Nawa.E.Amin

Nawa.E.Amin Nawa.E.Amin official newspaper and YouTube channel

10/12/2023

الیکٹڈ یا سلیکٹڈ،حقیقت کیا؟
تحریر:محمد امین ڈھڈھی
آج کل پاکستان میں انتخابی اتحاد بننے ،ٹوٹنے اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا معرکہ برپا ہے۔ کل کے حلیف اور آج کے حریف ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے انہیں سلیکٹڈ اور ریجیکٹڈ کے خطابات سے نواز رہے ہیں ۔اس سلسلے میں مسلم لیگ ن (نظر انداز کرو اور صبر کرو) کی مدبرانہ پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے۔وہ ماضی کے اتحادیوں بارے انتخابی ضرورت کے برعکس بڑے محتاط رویے کا اظہار اور مخالفانہ بیان بازی سے احتراز کیے ہوئے ہے۔جبکہ دوسری طرف پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور دیگر رہنما چار سال کی خود ساختہ جلا وطنی کے بعد حال ہی میں پاکستان لوٹنے والے قائد مسلم لیگ نون میاں نواز شریف کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ وہ انہیں اسٹیبلشمنٹ کا لاڈلہ پلس، سلیکٹڈ اور نہ جانے کن کن القابات سے نواز رہے ہیں۔ کل تک ساتھ چلنے اور ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے رہنے والے آج اپنے اتحادیوں کے گندے کپڑے کیوں بیچ دوراہے دھونے پر تلے ہیں۔ باری نہ ملنے کا غم یا دباؤ ڈالنے کی حکمت عملی؟ بلاول کی سلیکٹڈ اور لاڈلا پلس کی گردان سے قطع نظر میاں نواز شریف پہلے سے زیادہ سیاسی بالغ نظری اور معاملہ فہمی کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔بلاول بھٹو زرداری کے بقول ہی اگر میاں نواز شریف کی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل ہو گئی ہے تو پھر انہیں سندھ میں ایم کیو ایم جی ڈی اے، بلوچستان میں باپ اور مولانا فضل الرحمن سے اتحاد کی ضرورت کیوں ہوگی۔.پنجاب میں انہیں استحکام پاکستان پارٹی اور مسلم لیگ ق سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی کیا ضرورت تھی؟ اسٹیبلشمنٹ خود ہی سارا انتظام کر دیتی۔ جہاں تک میاں نواز شریف کے مقدمات سے بری ہونے کی بات ہے تو سیاسی مقدمات جس سپیڈ سے بنتے ہیں اسی سپیڈ سے ختم ہو جاتے ہیں۔ جب مقدمات قائم
رکھنے کی ضرورت نہیں رہتی تو قائدین ان سے بری ہو جاتے ہیں۔ کسی کو بھی اپنے دور حکومت میں بے بنیاد مقدمات میں الجھانا ہماری سیاسی تاریخ کا المیہ رہا ہے جس سے نجات ضروری ہے۔ ہمارے جیسے سیاسی طور پر نوزائیدہ معاشروں میں اتحادوں کی سیاست دو دھاری تلوار ہوتی ہے جس میں بلیک میلنگ کلچر پھلتا پھلتا ہے۔ ہمارے ہاں انتخابی سیاست عوامی خدمت نہیں اپنی تجوریاں بھرنے اور فائدے سمیٹنے کے لیے ہوتی ہے۔ اس لیے سیاسی وزن رکھنے والے ملک اور پارٹی مفاد کی بجائے اپنے فائدے کی بات کرتے ہیں۔ میاں نواز شریف اپنے مقبولیت کو قبولیت میں تبدیل کرنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے مذاکرات کر رہے ہیں ۔اس سلسلے میں انہیں کامیابی بھی مل رہی ہے لیکن پارٹی کے اندر سے اس کے خلاف دبی دبی آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں ۔سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے انہیں اپنے امیدواروں کی قربانی دینا پڑے گی جو بذات خود ایک مشکل مرحلہ ہوگا۔ ہر مشکل میں جماعت کے ساتھ کھڑے رہنے والے چاہیں گے کہ انہیں قربانیوں کا صلہ ملے لیکن دوسری جماعتوں سے اتحاد کے باعث ایسا ہونا مشکل ہو جائے گا۔ جس سے پارٹی امیدواروں میں بددلی پھیلے گی اور وہ پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خود انتخابی اکھاڑے میں اتریں گے۔ اس سے مسلم لیگ ن کو نقصان اور مخالف فائدہ اٹھائیں گے۔ اس صورتحال سے کیسے بچنا ہے یہ قائدین کے لیے بڑے امتحان سے کم نہیں ہوگا ۔اس تمام صورتحال میں ٹوٹ پھوٹ اور قیادت کے بحران سے دوچار پی ٹی آئی اب تک کہیں نظر نہیں آرہی ۔عمران خان پر سنجیدہ نوعیت کے درجنوں مقدمات قائم ہیں اگر ان میں سے کسی مقدمہ میں انہیں سزا ہو جاتی ہے تو پارٹی پر پابندی اور بلے کا نشان واپس ہو سکتا ہے جو عمران خان کے لیے بہت بڑا دھچکا ہوگا۔ ان سنگین حالات میں پارٹی کا مستقبل کیا ہوگا؟ عمران خان کا کیا بنے گا؟ نواز شریف کے چوتھی بار وزیراعظم بننے کا خواب پورا ہوگا؟ بیانیوں کا کیا بنے گا ؟پیپلز پارٹی کا روٹی کپڑا مکان کا گھسا پٹا اور ناقابل عمل بیانیہ کام کرے گا ؟مسلم لیگ ن ووٹ کو عزت دو اور سول بالادستی بیانیے پر قائم رہ پائے گی؟ یہاں ایک بات کہنا ضروری ہے کہ بیانیہ کے بارے میں عمران خان کو دوسری پارٹیوں پر سبقت حاصل ہے۔ انہوں نے نوجوانوں میں اپنا بیانیہ ان کی کھوپڑیوں میں ڈرل مشینوں کے ذریعے ڈرل کر رکھا ہے جو نکلنے والا نہیں اور لگتا ہے کہ بحرانوں کے باوجود ان کا بیانیہ کام کرے گا۔
آج جب کہ ملک فوج اور نگرانوں کی کوششوں سے آگے بڑھ رہا ہے، سٹاک مارکیٹوں میں تاریخی بلندی ہے ،بیرونی دنیا کا ہم پر اعتماد بڑھ رہا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ترقی کے اس تسلسل کو انتخابی رنجشوں اور آپسی لڑائیوں کی نذر نہ ہونے دیا جائے۔ معیشت قومی سلامتی کا تقاضا ہے ۔اس لیے شہری حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پورا ٹیکس دیں۔ درآمداد پر کٹ اور برآمدات بڑھائی جائیں۔عالمی مالیاتی اداروں پر انحصار کم، بچتوں کو رواج ،اوورسیز ایمپلائمنٹ پر توجہ دی جائے۔ آمدنی بڑھانے کے لیے پاکستان کے پوٹینشل کو پوری طرح استعمال میں لایا جائے۔ دوسروں پر انحصار کی بجائے خود انحصاری کو پروان چڑھانا ہوگا۔ یہ مشن فوری توجہ کا متقاضی ہے۔ کوتاہی کی تو قوم معاف نہیں کرے گی۔

