Urdu Poetry

Urdu Poetry جزبوں، احساسات اور خیالات کو بیان کرنے کا سب سے خوبصورت

14/08/2023
پہلو میں میرے بیٹھ کے جو شب گزار دیںایسی  ہم  خیال  کوئی  ہیر  چاہیے
13/07/2023

پہلو میں میرے بیٹھ کے جو شب گزار دیں
ایسی ہم خیال کوئی ہیر چاہیے

کچھ لوگوں کی اذیتوں میں شدت اس لیے بھی زیادہ ہوتی ہے ۔ کیونکہ انہیں ترک تعلق نہیں آتا ۔ انہیں چھیننا نہیں آتا۔ انہیں جیت...
09/06/2023

کچھ لوگوں کی اذیتوں میں شدت اس لیے بھی زیادہ ہوتی ہے ۔ کیونکہ انہیں ترک تعلق نہیں آتا ۔ انہیں چھیننا نہیں آتا۔ انہیں جیتنا نہیں آتا۔ انہیں منافقت نہیں آتی۔ بچھڑنے پر صبر نہیں آتا۔۔۔۔۔

01/01/2023

”نئے سال کی دُعا“
تُم جس خواب میں آنکھیں کھولو
اُس کا رُوپ اَمر
تُم جس رنگ کا کپڑا پہنو
وہ موسم کا رنگ
تُم جس پُھول کو ھنس کر دیکھو
کبھی نہ وہ مرجھائے
تُم جس حرف پہ اُنگلی رکھ دو
وہ روشن ھو جائے
امجد اسلام امجد.................
”نئے سال کی دُعا“
خدا کرے کہ نیا سال
تیرے دامن میں
وہ سارے پُھول کِھلا دے
کہ جِن کی خُوشبو نے
تیرے خیال میں
شمعیں جلائے رکھی تھیں
پروین شاکر..................

06/12/2022

Motivation 😜♥️

25/08/2022
کاش کہ خوشیاں بکتی ہوتیںاور  دکھوں  کا  ٹھیلا  ہوتاایک ٹکے میں آنسو آتےاور محبت چار ٹکے میں(پانچ ٹکے میں ساری دنیا)مفت ہ...
25/08/2022

کاش کہ خوشیاں بکتی ہوتیں
اور دکھوں کا ٹھیلا ہوتا
ایک ٹکے میں آنسو آتے
اور محبت چار ٹکے میں
(پانچ ٹکے میں ساری دنیا)
مفت ہنسی اور مفت ستارے
چاند بھی ٹکڑے ٹکڑے بکتا
خواہش نام چیز نا ہوتی
ہاتھ بڑھا کے سب ملتا
ہم چاہتے تو مر جاتے ناں
جی چاہتا تو جیتے رہتے
اونچے نیچے شہر نا ہوتے
پانی پر بھی گھر ہوتے
(کاش کے اپنے پر ہوتے)
اور وہ گہرا نیلا امبر
سات سمندر پار کے ساحل
جنگل، ندیاں، گرتا پانی
سب کچھ اپنا دھن ہوتا
کسی بھی چیز کی حد نا ہوتی
وہ کرتے جو من ہوتا
چاند کی کرنیں پہن کے جگتے
اور خاموشی اوڑھ کے سوتے
راتیں دن بھر رکتی ہوتیں
کاش کے خوشیاں بکتی ہوتیں......!!!

07/07/2022

بھلے دنوں کی بات ہے بھلی سی ایک شکل تھی
نہ یہ کہ حُسن تام ہو نہ دیکھنے میں عام سی

نہ یہ کہ وہ چلے تو کہکشاں سی رہ گزر لگے
مگر وہ ساتھ ہو تو پھر بھلا بھلا سفر لگے

کوئی بھی رُت ہو اُس کی چھب فضا کا رنگ و روپ تھی
وہ گرمیوں کی چھاؤں تھی وہ سردیوں کی دھوپ تھی

نہ مدّتوں جدا رہے نہ ساتھ صبح و شام ہو
نہ رشتۂ وفا پہ ضد نہ یہ کہ اذنِ عام ہو

نہ ایسی خوش لباسیاں کہ سادگی گلہ کرے
نہ اتنی بے تکلّفی کہ آئینہ حیا کرے

نۂ اختلاط میں وۂ رم کۂ بد مزۂ هوں خواۂشیں
نہ اس قدر سپردگی کہ زچ کریں نوازشیں

نہ عاشقی جنون کی کہ زندگی عذاب ہو
نہ اس قدر کٹھور پن کہ دوستی خراب ہو

کبھی تو بات بھی خفی کبھی سکوت بھی سُخن
کبھی تو کشتِ زعفراں کبھی اُداسیوں کا بن

سنا ہے ایک عمر ہے معاملاتِ دل کی بھی
وصالِ جاں فزا تو کیا فراقِ جاں گسل کی بھی

سو ایک روز کیا ہوا وفا پہ بحث چھڑ گئی
میں عشق کو امر کہوں وہ میری ضد سے چڑ گئی

میں عشق کا اسیر تھا وہ عشق کو قفس کہے
کہ عمر بھر کے ساتھ کو وہ بد تر از ہوس کہے

شجر حجر نہیں کہ ہم ہمیشہ پابہ گِل رہیں
نہ ڈھور ہیں کہ رسیاں گلے میں مستقل رہیں

محبتوں کی وسعتیں ہمارے دست و پا میں ہیں
بس ایک در سے نسبتیں سگانِ با وفا میں ہیں

میں کوئی پینٹنگ نہیں کہ اک فریم میں رہوں
وہی جو من کا میت ہو اُسی کے پریم میں رہوں

