Iftikhar Ahmed Yousafzai

Iftikhar Ahmed Yousafzai Iftikhar Ahmed Khan Yousafzai

میدان عرفات میں آخری نبی، نبی رحمت حضرت محمد رسول اللہﷺ نے 9 ذی الحجہ،  10 ہجری   (7 مارچ 632 عیسوی)  کو آخری خطبہ حج دی...
02/06/2024

میدان عرفات میں آخری نبی، نبی رحمت حضرت محمد رسول اللہﷺ نے 9 ذی الحجہ، 10 ہجری (7 مارچ 632 عیسوی) کو آخری خطبہ حج دیا تھا۔ آئیے اس خطبے کے اہم نکات کو دہرا لیں، کیونکہ ہمارے نبی نے کہا تھا، میری ان باتوں کو دوسروں تک پہنچائیں۔

حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔۔

*۱*۔ اے لوگو! سنو، مجھے نہیں لگتا کہ اگلے سال میں تمہارے درمیان موجود ہوں گا۔ میری باتوں کو بہت غور سے سنو، اور ان کو ان لوگوں تک پہنچاؤ جو یہاں نہیں پہنچ سکے۔

*۲*۔ اے لوگو! جس طرح یہ آج کا دن، یہ مہینہ اور یہ جگہ عزت و حرمت والے ہیں۔ بالکل اسی طرح دوسرے مسلمانوں کی زندگی، عزت اور مال حرمت والے ہیں۔ (تم اس کو چھیڑ نہیں سکتے )۔

*۳*۔ لوگوں کے مال اور امانتیں ان کو واپس کرو۔

*۴*۔ کسی کو تنگ نہ کرو، کسی کا نقصان نہ کرو۔ تا کہ تم بھی محفوظ رہو۔

*۵*۔ یاد رکھو، تم نے اللہ سے ملنا ہے، اور اللہ تم سے تمہارے اعمال کی بابت سوال کرے گا۔

*٦*۔ اللہ نے سود کو ختم کر دیا، اس لیے آج سے سارا سود ختم کر دو (معاف کر دو)۔

*۷*۔ تم عورتوں پر حق رکھتے ہو، اور وہ تم پر حق رکھتی ہیں۔ جب وہ اپنے حقوق پورے کر رہی ہیں، تم ان کی ساری ذمہ داریاں پوری کرو۔

*۸*۔ عورتوں کے بارے میں نرمی کا رویہ قائم رکھو، کیونکہ وہ تمہاری شراکت دار (پارٹنر) اور بے لوث خدمت گذار رہتی ہیں۔

*۹*۔ کبھی زنا کے قریب بھی مت جانا۔

*۱۰*۔ اے لوگو! میری بات غور سے سنو، صرف اللہ کی عبادت کرو، پانچ فرض نمازیں پوری رکھو، رمضان کے روزے رکھو، اورزکوۃ ادا کرتے رہو۔ اگر استطاعت ہو تو حج کرو۔

*۱۱*۔ زبان کی بنیاد پر, رنگ نسل کی بنیاد پر تعصب میں مت پڑ جانا, کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر, عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں, ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ تم سب اللہ کی نظر میں برابر ہو۔
برتری صرف تقوی کی وجہ سے ہے۔

*۱۲*۔ یاد رکھو! تمہیں ایک دن اللہ کے سامنے اپنے اعمال کی جوابدہی کے لیے حاضر ہونا ہے، خبردار رہو! میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا۔

*۱۳*۔ یاد رکھنا! میرے بعد کوئی نبی نہیں آنے والا ، نہ کوئی نیا دین لایا جاےَ گا۔ میری باتیں اچھی طرح سے سمجھ لو۔

*۱۴*۔ میں تمہارے لیے دو چیزیں چھوڑ کے جا رہا ہوں، قرآن اور میری سنت، اگر تم نے ان کی پیروی کی تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔

*۱۵*۔ سنو! تم لوگ جو موجود ہو، اس بات کو اگلے لوگوں تک پہنچانا۔ اور وہ پھر اگلے لوگوں کو پہنچائیں۔اور یہ ممکن ہے کہ بعد والے میری بات کو پہلے والوں سے زیادہ بہتر سمجھ (اور عمل) کر سکیں۔

*پھرآسمان کی طرف چہرہ اٹھایا اور کہا*،

*۱٦*۔ اے اللہ! گواہ رہنا، میں نے تیرا پیغام تیرے لوگوں تک پہنچا دیا۔

: اللہ تعالیٰ ہمیں ان لوگوں میں شامل کرے، جو اس پیغام کو سنیں/پڑھیں اور اس پر عمل کرنے والے بنیں۔ اور اس کو آگے پھیلانے والے بنیں۔ اللہ ہم سب کو اس دنیا میں نبی رحمت کی محبت اور سنت عطا کرے، اور آخرت میں جنت الفردوس میں اپنے نبی کے ساتھ اکٹھا کرے،

آمین۔

10/10/2023

اسلامی تاریخ کی دس عظیم ترین جنگیں:-

1) جنگ بدر؛ سن 624ء میں لڑی گئی، حق اور باطل کی فیصلہ کن جنگ جس میں مسلمانوں کی قیادت حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کر رہے تھے۔ تعداد '313'.

2) جنگ قادسیہ؛ سن 636ء میں لڑی گئی، اس میں ساسانی سلطنت کی قسمت ستارہ غروب ہو گیا اور مسلمان دنیا کی سب سے بڑی طاقت بن کر ابھرے، حضرت عمر فاروق اعظم کے عہد میں عراق کے ایک میدان قادسیہ میں لڑی گئی جس میں مسلمانوں کی قیادت حضرت سعد بن ابی وقاص کر رہے تھے۔ تعداد تقریباً 'چالیس ہزار'۔

3) جنگ یرموک؛ سن 636ء میں لڑی گئی جس میں مشرقی رومی سلطنت (بازنطینی) کا سب سے اہم صوبہ سوریہ (آج کا شام، فلسطین، اردن، لبنان) مسلمانوں کے جھولی میں آ پڑا، یہ بھی حضرت عمر کے عہد میں اردن کے علاقے یرموک میں لڑی گئی مسلمانوں کی قیادت حضرت خالد بن ولید کر رہے تھے۔ تعداد تقریباً 'تیس ہزار'۔

