Al-Duha Research Institute

Al-Duha Research Institute Welcome to Al-Duhaa Research Institute. We offer tailored courses, seminars, workshops, and publications for cutting-edge research and professional development.

Join us to explore, learn, and innovate.

25/08/2024

In this video, you'll learn about the book "Shah Shams Tabriz (رحمۃ اللہ علیہ)," which covers his biography.









Admission Bahauddin Zakria University
25/08/2024

Admission Bahauddin Zakria University

14/08/2024

دل سے نکلے گی نہ مر کر بھی وطن کی الفت
میری مٹی سے بھی خوشبوئے وفا آئے گی

Eid ul Azha Mubarak
17/06/2024

Eid ul Azha Mubarak










06/06/2024

In this POdcast You can know about
How to Earn Money
Information Technology
Artificial Intelligence
Digital Marketing
Web Development
Graphic Designing
App Development
Matter of Interest
Game playing and Development
Ecommerce
B to B
B to C
C to C























امام ابن مسکویہ،امام ابن حزم اور امام شاہ ولی اللہ کی تحریرات اور فکر جدید کے تناظر میں مسلم نوجوانوں کی اخلاقی اصلاح کا...
29/05/2024

امام ابن مسکویہ،امام ابن حزم اور امام شاہ ولی اللہ کی تحریرات اور فکر جدید کے تناظر میں مسلم نوجوانوں کی اخلاقی اصلاح کا علمی جائزہ

















19/05/2024

آ یت طیبہ در ثناء مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم

رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِكَ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُزَكِّیْهِمْؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(129)
ترجمہ:
اے ہمارے رب! اور ان کے درمیان انہیں میں سے ایک رسول بھیج جواِن پر تیری آیتوں کی تلاوت فرمائے اور انہیں تیری کتاب اور پختہ علم سکھائے اور انہیں خوب پاکیزہ فرمادے۔ بیشک تو ہی غالب حکمت والاہے۔
بحوالہ ضیاء النبی

17/05/2024

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ مبارک بروایت حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ مبارک بیان کرتے تو فرماتے کہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا قد نہ تو زیادہ لمبا تھا اور نہ ہی بلکل پست، بلکہ عام لوگوں کی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قد درمیانہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک بہت زیادہ پیچ دار بھی نہیں تھے اور نہ بالکل سیدھے تھے بلکہ تھوڑے سے پیچ دار تھے، نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھاری بھر کم تھے اور نہ ہی چہرہ بالکل گول تھا بلکہ تھوڑی سی گولائی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ سفیدی سرخی مائل تھا، آنکھیں سیاہ اور پلکیں لمبی تھیں، جوڑوں کی ہڈیاں موٹی مضبوط اور گوشت سے پر تھیں، جسم پر ضرورت سے زیادہ بال نہ تھے، سینہ سے لے کر ناف تک بالوں کی باریک لکیر تھی، ہاتھ اور پاؤں موٹے اور گوشت سے بھرے ہوئے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے تو پوری قوت کے ساتھ چلتے گویا کہ نشیب کی طرف اتر رہے ہیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کی طرف متوجہ ہوتے تو اس کی طرف پورے دھیان کے ساتھ متوجہ ہوتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں کے درمیان مہر نبوت تھی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ کشادہ دل اور تمام لوگوں سے زیادہ راست گو تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ نرم خُو تھے، تمام لوگوں سے زیادہ ملنسار تھے، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اچانک دیکھتا مرعوب ہو جاتا اور جو پہچانتے ہوئے ملتا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت بیان کرنے والا یہ کہتا ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم (کی وفات) سے قبل بھی اور بعد میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کوئی انسان نہیں دیکھا۔

15/05/2024

Upcoming Podcast with Dr.Aly Channar
In Sha Allah.























09/05/2024

نباض عصر ،مفکر اسلام،مفسر قرآن ،عظیم۔سیرت نگار،ضیاء الامت حضرت جسٹس پیر محمد کرم کرم شاہ الازہری رح کا نعت گوئی کے حوالہ سے نقطہ نظر۔




























08/05/2024
05/05/2024


وراثت کی تقسیم کا مکمل اور جامع قانونی طریقہ کار:

(١): جائیداد حقداروں میں متوفی پر واجب الادا قرض دینے اور وصیت کو پورا کرنے کے بعد تقسیم ہوگی.

(٢): اگر صاحب جائیداد خود اپنی جائیداد تقسیم کرے تو اس پر واجب ہے کہ پہلے اگر کوئی قرض ہے تو اسے اتارے، جن لوگوں سے اس نے وعدے کیۓ ہیں ان وعدوں کو پورا کرے اور تقسیم کے وقت جو رشتےدار، یتیم اور مسکین حاضر ہوں ان کو بھی کچھ دے.

(٣): اگر صاحب جائیداد فوت ہوگیا اور اس نے کوئی وصیت نہیں کی اور نہ ہی جائیداد تقسیم کی تو متوفی پر واجب الادا قرض دینے کے بعد جائیداد صرف حقداروں میں ہی تقسیم ہوگی.

جائیداد کی تقسیم میں جائز حقدار:

(١): صاحب جائیداد مرد ہو یا عورت انکی جائیداد کی تقسیم میں جائیداد کے حق دار اولاد، والدین، بیوی، اور شوہر ہوتے ہیں.

(٢): اگر صاحب جائیداد کے والدین نہیں ہیں تو جائیداد اہل خانہ میں ہی تقسیم ہوگی.

