Live Pakistan

Live Pakistan You are free you are free to go to your temples, you are free to go to your mosques or to any other place of worship in this State of Pakistan.
(25)

You may belong to any religion or caste or creed that has nothing to do with the business of the State
Jinnah's

 #جرمن  #سکول  #سسٹم 🇩🇪 #جرمنی میں سرکاری سطح پر بچوں کو گھر میں پڑھانے پر پابندی عائد ہے۔  اس کے علاوہ آٹھ کروڑ شہریوں ...
01/09/2024

#جرمن #سکول #سسٹم 🇩🇪
#جرمنی میں سرکاری سطح پر بچوں کو گھر میں پڑھانے پر پابندی عائد ہے۔ اس کے علاوہ آٹھ کروڑ شہریوں کے ملک میں محض 2500 پرائیویٹ سکول ہیں کیونکہ تعلیم ریاست کی ذمہ داری ہے۔
جرمن سکول سسٹم جرمنوں کے مائنڈ سیٹ کی عکاسی کرتا ہے۔
چھ سال کی عمر سے آپ پر لازم ہو جاتا ہے کہ بچے کو سکول بھیجیں اور پندرہ سال کی عمر تک بچے کا سکول جانا لازمی ہے۔
اب یہاں جرمن اپنا طریقہ استعمال کرتے ہیں اور سکول کے ابتدائی چار سے پانچ سال بچے ہر طرح کی تعلیم حاصل کرتے ہیں لیکن اس کے بعد ان کو تین طبقوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔
پہلا طبقہ کے نام سے ہے جس میں حد سے زیادہ ذہین بچے جاتے ہیں۔ یہ وہ ہوتے ہیں جو کہ مستقبل میں سائنسدان بنتے ہیں انجینئر یا ایسے ہائی کوالیفائڈ پروفیشنل عہدوں پر جاتے ہیں
سکولوں کی دوسری قسم ہے جہاں وائیٹ کالر نوکریوں کے مائنڈ سیٹ والے بچے جاتے ہیں
جبکہ تیسری قسم کی ہے جس میں صرف وہی بچے جاتے ہیں جو کہ نالائق ہوتے ہیں اور نچلے درجے کی نوکری کر سکتے ہیں۔
عموما بچوں کے پاس یہ آپشن ہوتی ہے کہ وہ اپنی کارکردگی بہتر کرکے اچھے سکول منتقل ہو جائیں لیکن یہ طبقاتی تقسیم پھر بھی رہتی ہے۔ اور بچے یوں اپنے سکول سے ہی جان لیتے ہیں کہ وہ زندگی میں کس پروفیشن کو اختیار کرنے جا رہے ہیں۔
یہاں سکول کے اوقات صبح آٹھ سے دوپہر ایک تک ہوتے ہیں۔ اور ہر روز مختلف سبجیکٹ پڑھائے جاتے ہیں جن کی تعداد چارسے پانچ ہوتی ہے۔ کچھ سبجیکٹ جیسا کہ #میتھ وغیرہ ہفتے میں دو بار پڑھایا جاتا ہے۔ جبکہ ایک کلاس کا دورانیہ پینتالیس منٹ یا نوے منٹ کی دو کلاسز ہوتا ہے۔
اس دوران آدھے گھنٹے تک کی بریک بھی ہوتی ہے اور بچے اپنا #لنچ گھروں میں جا کر کرتے ہیں۔ چونکہ لنچ گھر کرنا ہوتا ہے اس لئے یہاں کسی سکول میں بھی کینٹین نہیں ہوتی ہے۔ وہیں پر ماڈرن سکولز اس روش کو توڑ کر فل ڈے سکول اور لنچ بھی آفر کر رہے ہیں۔
جرمنی سوسائٹی میں فرد کا سب سے اہم مقصد ریاست کی فلاح کی خاطر کام کرنا ہے اور اچھا شہری بننا ہے سو وہ شروع سے ہی بچوں کو ویسا بنانا شروع کر دیتے ہیں.

 #کیڈٹ  #کالجز میں داخلہ کا شیڈول▪️گریزن کیڈٹ کالج کوہاٹ ▫️داخلہ کی آخری تاریخ ۔ 30 اکتوبر▫️ٹیسٹ ۔ 20 نومبر▫️رابطہ نمبر ...
01/09/2024

#کیڈٹ #کالجز میں داخلہ کا شیڈول
▪️گریزن کیڈٹ کالج کوہاٹ
▫️داخلہ کی آخری تاریخ ۔ 30 اکتوبر
▫️ٹیسٹ ۔ 20 نومبر
▫️رابطہ نمبر ۔092252970013

▪️ #ملٹری #کالج #جہلم
▫️داخلہ کی آخری تاریخ ۔ 15 ستمبر
▫️ٹیسٹ ۔ 5 نومبر
▫️رابطہ نمبر ۔0544650581

▪️ #ملٹری #کالج #مری
▫️ داخلہ کی آخری تاریخ ۔ 15 ستمبر
▫️ ٹیسٹ ۔ 5 نومبر
▫️ رابطہ نمبر ۔ 03436556424

▪️پی اے ایف کالج مری
▫️داخلہ کی آخری تاریخ ۔ 30 ستمبر
▫️ ٹیسٹ ۔ 20 اکتوبر
▫️ رابطہ نمبر ۔ 0519547113

▪️پی اے ایف #کالج #سرگودھا
▫️ داخلہ کی آخری تاریخ ۔ 30 ستمبر
▫️ ٹیسٹ ۔ 20 اکتوبر
▫️ رابطہ نمبر ۔ 0483729702

▪️ کیڈٹ کالج #حسن #ابدال
▫️داخلہ کی آخری تاریخ ۔ 30 ستمبر
▫️ ٹیسٹ ۔ 20 اکتوبر
▫️ رابطہ نمبر ۔ 03431224224

▪️ کیڈٹ کالج پلندری
▫️داخلہ کی آخری تاریخ ۔ 15 نومبر
▫️ ٹیسٹ ۔ 25 نومبر
▫️ رابطہ نمبر ۔ 05825960006

▪️ کیڈٹ کالج بٹراسی
▫️ داخلہ کی آخری تاریخ ۔ 30 نومبر
▫️ ٹیسٹ ۔ 20 دسمبر
▫️ رابطہ نمبر ۔ 03333507976

▪️ کیڈٹ کالج چکری
▫️ داخلہ کی آخری تاریخ ۔ 20 اکتوبر
▫️ ٹیسٹ ۔ 10 نومبر
▫️ رابطہ نمبر ۔ 04236630297

▪️ کیڈٹ کالج مظفر آباد
▫️ داخلہ کی آخری تاریخ ۔ 20 نومبر
▫️ ٹیسٹ ۔ 5 دسمبر
▫️ رابطہ نمبر ۔ 05822962302

  اگر آپ ڈبہ پیک  #موبائل لینا چاہتے ہیں تو ،آپ کا حق ہے کہ نان ایکٹو موبائل لیں ۔۔نان ایکٹو کا مطلب ہے کہ وہ موبائل پہل...
01/09/2024


اگر آپ ڈبہ پیک #موبائل لینا چاہتے ہیں تو ،
آپ کا حق ہے کہ نان ایکٹو موبائل لیں ۔۔

