Awam ka Pakistan

Awam ka Pakistan Stay up to date with the latest news and current affairs. We provide unbiased analysis.

15/07/2024
Saleem Lodhi
12/07/2024

Saleem Lodhi

مصباح نویدآپ کے والدین کو یہ شرف تو حاصل تھا ہی کہ وہ آپ کے والدین تھے۔اِس سے سَوا تو یہ حقیقت ہے کہ واجبی تعلیم ،سادگی ...
04/07/2024

مصباح نویدآپ کے والدین کو یہ شرف تو حاصل تھا ہی کہ وہ آپ کے والدین تھے۔اِس سے سَوا تو یہ حقیقت ہے کہ واجبی تعلیم ،سادگی ،معصومیت اورعلم کی اہمیت کا ادراک رکھتے تھے۔راجہ نذیر احمداور صدیقہ بیگم نے اپنے وسائل میں رہ کرجس طرح اپنے بچوں کوزیورِ تعلیم سے آراستہ کیاوہ قابلِ اعتراف ہے۔اُس سے بھی سوا یہ کہ وہ سیدھے سادھے دیہاتی کسان روشن خیالی ،فکری آزادی ،عمل کی آفادیت اور شعور کی بیداری میں یقین رکھتے تھے۔یہ حقیقت اُن کے بچوں کی شخصیت اور کردار سے شرح ہوتی ہے۔اپنے معاشرے اور ملک کاشکوے کرتے رہنامایوس لوگوں کاکام ہوتاہے۔اُن کی آنکھوں نے تاریکی پہنی ہوتی ہے۔آنکھوں کے عدسے روشنی کوروح و شعور تک پہنچنے ہی نہیں دیتے۔مگراِسی معاشرہ میں بہت سے لوگ اپنی نسلوں کوروشن خیالی ، فکری آزادی اورعمل کی آفادیت کا درس دیتے ہیں۔وہ بے مثال ماں باپ ہیں جو کسی نئے معاشرہ کی آرزو میں سخت گیریوں کے خلاف نرمی کا ماحول پیدا کرتے ہیں۔
شکوہ ءِ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہترتھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

مصباح نوید۔۔۔ثمینہ اشرف"زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے"ثمینہ اشرف کے مرکزی خیال کے اردگردمصباح نویدنے ریشم بُنا ہے۔بنیادی ط...
02/07/2024

مصباح نوید۔۔۔ثمینہ اشرف
"زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے"
ثمینہ اشرف کے مرکزی خیال کے اردگردمصباح نویدنے ریشم بُنا ہے۔بنیادی طورپریہ تحریرایک کتاب کااجمالی جائزہ ہے۔اِس کتاب میں میرے اندازہ کے مطابق زکریا یونیورسٹی شعبہ اُردو کے طالب علموں نے اپنی محبتوں کے اَن کہے لفظوں کو کوئی معانی دینے کی کوشش کی ہوگی۔اِس تفصیلی تحریرمیں مصباح نویداپنے پورے کمال کے ساتھ جمالِ حیات اُچھال دیاہے۔ ثمینہ اشرف کا تعارف بھی مجھ درویش سے اِسی تحریر کی وساطت سے ہوا۔میں 1980ء سے 1983ء تک شعبہ انگریزی میں طالب علم تھا۔میں شعبہ انگلش لٹریچر کا طالب علم تھااورشعبہ اُردو میں رہتاتھا۔اِس خوبصورت تحریر نے مجھے چوالیس برس کی فلیش بیک میں چکاچوندکردیا۔میری آنکھیں اور نظریں ماند پڑ گئیں۔بڑی دیرسےاپنے دُھواں اور دُھول کے گردبادمیں ہوں ۔مصباح نے اپنے مخصوص اسلوب ،لحن و لہجہ میں اپنے اساتذہ کرام ، ہم جماعتوں یاسہلیوں، دوستوں کا ذکر جس انداز میں کیا ہےوہ میرے ہی ماضی کی کوئی مسلسل تصویرmural ہے۔ثمینہ اشرف نے ڈاکٹر ساجد خان کا"مجاور"تخلیق کیامگراس نے کسی دربار کے گدی نشین ہونے کے اعزاز حاصل کرنے سے انکار کردیا۔اِس تحریرمیں اگرچہ "مجاور"کا ذکر نہیں ہے مگردرباراوراُس کی غلام گردشوں کے احوال دِکھائی پڑتے ہیں۔اُمید ہے مصباح نوید کے افسانوں کا مجموعہ "غلام گردشیں "بھی بہت جلدمنصہءِ شہودپرظہور پذیر ہوگا۔اِس مجموعہ کی تدوین وتالیف اور تعارف کا اعزاز بھی مجھے حاصل ہے۔مصباح کے افسانوں پرکچھ رائے دی ہے۔ثمینہ اشرف کی میں نے کبھی کوئی تحریر نہیں پڑھی مگر مصباح نوید نے جس لغت و معانی میں اُس کا ذکر کیا ہےاِس سے مجھے لگتاہےکہ خواتین کے آپس میں حسد کی کہانی اِس کائنات کا کوئی سب سے بڑا جھوٹ ہے۔طالب علموں کے اساتذہ اُن کے ماں باپ بھی ہوتے ہیں اور مرشدبھی۔بچے ماں باپ سے پیدا ہوتے ہیں اور وہ اُن کو پالتے ہیں۔اُستاد بچوں کوپالتابھی ہے، سنبھالتا بھی اور اُجالتا بھی ہے۔مصباح کے تمام کرداروں کا روشنی کا یہ اعزاز اُس نے عطا کیا ہے۔میں کبھی کبھی اظہار کرتاہوں کہ میری طبعیت میں حُزن کا عنصر نہیں ہے یا پھر بہت ہی عارضی ہے۔مصباح کی یادوں کی کہکشاں میری یادوں کے دریچوں میں روشنی بن کر اُتری ۔مجھے اندازہ نہیں کہ میں آج کتنا حزیں تھا مگر یقین سے کہہ سکتاہوں کہ کوئی بہت ہی خوشگواردرد قریب سے گزر گیا۔
چاند جب سے زمیں پر اترا ہے
دل پریشاں ہے اور بہکا ہے
کھو دیا اس نے خود کو تیرے لیے
تو جسے کہہ رہا ہے قطرہ ہے
زخم میرا نہ کیوں ہرا ہوتا
آنکھ سے پھر جو عشق چھلکا ہے

