The Pakistan Times

The Pakistan Times Now The Pakistan Times on World........! Islamic Republic of .............!
پاکستا?
(6)

ایک شخص کے ابا جی فوت ہوگئے ۔ وہ دھاڑیں مارمارکر رویا لیکن کفنانے دفنانے کے بعد ایک دم سنجیدہ ہو گئے کہ کفن5000 روپے کا ...
07/04/2023

ایک شخص کے ابا جی فوت ہوگئے ۔ وہ دھاڑیں مارمارکر رویا لیکن کفنانے دفنانے کے بعد ایک دم سنجیدہ ہو گئے کہ کفن5000 روپے کا آیا - گورکن نے 5500 روپے لیے ۔ مولوی صاحب نےجنازہ پڑھائی ، دعا کرائی اور مردہ بخشوائی کے 7000 روپے لیے ۔ قل خوانی پر 48000 روپے کا خرچ آیا - 5000 روپے مسجد میں دیے۔20000روپے کے کپڑے ان رشتہ دار خواتین کود یے جو دور دراز سے تعزیت کرنے آئے تھے ۔ 3000 روپے تمبو قنات والے لے گئے ۔
حافظ صاحب نے 6000 روپے لے کر تین دن قبر پر قرآن پڑھا۔- 5000 روپے اس پیر کے نذر کیے جوکہ پیر محل ( Peel mahal) سے تشریف لائے تھے۔
12000 روپے میں جمعرات کی دیگ پکی ۔ا ب چالیس دن تک مولوی صاحب کے گھر کھانا بھجوانا ہے ۔ اور پھر چالیسویں پر باقی کسر نکلے گی۔
ایک دوست اس کی تعزیت کرنے گیا تو وہ سرد آہ بھر کر بولا:
" زندگی تو موت کی امانت ہے لیکن اباجی اگر گندم کی فصل کے اٹھانےکے بعد فوت ہوتے تو ذرا اچھے طریقے سے رخصت کرتا، پتا نہیں اب
نجات ہوگی یا نہیں ...؟"
دوست نے کہا بھائی،،، نجات تو اعمال پر ہے باقی تو رسمیں ہیں۔
تو آدمی بولا : "ارے بھئ میں اپنی نجات کی بات کر رہا ہوں اس ظالم برادری کے ہاتھوں ...... ابا جی تو بخشے بخشائے تھے،،،،😥😥😥 منقول

بچپن میں ماسٹر کی طرف سے بھیجا گیا وفدتاریخ گواہ ہے اس وفد کے ساتھ کبھی مذاکرت کامیاب نہیں ہوئے
27/01/2023

بچپن میں ماسٹر کی طرف سے بھیجا گیا وفد
تاریخ گواہ ہے اس وفد کے ساتھ کبھی مذاکرت کامیاب نہیں ہوئے

مظفرگڑھ جعلی کرنسی چلانے والا جعلی آفیسر گرفتار ۔۔۔۔ مظفرگڑھ انٹیلیجنس آفیسر بن کر جعلی کرنسی چلانے والا با اثر شخص گرفت...
18/01/2023

مظفرگڑھ جعلی کرنسی چلانے والا جعلی آفیسر گرفتار ۔۔۔۔
مظفرگڑھ انٹیلیجنس آفیسر بن کر جعلی کرنسی چلانے والا با اثر شخص گرفتار ، سلطان کالونی کے قریب اسامہ خالد نامی شخص نے پٹرول پمپ سے اپنی قیمتی گاڑی فار چونر میں دس ہزار کا پٹرول ڈلوا کر پانچ پانچ ہزار کے جعلی نوٹ تھما دئیے پمپ مالک کی کال پر چوکی سلطان کالونی پولیس نے ملزم کو رنگے ہاتھ گرفتار کر لیا چار نمبر پلیٹیں بھی برآمد مظفرگڑھ کی اہم شخصیات کے رہائی کیلئے رابطے تفصیل کے مطابق مظفرگڑھ کے نواحی علاقے سلطان کالونی کے قریب بیکو کمپنی کے پٹرول پمپ پر گزشتہ روز ایک قیمتی گاڑی پر سوار شخص نے دس ہزار روپے کا تیل ڈلوایا اور سیلز مینیجر کو پانچ پانچ ہزار کے دو نوٹ تھما دئیے جسکو پمپ ملازم نے پہچان لیا تو فوراً پمپ مالک سعادتِ اعوان نے پولیس چوکی سلطان کالونی کو ٹیلیفون کر دیا جس پر چوکی انچارج عمران آصف نے ملزم کو گاڑی سمیت گرفتار کر لیا ، ذرائع کے مطابق ملزم کی گاڑی سے چار جعلی نمبر پلیٹیں بھی برآمد ہوئیں اور ملزم کے موبائل فون میں اعلی شخصیات کے ساتھ تصاویرں موجود تھیں ملزم خود کو خفیہ اداروں کا آفسر ظاہر کرتا ہے جبکہ ذرائع نے بتایا کہ ملزمان کی رہائی کیلئے مظفرگڑھ کی اہم سیاسی شخصیات سمیت متعدد افراد متحرک ہو چکے ہیں ملزم کی شناخت پریڈ میں ظاہر ہوتا ہے کہ موصوف مظفرگڑھ کے محلہ بلوچ نگر کا رہائشی اور نام اسامہ خالد ہے

یادگارتصویر کو زوم کیا جاۓ تو خاتون کے گلے میں لٹکا ہیرا بخوبی نظر آۓ گا۔254 قیراط کا یہ ہیرا ٕ مشہور زمانہ کوہٕ نور ہیر...
17/01/2023

یادگار
تصویر کو زوم کیا جاۓ تو خاتون کے گلے میں لٹکا ہیرا بخوبی نظر آۓ گا۔
254 قیراط کا یہ ہیرا ٕ مشہور زمانہ کوہٕ نور ہیرے سے دگنی جسامت اور وزن رکھتا ہے۔
یہ معزز خاتون مہر باٸ ٹاٹا ہیں۔ٹاٹا Tisco کے بانی سر جمشید ٹاٹا کی بہو اور سر دراب ٹاٹا کی بیوی۔
1924 کی عالمی کساد بازاری کے دوران ٹاٹا کمپنی بھی دیگر کی طرح دیوالیہ ہوگٸ تھی۔
کمپنی کے ملازمین بے روز گاری کے خطرے میں گھر چکے تھے۔
ایسے میں مہرباٸ نے اپنا یہ ہیرا امپیریل بینک میں ایک کروڑ کے عوض گروی رکھا اور کمپنی کے ساتھ ملاز مین کو بے روز گار ہونے سے بھی بچا لیا۔
کچھ ہی عرصے بعد مہر باٸ خون کے سرطان میں مبتلا ہو کر دنیا سے رخصت ہوگٸیں۔
اپنی محبوب بیوی کی یاد میں سر دراب ٹاٹا نے یہی ہیرا بیچ کر بلڈ کینسر ریسرچ فاٶنڈیشن قاٸم کردی۔
فاٶنڈیشن کے زیرٕ انتظام بلڈ کینسر پر ریسرچ کے ساتھ بلڈ کینسر کے مریضوں کا بلا معاوضہ علاج ٕ آج بھی جاری ہے۔
ہمیں تاریخ میں یہ تو پڑھایا جاتا ہے کہ تاج محل محبت کی یادگار ہے ٕ مگر محبت کی ایسی یادگاروں کا ذکر تاریخ کے کسی صفحے پر نہیں ملتا۔
اسحاق حیدری