4) جنگ وادی الکبیر؛ سن 711ء میں لڑی گئی، اندلس (ہسپانیہ و پرتگال) جو اس وقت وندال کہلاتا تھا سے گاتھ سلطنت کا خاتمہ ہوا اور مسلمانوں نے آٹھ صدیوں تک وہاں علم و فن کے چراغ روشن کیے مگر آپس کی نا اتفاقی کی وجہ سے آہستہ آہستہ عیسائیوں نے دوبارہ اس پر قبضہ کر لیا، مسلمانوں کی قیادت امیر طارق بن زیاد نے کی۔ تعداد 'بارہ ہزار'۔

5) جنگ ملازگرت سن 1071ء میں سلجوقیوں عظام اور مشرقی رومی سلطنت کے درمیان لڑی گئی، اس جنگ نے نہ صرف بازنطینیوں کے پچھلی ایک صدی سے عالم اسلام کی طرف بڑھتے ہوئے قدم روک دیے بلکہ اناطولیہ (آج کا ترکیہ) پر پہلی دفعہ مسلمانوں کا مستحکم طور پر قبضہ ہو گیا اور فتح قسطنطنیہ کا پیش خیمہ ثابت ہوا، مسلمانوں کی قیادت سلطان الپ ارسلان کے ہاتھ میں تھی جبکہ رومیوں کا بادشاہ رومانوس جنگ میں قید ہوا سلطان نے عالی ظرفی سے اس کو آزاد کر دیا۔ تعداد 'پندرہ سے بیس ہزار'۔

6) جنگ ترائن(دوسری)؛ سن 1192ء میں ہندوستان کے راجپوت راجاؤں اور غوری سلطنت کے درمیان لڑی گئی اس جنگ نے مشرقی ہندوستان کی قسمت کا فیصلہ کر دیا اور ہندؤں کا بڑا راجہ رائے پتھورا مارا گیا اور مسلمانوں نے اگلی چھ صدیوں تک ہندوستان پر حکومت کی مسلم فوج کی قیادت سلطان محمد غوری نے کی۔ تعداد 'اسی ہزار'۔

7) جنگ حطین؛ سن 1187ء میں فلسطین کے مقام حطین میں لڑی گئی، تقریباً اٹھاسی برس بعد مسلمانوں نے دوبارہ بیت المقدس پر قبضہ کر لیا اور صلیبیوں کے مصر اور شام کی طرف بڑھتے قدم روک دیے گئے، مسلمانوں کی قیادت سلطان صلاح الدین ایوبی نے کی اور اس جنگ میں مسلمانوں کی تعداد 'بیس سے پچیس ہزار' کے درمیان تھی۔

8) جنگ عین جالوت؛ سن 1260ء میں مصر کے مملوکوں اور ایران کے ایلخانی منگولوں کے درمیان لڑی گئی، اس میں پچھلے چار دہائیوں سے پوری اسلامی دنیا کو تباہ و برباد کر دینے والے وحشی منگولوں کو پہلی بار شکست ہوئی اور یہ ریلا فلسطین سے آگے نہ بڑھ سکا، مسلمانوں کی فوج کے سپہ سالار رکن الدین بیبرس تھے تعداد 'بیس ہزار'۔

9) جنگ نکوپولس؛ سن 1396ء میں سلطنت عثمانیہ اور یورپ کی متحدہ طاقتوں کے درمیان لڑی گئی، اس جنگ نے مشرقی یورپ کی قسمت کا فیصلہ مسلمانوں کے حق میں کر دیا، اس کو آخری صلیبی جنگ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے بعد یورپ میں مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ قومیت کی بنیاد پر جنگیں لڑی جانے لگیں، عثمانیوں کی قیادت سلطان بایزید یلدرم کے ہاتھ میں تھی اور مسلمانوں کی تعداد 'بیس ہزار' سے زیادہ نہ تھی۔

10) جنگ کنواہہ؛ سن 1527ء میں نوزائیدہ مغلیہ سلطنت اور ہندوستان کے راجپوت راجہ رانا سنگرام سنگھ کے درمیان ہوئی اور راجپوتوں کے تقریباً ساڑھے تین صدیوں بعد ایک بار پھر مرکزی ہند کی طرف بڑھتے قدم رک گئے اور ہندوستان میں مسلمانوں کی سلطنت ایک دفعہ پھر استحکام کی راہ چل پڑی، تیموریوں کی قیادت ظہیر الدین بابر کے ہاتھ میں تھی اور تعداد تقریباً 'تیس ہزار' تھی۔

آپ کے بچے بھلے آپ سے پوچھیں یا نہ پوچھیں، آپ انہیں یہ ضرور بتایا کیجیئے کہ ہم فلسطین سے اس لیئے محبت کرتے ہیں کہ  01: یہ...
10/10/2023

آپ کے بچے بھلے آپ سے پوچھیں یا نہ پوچھیں، آپ انہیں یہ ضرور بتایا کیجیئے کہ

ہم فلسطین سے اس لیئے محبت کرتے ہیں کہ

01: یہ فلسطین انبیاء علیھم السلام کا مسکن اور سر زمین رہی ہے۔

02: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فلسطین کی طرف ہجرت فرمائی۔

03: اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت لوط علیہ السلام کو اس عذاب سے نجات دی جو ان کی قوم پر اسی جگہ نازل ہوا تھا۔

04: حضرت داؤود علیہ السلام نے اسی سرزمین پر سکونت رکھی اور یہیں اپنا ایک محراب بھی تعمیر فرمایا۔

05: حضرت سلیمان علیہ اسی ملک میں بیٹھ کر ساری دنیا پر حکومت فرمایا کرتے تھے۔

06: چیونٹی کا وہ مشہور قصہ جس میں ایک چیونٹی نے اپنی باقی ساتھیوں سے کہا تھا "اے چیونٹیو، اپنے بلوں میں گھس جاؤ" یہیں اس ملک میں واقع عسقلان شہر کی ایک وادی میں پیش آیا تھا جس کا نام بعد میں "وادی النمل – چیونٹیوں کی وادی" رکھ دیا گیا تھا۔

07: حضرت زکریا علیہ السلام کا محراب بھی اسی شہر میں ہے۔

08: حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسی ملک کے بارے میں اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ اس مقدس شہر میں داخل ہو جاؤ۔ انہوں نے اس شہر کو مقدس اس شہر کے شرک سے پاک ہونے اور انبیاء علیھم السلام کا مسکن ہونے کی وجہ سے کہا تھا۔

09: اس شہر میں کئی معجزات وقوع پذیر ہوئے جن میں ایک کنواری بی بی حضرت مریم کے بطن سے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی ولادت مبارکہ بھی ہے۔

10: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جب اُن کی قوم نے قتل کرنا چاہا تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں اسی شہر سے آسمان پر اُٹھا لیا تھا۔

