Master TV

Master TV Hello! Welcome to the official page of Master TV.
(24)

17/11/2023
وقت کا مثبت اور بہترین استعمال بنائے منفرد اور باکمال(ایاز مورس)ٹائم مینجمنٹ یعنی وقت کا صحیح استعمال ایک زندگی میں کئی ...
13/11/2023

وقت کا مثبت اور بہترین استعمال بنائے منفرد اور باکمال
(ایاز مورس)

ٹائم مینجمنٹ یعنی وقت کا صحیح استعمال ایک زندگی میں کئی زندگیاں جینے کا ہنر ہے۔ وقت کا درست استعمال کرکے ایک کام یاب انسان زندگی میں وہ کچھ حاصل کرسکتا ہے جو عام انسان کئی زندگیوں میں بھی نہیں کر سکتے ہیں۔

وقت کے استعمال، وقت کی اہمیت اور وقت کی افادیت پر دُنیا بھر میں بے شمار کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور بے شمار فلمیں بن چکی ہیں۔ اس اہم موضوع پر بہت زیادہ ٹریننگز کروائی جاتی ہیں۔ وقت کی قدر، اہمیت اور افادیت پر بے شمار مذہبی حوالے اور وعظ بھی دیے جاتے ہیں۔

وقت کے استعمال، وقت کی اہمیت اور وقت کی افادیت پر دُنیا بھر میں بے شمار کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور بے شمار فلمیں بن چکی ہیں۔ اس اہم موضوع پر بہت زیادہ ٹریننگز کروائی جاتی ہیں۔ وقت کی قدر، اہمیت اور افادیت پر بے شمار مذہبی حوالے اور وعظ بھی دیے جاتے ہیں۔

وقت ایک ایسی حقیقت ہے جس کے بارے میں کوئی بھی انسان انکار نہیں کر سکتا۔

ترقی یافتہ معاشروں اور ملکوں اور ہمارے جیسے معاشروں میں بنیادی فرق وقت کا مناسب استعمال کا ہے۔ وہاں وقت ہی سب کچھ ہے اور ہمارے ہاں وقت کی کوئی قدر نہیں ہے، اس لیے شاید ہماری بھی دُنیا میں کوئی قدر نہیں ہے۔ نہ ہماری قومی تقریبات، نہ سیاسی، سماجی اور خاندانی تقریبات وقت پر شروع ہوتی ہیں بلکہ ہماری تو عبادات کے اجتماع بھی وقت پر شروع نہیں ہوتے۔

ہمارے ہاں اعلیٰ عہدوں اور مرتبوں پر فائز لوگ بھی وقت کو بڑی بے قدری سے ضائع کر رہے ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں مثبت کام کرنے کے لیے لوگوں کے پاس وقت ہی نہیں ہے۔ دُنیا بھر میں ڈیٹا اور ریسرچ کے مطابق انسانی زندگی کے سارے سفر کے اعدادوشمار سامنے آچکے ہیں کہ انسان کس کام کے لیے کتنا وقت صرف کرتا ہے۔

اس تحقیق کی بنیاد پر لوگوں نے اپنی ترجیحات کا تعین کیا ہوا ہے اور اپنے آپ کو مثبت، مفید اور موثر کاموں کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ Scientific American نامی ایک تنظیم نے اپنی ایک تازہ رپورٹ بہ عنوان See How Humans around the World Spend the 24 Hours in a Day میں بہت عمدہ طریقے سے انسان کی زندگی اور وقت کے استعمال کو بیان کیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’زمین پر ہر انسان کے پاس ایک دن میں گزارنے کے لیے یکساں طور پر 24 گھنٹے ہوتے ہیں، لیکن جس طرح سے ہم ان گھنٹوں کو کام، نیند، اسکول اور کھیلنے کے لیے تقسیم کرتے ہیں وہ بہت مختلف ہے۔ سائنس دانوں نے حال ہی میں دست یاب اعدادوشمار کو مرتب کیا کہ کس طرح دُنیا بھر کے لوگ اپنا وقت استعمال کرتے ہیں اور انہیں اوسط ’عالمی انسانی دن‘ کی وضاحت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘‘

اگر ہم اپنی اپنی زندگی، بلکہ اپنے ایک دن کا بغور اور بخوبی جائزہ لیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ ہم غیرضروری اور غیرمعیاری کاموں بلکہ فضول باتوں پر بے شمار وقت ضائع کرتے ہیں۔ یاد رکھیں وقت زندگی ہے اور جو وقت کا صحیح استعمال نہیں کر سکتا وہ زندگی سے کبھی بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ ہمیں یوں لگتا ہے کہ ہمیں زندگی میں مناسب وقت نہیں دیا گیا، جب کہ قدرت نے ہر ایک انسان کو اپنے حساب سے مناسب وقت دیا ہے، اس لیے ہمیں جتنا وقت دیا گیا ہے ہمیں اس کا حساب دینا ہوگا۔ لہٰذا ہمیں اپنا احتساب کرنا ہوگا کہ ہم اپنے وقت کا استعمال کہاں، کیسے اور کیوں کرتے ہیں۔

اکثر لوگ مصروف رہنے کو وقت کا موثر استعمال سمجھتے ہیں جب کہ اس میں بہت بنیادی اور اہم فرق ہے، مصروف رہنا اور مفید ہونا یہ دونوں الگ الگ باتیں ہیں۔

وقت کا صحیح اور مناسب استعمال نہ کرنے والے ہمیشہ وقت نہ ہونے کا شکوہ کرتے ہیں۔ وقت کی بے شمار حقیقتیں ہیں لیکن ایک حقیقت یہ ہے کہ وقت ضائع کیا جاسکتا ہے، استعمال کیا جا سکتا ہے. لیکن نہ تو جمع کیا جاسکتا ہے اور نہ محفوظ کیا جا سکتا ہے۔

وقت زندگی ہے، وقت بندگی ہے، وقت دولت اور نعمت ہے، چناں چہ اس کے لیے قدرت کا شکر گزار رہنا چاہے۔ وقت کی افادیت، اہمیت اور اس کے موثر استعمال پر بے شمار ٹریننگز، سیشن اور سیمینار منعقد کیے جاتے ہیں، جن میں شرکا کو ٹائم مینجمنٹ کے موثر گر بتائے جاتے ہیں۔

مجھے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں بے شمار ایسی ٹریننگز اور ورکشاپ میں شرکت کرنے کا موقع ملا، اپنے ساتھیوں، اساتذہ اور بڑوں سے سیکھنے اور سوال کرنے کی جستجو جاری رکھی، اس مضمون میں وقت کے موثر استعمال کے حوالے سے سات اہم نکات بیان کروں گا جن کی مدد سے آپ اپنے وقت کا موثر استعمال کر کے زندگی میں کام یابی حاصل کرسکتے ہیں۔