ماشاءاللّٰہ اس بھائی نے 1100 میں سے 3824 نمبر لیکر فرسٹ پوزیشن لیکر پہلے حیران اور پھر عالمی ریکارڈ قائم کردیا۔۔۔
11/12/2022

ماشاءاللّٰہ اس بھائی نے 1100 میں سے 3824 نمبر لیکر فرسٹ پوزیشن لیکر پہلے حیران اور پھر عالمی ریکارڈ قائم کردیا۔۔۔

ڈاکٹر نے کہا آپ میں خون کی کمی ہےانار کھاؤ ،انار لے کر آۓتو دیکھا انہیں مجھ سے زیادہ خون کی ضرورت تھی 🥴🥴🥴🤣🤣🤣🤣🤣
18/10/2022

ڈاکٹر نے کہا
آپ میں خون کی کمی ہےانار کھاؤ
،انار لے کر آۓتو دیکھا
انہیں مجھ سے زیادہ خون کی ضرورت تھی 🥴🥴🥴🤣🤣🤣🤣🤣

آصف علی زرداری صاحب اس وقت 1.8 بیلین ڈالرز کے مالک ہیںمیں اگر ماہانہ 10 لاکھ تمام اخراجات کے علاوہ صرف بینک میں جمع کرو ...
10/10/2022

آصف علی زرداری صاحب اس وقت 1.8 بیلین ڈالرز کے مالک ہیں
میں اگر ماہانہ 10 لاکھ تمام اخراجات کے علاوہ صرف بینک میں جمع کرو تو مجھے اتنی دولت اکٹھی کرنے میں 34 ہزار 7 سو 44 سال لگے لگ جائیں
سوال یہ ہے
یہ لوگ آخر کس صلاحیت کی بنیاد پر اتنی وسیع تر دولت کے مالک بنے ہیں؟
کیا کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں؟

🙄🙄🙄🙄🙄 6  ارب ڈالرز کا جنازہ! 🙄🙄🙄🙄🙄🎀🎀🎀🎀🎀🎀🎀🎀🎀🎀🎀🎀🎀🎀🎀ملکہ الزبتھ کا 8 تاریخ کو انتقال ہوگیا تھا۔ لیکن تدفین ابھی تک نہیں ہوئ...
18/09/2022

🙄🙄🙄🙄🙄 6 ارب ڈالرز کا جنازہ! 🙄🙄🙄🙄🙄
🎀🎀🎀🎀🎀🎀🎀🎀🎀🎀🎀🎀🎀🎀🎀

ملکہ الزبتھ کا 8 تاریخ کو انتقال ہوگیا تھا۔ لیکن تدفین ابھی تک نہیں ہوئی۔ آخری مراسم جاری ہیں۔ 19 تاریخ کو موت کے 11 دن بعد تابوت قبر میں اتارا جائے گا - - -

موت سے تدفین تک عجیب و غریب رسوم و رواج - -. ویسٹ منسٹر ہال میں چار روزہ دیدار - - -
وہاں سے بکنگھم پیلس روانگی - - -
وہاں سے ویلنگٹن آرچ آمد - - -
پھر سینٹ جارج چیپل تک سفر - - -
وہاں دعائیہ تقریب - - -
پھر شاہی والٹ میں اتارنے کے بعد تدفین - - -

مخصوص تابوت، جس پر سنہری چھڑی، گلوب پر نصب صلیب، ہر قدم عجیب شاہی پروٹوکول، چیونٹی کی رفتار سے چلتی مخصوص گاڑیاں، حکومتی زعماء کی شرکت، اس دوران نئے بادشاہ کی تاج پوشی۔۔۔۔۔ الخ - - -

اس سب پر کتنا خرچہ آیا ہوگا؟ امریکی چینل اسکائی نیوز کے مطابق صرف 6 ارب ڈالرز۔ (پاکستانی کرنسی میں 1331 ارب روپے) دنیا بھر سے جو لوگ جنازے میں شرکت کیلئے آئے، ان کے اخراجات اپنی جگہ۔ یہ معاملہ ابھی ختم بھی نہیں ہوا۔ رسوم کی بجا آوری کا سلسلہ مزید چلتا رہے گا۔ جس پر اٹھنے والے اخراجات الگ ہوں گے - - -

لیکن اس سب کا آنجہانی ملکہ کی روح کو کوئی فائدہ؟ کچھ بھی نہیں، بلکہ کسی بھی انسان کو تو کیا، کسی ذی روح کو بھی کوئی فائدہ نہیں۔ سراسر عقل کے خلاف فضولیات، بے جا اسراف، سرمائے کا ضیاع۔ وہ بھی اک ایسے وقت میں جب برطانوی معیشت سخت مشکلات کا شکار۔

مگر اس کے باوجود مجال ہے کسی لبرل، سیکولر یا ملحد نے ان فضولیات پر ایک حرف بھی زبان پر لایا ہو کہ جی بڑا پیسہ ضائع کر دیا۔ اس سے کئی واٹر کولر لگوائے جا سکتے تھے، کسی غریب کی بچی کی شادی ہو سکتی تھی۔ مگر قربانی کے چند ہزار روپے مسلمان اپنی مرضی سے خرچ کریں تو انہیں اوپر نیچے آگ لگ جاتی ہے۔

اس کے مقابلے میں ایک مسلم بادشاہ (نام نہاد ہی سہی) کا بھی حال ہی میں (13 مئی) انتقال ہوا۔ امارات کے حکمراں شیخ خلیفہ بن زید النہیان کا۔ لیکن اسلامی تعلیمات کی برکت کہ جنازہ سادگی کا نمونہ۔ صبح انتقال اور مغرب کے بعد تدفین۔ نہ دیدار عام کیلئے چار دن انتظار، نہ ہی لمبا چوڑا شاہی پروٹوکول۔

چند افراد نے عام سے تختے پر میت اٹھائی اور قبرستان پہنچا دیا۔ میت بھی عام سے کفن میں لپٹا ہوا، جس پر نہ سونے سے مرصع چادر اور نہ ہی طلائی تابوت۔