11: ولادت کے بعد جب عورت اپنی جسمانی کمزوری کی انتہاء پر ہوتی ہے ایسی حالت میں بی بی مریم کا کھجور کے تنے کو ہلا دینا بھی ایک معجزہ الٰہی ہے۔

12: قیامت کی علامات میں سے ایک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زمین پر واپس تشریف اسی شہر کے مقام سفید مینار کے پاس ہوگا۔

13: اسی شہر کے ہی مقام باب لُد پر حضرت عیسٰی علیہ السلام مسیح دجال کو قتل کریں گے۔

14: اسی شہر سے ہی یاجوج و ماجوج کا زمین میں قتال اور فساد کا کام شروع ہوگا۔

15: اس شہر میں وقوع پذیر ہونے والے قصوں میں سے ایک قصہ طالوت اور جالوت کا بھی ہے۔

16: فلسطین کو نماز کی فرضیت کے بعد مسلمانوں کا قبلہ اول ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ہجرت کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام دوران نماز ہی حکم ربی سے آقا علیہ السلام کو مسجد اقصیٰ (فلسطین) سے بیت اللہ کعبہ مشرفہ (مکہ مکرمہ) کی طرف رخ کرا گئے تھے۔ جس مسجد میں یہ واقعہ پیش آیا وہ مسجد آج بھی مسجد قبلتین کہلاتی ہے۔

17: حضور اکرم صل اللہ علیہ وسلم معراج کی رات آسمان پر لے جانے سے پہلے مکہ مکرمہ سے یہاں بیت المقدس (فلسطین) لائے گئے۔

18: سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم کی اقتداء میں انبیاء علیھم السلام نے یہاں نماز ادا فرمائی۔ اس طرح فلسطین ایک بار پھر سارے انبیاء کا مسکن بن گیا۔

19: سیدنا ابو ذرؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ زمین پر سب سے پہلی مسجد کونسی بنائی گئی؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ مسجد الحرام(یعنی خانہ کعبہ)۔ میں نے عرض کیا کہ پھر کونسی؟ (مسجد بنائی گئی تو) آپﷺ نے فرمایا کہ مسجد الاقصیٰ (یعنی بیت المقدس)۔ میں نے پھر عرض کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا فاصلہ تھا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ چالیس برس کا اور تو جہاں بھی نماز کا وقت پالے ، وہیں نماز ادا کر لے پس وہ مسجد ہی ہے۔

20: وصال حبیبنا صل اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ارتداد کے فتنہ اور دیگر
کئی مشاکل سے نمٹنے کیلئے عسکری اور افرادی قوت کی اشد ضرورت کے باوجود بھی ارض شام (فلسطین) کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تیار کردہ لشکر بھیجنا بھی ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے۔

21: اسلام کے سنہری دور فاروقی میں دنیا بھر کی فتوحات کو چھوڑ کر محض فلسطین کی فتح کیلئے خود سیدنا عمر کا چل کر جانا اور یہاں پر جا کر نماز ادا کرنا اس شہر کی عظمت کو اجاگر کرتا ہے۔

22: دوسری بار بعینہ معراج کی رات بروز جمعہ 27 رجب 583 ھجری کو صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں اس شہر کا دوبارہ فتح ہونا بھی ایک نشانی ہے۔

23: بیت المقدس کا نام قدس قران سے پہلے تک ہوا کرتا تھا، قرآن نازل ہوا تو اس کا نام مسجد اقصیٰ رکھ گیا۔ قدس اس شہر کی اس تقدیس کی وجہ سے ہے جو اسے دوسرے شہروں سے ممتاز کرتی ہے۔ اس شہر کے حصول اور اسے رومیوں کے جبر و استبداد سے بچا seeنے کیلئے 5000 سے زیادہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے جام شہادت نوش کیا۔ اور شہادت کا باب آج تک بند نہیں ہوا، سلسلہ ابھی تک چل رہا ہے۔ یہ شہر اس طرح شہیدوں کا شہر ہے۔

24: مسجد اقصیٰ اور بلاد شام کی اہمیت بالکل حرمین الشریفین جیسی ہی ہے۔ جب قران پاک کی یہ آیت (والتين والزيتون وطور سينين وهذا البلد الأمين) نازل ہوئی ّ تو ابن عباس کہتے ہیں کہ ہم نے بلاد شام کو "التین" انجیر سے، بلاد فلسطین کو "الزیتون" زیتون سے اور الطور سینین کو مصر کے پہاڑ کوہ طور جس پر جا کر حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک سے کلام کیا کرتےتھے سے استدلال کیا۔

25: اور قران پاک کی یہ آیت مبارک (ولقد كتبنا في الزبور من بعد الذكر أن الأرض يرثها عبادي الصالحون) سے یہ استدلال لیا گیا کہ امت محمد حقیقت میں اس مقدس سر زمین کی وارث ہے۔

26: فلسطین کی عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے یہاں پر پڑھی جانے والی ہر نماز کا اجر 500 گنا بڑھا کر دیا جاتا ہے

آپ کے بچے بھلے آپ سے پوچھیں یا نہ پوچھیں، آپ انہیں یہ ضرور بتایا کیجیئے کہ ہم فلسطین سے اس لیئے محبت کرتے ہیں کہ  01: یہ...
10/10/2023

آپ کے بچے بھلے آپ سے پوچھیں یا نہ پوچھیں، آپ انہیں یہ ضرور بتایا کیجیئے کہ

ہم فلسطین سے اس لیئے محبت کرتے ہیں کہ

01: یہ فلسطین انبیاء علیھم السلام کا مسکن اور سر زمین رہی ہے۔

02: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فلسطین کی طرف ہجرت فرمائی۔

03: اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت لوط علیہ السلام کو اس عذاب سے نجات دی جو ان کی قوم پر اسی جگہ نازل ہوا تھا۔

04: حضرت داؤود علیہ السلام نے اسی سرزمین پر سکونت رکھی اور یہیں اپنا ایک محراب بھی تعمیر فرمایا۔

05: حضرت سلیمان علیہ اسی ملک میں بیٹھ کر ساری دنیا پر حکومت فرمایا کرتے تھے۔

06: چیونٹی کا وہ مشہور قصہ جس میں ایک چیونٹی نے اپنی باقی ساتھیوں سے کہا تھا "اے چیونٹیو، اپنے بلوں میں گھس جاؤ" یہیں اس ملک میں واقع عسقلان شہر کی ایک وادی میں پیش آیا تھا جس کا نام بعد میں "وادی النمل – چیونٹیوں کی وادی" رکھ دیا گیا تھا۔