یاد رکھیں بہت سارے لوگ صرف پڑھنے، معلومات حاصل کرنے اور سیکھنے تک محدود رہتے ہیں جب کہ علم کے حقیقی متلاشی اور کام یابی کی منزل کے مسافر ہمیشہ عمل کو ترجیح دیتے ہیں۔

معروف امریکی مصنف اسٹیفن کنگ کا کہنا ہے ’’اگر آپ کے پاس مطالعہ کر نے کا وقت نہیں ہے تو آسان الفاظ میں آپ کے پاس لکھنے کے لیے وقت اور امدادی مواد نہیں ہوگا۔‘‘

وقت کے حوالے سے مجھے گوتم بدھ کی بات بہت حقیقت پسندانہ لگتی ہے، وہ کہتے ہیں:

’’(زندگی کی) سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں ہمارے پاس وقت ہے۔‘‘

دُنیا میں ہر چیز کا وقت ہے اور جو وقت کے مطابق یعنی وقت کے ساتھ چلتا ہے وہ زندگی میں ہمیشہ کام یابی اور کام رانی حاصل کرتا ہے۔ جب وقت آپ کے ساتھ کھیل رہا ہو، تو پھر آپ جتنے مرضی بڑے کھلاڑی ہوں، جتنی مرضی محنت کرلیں، نتائج آپ کے حق میں نہیں ہوں گے۔

برطانوی شاعر ایڈورڈ ینگ کا کہنا ہے ’’تاخیر، وقت کی چوری ہے۔‘‘ ان حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس مضمون میں جو کچھ آپ پڑھیں گے اسے اپنی عملی زندگی میں اپنانے کی بھرپور کوشش کریں۔

میں نے یہ نکات اور مشاہدات اپنی زندگی کے تجربات، براہ راست زندگی کے واقعات سے اخذ کیے ہیں، جنہوں نے میری زندگی میں بھرپور معاونت کی ہے۔ مجھے پوری اُمید ہے کہ یہ نکات آپ کو ایک موثر، مفید اور کام یاب انسان بننے میں مدد دیں گے اور راہ نمائی کریں گے۔

ایک اور اہم چیز جو میں یہاں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ کام یاب اور ناکام لوگوں میں بنیادی فرق صرف اور صرف وقت کے بہترین اور درست استعمال کا ہے۔ جس انسان نے وقت کی قدر اور اہمیت کو سمجھ لیا، اس نے قدرت کا وہ بہترین راز پالیا جو کام یابی کی جانب پہلا قدم ہے۔

اپنی زندگی کے مقصد کو تلاش کریں

آپ شاید حیران ہوں کہ اس بات کا ہمارے وقت کے استعمال سے کیا تعلق ہوسکتا ہے؟ یقین مانیے دُنیا میں بے شمار لوگ ایسے ہیں جو اپنی زندگی کے مقصد کو جانے بغیر اپنے وقت کو برباد کر رہے ہوتے ہیں۔ جو انسان اپنی زندگی کے مقصد کو تلاش کر لیتا ہے اس کے لیے اپنے وقت کو بہترین انداز میں استعمال کرنا بہت آسان ہوجاتا ہے۔ امریکی صحافی و مصنف Alan Burdick کی

کتاب ’’Why Time Flies: A Mostly Scientific Investigation‘‘ اس امر کو بہترین طریقے سے بیان کرتی ہے۔

وقت کے ساتھ چلیں، پیچھے نہیں

زندگی میں بہت سارے لوگ وقت کی قدر نہیں کرتے اور نہ وقت کے ساتھ چلتے ہیں۔ وہ زمانے اور وقت کی رفتار کو سمجھے بغیر اپنی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔

اگر آپ اپنے وقت کا بہترین استعمال کرنا چاہتے ہیں اور زندگی سے بھرپور لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں تو وقت کے ساتھ چلیں، پیچھے نہیں۔ پنجابی کی ایک مشہور کہاوت ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جس انسان نے ایک لمحہ کھو دیا وہ سو قدم پیچھے رہ جاتا ہے۔

اس سے مراد یہ ہے کہ وقت جس چیز کا تقاضا کرتا ہے وہ چیز اس وقت کے مطابق کریں۔ سونے کے وقت سوئیں، کھانے کے وقت کھائیں، پڑھنے کے وقت پڑھیں اور کام کرنے کے وقت کام کریں۔ دُنیا اور وقت کی نزاکت کے مطابق خود کو ڈھالیں۔ وقت کی رفتار اور ضرورت کے مطابق اپنے سوچنے، کام کرنے اور زندگی بسر کرنے کے انداز کو اپنالیں۔

وقت کے شاگرد بنیں تاکہ دُنیا آپ کو استاد مانے

کہتے ہیں کہ وقت سے بڑا کوئی استاد نہیں ہوتا جو اپنے شاگردوں کو وقت پر ہر چیز سکھاتا ہے۔ اگر آپ اپنے شعبے اور زندگی میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانا چاہتے ہیں تاکہ لوگ آپ کی مثال دے سکیں تو وقت کے شاگرد بن جائیں۔ وقت آپ کو دُنیا میں استاد کا مرتبہ اور رتبہ عطا کرے گا۔ وقت کی یونیورسٹی میں داخل ہوجائیں اور دُنیا دیکھیے نئی نظر سے۔

مقصد بڑا، اہداف چھوٹے رکھیں

ہم میں سے بیشتر لوگ یہ بنیادی اور بڑی غلطی کرتے ہیں کہ وہ اپنے بڑے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ہدف بھی بڑے بڑے بناتے ہیں، چوںکہ ابتدائی طور پر انسان کسی بھی کام کو پہلی مرتبہ کرنے کے لیے ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی طور پر تیار نہیں ہوتا اس لیے وہ بڑے اہداف کے تعاقب میں ہمت ہار جاتا ہے اور اپنے بڑے خوابوں اور مقاصد کو حاصل کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ اپنے خوابوں کو نہیں بلکہ اپنی ہدف کو چھوٹا بنائیں تاکہ آپ اپنے بڑے خوابوں کو بہ آسانی حاصل کرسکیں۔

میں آپ کو اپنی عملی زندگی سے یہ مثال دیتا ہوں جو اس اہم نکتے کو سمجھنے میں آپ کی مدد کرے گی۔ میں ہمیشہ کتاب لکھنے کی جستجو کرتا اور چند صفحات لکھ کر پھر ہمت ہار جاتا تھا۔ مجھے کتاب لکھنے کا تجربہ نہیں تھا، کیوںکہ اتنا وقت اور معلومات بھی نہیں تھیں کہ ایک کتاب مکمل طور پر لکھ سکوں۔