🎀🙄🙄🎀🙄🙄🎀🙄🙄🎀🙄🙄🎀🙄🙄🎀

انگلینڈ کے خلاف سیریز اور ٹی 20 ورلڈ کپ کے لیےقومی اسکواڈ کا اعلان
15/09/2022

انگلینڈ کے خلاف سیریز اور ٹی 20 ورلڈ کپ کے لیےقومی اسکواڈ کا اعلان

《 بوسنیا کی المناک داستان  》حکم ہوا تمام مردوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا جائے۔ فوجی شہر کے کونے کونے میں پھیل گئے۔ ماؤں کی گو...
20/08/2022

《 بوسنیا کی المناک داستان 》

حکم ہوا تمام مردوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا جائے۔ فوجی شہر کے کونے کونے میں پھیل گئے۔ ماؤں کی گود سے دودھ پیتے بچے چھین لیے گئے۔ بسوں پر سوار شہر چھوڑ کر جانے والے مردوں اور لڑکوں کو زبردستی نیچے اتار لیا گیا۔ لاٹھی ہانکتے کھانستے بزرگوں کو بھی نہ چھوڑا گیا۔ سب مردوں کو اکٹھا کر کے شہر سے باہر ایک میدان کی جانب ہانکا جانے لگا۔

ہزاروں کی تعداد میں لوگ تھے۔ عورتیں چلا رہی تھیں۔ گڑگڑا رہی تھیں۔ اِدھر اعلانات ہو رہے تھے:
"گھبرائیں نہیں کسی کو کچھ نہیں کہا جائے گا. جو شہر سے باہر جانا چاہے گا اسے بحفاظت جانے دیا جائے گا۔"

زاروقطار روتی خواتین اقوامِ متحدہ کے اُن فوجیوں کی طرف التجائیہ نظروں سے دیکھ رہی تھیں جن کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ شہر محفوظ ہاتھوں میں ہے لیکن وہ سب تماشائی بنے کھڑے تھے۔

شہر سے باہر ایک وسیع و عریض میدان میں ہر طرف انسانوں کے سر نظر آتے تھے۔ گھٹنوں کے بل سر جھکائے زمین پر ہاتھ ٹکائے انسان. جو اس وقت بھیڑوں کا بہت بڑا ریوڑ معلوم ہوتے تھے۔ دس ہزار سے زائد انسانوں سے میدان بھر چکا تھا۔

ایک طرف سے آواز آئی فائر۔

سینکڑوں بندوقوں سے آوازیں بہ یک وقت گونجیں لیکن اس کے مقابلے میں انسانی چیخوں کی آواز اتنی بلند تھی کہ ہزاروں کی تعداد میں برسنے والی گولیوں کی تڑتڑاہٹ بھی دب کر رہ گئی۔ ایک قیامت تھی جو برپا تھی۔ ماؤں کی گودیں اجڑ رہی تھیں۔ بیویاں آنکھوں کے سامنے اپنے سروں کے تاج تڑپتے دیکھ رہی تھیں۔ بیوہ ہو رہی تھیں۔ دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھیں۔ سینکڑوں ایکڑ پر محیط میدان میں خون، جسموں کے چیتھڑے اور نیم مردہ کراہتے انسانوں کے سوا کچھ نظر نہ آتا تھا۔ شیطان کا خونی رقص جاری تھا اور انسانیت دم توڑ رہی تھی۔

ان سسکتے وجودوں کا ایک ہی قصور تھا کہ یہ کلمہ گو مسلمان تھے۔

اس روز اسی سالہ بوڑھوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بیٹوں اور معصوم پوتوں کی لاشوں کو تڑپتے دیکھا۔ بے شمار ایسے تھے جن کی روح شدتِ غم سے ہی پرواز کر گئیں۔

شیطان کا یہ خونی رقص تھما تو ہزاروں لاشوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے مشینیں منگوائی گئیں۔ بڑے بڑے گڑھے کھود کر پانچ پانچ سو، ہزار ہزار لاشوں کو ایک ہی گڑھے میں پھینک کر مٹی سے بھر دیا گیا۔ یہ بھی نہ دیکھا گیا کہ لاشوں کے اس ڈھیر میں کچھ نیم مردہ سسکتے اور کچھ فائرنگ کی زد سے بچ جانے والے زندہ انسان بھی تھے۔

لاشیں اتنی تھیں کہ مشینیں کم پڑ گئیں۔ بے شمار لاشوں کو یوں ہی کھلا چھوڑ دیا گیا اور پھر رُخ کیا گیا غم سے نڈھال ان مسلمان عورتوں کی جانب جو میدان کے چہار جانب ایک دوسرے کے قدموں سے لپٹی رو رہی تھیں۔

انسانیت کا وہ ننگا رقص شروع ہوا کہ درندے بھی دیکھ لیتے تو شرم سے پانی پانی ہو جاتے۔ شدتِ غم سے بے ہوش ہو جانے والی عورتوں کا بھی ریپ کیا گیا۔ خون اور جنس کی بھوک مٹانے کے بعد بھی چین نہ آیا۔ اگلے کئی ہفتوں تک پورے شہر پر موت کا پہرہ طاری رہا۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اقوامِ متحدہ کے پناہ گزیں کیمپوں سے بھی نکال نکال کر ہزاروں لوگوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔ محض دو دن میں پچاس ہزار نہتے مسلمان زندہ وجود سے مردہ لاش بنا دیے گئے۔

یہ تاریخ کی بدترین نسل کشی تھی۔ ظلم و بربریت کی یہ کہانی سینکڑوں ہزاروں سال پرانی نہیں، نہ ہی اس کا تعلق وحشی قبائل یا دورِ جاہلیت سے ہے۔ یہ 1995 کی بات ہے جب دنیا اپنے آپ کو خودساختہ مہذب مقام پر فائز کیے بیٹھی تھی۔ یہ مقام کوئی پس ماندہ افریقی ملک نہیں بلکہ یورپ کا جدید قصبہ سربرینیکا تھا۔ یہ واقعہ اقوامِ متحدہ کی نام نہاد امن فورسز کے عین سامنے بلکہ ان کی پشت پناہی میں پیش آیا۔

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ مبالغہ آرائی ہے تو ایک بار سربرینیکا واقعے پر اقوامِ متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان کا بیان پڑھ لیجیے جس نے کہا تھا کہ یہ قتلِ عام اقوامِ متحدہ کے چہرے پر بدنما داغ کی طرح ہمیشہ رہے گا

نوے کی دہائی میں یوگوسلاویہ ٹوٹنے کے بعد بوسنیا کے مسلمانوں نے ریفرنڈم کے ذریعے سے اپنے الگ وطن کے قیام کا اعلان کیا۔ بوسنیا ہرزیگوینا کے نام سے قائم اس ریاست میں مسلمان اکثریت میں تھے جو ترکوں کے دورِ عثمانی میں مسلمان ہوئے تھے اور صدیوں سے یہاں آباد تھے۔ لیکن یہاں مقیم سرب الگ ریاست سے خوش نہ تھے۔ انہوں نے سربیا کی افواج کی مدد سے بغاوت کی۔ اس دوران میں بوسنیا کے شہر سربرینیکا کے اردگرد سرب افواج نے محاصرہ کر لیا۔ یہ محاصرہ کئی سال تک جاری رہا۔

