دینہ اہلیانِ ھڈالہ سیداں کے زیر اہتمام فلسطین یکجہتی ریلی؛ رہلی میں خواتین، بچوں ، نوجوانوں سمیت بزرگوں کی شرکت
*رپورٹ سید ذوالقرنین شاہ*
دینہ سات سالہ بچے نے گھر کی کفالت کا ذمہ لے لیا اور محنت مزدوری کرنے لگا
افلاس کی بستی میں ذرا جا کے تو دیکھو______!!!
وہاں بچے تو ہوتے ہیں مگر بچپن نہیں ہوتا______!!!
(رپورٹ عرفان محبوب) سیلاب زدگان کی امداد کا سلسلہ جاری ہے گزشتہ روز تحصیل دینہ کی یونین کونسل لدھڑ کے گاوں بڑل منگلا کے رہائشی معروف سماجی و سیاسی شخصیت چوہدری خالد حسین اینڈ برادران کیطرف سے سیلاب متاثرین کے لئے پہلی کھیپ میں 50سے زائد سیلاب متاثرین خاندانوں کے لئے آٹا گھی چینی پتی صابن ماچسیں نمک اچار دالیں بسکٹ بیکری کا سامان چاول اور صاف پینے والا پانی وغیرہ سمیت ،کپڑوں کا بندوبست کیا گیا جبکہ دوسری کھیپ بھی جلد روانہ کی جائے گئ سیلاب متاثرین کو امداد پہنچانے کےلئے ڈپٹی ڈائریکٹر سوشل ویلفئیر ڈیپارٹمنٹ جہلم چوہدری واجد حسین کی ٹیم کو تمام امداد دے دی گی تاکہ وہ متاثرین تک پہنچا سکیں ،سیلاب متاثرین کو امداد پہنچانے کے لئے ایک بہترین دعائیہ تقریب کا انعقاد بھی کیا گیا دعائیہ تقریب میں خصوصی آمد اسٹیشن کمانڈر منگلا کینٹ عرفان احمد بھاٹ ،کرنل ظفر اقبال اے کیو اسٹیشن کمانڈر منگلا کینٹ ،سی او کنٹورنمنٹ بورڈ میڈیم سمرین آغا ،چوہدری فوق شیر باز رہنما پی ٹی آئی جہلم ،چوہدری واجد حسین ڈپٹی ڈائریکٹر سوشل ویلفئیر جہلم ،چوہدری شکیل احمد وائیس چیرمین کنٹورنمنٹ بورڈ منگلا کینٹ اور میزبان چوہدری خالد حسین سمیت معززین علاقہ نے شرکت کی اس موقعہ پر عرفان احمد بھاٹ اسٹیشن کمانڈر منگلا کینٹ نے اظہار خیال کر
دینہ شہر کے مختلف مقامات پر بجلی کے بلوں میں اضافی ٹیکس تاجر برادری سراپااحتجاج،بل ادا نہ کرنے کا عندیہ دے دیا،
دینہ شہر کے مختلف مقامات پر بجلی کے بلوں میں اضافی ٹیکس تاجر برادری سراپااحتجاج،بل ادا نہ کرنے کا عندیہ دے دیا،تاجروں کا وزیر اعظم پاکستان سے ظالمانہ ٹیکس واپس لینے کا مطالبہ۔
ابتدائی طبی وغیر طبی مہارتیں! آج میڈیا پر ایک اچھی خبر چھائی رہی کہ ایک لیڈی ڈاکٹر نے شوہر کے ساتھ مل کر گلگت بلتستان میں واقع نلتر جھیل میں ڈ
ابتدائی طبی وغیر طبی مہارتیں!
آج میڈیا پر ایک اچھی خبر چھائی رہی کہ ایک لیڈی ڈاکٹر نے شوہر کے ساتھ مل کر گلگت بلتستان میں واقع نلتر جھیل میں ڈوبنے والے ایک بچے کو ابتدائی طبی امداد کے ذریعے بچا لیا۔
یہ تھیں ڈاکٹر قراۃ العین اور ان کے شوہر اسرار، جنھوں نے جھیل میں ڈوبنے والے بچے کو موقع پر سی پی آر کے ذریعے بچا لیا۔
اس پر اہل علاقہ نے دونوں کو خراج تحسین پیش کیااور اب سنا ہے کہ مقامی حکومت اس جوڑے کو ایوارڈ بھی دے گی!
بہت خوب!
پذیرائی ہونی بھی چاہیے،
لیکن فرض کیجیے کہ اگر یہ میاں بیوی اس وقت جھیل پر نہ ہوتے تو کیا ہوتا؟
ظاہر ہے بچے کو طبی امداد نہیں ملتی اور ایک قیمتی کلی کھلنے سے پہلے ہی مرجھا جاتی۔
تو دوستو!
سی پی آر اور اسی طرح کی مزید ابتدائی طبی مہارتیں ایسی نہیں ہوتیں، جن کے سیکھنے کے لیے میڈیکل ڈگری کاہونا ضروری ہو۔
ڈاکٹریا طبی عملہ ظاہر ہے سب جگہ نہیں ہوسکتے، لیکن یہ طبی مہارتیں اگر ہر شہری نے سیکھی ہوں تو موقع پر موجود کتنی ہی قیمتی جانیں بچ سکتی ہیں۔
اب مثلاً اسی طریقے(سی پی آر) کو دیکھ لیجیے۔ یہ ایک تکنیک ہے جو کوئی بھی کچھ گھنٹوں یا دنوں میں سیکھ سکتا ہے۔
اس تکنیک میں سینے پر دباؤڈال کراور منہ سے منہ جوڑ کر سانس کی بحالی کا عمل کیا جاتا ہے تا کہ بے ہوش مریض کا سانس بحال ہوجائے۔
اب اس سی پ