(٣): اگر صاحب جائیداد کلالہ ہو اور اسکے سگے بہن بھائی بھی نہ ہوں تو کچھ حصہ سوتیلے بہن بھائی کو جاۓ گا اور باقی نزدیکی رشتے داروں میں جو ضرورت مند ہوں نانا، نانی، دادا، دادی، خالہ، ماموں، پھوپھی، چچا، تایا یا انکی اولاد کو ملے

(1): شوہر کی جائیداد میں بیوی یا بیویوں کا حصہ:

(١): شوہر کی جائیداد میں بیوی کا حصہ آٹھواں (1/8) یا چوتھائی (1/4) ہے.

(٢): اگر ایک سے زیادہ بیویاں ہونگی تو ان میں وہی حصہ تقسیم ہوجاۓ گا.

(٣): اگر شوہر کے اولاد ہے تو جائیداد کا آٹھواں (1/8) حصہ بیوی کا ہے، چھٹا (1/6) حصہ شوہر کے والدین کا ہے اور باقی بچوں کا ہے.

(٤): اگر شوہر کے اولاد میں فقط لڑکیاں ہی ہوں دو یا زائد تو جائیداد کا دو تہائی (2/3) حصہ لڑکیوں کا ہوگا، بیوی کیلئے آٹھواں (1/8) حصہ اور جائیداد کا چھٹا (1/6) حصہ شوہر کے والدین کیلئے ہے.

(٥): اگر شوہر کے اولاد میں صرف ایک لڑکی ہو تو جائیداد کا نصف (1/2) حصہ لڑکی کا ہے، بیوی کیلئے جائیداد کا آٹھواں (1/8) حصہ ہے اور شوہر کے والدین کا چھٹا (1/6) حصہ ہے.

(٦): اگر شوہر کے اولاد نہیں ہے تو بیوی کا حصہ چوتھائی (1/4) ہو گا اور باقی جائیداد شوہر کے والدین کی ہوگی.

(٧): اگر کوئی بیوی شوہر کی جائیداد کی تقسیم سے پہلے فوت ہوجاتی ہے تو اسکا حصہ نہیں نکلے گا.

(٨): اگر بیوہ نے شوہر کی جائیداد کی تقسیم سے پہلے دوسری شادی کرلی تو اسکو حصہ نہیں ملے گا.

(٩): اور اگر بیوہ نے حصہ لینے کے بعد شادی کی تو اس سے حصہ واپس نہیں لیا جاۓ گا.

(2): بیوی کی جائیداد میں شوہر کا حصہ:

(١): بیوی کی جائیداد میں شوہر کا حصہ نصف (1/2) یا چوتھائی (1/4) ہے.

(٢): اگر بیوی کے اولاد نہیں ہے تو شوہر کیلئے جائیداد کا نصف (1/2) حصہ ہے اور نصف (1/2) حصہ بیوی کے ماں باپ کا ہے.

(٣): اگر بیوی کے اولاد ہے تو شوہر کیلئے جائیداد کا چوتھائی (1/4) حصہ ہے، اور چھٹا (1/6) حصہ بیوی کے ماں باپ کا ہے اور باقی بچوں کا ہے.

(٤): اگر بیوی کے اولاد میں فقط لڑکیاں ہی ہوں دو یا زائد تو جائیداد کا دو تہائی (2/3) حصہ لڑکیوں کا ہوگا، شوہر کیلئے چوتھائی (1/4) حصہ اور باقی جائیداد بیوی کے والدین کیلئے ہے.

(٥): اگر بیوی کے اولاد میں صرف ایک لڑکی ہو تو جائیداد کا نصف (1/2) حصہ لڑکی کا ہے، شوہر کیلئے جائیداد کا چوتھائی (1/4) حصہ ہے اور بیوی کے والدین کا چھٹا (1/6) حصہ ہے.

(٦): اگر شوہر، بیوی کے والدین کی طرف سے جائیداد ملنے سے پہلے فوت ہو جاۓ تو اس میں شوہر کا حصہ نہیں نکلے گا.

(٧): اگر بیوی اپنے والدین کی جائیداد تقسیم ہونے سے پہلے فوت ہوگئی اور اسکے بچے ہیں تو بیوی کا اپنے والدین کی طرف سے حصہ نکلے گا اور اس میں شوہر کا حصہ چوتھائی (1/4) ہوگا اور باقی بچوں کو ملے گا.

(٨): اگر بیوی اپنے والدین کی جائیداد تقسیم ہونے سے پہلے فوت ہوگئی اور اسکے اولاد بھی نہیں ہے تو اسکے شوہر کو حصہ نہیں ملے

(3): باپ کی جائیداد میں اولاد کا حصہ:

(١): باپ کی جائیداد میں ایک لڑکے کیلئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے.

(٢): باپ کی جائیداد میں پہلے باپ کے والدین یعنی دادا، دادی کا چھٹا (1/6) حصہ، اور باپ کی بیوہ یعنی ماں کا آٹھواں (1/8) حصہ نکالنے کے بعد جائیداد اولاد میں تقسیم ہوگی.

(٣): اگر اولاد میں فقط لڑکیاں ہی ہوں، دو یا زائد تو جائیداد کا دو تہائی (2/3) حصہ لڑکیوں کا ہوگا، آٹھ واں (1/8) حصہ بیوہ ماں کا ہوگا اور چھٹا (1/6) حصہ باپ کے والدین کوملے گا.