نان ایکٹو کا مطلب ہے کہ وہ موبائل پہلے کسی کے استعمال
میں نہ آیا ہو ۔۔

جی ہاں ! ڈبہ پیک موبائل بھی دو صورتوں میں ایکٹو Active ہو سکتے ہیں ۔

1 : ۔ کبھی کبھی موبائل کمپنی کی طرف سے دکانداروں
کو آفر دی جاتی ہے کہ ، مقررہ مدت میں ، مقررہ تعداد سیل کریں
تو بونس دیا جائے گا ۔
پھر دکاندار ڈبہ کھول کر موبائل ایکٹو کر کے دوبارہ پیک کر دیتے ہیں ۔۔
اس صورت میں کسٹمر کیلئے کوئی خاص خطرہ نہیں ہے ۔

2 : دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ کوئی کسٹمر ڈبہ پیک موبائل لے کر گیا دو چار دن چلا کر واپس آیا اور کسی وجہ سے موبائل سیل کر دیا ۔۔
دکاندار موبائل کی اچھی کنڈیشن دیکھ کر ، اس موبائل کو بھی دوبارہ پیک
کر دیتے ہیں ۔۔
ایسا موبائل کسٹمر کیلئے پریشانی کا باعث بن سکتا ہے ،
کیونکہ ممکن ہے کہ یوزر نے اس موبائل میں ایسی سم SIM استعمال کی ہو جو کسی غلط واردات میں استعمال ہو چکی ہو ۔

( چند ایک دکاندار یہ کام کرتے ہیں ، اکثریت Genuine
کام کر رہے ہیں ) ۔۔

حل : ۔۔

آپ ڈبہ پیک موبائل لے رہے تو بالخصوص ۔۔ یوز میں / سیکنڈ ہینڈ
موبائل لے رہے ہیں تو بھی آپ کے پاس
یہ ایپ ہونا ضروری ہے ۔۔
گوگل پلے اسٹور سے ڈاؤن لوڈ کر لیں ۔۔
Is Original ۔

اس ایپ میں موبائل کی IMEI نمبر ڈالیں ۔۔ وارنٹی
کی Expiry date آ جائے گی ۔۔ عموماً موبائل کی ایک سال کی وارنٹی ہوتی ہے تو ۔۔ اس سے آپ چیک کر سکتے ہیں
کو موبائل ایکٹو تو نہیں ۔۔

اور اپنے کسی بھی موبائل کی IMEI نمبر گوگل پر سرچ کریں ۔۔ گوگل پر لکھیں IMEI.info ۔۔ جو پہلی
ویب سائٹ اوپن ہو ۔۔ وہاں اپنے موبائل کی IMEI ڈال دیں ۔۔
آپ کے موبائل کے متعلق ساری تفصیل سامنے آ جائے گی ۔

یہ IMEI نمبر موبائل کے ڈبہ پر بھی لکھا ہوتا ہے ۔۔
اور موبائل سے #06 #* ڈائل کر کے بھی آپ چیک کر سکتے ہیں ۔ IMEI .. یہ 15 ہندسوں پر مشتمل ہوتا ہے ۔

یہ IMEI کا تعلق ، زیادہ تر سم چلانے سے متعلق ہوتا ہے ۔

ایک سم والے موبائل میں ایک IMEI ہوتی ہے ، دو سم والے میں دو IMEI ۔

یہ IMEI ہی PTA ( پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی )
سے ، ٹیکس ادا کر کے اپروو ہوتی ہے ۔۔ ڈبہ پیک موبائل میں یہ کام کسمٹر کا نہیں ۔۔ موبائل کمپنیاں ہی IMEI ، ۔۔ PTA ۔۔ سے
اپروو کرا کر دیتی ہیں ۔۔

غیر ملک سے لائے گئے موبائل کو بھی پی ٹی اے
سے ٹیکس ادا کر کے اپروو کرانا پڑتا ہے ۔۔

اگر کسی نے مثال کے طور پر سعودیہ / دبئی سے موبائل منگوایا ہے تو ۔۔ وہ پاکستان میں اگر اس موبائل پر SIM
چلانا چاہتا ہے تو پہلے PTA کو ٹیکس ادا کرے ۔۔
کیونکہ اس موبائل کی IMEI ، پی ٹی اے میں پاکستانی نیٹورک پر رجسٹر نہیں ہے ۔

کچھ عرصہ قبل پی ٹی اے نے کہا تھا کہ غیر ملکی موبائل ، پاکستانی نیٹورک پر 4 ماہ بغیر ٹیکس کے چلا سکتے ہیں ۔۔
اور حال ہی میں ، ایسے موبائل پر ٹیکس بالکل ختم کرنے
کی افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں ۔

بہ ہر حال ۔۔

یہ لیگل طریقہ ہے پاکستانی نیٹورک پر سم چلانے کا ۔۔
اس کے علاوہ دو چیزیں اور بھی ہوتی ہیں ۔

بعض اوقات کچھ ایسے موبائل جن کے اگر PTA ٹیکس
چیک کریں تو موبائل کی کل قیمت سے بھی ڈبل ہوتا ہے ۔۔
( پچھلے دنوں ہمارے پاس کینیڈین شہریت رکھنے والے
دوست کا موبائل آیا ۔۔ جس کا ٹیکس 43000 تھا ، جبکہ موبائل بمشکل 18/20 ہزار کا ہوگا ۔ )

ایسے میں پاکستانی لوگ جگاڑ لگانے لگے ۔۔
۔
۔

1 : ۔ پیچ ۔۔ Patch.

کسی پرانے موبائل یا کی پیڈ والے موبائل کی IMEI
غیر رجسٹرڈ موبائل پر لگا دیتے ہیں ۔۔ چونکہ پرانے / کی پیڈ
موبائل کی IMEI رجسٹر ہوتی ہے ، تو یہ موبائل بھی
پاکستانی نیٹورک پر سم چلانے کے قابل ہو جاتا ہے ۔۔

اس صورت میں موبائل کو reset کرنے سے IMEI ختم بھی ہو سکتی ہے ۔
یہ کام ہزار ، پندرہ سو میں بھی ہو جاتا ہے ۔

یہاں بہت بڑی گیمیں ڈالی جاتی ہے ۔۔ چند ماہ قبل
پی ٹی اے نے ہزاروں کی تعداد میں ایسے موبائل کی IMEI بلاک کر دی تھی ۔۔ جو کسی دوسرے موبائل کی لگائی گئی تھیں ۔

بہ ہر حال ! ۔۔

2 :۔ سی پی آئی ڈی ۔ CPID.

یہ پیچ patch کا ہی اگلا ورژن ہے ۔۔
یہ زرا مہنگا اور پکا کام ہوتا ہے ۔۔ اگر موبائل Reset
بھی کر دیں تو IMEI پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔

سی پی آئی ڈی CPID بھی ایک مستقل بزنس بن چکا ہے ۔۔
یہ آنلائن ہوتا ہے ۔
عموماً فلیگ شپ موبائل ، جو پاکستانی میں اوریجنل PTA اپروو بہت مہنگے ملتے ہیں ۔۔
یہ CPID میں کافی مناسب ریٹ میں جاتے ہیں ۔
ون پلس ، سامسنگ شیاؤمی وغیرہ کے ہائی اینڈ ڈیوائس
عموماً سی پی آئی ڈی والی ہوتی ہیں ۔

ان موبائل کا ڈبہ نہیں ہوتا ۔۔ خدا نخواستہ کہیں گر جائے ،
گم ہو جائے ، اللہ نہ کرے کوئی چوری وغیرہ ہو جاتی ہے تو FIR نہیں ہو سکے گی ۔۔ کیونکہ بغیرہ ڈبہ کے تھانے میں درخواست نہیں دے سکتے۔