07: حضرت زکریا علیہ السلام کا محراب بھی اسی شہر میں ہے۔

08: حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسی ملک کے بارے میں اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ اس مقدس شہر میں داخل ہو جاؤ۔ انہوں نے اس شہر کو مقدس اس شہر کے شرک سے پاک ہونے اور انبیاء علیھم السلام کا مسکن ہونے کی وجہ سے کہا تھا۔

09: اس شہر میں کئی معجزات وقوع پذیر ہوئے جن میں ایک کنواری بی بی حضرت مریم کے بطن سے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی ولادت مبارکہ بھی ہے۔

10: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جب اُن کی قوم نے قتل کرنا چاہا تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں اسی شہر سے آسمان پر اُٹھا لیا تھا۔

11: ولادت کے بعد جب عورت اپنی جسمانی کمزوری کی انتہاء پر ہوتی ہے ایسی حالت میں بی بی مریم کا کھجور کے تنے کو ہلا دینا بھی ایک معجزہ الٰہی ہے۔

12: قیامت کی علامات میں سے ایک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زمین پر واپس تشریف اسی شہر کے مقام سفید مینار کے پاس ہوگا۔

13: اسی شہر کے ہی مقام باب لُد پر حضرت عیسٰی علیہ السلام مسیح دجال کو قتل کریں گے۔

14: فلسطین ہی ارض محشر ہے۔

15: اسی شہر سے ہی یاجوج و ماجوج کا زمین میں قتال اور فساد کا کام شروع ہوگا۔

16: اس شہر میں وقوع پذیر ہونے والے قصوں میں سے ایک قصہ طالوت اور جالوت کا بھی ہے۔

17: فلسطین کو نماز کی فرضیت کے بعد مسلمانوں کا قبلہ اول ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ہجرت کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام دوران نماز ہی حکم ربی سے آقا علیہ السلام کو مسجد اقصیٰ (فلسطین) سے بیت اللہ کعبہ مشرفہ (مکہ مکرمہ) کی طرف رخ کرا گئے تھے۔ جس مسجد میں یہ واقعہ پیش آیا وہ مسجد آج بھی مسجد قبلتین کہلاتی ہے۔

18: حضور اکرم صل اللہ علیہ وسلم معراج کی رات آسمان پر لے جانے سے پہلے مکہ مکرمہ سے یہاں بیت المقدس (فلسطین) لائے گئے۔ اور یہاں مسجد اقصی سے 27 رجب کو معراج پر روانہ ہوئے۔

19: سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم کی اقتداء میں انبیاء علیھم السلام نے یہاں نماز ادا فرمائی۔ اس طرح فلسطین ایک بار پھر سارے انبیاء کا مسکن بن گیا۔

20: سیدنا ابو ذرؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ زمین پر سب سے پہلی مسجد کونسی بنائی گئی؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ مسجد الحرام(یعنی خانہ کعبہ)۔ میں نے عرض کیا کہ پھر کونسی؟ (مسجد بنائی گئی تو) آپﷺ نے فرمایا کہ مسجد الاقصیٰ (یعنی بیت المقدس)۔ میں نے پھر عرض کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا فاصلہ تھا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ چالیس برس کا اور تو جہاں بھی نماز کا وقت پالے ، وہیں نماز ادا کر لے پس وہ مسجد ہی ہے۔

21: وصال حبیبنا صل اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ارتداد کے فتنہ اور دیگر
کئی مشاکل سے نمٹنے کیلئے عسکری اور افرادی قوت کی اشد ضرورت کے باوجود بھی ارض شام (فلسطین) کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تیار کردہ لشکر بھیجنا بھی ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے۔

22: اسلام کے سنہری دور فاروقی میں دنیا بھر کی فتوحات کو چھوڑ کر محض فلسطین کی فتح کیلئے خود سیدنا عمر کا چل کر جانا اور یہاں پر جا کر نماز ادا کرنا اس شہر کی عظمت کو اجاگر کرتا ہے۔

23: دوسری بار بعینہ معراج کی رات بروز جمعہ 27 رجب 583 ھجری کو صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں اس شہر کا دوبارہ فتح ہونا بھی ایک نشانی ہے۔

24: بیت المقدس کا نام قدس قران سے پہلے تک ہوا کرتا تھا، قرآن نازل ہوا تو اس کا نام مسجد اقصیٰ رکھ گیا۔ قدس اس شہر کی اس تقدیس کی وجہ سے ہے جو اسے دوسرے شہروں سے ممتاز کرتی ہے۔ اس شہر کے حصول اور اسے رومیوں کے جبر و استبداد سے بچا seeنے کیلئے 5000 سے زیادہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے جام شہادت نوش کیا۔ اور شہادت کا باب آج تک بند نہیں ہوا، سلسلہ ابھی تک چل رہا ہے۔ یہ شہر اس طرح شہیدوں کا شہر ہے۔

25: مسجد اقصیٰ اور بلاد شام کی اہمیت بالکل حرمین الشریفین جیسی ہی ہے۔ جب قران پاک کی یہ آیت (والتين والزيتون وطور سينين وهذا البلد الأمين) نازل ہوئی ّ تو ابن عباس کہتے ہیں کہ ہم نے بلاد شام کو "التین" انجیر سے، بلاد فلسطین کو "الزیتون" زیتون سے اور الطور سینین کو مصر کے پہاڑ کوہ طور جس پر جا کر حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک سے کلام کیا کرتےتھے سے استدلال کیا۔
26: اور قران پاک کی یہ آیت مبارک (ولقد كتبنا في الزبور من بعد الذكر أن الأرض يرثها عبادي الصالحون) سے یہ استدلال لیا گیا کہ امت محمد حقیقت میں اس مقدس سر زمین کی وارث ہے۔

27: فلسطین کی عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے یہاں پر پڑھی جانے والی ہر نماز کا اجر 500 گنا بڑھا کر دیا جاتا ہے

09/10/2023

ابراہیم معاہدہ کے تحت 7 اسلامی ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے جارہے تھے جسکا اعلان اسرائیل نے بھی پچھلے دنوں کیا تھا۔
اس دوران غزہ کی پٹی پر حماس نے حملہ کر دیا اور ابتدائی طور پر 5000 راکٹ برسانے کے بعد 2000 مزید راکٹ فائر کئے اور گلائیڈرز کے ذریعے اسرائیلی علاقوں میں داخل ہوئے جہاں پر یہودی ہفتہ وار چھٹی اور تہوار منا رہے تھے۔