(٤): اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اس کیلئے جائیداد کا نصف (1/2) حصہ ہے، آٹھواں (1/8) حصہ بیوہ ماں کیلئے ہے اور چھٹا (1/6) حصہ باپ کے والدین کیلئے ہے.

(٥): اگر باپ کے والدین یعنی دادا یا دادی جائیداد کی تقسیم کے وقت زندہ نہیں ہیں تو انکا حصہ نہیں نکالا جاۓ گا.

(٦): اگر کوئی بھائی باپ کی جائیداد کی تقسیم سے پہلے فوت ہوگیا اور اسکی بیوہ اور بچے ہیں تو بھائی کا حصہ مکمل طریقہ سے نکالا جاۓ گا.

(٧): اگر کوئی بہن باپ کی جائیداد کی تقسیم سے پہلے فوت ہوجاۓ اور اسکا شوہر اور بچے ہوں تو شوہر اور بچوں کو حصہ ملے گا. لیکن اگر بچے نہیں ہیں تو اسکے شوہر کو حصہ نہیں ملے گا.

(4): ماں کی جائیداد میں اولاد کا حصہ:

(١): ماں کی جائیداد میں ایک لڑکے کیلئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے.

(٢): جائیداد ماں کے والدین یعنی نانا نانی اور باپ کا حصہ نکالنے کے بعد اولاد میں تقسیم ہوگی.

(٣): اور اگر اولاد میں فقط لڑکیاں ہی ہوں دو یا زائد تو جائیداد کا دو تہائی (2/3) حصہ لڑکیوں کا ہے، باپ کیلئے چوتھائی (1/4) حصہ اور باقی جائیداد ماں کے والدین کیلئے ہے.

(٤): اور اگر اولاد میں صرف ایک لڑکی ہو تو جائیداد کا نصف (1/2) حصہ لڑکی کا ہے، باپ کیلئے جائیداد کا چوتھائی (1/4) حصہ ہے اور ماں کے والدین کا چھٹا (1/6) حصہ ہے.

(٥): اگر ماں کے والدین تقسیم کے وقت زندہ نہیں ہیں تو انکا حصہ نہیں نکالا جاۓ گا.

(٦): اور اگر باپ بھی زندہ نہیں ہے تو باپ کا حصہ بھی نہیں نکالا جاۓ گا ماں کی پوری جائیداد اسکے بچوں میں تقسیم ہوگی.

(٧): اگر ماں کے پہلے شوہر سے کوئی اولاد ہے تو وہ بچے بھی ماں کی جائیداد میں برابر کے حصہ دار ہونگے.

(5): بیٹے کی جائیداد میں والدین کا حصہ:

(١): اگر بیٹے کے اولاد ہو تو والدین کیلئے جائیداد کا چھٹا (1/6) حصہ ہے.

(٢): اگر والدین میں صرف ماں ہو تو چھٹا (1/6) حصہ ماں کو ملے گا اور اگر صرف باپ ہو تو چھٹا (1/6) حصہ باپ کو ملے گا اور اگر دونوں ہوں تو چھٹا (1/6) حصہ دونوں میں برابر تقسیم ہو گا.

(٣): اگر بیٹے کے اولاد نہیں ہے لیکن بیوہ ہے اور بیوہ نے شوہر کی جائیداد کے تقسیم ہونے تک شادی نہیں کی تو اس کو جائیداد کا چوتھائی (1/4) حصہ ملے گا اور باقی جائیداد بیٹے کے والدین کی ہوگی.

(٤): اگر بیٹے کی اولاد میں فقط لڑکیاں ہی ہوں دو یا زائد تو جائیداد کا دو تہائی (2/3) حصہ لڑکیوں کا ہے، بیٹے کی بیوہ کیلئے آٹھواں (1/8) حصہ اور بیٹے کے والدین کا چھٹا (1/6) حصہ ہے.

(٥): اگر اولاد میں صرف ایک لڑکی ہو تو جائیداد کا نصف (1/2) حصہ لڑکی کا ہے، بیٹے کی بیوہ کیلئے آٹھواں (1/8) حصہ اور بیٹے کے والدین کا چھٹا (1/6) حصہ ہے.

(٦): اگر بیٹا رنڈوا ہے اور اسکے کوئی اولاد بھی نہیں ہے تو اسکی جائیداد کے وارث اسکے والدین ہونگے جس میں ماں کیلئے جائیداد کا ایک تہائی (1/3) حصہ ہے اور دو تہائی (2/3) حصہ باپ کا ہے اور اگر بیٹے کے بہن بھائی بھی ہوں تو اسکی ماں کیلئے چھٹا (1/6) حصہ ہے اور باقی باپ کا ہے.

(6): بیٹی کی جائیداد میں والدین کا حصہ:

(١): اگر بیٹی کے اولاد ہے تو والدین کیلئے جائیداد کا چھٹا (1/6) حصہ ہے.

(٢): اگر والدین میں صرف ماں ہو تو چھٹا (1/6) حصہ ماں کو ملے گا اور اگر صرف باپ ہو تو چھٹا (1/6) حصہ باپ کو ملے گا اور اگر دونوں ہوں تو چھٹا (1/6) حصہ دونوں میں برابر تقسیم ہو گا.

(٣): اگر بیٹی کے اولاد نہیں ہے لیکن شوہر ہے تو شوہر کو جائیداد کا نصف (1/2) حصہ ملے گا اور نصف (1/2) جائیداد بیٹی کے والدین کی ہوگی.