نوٹ !....۔۔۔ یہ CPID اور Patch دونوں غیر قانونی کام ہیں ۔

موبائل یوزر کیلیے مسئلہ نہیں ہے ۔۔ پیچ کرنے والوں کیلئے مسئلہ ہوتا ہے ۔

اگر آپ اوریجنل PTA approve لینا چاہ رہے ہیں تو ۔۔ ایسا کریں ، کہ گوگل پلے اسٹور سے
ڈی وی ایس DVS نامی ایپ ڈاؤن لوڈ کر لیں ۔

یہاں موبائل کی IMEI نمبر ڈالیں ۔۔
یہاں سے آپ چیک کر سکتے ہیں کہ یہ IMEI اپروو
ہے یا نہیں ۔۔ اور یہ کہ ۔۔ یہ IMEI اسی موبائل کی ہے یا کسی اور کی ۔ موبائل ماڈل لکھا ہوا نظر آئے گا ۔
۔
۔

آج کی ایپس ۔
Is Original
موبائل کی وارنٹی ، ایکٹیویشن چیک کرنے کیلئے ۔

DVS
یہ IMEI چیک کرنے کیلئے
اوووووووووور
درخت لگائیں تاکہ آمدہ نسلیں صیحت مند ماحول پائیں۔

*آواز سے پانچ گنا زیادہ رفتار سے پرواز کرنے والا طیارہ* #ایٹلانٹا:  #امریکا کی ایک مقامی کمپنی ایسے  #ہائپرسونک طیارے پر...
31/08/2024

*آواز سے پانچ گنا زیادہ رفتار سے پرواز کرنے والا طیارہ*
#ایٹلانٹا: #امریکا کی ایک مقامی کمپنی ایسے #ہائپرسونک طیارے پر کام کر رہے ہیں جو آواز رفتار سے پانچ گنا زیادہ رفتار سے پرواز کرتے ہوئے #لندن سے #نیویارک تک کا فاصلہ محض 90 منٹ میں طے کر سکتا ہے۔

ہیلکایون نامی یہ جہاز ایٹلانٹا کی مقامی ایرو اسپیس اینڈ ڈیفنس ٹیکنالوجی اسٹارٹ اپ ہرمیوس بنا رہا ہے جس کا مقصد فضائی سفر میں انقلابی تبدیلیاں لانا ہے۔

4000 میل فی گھنٹہ (ماک 5) کی رفتار سے پرواز کرنے والا یہ ہائپر سونک طیارہ آپریشن میں آنے کے بعد تیز ترین کمرشل مسافر طیارہ بن جائے گا۔

کمپنی کے مطابق اس طیارے کی آزمائش اور آپریشن اس دہائی کے آخر تک شروع کیے جائیں گے۔

اس طیارے کے لیے 125 روٹس کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ اگرچہ یہ ہائپر سونک طیارہ اپنی رفتار کے سبب ٹرانس ایٹلانٹک (بحر اوقیانوس کے پار ) پروازیں ایک بار میں پوری کر سکتا ہے۔ البتہ، ٹرانس پیسیفک (بحر الکاہل کے پار) پروازوں جیسے کہ لاس اینجلس سے ٹوکیو تک کی پرواز کو درمیان میں ایک معمولی سا وقفہ چاہیے ہوگا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان طیاروں کو آواز کی رفتار سے پانچ گنا زیادہ تیز چلنے کے سبب بننے والی طاقتور سونک بومز کی وجہ سے برِ اعظموں کے درمیان اور اندرونِ ملک زمینی راستوں پر نہیں اڑایا جا سکے گا۔

 #مدورائی کا جگن ناتھ رتھ— 1904 کی ایک نایاب تصویر1904 میں لی گئی ایک تاریخی تصویر مدورائی شہر کے "جگن ناتھ رتھ" کی عکاس...
30/08/2024

#مدورائی کا جگن ناتھ رتھ— 1904 کی ایک نایاب تصویر

1904 میں لی گئی ایک تاریخی تصویر مدورائی شہر کے "جگن ناتھ رتھ" کی عکاسی کرتی ہے، جو جنوبی #ہندوستان کی مذہبی روایات کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہ رتھ مدورائی کے مشہور میناکشی #مندر سے وابستہ ہے اور سالانہ مذہبی تہواروں میں استعمال ہوتا ہے۔

یہ عظیم الشان رتھ لکڑی سے بنا ہوا تھا اور اس کی ساخت نہایت ہی مضبوط تھی، جسے مقامی کاریگروں نے بڑی محنت اور عقیدت سے تیار کیا تھا۔ مدورائی کے لوگ اس رتھ کو خاص اہمیت دیتے تھے اور جب یہ رتھ استعمال میں نہیں ہوتا تھا، تو اسے خاص طور پر بنائے گئے گیلوانائزڈ آئرن کے ایک ڈھانچے کے نیچے محفوظ رکھا جاتا تھا۔ اس ڈھانچے کا مقصد رتھ کو خراب موسم، دھوپ اور #بارش سے محفوظ رکھنا تھا تاکہ یہ ہر سال اپنے اصل حالت میں موجود رہے۔

مدورائی میں ہر سال منائے جانے والے "چترئی تھیرُوویلا " (Chithirai Thiruvizha) جیسے تہواروں کے دوران، اس رتھ کو پورے شہر میں گھمایا جاتا تھا۔ یہ یاترا مدورائی کے باشندوں کے لیے ایک مقدس موقع ہوتا تھا، جس میں ہزاروں عقیدت مند شرکت کرتے تھے۔ رتھ کو کھینچنے کے لیے لوگ ایک دوسرے سے سبقت لینے کی کوشش کرتے، کیونکہ اس عمل کو ایک مقدس فریضہ سمجھا جاتا تھا۔

1904 کی یہ تصویر اُس وقت کی ہے جب مدورائی کی مذہبی اور ثقافتی روایات اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ زندہ تھیں۔ یہ تصویر اس بات کی یاد دلاتی ہے کہ مدورائی کے لوگوں نے اپنی روایات کو محفوظ رکھنے کے لیے کیسے احتیاطی تدابیر اختیار کیں۔ رتھ کو گیلوانائزڈ آئرن کے ڈھانچے کے نیچے محفوظ رکھنا اس دور کی مذہبی اور تہذیبی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔

اگرچہ آج کے دور میں اس رتھ کی اصل حالت یا موجودگی کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ملتیں، لیکن اس وقت کی تصاویر اور تاریخی ریکارڈ ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ مدورائی کے لوگ اپنے مذہبی ورثے کی کتنی قدر کرتے تھے۔ یہ رتھ نہ صرف ایک مذہبی علامت تھا بلکہ یہ شہر کی مشترکہ یادداشت کا بھی ایک حصہ تھا، جو ہر سال کیرتنوں اور بھجنوں کے ساتھ مدورائی کی گلیوں میں گونجتا تھا۔

Big shout out to my new rising fans! Rana Muzzamil Hussain
30/08/2024

Big shout out to my new rising fans! Rana Muzzamil Hussain

ایک ویب سائٹ میں ایک سوال شائع کیا گیا کہکیا ہوگا اگر آپ راستے میں خُود سے ملیں؟ایک لڑکی نے تبصرہ کیا:میں اُسے خُوب مارو...
30/08/2024

ایک ویب سائٹ میں ایک سوال شائع کیا گیا کہ
کیا ہوگا اگر آپ راستے میں خُود سے ملیں؟

ایک لڑکی نے تبصرہ کیا:
میں اُسے خُوب ماروں گی، پھر اُس کے ساتھ بیٹھ کر رونے لگوں گی.