اقوامِ متحدہ کی امن افواج کی تعیناتی کے ساتھ ہی باقاعدہ اعلان کیا گیا کہ اب یہ علاقہ محفوظ ہے۔ لیکن یہ اعلان محض ایک جھانسا ثابت ہوا۔ کچھ ہی روز بعد سرب افواج نے جنرل ملادچ کی سربراہی میں شہر پر قبضہ کر لیا اور مسلمانوں کی نسل کشی کا وہ انسانیت سوز سلسلہ شروع کیا جس پر تاریخ آج بھی شرمندہ ہے۔ اس دوران نیٹو افواج نے مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھی۔ کیونکہ معاملہ مسلمانوں کا تھا۔

جولائی 1995 سے جولائی 2020 تک پچیس سال گذر گئے۔ آج بھی مہذب دنیا اس داغ کو دھونے میں ناکام ہے۔ یہ انسانی تاریخ کا واحد واقعہ ہے جس میں مرنے والوں کی تدفین پچیس سال سے جاری ہے۔ آج بھی سربرینیکا کے گردونواح سے کسی نہ کسی انسان کی بوسیدہ ہڈیاں ملتی ہیں تو انہیں اہلِ علاقہ دفناتے نظر آتے ہیں۔

جگہ جگہ قطار اندر قطار کھڑے پتھر اس بات کی علامت ہیں کہ یہاں وہ لوگ دفن ہیں جن کی اور کوئی شناخت نہیں ماسوائے اس کے کہ وہ مسلمان تھے۔

گو کہ بعد میں دنیا نے سرب افواج کی جانب سے بوسنیائی مسلمانوں کی اس نسل کشی میں اقوامِ متحدہ کی غفلت اور نیٹو کے مجرمانہ کردار کو تسلیم کر لیا۔ کیس بھی چلے معافیاں بھی مانگی گئیں۔ مگر ہائے اس زودِ پشیماں کا پشیماں ہونا

اب تو یہ واقعہ آہستہ آہستہ یادوں سے بھی محو ہوتا جا رہا ہے۔ دنیا کو جنگِ عظیم، سرد جنگ اور یہودیوں پر ہٹلر کے جرائم تو یاد ہیں۔ لیکن مسلمانوں کا قتلِ عام یاد نہیں۔

غیروں سے کیا گلہ ہم میں سے کتنوں کو معلوم ہے کہ ایسا کوئی واقعہ ہوا بھی تھا؟
پچاس ہزار مردوں اور بچوں کا قتل اتنی آسانی سے بھلا دیا جائے؟ یہ وہ خون آلود تاریخ ہے جسے ہمیں بار بار دنیا کو دکھانا ہو گا۔
جس طرح نائن الیون اور دیگر واقعات کو ایک گردان بنا کر رٹایا جاتا ہے۔ بعینہ ہمیں بھی یاد دلاتے رہنا ہو گا۔ نام نہاد مہذب معاشروں کو ان کا اصل چہرہ دکھاتے رہنا ہو گا۔

اس واقعے میں ہمارے لیے ایک اور بہت بڑا سبق یہ بھی ہے کہ کبھی اپنے تحفظ کے لیے اغیار پر بھروسہ نہ کرو اور اپنی جنگیں اپنے ہی زورِ بازو سے لڑی جاتی ہیں۔
اردو سنہری الفاظ ✍️

17/08/2022
اس پرچم🇵🇰🇵🇰 کے سائے تلے ہم ایک ہے🤣🤣ایڈوانس جشن آزادی مبارک ہو
14/08/2022

اس پرچم🇵🇰🇵🇰 کے سائے تلے ہم ایک ہے🤣🤣
ایڈوانس جشن آزادی مبارک ہو

  unveils the design of Rs.75 commemorative banknote being issued on 75th anniversary of the country’s independence. The...
14/08/2022

unveils the design of Rs.75 commemorative banknote being issued on 75th anniversary of the country’s independence. The note will be available for public issuance from 30th September 2022.
The note has portraits of Quaid-i-Azam, Sir Syed Ahmed Khan, Allama Iqbal & Mohtarma Fatima Jinnah to recognize and acknowledge their contribution in Pakistan movement. The picture of Markhor on the note’s reverse highlights our focus on environmental sustainability.
For details: https://www.sbp.org.pk/finance/Pak-75Rupees.asp

سیدہ فاطمہ الزہرہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی وفات کے بعد مولا علی نے ان کی وصیت کے مطابق دوسری شادی کی ۔ حسن حسین زینب ابھی...
10/08/2022

سیدہ فاطمہ الزہرہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی وفات کے بعد مولا علی نے ان کی وصیت کے مطابق دوسری شادی کی ۔ حسن حسین زینب ابھی چھوٹے تھے ۔ آپ نے سیدنا عقیل کو رشتہ دیکھنے کے لئیے کہا تو کلبسی بنو قلاب کے قبیلے کا انتخاب ہوا ۔ سیدنا علی کی خواہش تھی کہ کوئی ایسی خاتون ہو جو شجاعت سخاوت اور ایثار کی خصوصیات سے مالا مال ہو ۔ بنو قلاب کی خاتون فاطمہ بنت حزم کے گھر رشتہ بھیجا تو سردار حزم اپنی بیوی کے پاس گئے اور پوچھا کہ سیدنا علی کا بیٹی فاطمہ کے لئیے رشتہ آیا ہے کیا آپ نے اپنی بیٹی کی ایسی تربیت کی ہے جو نبی کے خاندان میں بیاہی جا سکے ۔ رشتہ قبول ہوتا یے تو فاطمہ بنت حزم( سیدہ ام البنین) سیدنا علی کے گھر جاتی ہیں تو سیدنا حسن حسین اور فاطمہ کو گلے لگا لیتی ہیں۔ سیدنا علی سے درخواست کرتی ہیں کہ ان بچوں کے سامنے آپ مجھے کچھی فاطمہ مت کہئیے گا انہیں اس سے ان کی ماں یاد آ جائے گی ۔ میں اس گھر میں ان کی ماں بن کر نہیں آئی بلکہ کنیز بن کر آئی ہوں۔ میرا یہ مقام نہیں کہ ان کی ماں کی جگہ لے سکوں ۔ اس کے بعد آپ نے انہیں بیٹا نہیں کہا بلکہ ہمیشہ مولا کہتی رہیں۔ ان کے چار بیٹے ہوئے اس لئیے انہیں ام البنین بھی کہتے مطلب بیٹوں کی ماں ۔ اپنے بیٹوں کو ہمیشہ حسن حسین علی کی صرف اطاعت کا حکم دیا ۔ ادب سکھایا اور کہا جو وہ کہیں بس حکم بجا لانا ہے بحث نہیں کرنی۔ یہ اہل بیت ہیں ہم ان کے نوکر ہیں۔