(٤): اور اگر بیٹی کی اولاد میں فقط لڑکیاں ہی ہوں دو یا زائد تو جائیداد کا دو تہائی (2/3) حصہ لڑکیوں کا ہے، بیٹی کے شوہر کیلئے ایک چوتہائی (1/4) حصہ اور باقی والدین کا ہے.

(٥): اور اگر اولاد میں صرف ایک لڑکی ہو تو جائیداد کا نصف (1/2) حصہ لڑکی کا ہے، بیٹی کے شوہر کیلئے چوتہائی (1/4) حصہ اور والدین کا چھٹا (1/6) حصہ ہے.

(٦): اگر بیٹی بیوہ ہو اور اسکے اولاد بھی نہیں ہے تو جائیداد کے وارث اسکے والدین ہونگے جس میں ماں کیلئے جائیداد کا ایک تہائی (1/3) حصہ ہوگا اور اگر بیٹی کے بہن بھائی ہیں تو ماں کیلئے جائیداد کا چھٹا (1/6) حصہ ہوگا اور باقی باپ کو ملے گ

(7): کلالہ:

کلالہ سے مراد ایسے مرد اور عورت جنکی جائیداد کا کوئی وارث نہ ہو یعنی جنکی نہ تو اولاد ہو اور نہ ہی والدین ہوں اور نہ ہی شوہر یا بیوی ہو.

(١): اگر صاحب میراث مرد یا عورت کلالہ ہوں، اسکے سگے بہن بھائی بھی نہ ہوں، اور اگر اسکا صرف ایک سوتیلہ بھائی ہو تو اس کیلئے جائیداد کا چھٹا (1/6) حصہ ہے، یا اگر صرف ایک سوتیلی بہن ہو تو اس کیلئے جائیداد کا چھٹا (1/6) حصہ ہے.

(٢): اگر بہن، بھائی تعداد میں زیادہ ہوں تو وہ سب جائیداد کے ایک تہائی (1/3) حصہ میں شریک ہونگے.

(٣): اور باقی جائیداد قریبی رشتے داروں میں اگر دادا، دادی یا نانا، نانی زندہ ہوں یا چچا، تایا، پھوپھی، خالہ، ماموں میں یا انکی اولادوں میں جو ضرورت مند ہوں ان میں ایسے تقسیم کی جاۓ جو کسی کیلئے ضرر رساں نہ ہو.

(8): اگر کلالہ کے سگے بہن بھائی ہوں:

(١): اگر کلالہ مرد یا عورت ہلاک ہوجاۓ، اور اسکی ایک بہن ہو تو اسکی بہن کیلئے جائیداد کا نصف (1/2) حصہ ہے اور باقی قریبی رشتے داروں میں ضرورت مندوں کیلئے ہے.

(٢): اگر اسکی دو بہنیں ہوں تو ان کیلئے جائیداد کا دو تہائی (2/3) حصہ ہے اور باقی قریبی رشتے داروں میں ضرورت مندوں کیلیے ہے.

(٣): اگر اسکا ایک بھائی ہو تو ساری جائیداد کا بھائی ہی وارث ہوگا.

(٤): اگر بھائی، بہن مرد اورعورتیں ہوں تو ساری جائیداد انہی میں تقسیم ہوگی مرد کیلئے دوگنا حصہ اسکا جوکہ عورت کیلئے ہے.

الله تمہارے لئے کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہوجاؤ اور الله ہر شے کا جاننے والا ہے.

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اور ہر ترکہ کیلئے جو ماں باپ اور عزیز و اقارب چھوڑیں ہم نے وارث قرار دئیے ہیں اور جن سے تم نے عہد کر لئے ہیں ان کا حصہ ان کو دیدو بیشک الله ہر شے پر گواہ ہے. (4:33)

مردوں کیلئے اس میں جو ان کے والدین اور اقرباء چھوڑیں ایک حصہ ہے اور عورتوں کیلئے بھی اس میں جو ان کے والدین اور اقرباء چھوڑیں تھوڑا یا زیادہ مقرر کیا ہوا ایک حصہ ہے. (4:7)

اور جب رشتہ دار و یتیم اور مسکین تقسیم کے موقع پر حاضر ہوں تو انکو بھی اس میں سے کچھ دے دو اور ان سے نرمی کے ساتھ کلام کرو. (4:8)

الله تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں وصیت کرتا ہے کہ ایک لڑکے کیلئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے اور اگر فقط لڑکیاں ہی ہوں دو یا زائد تو ترکے کا دو تہائی (2/3) ان کا ہے اور اگر وہ ایک ہی لڑکی ہو تو اس کیلئے نصف (1/2) ہے اور والدین میں سے ہر ایک کیلئے اگر متوفی کی اولاد ہو تو ترکے کا چھٹا (1/6) حصہ ہے اور اگر متوفی کی کوئی اولاد نہ ہو تو اس کے والدین ہی اس کے وارث ہوں تو ماں کیلئے ترکہ کا ایک تہائی (1/3) حصہ ہے اور اگر متوفی کے بہن بھائی بھی ہوں تو اس کی ماں کیلئے چھٹا (1/6) حصہ ہے بعد تعمیل وصیت جو وہ کر گیا ہو یا بعد اداۓ قرض کے تم نہیں جانتے کہ تمہارے آباء یا تمہارے بیٹوں میں سے نفع رسانی میں کون تم سے قریب تر ہے یہ الله کی طرف سے فریضہ ہے بیشک الله جاننے والا صاحب حکمت ہے. (4:11)