ایک شخص نے تبصرہ کیا:
میں اُسے نظر انداز کروں گا جیسے میں نے اُسے دیکھا ہی نہیں اور اپنی راہ پر چلتا رہوں گا.

ایک اور شخص نے کہا:
میں اُسے چائے کی دعوت دوں گا.

اب ایک سوال آپ سے.
اگر آپ راستے میں خُود سے ملیں تو کیا کریں گے؟؟؟

ایسا محسوس ہوتا ہے یہ کوئی یورپی جزیرہ ہےیہ یورپی جزیرہ نہیں مگر یہاں کے زیادہ تر لوگ  #برطانیہ اور  #یورپ میں آباد ہیںا...
29/08/2024

ایسا محسوس ہوتا ہے یہ کوئی یورپی جزیرہ ہے
یہ یورپی جزیرہ نہیں مگر یہاں کے زیادہ تر لوگ #برطانیہ اور #یورپ میں آباد ہیں
اس جزیرہ کو ( نواں محال ) نو محال ( #نکہ ) کہتے ہیں جو #میرپورآزادکشمیر میں آباد ہے اور آبادی کے تینوں اطراف #منگلاڈیم کا پانی کھڑا ہے !

29/08/2024

"تقریباً ایک ہزار چار سو سال پہلے، عظیم قائد خالد بن ولید نے ہرقل کی بڑی فوج کے سامنے کھڑے ہو کر، جب وہ فوج ایک پہاڑ پر پناہ لے چکی تھی، انتہائی قوت، اعتماد اور عزم کے ساتھ کہا: 'اگر تم بادلوں میں بھی ہوتے تو اللہ ہمیں تمہارے پاس پہنچا دیتا یا تمہیں ہمارے پاس اتار دیتا۔ اور ہم تمہارے پاس صرف اس لیے آئے ہیں کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ اللہ ہمیں فتح دے گا۔'

یہ وہ زبردست قوت تھی جس نے خالد کو زمین کی سب سے طاقتور فوجوں میں سے ایک کے سامنے ثابت قدمی اور عظمت کے ساتھ کھڑا کر دیا۔

اس کا جواب ہمیں پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم دیتے ہیں، جنہوں نے فرمایا: 'جو شخص چاہتا ہے کہ وہ سب سے زیادہ طاقتور ہو، تو وہ اللہ پر توکل کرے۔' (روایت احمد، ابن حبان، الحاکم، اور الذہبی نے اس کی تصدیق کی ہے)

لہذا، راز اس قلبی عبادت میں ہے جسے ہم میں سے بہت سے لوگ بھول چکے ہیں، یعنی 'توکل'۔ بدقسمتی سے، ہم میں سے بہت سے لوگوں نے توکل کو تواکل سے بدل دیا ہے۔"

 #اشوکقدیم ہندوستان کے بادشاہ اشوک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اپنے 40 سالہ دور حکومت میں انھوں نے تقریباً پورے برصغیر کو...
29/08/2024

#اشوک
قدیم ہندوستان کے بادشاہ اشوک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اپنے 40 سالہ دور حکومت میں انھوں نے تقریباً پورے برصغیر کو ایک حکومت کے تحت متحد کر دیا تھا۔

جنوبی ہند کی ریاستوں تمل ناڈو اور کیرالہ کو چھوڑ کر آج کا پورا انڈیا، پاکستان اور کم از کم افغانستان کا مشرقی حصہ اشوک کے دائرہ اختیار میں تھا۔

یہی نہیں بلکہ وہ ایک ایسے مذہب سے دنیا بھر کو متعارف کرانے میں بھی کامیاب رہے جس کے پیروکار ان کے وقت میں بہت کم تھے۔ انھوں نے ایسے اخلاقی افکار و خیالات متعارف کروائے جن کے اثرات آج تک دیکھے جا سکتے ہیں۔

تاریخ دان چارلس ایلن اپنی کتاب ’اشوک دی سرچ فار انڈیاز لوسٹ امپیرر‘ میں لکھتے ہیں کہ ’اشوک کو بجا طور پر ہندوستان کا بانی کہا جا سکتا ہے۔‘

وہ پہلے حکمران تھے جنھوں نے ہندوستان کو بحیثیت ایک ریاست متحد کیا۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نے گاندھی سے بہت پہلے ہی عدم تشدد کے تصور کو رائج کیا تھا۔ وہ شاید دنیا کے پہلے بادشاہ تھے جنھوں نے ایک فلاحی ریاست قائم کی تھی۔

اشوک مختلف لوگوں کے سامنے مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتے ہیں۔ کسی کے لیے وہ ایک فاتح ہیں جنھوں نے جنگ کی ہولناکیوں کو دیکھتے ہوئے اپنی فتوحات کا سلسلہ ترک کر دیا۔ کسی کے لیے وہ ایک درویش صفت ہیں جبکہ کسی کے لیے وہ درویش اور بادشاہ کا مجموعہ ہیں۔

کسی کے لیے وہ ایک سیاسی ذہن ہے جو انسانی اقدار کی گہری سمجھ رکھتا تھا۔ عصر حاضر کی معروف مورخ رومیلا تھاپر اپنی کتاب ’اشوک اینڈ دی ڈیکلائن آف دی موریا‘ میں لکھتی ہیں کہ اشوک نے اپنے وقت کی کئی طریقوں سے نمائندگی کی۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے اپنے وقت کو سمجھا اور ہندوستانی تناظر میں اس کی ضروریات پوری کیں۔

شہنشاہ اشوک کی کہانی ان کے دادا چندرگپت موریہ سے شروع ہوتی ہے جو پہلے پہل مگدھ ریاست کے تخت پر بٹھے تھے۔

اشوک چندرگپت موریہ کے پوتے تھے۔ 323 قبل مسیح میں سکندر کی موت کے ایک یا دو سال کے اندر اندر دریائے سندھ کے مشرق میں یونانی تسلط ختم ہونا شروع ہو گیا۔

چندرگپت موریہ نے پہلے تو دھنا نندا سے شکست کھائی لیکن پھر اسے شکست دے کر شمالی ہندوستان کے غیر متنازع حکمران بن گئے۔

چندرگپت موریہ کی فوج اپنے 24 سالہ دور حکومت میں ناقابل تسخیر رہی۔ 305 قبل مسیح میں جب بابل اور فارس کے نئے حکمران سلیوکس نے سکندر کے ہاتھوں کھوئی ہوئی زمینوں کو فتح کرنے کی کوشش کی تو اسے چندرگپت موریہ کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

چندرگپت موریہ کے بعد بندوسار مگدھ کے بادشاہ بنے۔ چانکیہ باپ کے بعد بیٹے بندوسار کی بھی رہنمائی کرنے لگے۔ ان کے پوتے اور شاگرد رادھاگپت نے اشوک کے مگدھ کا بادشاہ بننے میں اہم کردار ادا کیا۔

اے ایل باشم اپنی کتاب ’دی ونڈر دیٹ واز انڈیا‘ میں لکھتے ہیں کہ ’بندوسار کا بیٹا سوسیما ان کے تخت کا وارث یا ولی عہد تھا اور یہ خیال کیا جاتا تھا کہ اس کے بعد وہی مگدھ کا بادشاہ بنے گا۔‘

’بندوسار کے جانشینوں کی فہرست میں اشوک کا نام کافی نيچے تھا۔ وہ چھوٹے قد کا موٹا شخص تھا۔ اسے جلد کی بیماری تھی جس کی وجہ سے وہ بدصورت نظر آتا تھا۔‘