پروفیسرصلاح الدین حیدر صاحب "کنٹرول ختم ہوگیاہے"کہ میں مزید تاخیر کروں اور آپ سے مخاطب ہوں۔آپ کی جس تحریرکو میں نے عنوان...
02/07/2024

پروفیسرصلاح الدین حیدر صاحب
"کنٹرول ختم ہوگیاہے"کہ میں مزید تاخیر کروں اور آپ سے مخاطب ہوں۔آپ کی جس تحریرکو میں نے عنوان لیا ہے اِس کے متعلق صاحبِ فکر احباب نے بہت سی آراء دی ہیں۔اُن سے معانی کی روشنی پھوٹتی ہے۔آپ اُستادوں سے معلوم ہواکہ مرض بھی ایک صحت ہوتی ہے۔یہ عمومی صحت کے خلاف ہوتی ہے۔ہم اُس کو ختم کرنے کا علاج کرتے ہیں ۔مفکّرکہہ سکتاہے کہ مرض بھی ایک نئی صحت ہے۔فرق صرف اتنا ہے کہ ابھی اُس کوکوئی جانتا نہیں ہے تو مانے گا کیوں۔ فرائیڈ کے علمِ نفسیات کے بعدفرانسیسی مفکّرمشیل فوکالٹ نے "پاگل پن کی تاریخ A History of Madness تحقیق کی ۔یہ حوالہ دینے سے مقصود یہ ہے کہ کسی نئے امکان کی واقعاتی شکل کو ہم پرانے امکان کے عدسوں میں "غلط "کے طورپر لکھ دیتے ہیں۔"کنٹرول ختم ہوگیا"احساس کا کوئی غیر مکمل سرچشمہ ہے جس کی تکمیل حیاتِ انسانی کے امکانات میں کہیں توموجود ہوگی۔آپ ڈھونڈ پائے یا نہیں، ہم آپ کے طالب علموں کے لئے تواِس طرح کی ذہنی سیاحت بہت دُشوار ہے۔میرے گاؤں وریام والا، جھنگ میں گھر کے اندر ایک بہت بڑا کیکر کا درخت ہے۔ اُس کا تمام تر سایہ گھر کی دیوار سے باہررہتاہے ۔ کسی حالت میں بھی دھوپ نہیں آتی ۔ اُس کے نیچے بشکا(اللہ بخش)موچی اپنے منہ میں سوئی دھاگہ ، چمڑے کا ٹکڑا یا کسی جوتے کو دانتوں میں پھنسائے گردن جھکائے کام کرتارہتاتھا۔اُس کوسال بھرکے بعدلوگ اجناس کی شکل میں تھوڑی بہت مزدوری دے دیتے تھے۔یہ فوری یا روزانہ یا ہر کام کی اُجرت نہ ہوتی تھی۔وہ بولتا نہیں تھا اور اپنے کام میں جُتارہتاتھا۔ پچپن، ساٹھ سے اوپر تلے کی عمر کے باوجودطلائی جوتے ،کُھسّے تیارکرتاتھا۔اُس کی بینائی کسی کے اندربھی جھانک سکتی تھی۔وہ اپنے کام کرتے کرتے اچانک پکارتاتھا:۔
اِدَر کی دُنیا اُدَر آگئی اے
اُدَر کی دُنیا اِدَر آگئی اے
یہ کیا ہوگیا اے
یہ کیا ہوگیا اے

اِدھر کی دنیا اُدھر آگئی ہے
اُدھر کی دنیا اِدھر آگئی ہے
یہ کیا ہوگیا ہے
یہ کیا ہوگیا ہے
ختم شدہ کنٹرول تو حاصل ہوا یا نہ ہوا،بشکاموچی کو1947ء کا انتقالِ آبادی"اِدَر ،اُدَر کی دُنیا "کا حزیں نغمہ عطا کرگیا۔شور کوٹ کینٹ ریلوے اِسٹیشن پرایک لمبا تڑنگا اُردو کا پروفیسرپلیٹ فارم پر چکر لگاتا رہتاتھا۔اُس سے قبل وہ کہیں تدریس بھی کرتاتھا۔ پھر معلوم نہیں کہ کیاہوا۔میں اُن دنو ں انٹر میڈیٹ کاطالب طالب تھا۔وہ پروفیسرہر وقت بہت ہی مدھم آواز میں کچھ نہ کچھ بُڑ بڑاتے اور سُبک خرامی سے کچھ نہ کچھ کہتے ہوئے پلیٹ فارم کے چکر لگاتا رہتاتھا۔ کبھی کبھار اچانک وہ کسی کو روکتا اور بڑی نرم آواز میں پوچھتا، "غالب ؔکے باغیچہ ءِ اطفال میں تماشا ہوگیا ہے"؟اِس کا جواب تو شایداُس کوکسی نے نہ دیا ہومگر آج آپ کی تحریر پڑھ کے "میرا کنٹرول ختم ہوگیا"ہے۔

ڈاکٹرسمیرا اکبرکی شاگردہ عزیزہ ارسہ مبین کی تحقیقی تحریرڈاکٹر سمیر ااکبر نے اپنی شاگردہ عزیزہ کی ایک چھوٹی سی تحقیقی تحر...
30/06/2024