اس سے پہلے اسرائیل کی جارحیت کے جوابی کاروائی کے طور پر حماس تقریباً سو راکٹ داغتے تھے جس کو اسرائیل کا ائیر ڈیفنس سسٹم آئرن ڈوم تقریباً سو فیصد تک ہوا میں ہی تباہ کر دیتے تھے اور ان کا بال بھی بھیکا نہ ہونا کے مترادف تھا۔

لیکن اس دفعہ یہ حملے اتنے منظم اور اچانک تھے کہ اسرائیلیوں کو نہ اس کی خبر ہو سکی اور نہ ان کو سنبھلنے کا وقت ملا۔ اسطرح بہت سے یہودی فوجی اور شہری مارے گئے اور ایک کثیر تعداد حماس کے قیدی بھی بن گئے۔

حماس نے ایران کی جانب سے اسلحہ فراھم کرنے پر انکا شکریہ ادا کیا ہے۔ اب ثابت ہوا کہ 1967ء کے سرحدی حدود پر مشتمل آزاد فلسطینی ریاست، جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو، کے قیام سے پہلے کسی قسم کا امن معاہدہ اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کا معاہدہ قابل عمل نہ ہوگا۔

دوسری طرف حزب اللہ نے لبنان کی جانب سے اسرائیل پر حملہ کر دیاہے۔

کئی دھائیوں سے اسرائیل کا فلسطینوں پر ظلم و جبر اور قتل و غارت کا سلسلہ جاری تھا اور جب ظلم کی انتہا کر دی جاتی ہے تو صبر کا پیمانہ لبریز ہو ہی جاتا ہے۔

جدید اسلحہ اور مضبوط فوجی طاقت کے زور پر فلسطینیوں پر ظلم کی انتہا کرنے والوں کے محاسبہ کی جھلک دیکھنے پر اسرائیلی، امریکہ اور یورپ کے کئی ممالک سیخ پا ہو گئے ہیں۔

اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کا اجلاس اسی روز ہی طلب کر لیا گیا تھا۔

حماس کی جانب سے دعا کے ساتھ ساتھ دوا کرنے کے اقدامات قابل تحسین ہیں اور ہماری دعا ہے کہ اللہ سبحانه و تعالى فلسطینیوں کی مدد فرمائے۔

آمین۔

افتخار احمد یوسفزئی۔

09/10/2023
06/10/2023

صرف سور کا گوشت حرام نہیں۔
غریب کے ٹیکس کے پیسوں میں کرپشن یا کسی سے فراڈ کرکے کمایا اورکھایا گیا پیسہ بھی حرام ہے۔

05/10/2023
04/10/2023

مبینہ طور پر وزیراعظم کے زیر صدارت اپیکس کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں آرمی چیف شریک تھے۔

قومی ایکشن پلان/ اپیکس کمیٹی کا اہم اجلاس/ اعلامیہ جاری

پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم تمام غیر ملکی شہریوں کو 31 اکتوبر 2023 تک پاکستان چھوڑنے کیلئے مہلت۔

یکم نومبر 2023 سے غیر ملکیوں کو نقل و حرکت کی اجازت صرف پاسپورٹ اور ویزا پر دی جائے گی۔

دیگر تمام قسم کی دستاویزات سرحد پار سفر کیلئے غیر موثر اور غیر قانونی ہوں گے۔

یکم نومبر 2023 سے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے کاروبار /جائیدادیں ضبط کر لی جائیں گی اور غیر قانونی کاروبار کرنے والوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی۔

یکم نومبر 2023 کے بعد پاکستان میں مقیم غیر قانونی غیر ملکیوں کو رہائش فراہم کرنے یا سہولیات فراہم کرنے والے کسی بھی پاکستانی شہری یا کمپنی کے خلاف سخت قانونی کاروائی کی جائے گی۔

نادرا کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ تمام جعلی شناختی کارڈز کی منسوخی کو فوری طور پر یقینی بنائے اور اگر کسی کی شناخت میں شک ہو تو اس کی تصدیق کیلئے ڈی این اے ٹیسٹ کرایا جائے۔

ویب پورٹل اور یو اے این ہیلپ لائن پر پاکستان میں مقیم غیر ملکی افراد کی غیر قانونی رہائش یا کاروبار کرنے والے کے بارے میں معلومات فراہم کی جا سکتی ہیں۔

اس سلسلے میں جو بھی شہری حکومت سے تعاون کرے گا اس کو انعام دیا جائے گا اور اس کا نام صیغہ راز میں رکھا جائے گا۔

غیر قانونی سرگرمیوں بشمول ذخیرہ اندوزی، سامان یا کرنسی کی اسمگلنگ، حوالہ/ ہنڈی اور بجلی چوری کے خلاف سخت ایکشن پہلے سے ہی لیا جا رہا ہے۔

ان جرائم میں ملوث افرد کے خلاف کسی بھی قسم کی رعائت نہیں برتی جائے گی۔

جوائنٹ چیک پوسٹس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جن کو کسٹم پاورز دی گئی ہیں۔

ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے بنیادی خوردنوش کی نقل و حمل کو چیک کیا جا رہا ہے جس سے اسمگلنگ میں کمی آئے گی اور جو حکومتی اہلکار کرپشن میں ملوث پائے گئے ہیں ان کے خلاف ایکشن لیا جا رہا ہے۔

کرنسی کے سمگلرز، حوالہ ہنڈی کے کاروبار اور بجلی چوری میں ملوث افراد کے خلاف بھی ایکشن لیا جارہا ہے۔

منشیات کی روک تھام کیلئے نیشنل کاوئنٹر نارکوٹکس کنٹرول سنٹر قائم کیا جا رہا ہے یہ سنٹر منشیات کی روک تھام میں کوششوں کی ہم آہنگی اور انٹیلیجنس معلومات کی فراہمی یقینی بنائے گا۔

منشیات کے سمگلرز کے ساتھ کوئی رعائت نہیں برتی جائے گی اور قانون کے مطابق مثالی سزائیں دی جائیں گی۔

ہر صوبے کے اندر منشیات بحالی مراکز مرحلہ وار قائم کیے جائیں گے۔

طاقت کے استعمال کا حق صرف ریاست کے پاس ہے اس کے علاوہ کسی کو بھی طاقت کے استعمال کی اجازت نہیں۔

پاکستان میں کسی بھی سیاسی مسلح گروہ، جتھے یا تنظیم کی اجازت نہیں ہے اور ایسے طریقہ کار اپنانے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔

اسلام امن کا دین ہے اور ریاست کسی کو مذہب کی من پسند تشریح کر کے سیاسی مقاصد حاصل کرنیکی اجازت نہیں دے گی۔

اقلیتوں کے حقوق اور مذہبی آزادی اسلام اور پاکستان کے آئین کا حصہ ہے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف ریاست قانون کے مطابق طاقت کا بھر پور استعمال کرے گی۔

ملک میں قائم تنظیمیں پرامن اور مہذب طریقے سے اپنے جائز مطالبات ریاست کے سامنے رکھ سکتی ہیں جنھیں سنا اور قانونی طور پر حل کیا جائے گا۔

تاہم اگر کوئی تنظیم طاقت یا تشدد کا راستہ اختیار کرے گی تو اس سے سختی سے نمٹا جائے گا۔

پروپیگنڈا اور غلط معلومات کی مہم جوئی کرنے والوں کو سائبر قوانین کے تحت سختی سے نمٹا جائے گا۔

قوانین کی آگاہی اور عمل درآمد کیلئے تکنیکی طریقہ کار وضع کیے جا رہے ہیں۔

جو قانون کی پاسداری اور عوام کی سہولت کو مدنظر رکھ کر بنائے جا رہے ہیں۔

تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ نظم و ضبط کو قائم کرتے ہوئے قانون کی بالادستی کو یقینی بنائیں۔

نظم و ضبط کو ہی اپنا کر ہم اپنے اہداف حاصل کر سکتے ہیں۔

ایمان، اتحاد اور نظم کے بنیادی اصولوں کو یقینی بنایا جائے گا۔

دنیا میں تمام ترقی یافتہ قومیں نظم و ضبط کو اپنا کر ہی ترقی کی راہ پر گامزن ہوئی ہیں۔

29/09/2023

فیض آباد دھرنا کیس

فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ پاکستان کے لیے ایک موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنے بنیادی اصولوں کے لیے اپنی وابستگی کا اعادہ کرے اور ایک روشن، زیادہ جوابدہ مستقبل کی راہ ہموار کرے۔

پاکستان کے قانونی منظر نامے کے پیچیدہ جال میں، چند مقدمات نے ملک کے عدالتی اور سیاسی بیانیے پر اتنا گہرا اثر چھوڑا ہے جتنا فیض آباد دھرنا کیس۔

چونکہ نظرثانی کی درخواست بالآخر سپریم کورٹ نے لے لی ہے، اس کیس کی بے مثال نوعیت پر نظرثانی کرنا اور اس کے ممکنہ نتائج اور راستوں کو تلاش کرنا ضروری ہے۔

فیض آباد دھرنا کیس 2017 میں اسلام آباد کے فیض آباد انٹرچینج پر دیے گئے طویل اور متنازعہ دھرنے سے ابھرا۔

آئین، اور آزادی اظہار کی حدود۔

تعطل کے تناظر میں، SC نے اپنے سوموٹو دائرہ اختیار کے تحت ایک مقدمہ شروع کیا، جو عدالت کو اپنی مرضی سے معاملات کا نوٹس لینے کی اجازت دیتا ہے، عام طور پر عوامی اہمیت یا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے معاملات میں۔ اس طرح کے معاملات میں، تاہم، سپریم کورٹ کے سامنے نظرثانی کا دائرہ اختیار حد سے زیادہ محدود ہے، اور اس فیصلے میں کافی حد تک تبدیلی یا رد کرنے کا امکان نہیں ہے۔

فیض آباد دھرنا کیس کے بے مثال پہلو

ایک جج اسٹیبلشمنٹ کا مقابلہ کرتا ہے۔

فیض آباد دھرنا کیس کے سیاسی تناظر کو بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کیا جا سکتا۔

اس وقت تین بار منتخب وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا گیا تھا، اور ان کی قید کی تیاریاں جاری تھیں۔ سیاسی جماعتیں اہم تبدیلیوں سے گزر رہی تھیں، جن میں سے ایک کو ختم کیا جا رہا تھا اور دوسری، پی ٹی آئی کو بھرپور حمایت حاصل تھی۔

زیادہ تر اعلیٰ عدلیہ اور میڈیا نے بڑی حد تک اسٹیبلشمنٹ کے بیانیے سے ہم آہنگی کی تھی۔ یہاں تک کہ دھرنے کے وقت منتخب حکومتوں نے، جن کی قیادت مرکز میں شاہد خاقان عباسی اور پنجاب میں شہباز شریف کر رہے تھے، نے اسٹیبلشمنٹ کے غلبے کو چیلنج کرنے سے گریز کیا، جو مذہبی انتہا پسندوں تک پھیلا ہوا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فیصلہ اس ہائبرڈ تجربے کے عروج پر آیا، جس میں ایک نئے وزیراعظم نے ایگزیکٹو اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ’ایک ہی صفحے‘ کو سیمنٹ کیا۔ خود عدلیہ بھی اس تعاون میں بڑھ چڑھ کر حصہ دار بن چکی تھی۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو اس سے قبل اسٹیبلشمنٹ اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے دباؤ کا انکشاف کرنے پر ان کے ساتھیوں نے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔

اس چارج شدہ ماحول میں، تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) سے وابستہ مذہبی انتہا پسند سڑکوں پر گھومتے رہے، تشدد کو بھڑکاتے اور ارتکاب کرتے رہے۔ ان حالات میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مؤقف اختیار کرنا، ایگزیکٹو پر سوال اٹھانا، پی ٹی آئی سمیت قومی دھارے کی سیاسی جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بنانا، حتیٰ کہ عدلیہ کی جانچ پڑتال بھی ایک غیر معمولی جرأت کا کام تھا، اس لیے کہ اس طرح کے اختلاف کے خلاف مضبوط قوتیں صف آرا ہیں۔

اقتدار میں موجود جرنیلوں کے خلاف فیصلہ

سابقہ ​​مقدمات کے برعکس جہاں فوجی جرنیلوں کے خلاف فیصلے انہیں اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد آئے تھے، اس فیصلے نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے موجودہ نظام کو نشانہ بنایا۔

سابقہ ​​مقدمات،
جیسے کہ عاصمہ جیلانی کیس میں یحییٰ خان کے خلاف اعلان،
ائیر مارشل اصغر خان کیس میں جنرل اسلم بیگ کے خلاف فیصلہ
اور پی سی او ججز کیس میں جنرل مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کی ہدایت، سبھی سنے جا چکے تھے۔
فوجی حکام کے متعلقہ ادوار کے بعد۔