شاید یہی وجہ تھی کہ اس کے والد اسے پسند نہیں کرتے تھے اور اسے ممکنہ وارثوں کی فہرست سے نکال دیا تھا۔

یہی وجہ تھی کہ جب راجدھانی پاٹلی پتر (موجودہ پٹنہ) سے دور تکشلا میں بغاوت ہوئی تو راجہ بندوسار نے اپنے بیٹے اشوک کو اسے کچلنے کے لیے بھیجا۔

اس کے بعد اسے شہنشاہ کے نمائندے کے طور پر وسطی ہندوستان میں اجین بھیج دیا گیا۔ وہاں ودیشا میں انھیں ایک مقامی تاجر کی خوبصورت بیٹی مہادیوی ساکیا کماری سے محبت ہو گئی۔

رومیلا تھاپر اپنی کتاب ’اشوک اینڈ دی ڈیکلائن آف دی موریا‘ میں لکھتی ہیں کہ ’دیپ وامس میں اس شادی کا کوئی ذکر نہیں ہے، لیکن اشوک کے ان سے دو بچے مہندا اور سنگھامترا تھے، جنھیں بعد میں بدھ مت کی تبلیغ کے لیے سری لنکا بھیجا گیا تھا۔‘

’جب اشوک راجہ بنے تو مہادیوی نے پاٹلی پتر جانے کے بجائے ودیشا میں رہنے کو ترجیح دی۔ کہا جاتا ہے کہ دیوی بدھ مذہب کو ماننے والی تھی اور ودیشا اس وقت بدھ مت کا مرکز تھا۔‘

دوسری بات یہ کہ وہ ایک تاجر کی بیٹی تھی اور اس کی سماجی حیثیت شاہی خاندان کے لوگوں کی سطح پر نہیں تھی۔

بندوسار نے اشوک کے بڑے بھائی سوسیما کو اپنا جانشین منتخب کیا تھا۔ لیکن 274 قبل مسیح میں ایک اور بغاوت ہوئی اور اس بار شہزادہ سوسیما کو اس سے نمٹنے کے لیے بھیجا گیا۔

یہ بغاوت پچھلی بغاوت سے زیادہ سنگین تھی اس لیے شہزادہ سوسیما کو زیادہ دیر تک تکشیلا میں رہنا پڑا۔

اسی دوران بادشاہ بندوسارا شدید بیمار پڑ گیا۔ اس نے سوسیما کو واپس آنے کا حکم دیا اور اشوک کو اس کی جگہ تکشلا جانے کا حکم دیا۔

اسی دوران اشوک کا حامی وزیر رادھا گپتا نے مداخلت کی اور شاہی حکم کو روکنے کی کوشش کی۔ چارلس ایلن لکھتے ہیں کہ ’اشوک نے اپنی بیماری کا بہانہ کیا اور اپنے والد سے کہا کہ وہ اسے عارضی بادشاہ قرار دیں۔‘

یہ سنتے ہی بندوسار کو مرگی کا دورہ پڑا اور اس کی موت ہو گئی۔ جب سوسیما پاٹلی پترا واپس آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کے چھوٹے بھائی اشوک نے پاٹلی پترا پر قبضہ کر لیا ہے اور اس کے مرکزی دروازے کی حفاظت یونان سے لائے گئے کرائے کے فوجی کر رہے ہیں۔

پاٹلی پترا کے مشرقی دروازے پر سوسیما کو قتل کر دیا گیا جو کہ اقتدار کے لیے چار سالہ جدوجہد کی بنیاد بنا۔ اس دوران اشوک نے اپنے دیگر 99 سوتیلے بھائیوں کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا اس کے بعد ہی وہ اپنے آپ کو مگدھ کا مطلق العنان بادشاہ قرار دینے میں کامیاب ہوا۔

مورخ سنیل کھلنانی اپنی کتاب ’انکارنیشنز: انڈیا ان ففٹی لائیوز‘ میں لکھتے ہیں کہ ’قتل کیے جانے والے بھائیوں کی تعداد دراصل چھ تھی۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ تخت کے لیے خونریز جدوجہد کئی سال تک جاری رہی۔ اس وقت اشوک کی عمر 34 سال تھی۔‘

اشوک نے ایک دوسری شہزادی سے شادی کر کے اپنی تاجپوشی کا جشن منایا۔

اشوک کے حرم میں بہت سی عورتیں تھیں لیکن ان میں سے بہت سی انھیں پسند نہیں کرتی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ اشوک نے انھیں زندہ جلوا دیا تھا۔ شاید اسی لیے اسے ’کنڈ اشوک‘ بھی کہا جاتا تھا۔

پاٹلی پتر کے تخت پر جلوہ افروز ہونے کے بعد اشوک نے اپنی بیوی اور دو بچوں کو ودیشا سے بلا لیا۔

اشوک کی کم از کم چھ بیویاں تھیں۔ الہ آباد میں نصب نوشتہ میں کروواکی کو اشوک کی دوسری بیوی بتایا گیا ہے۔

اشوک کی سب سے پیاری اور اہم بیوی آسندھی مترا تھی جو اشوک کی حکمرانی کے 13 ویں سال میں فوت ہو گئی۔

اشوک 265 قبل مسیح میں بدھ مت کا پیرو بن گیا، حالانکہ اس نے خود اعتراف کیا کہ اس نے پہلے ڈیڑھ سال تک اس مذہب کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔

بدھ مت کا پیرو بننے کے دو سال کے اندر ان کے بچے مہندا اور سنگھامترا بھی بدھ بھکشو اور راہبہ بن گئے۔

اشوک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے انگریزوں سے پہلے ہندوستان کے سب سے بڑے علاقے پر حکومت کی۔

جس وقت اشوک تخت پر بیٹھا، روم اور کارتھیج کے درمیان پہلی پنک جنگ ہو رہی تھی۔ فارس میں ایک خونریز تصادم جاری تھا اور چینی شہنشاہ اپنی عظیم دیوار تعمیر کرا رہا تھا۔

اشوک نے 262 قبل مسیح میں کلنگ کے خلاف جنگ کی۔ اس جنگ میں ایک لاکھ لوگ مارے گئے اور جنگ کے بعد پیدا ہونے والے حالات کی وجہ سے اتنی ہی تعداد میں مزید لوگ مارے گئے۔

ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد کو یا تو قید کیا گیا یا جلاوطن کر دیا گیا۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر عام شہری تھے۔

پیٹرک اولیویل اپنی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’اشوک پورٹریٹ آف فلاسفر کنگ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’سمیت گوہا نے اس وقت کلنگ کی آبادی کا تخمینہ نو لاکھ 75 ہزار بتایا ہے۔ اگر آبادی کو 10 لاکھ بھی مان لیا جائے تو ہلاکتیں کل آبادی کا 20 فیصد ہوں گی اور اگر ہم قیدیوں کی تعداد کو بھی شامل کریں تو اس جنگ سے کل آبادی کا 35 فیصد متاثر ہوا ہے، اس نقطہ نظر سے اسے جنگ کے بجائے قتل عام یا نسل کشی کہنا ناانصافی نہیں ہوگی۔

گوتم بدھ کے پیروکار بنے

اس فتح نے اشوک کی سلطنت کو خلیج بنگال تک بڑھا دیا اور وہ اگلے 37 سال تک اس پر تسلط برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔ لیکن یہ فتح اس قدر خونی تھی کہ اس نے اشوک کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا۔