پھر میں نے اپنے اس ہدف کو آسان بنانے کے لیے مضامین لکھنے پر توجہ دی اور آہستہ آہستہ گذشتہ دو سال سے مسلسل مضامین لکھنے کے بعد میں اس قابل ہو چکا ہوں کہ اپنی پوری کتاب مکمل کر سکوں۔

وقت کو جییں

بہت سارے لوگ وقت کو بچانا اور محفوظ کرنا چاہتے ہیں جب کہ اکثر اس کو صرف گزارتے ہیں۔ وقت کے بہترین استعمال کے لیے ضروری ہے کہ آپ وقت کے ساتھ جییں، بلکہ وقت کے مطابق زندگی بسر کریں۔ اس ضمن برائن ٹریسی کی کتاب ’’Master Your Time, Master Your Life‘‘ ایک شان دار گائیڈ ہے جس میں وہ ایسے طریقۂ کار سے متعارف کرواتے ہیں جس سے آپ اپنی زندگی کے ہر پہلو میں وقت کے موثر استعمال سے حیرت انگیز نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔

اپنے دن کا منصوبہ بنائیں اور اپنا احتساب کریں

آپ اپنے وقت کا اس وقت تک بہترین استعمال نہیں کر سکتے جب تک آپ اپنے دن کا مکمل طور پر منصوبہ نہیں بناتے ہیں۔ اپنے دن کی منصوبہ بندی وقت کے بہترین استعمال کی ضمانت ہے۔ دن کے آغاز پران وقتوں کے لیے بھی سرگرمیاں تیار کریں اور عادت بنائیں جب آپ کو محسوس ہو کہ ان میں کچھ ایسے لمحات ہوں گے جہاں آپ کے پاس کوئی خاطر خواہ مصروفیات نہیں ہو گی۔ اس وقت کا بہترین استعمال آپ کو دوسروں سے زیادہ کام کرنے کی صلاحیت عطا کرے گا۔

لوگ اس قیمتی وقت کو موبائل فون پر اسکریننگ اور سوشل میڈیا پر اسکرولنگ کے ذریعے ضائع کرتے ہیں، جس کا نتیجہ صفر اور منفی سوچوں اور رویوں کی صورت میں ہماری زندگی پر مرتب ہوتا ہے۔ اس نکتے کو بہتر انداز میں جاننے کے لیے برائن ٹریسی کی ایک اور مشہور کتاب ’’Eat That Frog‘‘ میں وقت کے مثبت استعمال کے 21 طریقے بیان کیے گئے ہیں۔

مستقل مزاج ہوجائیں

میرے نزدیک مستقل مزاجی تمام خوبیوں اور صلاحیتوں کی ملکہ ہے۔ اگر آپ زندگی کے کسی بھی شعبے میں کام یاب ہونا چاہتے ہیں تو صرف مستقل مزاج ہو جائیں، کام یابی یقینی طور پر آپ کے قدم چومے گی۔

ہمارے معاشرے میں لوگ ابتدائی طور پر بہت پرجوش اور پُرعزم ہوتے ہیں لیکن وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ مستقل مزاج نہیں ہوتے اس کی وجہ سے وہ اپنے وقت کا بہترین استعمال کرنے سے محروم ہوجاتے ہیں۔ مستقل مزاج انسان وقت کا بہترین استعمال کرنے کا ہنر سیکھ جاتا ہے اور کام یابی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔

اُمید ان سات نکات نے کسی حد تک آپ کو وقت کے بہترین استعمال کے لیے ایک نئی تحریک دی ہے۔

میں آپ کو وقت کی اہمیت اور افادیت پر مبنی دو فلموں کو دیکھنے کا مشورہ دوں گا، پہلی In Time اور دوسری The Pursuit of Happyness۔

بہترین اور کام یاب انسان وہ ہے جس نے اپنے وقت کی قدر کرتے ہوئے اپنے قیمتی moment کو movement میں بدل لیا اُس کی زندگی ایک انقلابی سفر کی جانب گام زن ہوجاتی ہے۔ تو کیا آپ بھی اپنے لمحوں کو زندگی بھر یادگار بنانے کے لیے وقت کے ساتھ چلنے کو تیار ہیں، ایسا ہے تو آپ کو پیشگی کام یابی مبارک ہو۔

ماسٹر ٹی وی کی جانب سے تمام ہندو برداری کو ”دیوالی“ کی خوشیاں مبارک ہوں۔
12/11/2023

ماسٹر ٹی وی کی جانب سے تمام ہندو برداری کو ”دیوالی“ کی خوشیاں مبارک ہوں۔

09/11/2023

"The growth of a community is dependent on youth."
Conversation with His Excellency Bishop Samson Shukardin l Master TV l Ayaz Morris

I enjoyed my meeting with Senator (r)Javed Jabbar. We were recorded for an interview on Master TV . We also discuss inte...
08/11/2023

I enjoyed my meeting with Senator (r)Javed Jabbar. We were recorded for an interview on Master TV . We also discuss interesting topics including the education system, books, and especially the lively discussion regarding the future of Pakistan. Javed Jabbar is a legendary figure in Pakistan, possessing intelligence and versatility. His presence is so sophisticated and pleasing that you won't even notice the passing of time. His greatness was well estimated by the fact that instead of talking about his personality and contributions. He has repeatedly praised my work, which is no less than an honor for me. Ayaz Morris

"The growth of a community is dependent on youth." Conversation with His Excellency Bishop Samson Shukardin coming soon ...
08/11/2023

"The growth of a community is dependent on youth."
Conversation with His Excellency Bishop Samson Shukardin coming soon only on Master TV l Ayaz Morris

Coming up next only on Master TV l Ayaz Morris l
08/11/2023

Coming up next only on Master TV l Ayaz Morris l

07/11/2023

"Challenges of Family Life" l Bishop Samson Shukardin l Ayaz Morris l Master TV

ڈاکٹر شعیب سڈل کے لٸے ایک اور عالمی اعزاز کراچی (نیوز ڈیسک) سپریم کورٹ آف پاکستان کے ون مین اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹ...
03/11/2023