چار بیٹوں میں عباس ابن علی ، عبداللہ ابن علی ، جعفر ابن علی اور عثمان ابن علی تھے ۔ سیدنا عباس علیہ السلام لشکر حسین کے سپہ سالار بھی رہے شجاعت میں یہ ایک مقام رکھتے تھے دونوں ہاتھ سے تلوار چلاتے تھے ۔ جنگ صفین میں سیدنا علی نے ان کو بھیجا تو محمد بن حنفیہ کہتے کہ مولا آپ صرف عباس کو کیوں آگے بھیجتے ہیں تو سیدنا عباس کہنے لگے حسن حسین میرے ابا کی آنکھیں ہیں اور میں ان کا بازو اور بازو ہمیشہ آنکھوں کی حفاظت کرتے ہیں ( حالانکہ عمر میں حسن و حسین سے چھوٹے تھے ) مطلب کہ یہ سوال بھی نہیں بنتا ، ماں کی تربیت ہر مقام پر جھلکتی تھی ۔

واقعہ کربلا میں جب ایک ایک کر کے لشکر حسین کے سپاہی شہید ہوتے گئے تو سیدنا عباس نے مولا حسین سے درخواست کی کہ مجھے جانے دیں۔ سیدنا حسین ان سے تلواریں لے لیتے ہیں کہ بس عباس تم پانی لے آو ۔ آپ پانی لینے جاتے ہیں تو یزیدی لشکر ان پر حملہ کر دیتا ہے دونوں بازو کاٹ دئیے جاتے ہیں وہی جنہوں نے حسین کی حفاظت کرنی تھی ۔ گھٹنے میں تیر لگتا ہے حسین عالی مقام کی آنکھیں بھر آتی ہیں۔ سیدنا عباس مولا حسین سے درخواست کرتے ہیں کہ میرے گھٹنے سے تیر نکال دیں اور کہتے ہیں کہ مولا میری والدہ سے کہہ دیجئیے گا کہ عباس کے دونوں بازو نہیں تھے اس لئیے صرف آپ کو تیر نکالنے کا کہا ۔ یہ وہ ادب تھا وہ اطاعت تھی جو سیدہ ام البنین کی تربیت تھی جنہوں نے ساری زندگی نبی کے اس گھرانے کی کنیز بن کر گزار دی ۔ آپ کے چاروں بیٹے اس جنگ میں شہید ہو گئے ۔ علی کے پانچ بیٹوں نے اس میں جام شہادت نوش کیا جس میں 4 سیدہ ام البین کے فرزندان تھے ۔ جو لشکر حسین کا نہ صرف حصہ بنے بلکہ امام عالی مقام پر اپنی جان تک قربان کر دی اور ساری عمر کبھی زبان پر کوئی سوال نہ لائے ۔
واقعہ کربلا کے بعد جب قاصد خبر لے کر مدینہ منورہ پہنچا،
سیدہ ام البنین کو جب بیٹوں کی شہادت کی خبر ملی تو کہا عباس شہید ہوا جعفر شہید ہوا عثمان شہید ہوا عبداللہ بھی شہید ہو گیا فرمانے لگی سب چھوڑیں میرے مولا حسین کا بتائیں تو بتایا کہ وہ بھی شہید ہو گئے تو کہنے لگی کیا میرے بیٹے بعد میں شہید ہوئے مولا حسین سے تو بتایا کہ نہیں وہ پہلے شہید ہوئے اور مولا کی حفاظت کے لئیے خوب لڑے تو شکر ادا کیا کہ انہوں نے بیشک حق ادا کر دیا ۔۔۔۔
یہ وہ ماں تھی جو اہل بیت کے مقام کو سمجھتی تھی جس نے اپنے سارے بیٹوں کو ساری عمر صرف اطاعت سکھائی ادب سکھایا خود کو اس گھر کی کنیز بنایا اور حسن و حسین کو بیٹا نہیں ہمیشہ مولا کہا ۔
خدا ہم سب کو اہل بیت کا مقام سمجھنے اور اس ادب و اطاعت کی ہدایت فرمائے جو سیدہ ام البینین نے اپنی اولاد کو سکھایا ۔

گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق (1982 سے 1998 کے درمیان) پاکستان کے عالم چنا دنیا کے سب سے طویل القامت شخص تھے۔ عالم چن...
07/08/2022

گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق (1982 سے 1998 کے درمیان) پاکستان کے عالم چنا دنیا کے سب سے طویل القامت شخص تھے۔ عالم چنا کا قد 7 فٹ 7 انچ لمبا تھا۔ عالم چنا کا تعلق ایک غریب سندھی گھرانے سے تھا۔ انہوں نے کسی قسم کی اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کی ان کے گھرانے کے مرد روایتی طور پر سہون شریف کے مشہور صوفی بزرگ لعل شہباز قلندر کے مزار پر معمولی ملازمین تھے۔ 1978 میں سالانہ عرس کے دوران مزار کے بیرونی حصے میں لگائی گئی کسی ایک سرکس کے مالک نے عالم چنا کو سرکس میں ملازمت کی پیش کش کی۔ عالم چنا مزار پر ہفتے میں صرف 15 روپے کما رہے تھے! لہٰذا جب سرکس والوں نے انہیں ماہانہ 160 روپے کی پیش کش کی تو انہوں نے فوراً پیش کش قبول کرلی۔ سرکس نے عالم چنا کو مقامی اسٹار میں تبدیل کر دیا۔ انہوں نے سرکس کے ساتھ سندھ کے ہر کونے کا سفر کیا۔ چھوٹے قد کے دو جوکرز حسب معمول اپنا کرتب دکھاتے، جس دوران انہیں صرف ان کے درمیان اینٹری لینی ہوتی۔ وہ چلتے ہوئے اندر آتے اور ان جوکرز کو اوپر اٹھانا شروع کرتے تھے (جو خود کو یوں محسوس کرتے کہ جیسے وہ اس دیو ہیکل شخص سے بچ کر بھاگ رہے ہوں)۔ عالم چنا انہیں جھپٹ کر پکڑ لیتے اور اپنے کندھوں پر رکھ دیتے تھے۔ 1981 میں ایک شخص نے عالم چنا کو سرکس میں دیکھ کر گنیز بُک آف ورلڈ رکارڈز کے ایڈیٹرز کو خط لکھا۔ خط کے ساتھ انہوں نے سرکس میں عالم چنا کی کھینچی ہوئی کچھ تصاویر بھی بھیج دیں۔ کچھ مہینوں بعد گنیز سے کچھ افسران سندھ کے دار الخلافہ کراچی آئے اور وہاں سے وہ سہون پہچے جہاں انہوں نے عالم چنا سے ملاقات کی اور ان کا قد ناپا۔ اس وقت ان کا قد 7 فٹ 7 انچ ناپا گیا تھا۔ برطانیہ واپسی پر انہوں نے عالم چنا کا نام دنیا کے سب سے طویل القامت انسان کے طور پر درج کر لیا۔ یہ خبر سب سے پہلے مقامی سندھی اخباروں میں شائع ہوئی، جس کے بعد بڑی تعداد میں اردو اور انگریزی اخباروں نے اس خبر کو شائع کیا اور پھر آخر کار سرکاری ٹی وی (پی ٹی وی) پر رات 9 بجے کے اردو خبر نامے میں اس خبر کو نشر کیا گیا۔ راتوں رات 'عالم چنا' ایک مشہور نام بن گیا تھا۔ وہ جہاں جاتے، میڈیا نمائندگان اور تماشائی ان کا پیچھا کرتے آجاتے۔ انہیں جس انداز میں شہرت مل رہی تھی وہ اس سے پریشان ہو گئے تھے۔ عالم چنا نے سرکس چھوڑ دی اور پھر سے مزار پر معمولی ملازمت شروع کر دی۔ 1985 میں جرنل ضیاء الحق نے عالم چنا کے ساتھ تصویر کھنچوانے کی خواہش کا اظہار کیا۔23 مارچ کو جرنل ضیاء الحق کے ہاتھوں یومِ پاکستان کی پریڈ تقریب کے دوران ایک خصوصی ایوارڈ وصول کرنے کے لیے دعوت دی گئی۔ 21 مارچ کو انہیں کراچی لے جایا گیا اور پھر ہوائی سفر کے ذریعے اسلام آباد پہنچایا گیا۔ تقسیم ایوارڈ کی تقریب کے دوران ہزاروں افراد کے سامنے انہوں نے ضیا سے ایوارڈ وصول کیا اور ایک فوٹوگرافر نے پریس کے لیے اس موقعے کو قید کر لیا۔ پاکستان کے تمام نمایاں اخبارات (اور برطانیہ کے ڈیلی ٹیلی گراف نے بھی) نے ضیا کے ہاتھوں عالم چنا کو ایوارڈ دیتے وقت کی تصویر شائع کی جسے وصول کرنے کے لیے انہیں نمایاں طور پر جھکنا پڑا تھا۔ وہی تصویر کافی سندھی اخبارات میں بھی شائع ہوئی، لیکن ایک الگ کیپشن کے ساتھ۔ بجائے یہ لکھنے کے کہ 'دنیا کے سب سے طویل القامت شخص عالم چنا صدر ضیاء الحق کے ہاتھوں خصوصی ایوارڈ وصول کر رہے ہیں'، زیادہ تر سندھی اخبارات نے (سندھی میں) لکھا کہ 'سندھ اب بھی ضیاء کو چھوٹا سمجھتا ہے۔ انہوں نے 1989 میں شادی کی ۔1990ءسےھی ان کی صحت خراب ہونا شروع ہو گئی تھی۔ وہ اکثر مایوس اور تنگ ہو جاتے تھے اور یہی شکایت کرتے کہ وہ اپنی عام سی زندگی میں ہی بہت خوش تھے۔ وہ اکثر اپنے سرکس کے دنوں کے بارے میں باتیں کرتے اور انہوں نے لعل شھباز قلندر کے مزار پر بھی عقیدتاّ ملازمت جاری رکھی ۔ باوجود اس کے کہ انہیں دنیا بھر سے نقد انعامات اور تحائف ملنا شروع ہو گئے تھے 1998 میں ان کے گردے ناکارہ ہونا شروع ہو گئے۔ حکومت نے انہیں علاج کے سلسلے میں اپنے خرچے پر امریکا بھیجنے کا فیصلہ کیا، مگر امریکی ہسپتال میں کوما میں چلے گئے اور جلد ہی وفات پا گئے۔ اس وقت ان کی عمر 45 برس تھی۔ وہ سہون شریف میں مدفون ہیں۔
Copied

⭐پاکستانی سیاست کا ایک خوبصورت کردار⭐ محترم سید منور حسن صاحب مرحوم کو MNA ھونے کی وجہ سے حکم ھوا کہ اپنے اثاثے Declare ...
04/08/2022

⭐پاکستانی سیاست کا ایک خوبصورت کردار⭐
محترم سید منور حسن صاحب مرحوم کو MNA ھونے کی وجہ سے حکم ھوا کہ اپنے اثاثے Declare کریں، حکم دینے والے نے کہا کہ یہ قانونی مجبوری ھے، ایم این اے منور حسن نے کہا کہ قانون کا حکم سر آنکھوں پر، اور MNA (منور حسن) اپنے اور اپنی زوجہ محترمہ وہ بھی MNA تھیں کے درجِ ذیل اثاثے Declare کر دیئے،
۔01- میرے پاس میری بیوی کے نام ایک سو گز
۔ (تین مرلہ) مکان کے علاوہ Asset نام کی
۔ کوئی چیز نہیں،
۔02- یہ مکان بھی میری بیوی کو وراثت میں
۔ ملا ھے،
۔03- حلال کی کمائی سے گھر تو دُور کی بات
۔ ھے گاڑی بھی نہیں خرید سکا،
۔04- جب جماعت اسلامی کی طرف سے کوئی
۔ ذمےداری ھوتی ھے تو جماعت اسلامی کی
۔ گاڑی استعمال کرتا ھوں ورنہ ساری زندگی
۔ پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتا رھا ھوں،
،05- اس کے علاوہ مجھ پہ کچھ قرض ضرور
۔ ھے جو اندازاً سترہ ہزار روپے ھے, بس
۔ مجھے اس کی ادائیگی کی پریشانی رھتی ھے,