انھوں نے کھلے عام اس پر افسوس کا اظہار کیا اور ان کی زندگی میں بڑی تبدیلی آ گئی۔ اشوک نے گوتم بدھ کے نظریات کو اپنایا جو ہندوستان میں ابھی نئے نئے تھے۔

تنوع جو اشوک کے دور میں ہندوستانی معاشرے میں موجود تھا، پہلے کبھی نہیں تھا۔ اس طرح کے متنوع معاشرے کو ایک ساتھ رکھنے کے لیے ایک عالمی نقطہ نظر کی ضرورت تھی جو کافی لچیلی ہو۔

چارلس ایلن لکھتے ہیں کہ ’کلنگ کی جنگ نے اشوک کو ایک برائے نام بودھ سے ایک مذہبی بودھ میں تبدیل کر دیا۔ اس وقت سے شہنشاہ اشوک نے اپنی حکمرانی کو مہاتما بدھ کی تعلیمات میں موجود اخلاقی اقدار کے گرد ڈھالا۔

’ایک اچھے حکمران کے طور پر اشوک نے اپنے آپ کو اپنے لوگوں کے لیے دستیاب کرایا۔ لیکن صرف چند ایک ہی ان کے بولے ہوئے الفاظ سن سکتے تھے۔

'اشوک کی خواہش تھی کہ ساری دنیا ان کی بات سنے۔ اس لیے انھوں نے یہ پہل کی کہ انھیں تحریری زبان میں پیش کیا تاکہ وہ ہمیشہ زندہ رہیں۔‘

اشوک نے اپنے پیغامات پراکرت زبان میں لکھے تھے جو اس وقت ان کی پوری سلطنت میں بولی جاتی تھی۔ سنیل کھلنانی لکھتے ہیں کہ ’موریہ شہنشاہوں میں اشوک کا ابلاغ کا انداز منفرد تھا۔‘

ساتویں حکم نامے میں اشوک نے لکھا تھا کہ جہاں کہیں بھی پتھر کے ستون یا پتھر کے ٹکڑے ہوں وہاں ان کے الفاظ کندہ کیے جائیں تاکہ وہ طویل عرصے تک موجود رہیں۔

’جب تک میرے بیٹے پوتے حکمرانی کرتے رہیں یا جب تک سورج اور چاند چمکتے رہیں گے لوگ یہ احکامات پڑھ سکتے ہیں۔ زیادہ تر پتھر پر کندہ تحریروں میں اشوک کا ذکر ’وہ‘ کے طور پر کیا گیا ہے۔

لیکن بعض چٹانوں پر کندہ نوشتہ جات میں ’میں‘ کا بھی استعمال ہوا ہے جس کی وجہ سے ہمیں ان پتھروں کے نوشتہ جات میں ان کی حساسیت کی جھلک ملتی ہے۔

اشوک کے زیادہ تر چٹانوں پر کندہ نوشتہ جات پراکرت زبان کے برہمی رسم الخط میں ہیں۔ یونانی اور آرامی رسم الخط میں پتھر کے کچھ نوشتہ جات بھی ملے ہیں۔

اشوک نے ’دھم‘ کے تصور کو اپنایا۔ ’دھم‘ کی بنیاد روحانی پاکیزگی یا مقدس رسومات پر نہیں تھی بلکہ دنیاوی طرز عمل پر تھی۔

یہ خیال رواداری کے حق میں تھا اور تشدد کے خلاف تھا۔ رومیلا تھاپر کہتی ہیں کہ ’پہلا اصول جس کو اشوک نے سب سے زیادہ اہمیت دی وہ مختلف عقائد کا بقائے باہمی تھا۔ ان کا خیال تھا کہ سب کو بقائے باہمی کے جذبے کے ساتھ مل جل کر رہنا سیکھنا ہو گا۔‘

’آپ کو دوسرے لوگوں کے فرقوں کا احترام کرنا ہوگا، کیونکہ دوسروں کے فرقوں کا احترام کرنے سے ہی آپ اپنے فرقے کا احترام کر سکتے ہو۔‘

’یہ دھم کا ایک بنیادی اصول ہے۔ مجھے یہ دلچسپ لگتا ہے کہ اس پر کتنا زور دیا گیا ہے۔ اس وقت فرقوں کے درمیان بہت زیادہ دشمنی رہی ہو گی۔‘

دھم کے مطابق حکمران کا فرض ہے کہ وہ رعایا کی فلاح و بہبود، ان کی صحت اور خوشی کے بارے میں سوچے اور اس سمت میں کام کرے۔

سڑک کے کنارے برگد یا آم کے درخت لگانا اور مسافروں کے کھانے اور آرام کا انتظام کرنا بھی بادشاہ کا فرض ہے۔

اشوک کے سب سے زیادہ اثر انگیز خیالات 12ویں چٹان کے فرمان میں ہیں۔ جس میں مذہبی رواداری پر زور دیا گیا ہے۔ اشوک اسے زبان پر قابو رکھنا کہتے ہیں۔

چٹان کے نوشتہ میں لکھا ہے کہ ’جو شخص انتہائی عقیدت کے ساتھ اپنے مذہب کی تعریف کرتا ہے اور دوسرے مذاہب پر تنقید کرتا ہے وہ اپنے ہی مذہب کو نقصان پہنچاتا ہے۔ مذاہب کے درمیان ہم آہنگی ہونی چاہیے، ہر کسی کو دوسرے کے خیالات سننا چاہیے اور ان کا احترام کرنا چاہیے۔‘

اشوک کی موت
اشوک کی موت کے بعد موریہ سلطنت کا زوال شروع ہو گیا۔ یہ اس وقت شروع ہوا جب ان کا مذہبی عقیدہ اپنے عروج پر تھا۔

اشوک کی مذہبی عقیدت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ انھوں نے اپنا سارا خزانہ خالی کر دیا۔ بدھ مت کی کہانیوں کے مطابق انھوں نے اپنا سب کچھ عطیہ کر دیا۔

لی رونگزی اپنی کتاب ’دی گریٹ ڈائنیسٹی ریکارڈ آف ویسٹرن ریجن‘ میں لکھتے ہیں کہ ’جب اشوک بیمار تھا اور بستر مرگ پر تھا اور جان گیا تھا کہ اب وہ زندہ نہیں رہے گا تو اس وقت وہ اپنے تمام جواہرات اچھے مقاصد کے لیے عطیہ کرنا چاہتا تھا لیکن تب تک ان کے وزیر کا زور چلنے لگا تھا اور انھوں نے اشوک کو ایسا کچھ نہیں کرنے دیا جو وہ چاہتے تھے۔‘

اشوک کا انتقال 232 قبل مسیح میں ہوا۔

موریہ خاندان کا خاتمہ
برہدرتھ موریہ خاندان کا آخری بادشاہ ہوا جسے 81-180 قبل مسیح میں اس کے کمانڈر پشیامتر نے قتل کر دیا۔

اور پھر اس نے بعد میں شونگ خاندان کی بنیاد رکھی۔ موریہ خاندان کی سلطنت کل 137 سال تک قائم رہی۔

رومیلا تھاپر لکھتی ہیں کہ ’ہان اور رومن جیسی دیگر سلطنتوں کے مقابلے میں موریہ خاندان بہت ہی مختصر مدت کا تھا۔ اس کا عروج چندرگپت موریہ کی فتوحات کے ساتھ ہی ہوا۔ یہ اپنے پوتے اشوک کے دور میں اپنے عروج پر پہنچا، لیکن اس کے بعد اشوک کی سلطنت کا زوال شروع ہو گیا۔ بیٹے اور پوتے اپنے دادا کے قد کے نہیں تھے ان کی حکمرانی بھی بہت سے دعویداروں میں تقسیم تھی۔