ڈاکٹر شعیب سڈل کے لٸے ایک اور عالمی اعزاز
کراچی (نیوز ڈیسک) سپریم کورٹ آف پاکستان کے ون مین اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر محمد شعیب سڈل کو 28اکتوبر 2023 کو ایتھنز، یونان میں منعقد ہونے والی 66ویں عالمی کانگریس کے دوران انٹرنیشنل پولیس ایسوسی ایشن کے صدر اور سیکرٹری جنرل کے ہمراہ انٹرنیشنل پولیس ایسوسی ایشن کے ”ورلڈ کلاس پولیسنگ ایوارڈ“ سے نوازا گیاہے.
واضح رہے کہ ڈاکٹر شعیب سڈل کا شمار جنوبی ایشیا میں پولیس اور انصاف کے شعبے میں اصلاحات کے لٸے ایک معروف ماہر کے طور پر ہوتا ہے۔ وہ جرائم کی روک تھام اور مجرموں کے علاج کے لیے اقوام متحدہ کے ایشیا اور مشرق بعید کے انسٹی ٹیوٹ، ٹوکیو، مشیر ترک نیشنل پولیس، اور اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم سمیت متعدد قومی اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ بطور ماہر اپنی خدمات سر انجام دے چکے ہیں.
ان کی غیر معمولی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں 1996 میں ہلال شجاعت اور 2008 میں ہلال امتیاز کے اعلیٰ سول ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے.
اس موقع پر ان کے درینہ ساتھی اور فخر پاکستان ڈاکٹر جیمز شیرا نے انہیں مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر شعیب سڈل پاکستان کا ایک اثاثہ ہیں جن کی خدمات کا اعتراف عالمی سطح پر پاکستان کے لیے خوش ائند امر ہے۔

”ڈاکٹر سارہ صفدر؛ ایک عہد ساز ماہر تعلیم اور باوقارشخصیت“  (ایازمورس)جنہوں نے نئی راہوں کو اپنی منزل بنا یا اور نئی نسل ...
03/11/2023

”ڈاکٹر سارہ صفدر؛ ایک عہد ساز ماہر تعلیم اور باوقارشخصیت“ (ایازمورس)

جنہوں نے نئی راہوں کو اپنی منزل بنا یا اور نئی نسل کیلئے اپنے کام اور کردار سے مشعل راہ بنیں۔

مجھے ایسے لوگ بہت پسند ہیں جو روایتوں کے امین بن کر نئی راویتوں کو قائم کرتے ہیں۔جو اپنے نام،کام اور عزم سے اپنے ارگرد،زمانے اور آنے والوں نسلوں کو متاثر کرتے ہیں۔ جو معاشرے کواپنے افکار اور کردار سے متحرک کرتے ہیں اور اپنی جستجو سے نئی سوچ اور تحریک دیتے ہیں۔جو معاشرے میں نئی راہوں کی تلاش میں بارش کا پہلا قطرہ بنتے ہیں۔ جو معاشرتی رویوں، سوچوں اور پابندیوں کا بڑی جرات مندی اور جواں ہمتی سے سامنا کرتے ہیں۔ دراصل ایسے لوگ ہی کسی بھی معاشرے کا اصل سرمایہ ہوتے ہیں۔ ترقی اور تعلیم وتربیت یافتہ معاشروں کا فخر اور اثاثہ اُن کے نایاب لوگ ہوتے ہیں جو اپنے بعد آنے والوں کیلئے راستے ہموار کرتے ہیں۔میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے ایسے لوگو ں کی تلاش رہتی ہے اور اس جستجو میں وہ میری تحریک کا حصہ بن جاتے ہیں۔آج کے اس آرٹیکل میں بھی ایک عہد ساز ماہر تعلیم اور باوقارشخصیت کی زندگی اور خدمات کے بارے میں جانیں گے جنہوں نے نئی راہوں کو اپنی منزل بنا یا اور نئی نسل کیلئے اپنے کام اور کردار سے مشعل راہ بنیں۔

ڈاکٹر سارہ صفدر22 ستمبر 1951 کو لاہور میں ایک مسیحی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ ڈاکٹر سارہ صفدر کا تعلق زمیند ار گھرانے سے تھا، اُن کے والداسوہن لائل بھٹی (Sohan.Lyall Bhatti)
، مرے کالج سے گریجویٹ تھے اور گولڈ میڈلسٹ بھی جنہوں نے بطور سول سرونٹ Excise and Taxation آفیسراپنی خدمات سرانجام دیں۔اُن کی والدہ پیاری لائل بھٹی نے لودھیانہ میڈلکل سے تعلیم حاصل کی اور سر گنگا رام ہسپتال لاہور میں بطور Pharmasist کام کیا۔

اُن کا خاندان معروف اور تاریخی مسیحی گاؤں ینگسن آبا د سے تعلق رکھتا ہے۔ چونکہ ان کے والدین پڑھے لکھے تھے،اور ان کی خواہش تھی کہ ان کے بچے بھی بھرپور اور اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔اس لئے اُنہوں نے اپنے 6 بچوں، چار بیٹوں اور دو بٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دالوئی جو معاشرے میں اپنے اپنے شعبوں میں نمایاں کام کرتے رہے۔اُن کی والدہ بہت ڈسپلن پر قائم رہنے والی خاتون تھیں جنہوں نے اپنی گھریلو اور پیشہ ورانہ ذمہ داریاں بڑے احسن طریقے سے سرانجام دیں۔ اُن کی والدہ نے ہمیشہ یہ سکھایا کہ سچ بولیں۔ڈاکٹر سارہ صفدر نے لاہور کتھیڈرل سکول،مال روڈسے ابتدائی تعلیم، کینٹرد سکول سے میٹرک اور سوشل ورک میں ایم اے، پنجاب یونیورسٹی سے 1976کوگولڈ میڈل کے ساتھ حاصل کیا۔ 1991میں پشاور یونیورسٹی سے وسطی ایشیا کی سماجیات میں پی ایچ ڈی کی۔

اُن کی شادی30 دسمبر 1976 خاندانی روابطہ کے ذریعے صفدر مسیح سے پشاور میں ہوئی۔خُدا نے انہیں ایک بیٹی عطا کی جو میڈ لکل ڈاکٹر ہے،اوراپنے شوہر کے ساتھ برطانیہ میں قیام پذئر ہے۔اُن کے شوہرصفدر مسیح نے اپنا Asbar ہائی سکول، پشاور 32 سال تک چلایا تھا۔
ڈاکٹر سارہ صفدر پشاور یونیورسٹی کے 1 ہراز اساتذہ میں واحد مسیحی ٹیچر تھیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ وہ تین چیزوں، اپنے الفاظ، کاموں اور کردار میں مضبوط رہیں، اوریہ تین چیزیں ہی میرے ایک اچھے مسیحی ہونے کی بھرپورگواہی تھیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ خُداوند نے میرے لئے ہمیشہ راستے کھولے ہیں، میں کبھی رٹیائر نہیں ہوئی بلکہ میرے عہدے اورکرداربدلے ہیں۔ڈاکٹر سارہ صفدر کی تعلیمی،انتظامی اور تحریریں کارناموں کی فہرست بہت طویل ہے۔
آئیے ان کی ان خدمات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
وہ اس وقت بطوروائس چیئر، ہلال احمر (فاٹا) کے پی کے اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔
اس سے قبل وہ نومبر2016 سے فروری 2020 تک ڈائیوسیسن سیکرٹری آف پشاور، چرچ آف پاکستان
جون سے اگست 2018 تک خیبرپختونخوا کی عبوری حکومت میں بطوروزیر، ابتدائی اور ثانوی تعلیم، اعلیٰ تعلیم، تجارت، آرکائیوز اور لائبریریز، سماجی بہبود اور مذہبی اور اقلیتی امورکی وزاعت میں کام کر چکی ہیں۔
11 مارچ 2013سے 10 مارچ 2016 تک بطور سینئر ممبر، پبلک سروس کمیشن، خیبر پختونخوا
02 جنوری 2012 سے 08 مارچ 2013 تک بطور پروفیسر اور ڈین،فیکلٹی آف مینجمنٹ اینڈ سوشل سائنسز،اقراء نیشنل یونیورسٹی، پشاور
جولائی 1997سے 21 ستمبر 2011 تک بطور پروفیسر اور ڈین،فیکلٹی آف سوشل سائنسز اورفیکلٹی آف آرٹس اینڈ ہیومینٹیز،پشاور یونیورسٹی اپنی خدمات سرانجام دی ہیں۔