ڈاکٹرسمیرا اکبرکی شاگردہ عزیزہ ارسہ مبین کی تحقیقی تحریر
ڈاکٹر سمیر ااکبر نے اپنی شاگردہ عزیزہ کی ایک چھوٹی سی تحقیقی تحریر کو نمونہ کے طورپر پیش کیا ہے۔وہ بتانا چاہتی ہیں کہ ہمارے بچے کیا کچھ کرسکتے ہیں۔یہ چھوٹی سی تحقیق انجمؔ سلیمی کی شعری تخلیقی فن پاروں کے متعلق ہے۔انجمؔ سلیمی غزل کی روایت کا بہت احترام کرتاہے اور اُس سے زیادہ معنویت کی بغاوتوں میں۔وہ روایت اور جدت کے امتزاج کابہت متوازن شاعرہے۔سعود عثمانی ،مقصود وفاؔکے علاوہ بہت سے دیگرجدید شعراء اپنی اپنی فنی اور فکری حصہ داری کا اعزازحاصل کرتے رہتے ہیں۔معلوم نہیں کہ اِس مختصر تحقیق کے نگران اُستادِ گرامی کا اسمِ گرامی کیا ہے۔سمیرا اکبر نے میری طرح اپنا کام دکھادیا ہے کہ جس کا اچھا کام اُسی کا بڑا نام ۔وہ خودبھی پروفیسر طارق ہاشمی جیسے محنتی ،ریاضتی ، شائق ،مشاق اُستاد ہیں اور تحقیق دیگر بہت سارے موضوعات میں اُن کا ایک بڑا موضوع ہے۔

"پاکستان کے اہم شاعر، عالمی شہرت یافتہ، اپنے سنجیدہ لہجے کے حوالے سے معروف، انجم سلیمی صاحب 1963 کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے۔ 80 کی دہائی میں لائل پور شہر کی علمی ادبی سرگرمیوں سے منسلک ہوئے۔ گزشتہ تین دہائیوں سے فیصل آباد شہر کے ثقافتی ورثے کی پاسبانی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کی پہلی کتاب ”سُکے اتھرو“ 1982 میں منظر عام پر آئی اور پنجابی شاعری میں اہم جگہ بنا گئی۔ 1996 میں دوسری کتاب ”سنتاپ“ شائع ہوئی جس پر پنجابی کا اہم ادبی انعام ”مسعود کھدر پوش“ ایوارڈ دیا گیا۔ انجم سلیمی کی اصل پہچان اردو غزل ہے انہوں نے غزلوں کے ساتھ ساتھ نثری نظم بھی لکھی۔ حال ہی میں ان کا نثری نظموں کا مجموعہ ”ایک قدیم خیال کی نگرانی میں“ شائع ہوا۔ یہ انجم سلیمی کی نظمیہ کرافٹ کا ایک نادر اظہار ہے۔

انجم سلیمی کے شعری مجموعہ ”میں“ کی اشاعتِ اوّل اکتوبر 2013 میں ہوئی۔ جبکہ اشاعت دوم اگست 2019 اور اشاعتِ سوم جولائی 2021 میں ہوئی۔ یہ شعری مجموعہ بک کارنر جہلم پاکستان سے شائع ہوا۔

اس شعری مجموعے میں انجم سلیمی نے کافکائی طرز پر اپنی غزلوں میں مَیں کو معروض کے موجود میں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ یعنی میں کون ہوں؟ میں کیا ہوں؟ وہ کہتے ہیں کہ یہی سوال ہے جو مجھے رات بھر جگاتا ہے کریدتا ہے اور میرے وجود کو تلاش کرتا رہتا ہے۔ لیکن میں غور و فکر کرتا ہوں کہ یہ کائنات یہ جنت یہ جہنم سب کچھ مجھ میں ہی تو ہے۔ بس ایک پردہ ہے جو مجھ میں پڑا ہوا ہے۔ میں تھوڑا تھوڑا اس پردے کو سرکاتا رہتا ہوں خود کو مسمار کرتا ہوں اور تعمیر کرتا ہوں اور خود پر ظاہر ہوتا رہتا ہوں۔ اور یوں میں خود پر واضح ہوتا ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہی مَیں میری محبت ہے اور یہی مَیں میری شاعری ہے اسی سبب انجم سلیمی کی شاعری میں ”میں“ کا عنصر بہت زیادہ ملتا ہے

”اچھا بھلا پڑا تھا مَیں اپنے وجود میں
دنیا کے راستے پہ مجھے رکھ دیا گیا ” ( 1 )
”دھندلا دھندلا سا کبھی یاد تو پڑتا ہے کہ ہوں
زور دینے پہ مجھے یاد دلایا ہوا مَیں ”( 2 )

انجم سلیمی کو ہم ہر وقت خدا کی تلاش میں محو پاتے ہیں۔ ان کے ہاں بھی دیگر شعرا کی طرح خدا کی تلاش اور کہیں کہیں خدا کی نفی کا پہلو ملتا ہے مثلاً ان کے کچھ اشعار دیکھیے

”خدا کی راہ میں نکلا ہوں میں تنِ تنہا
یہ پہلی بار ہوا ہے خدا نہیں مرے ساتھ ”( 3 )
”کیا بتاؤں میں خدا اور اداسی کا پتہ
یوں بھی دونوں کا کوئی خاص سبب ہے ہی نہیں ”( 4 )

ان کے ہاں روایتی عشق و محبت کا بیان بھی ملتا ہے۔ ہجر و وصل، درد و غم اور محبوب کی بے رخی کو وہ اپنی غزلوں میں یوں بیان کرتے ہیں کہ قاری کے دل میں ایک خاص قسم کی لطافت پیدا ہوتی ہے۔

”دل ترے ہجر میں سرشار ہوا پِھرتا ہے
اب کسی دشت میں وحشت نہیں کر سکتا میں ”( 5 )
”انجم میں بددعا بھی نہیں دے سکا اُسے
جی چاہتا تو تھا وہاں کہرام کر کے آؤں ”( 6 )

جب ہم حُسنِ محبوب کے سلسلے میں انجم سلیمی کے شعروں کو دیکھتے ہیں تو انجم اپنے محبوب کے جمال کا ذکر اس انداز میں کرتے ہیں کہ ہمیں مکمل سراپا ان کی شاعری میں محبوب کا دکھائی دیتا ہے۔

”آج جی بھر کے تجھے دیکھا تو محسوس ہوا
آنکھ نے سورہٓ یوسف کی تلاوت کی ہے ”( 7 )

انجم سلیمی کا یہ خاص وصف ہے کہ ان کا شعر گفتگو کا پیرایہ لیے ہوئے ہے۔ انجم سلیمی کے اشعار کو پڑھتے ہوئے یہ واضح محسوس ہوتا ہے جیسے ایک کردار دوسرے کردار سے مخاطب ہے۔ شعروں میں کلماتِ تخاطب ان کی شاعری میں کثرت کے ساتھ نظر آتے ہیں۔