وہ اپنے والد اور دادا کی طرح لکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ اشوک کی طرح پتھر کا کوئی نوشتہ نہیں چھوڑا۔

اشوک کی موت کے بعد موریہ سلطنت کا زوال شروع ہو گیا۔ یہاں تک کہ اشوک کو ہندوستانیوں نے بھلا دیا۔ آہستہ آہستہ پراکرت زبان اور برہمی رسم الخط کا استعمال بھی ختم ہو گیا اور لوگ نوشتہ جات پر لکھے پیغامات کو پڑھنا بھول گئے۔

قسمت کا کھیل دیکھیں کہ اشوک کو 19ویں صدی میں برطانوی مورخین ولیم جونز اور جیمز پرنسپ نے دوبارہ دریافت کیا۔

انھوں نے لوگوں کو برہمی رسم الخط کا مطلب سمجھا دیا۔

ہندوستان کی آزادی سے صرف ایک ماہ قبل جولائی 1947 میں دستور ساز اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے جواہر لعل نہرو نے ہندوستانی ترنگے کے بیچ میں اشوک کے چکر کو رکھ کر قومی پرچم کے ڈیزائن پر فیصلہ کرنے کی تجویز پیش کی۔

انھوں نے کہا کہ مجھے بہت خوشی ہے کہ ہم نے نہ صرف اشوک کی اس علامت کو اس جھنڈے کے ساتھ جوڑا ہے بلکہ ان لوگوں کو بھی جو نہ صرف ہندوستان بلکہ عالمی تاریخ کی اہم شخصیات تھیں۔

اشوک ہندوستانی عوام کے لیے ایسی متاثر کن شخصیت تھے کہ ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے کم و بیش اشوک کو نئی قوم کے سرپرست کا درجہ دیا۔

اشوک کے چار شیروں کو نہ صرف ہندوستانی ڈاک ٹکٹوں پر دکھایا گیا ہے بلکہ ہندوستان کا یہ ریاستی نشان پوری #ہندوستانی زندگی کا ایک اٹوٹ نشان بن گیا ہے۔

یہ پرامن بقائے باہمی کی علامت بھی ہے۔ شہنشاہ اشوک کا عوامی زندگی میں بھی تحمل اور ضبط نفس کا پیغام آج ہندوستانیوں کے لیے کسی ترغیب یا تحریک سے کم نہیں۔

29/08/2024

اے مدینے کے زائر خدا کیلئے
داستان سفر مجھکو یوں مت سنا
بات بڑھ جائیگی دل تڑپ جائیگا
میرے محتاط آنسو چھلک جائینگے
انکی چشم کرم کو ہے اسکی خبر
کس مسافر کو ہے کتنا شوق سفر
ہمکو اقبال جب بھی اجازت ملی
ہم بھی آقا ﷺ کے دربار تک جائینگے

"إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ"آنکھ میں افقی لکیر: اس کا مطلب ہے کہ جانور سبزی خور اور شکار ہے، اسکی آنکھ جگہ...
28/08/2024

"إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ"

آنکھ میں افقی لکیر: اس کا مطلب ہے کہ جانور سبزی خور اور شکار ہے، اسکی آنکھ جگہ کو ایک جامع نقطہ نظر سے دیکھ سکے۔
اسے وژن کا ایک وسیع میدان دیں اور پھر فرار ہو جائے۔

آنکھ میں عمودی لکیر
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہدف کو درست طریقے سے دیکھنے کے لیے جانور ایک گوشت خور شکاری ہے۔

’’بے شک ہم نے ہر چیز کو حکم کے ساتھ پیدا کیا ہے۔‘‘

آپ مکھیوں کو قائل نہیں کرسکتے کہ "پھول کچرے سے زیادہ خوبصورت ہیں"
28/08/2024

آپ مکھیوں کو قائل نہیں کرسکتے کہ "پھول کچرے سے زیادہ خوبصورت ہیں"

 #چین میں  #سلفر  #جھیل  چین کے شمال مغربی صوبے چنگھائی میں یارڈنگ کے علاقے میں پیلے رنگ کی گندھک کی ایک بہت بڑی جھیل ہے...
27/08/2024

#چین میں #سلفر #جھیل
چین کے شمال مغربی صوبے چنگھائی میں یارڈنگ کے علاقے میں پیلے رنگ کی گندھک کی ایک بہت بڑی جھیل ہے جو کہ سنہری پانی کا ایک پراسرار تالاب ہے جسے سلفر جھیل کہا جاتا ہے۔ یہاں کوئی پودا یا جانور نہیں ہے. جھیل کا رنگ موسموں اور آب و ہوا کے ساتھ بدل جاتا ہے۔

یہ پنجابی ہیں جن کو ماہ رنگ بلوچ کے مسنگ بھائیوں نے بےدردی سے مار کر سڑک کنارے پھینک دیا۔۔۔جانوروں کو بھی لوگ ایسا نہیں ...
27/08/2024

یہ پنجابی ہیں جن کو ماہ رنگ بلوچ کے مسنگ بھائیوں نے بےدردی سے مار کر سڑک کنارے پھینک دیا۔۔۔
جانوروں کو بھی لوگ ایسا نہیں مارتے یہ تو پھر انسان تھے مسلمان تھے اور سب سے بڑھ کر ایک انتہائی بیوقوف قوم (پنجابی) سے تعلق رکھتے تھے۔
پنجاب کے تعلیمی اداروں میں پنجابی کو سکالر شپ نہیں ملتا دیگر اقوام کو ملتا ہے۔یہاں کی یونیورسٹیوں میں انہوں نے اپنی مسلح تنظیمیں بنارکھی ہیں ہاسٹلز پر قبضہ کررکھا ہے جہاں سے نکل کر یہ مسنگ ہوتے ہیں اورملک بھر میں فتنہ کا باعث بنتے ہیں۔
بیوقوف پنجابی قوم کی اکثریت آج بھی یہی کہتی ہیں صوبائی عصبیت کو ہوا نہ دو بھائی چارہ قائم کرو۔
لیکن اب بہت ہوا ہم اپنے غریب مزدور اور راہگیر ان ظالموں کے ہاتھوں نہیں مروائنگے۔
اب ہم اس ظلم پر۔کھلے عام آواز بلند کرینگے کہ پنجاب کے کونے کونے میں دیگر اقوام ہر جائز ناجائز کاروبار کریں اپنی نسلیں پالیں اور پھر اپنے علاقوں میں غریب پنجابیوں کو گزرنے بھی نہ دیں۔
پنجابی بھائیوں سے گزارش ہے نیکسٹ پنجاب میں جب کسی دوکاندار کسی ہوٹل والے یا کوئی بھی لین دین کریں تو یہ۔ضرور سوچیں کہ کل کو آپکی خریداری اپکے پیسے خدانخواستہ آپکے ہی کسی رشتہ دار کسی ہمسائے یا کسی شہر دار پنجابی بھائی کی بے گناہ شہادت کا۔سبب نہ بن جائے۔

 #پاکستان  🇵🇰کیسا ہے اور کیسا دکھایا جاتا ہے 😡منفی پہلو: پاکستان میں 800 سے زیادہ فیول پمپ کا نیٹ ورک رکھنے والی فرانس ک...
26/08/2024