پیشہ ورانہ اور تعلیمی کامیابیاں:
جون 2020سےجون 2023 تک خواتین کی حیثیت سے متعلق قومی کمیشن کی رکن رہیں۔
مئی2020سےمئی2023 تک پاکستان میں اقلیتوں کے قومی کمیشن کے رکن رہیں۔
2019سے 2022 تک،بطورسینیٹر، اور یونیورسٹی آف پشاور کے سلیکشن بورڈ کے مستقل رکن رہیں۔
2019 سے 2022 تک سینیٹر، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، پشاور رہیں۔
2015 سے 2018 تک ممبر سلیکشن بورڈ، اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی، اسلام آباد رہیں۔
2015 سے 2018 تک ممبر سنڈیکیٹ، یونیورسٹی آف ملاکنڈ، چکدرہ، خیبر پختونخواہ رہیں۔
2014 سے 2019 تک ممبر ریسرچ ایتھکس کمیٹی، رحمان میڈیکل کالج، حیات آباد، پشاور رہیں۔
2014 جائزہ کے لیے بطور ماہر اور بہترین یونیورسٹی ٹیچرز ایوارڈ کے لیے اساتذہ کا انتخاب2012 اور 2013 کی کمیٹی کے رکن رہیں۔
2014سے2018 تک وفاقی پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز،کی تقرری کے لیے ممبر سرچ کمیٹی رہیں۔
2013سے2019 تک نیشنل اکیڈمک کونسل، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈی، اسلام آباد کی ممبر رہیں۔
2013سے2016 تک سینیٹر اوریونیورسٹی آف پشاور کی فنانس کمیٹی کی رکن رہیں۔
2011سے2012 تک وزٹنگ پروفیسر، ایسٹرن الینوائے یونیورسٹی،چارلسٹن، امریکہ رہیں۔
2010سے2013 تک پاکستان میں سوشل سائنسز اینڈ ہیومینٹیز کی ترقی کی کمیٹی، ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان، اسلام آباد کی رکن رہیں۔
2007سے 2010تک ممبر سنڈیکیٹ ویمن یونیورسٹی پشاور رہیں۔
2006سے2008 تک وزٹنگ پروفیسر ان سوشل ورک، ایڈورڈز کالج پشاور رہیں۔
2005 سے تاحال ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کی پاکستان میں سوشل سائنسز میں ایم فل اور پی ایچ ڈی پروگرام کے لیے منظور شدہ سپروائزر رہیں۔
2004سے2008 تک ریسرچ فیلو، شعبہ بشریات، ڈرہم یونیورسٹی، یوکے رہیں۔
2003سے2008 تک بڑھاپے سے متعلق ماہرین کے قومی گروپ،وفاقی وزارت برائے ترقی خواتین، سماجی بہبود اور خصوصی تعلیم، اسلام آباد کی رکن رہیں۔
2005سے2008 تک ممبر سنڈیکیٹ، ایگریکلچر یونیورسٹی، پشاوررہیں۔
2005سے2008 تک ممبر بورڈ آف اسٹڈیز، فیکلٹی آف سیرت اور اسلامک اسٹڈیز رہیں۔
2003سے 2006 تک ساؤتھ ایشین ریسرچ نیٹ ورک (SARN) کی رکن رہیں۔
2003 سے اب تک ممبر بورڈ آف گورنرز، ایڈورڈز کالج، پشاور ہیں۔
2005سے 2008 تک ممبر سنڈیکیٹ، یونیورسٹی آف مالاکنڈ، چکدرہ، خیبر پختونخوا، رہیں۔
2001سے 2005 تک ممبر قومی کمیشن برائے اقلیتی حکومت پاکستان رہیں۔
1997 کوممبر ریسرچ بورڈ آف ایڈوائزرز، امریکن بائیوگرافیکل انسٹی ٹیوٹ نارتھ کیرولاء امریکہ رہیں۔
1997 کووزٹنگ پروفیسر، ”پاکستان میں کمیونٹی ڈویلپمنٹ“پر سیریز۔ محکمہ سماجی کام اور تعلیم، جیراڈ مرکٹر یونیورسٹی، ڈیوسبرگ، جرمنی رہیں۔
1997 میں جنوبی ایشیا پیسفک ریجن میں سماجی کام کی تعلیم کے لیے پاکستان میں کوآرڈینیٹر رہیں۔
1989 میں فلبرائٹ اسکالر اور وزٹنگ پروفیسر، اسکول آف سوشل ورک اور شعبہ بشریات، پنسلوانیا یونیورسٹی، فلاڈیلفیا،امریکہ رہیں۔

قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز:
2016 میں ”اکیڈمک سروسز ایوارڈ“ جمعیت اسلامی پاکستان نے دیا۔
2015 میں ”مختلف قومیتوں کی خواتین“ کا ایوارڈچرچ آف پاکستان، ڈایوسس آف لاہور نے دیا۔
2014 میں محکمہ سماجی کام کے لیے شاندار خدمات پرکے پی کے حکومت نے ایوارڈ دیا۔
1999 کوقومی ثقافتی ایوارڈ ”ایچوئمینٹس ان ایجوکیشن“ حکومت پاکستان نے دیا۔
1998 کو ویمن ان ڈویلپمنٹ کاسارک ایوارڈ ملا۔
1997 کو وومن آف دی ایئر 1997 ABI شمالی کیرولائنا، امریکہ سے ملا۔
1987کو اوہائیو اسٹیٹ، کولمبس سٹی، امریکہ کی اعزازی شہریت ملی۔
1987 کواوہائیو سٹیٹ یونیورسٹی کولمبس، امریکہ میں منشیات کے استعمال کی روک تھام کے پروگرام پر یوتھ ایکسچینج پروگرام یو ایس اے اور پاکستان کو آرڈینیٹرمقرر ہوئیں۔
ڈاکٹر سارہ صفدر 25سال کاانتظامی تجربہ بھی رکھتی ہیں۔جس میں اُنہوں نے بطورسینئر کمیٹی ممبر کی حیثیت سے سرکاری افسران کے انٹرویوز کا انعقادکیا۔منصوبہ بندی، بجٹ کو کنٹرول کرنا اور محکمانہ کھاتوں کا استعمال کیا۔ فیکلٹی ممبران کے لیے فرائض کی منصوبہ بندی اور تخصیص کی ذمہ داری سرانجام دی اورفیکلٹی اور طلباء کی نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں کی نگرانی بھی کی۔
مارچ2013 سے مارچ 2016 تک پبلک سروس کمیشن پشاور، خیبر پختونخواہ،کے سلیکشن بورڈ کے سینئر ممبررہیں۔
جنوری2012سے مارچ 2013 تک ڈین آف مینجمنٹ اینڈ سوشل سائنسز، اقراء نیشنل یونیورسٹی، پشاور رہیں۔
اگست2010سے ستمبر2011 تک ڈین آف سوشل سائنسز، پشاور یونیورسٹی رہیں۔
اگست 2009 سے اگست 2010 تک ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ آف سوشل ڈویلپمنٹ اسٹڈیز، پشاور یونیورسٹی رہیں۔
نومبر 1994 سے مئی 2005 تک پشاور یونیورسٹی کے سوشل ورک ڈپارٹمنٹ کے سربراہ (اسائنمنٹ ایڈمنسٹریشن اور بجٹ کنٹرول) رہیں۔
ستمبر1999 سے جون 2002 تک ڈائریکٹر ویمن اسٹڈیز یونیورسٹی آف پشاور بھی رہیں۔
ڈاکٹر سارہ صفد38سال کا تدریسی تجربھی رکھتی ہیں۔سوشل ورک، سوشیالوجی، بشریات اور جینڈر اسٹڈیز کے طلباء کے لیے ایم اے، ایم فل،پی ایچ ڈی کی سطح پر 38 سال کا وسیع تدریسی تجربہ اُنہیں بہترین استاد بناتا ہے۔ وہ
جنوری 2012 سے مارچ 2013 تک پروفیسر اور ڈین آف مینجمنٹ اینڈ سوشل سائنسز، IQRAنیشنل یونیورسٹی، پشاور رہیں۔
1998سے 21 ستمبر2011 تک شعبہ سوشل ورک، پشاور یونیورسٹی کی پروفیسررہیں۔
1994سے1998 تک، شعبہ سوشل ورک، پشاور یونیورسٹی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر رہیں۔
1986سے1994 تک، شعبہ سوشل ورک، پشاور یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسررہیں۔
1977سے 1986 تک لیکچرر (کل وقتی) شعبہ سوشل ورک، پشاور یونیورسٹی رہیں۔
اُنہوں نے برطانیہ، امریکہ، جرمنی اور بنگلہ دیش کی یونیورسٹیوں میں بطوراسکالراور فیکلٹی ممبردورہ بھی کیا۔
فروری 2012 کووزٹنگ پروفیسر شعبہ تعلیم، ایسٹرن الینوائے یونیورسٹی، چارلسٹن،امریکہ گئیں۔
1997 کوبطور ایڈجیکٹ پروفیسر، یونیورسٹی آف راجشاہی، بنگلہ دیش میں پڑھایا۔
2005سے 2008 تک شعبہ بشریات ڈرہم یونیورسٹی،برطانیہ میں سینئر ریسرچ فیلو رہیں۔
2004سے2007 تک ریسرچ کوڈائریکٹر، 'SYHAT' پروجیکٹ سروے آف یوتھ ہیلتھ فار افغان ٹوڈے، یونیورسٹی آف ڈرہم کے ساتھ تعاون، شعبہ بشریات رہیں۔
جنوری سے فروری 2002 تک انٹرنیشنل سینٹر فار گلوبل ایجنگ، کیتھولک یونیورسٹی، واشنگٹن ڈی سی امریکہ میں سینئر اسکالر رہیں۔
نومبر2001 کو جینڈر اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ، ہل یونیورسٹی، یوکے رہیں۔
فروری سے مارچ 2001 تک جینڈر اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ، ہل یونیورسٹی،یوکے رہیں۔
جون 1997 کو ڈیپارٹمنٹ آف سوشل ورک اینڈ کمیونٹی ڈویلپمنٹ، Gherad Mercator، Duisburg University، جرمنی میں پڑھایا۔
ستمبرسے دسمبر 1998 تک مڈل ایسٹ سینٹر یونیورسٹی آف پنسلوانیا، فلاڈیلفیا، امریکہ میں فل برائٹ اسکالر رہیں۔ وہ پی ایچ ڈی کے لیے ایچ ای سی سے منظور شدہ سپروائزر بھی ہیں۔ اور ایم فل کے مقالے کی نگران ہیں اور ان کی نگرانی میں 13 پی ایچ ڈی اور 8 ایم فل اسکالرز کے ساتھ ساتھ 350 سے زیادہ پوسٹ گریجویٹ اسکالر ز تیار ہوئے ہیں۔وہ سماجی کام سے متعلق موضوعات پر چار کتب کی مصنفہ ہیں اور اسی طرح کے موضوعات پر بہت سے مضامین بھی لکھ چکی ہیں۔ان کے کام کے اعتراف کے طور پر انہیں قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز کی طویل فہرست ان کی ذہانت، پیشہ ورانہ مہارت اور کارنامے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔۔ڈاکٹر سارہ صفدر انگریزی، اردو،پنجابی، پشتوا، ہندکو اوردری زبان پر عبور رکھتی ہیں۔

ڈاکٹر سارہ صفدر مذہبی اقلیتی کیمونٹی سے تعلق رکھنے والی پہلی خاتون ہیں جو کے پی میں وزیر بنیں اور انہیں مذہبی امور کا قلمدان دیا گیا۔ وہ عبوری کابینہ میں سماجی بہبود اور تعلیم کے قلمدان بھی رکھ چکی ہیں۔ پبلک سروس کمیشن آفس میں جسٹس بھگوان داس کے بعد پہلی خاتون اور مسیحی تھیں۔ اُنہوں نے بطور ممبر برائے مینارٹی کمیشن کے پی کے میں کوٹے سٹم کو متعارف کروایا بلکہ بچوں کو اس کے متعلق سمجھایا اور اشتہار بھی دئیے۔
ڈاکٹر سارہ صفد کو حال ہی میں جون 2023 سے جون 2026 تک تین سال کی مدت کے لیے حکومت پاکستان کی "خیبر پختونخوا اکنامک زون ڈویلپمنٹ کمیٹی" کا رکن بھی بنایا گیا ہے۔