اور جو ترکہ تمہاری بے اولاد بیویاں چھوڑیں تمہارے لئے اس کا نصف (1/2) حصہ ہے اور اگر ان کے اولاد ہو تو تمہارے لئے اس ترکہ کا جو وہ چھوڑیں چوتھائی (1/4) حصہ ہے اس وصیت کی تعمیل کے بعد جو وہ کر گئی ہوں یا قرض کی ادائیگی کے بعد اور اگر تمہارے اولاد نہ ہو تو جو ترکہ تم چھوڑو ان عورتوں کیلئے اس کا چوتھائی (1/4) حصہ ہے اور اگر تمہارے اولاد ہو تو ان عورتوں کا اس ترکہ میں آٹھواں (1/8) حصہ ہے جو تم چھوڑو بعد از تعمیل وصیت جو تم نے کی ہو یا قرض کی ادائیگی کے اور اگر صاحب میراث مرد یا عورت کلالہ ہو اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان دونوں میں سے ہر ایک کیلئے چھٹا (1/6) حصہ ہے اور اگر وہ تعداد میں اس سے زیادہ ہوں تو بعد ایسی کی گئی وصیت کی تعمیل جو کسی کیلئے ضرر رساں نہ ہو یا ادائیگی قرض کے وہ سب ایک تہائی (1/3) میں شریک ہونگے یہ وصیت منجانب الله ہے اور الله جاننے والا بردبار ہے. (4

تجھ سے فتویٰ طلب کرتے ہیں کہہ دے کہ الله تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے کہ اگر کوئی ایسا آدمی ہلاک ہوجاۓ جس کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کی ایک بہن ہو پس اس کی بہن کیلئے اس کے ترکہ کا نصف (1/2) حصہ ہے. (اگر عورت ہلاک ہوجاۓ) اگر اس عورت کی کوئی اولاد نہ ہو تو اس کا وارث اس کا بھائی ہوگا اور اگر اس کی دو بہنیں ہوں تو ان کیلئے اس کے ترکہ کا دو تہائی (2/3) ہے اور اگر بھائی بہن مرد اور عورتیں ہوں تو مرد کیلئے دوگنا حصہ اس کا جو کہ عورت کیلے ہے الله تمہارے لئے کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہوجاؤ اور الله ہر شے کا جاننے والا ہے.
منقول

05/05/2024

*ریسرچ جرنلز کی جعل سازی میں خطرناک حد تک اضافہ*
(An alarming rise in falsification of research journals)

(ڈاکٹر ریاض رضیؔ)

*ایسی تحقیق کس کام کی؟:*
وہ تحقیق ہی کیا جو چربہ سازی کا ملغوبہ ہو۔ وہ ریسرچ آرٹیکل کس کام کا جس کی اشاعت علمی سرقہ سے مزین جرائد (Journal)میں ہوجائے۔ اُس کوشش کی ستائش کیسے ہو جس کا لاحاصل نتیجہ ہو۔ وہ محقق (Researcher) قابلِ وثوق کیسے جس کے نظریات وخیالات چوری شُدہ جرائد میں شائع ہوجائیں اور بعدازاں وہ جرائد جعلی ثابت ہوں۔ وقت بھی برباد ہوا، اچھی خاصی رقم بھی گئی اور بین الاقوامی طور پر ”چوری شُدہ “ جریدہ کا اشتراکی محقق بھی بن گیا۔ خدا نخواستہ کہیں ایسا تو نہیں کہ پاکستانی جامعات میں اِس قسم کا رُجحان بڑھ رہا ہے اور تحقیقی جرائد (Research Journals) کی چربہ سازی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا چاہتا ہے۔ بد قسمتی سے ایسی صورتِ حال پیش آرہی ہے۔ تحقیقی مقالہ جات (Research Articles) کی اشاعت کی دوڑ میں نہ معیار پیشِ نگاہ ہے اور نہ ہی اچھا لکھنے کی سعی ہورہی ہے۔ زیادہ آرٹیکلز کی اشاعت کی دُھن میں ”آؤ دیکھا نہ تاؤ“ کے مصداق کسی بھی ریسرچ آرٹیکل میں نام شامل کرلیا اورمطمئن ہوئے کہ چلو یار ! ایک اور ریسرچ آرٹیکل میں اضافہ ہوا۔

*تحقیق کی اہمیت اور ترقی یافتہ اقوام:*
تعلیمی اداروں خاص طور پر جامعات میں”تحقیق“ایک لازمی جزو ہے۔ ترقی کے اعتبار سے بلند سطح کو چھونے والے ممالک تعلیم و تحقیق کی ترسیل میں اور کسب ِ علم کے دوران ہمیشہ اخلاقیات کا خیال رکھتے ہیں۔ وہ اپنی کتابوں اور تحقیقی جرائد و مُجلات میں نئے نظریات کی تخلیق کو نمایاں جگہ دیتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اُن کی تحقیق سے نہ صرف متعلقہ ادارہ بلکہ پورا معاشرہ بھی مستفیض ہوسکے۔ یہی وجہ ہے کہ اِن ممالک و اقوام میں جہاں معیاری تعلیمی اداروں کی کثرت ہے وہی تحقیق کا قابلِ وثوق رُجحان بھی ہے۔ آج دنیا میں جنہیں تحقیق کی بنیاد کہہ سکتے ہیں یا جنہیں تعلیم و تحقیق کا یقینی شوق ہے، وہ قابلیت و صلاحیت کو فوقیت دیتے ہیں۔ وہاں جُوگاڑ ، پرچی، جان پہچان کی بھڑک ہرگز بھی نہیں۔ وہاں فوقیت صرف اُسی شخص کو حاصل ہوتی ہے جو اپنی ذاتی صلاحیتوں کے اِظہار میں بے باک ہو اور معیاری کام کی انجام دہی میں صفِ اول کا کھلاڑی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی تحقیق جاندار، اُن کا کام معیاری، اُن کا رُجحان تعمیری اور اُن کے اُمور پختگی کے کئی کئی مراحل طے کرچکے ہوتے ہیں۔