18/11/2023

ٹی ٹی پی اور دہشت گرد گروپوں میں اتحاد کیوں،کوشاں کون؟

مغرب اور را کی پراکسیز(proxies) ٹی ٹی پی، بی ایل اے ،بی ایل ایف اور دیگر سپلنٹر گروپس پاکستان دشمنوں کے مذموم عزائم کی تکمیل اور اسے عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے اس کی فورسز پر حملے اور تنصیبات کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ افغان طالبان کی سٹریٹجک سپورٹ اور امریکی اسلحہ کی فراہمی انہیں پاکستان کے خلاف کارروائیاں تیز کرنے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔ افغان طالبان نے اپنے اثر و رسوخ سے باہم برسر پیکار جہادی گروپوں کو صلح پر راضی اور پاکستان دشمنی کے ایک نکاتی ایجنڈے پر ان کا اتحاد کرا دیا۔ ادھر بلوچستان میں بھی تحریک طالبان پاکستان بی ایل اے، بی ایل ایف اور دیگر گروپوں میں اتحاد کرانے کے لیے کوشاں ہے جس کے باعث پاکستان کے خلاف حملوں کا دائرہ بہت وسیع ہو گیا ہے ۔خاص طور پر افغانستان میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد پاکستان پر دہشت گرد حملوں میں بہت اضافہ ہوا۔ 2021 میں 207 حملوں میں 335 افراد نے جام شہادت نوش کیا اور 555 افراد زخمی ہوئے ۔2022 میں 376 حملوں میں ایک ہزار افراد جان بحق ہوئے جن میں 300 سکیورٹی اہلکار تھے۔ اسی طرح 2023 کے گزشتہ چھ ماہ میں 271 حملے ہوئے جن میں 389 افراد شہید اور 656 زخمی ہوئے۔ سیکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی میں 236 دہشت گرد بھی واصل جہنم ہوئے۔
ٹی ٹی پی اور بلوچ علیحدگی پسندوں میں اتحاد کے لیے کون کوشاں ہے اور کیوں اور کس کا فائدہ ہے؟ ٹی ٹی پی صرف نفاذ اسلام چاہتی ہے یا قبائلی علاقوں پر مشتمل علیحدہ ریاست اور اس پر اسلامی امارت؟ ناراض بلوچ محرومیوں کے ازالہ کے لیے پہاڑوں پر گئے یا چند ٹکوں کے لیے دھرتی ماں کی بولی کے لیے دشمن کے آلہ کار بنے؟ وہ فنڈز ان پر لگانے کی بجائے خود کھانے والے جاگیرداروں کا گریبان کیوں نہیں پکڑتے ؟
دراصل مسئلہ طالبان کی اسلامی امارت اور بلوچوں کی محرومیوں کا نہیں۔ یہ عالمی گیم ہے جس میں عالمی طاقتیں ملوث ہیں۔ امریکہ خطہ میں چائنیزاثرورسوخ سے بہت خائف ہے اس لیے وہ اس کا راستہ روکنے کے لیے بھارت اور خطہ میں موجود اپنے ایجنٹوں کو استعمال کر رہا ہے۔ ان کی کوشش ہے کہ دیرینہ اتحادیوں کو آگے بڑھنے سے پہلے مسائل میں الجھا دیا جائے۔ اسی لیے پاکستان میں خیبر پختون خواہ بلوچستان اور چین کے علاقہ سنکیانگ میں دہشت گردی کو پروان چڑھانے کے لیے پانی کی طرح پیسہ بہایا جا رہا ہے۔ اشرف غنی دور میں انڈیا افغانستان میں خاصہ سرگرم رہا ہے اور اس کے سرحدی علاقوں میں قائم قونصل خانے بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں راء کی کارروائیوں کے مرکز رہے ہیں۔ آج جب کہ ملک میں دہشت گردی کے نیٹ ورک متحد ہو رہے ہیں، دشمن ملکوں نے دہشت گردوں کے لیے جدید اسلحہ کی فراوانی اور خزانوں کے منہ کھول رکھے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گردوں کے سر کچلنے کے لیے بھرپور طاقت کے ساتھ ساتھ مذاکرات کے دروازے بھی کھلے رکھے جائیں۔ اس سے دشمن کے خوشنما بہکاؤں میں آنے والوں کے لیے واپسی میں آسانی ہوگی۔ 62 ارب ڈالر سرمایہ کاری کا منصوبہ سی پیک خطہ کی ترقی و خوشحالی کے لیے گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے۔ اپنے ہر دور کے آزمودہ دوست چین کے اعتماد کو بڑھانے کے لیے اس منصوبہ کی حفاظت اور کامیاب تکمیل کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں۔ یہ دشمن کے منہ پر طمانچہ اور پاکستان کی سلامتی کا ضامن ہوگا

