02/04/2023
*لوگ اکثر پریشان ہوتے ہیں کہ خیرات کسی مستحق کو دینا چاہیے*
*مگر لے دے کے رمضان کی آمد کے ساتھ ہی سڑکوں، مسجدوں کے باہر، اور گلیوں میں امڈ آنے والے بھکاریوں کے علاوہ کوئی اور مستحق ملتا ہی نہیں۔ یعنی انکو ڈھونڈنا مشکل ہے۔*
*حقیقت یہ ہے کہ ہم صدقہ و خیرات کو سر سے بوجھ کی طرح اتار پھینکنا چاہتے ہیں۔ تو کم سے کم فاصلے پر کم سے کم وقت میں یہ فرض ادا ہوجائے، یہی کافی ہے۔*
*اگر واقعی آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی خیرات کسی مستحق کے کام آئے تو کچھ ہمت کیجیے۔ انکو ڈھونڈیے۔ ان تک خود جائیے اور ذرا شرمندگی سے نظر جھکا کر امداد کا تھیلا پکڑا کر الٹے قدموں لوٹ آئیے۔*
*مستحق کون ہیں؟*
*جو نہیں مانگتے مگر پیٹ کاٹتے ہیں۔ جن کے بچے حسرت سے پکوڑوں سموسوں کو دیکھتے ہیں۔ جو گھر میں ہمسائیوں سے آنے والی خوشبو سے بے چین ہوجاتے ہیں، مگر تھوک نگل کر رات والا سالن کھالیتے ہیں۔*
*پہلے حق تو جاننے والوں میں مستحقین کا ہے، یقین کریں وہ رشتہ دار جو غریب ہیں مگر آپ سے انکی بنتی نہیں، ان کی مدد کرنا دہرے ثواب کا باعث ہوگا۔ پہلا حق رشتے داروں کا ہے۔*
*مقامی علماء سے سفید پوش مگر محتاج لوگوں کی معلومات لے لیں اور رات کی تاریکی میں انکے گھر جاکر گھنٹی بجائیں یا دستک دیں، اور جو گھر کا فرد باہر نکلے اسکو راشن کا تھیلا، یا نقد خیرات دے دیں۔*
*ان سفید پوش گھرانوں میں راشن یا نقدی بھیجیے*۔
*چھوٹی گلیوں میں دکاندار کے پاس جائیے، عصر کے بعد۔ آپ کو ضرور کچھ لوگ ملیں گے جو ادھار لیتے ہونگے۔ انکا ادھار چکا دیجیے۔*
*ہوسکے تو دکاندار سے پوچھ کر کسی لمبے ادھار والے مستحق کو بلا کر اسکا ادھار چکا دیجیے۔*
-
*چھوٹے تندوروں پر روٹی لگانے والے، ویٹر اور صفائی والے سب اتنا ہی کماتے ہیں کہ انکے گھر فاقوں سے بچ سکیں، انکو بھی آپ کی خیرات کی ضرورت ہے۔ ان میں سے اکثر خیرات لینے سے انکار کر دیں گے۔ انکی ٹھوڑی پکڑ لیجیے، منت کر کے "تحفے کے طور" پر دے دیجیے۔*
-
*مسجدوں میں بوڑھوں کے لباس سے اندازہ ہوجائیگا۔ نہیں تو جوتے سے۔*
*واپس جاتے ہوئے سلام کرکے ہزار پانچ سو تحفتاً ان کو تھما دیجیے۔ وہ بچوں کے لیے ضرور کچھ ایسا لے جائینگے، جن کی انکو ضرورت ہے۔*
*بازاروں میں ریڑھیوں یا ہاتھوں پر سودا بیچتے ہوئے معمر لوگوں کو دیجیے۔*
*مگر ایسے لوگوں کو نہیں جو پنسلیں ہاتھ میں لیے اصل میں بھ