*ہماری تحقیقی روش:*
اِدھر ہمارا بھی ایک معاشرہ ہے، ہمارے بھی تعلیمی ادارے ہیں، ہم بھی تعلیم و تحقیق کی راہ سے گزرنے کی سعی کررہے ہوتے ہیں۔ لیکن کئی سو جتن کے باوجود نہ علم میں وہ چاشنی آئی اور نہ ہی تحقیق میں وہ حلاوت دیکھائی دی۔ آج ہم علمی سرقہ، جعل سازی، چربہ سازی میں اول نمبر کے کھلاڑی ہیں۔ خصوصیت کے ساتھ تحقیق کے نام پر جو ”ٹائم پاس“ کررہے ہیں وہ سب کے سامنے عیاں ہے اور کھلی کتاب کی طرح ہماری نظروں کے سامنے ہے۔

*چربہ ساز ریسرچ جرنلز:*
اب میں تحقیقی مقالات (Research Articles) کی معیاری جرائد (Research Journals) میں اشاعت کی موجودہ صورتِ حال کی طرف اشارہ کرنا چاہوں گا اور اِس موضوع پر یہ مختصر سا رُقعہ اِس لئے بھی ترتیب پانا ضروری تھا کہ ہم میں سے اکثر کی سوشل میڈیا فورم اور حلقہ احباب کی وساطت سے بعض ایسے تحقیقی جرائد تک رسائی ہوتی ہے جو اگرچہ فی نفسہ ویب سائٹ کی صورت میں وجود رکھتے ہیں لیکن درحقیقت یہ تحقیقی جرائد جعلی، چربہ سازی اور علمی سرقہ سے بھرے پڑے ہیں۔ان جرائد نے حیران کُن طور پر اصلی جرائد کی طرح ویب سائٹ بھی تخلیق کی ہوئی ہے، یہاں تک کہ دونوں جرائد کی ویب سائٹس کا سرورق (صفحۂ اول) اِنتہائی مماثلت رکھتا ہے۔یعنی اصلی و نقلی دونوں کی ویب سائٹ ایک جیسی لگتی ہیں۔ اگر باریک بینی سے دونوں ویب سائٹس کا مطالعہ نہ کیا جائے تو آرام سے دھوکا دہی کے شکار ہوجائیں گے اور تحقیق و تدقیق کے نتیجے میں ترتیب پانے والا ریسرچ آرٹیکل چربہ سازوں کے ہاتھوں اپنی وقعت کھو بیٹھے گا۔

*ہم ہی چربہ ساز ریسرچ جرنل کے شکار کیوں؟:*
چونکہ ہماری جامعات میں ملازمت کے حصول اور دوام کےلئے ”تحقیق“ایک لازمی عنصر ہے۔ خاص طور پر ٹی ٹی ایس (ٹینورٹریک سسٹم) کے حامل ملازمین کےلئے تو کم سے کم 10 تحقیقی مقالہ جات بین الاقوامی ریسرچ جرنلز میں شائع ہوں تو وہ اپنی ملازمت برقرار رکھ سکتے ہیں، بصورتِ دیگر ملازمت برخاست ہوسکتی ہے۔ ایسی دھمکی درپیش ہو تو پھر بقاء کا معاملہ سامنے آتا ہے اور محقق چار و ناچار قومی و بین الاقوامی ریسرچ جرنلز تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہے جہاں پر ”بگڑنے“ اور ”اندھے پن“ کا مظاہرہ مجبوری ہے۔ دوسری طرف نوسرباز لوگ اِسی موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا (خاص طور پر فیس بک اور ای میل) کے ذریعے آپ سے رابطے کئے جاتے ہیں اور پیشکش کی جاتی ہے کہ بین الاقوامی معیار کے ریسرچ جرنلز میں اپنا آرٹیکلز شائع کروائیں۔ یہ پیشکش محقق کےلئے اُمید کی ایک کرن نہیں بلکہ کئی کرنوں کی مانند دیکھائی دیتی ہے اور وہ بغیر تحقیق کے نوسربازوں کے جھانسے میں آجاتا ہے۔