”یہ کاروبار نہیں دوست! یہ محبت ہے
مجھے تو اس میں خسارہ نظر نہیں آتا ”( 8 )
”حال پوچھا ہے میرا روئے ہو آنسو مرے؟
شکریہ! تم نے مرے درد میں شرکت کی ہے ”( 9 )

انجم سلیمی کا تصورِ انسان بہت مختلف ہے۔ وہ ایک ایسے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جہاں انسان خدا بن کر بیٹھا ہے۔ اور اپنے حقوق و فرائض سے بے خبر ہے۔ مادیت پرستی کے اس دور نے انسان کو انسان سے دور کر دیا ہے۔ کوئی بھی انسان اب کسی کے دکھ درد میں شریک نہیں ہوتا۔ یا ایک طرح سے ان لوگوں پر چوٹ کرتے ہیں جو خدا بنے بیٹھے ہیں۔ جو یہ سمجھتے ہیں وہی اعلی و کامل ہیں۔ اور ان کو یہ احساس تک نہیں کہ کے ارد گرد کا انسان کن حالات اور کن دشواریوں میں زندگی بسر کر رہا ہے۔ اس کو وہ اپنی شاعری میں یوں بیان کرتے ہیں

”کہہ رہا ہے خدا خداؤں سے
میں حقوق العباد چاہتا ہوں ”( 10 )

انجم سلیمی کی غزلوں میں ہمیں اُمید اور رجائیت کا پہلو بھی ملتا ہے۔ وہ مایوسیوں کے اندھیروں میں امید کی شمع جلانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔

”دل کے ملبے سے کچھ نہیں نکلا
ایک امید تھی بچا لی ہے ” ( 11 )
”ہر گھڑی سوچتے رہنے سے بھی کیا ہو گا بھلا
اس طرح کیا کبھی تقدیر بدل جاتی ہے ” ( 12 )

انجم سلیمی کے ہاں شعری صنعتوں کا استعمال بہت خوبصورتی سے کیا گیا ہے۔ مثلاً ذیل میں کچھ اشعار ملاحظہ ہوں :

صنعتِ و نشر
”مجھ کو مشکل میں ڈال دیتی ہے
اکثر اوقات خیر خواہی مری ”( 11 )
صنعتِ سوال و جواب
”کیا یہی ہجر ہے؟ سب جس سے ڈراتے ہیں مجھے
نیند بھی لیتا ہوں میں خواب بھی آتے ہیں مجھے ” ( 12 )
صنعتِ تلمیح
”قدیم دشت سے مجھ کو بلاوا آ گیا تھا
قمیصِ قیس مرے تن سے چاک ہو رہی تھی ”( 13 )
صنعتِ تکرار
”خود اپنے ہاتھ سے کیا کیا ہوا نہیں مرے ساتھ
میں کیا کہوں میرا کچھ بھی گلا نہیں مرے ساتھ ” ( 14 )
صنعت تضاد
”صبح تک رات کی تحریر بدل جاتی ہے
دن بدلتا نہیں زنجیر بدل جاتی ہے ” ( 15 )
صنعتِ تظمین
”میں نے جانا تیری اداسی میں
”زندگی کتنی خوبصورت ہے“ ”( 16 )

اگر ہم انجم سلیمی کی شاعری کو دیکھیں تو انجم نے ایک بڑا شعری تجربہ یہ بھی کیا کہ انہوں نے غزل کے سادہ اظہار کو تمثالی اسلوب میں بدلا یعنی بات کہنے کی بجائے ایک تصویر لفظوں میں تراشی جائے

”پھول کو جھیل میں بہایا ہے
چاند کو شاخ پر اتارتا ہوں ”( 17 )"
https://www.humsub.com.pk/554407/irsa-mubeen/?fbclid=IwZXh0bgNhZW0CMTEAAR1DcTLHtCC9XlBfiLVCpWqeJSmRRrU85oclMazwblkvA9ERoXBebK8_Qp0_aem_XODueAqtKLtfzdCIOJxxvg

ڈاکٹر سمیرا اکبر۔۔۔ڈاکٹر خاور نوازش۔۔ڈاکٹر میمونہ سبحانی "اب بتائیں"ڈاکٹر سمیرا اکبر،ڈاکٹر خاور نوازش ایسے دونوجوان ادیب...
29/06/2024

ڈاکٹر سمیرا اکبر۔۔۔ڈاکٹر خاور نوازش۔۔ڈاکٹر میمونہ سبحانی
"اب بتائیں"
ڈاکٹر سمیرا اکبر،ڈاکٹر خاور نوازش ایسے دونوجوان ادیب عالم ہیں جو اپنے ہم عصرنوجوان اُستادوں کی نمائندہ علامت ہیں۔یہ دو نام ہیں جن کے استعارہ میں لسان و ادب کے بے شمار کام ہیں ۔اِن دونوں عالم اُستادوں کے ساتھ ساتھ پروفیسر میمونہ سبحانی بھی میرے متعلق کہیں کہیں اپنے کسی لفظ کو معانی کردیتی ہیں۔میرا اُن سے ذاتی تعارف بھی نہیں مگراُن کے دو چار لفظ مجھے بہت عزیز ہوئے۔یہ میرے اعتبارکے بچے اور بڑے مجھے اعزاز دیتے ہیں کہ میں نوجوان نسل کی حوصلہ افزائی کرتاہوں۔آج مجھے موقع ملا ہے کہ میں اُن سب کو یاد کروں اور اُن کے علاوہ بے شمار بچوں کوجن نام فرداً فرداًنہیں لے سکتا۔وہ جو اپنے طالب علموں کی حوصلہ افزائی اور راہنمائی کرتے ہیں۔سہیل بلوچ،ڈاکٹر فرزانہ کوکب،ڈاکٹر سائرہ ارشاد،ڈاکٹر الیاس کبیر،ڈاکٹر سید عامر سہیل اور بہت سے لوگ۔ڈاکٹر سمیرا اکبر نے اپنی ایک طالب علم محققہ ۔۔کی ایک اسائنمنٹ کو قول کیا ہے ۔طالبہ کی تحریر ایم ۔ اے لیول کی کوئی مشق ہے۔سمیر ااکبر نے اُس بچی کی تحریر کواِس لئے نمایاں کیا ہے کہ بچی کی تحریر میں اُس کے استادوں کی مشّاقی کا فیضان ہے۔سمیرا اکبر نے اُس کی حوصلہ افزائی کی مثا ل کی وساطت سے پاکستان کے تمام طالب علم بچیوں اور بچوں کو حوصلہ افزائی کی ہے۔میرے اِس اضافی خیال کے بیان کی ضرورت بھی نہیں رہتی کہ اگراُستاد بچوں کی حوصلہ افزائی نہ کریں گے تو یہ کام اور کون کرے گا۔میمونہ سبحانی اُستاد کے لئے "جوہری "اورطالب علموں کے لئے جوہر کی لغت استعمال کرتی ہیں۔میں پاکستا ن کے اساتذہ کرام اور نوجوان اساتذہ کرام کو مبارک باد کا مستحق سمجھتاہوں کہ وہ اپنے طالب علم بچوں کی حوصلہ افزائی اور راہنمائی کرتے ہیں۔ کوئی حرج نہیں اگرمیں سب سے کہہ دوں کہ جس کی علمی نسلیں نہیں اُس کی کوئی تہذیبی فصلیں بھی نہیں۔
https://www.humsub.com.pk/554407/irsa-mubeen/?fbclid=IwZXh0bgNhZW0CMTEAAR1DcTLHtCC9XlBfiLVCpWqeJSmRRrU85oclMazwblkvA9ERoXBebK8_Qp0_aem_XODueAqtKLtfzdCIOJxxvg

