Voice of Makran

Voice of Makran مکران ءِ توار

13/10/2022

ڈاکٹر مالک (نیشنل پارٹی) کے دور حکومت میں ہونے والی بے ضابطگیوں کے حوالے سے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے اہم انکشافات۔
یہ سب دیکھ کر مکران کے عوام خود فیصلہ کریں کہ کیا نیشنل پارٹی واقعی عوام دوست اور قوم دوست جماعت ہے؟
یہ جماعت شروع دن سے اپنا کام کروانے کے لیے بلیک میلنگ اور پروپیگنڈے میں مصروف رہی ہے۔
آج بھی نیشنل پارٹی کے اعلیٰ عہدیداران اپنے غیر قانونی کام کروانے کے لیے تربت یونیورسٹی انتظامیہ کو بلیک میل کر رہی اور پروپیگنڈہ کر رہی ہے۔

نیشنل پارٹی اور اسکی طلبہ تنظیم بی ایس او پجار تربت یونیورسٹی کی انتظامیہ کے خلاف کیوں؟ تربت یونیورسٹی کی بنیاد 2012 میں...
12/10/2022

نیشنل پارٹی اور اسکی طلبہ تنظیم بی ایس او پجار تربت یونیورسٹی کی انتظامیہ کے خلاف کیوں؟