*میرا ذاتی تجربہ:*
مجھے خود میری آفیشل ای میل پرایک بین الاقوامی جریدے سے متعلق ایک مراسلہ ملا۔ای میل کو دیکھ کر بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ تمام معلومات دُرست ہیں اور ریسرچ جرنل ایچ ای سی ایکس (X) کیٹیگری کی درجہ بندی میں شامل ہے۔ علاوہ ازیں ایمپکٹ فیکٹر (Impact Factor 1.46)، اسکوپس کیو ون اینڈ ٹو (Scopus Q1 & 2)، ویب آف سائنس (WoS)جیسی لوازمات سے بھی مزین تھا۔لیکن جب میں نے مذکورہ ریسرچ جرنل کی اصلیت کی طرف نگاہ ڈالی تو معلوم ہوا کہ اصلی ریسرچ جرنل میں تحقیقی مقالہ کی اشاعت کی کوئی فیس نہیں جبکہ جعلی یا نقلی ریسرچ جرنل ایک ریسرچ آرٹیکل کی اشاعت پر 220امریکی ڈالر یعنی پاکستانی 61,317.52روپے کا تقاضا کررہا تھا۔ یہی سے میرا شک یقین میں بدل گیا۔ میں نے بہت زیادہ گہرائی کے ساتھ چھان بین کی تو معلوم ہوا کہ چوری کی واردات بڑی باریک بینی سے کی گئی ہے۔نوسربازوں نے تمام ڈیٹا اصلی جریدے سے چُراکر اپنی ویب سائٹ پہ آویزاں کردیا تھا۔ اگر کوئی باریک سا فرق رکھا تھاتو وہ صرف اور صرف ویب لنک کا تھا۔ میں نے دونوں ویب سائٹس کو اوپن کرنے کے بعد موازنہ کیا اور پھر تطبیق دیتے ہوئے غور کیا تو معلوم ہوا کہ اصلی و نقلی جریدےکی ویب لنک میں صرف ایک(–)کا فرق تھا۔ ایک نووارد محقق کےلئے یہ باریک سا فرق سمجھنا مشکل ہے اور وہ انجانے میں نوسرباز وں کی دھوکہ دہی کا شکار ہوجاتا ہے۔

*اُستادِ محترم بال بال بچ گئے:*
ہماری ہی یونیورسٹی کے ایک اُستادِ محترم بھی اِن نوسربازوں کے ہاتھوں شکار ہونے سے بال بال بچ گئے۔ ایک نامی گرامی بین الاقوامی ریسرچ جرنل بنام مائیگریشن لیٹرز (Migration Letters) میں موصوف کا ریسرچ آرٹیکل شائع ہوا۔جریدے کے نوسربازوں نے شرط یہ رکھی تھی کہ فیس ریسرچ آرٹیکل کی اشاعت کے بعد وصول کی جائے گی۔ آرٹیکل شائع ہوگیا۔ اُستاد محترم نے مذکورہ جریدے کی وثاقت کےلئے مجھ سے رابطہ کیا ۔ میں نے اپنی تئیں تھوڑی بہت چھان بین کی لیکن میں مذکورہ جریدے کے اصلی و جعلی ہونے کے فرق کو سمجھ نہ سکا۔ پھر میں نے شعبہ مینجمنٹ سائنسز اینڈ کامرس کے ایچ او ڈی ڈاکٹر واجد خان جو تحقیقی جرائد کی وثاقت کے حوالے سے تسلی بخش جانکاری رکھتے ہیں، سے رابطہ کیا تو اُنہوں نے پورا چٹھاکٹھا کھول دیا اور دو ٹوک میں جواب دیا کہ:
” مائیگریشن لیٹرزنامی تحقیقی جریدہ مکمل طور پر جعلی ہے اور اِسی نام سے منسوب ایک بین الاقوامی ریسرچ جرنل کا سرقہ (چوری) ہے۔ “
اِس جریدے کی چربہ سازی کا اندازہ اِس بات سے لگالیں کہ ویب سائٹ پر موجود چیف ایڈیٹر کا نام ”ولیم اصغر“ ہے اور موصوف کا تعلق سعودی عرب سے ہے۔ عیسائیت و مسلمانیت پر مبنی یہ ملا جُلا نام متعلقہ جریدے کی چربہ سازی کو پوری طرح عیاں کرتا ہے۔

*دیگر جامعات کے اساتذہ بھی چربہ سازی کے شکار:*
سطور بالا میں ہم نے اپنی یونیورسٹی کے ایک اُستاد محترم کی مثال پیش کی اور بیان کیا کہ موصوف شکار ہونے سے بال بال بچ گئے۔ دوسری جانب پاکستان کی بعض جامعات کے اساتذہ اِن نوسربازوں کے ہتھے چڑھ چکے ہیں۔ خصوصیت کے ساتھ ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے ایک پروفیسر صاحب کے تحقیقی مقالہ کی اشاعت کے بعد مذکورہ یونیورسٹی کے آفیشل فیس بک پیج سے مبارکباد پیش کی گئی اور مائیگریشن لیٹرز کی تعریف اور بین الاقوامی اہمیت کو نمایاں الفاظ میں بیان کیا گیا۔ ہم نے جعل سازی کے چند ایک تصاویر (Images) اِس تحریر کے ساتھ نتھی کئے ہیں۔ قارئین معلومات کی غرض سے اور احتیاط کی خاطر ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