پروفیسر عابدہ فیاض۔۔نیویارک۔۔مقصود وفاؔ مقصود وفاؔہمارے عہد کابہت ہی نمایاں اور منفرد شاعر ہے۔وہ اُستاد شاعرہے جس کا انح...
29/06/2024

پروفیسر عابدہ فیاض۔۔نیویارک۔۔مقصود وفاؔ
مقصود وفاؔہمارے عہد کابہت ہی نمایاں اور منفرد شاعر ہے۔وہ اُستاد شاعرہے جس کا انحصاراُس کی محبت،محنت اور عمر بھر کی ریاضت پر ہے۔اُسے امریکہ میں اُس کے چاہنے والوں نے جون 2024ء میں بلوایا ہوا ہے۔اگرامریکہ میں مقصود وفاؔکے پرستاروں کا صرف یہی مقصد ہوتاہے کہ وہ اپنے شاعرکے کلام سے مستفید ہوں تو یہ کام مقصودوفاؔکوامریکہ بلائے بغیر بھی ہوسکتاتھا۔جدید میڈیامیں شاعر،شاعر کی آواز میں کلام،کتابیں اوردیگرمیڈیا وسائل پر مقصود وفاؔکے کلام سے استفادہ کیا جاسکتاتھا۔مگروفاؔکے چاہنے والوں کے لئے وفاؔلازم ہے۔اِس بات میں کوئی شک نہیں وفاؔسے محبت اُس کے کلام کے سبب ہے مگراب وہ اپنا کلام ہوچکا ہے۔اُس کے چاہنے والوں کابڑا پن ہے کہ وہ اپنوں کونہیں بھولتے ۔پروفیسر عابدہ فیاض نے اِس موضوع پرایک تفصیلی مضمون اپنے فیس بُک اکاؤنٹ پہ رقم کیا ہے۔پروفیسر عابدہ فیاض وہ عالم ادیبہ ہیں جن کی زیادہ تحریروں سے میرا تعارف نہیں۔اُنہو ں نے مجھے یہ اعزازبے شمار کیاکہ میری دوکتابوں کے دیباچے تحقیق کئے۔میں جب بھی کسی کی کتاب کادیباچہ تحریر کرتاہوں تو ایک خیال میرے ذہن سے کبھی محو نہیں ہوتاکہ کتاب لکھناجتنا آسان کام ہے ، اُس سے کئی ہزار گُنا مشکل کام اُس کا دیباچہ تحقیق کرنا ہوتاہے۔عابدہ فیاض کے لئے خواہش کہ وہ لکھتی رہیں ۔اُن کے لفظ و معانی اُن کے ہم نفس انسانوں کے حقوق ہیں اور پروفیسر صاحبہ اُن حقوق کی صاحبِ امانت ہیں۔وہ امانت کوامانت دارکرداروں کے سپُرد کریں گی۔خیر کی دعا!

ڈاکٹر سید عامر سہیلکے"انگارے""انگارے "کے عنوان سے 1931ء سے شائع ہونے والاجریدہ ڈاکٹر سیدعامر سہیل کے نوکِ قلم پہ ہے۔وہ ا...
23/06/2024

ڈاکٹر سید عامر سہیل
کے
"انگارے"
"انگارے "کے عنوان سے 1931ء سے شائع ہونے والاجریدہ ڈاکٹر سیدعامر سہیل کے نوکِ قلم پہ ہے۔وہ اپنے انگاروں سے عشق کرتاہے۔خوبصورت اور خوب خصلت انسان ہے ،کچھ اور بھی کرتاہوگا۔ڈاکٹر نجیب جمال نے اُس کے اعزاز میں لکھا ہے کہ وہ اسلامیہ یونیوسٹی بہاولپور میں فنونِ لطیفہ کے شعبہ جات کا سربراہ ہے ۔کم وبیش اپنا نصف مشاہرہ "انگارے" کی اشاعت پرصرف کردیتاہے۔وہ اِس مجلہ سے جو کچھ چاہتاہے وہ تو سماج کے لئے ہے اور جو کچھ کرتاہے اپنی ذات سے کرتاہے۔اِن دونوں باتوں میں سماجی لاتعلقی اور ذاتی اپنائیت کا بہت ہی غیر متوازن تضاد ہے۔مگر چراغ کسی دَرودیوار اور دریچوں کی پہچان کے بغیرجلتے رہتے ہیں۔اُن کی غرض اُن کی روشنیا ں ہوتی ہیں۔یہ نہیں کہ اُس کا سرچشمہ کون ہے اورکس کا گھر،دَر روشن ہوگا۔ایسے نوجوان اساتذہ کرام کی ایک بہت زرخیز ذہن فصل بڑی ہورہی ہے۔اُن کی نفسیاتی روحانیت میں اُن کے اساتذہ کرام کا ارشاد ہے۔
میں لسان و ادب کے تمام اساتذہ کرام اور نوجوان قائد اساتذہ کرام سے اور بھی زیادہ اُمیدیں وابستہ رکھتاہوں۔ انگارے کی حالیہ اشاعت (جون 2024ء)اشاعت کاروں ،مطالعہ کاروں اور لکھنے والوں کومبارک ۔