اس کے برعکس، یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا جب پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں فوج ایک اور زیادہ غالب قوت بن چکی تھی، اور جرنیلوں کو ترقی دی گئی تھی، جس سے جنرلوں کو عہدے سے ہٹانے کے بعد ہی جوابدہ ٹھہرانے کے قائم کردہ اصولوں سے ایک اہم رخصتی ہوئی تھی۔

مسلح افواج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کردار سے نمٹنا
اس فیصلے کے سب سے نمایاں پہلوؤں میں سے ایک مسلح افواج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں بشمول آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) کی جانب سے ادا کیے جانے والے کردار کا غیر متزلزل جائزہ تھا۔ فیصلے نے ان نازک مسائل سے گریز نہیں کیا اور ان کو سر توڑ جواب دیا۔

جسٹس عیسیٰ نے ریاستی ایجنسیوں کے کردار پر سوال اٹھایا، خاص طور پر آئی ایس آئی، TLP اور دیگر جیسے گروپوں کی طرف سے لاحق پرتشدد انتہا پسندی کے خطرے کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہی۔ انہوں نے سیاسی اہمیت کے معاملات میں آئی ایس آئی کی مبینہ مداخلت پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فوجی ایجنسیوں کو کبھی بھی کسی خاص سیاسی جماعت کی حمایت کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ فیصلے میں مسلح افواج کے آئینی کردار کی پاسداری اور اپنی سالمیت کو برقرار رکھنے کی اہمیت پر زور دیا گیا۔

مزید برآں، فیصلے میں مسلح افواج کے ان ارکان کے خلاف کارروائی شروع کرنے کے لیے مخصوص ہدایات دی گئیں جنہوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ اس نے انٹیلی جنس ایجنسیوں کو قانونی فریم ورک کے تحت لانے پر بھی زور دیا۔

سویلین اداروں کے لیے تعاون

فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے نے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) اور الیکشن کمیشن آف پاکستان جیسے سویلین اداروں کی حمایت کی ہے۔ اس کا مقصد ان اداروں اور میڈیا کو انٹیلی جنس ایجنسیوں کے بے جا اثر و رسوخ سے بچانا تھا۔ آزاد پریس اور آزاد اداروں کے تحفظ پر یہ زور جمہوری اصولوں کو برقرار رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے۔

مذہبی انتہا پسندی کو براہ راست چیلنج

فیصلے میں مذہبی انتہا پسندی اور ٹی ایل پی جیسے گروہوں کی طرف سے پھیلائے جانے والے تعصب کے خلاف ایک جرات مندانہ موقف اختیار کیا گیا۔ اس نے الفاظ کو کم نہیں کیا اور مذہبی انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے سخت ہدایات جاری کیں۔ اس پرعزم انداز نے بنیاد پرستی کو روکنے اور سماجی ہم آہنگی کے تحفظ کے لیے عدلیہ کے عزم کو اجاگر کیا۔

نتائج اور ممکنہ راستے

فیض آباد دھرنا کیس اور اس کے نتیجے میں ہونے والی پیش رفت پاکستان کے عدالتی، سیاسی اور وسیع تر منظرنامے کے لیے دور رس نتائج کی حامل ہے۔

جسٹس عیسیٰ اور عدلیہ پر اثرات

یہ کوئی راز نہیں ہے کہ جسٹس عیسیٰ اور ان کا خاندان مشکل وقت سے گزرا، اسٹیبلشمنٹ کے بشکریہ، کبھی کبھی اپنے ساتھی ججوں کی تھوڑی مدد سے۔
حتیٰ کہ وزیراعظم عمران خان نے بھی آخرکار تسلیم کیا کہ جسٹس عیسیٰ کے خلاف ریفرنس اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے کی طرف سے آگے بڑھائی گئی غلطی تھی۔ لیکن اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے اندر اس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر تقسیم ہوئی۔

اس اندرونی جھگڑے نے سپریم کورٹ کی ساکھ اور اختیار کو شدید نقصان پہنچایا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی مدت کے اختتام تک، انہیں عام انتخابات سے متعلق اپنے احکامات کو نافذ کرنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔

یہ تقسیم صرف عدالت کی چاردیواری کے اندر ہی نہیں رہی — ان کے پاکستان میں شہری آزادیوں کے لیے اہم نتائج تھے، خاص طور پر 9 مئی کے بعد۔ آج، عدالتی احکامات کو اکثر ایک طرف کر دیا جاتا ہے، اور یہاں تک کہ سب سے قدیم قانونی تحفظ، حبیث کارپس، بھی ایسا نہیں کرتا۔ سیاسی طور پر الزامات کے مقدمات میں زیادہ وزن نہیں رکھتے. عدالت کے اختیارات کا یہ کٹاؤ اور شہری آزادیوں پر پڑنے والے اثرات اس بات کی واضح تصویر پیش کرتے ہیں کہ فیض آباد دھرنا کیس نے پاکستان کے قانونی اور سیاسی منظر نامے پر کس طرح اپنا اثر چھوڑا۔

فیصلے کا نفاذ: اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تصادم

آگے بڑھنے کا ایک ممکنہ راستہ جسٹس عیسیٰ کا اپنے فیصلے پر عمل درآمد پر اصرار کرنا شامل ہے۔ اس میں مسلح افواج کے ارکان کے خلاف کارروائی کی جائے گی جنہوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی۔ ایسا اقدام اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ براہ راست تصادم کا باعث بن سکتا ہے۔

تاہم، براہ راست تصادم جسٹس عیسیٰ کی دیگر اہم معاملات کو حل کرنے اور اپنے اصلاحاتی ایجنڈے کو مؤثر طریقے سے آگے بڑھانے کی صلاحیت کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کو عدلیہ کے اندر ساتھی تلاش کرنے کے مواقع بھی فراہم کر سکتا ہے۔ یہ راستہ چیلنجوں سے بھرا ہوا ہے، کیونکہ یہ ایک طویل اور تفرقہ انگیز جنگ کا باعث بن سکتا ہے۔