14/11/2023

پی ٹی آئی قوت کھو چکی،مضبوط امیدوار ملنا مشکل ؟

پاکستان میں الیکشن کا بگل بج
چکا۔ کل کے اتحادی ایک دوسرے کے خلاف انتخابی صفیں ترتیب دینے میں سرگرم ہیں۔ ہر دفعہ حکومت میں اپنا حصہ وصول کرنے والے بھی اقتدار میں حصہ داری کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں ۔چونکہ پی ڈی ایم جماعتیں ہی ایک دوسرے کے مد مقابل ہوں گی اس لیے اگلے چند دنوں میں رازداں ایک دوسرے کے بہت سارے راز فاش کریں گے ۔نو مئی کے بعد پی ٹی آئی اپنی سیاسی قوت کھو چکی۔ فوجی تنصیبات پر حملوں کے بعد جماعت کی مرکزی قیادت کے اکثر قائدین پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔ دوسرے لیول کی قیادت بھی تحریک استحکام پاکستان پی ٹی آئی پیٹریاٹ اور دیگر قومی سیاسی جماعتوں میں ضم ہونے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے ۔اگلے انتخابات میں مضبوط امیدوار تحریک انصاف کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہوگا۔
ملک میں الیکشن کا ماحول بن چکا۔ میاں نواز شریف ایم کیو ایم ،جی ڈی اے ،بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں اور مولانا فضل الرحمن کی جماعت سے انتخابی اتحاد کے لیے رابطوں میں تیزی اور پنجاب کے علاوہ ملک بھر کے زیادہ سے زیادہ الیکٹیبل(electables) کو اپنی جماعت میں شامل کرنے کی تگ و دو میں ہیں۔ اتحادوں کی نوعیت اور اداروں کی طرف سے کلین چٹ کے بعد واضح دکھائی دے رہا ہے کہ اگلی حکومت مسلم لیگ( نون )بنائے گی جس میں اتحادی برابر کے حصہ دار ہوں گے ۔مستقبل کے اسی نقشہ کو دیکھتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری لیول پلینگ فیلڈ کا مطالبہ اور سلیکٹڈ حکومت برداشت نہ کرنے کا عزم ظاہر کر رہے ہیں۔
کیا اتحادی حکومت اور ہنگ پارلیمنٹ ملکی مفاد میں ہوتی ہے؟اس بارے ماضی کا تجربہ تو بڑا تلخ رہا ہے ۔ایسی حکومتیں اتحادیوں کی مسلسل بلیک میلنگ کا شکار رہتی ہیں اوراس میں ملکی ترقی کے منصوبوں کی بجائے سیاسی پارٹیوں کے ذاتی مفادات کی نگہبانی کی جاتی ہے ،جس سے ملک پیچھے اور سیاسی لوگ ترقی کر جاتے ہیں۔ اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اتحادی جماعتوں کے بہترین اور اپنے شعبہ میں ماہر افراد کو کابینہ میں شامل کر کے ان کی خدمات سے استفادہ کیا جائے۔ نیت ایک دوسرے کے بازو مروڑنا نہیں ملکی ترقی ہو تو بہتری کے سو سامان پیدا ہو سکتے ہیں۔ ہمیں قومی مفادات کے لیے بلیک میلنگ کی سیاست کو چھوڑنا ہوگا آج جب کہ ملک درست ٹریک اور معیشت سنبھلنے لگی ہے توضرورت اس امر کی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور نگرانوں کی مشترکہ جدوجہد کے ثمرات کو سیاسی تصادم کی نذر نہ ہونے دیا جائے۔ ملک دہشتگردی کے خطرات میں گھرا ہے مشترکہ دشمن کا مل کر مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ہماری سلامتی معیشت کے ساتھ جڑی ہے اس لیے اگلی حکومت کا ایجنڈا دفاع کے ساتھ ساتھ معیشت کی تیز بڑھوتری ہونا چاہیے ۔کوتاہی کی تو آئندہ نسلیں حساب لیں گی۔

06/02/2023

One truth u must watch

06/02/2023

Allah kiss tarah insaan ko rizk aata Khartoum hair

https://www.youtube.com/watch?v=yDGInITPTAQ
01/02/2023

https://www.youtube.com/watch?v=yDGInITPTAQ

"Discover How the New Moon in Aquarius Affects Your Zodiac Sign: Weekly Astrology Forecast 2023". "Get a glimpse into your future with this week's astrology ...

Address

19 Zaraj Center 2, Saddar
Rawalpindi
46000

Website

https://youtube.com/@user-do1pp7lx6g

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Nawa.E.Amin posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Nawa.E.Amin:

Videos

Share