مقصود وفاؔ۔۔۔پروفیسر عابدہ فیاضاورمیں بے وفامیں کتنا بے وفا ہوں ،اِس پر تو بعد میں بات کروں گا۔ویسے سُبکی کی بات نہ بھی ...
23/06/2024

مقصود وفاؔ۔۔۔پروفیسر عابدہ فیاض
اور
میں بے وفا
میں کتنا بے وفا ہوں ،اِس پر تو بعد میں بات کروں گا۔ویسے سُبکی کی بات نہ بھی کی جائے تو بھی بہت اچھی ہوتی ہے۔وفا ؔمیرابچپن کا نہیں ، لڑکپن کا نہیں تو کم از کم جوانی کا دوست ہے۔پتا نہیں وہ وفا دار ہے یا نہیں ؛کبھی سُنا نہیں کہ اُس نے کسی سے بے وفائی کی ہو۔میرے ساتھ تو اُس کی محبت اوراَرفع ہوگئی۔اُس نے میرا تعارف پروفیسرعابدہ فیاض سے کرایا۔پروفیسر صاحبہ پاکستان سے ساری عمر تدریس و تعلیم کے تعلق میں رہ کر اپنے خاندان کے ساتھ نیو یارک سدھارگئیں۔تہذبِ ہند کی سرزمین سب کچھ ہوسکتی ہے؛ دوست فراموش نہیں ہوسکتی۔عابدہ فیاض نے بھی ایسی ہی قابلِ قدریا داشت کو یاد رکھا۔وطن واپس آتی ہیں اُن کے لوگ نظرآئیں یا نہ آئیں ،اپنا گلی محلہ میں محبت کا سجدہ کرجاتی ہیں۔وفاؔکامیرے ساتھ بہت ہی بے تکلفی کے رشتہ میں تکلف بھی شامل ہے۔ اُس نے میرا تعارف پروفیسر صاحبہ سے کرایا جو میری پہچان بن گیا۔اِس لئے میں مقصود وفاؔکو اپنا وفا دار سے زیادہ وفادار سمجھتاہوں۔میں بے وفا ہوں کہ نہیں اُس کے مقابلے میں تو بے وفا کہلانا ہی زیبا ہے۔وفا ؔشاعر ہے ۔اُس نے شاعری میں انسان کی فطرت کا ارتقاء بیان کیا ہے۔انسانی فطرت کا تغیر،تلوّن ، تضاد،تنازع اورتعلق کوشاعری میں بیان کیا۔8جون 2024ء کےدن "ادارہ ایثار"نے وفاؔکو "ایثار ایوارڈ" سے نوازا۔اُس ادارے کا یہ رویہ تہذیب و تمدن کا عمل ہے جس کویہ ادارہ پالتا پوستا رہتاہے۔ایثار کی اقدار کے ادارے تہذیب کی حفاظت اورارتقائی صلاحیت ہوتے ہیں۔تعلیم زیورِ انسانیت ہے مگر بغیر تمیز اور تہذیب کے علم، علم ہی نہیں ہوتا۔وفاؔکی شاعری وہ علم ہے جو ہمیں ایک خود کار عمل کے ذریعہ ایک دوسرے تک پہنچاتی ہے۔اُس کی شاعری میں میری اور آپ کی پہچان ہے کہ ہم کیا سوچتے ہیں،کرتے ہیں،چاہتے ہیں۔وہ آج کل امریکہ میں اپنے پُرستاروں،ستاروں کا چاندہے اور میں پاکستان میں اُس کی سنہری روشنی میں حیات دیکھتاہوں۔اُس کے تمام چاہنے والے جنہوں نے اُس کے امریکہ میں شاعری پیش کرنے کے عمل کوقابلِ عمل بنایا۔میرے لئے یہ بے حدقابلِ تحسین ہے۔کیااِس کا مطلب ہے کہ امریکہ میں شاعری تخلیق نہیں ہوتی؟ہوتی ہے ۔مگراُن کی نہیں جواپنی یادوں میں وفا،وفاپُکارتے ہیں۔میں اُس کے چاہنے والوں ،پروفیسر عابدہ فیاض اور وفاؔکوخراج تحسین کے ساتھ دُعاؤں کا ہدیہ پیش کرتاہوں ۔میرا اور آپ کا انعام تو یہ ہے کہ جس موضوع پرمیں نے مختصر بات کی ہے اُس پر وفاؔکا فلسفیانہ ،تخلیقی اور فنکارانہ تجربہ سماعت کیا جائے۔

فاخرہ نورین کی نظم۔۔۔۔سمیرااکبر کا تعارفسمیرااکبر تو میری کبھی شاگردبھی نہیں رہی اور میں زندگی میں صرف دس مہینے اُستاد ر...
14/06/2024