جرنیلوں کو جوابدہ ٹھہرانے کی پیچیدگیوں کو دور کرنا
مشرف غداری کا مقدمہ ان پیچیدہ اور کثیر جہتی نتائج کی ایک پُرجوش یاد دہانی کے طور پر کام کرتا ہے جو احتساب کی پیروی، خاص طور پر ریٹائرڈ جرنیلوں کی سیاست، جمہوریت اور عدلیہ کے لیے ضروری ہو سکتے ہیں۔
پاکستان کی تاریخ کا یہ واٹرشیڈ لمحہ، جہاں ایک سابق فوجی حکمران کو آئین کو توڑنے کے لیے جوابدہ ٹھہرایا گیا، اس کے نتیجے میں اہم سیاسی ہلچل پیدا ہوئی، جس میں نواز شریف جیسی اہم شخصیات کو عہدے سے ہٹانا اور ہائی کورٹ کے جج، چیف جسٹس وقار کی پراسرار موت شامل ہے۔ مقدمے میں شامل سیٹھ۔

جیسا کہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید جیسے ریٹائرڈ جرنیلوں کو جوابدہ بنانے کے بارے میں بات چیت جاری ہے، مشرف ٹرائل ایسی کوششوں سے منسلک پیچیدگیوں اور ممکنہ خطرات کے بارے میں قابل قدر بصیرت پیش کرتا ہے، جمہوری اصولوں کے تحفظ کے لیے ایک محتاط اور شفاف طریقہ کار کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔

قانون توازن عمل

دوسری طرف، اگر جسٹس عیسیٰ اس معاملے کو حتمی نتیجے تک نہ پہنچانے کا انتخاب کرتے ہیں، تو انہیں سمجھوتہ کرنے یا پیچھے ہٹنے کے الزامات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ نقطہ نظر عملی معلوم ہوسکتا ہے، کیونکہ یہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ براہ راست ٹکراؤ سے گریز کرتا ہے، لیکن اس سے انصاف، احتساب اور عدلیہ کی ساکھ کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔

سچائی کا لازمی تقاضا

اس سے قطع نظر کہ کوئی بھی راستہ چنا گیا ہو، پاکستان کو ایک ناقابل تردید ضرورت کا سامنا ہے - ایک ایماندارانہ حساب کتاب یا سچائی اور مفاہمت کی کسی شکل کی ضرورت۔ بنیادی مسائل کو حل کرنا اور کہاوت والے ہاتھی کو کمرے میں تسلیم کرنا — سیاست میں فوج کا غیر ضروری اثر — پاکستان کی جمہوری ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔

اس طرح کے حساب کتاب کے بغیر، پاکستان کا جمہوری عمل چیلنجوں کا سامنا کرتا رہے گا، اور شہری آزادی خطرے میں رہے گی۔ یہ ایک ایسا سنگم ہے جہاں پاکستان کو اپنے ماضی کا مقابلہ کرنے کا انتخاب کرنا چاہیے اور ایک زیادہ جوابدہ اور منصفانہ مستقبل کی طرف ایک راستہ طے کرنا چاہیے، جہاں ادارے اپنے متعین کردار کے اندر کام کرتے ہیں، اور قانون کی حکمرانی غالب ہے۔

بانی بابا محمد علی جناح کے الفاظ میں،

پاکستان کا تصور ’’جمہوریت کے بنیادی اصولوں پر مبنی تھا، نہ کہ بیوروکریسی یا آمریت یا آمریت‘‘۔

فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ پاکستان کے لیے ایک موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ ان اصولوں سے اپنی وابستگی کا اعادہ کرے اور ایک روشن، زیادہ جوابدہ مستقبل کی راہ ہموار کرے۔ یہ ایک ایسا لمحہ فکریہ ہے جس سے چھٹکارا حاصل نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ قوم کی ترقی کا انحصار اس اصولی تضاد کو دور کرنے پر ہے۔ باقی سب ثانوی ہے۔


2017 فیض آباد دھرنا۔

عید میلاد النبیﷺ کے مبارک موقع پر  پوری اُمت مسلمہ باالخصوص اہل پاکستان کو مبارک ہو۔ آپﷺ کی ولادت انسانیت پر اللہ تعالیٰ...
29/09/2023

عید میلاد النبیﷺ کے مبارک موقع پر پوری اُمت مسلمہ باالخصوص اہل پاکستان کو مبارک ہو۔

آپﷺ کی ولادت انسانیت پر اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہے، آپ ﷺ سے محبت ایمان کا بنیادی تقاضہ ہے اور آپ ﷺ کا اسوہ حسنہ تمام انسانوں کے لئے مشعل راہ ہے جس پر عمل پیرا ہوکر انسان دنیا و آخرت میں کامیابی سے ہمکنار ہوسکتا ہے۔

حضرت محمد رسول اللہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت نہ صرف عالم اسلام بلکہ پوری انسانیت کے لئے باعث سعادت و رحمت ہے اور آپ کی آفاقی تعلیمات نے بنی نوع انسان کو اندھیروں سے نکال کر انسانیت کی معراج تک پہنچا دیا۔

آپ ﷺ کا خطبہ حجتہ الوداع ایسا منشور ہے جو رہتی دنیا تک نہ صرف مسلمانوں بلکہ دنیا بھر کے انسانوں کی رہنمائی کا سر چشمہ ہے۔

یہ رحمت عالم کی تعلیمات کا کرشمہ تھا جس نے سب کو ایک صف میں کھڑا کرکے آقا و غلام کا فرق مٹا دیا اور بلا امتیاز رنگ و نسل فلاح انسانیت کا درس دیا جس کی بدولت اسلام دنیا کے کونے کونے تک پھیل گیا۔

آپﷺ نے ہمیشہ انسانیت کی تکریم و محبت، عفو و درگذر، عدل و انصاف کی بالادستی اور ظلم کے خاتمے کا درس دیا ہے۔

محسن انسانیت کا یہ انقلاب انسانی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ آپ ﷺ انسانیت کے نجات دہندہ اور حقیقی محسن ہیں۔

ہمیں کامیابی کےلئے اپنی زندگیوں میں امانت، دیانت ،خیرخواہی اور اسلامی بھائی چارے کو فروغ دینا ہو گا۔

ریاست مدینہ کے سنہرے اصولوں کو اپنا کر ہی ایک ترقی یافتہ اسلامی فلاحی معاشرے کا قیام یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ آج کے بابرکت دن کے موقع پر بحیثیت مسلمان ہمیں اس عزم کا اعادہ کرنا چاہیئے کہ ہم اسوئہ حسنہ کی روشنی میں ناصرف اپنے کردار و عمل کی اصلاح کریں گے بلکہ ایک حقیقی فلاحی معاشرے کے قیام کے لئے بھی حسب استطاعت اپنا کردار ادا کریں گے۔

Address

Swabi

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Iftikhar Ahmed Yousafzai posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share