#پاکستان 🇵🇰
کیسا ہے اور کیسا دکھایا جاتا ہے 😡
منفی پہلو: پاکستان میں 800 سے زیادہ فیول پمپ کا نیٹ ورک رکھنے والی فرانس کی کمپنی #ٹوٹل انرجی نے اپنا 50 فیصد بزنس یا 26.5 ملین #ڈالر مالیت کے شیئرز بیچ دیے۔
مثبت پہلو: سویٹزرلینڈ کے #گنوور گروپ نے پاکستان میں 800 سے زیادہ فیول پمپ کا نیٹ ورک رکھنے والی فرانس کی کمپنی ٹوٹل انرجی کے 50 فیصد بزنس یا 26.5 ملین ڈالر مالیت کے شیئرز خرید لیے۔
یعنی پہلے ایک #یورپی کمپنی تھی اب دو یورپی کمپنیاں ہونگی۔ یعنی زیادہ سرمایہ کاری ۔۔ زیادہ سہولیات۔
دوسری خبر
منفی پہلو: #شیل انرجی اپنے 77.42 فیصد حصص فروخت کر دیئے۔
مثبت پہلو: سعودی کمپنی #وافی انرجی نے شیل انرجی کے 77.42 فیصد حصص خرید لیے۔
یعنی عالمی نمبر آئل ایکسپورٹ ملک #سعودیہ کی بڑی کمپنی پاکستان میں آگئی۔ (اس کے علاؤہ دنیا کی سب سے بڑی آئل کمپنی #آرامکو نے #گو انرجی کے شئیرز خریدے ہیں وہ بھی #پاکستان میں آچکی ہے)
اب ملکی میڈیا کا حال دیکھیں یا پھر ڈیجیٹل ٹیررسٹوں کو دیکھیں تو وہ صرف منفی پہلو ہی بیان کرتے ہیں۔ جس سے عوام۔۔ سرمایہ کاروں ۔۔ کاروباریوں کے اندر خوف پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے احباب عالمی میڈیا۔۔ عرب میڈیا کا بغور اور روزانہ جائزہ لیا کریں تاکہ حقائق سے باخبر رہیں۔ مزکورہ بالا خبریں اور ان کے مثبت پہلو #عرب میڈیا کے انڈیپینڈنٹ اردو سے حاصل کی گئی ہیں۔ اگر جیو ۔۔ سماء ۔۔ اے آر وائی ہوتے تو وہ منفی پہلو والی خبریں ہی لگاتے۔اور جعلی آئیڈیز اور چینلز والے رات کو (نعوذباللہ) پاکستان کو مٹاکرہی سوتے ہیں۔لیکن پاکستان اللہ کے کرم سے قائم تھا ہے اور رہے گا۔ انشاء اللہ

26/08/2024

مہرنگ کے مسنگ پرسن نے صرف 2024 میں 309 پنجابی مزدوروں کو شہید کرچکے۔35 کی جان آج لی

اپنا تن کا ماس کھلانے والے پنجاب کے غریب مزدور بیٹوں کو شناختی کارڈ دیکھ کر بلوچستان میں شہید کیا گیا۔اسکے لئے کوئی میڈی...
26/08/2024

اپنا تن کا ماس کھلانے والے پنجاب کے غریب مزدور بیٹوں کو شناختی کارڈ دیکھ کر بلوچستان میں شہید کیا گیا۔
اسکے لئے کوئی میڈیا کوئی انسانی حقوق والا آواز نہیں اٹھائے گا۔کیونکہ یہ آستین کے سانپوں کو پالنے والے پنجابی ہیں۔جو ایک دوسرے سے انکے لئے لڑ پڑتے ہیں۔
وہ پنجابی جو انکے ڈراموں سے متاثر ہوتے ہیں انکو اپنی فوج کی اہمیت سمجھ لینی چاہئیے کہ یہ بھیڑ کے روپ میں چھپے بھیڑیوں کا علاج فوج نہ کرے تو یہ سارے ملک کی بوٹیاں نوچ کھائیں۔

🚦 #کچے کا علاقہ🚦 #کچے کے علاقے کے بارے اپ سب کئی دہائیوں سے سنتے آ رہے ہیں ، مگر یہ کچے کا علاقہ کیا ہوتا ہے اور کہاں وا...
26/08/2024

🚦 #کچے کا علاقہ🚦
#کچے کے علاقے کے بارے اپ سب کئی دہائیوں سے سنتے آ رہے ہیں ، مگر یہ کچے کا علاقہ کیا ہوتا ہے اور کہاں واقع ہے، اور کتنا بڑا ہے ، اس کے بارے آج سب کچھ جانتے ہیں ،
انگریز دور میں دریاؤں کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کے لیے مختلف بند ، بیراج وغیرہ بنائے گئے جن کے باعث ہی دنیا کا بہترین نہری نظام وجود میں آیا ،
بنائے گئے ان دریائی حفاظتی بندوں کے اندر کافی بڑا علاقہ چھوڑا گیا جو کہ بارشوں یا کسی بھی وجہ سے دریاؤں میں سیلابی صورتحال کے باعث ، دریائی پانی کے آزادانہ بہاؤ کے لیے تھا ،
حفاظتی بند کے اندر جو رقبہ آیا اس کو " کچے کا علاقے " کا نام دیا گیا ، اور بند سے باہر علاقے کو پکے کا علاقہ قرار دیا گیا
جب بھی دریاؤں میں کسی بھی وجہ سے سطح آب بلند ہوتی ہے تو یہ علاقے آہستہ آہستہ پانی سے بھرنا شروع ہو جاتے ہیں ، اور کبھی کبھی کسی سال بہت زیادہ پانی آنے اور سیلابی صورتحال ہونے پہ تقریباً سارا ہی علاقہ جو بند کے اندر ہوتا ہے زیر آب آ جاتا ہے
اب سوال یہ ہے کہ کیا کچے کا علاقہ کوئی مخصوص جگہ ہے، تو اس کا جواب ہے نہیں ، ہر دریا، چاہے وہ جہلم ہو ،راوی ہو چناب ہو ، سندھ ہو اس کے بند کے اندر کا علاقہ کچے کا علاقہ ہے، لیکن ان میں جو کچے کا علاقہ سب سے بڑا اور مشہور ہے اور طرح طرح واقعات اس سے منصوب ہیں وہ دریائے سندھ کے دونوں اطراف کا کچے کا علاقہ ہے ،
جو کہ پاکستان کے تین صوبوں پنچاب ، سندھ ، بلوچستان کے بارڈ پہ واقع لاکھوں ایکڑ رقبے پہ مشتمل ہے ، ( کم و بیش 400 کلو میٹر)
اس سارا رقبہ کی ملکیت محکمہ جنگلات اور ریونیو کے پاس ہے،
پنچاب کے جنوبی حصے رحیم یارخان ، صادق آباد ، راجن پور جب کہ سندھ کہ شمالی علاقوں شکار پور ، گھوٹکی ، سکھر اور کشمور وغیرہ کی زمینیں اس کچے کے علاقے میں شامل ہیں
کچے کے اس علاقے میں شر، جاگرانی ، جتوئی ، تیغانی، بلوچ ، چاچڑ ، میرانی، سندرانی سمیت بیشتر قبائل آباد ہیں،
جن دنوں کچے کے علاقے میں پانی نہیں ہوتا یہ لوگ وہاں کھیتی باڑی، گلہ بانی وغیرہ جسے پیسے اپناتے ہیں،
کچے کی زمینیں پاکستان کی سب سے زرخیز زمینوں میں شمار ہوتی ہیں

Address

Abdul Rehman Shaheed Road Gujrat
Gujrat
50700

Telephone

053 9260301

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Live Pakistan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share

Nearby media companies