یہ اُس شحص کا حال ھے!
جو 1977ء کے الیکشن میں پورے پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کر کے خود ممبر قومی اسمبلی بھی بنا اور پانچ سال تک ان کی زوجہ محترمہ بھی ممبر قومی اسمبلی رھیں، بیس سال جماعت اسلامی کا سیکرٹری جنرل اور پانچ سال امیر جماعت اسلامی پاکستان بھی رھا،
مگر ان کے پاس اپنی بیوی کی وراثت میں ملا سو گز کا مکان سو گز ھی رھا، 1000 گز کا کبھی نہیں ھو سکا،
اور اتنے بڑے MNA کا جنازہ بھی اسی 3 مرلہ گھر سے اٹھا،
بیٹے کی شادی کی تو اس وقت آپ امیر جماعت اسلامی پاکستان تھے مگر ولیمہ میں سموسے، پکوڑے اور چائے پیش کی حالانکہ اس وقت وزیر اعظم، وزراء، وزیر اعلیٰ، گورنر اور بیوروکریٹس بھی شریک ھوئے، کہنے لگے بس اتنی ھی استطاعت رکھتا ھوں،
جبکہ بیٹی کی شادی میں بے شمار قیمتی تحائف (سونے کے زیورات وغیرہ) ملے
تو سب اٹھا کر جماعت اسلامی کے بیت المال میں جمع کروا دیئے کہ یہ میری بیٹی کو یا مجھے ذاتی حیثیت میں نہیں بلکہ امیر جماعت اسلامی پاکستان ہونے کی وجہ سے ملے ھیں اور ان پر حق بھی جماعت اسلامی کا بنتا ھے،
جو لوگ آخرت کی جوابدھی پر ایمان کامل رکھتے ھیں وہ کبھی بھی دنیاوی لذات نفس کے پیچھے نہیں پڑتے،
منور حسن صاحب جس زہد و تقوی کی معراج پر تھے
آج ہر شخص ان کی مثال دیتا ہے، اس شخص کو نماز پڑھتے دیکھ کر اللہ یاد آتا تھا،
جب بھی نماز سے اٹھتے چہرہ آنسو سے تر ھوتا،
کبھی تہجد کو سفر میں بھی نہ چھوڑتے،
تین چار کپڑے کے سفید سوٹ اور ویسٹ کوٹ اور اُس کی حالت یہ تھی کہ دھلوا دھلوا کر رنگت تک اتر گئی تھی،
کیا یہ باتیں صرف پڑھنے اور سنانے کی حد تک ہی رہ گئی ہیں آج سیاست کا یہ رنگ کیوں نا پید ہوگیا ہے؟...." یا پھر جس طرح کے ہم خود ہیں اسی طرح کے ہم پر حکمران مسلط کر دیے جاتے ہیں"

جب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ کی وفات ہوئی تو کہرام مچ گیا۔ جنازہ تیار ہوا، ایک بڑے میدان میں لایا...
27/07/2022

جب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ کی وفات ہوئی تو کہرام مچ گیا۔ جنازہ تیار ہوا، ایک بڑے میدان میں لایا گیا۔ بے پناہ لوگ نماز جنازہ پڑھنے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ انسانوں کا ایک سمندر تھا جو حد نگاہ تک نظر آتا تھا۔ جب جنازہ پڑھنے کا وقت آیا، ایک آدمی آگے بڑھا اور کہنے لگا کہ میں خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ کا وکیل ہوں۔ حضرت نے ایک وصیت کی تھی۔ میں اس مجمعے تک وہ وصیت پہنچانا چاہتا ہوں۔ مجمعے پر سناٹا چھاگیا۔ وکیل نے پکار کر کہا۔ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ نے یہ وصیت کی کہ میرا جنازہ وہ شخص پڑھائے جس کے اندر چار خوبیاں ہوں۔
زندگی میںاس کی تکبیر اولیٰ کبھی قضا نہ ہوئی ہو۔
اس کی تہجد کی نماز کبھی قضا نہ ہوئی ہو۔
اس نے غیر محرم پر کبھی بھی بری نظر نہ ڈالی ہو۔
اتنا عبادت گزار ہو کہ اس نے عصر کی سنتیں بھی کبھی نہ چھوڑی ہوں۔
جس شخص میں یہ چار خوبیاں ہوں وہ میرا جنازہ پڑھائے۔ جب یہ بات سنائی گئی تو مجمعے پر ایسا سناٹا چھایا کہ جیسے مجمعے کو سانپ سونگھ گیا ہو۔ کافی دیر گزر گئی، کوئی نہ آگے بڑھا۔ آخر کار ایک شخص روتے ہوئے حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ کے جنازے کے قریب آئے۔ جنازہ سے چادر اٹھائی اور کہا۔ حضرت! آپ خود تو فوت ہوگئے مگر میرا راز فاش کردیا۔
اس کے بعد بھرے مجمعے کے سامنے اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر قسم اٹھائی کہ میرے اندر یہ چاروں خوبیاں موجود ہیں۔ یہ شخص وقت کا بادشاہ شمس الدین التمش تھے۔
❤❤❤

مظفرگڑھ : لمپی سکن سے ہلاک ہونے والے جانور کسانوں نے نہر میں پھینک دیئےمظفرگڑھ : چونگی نمبر 9 کے قریب گنیش واہ کینال پر ...
27/07/2022

مظفرگڑھ : لمپی سکن سے ہلاک ہونے والے جانور کسانوں نے نہر میں پھینک دیئے

مظفرگڑھ : چونگی نمبر 9 کے قریب گنیش واہ کینال پر شہریوں کا احتجاج

مظفرگڑھ : شہریوں اور دکاندار داروں کی میونسپل کارپوریشن کے خلاف شدید نعرے بازی

مظفرگڑھ : نہر کی صفائی نہ ہونے سے پہلے ہی مشکلات کا سامنا تھا. شہری

مظفرگڑھ : نہر کنارے پیدل چلنا بھی مشکل ہوگیا. شہری

مظفرگڑھ : 5 سے 6 مردہ جانور نہر کے جنگلے میں پھنسے ہوئے ہیں. شہری

مظفرگڑھ : بدبو اور تعفن کی وجہ سے شہری پریشان ہیں. شہری

مظفرگڑھ : کئی بار درخواست کے باوجود کسی نے نوٹس نہیں. شہری

مظفرگڑھ : ضلعی انتظامیہ اور دیگر متعلقہ اداروں کو نوٹس لینا چاہئے. شہری

بابے کو سائیکل پر پتیلا رکھے بریانی بیچتے دیکھا تو رک گیا،پوچھا ،کتنے کی پلیٹ؟بولا،آپ جتنے کےکھانا چاہیں مل جائیں گےمیں ...
21/07/2022