فاخرہ نورین کی نظم۔۔۔۔سمیرااکبر کا تعارف
سمیرااکبر تو میری کبھی شاگردبھی نہیں رہی اور میں زندگی میں صرف دس مہینے اُستاد رہ سکا۔یہ اُستادنئے مظاہر،نئے خیالات ،نئے تہوارنئی تحقیق اور نئے فنکاروں کا تعارف علم پرستوں کوپہنچاتی رہتی ہے۔محمد سلیمان اُس کی ہر بات کوبالیدہ وافزودہ کرتاہے۔فاخرہ نورین کی ایک نظم کا میں سمیراکے تعارف کے سبب مطالعہ کرپایا ہوں۔ یہ نظم بھی شاعرہ فاخرہ نورین کوطویل عرصہ کے بعداُن کی دوستِ عزیز سمیرااکبر نے یادوں کے منظرپر سجا دی ہے۔عام طورپر شعرائے کرام ادیب بھی ہوتے ہیں۔فاخرہ نورین کے ادبی کاموں کے سلسلہ میں مجھے کوئی معلومات بھی نہیں ہیں۔ہوسکتا ہے یہ نظم بہت پرانی ہو مگراِس میں لب ولہجہ ، لحن ولفظ اور معنی روایت سے بہت مستقبل میں ہے۔اِس نظم کامفہوم تو بہت سادہ کہ" میں فاخرہ نورین جو کچھ کہنا چاہتی ہوں کہہ سکتی ہوں"۔ پھر بھی اِس کی ایک نظم نے دل خوش کردیاکہ اُردو ادب میں بہت ہی نئی نئی آوازیں اُٹھنے لگی ہیں۔اُن کے نئے پن کی اہمیت یہ ہے کہ وہ لوگوں کو نئے پن کی قبولیت کی گنجائش فراہم کرتی ہیں۔ورنہ اِسی نئے پن کے متعلق اقبالؒ ؔ کا کہنا ہے :۔
"آئینِ نَو سے ڈرنا ،طرزِ کُہن پہ اَڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں"
ہر نیا پن بُرانہیں ہوتا بلکہ ناگزیر ہوتاہے۔ہرپرانا پن قابلِ تردیدنہیں ہوتاالبتہ لاشعوراوریاداشتوں کے لئےراہنمائی کا خزانہ ہوتاہے۔فاخرہ نورین کی نظم کا، میں اختصاری رائے کے سبب صرف اُس کےفکری جغرافیہ یا حدود اربعہ پہ بات کرسکوں گا۔اُس کی نظم پانچ حصوں پر مشتمل ہے۔
"چل رقص کریں"
فاخرہ نورین
سب کھیل تماشا دیکھ مگر
بس کھیل تماشا سمجھ
کھلاڑی کھیلتے ہیں
کھلاڑی کھیلیں گے

سڑکوں پہ کبھی میدانوں میں
کبھی طاقت کے ایوانوں میں
کبھی کھیل چناؤ سازی کا
کبھی کھیل فتاویٰ بازی کا

اس کھیل تماشے کے اندر
اپنا تو کوئی کردار نہیں
اس کھیل سے جان چھڑاتے ہیں
بس اور نہیں ، ہر بار نہیں
ہم کلاکی مانتا والے ہیں
"میں کچھ نہیں جانتا"،والے ہیں

ہم لوگ نہیں ہنکائے ہوئے
ہم شہر نہیں دھرنائے ہوئے
ہم گردش دوراں ہیں

ہم لوگ زمانے کا رس ہیں،
ہمیں دیکھ زمانے حیراں ہیں
کوئی پیار محبت کی دھن چھیڑیں
اور اس دھن پر رقص کریں
پہلا سٹینزہ:۔
فاخر ہ نورین پہلے حصہ میں غالبؔ کے تماشہ اوربازیچہءِ اطفال کا منظرپیش کرتی ہیں۔
دوسرا سٹینزہ:۔
غالبؔ کے تماشہ کا ذکر کرتی ہیں جو عواموں،میدانوں، چناؤ سازی اور فتویٰ بازی کا عمل ہوتاہے۔
تیسرا سٹینزہ:۔
اِس قطعہ میں فرد کے یاشایداپنے کردارکی بے بسی اور بے بسی کا کسی احساسِ کمتری کے بغیراعلان کرتی ہیں۔اُن کا کہنا ہے کہ اُن کے کھیل میں بازیچہ ءِ اطفال میں اطفال کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ایسےکھیل سے گریزکرتی ہیں۔ہربار اعتراف کرتی ہیں کہ ہم نے نہ ہر بار کچھ کہنا ہے ،پھر بھی کبھی نہیں کچھ کہناہے ۔وہ معاشی درجہ بندی کی بنیاد پرطبقات کی "کلا مانتا"،"میں کچھ نہیں جانتا"کا پچھتاوا اور تائسّف بیان کرتی ہیں۔
چوتھا سٹینزہ:۔
وہ اپنے مشاہدات کے خلاف بیداری کا عمل اُجاگرکرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ہم "ہنکائے ہوئے "،"دھرنائے ہوئے"لوگ ،عوام گردش میں نہیں ۔فاخرہ نورین اِس قطعہ کے چوتھے جملے میں اپنے احتجاج کوتصادم کردیتی ہیں اور لہوسے لکھتی ہیں کہ ہم "گردشِ دوراں "ہیں ۔
پانچواں سٹینزہ:۔
اِس قطعہ میں فاخرہ نورین اعلان تصادم کے بعد بتاتی ہیں کہ وہ "زمانہ کا رَس "ہیں"،زمانہ حیراں ہیں"، "حیرت کو رقص کریں"،"کوئی پیار محبت کی دُھن چھیڑیں"۔سمیراکبراِس نظم کے جغرافیہ اور حدود اربعہ پر معاشی درجہ بندی کے نتیجہ میں سماجی درجہ بندی پر بہت اچھی "تاریخ "تحقیق کرسکتی ہیں۔ عام طورپرلوگوں کوایسی باتوں کا اعلان کرنے سے ریاستی خوف آتا ہے۔ جب میں موت سے خوفزدہ نہیں ہوں تو ریاست کے تشدد سے مجھے کیا فرق پڑتاہے۔جو عوام اور معاشرہ میری جنم بھومی ہے میں اُن کو اپنے جاتے کا سلام اور کس طرح پیش کرسکتاہوں؟میں نے اُستادوں والا سبق اپنے حوالے سے نہیں پڑھا رہامگر آپ دونوں کوپڑھا تو یہی رہا ہوں۔شکریہ سمیرا اکبر۔۔۔شکریہ فاخرہ نورین !
آپ اور آپ جیسے اور بچے لکھتے رہنا ! لکھتے رہنا،اورہمیشہ لکھتے رہنا۔یہ آپ کے قلم کی روشنی اور روشنائی پر آپ کے عوام اور سماج کا پہلا حق ہے۔میراتو یہ مشاہدہ ہے کہ تبدیلی کی ہر ہوا کے پیچھے اُستادوں کاگردبادہوتاہے۔یاداشت اور حوالہ کے لئے بیان کرنا چاہتاہوں کہ رضا شاہ پہلوی کے خلاف ایرانی کامیابی کا انحصاراُن کے تعلیمی اداروں کے استادوں پر تھا۔اُن استادوں نے بچے تو تربیت کرہی دئیے ،انقلاب کا سامان بھی کیا۔
خیر کی دُعا!

