے مطالبات پورے نہیں کیے جاتے، احتجاج جاری رہے گا۔

مسافروں کا مطالبہ:
مسافروں نے حکام سے اپیل کی ہے کہ متاثرین کے مسائل فوری حل کیے جائیں تاکہ شاہراہ کی بندش ختم ہو اور عوام کو مشکلات سے نجات ملے۔

واپڈا پر تنقید:
متاثرین نے واپڈا پر حقوق دینے کے بجائے حق تلفی کا الزام عائد کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے جائز مطالبات کے لیے سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہوئے ہیں۔

احتجاجی صورتحال کے باعث مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے، اور شاہراہ قراقرم کی بندش سے ملک کی اہم ترین گزرگاہ معطل ہو کر رہ گئی ہے۔
۔
۔

گلگت بلتستان کی خوبصورت وادی استور سے تعلق رکھنے والے نعیم اللہ ولد عبد الجمیل نے پاکستان آرمی کے زیر اہتمام اسلام آباد ...
10/12/2024

گلگت بلتستان کی خوبصورت وادی استور سے تعلق رکھنے والے نعیم اللہ ولد عبد الجمیل نے پاکستان آرمی کے زیر اہتمام اسلام آباد میں منعقدہ نیشنل روئنگ مقابلے میں گولڈ میڈل جیت لیا۔

جمیل احمد اور فتح اللہ کے حفیظ الرحمن پر لگائے الزامات سیاسی بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہیں پیپلز پارٹی کے پاس غواڑی پاور پروجیکٹ...
09/12/2024

جمیل احمد اور فتح اللہ کے حفیظ الرحمن پر لگائے الزامات سیاسی بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہیں پیپلز پارٹی کے پاس غواڑی پاور پروجیکٹ کے مالیاتی سکینڈل کے حقائق کا کوئی جواب نہیں بورڈ آف انوسمنٹ کی چئیر مین کی پوسٹ سیاسی نہیں ٹیکنیکل ہے۔ لاکھوں تنخواہ اور مراعات کی پوسٹ صرف نوازی گئی ہے۔ پیپلز پارٹی کا آئندہ گلگت بلتستان میں حکومت بنانے کے جعلی بیانئے کے نیچے مالیاتی سکینڈل گھوم رہے ہیں غواڑی پاور پروجیکٹ سکینڈل پہلا قطرہ ہے۔ مسلم لیگ ن فرقہ پرستی اور فرقہ وارانہ سوچ پر بھی لعنت بھیجتی ہے۔ مسلم لیگ ن حفیظ الرحمن کی قیادت میں متحد اگلے الیکشن میں کارکردگی کی بنیاد پر میدان اتریں گیں.

فاروق میر
سیکرٹری اطلاعات مسلم لیگ ن گلگت بلتستان

09/12/2024

فتح اللہ خان کی پریس کانفرنس کہا "قاری حفیظ" بورڈ آف انوسمنٹ چیرمین کے امیدوار تھے

09/12/2024

گلگت: گلگت بلتستان اسمبلی کے رکن جمیل احمد نے سابق وزیر اعلیٰ حفیظ الرحمن پر سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے پریس کانفرنس سے خطاب کیا ۔

راولپنڈی: معروف قانونی شخصیت اور ہیومن رائٹس کونسل آف پاکستان کے ایوار کے لئے نامزد ایڈووکیٹ احسان علی کو رہا کر دیا گیا...
09/12/2024

راولپنڈی: معروف قانونی شخصیت اور ہیومن رائٹس کونسل آف پاکستان کے ایوار کے لئے نامزد ایڈووکیٹ احسان علی کو رہا کر دیا گیا۔

ایڈووکیٹ احسان علی ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے سفر کر رہے تھے جب راولپنڈی میں انہیں ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتاری کے بعد، ہیومن رائٹس کونسل آف پاکستان اور گلگت بلتستان ہیومن رائٹس کونسل کے وکلاء فوری طور پر تھانے پہنچے تاکہ ان کی رہائی یقینی بنائی جا سکے۔

وکلاء نے کہا ان کی رہائی انسانی حقوق کے علمبرداروں اور وکلاء کے لیے ایک اہم کامیابی ہے۔
۔
۔

چلاس: گلگت بلتستان کے ضلع دیامر کے صدر مقام چلاس میں مظاہرین نے شاہراہ قراقرم کو بند کر دیا، جس سے ٹریفک کی روانی شدید م...
09/12/2024

چلاس: گلگت بلتستان کے ضلع دیامر کے صدر مقام چلاس میں مظاہرین نے شاہراہ قراقرم کو بند کر دیا، جس سے ٹریفک کی روانی شدید متاثر ہوئی۔

چلاس پولیس نے میڈیا لینز کو بتایا کہ حکومت اور مظاہرین کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات آج دن بھر جاری رہے، لیکن کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ اپنی تمام تر مطالبات کی منظوری تک سڑک بند رکھیں گے۔

اس سے دو دن قبل کوہستان کے پتن میں مظاہرین نے احتجاج کے بعد قراقرم ہائی وے کو بلاک کردیا تھا جس سے مسافروں کو شدید مشکلات پیش آئیں تھیں۔ مذاکرات کے بعد راستہ کھولا گیا تھا۔

حکام تنازعے کے جلد از جلد حل کی کوششوں میں مصروف ہیں، کیونکہ اس بندش سے مقامی آبادی اور مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
۔
۔


Address

Street 1, Ameer Complex, Sadpara Chowk, Naveed Shaheed Road, Zulfiqar Abad Gilgit, Gilgit Baltistan
Gilgit
15100

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Media Lens posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Media Lens:

Share


Other Media/News Companies in Gilgit

Show All