بابے کو سائیکل پر پتیلا رکھے بریانی بیچتے دیکھا تو رک گیا،
پوچھا ،کتنے کی پلیٹ؟
بولا،آپ جتنے کےکھانا چاہیں مل جائیں گے
میں نے کہا50 روپے کے لیکن نوٹ ہزار والا ہے، پہلے بتا رہا ہوں،
بولا ٹھیک ہے۔۔۔۔۔
پھر اس نے پلیٹ نکالی اور ڈالتا ہی چلا گیا،
میں نے کہا کہ اتنے چاول تو ہوٹل والے 200 کےدیتے ہیں
آپ پھرکچھ کما بھی لیتے ہیں کہ نہیں؟
بولا، اللہ کا شکر ہے، کام چل جاتا ہے۔
پھر غور سے دیکھا تو سائیکل پرہی چولہا بھی نصب تھا اور آگ جل رہی تھی،سائیکل کی بریکیں تک نہیں تھی اورسیٹ جل کر ٹوٹ چکی تھی جسے اس نے گھما دیا۔۔۔۔
میں نے کہا، آگ جل رہی ہے ، سیٹ نہیں جلتی کیا؟
بولا ۔۔۔۔۔
سیٹ بھی نہیں جلتی،اور ٹائر بھی۔۔۔۔ جیسے آگ جل رہی ہے ایسے تو سب جل جانا چاہیے۔
میں نے1000کا نوٹ نکالا توکہنےلگا۔
رہنے دیں
پھر دے دینا ۔۔۔
میں نے قریبی دکان سے بوتل نمکو خریدے،
پیسے تڑوائے تو اسے زبردستی ہی تھمائے، پھر سے چل پڑا اور سوچتا ہی گیا کہ
قناعت و غنا تو نفس کی ہے اور یہ سب سے بڑی نعمت ہے،
کسی کا من اربوں کھربوں سے نہیں بھرتا اور وہ اور اور اور میں مارا مارا پھرتا ہے تو کوئی ایسے ہی بے فکر ہے۔
گزر دونوں کی رہی ہے۔۔۔۔
فیصلہ ہمارا ہے ،اسے ٹینشن دے دے کر گھٹ گھٹ کر گزارنا ہے یا جو مل رہا اور جو مل جائے اسی پر مطمئن ہو کر چل دینا ہے۔۔۔

Evergreen and graceful couple   and   then and now MashaAllah 😍😍
19/07/2022

Evergreen and graceful couple and then and now MashaAllah 😍😍

إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَVeteran Pakistani actor and producer Tanveer Jamal passes away in Japan who wa...
13/07/2022

إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ

Veteran Pakistani actor and producer Tanveer Jamal passes away in Japan who was under cancer treatment. May his soul Rest in Peace.

جو لوگ کہتے ہے جتنی مرضی مہنگائی ہو جائے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا اُن کیلئے ایک زوردار تھپڑ ہے یہ تصویراللہ تعالیٰ سب بیٹ...
12/07/2022

جو لوگ کہتے ہے جتنی مرضی مہنگائی ہو جائے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا اُن کیلئے ایک زوردار تھپڑ ہے یہ تصویر
اللہ تعالیٰ سب بیٹیوں کے نصیب اچھے کرے آمین۔
Bht dukh hua ye post dekh kar😢

25 اکتوبر 1947ریاست پاکستان کی پہلی عید الاضحٰی تھیپہلی عید عید الفطر  18 اگست 1947 کو منائی گئی تھییہ قیام پاکستان کے ب...
11/07/2022

25 اکتوبر 1947
ریاست پاکستان کی پہلی عید الاضحٰی تھی
پہلی عید عید الفطر 18 اگست 1947 کو منائی گئی تھی

یہ قیام پاکستان کے بعد پہلی بار عید الفطر کا تہوار منایا جانا تھا۔ قائد اعظم اور دیگر سرکاری عمائدین نے 18 اگست 1947 کو عیدالفطر کی نماز وفاقی دارالحکومت میں بندر روڈ پر مولوی مسافر خانہ کے نزدیک مسجد قصاباں میں ادا کی تھی جو عیدگاہ کے نام سے بھی معروف تھی۔ اس نماز کی امامت کا فریضہ مشہور عالم دین مولانا ظہور الحسن درس نے انجام دیا تھا

25 اکتوبر 1947 کو عید الاضحیٰ کی نماز کی ادائیگی کے لیے بھی اسی مقام کا انتخاب ہوا۔ اس مرتبہ بھی امامت کا فریضہ مولانا ظہور الحسن درس کے حصے میں آنا تھا

قائد اعظم کو نماز کے وقت سے مطلع کردیا گیا۔ لیکن تمام لوگ اس وقت بڑے حیران ہوئے جب نماز کا وقت آگیا مگر قائد اعظم عید گاہ نہیں پہنچ پائے۔ اعلیٰ حکام نے مولانا ظہور الحسن درس کو مطلع کیا کہ قائد اعظم راستے میں ہیں اور چند ہی لمحات میں عید گاہ پہنچنے والے ہیں۔ انہوں نے مولانا سے درخواست کی کہ وہ نمازکی ادائیگی کچھ وقت کے لیے مؤخر کردیں۔ مولانا ظہور الحسن درس نے فرمایا ’’میں قائد اعظم کے لیے نماز پڑھانے نہیں آیا ہوں بلکہ خدائے عزوجل کی نماز پڑھانے آیا ہوں‘‘ چنانچہ انہوں نے صفوں کو درست کرکے تکبیر فرما دی

ابھی نماز عید کی پہلی رکعت شروع ہوئی ہی تھی کہ اتنے میں قائد اعظم بھی عید گاہ پہنچ گئے۔ نماز شروع ہوچکی تھی۔ قائد اعظم کے منتظر اعلیٰ حکام نے قائد اعظم سے درخواست کی وہ اگلی صف میں تشریف لے چلیں مگر قائد اعظم نے ان کی درخواست مسترد کردی اور کہا کہ میں پچھلی صف میں ہی نماز ادا کروں گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور قائد اعظم نے پچھلی صفوں میں نماز عید ادا کی۔ قائد اعظم کے برابر کھڑے نمازیوں کو بھی نماز کے بعد علم ہُوا کہ ان کے برابر میں نماز ادا کرنے والا ریاست کا کوئی عام شہری نہیں بلکہ دنیا کی اس وقت کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کا سربراہ تھا

نماز کے بعد جب نمازیوں کے علم میں یہ بات آئی تو پوری عید گاہ قائد اعظم زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھی۔ قائد اعظم نمازیوں سے گلے ملنے کے بعد آگے تشریف لائے۔ انہوں نے مولانا ظہور الحسن درس کی جرأت ایمانی کی تعریف کی اور کہا کہ ہمارے علماء کو ایسے ہی کردار کا حامل ہونا چاہیے

کاش آج بھی ایسے سربراہ اور ایسے علماء ہمیں نصیب ہوجائیں، اے کاش !!!

‏عقیدہ ایک ایسی خطرناک چیز ہے جو انسان کو دودھ ضائع کرنے اور پیشاب پینے پر مجبور کر دیتا ہے رب کائنات کا شکر ہے کہ 🤲 گنہ...
09/07/2022

‏عقیدہ ایک ایسی خطرناک چیز ہے جو انسان کو دودھ ضائع کرنے اور پیشاب پینے پر مجبور کر دیتا ہے
رب کائنات کا شکر ہے کہ 🤲 گنہگار خطاکار ہونے کے باوجود بھی ہمیں مسلمان پیدا کیا اور خاتم النبیینﷺ کی امت بنایا اور اس بات پہ جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے ❤️❤️

Address

Muzaffargarh
34200

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when The Pakistan Times posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to The Pakistan Times:

Videos

Share

Nearby media companies


Other Media/News Companies in Muzaffargarh

Show All