آثار ایوارڈ لائل پور ،08جون2024ءلوگ فیصل آباد کولائل پور کیوں کہتے ہیں؟یہ اُن عوام کالائل لاشعور ہے جس پر اُن کو خودبھی ...
09/06/2024

آثار ایوارڈ لائل پور ،08جون2024ء
لوگ فیصل آباد کولائل پور کیوں کہتے ہیں؟یہ اُن عوام کالائل لاشعور ہے جس پر اُن کو خودبھی میری طرح کوئی اختیار نہیں ہے۔کوئی فیصل آباد کے خلاف نہیں۔ہر کوئی لائل پور کے حق میں ہے۔لائل پورکے عوام کی اِس اختیار میں وہ بے اختیاری ہے جس کے متعلق عثمان فقیرؔنے لکھا:۔
"سانوں لَگ گئی بے اختیاری
سینے دے وِچ ناں سمائی ہے"
پاکستان میں بہت سے ادارے علم و ادب کی سرپرستی کرتی ہیں۔ اُن کو سرکاری اداروں کی سرپرستی سے بڑا اعتبار حاصل ہے۔ادارہ ایثارنے لائل پور کے شاعرمقصود وفاؔکو "ایثار ایوارڈ "سے نوازا۔اُنہوں نے شاعر کوجو عزت واحترام دیا وہ سب شاعری کے نام سے تھا۔فنونِ لطیفہ میں اَدب اور ادب میں شاعری اَرفع ترین تخلیقی عمل ہے۔اِس کو الہامی، ملکوتی اور اِس طرح کی دوسری دیگر لفظیات میں بھی بیان کیاجاتاہے۔یہ ایوارڈ مقصودوفاؔ،اُس کی شاعری اور ہر کسی کی شاعری کے اعزاز میں تھا۔یہ ایوارڈ ادارہ ایثارکا اعتراف تھاکہ معاشرہ کوتہذیب و تمدن سے فنونِ لطیفہ ،زبان و ادب اور فکرو فلسفہ ہی آراستہ کرسکتے ہیں۔فیصل عجمی اور اُن کے ہم رکاب شاہد ماکلی اور دیگراحباب جن کے نام میں نہ جاننے کی معذرت بڑی آسانی سے کرسکتاہوں؛جس جاں افشانی سے اِس جشن کوسجایا،بنایااور پیش کیا۔وہ اِس بات کا ثبوت ہے یہ ادارہ معاشروں میں تہذیب کےعمل کے لئے فنونِ لطیفہ اورعلم و ادب کو بنیادی شرط سمجھتاہے۔ادارہ ایثاراپنے رویہ اور عمل کے سبب مبارک باد کااستحقاق رکھتے ہیں۔

حسن نوید کی دریافت اگر میں اُسے دریافت کرتاتو یہ اعزازحاصل کرنے کے لئے میں کچھ نہ کچھ ضرور کرتا۔ مگرحسن نوید اپنے آپ کو ...
09/06/2024

حسن نوید کی دریافت
اگر میں اُسے دریافت کرتاتو یہ اعزازحاصل کرنے کے لئے میں کچھ نہ کچھ ضرور کرتا۔ مگرحسن نوید اپنے آپ کو مجھ پہ انکشاف کیا۔وہ بتاتا ہے کہ وہ بہت ہی کم عمر لڑکا سا تھاجب اُس کا لائل پور میں میرے ساتھ تعارف ہواتھا۔مجھے اُس کی کوئی کہانی یا دنہیں ہے بلکہ میں اپنے بچوں سے بھی کبھی کبھی اُن کے نام پوچھ لینے کی رعایت کا حق رکھتاہوں۔وہ لڑکااب اُس طرح کی سفید ڈاڑھی پہنے ہوئے ہے جس طرح میرے سرکے بالوں کا رنگ ہے۔وہ لڑکے میں توبڑھاپے سے اور بڑھاپے میں آگیاوہ لڑکااتنے تھوڑے وقت میں ہی میرے جیسا کیسے ہوگیا۔وہ لوگوں،عوام اور سماج کی اولاد ہے ۔سماج اور عوام کواپنے ماں باپ سمجھتاہے ۔اُس کے یہ رویے میرے لئے نظریات کی طرح ہے۔وہ جب بھی مجھے فون کرتاہے یا ذاتی ملاقات ہوتی ہے تو میرا حال ، احوال معلوم کرنے کی بجائے اپنے نظریات کی روشنی سے میری روح کومنوّر کردیتاہے۔اُس کی شخصیت سے تو مجھے یہی اندازہ ہوا کہ اُس نے اسی طرح کے کاموں میں عمر بتا دی ہے۔ایسے لوگوں کوپیغمبر کہنا گناہِ کبیر ہ میں شامل ہوجاتاہے اور میں تو گناہِ صغیرہ کی سزا بھگتنے کے اہل بھی نہیں ہوں۔سزا دینے والے فرشتوں کو میری صحت کی وجہ سے کہیں شرمندگی نہ ہو۔ادارہ آثار نے 08جون 2024ء کے دن مقصود وفاؔکوایوارڈ سے نوازا تو حسن نوید سے پہلی ملاقات ہوئی۔یہ ملاقات تادیر رہی ۔پھر میں نے اُسے زبردستی گھر بھیج دیا کہ جاؤ کوئی گھر کے کام کاج ہیں تو کر آؤ۔ادارہ آثار کی تقریب کا آغاز ہوا تو حسن نوید پھر میرے پیچھے کھڑا ہواتھا۔میں اُسے کیا کہوں ۔صرف اُس کی تعظیم کرسکتاہوں یا جھوٹی، سچی محبت کا "اعلان "۔

Address

Model Town Lahore
Lahore
54700

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Awam ka Pakistan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share

Nearby media companies


Other Media/News Companies in Lahore

Show All