تربت یونیورسٹی کی بنیاد 2012 میں رکھی گئی۔ اگلے سال 2013 میں اسکا پہلا وائس چانسلر تعینات کیا گیا۔ اس وقت کے نیشنل پارٹی گورنمنٹ نے سرکاری سرپرستی میں بی ایس او پجار کو تربت یونیورسٹی میں پروان چڑھایا اور یونیورسٹی کے ملازمتیں اور یونیورسٹی پروجیکٹ کے ٹھیکے پارٹی کارکن اور ورکروں میں تقسیم کئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ نیشنل پارٹی کے سفارشی بنیادوں پر لگائے گئے ملازمین کی سرپرستی میں بی ایس او پجار تربت یونیورسٹی میں پنپنے لگا۔ آہستہ آہستہ نیشنل پارٹی کی طلبہ تنظیم نے یونیورسٹی کے انتظامی معاملات میں دخل اندازی شروع کی۔ یونیورسٹی کے ہاسٹل میں کمروں کی الاٹ منٹ سے لے کر کینٹین/میس کی کنٹریکٹ کے معاملات تک، سب میں براہ راست بی ایس او پجار کی عمل دخل ہوتی رہی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس طلبہ تنظیم کی انتظامی امور میں مداخلت بڑھتی چلی گئی۔ ایک ایسا وقت بھی آیا کہ طلبہ تنظیم کے عہدیداروں نے یونیورسٹی ڈویلپمینٹ پروجیکٹ میں چھوٹی موٹی ٹھکیداری شروع کی۔ یونیورسٹی کے پروکیورمنٹ سیکشن سے بھی اپنا حصہ نکالتے گئے۔ اس دوران نیشنل پارٹی کی قیادت بی ایس او پجار کی ہر جائز ناجائز عمل کی سرپرستی کرتے رہے، بلکہ نیشنل پارٹی کے بزرگ رہنما بی ایس او پجار کے کارکنان کو تعلیمی اداروں میں مداخلت کی ترغیب بھی دیتے رہے۔ جب پچھلے سال 2021 میں نئے وائس چانسلر کی تعیناتی عمل میں لائی گئی تو نیشنل پارٹی اور بی ایس او کی قیادت نے نے نئے وائس چانسلر کے سامنے 10 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کی جو درج ذیل ہیں:
1- یونیورسٹی کے (Phase 2 ) کے ٹھیکوں میں پارٹی ٹھکیداروں کو نوازنا اور (Phase 1) میں انکی کرپشن کے معاملات کو دبانا۔
2- یونیورسٹی کے رجسٹرار کی پوزیشن پر نیشنل پارٹی کے لیڈر ناظم الدین کے بھانجے اور سابق ڈی سی کیچ ممتاز بلوچ کو تعینات کرنا۔
3- یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر کی پوزیشن پر نیشنل پارٹی کے ضلعی لیڈر مشکور انور کے کزن بالاچ رشید کو تعینات کرنا۔
4۔ یونیورسٹی کے کنٹرولر امتحانات کی پوزیشن پر نیشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹر مالک کے کزن شاہد خالد کو تعینات کرنا۔ یاد رہے کہ شاہد خالد ڈاکٹر مالک کے دور حکومت میں بغیر ٹیسٹ انٹرویو کے ڈاریکٹ اسسٹنٹ کنٹرولر امتحانات (BPS-17) لگائے گئے تھے۔
5- یونیورسٹی کے ڈاریکٹر مالیات کی پوزیشن پر مشکور انور کے کزن عبدی خان کو تعینات کیا جائے۔ جناب عبدی خان بھی ڈاکٹر مالک کے دور حکومت میں بغیر ٹیسٹ انٹرویو کے ڈاریکٹ اسسٹنٹ ڈاریکٹر مالیات (BPS-17) لگائے گئے تھے۔
6۔ یونیورسٹی کے پروکیورمنٹ ڈاریکٹر کی پوزیشن پر جناب غوث بخش کو تعینات کیا جائے جسے ڈاکٹر مالک کے دور حکومت میں ڈپیوٹیشن کے زریعے بلوچستان یونیورسٹی سے لایا گیا تھا۔ غوث بخش بلوچستان یونیورسٹی کے بوٹنی ڈیپارٹمنٹ میں جونیئر ریسرچ فیلو (BPS-16) تھے۔
7۔ یونیورسٹی کے ایکسئین کی پوزیشن پر نیشنل پارٹی کے سینئر رہنما ابل حسن کے بیٹے انجینئر شاہی کو تعینات کیا جائے۔ انجینئر شاہی بھی ڈاکٹر مالک کے دور حکومت میں بغیر ٹیسٹ انٹرویو کے ڈاریکٹ اسسٹنٹ انجئنیر لگائے گئے تھے۔
8۔ یونیورسٹی کے پروجیکٹ ڈاریکٹر انجینئر منظور بلوچ کو ریٹائرمنٹ کے بعد مزید 3 سال کا کنٹریکٹ دیا جائے۔
9۔ ڈاکٹر مالک کے دور حکومت میں نیشنل پارٹی سے وابستہ 30 کے قریب کنٹریکٹ اور ڈیلی ویجز ملازمین کو مستقل کیا جائے۔
10۔ اور بی ایس او پجار کے کچھ فارغ التحصیل کارکنان (بوہیر صالح، عابد عمر اور نوید تاج) کو یونیورسٹی کے انتظامی پوسٹوں پر ایڈجسٹ کیا جائے۔
لیکن موجودہ وائس چانسلر نے نیشنل پارٹی کے 10 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر قابل اور ایماندار افسران پر مشتمل انتظامی ٹیم بنا کر تربت یونیورسٹی کو نیشنل پارٹی اور بی ایس او پجار سے پاک کرنے کی صفائی مہم کا آغاز کیا جو اب پایہ تکمیل کے قریب ہے۔
ضلع کیچ اور مکران کے غیور عوام، سول سوسائٹی، دیگر سیاسی پارٹیاں اور پڑھا لکھا طبقہ خود فیصلہ کرے کہ نیشنل پارٹی اور بی ایس او پجار کی تربت یونیورسٹی کی انتظامیہ کے خلاف حالیہ پروپیگنڈہ کے اصل مقاصد کیا ہیں۔

نیشنل پارٹی کے نائب صدر اور سینٹر میر طاہر بیزنجو خضدار انجینئرنگ یونیورسٹی میں ایک جونئیر پرو وائس چانسلر کی تعیناتی پر...
12/10/2022

نیشنل پارٹی کے نائب صدر اور سینٹر میر طاہر بیزنجو خضدار انجینئرنگ یونیورسٹی میں ایک جونئیر پرو وائس چانسلر کی تعیناتی پر خاموش کیوں؟