ڈاکٹر سارہ صفدر کا کہنا ہے کہ پہلی چیز جو میں بتانا چاہتی ہوں، حالات سب جگہ یکساں ہیں،آپ کو خود کو بدلنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ خواتین،نوجوانوں اور بالخصوص مسیحی قوم کے لوگوں کو یہ پیغام دوں گی کہ اپنے اخلاق اور کردار میں مضبوط رہ کر کام کریں۔ شارٹ کٹ کے پیچھے نہ بھاگیں۔مسلسل محنت اور ایمانداری سے آپ اپنی منزل اور مقاصد حاصل کر لیتے ہیں۔

”دیکھیں نئی نظر سے“   (ایازمورس) دیکھنا انسان کی زندگی میں بہت اہم ہے. دیکھنے کی نعمت قدرت کی بہترین نعمتیں میں سے ایک ہ...
01/11/2023

”دیکھیں نئی نظر سے“ (ایازمورس)
دیکھنا انسان کی زندگی میں بہت اہم ہے.
دیکھنے کی نعمت قدرت کی بہترین نعمتیں میں سے ایک ہے۔
کبھی آپ نے پوچھا ہے ان لوگوں سے جو دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں...؟!
مجھے شروع سے چیزوں کو مختلف نظر اور نظریے سے دیکھنے کی عادت تھی.
اس لٸے زندگی میں کچھ منفرد اور الگ دیکھنے کی جسجتو نے
میڈیا کی طرف رحجان ماٸل کردیا تھا.
اس تحریک نے جو دیکھا،
اسے دوسروں کو دکھانے اور بتانے کی لگن بیدار کی تھی۔
اس کوشش اور تلاش میں ماسٹر ٹی وی کا آغاز ہوا.
Master TV Ayaz Morris

Master TV  was established in 2019 by CEO Ayaz Morris  to utilize the power of digital media. It's been a great success ...
01/11/2023

Master TV was established in 2019 by CEO Ayaz Morris to utilize the power of digital media. It's been a great success story and an incurable journey so far.
Started locally to reach the global audience with inspiring content and remarkable consistency.
The audience of Master TV is diverse and includes individuals from all over the world.
Over 650 videos, including inspiring stories, expert interviews, motivational talks, historical documentary, and online sessions on social issues, have been uploaded.
Keep supporting

https://twitter.com/Master_MTV
https://web.facebook.com/Mtvnetwork247
https://www.linkedin.com/in/master-tvp
https://youtube.com/

30/10/2023

"The journey of a life long learner." l Saqib Mansoor Ahmed l Ayaz Morris l Master TV l

      Ayaz Morris Master TV
30/10/2023


Ayaz Morris Master TV

TV Pakistan Get Our New and Latest Sessions, Interviews & Videos.Subscribe to Our Channel Master TV Pakistan Follow Us on Social Media:https://tw...

”پنڈ سے پنڈی تک کا سفر“       ایاز مورس شعوری ہوش سنبھالنے سے پہلے میں اپنے گاؤں چک نمبر 270 لوریتو، لیہ سے کراچی آ چکا...
30/10/2023

”پنڈ سے پنڈی تک کا سفر“ ایاز مورس

شعوری ہوش سنبھالنے سے پہلے میں اپنے گاؤں چک نمبر 270 لوریتو، لیہ سے کراچی آ چکا تھا اس لیے گاؤں کی بے شمار شخصیات سے لاعلم تھا۔ کچھ کے نام، کام اور مقام سے واقف تھا لیکن اس کا براہ راست تجربہ نہ ہوا تھا۔

دادا سے دوستی گہری ہوئی اور گاؤں میں اکثر آنا جانا شروع ہوا تو گاؤں کی شخصیات کے بارے میں اکثر گفتگو ہوتی رہتی تھی۔ خاص طور پر عہد حاضر میں وہ لوگ جو گاؤں کی خدمت اور گاؤں کا نام روشن کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں، ان کا خاص ذکر ہوتا تھا۔ دادا ایک نام کا اکثر ذکر کرتے اور مجھے تلقین کرتے کہ میں ان سے ملوں۔

یہ نام مس مارگریٹ ڈینیل کا تھا جو اس وقت گاؤں میں نہیں بلکہ راولپنڈی میں مقیم ہیں۔ جہاں وہ عرصے دراز سے درس و تدریس کے ذریعے خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔ وہ سوشل میڈیا پر بھی بھرپور فعال ہیں۔ وہ جب بھی پنڈی سے گاؤں آتی ہیں تو بچوں کے ساتھ تعلیم و تربیت، نوجوان کے ساتھ مکالمہ اور بزرگوں کے ساتھ رفاقت ان کی سرگرمیوں کا مرکز ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مذہبی عبادات اور پروگراموں میں بھرپور شرکت، نوجوان لڑکیوں کے ساتھ ہنر کی باتیں، والدین کے ساتھ گفت و شنید اور مذہبی رہنماؤں سے ایک خاص تعلق ان کی شخصیت کا کمال ہے۔ ابھی چند دن قبل انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ گاوٴں میں مونٹیسوری سکول کا بھی آغاز کر رہی ہیں۔

میرا ان سے دوسرا تعارف یوں ہوا کہ انہوں نے گرمیوں کی چھٹیوں میں گاوٴں کے بچوں کے ساتھ دادا کا ایک سیشن رکھا جس میں دادا نے اپنے تجربات اور تعلیم کی اہمیت پر بچوں سے گفتگو کی۔

اس سیشن کی انہوں نے تصویریں کھینچیں اور مجھے فیس بک پر بھیجیں، میرے لیے یہ تصویریں کسی نایاب تحفے سے ہرگز کم نہ تھیں۔ اور خوشی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میرے دادا کو اس نظریے سے کوئی اور بھی دیکھتا ہے۔ خیر اس طرح ان سے بات چیت کے سلسلہ کا آغاز ہوا اور میں نے وعدہ کیا کہ میں جب بھی راولپنڈی آیا تو میں ان سے ضرور ملوں گا۔

2021 میں پہلی مرتبہ راولپنڈی ان کے گھر پر گیا، جس جوش اور خلوص کے ساتھ انہوں نے مجھے اپنے گھر پر ویلکم کیا وہ میرے لیے قابل دید تھا۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے میری مہمان نوازی میں کوئی کسر نہ رکھ چھوڑی بلکہ ان سب سے بڑھ کر مجھے جو عزت اور مقام دیا وہ میرے لیے خوش گوار تجربہ تھا۔

