26/09/2023
غزل
شاعر فطرت ہوں جب بھی فکر فرماتا ہوں میں
روح بن کر ذرے ذرے میں سما جاتا ہوں میں
آ کہ تجھ بن اس طرح اے دوست گھبراتا ہوں میں
جیسے ہر شے میں کسی شے کی کمی پاتا ہوں میں
تیری صورت کا جو آئینہ اسے پاتا ہوں میں
اپنے دل پر آپ کیا کیا ناز فرماتا ہوں میں
میری ہستی شوق پیہم میری فطرت اضطراب
کوئی منزل ہو مگر گزرا چلا جاتا ہوں میں
ہائے ری مجبوریاں ترک محبت کے لیے
مجھ کو سمجھاتے ہیں وہ اور ان کو سمجھاتا ہوں میں
میری ہمت دیکھنا میری طبیعت دیکھنا
جو سلجھ جاتی ہے گتھی پھر سے الجھاتا ہوں میں
تیری محفل تیرے جلوے پھر تقاضا کیا ضرور
لے اٹھا جاتا ہوں ظالم لے چلا جاتا ہوں میں
میری خاطر اب وہ تکلیف تجلی کیوں کریں
اپنی گرد شوق میں خود ہی چھپا جاتا ہوں میں
تا کجا ضبط محبت تا کجا درد فراق
رحم کر مجھ پر کہ تیرا راز کہلاتا ہوں میں
واہ رے شوق شہادت کوئے قاتل کی طرف
گنگناتا رقص کرتا جھومتا جاتا ہوں میں
دیکھنا اس عشق کی یہ طرفہ کاری دیکھنا
وہ جفا کرتے ہیں مجھ پر اور شرماتا ہوں میں
ایک دل ہے اور طوفان حوادث اے جگرؔ
ایک شیشہ ہے کہ ہر پتھر سے ٹکراتا ہوں میں