بڑے احترام کے ساتھ کل آپ نے سینٹ میں تربت یونیورسٹی کی انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا لیکن خضدار انجینئرنگ یونیورسٹی میں سیاسی بنیادوں پر آپکا اپنا فیملی ممبر (داماد) پرو وائس چانسلر کی سیٹ پر براجمان ہے۔ اس پر آپکی اور نیشنل پارٹی کی خاموشی سوالیہ نشان ہے۔

نیشنل پارٹی اور اسکی طلبہ تنظیم بی ایس او پجار تربت یونیورسٹی کی انتظامیہ کے خلاف کیوں؟ تربت یونیورسٹی کی بنیاد 2012 میں...
07/10/2022

نیشنل پارٹی اور اسکی طلبہ تنظیم بی ایس او پجار تربت یونیورسٹی کی انتظامیہ کے خلاف کیوں؟

تربت یونیورسٹی کی بنیاد 2012 میں رکھی گئی۔ اگلے سال 2013 میں اسکا پہلا وائس چانسلر تعینات کیا گیا۔ اس وقت کے نیشنل پارٹی گورنمنٹ نے سرکاری سرپرستی میں بی ایس او پجار کو تربت یونیورسٹی میں پروان چڑھایا اور یونیورسٹی کے ملازمتیں اور یونیورسٹی پروجیکٹ کے ٹھیکے پارٹی کارکن اور ورکروں میں تقسیم کئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ نیشنل پارٹی کے سفارشی بنیادوں پر لگائے گئے ملازمین کی سرپرستی میں بی ایس او پجار تربت یونیورسٹی میں پنپنے لگا۔ آہستہ آہستہ نیشنل پارٹی کی طلبہ تنظیم نے یونیورسٹی کے انتظامی معاملات میں دخل اندازی شروع کی۔ یونیورسٹی کے ہاسٹل میں کمروں کی الاٹ منٹ سے لے کر کینٹین/میس کی کنٹریکٹ کے معاملات تک، سب میں براہ راست بی ایس او پجار کی عمل دخل ہوتی رہی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس طلبہ تنظیم کی انتظامی امور میں مداخلت بڑھتی چلی گئی۔ ایک ایسا وقت بھی آیا کہ طلبہ تنظیم کے عہدیداروں نے یونیورسٹی ڈویلپمینٹ پروجیکٹ میں چھوٹی موٹی ٹھکیداری شروع کی۔ یونیورسٹی کے پروکیورمنٹ سیکشن سے بھی اپنا حصہ نکالتے گئے۔ اس دوران نیشنل پارٹی کی قیادت بی ایس او پجار کی ہر جائز ناجائز عمل کی سرپرستی کرتے رہے، بلکہ نیشنل پارٹی کے بزرگ رہنما بی ایس او پجار کے کارکنان کو تعلیمی اداروں میں مداخلت کی ترغیب بھی دیتے رہے۔ جب پچھلے سال 2021 میں نئے وائس چانسلر کی تعیناتی عمل میں لائی گئی تو نیشنل پارٹی اور بی ایس او پجار کی قیادت نے نئے وائس چانسلر کے سامنے 10 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کی جو درج ذیل ہیں:
1- یونیورسٹی کے (Phase 2 ) کے ٹھیکوں میں پارٹی ٹھکیداروں کو نوازنا اور (Phase 1) میں انکی کرپشن کے معاملات کو دبانا۔
2- یونیورسٹی کے رجسٹرار کی پوزیشن پر نیشنل پارٹی کے لیڈر ناظم الدین کے بھانجے اور سابق ڈی سی کیچ ممتاز بلوچ کو تعینات کرنا۔
3- یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر کی پوزیشن پر نیشنل پارٹی کے ضلعی لیڈر مشکور انور کے کزن بالاچ رشید کو تعینات کرنا۔
4۔ یونیورسٹی کے کنٹرولر امتحانات کی پوزیشن پر نیشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹر مالک کے کزن شاہد خالد کو تعینات کرنا۔ یاد رہے کہ شاہد خالد ڈاکٹر مالک کے دور حکومت میں بغیر ٹیسٹ انٹرویو کے ڈاریکٹ اسسٹنٹ کنٹرولر امتحانات (BPS-17) لگائے گئے تھے۔
5- یونیورسٹی کے ڈاریکٹر مالیات کی پوزیشن پر مشکور انور کے کزن عبدی خان کو تعینات کیا جائے۔ جناب عبدی خان بھی ڈاکٹر مالک کے دور حکومت میں بغیر ٹیسٹ انٹرویو کے ڈاریکٹ اسسٹنٹ ڈاریکٹر مالیات (BPS-17) لگائے گئے تھے۔
6۔ یونیورسٹی کے پروکیورمنٹ ڈاریکٹر کی پوزیشن پر جناب غوث بخش کو تعینات کیا جائے جسے ڈاکٹر مالک کے دور حکومت میں ڈپیوٹیشن کے زریعے بلوچستان یونیورسٹی سے لایا گیا تھا۔ غوث بخش بلوچستان یونیورسٹی کے بوٹنی ڈیپارٹمنٹ میں جونیئر ریسرچ فیلو (BPS-16) تھے۔
7۔ یونیورسٹی کے ایکسئین کی پوزیشن پر نیشنل پارٹی کے سینئر رہنما ابل حسن کے بیٹے انجینئر شاہی کو تعینات کیا جائے۔ انجینئر شاہی بھی ڈاکٹر مالک کے دور حکومت میں بغیر ٹیسٹ انٹرویو کے ڈاریکٹ اسسٹنٹ انجئنیر(BPS-17) لگائے گئے تھے۔
8۔ یونیورسٹی کے پروجیکٹ ڈاریکٹر انجینئر منظور بلوچ کو ریٹائرمنٹ کے بعد مزید 3 سال کا کنٹریکٹ دیا جائے۔
9۔ ڈاکٹر مالک کے دور حکومت میں نیشنل پارٹی سے وابستہ 30 کے قریب کنٹریکٹ اور ڈیلی ویجز ملازمین کو مستقل کیا جائے۔
10۔ اور بی ایس او پجار کے کچھ فارغ التحصیل کارکنان (بوہیر صالح، عابد عمر اور نوید تاج) کو یونیورسٹی کے انتظامی پوسٹوں پر ایڈجسٹ کیا جائے۔
لیکن موجودہ وائس چانسلر نے نیشنل پارٹی کے 10 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر قابل اور ایماندار افسران پر مشتمل انتظامی ٹیم بنا کر تربت یونیورسٹی کو نیشنل پارٹی اور بی ایس او پجار سے پاک کرنے کی صفائی مہم کا آغاز کیا جو اب پایہ تکمیل کے قریب ہے۔
ضلع کیچ اور مکران کے غیور عوام، سول سوسائٹی، دیگر سیاسی پارٹیاں اور پڑھا لکھا طبقہ خود فیصلہ کرے کہ نیشنل پارٹی اور بی ایس او پجار کی تربت یونیورسٹی کی انتظامیہ کے خلاف حالیہ پروپیگنڈہ کے اصل مقاصد کیا ہیں۔

* بلوچستان یونیورسٹی بمقابلہ تربت یونیورسٹی *پشتونخواملی عوامی پارٹی نے جس طرح بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ کو قبضہ کیا ہے، ...
05/10/2022