میرے دل میں ان کے لیے عزت اور بھی بڑھ گئی جب انہوں نے میری گفتگو کو انتہائی شدت اور سلیقے کے ساتھ سنا اور مجھے دوسروں کے ساتھ متعارف کروایا۔

اس کے بعد یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دادا کے بعد اگر گاؤں کی کسی شخصیت نے میرے علمی قد اور مرتبے کی پہچان اور قدر کی ہے تو وہ مس مارگریٹ ڈٹینیل ہیں۔

جو میری صلاحیتوں کی مترادف ہونے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو میرے کام سے روشناس کروانے میں بھی کوشاں رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ گاؤں کی بہتری کے لئے نوجوانوں سے مکالمے اور مختلف آئیڈیاز پر کام کرنے کے لیے مجھے تحریک دیتی ہیں۔ یہ تحریر ان کی میرے بارے رائے کے متعلق نہیں بلکہ

ان کی کہانی اور خاص طور پر گاؤں سے راولپنڈی میں ایک شاندار نام اور مقام بنانے کے سفر کی داستان ہے۔

یہ داستان عزم و ہمت اور علم کے حصول کی جستجو کی کہانی ہے۔ ایک ایسی استاد کی کہانی جس نے عملی طور پر تعلیم و تربیت اور درس و تدریس کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہے۔

20 جون 1965 کو ماسٹر ڈینیل اور سرداراں بی بی کے ہاں، شیخوپورہ کے ایک معروف مسیحی گاؤں مریم آباد میں کاتھولک مسیحی گھرانے میں پیدا ہونے والی مارگریٹ، بچپن سے ہی تعلیم کی بے حد شوقین تھیں جو اپنے والد سے جو کہ چک نمبر 270، لیہ میں 1970 میں زمین خرید چکے تھے، سے بہت متاثر تھیں۔ ان کے والد گاؤں کے پوسٹ ماسٹر تھے اور اس کے علاوہ ایک عالمگیر کاتھولک فلاحی تنظیم کاریتاس میں کام کرنے کے ساتھ ایک زمیندار بھی تھے۔

مارگریٹ اپنی ذہانت کی وجہ سے اپنے باپ کی لاڈلی تھیں۔ اکثر اپنے کلاس فیلوز کی پڑھائی میں بھی مدد کرتی تھیں۔ جب وہ پانچویں کلاس میں پڑھتی تھی تو وہ لالٹین لے کر اپنے والد کے ساتھ ان کے آفس کے کام میں ہاتھ بٹاتی تھیں۔ ان کی والدہ اکثر ان کے والد سے شکایت کرتی تھیں کہ اس نے سکول کا بھی کام کرنا ہے جس پر ان کے والد کہتے ہیں کہ جو یہ سکول سے پڑھ لیتی ہے اس کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔

ابتدائی تعلیم گورنمنٹ مشن ہائی سکول لوریتو، لیہ، سے، انٹر میڈیٹ، راولپنڈی بورڈ سے، جبکہ گریجویشن پنجاب یونیورسٹی سے کی۔ پاکستان مونٹیسوری کونسل، اسلام آباد سے مونٹیسوری اساتذہ کی تربیت میں ڈپلومہ حاصل کیا۔ 1985 میں بہتر تعلیم اور روزگار کے لئے گاوٴں سے راولپنڈی منتقل ہوئے۔ جہاں 1990 سے 2006 نامور اسکول، سینٹ پال کیمبرج سکول، سیٹلائٹ راولپنڈی میں بطور ٹیچر اپنی خدمات سر انجام دیتی رہیں۔ 2008 سے اب تک بطور ٹرینر مونٹیسوری سسٹم پڑھا رہی ہیں۔ ابھی تک پاکستان میں کئی سو اساتذہ کو مونٹیسوری ٹیچر ٹریننگ کروا چکی ہیں۔ پاکستان میں مونٹیسوری کے نظام کے فروغ کے لئے ایک متحرک اور سرگرم آواز ہیں۔ ان کی زندگی کا مشن، پاکستان میں مونٹیسوری نظام کے تحت، تمام بچوں کو تعلیم کی روشنی سے منور کرنا ہے۔

مس مارگریٹ ڈینیل کی زندگی کے بے شمار پہلو ہیں لیکن مجھے ان کی چند باتیں بہت متاثر کرتی ہیں۔ جس میں تعلیم کے لیے ہر ہمیشہ کوشاں رہنا، تمام بچوں کو ان کے پس منظر سے بالاتر ہو کر اہمیت دینا، اپنے اجداد کی قدروں کو زندہ رکھنا، اپنے گاؤں کی بہتری اور بھلائی کے لیے ہر ممکن کوشش کرنا اور نوجوانوں سے مکالمہ اور رشتہ قائم کرنا ہے۔ آج ان کے بے شمار سٹوڈنٹس دنیا بھر کے مختلف ممالک میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ جن پر وہ ہمیشہ ناز کرتی ہیں۔

مس مارگریٹ ڈینیل کی زندگی ایک پھلدار اور بابرکت زندگی ہے، جنہوں نے ہمیشہ دوسروں کی بھلائی کے لیے اپنے فائدے کو بھی نظر انداز کیا ہے۔ میری نظر میں بے شک انہوں نے زندگی میں دولت کے انبار حاصل نہیں کیے لیکن عزت، وقار اور اخلاقی کردار کا وہ معیار حاصل کیا ہے جو بہت کم لوگوں کے حصے میں آتا ہے۔

مس مارگریٹ جیسے لوگ اس معاشرے میں بہت کم ہیں جو آج بھی دوسروں کی بھلائی اور بہتری پر یقین رکھتے ہیں اور اپنی زندگی اس خدمت کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔ ان کی آئیڈیل شخصیت مدر ٹریسا ہیں جبکہ وہ ماریہ مونٹیسوری کو بہت پسند کرتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ مس مارگریٹ ڈینیل جیسی شخصیات کی خدمات کی پذیرائی ہونی چاہیے اور اس ضمن میں ان کی کاوشوں میں بھرپور معاونت کرنی چاہیے۔
کیونکہ ماریہ مونٹیسوری نے کہا تھا۔ ”ہمیں زندگی کے اس راستے پر اکٹھے چلنا چاہے، کیونکہ تمام چیزیں کائنات کا حصہ ہیں اور ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں تاکہ ہم ایک مکمل اتحاد قائم کر سکیں۔“

Address

DHA Phase II Ext
Karachi
75500

Telephone

+923422739678

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Master TV posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Master TV:

Videos

Share


Other News & Media Websites in Karachi

Show All