*ایچ ای سی کا ایچ جے آر ایس(HJRS):*
ہائرایجوکیشن کمیشن آف پاکستان نے ایچ جے آر ایس (HJRS) کے نام سے ایک شعبہ قائم کررکھا ہے۔ باوجود کہ اِس شعبہ کاکام معیاری جرائد (Research Journals) کی نشاندہی ہے ، لیکن یہاں بھی ادھورا پن اور ابہام کی وسیع خلیج موجود ہے۔ ایچ جے آر ایس نے بین الاقوامی معیاری ریسرچ جرنلز کی نشاندہی تو کی ہے لیکن قانع رہنمائی فراہم نہیں کی۔ اُنہوں نے بھی اسکوپس انڈیکس سے ڈیٹا اُٹھایا ہے قطع نظر کہ جس تحقیقی جریدے کو وہ قابلِ وثوق مانتے ہیں ، اُس کی ایک ہو بہو کاپی مارکیٹ میں بآسانی دستیاب ہے۔ اُصولاً ایچ جے آر ایس کو چاہیے کہ وہ مربوط نظام کے تحت تحقیقی جرائد و رسائل اورمجلات کی بھرپور نگرانی کرے۔ اگر ہوسکے تو اصلی (Original) جریدے کی حقیقی ویب سائٹ کی ایک لنک بھی ایچ جے آر ایس کے صفحے پر شیئر کرے۔ اِس عمل سے چربہ سازی کا دھوکہ دہی پر مبنی کاروبار بھی رُک جائے گا اور معیاری کام بھی منصہ شہود میں آئے گا۔ خاص طور پر محققین کا علمی کام چوری اور بے وقعت ہونے سے بچ جائے گا۔ اُمید ہے کہ مذکورہ تحریر اہل قلم، اہل تحقیق اور صاحبانِ عقل و فہم کےلئے مفید ثابت ہوگی۔

*نوٹ:* یہ رُقعہ خالصتاً سماجی علوم (Social Sciences) سے متعلق جرائد کے حوالے سے لکھا گیا ہے، طبعی علوم (Natural Sciences) سے متعلق نہ ہمارا مشاہدہ ہے اور نہ ہی ہمیں اِس قسم (تحقیقی مقالہ جات کی اشاعت)کے تجربے سے گزرنا پڑا ہے۔

ڈاکٹر ریاض رضیؔ | مورخہ 2؍مئی2024ء | سکردو

04/05/2024

شاعری میں خداداد صلاحیت کے ساتھ کونسی چیز ضروری ہے؟













Organ Transplantation,Revival of life.
04/05/2024

Organ Transplantation,Revival of life.

ترجمہ نگاری کورسTranslation skills.1.  2.  3.  4.  5.  6.  7.  8.  9.  10.
29/04/2024

ترجمہ نگاری کورس
Translation skills.

1.
2.
3.
4.
5.
6.
7.
8.
9.
10.

Stories of BaniIsraeel         DivineRevelation
28/04/2024

Stories of BaniIsraeel









DivineRevelation

📢 *اعلان داخلہ برائے درس نظامی البرھان مردان* 🔶الحمدللہ البرھان مردان میں پروفیشنلز، کاروباری حضرات اور یونیورسٹی و کالج...
26/04/2024

📢 *اعلان داخلہ برائے درس نظامی البرھان مردان*

🔶الحمدللہ البرھان مردان میں پروفیشنلز، کاروباری حضرات اور یونیورسٹی و کالج کے طلباء کے لئے درس نظامی (مکمل عالم دین) کورس میں داخلوں کا آغاز ہو گیا ہے۔

🌀اگر آپ کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھتے ہیں اور علم دین حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن اپنی مصروفیات کے باعث صبح تا شام پورا ہفتہ پورا وقت نہیں دے سکتے؟ تو آپ کے لیے البرھان نے حصول علم کا بہترین موقع اور بہترین پلیٹ فارم مہیا کیا ہے۔

⚡داخلے اولیٰ اور ثانیہ میں جاری ہیں

💫مندرجہ ذیل تین اوقات میں جو آپ کو موزوں ہو، آپ اس میں داخلہ لے سکتے ہیں

🔶ویک اینڈز مارننگ ٹائم
*ہفتہ و اتوار صبح 8:30 تا 1:00*

🔶ویک اینڈز ایوننگ ٹائم
*ہفتہ و اتوار دوپہر 2:00 تا 6:30*

🔶ویک ڈیز ایوننگ ٹائم
*پیر تا جمعرات شام 4:00 تا 7:00 بجے( ہفتے میں چار دن)*

🔶اس لنک پر آنلائن رجسٹریشن کریں https://tinyurl.com/albmardan

🔶 *آنلائن رجسٹریشن کی آخری تاریخ 4مئی 2024*

🔶 *ایڈریس* : گھر نمبر 5، سٹریٹ نمبر 1، سیکٹر Q، شیخ ملتون ٹاؤن مردان

🔶 *برائے رابطہ*
03409078137

There is no tution fee for the course Admissions started only in Darja-e-oola and sania Limited seats only Classes will be on-campus only Course is only for men Course duration will be Eight years Course will start on the 30th of April 2024 InshaAllah Cost of the books will be charged from students....

25/04/2024

ادارہ معارف القرآن،بر نالہ،آزاد کشمیر،تعارف،خصوصیات


























Islamic Training Program ForTeachers and Scholars of Madrasas
20/04/2024

Islamic Training Program For
Teachers and Scholars of Madrasas

Address

Mandi Bahauddin
50400

Opening Hours

Monday 09:00 - 21:00
Tuesday 09:00 - 21:00
Wednesday 09:00 - 21:00
Thursday 09:00 - 21:00
Friday 09:00 - 12:30

Telephone

+923007756343

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Al-Duha Research Institute posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Al-Duha Research Institute:

Videos

Share

Nearby media companies


Other Digital creator in Mandi Bahauddin

Show All