* بلوچستان یونیورسٹی بمقابلہ تربت یونیورسٹی *

پشتونخواملی عوامی پارٹی نے جس طرح بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ کو قبضہ کیا ہے، اسی طرز عمل سے ایک قوم پرست پارٹی تربت یونیورسٹی پر قبضہ جمانے کی کوشش کر رہا ہے۔
بلوچستان میں ہر ذی شعور بندے کو معلوم ہے کہ بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ ایک لسانی پارٹی پشتونخواملی عوامی پارٹی کے زیر اثر ہے جس سے صوبے کی سب سے پرانی اور بڑی یونیورسٹی زبوں حالی کا شکار ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی کے سیاسی بنیادوں اور غیر قانونی بھرتی شدہ ملازمین کی تعداد 2000 سے ذائد ہے جس سے یونیورسٹی شدید مالی اور انتظامی مسائل کا شکار ہے۔
دوسری طرف ایک نام نہاد قوم پرست سیاسی پارٹی تربت یونیورسٹی میں اپنے سابقہ اتحادی پشتونخواملی عوامی پارٹی کی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہیں۔ اس پارٹی کے لیڈروں نے اپنے دور حکومت میں تربت یونیورسٹی کے تدریسی اور انتظامی عہدوں پر اپنے خاندان، رشتہ دار اور پارٹی ورکروں کو بغیر ٹیسٹ انٹریو کے غیر قانونی طور پر بھرتی کروایا ہے اور اب سیاسی بلیک میلنگ کے زریعے انہی نااہل اور غیر قانونی طریقے سے بھرتی شدہ کرپٹ ملازمین کو یونیورسٹی کے بڑے اور اعلی عہدوں پر تعینات کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یونیورسٹی کی مصدقہ زرائع سے معلوم ہوا ہے کہ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے موجودہ وائس چانسلر کی سربراہی ہیں یونیورسٹی میں اہم اقدامات اٹھائے ہیں جو درج ذیل ہیں:

1- تربت یونیورسٹی میں پلاننگ ایںڈ ڈیولپمنٹ سیکشن کا قیام اور ایک ایماندار پروجیکٹ ڈاریکٹر کی تعیناتی۔
2- تربت یونیورسٹی میں فیز 2 کے تعمیرات میں کرپشن اور اقرباپروری کا مکمل خاتمہ۔
3- تربت یونیورسٹی کے فیز 1 میں بے تہاشاہ کرپشن کو اجاگر کرنا اور ذمہ داران کے خلاف کاروائی کرنا۔
4- تربت یونیورسٹی میں پروکیورمنٹ آفس کا قیام اور ایک ایماندار آفیسر کی تعیناتی۔
5- تربت یونیورسٹی میں ٹینڈرز اور ٹھیکوں میں شفاف اور میرٹ کا نظام متعارف کروانا۔
6- تربت یونیورسٹی میں HR سیکشن کا قیام اور سیاسی بلیک میلنگ سے فورتھ کلاس ملازمین کی بھرتی کے عمل کو مکمل طور پر روکنا۔
7- تربت یونیورسٹی میں سیاسی بنیادوں پر تعینات کردہ 30 کنٹریکٹ ملازمین کو غیر قانونی طریقے سے مستقل نہ کرنا۔
8- تربت یونیورسٹی میں سیاسی بنیادوں پر بھرتی کئے گئے ملازمین کا غیر قانونی طریقے سے پروموشن نہ کرنا۔
9- یونیورسٹی میں کرپٹ اور نااہل ملازمین کا انٹرنل ٹرانسفر پوسٹنگ کرنا۔
10- اور تربت یونیورسٹی کی انتظامی معاملات میں سیاسی پارٹی کے بےجا مداخلت کو روکنا۔

اہم زرائع سے پتہ چلا ہے کہ قوم پرست پارٹی تربت یونیورسٹی میں مذکورہ بلا اقدامات سے خائف ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ پارٹی آئے روز مختلف حربوں اور ہتھکڈوں سے یونیورسٹی کے وائس چانسلر، پرو وائس چانسلر، رجسٹرار اور دیگر اعلی عہدداروں کے خلاف منفی پروپیگنڈوں میں مصروف عمل ہے۔ بلوچستان بلخصوص مکران اور تربت کے ذی شعور اور تعلیم یافتہ طبقہ کو چاہئے کہ تربت یونیورسٹی کو بلوچستان یونیورسٹی بننے نہ دیں۔

Address

Turbat

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Voice of Makran posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share


Other Media/News Companies in Turbat

Show All