تمہاری سوچ جو بھی ہو میں اس مزاج کی نہیں
مجھے وفا سے بیر ہے یہ بات آج کی نہیں

نہ اُس کو مجھ پہ مان تھا نہ مجھ کو اُس پہ زعم ہی
جب عہد ہی کوئی نہ ہو تو کیا غمِ شکستگی

سو اپنا اپنا راستہ ہنسی خوشی بدل لیا
وہ اپنی راہ چل پڑی میں اپنی راہ چل دیا

بھلی سی ایک شکل تھی بھلی سی اُس کی دوستی
اب اُس کی یاد رات دن؟ نہیں! مگر کبھی کبھی

ڈھونڈ لیا تجھ سے ملنے کا طریقہہم تیری گلی میں بکرا گھمانے آئیں گے😂😂🙈
01/07/2022

ڈھونڈ لیا تجھ سے ملنے کا طریقہ
ہم تیری گلی میں بکرا گھمانے آئیں گے😂😂🙈

26/06/2022

بی سائیڈ والا شخص

نوخیزیاں / گل نوخیزاختر

مراثی چائے پاپے کا ناشتہ کر رہا تھا۔ بیوی چولہے کے پاس بیٹھی تھی۔ بیٹے نے پرانے سے ٹیپ ریکارڈر میں کیسٹ ڈالی اور بٹن دبا دیا۔ بیان شروع ہوگیا۔ ماواں ٹھنڈیاں چھاواں، ماں جیسا کوئی نہیں، جس گھر میں ماں نہیں وہاں رحمت نہیں ہوتی، ماں کے پیروں تلے جنت ہے، ماں کی دعا جنت کی ہوا ……مراثی خاموشی سے ناشتہ کرتا رہا، اُدھر ٹیپ چلتی رہی۔ دس پندرہ منٹ یہی آواز آتی رہی تو مراثی نے سوالیہ نظروں سے بیٹے کی طرف دیکھا”پُتر میں بی سائیڈ پہ ہوں؟“۔
باپ عموماً اتنا سنجیدہ ہوتا نہیں جتنا اُسے بنادیا جاتا ہے۔اپنے اپنے والد گرامی کے بچپن کے دوستوں سے پوچھئے، زیادہ تر یہی جواب دیں گے کہ وہ بچپن میں بہت شرارتی تھے، کھل کر ہنسا کرتے تھے اورزندگی کے مزے لیا کرتے تھے۔ تو سوال یہ ہے کہ پھر ایسا کیا ہوا کہ جونہی ایک آدمی باپ بنا، اُس میں سنجیدگی در آئی، چہرہ سپاٹ ہوگیا اور شرارت مفقود ہوگئی۔اس میں پہلا کردار عموماً ماں ادا کرتی ہے۔گڈو فلاں کام مت کرو تمہارے باپ کو پتا چل گیا تو اس نے تمہیں الٹا لٹکا دینا ہے۔ گڈو اچھے نمبروں سے پاس ہونا ورنہ تمہارے باپ نے تمہیں نہیں چھوڑنا۔ گڈو آنے دو تمہارے باپ کو میں بتاتی ہوں تمہارے کرتوت۔اور گڈو کو احساس ہونا شروع ہوجاتا ہے گویا باپ کوئی بدمعاش ہے۔بچپن میں بچے ماں باپ سے مانوس ہوتے ہیں، باپ سے لاڈ پیار بھی کرتے ہیں لیکن جوں جوں بڑے ہوتے جاتے ہیں اُنہیں لگنے لگتا ہے کہ باپ تو صبح بن ٹھن کے گھر سے نکل جاتا ہے، بیچاری ماں گھر میں ہانڈی روٹی پکاتی ہے، صفائی کرتی ہے اور سارا گھر سنبھالتی ہے۔رات کو باپ گھر آتا ہے تو اسے باتیں کرنی ہوتی ہیں، آٹھ نو گھنٹے کی ڈیوٹی کے بعد اُسے بیوی بچوں کی آواز سننا ہوتی ہے۔ لیکن گھر آتے ہی سب اس کے سامنے مودب ہوجاتے ہیں۔وہ کوئی ہلکی پھلکی بات بھی کرنے کی کوشش کرے تو اتنا مختصر اور تمیز دار جواب ملتا ہے کہ اس کی ہمت ہی نہیں پڑتی بلاوجہ بچوں سے فری ہونے کی۔کھانا چن دیا جاتاہے۔باپ روٹی کھاتاہے اور ٹی وی ٹاک شو دیکھتے ہوئے سو جاتاہے۔بچوں کو علم ہی نہیں ہوپاتا کہ اُن کے گھر میں گھی کیسے آتاہے، چینی کون لے کر آتاہے، بجلی گیس کے بل کون بھرتاہے، ان کی فیسیوں کے پیسے کہاں سے آتے ہیں اور گھر کا نظام کیسے چلتاہے۔یہ باپ ہی ہے جس کو دورانِ ڈیوٹی بھی یاد رہتاہے کہ گھرمیں کتنا گھی باقی رہ گیا ہے، انڈے کتنے ہیں، موٹر سائیکل میں پٹرول کتنا ہے اورآٹا کب تک چلے گا۔باپ فاسٹ فوڈ کا شیدائی نہیں ہوتا، اُس نے گھر آکر ہی کھانا ہوتا ہے۔ یہ باپ ہی ہوتاہے جو باہر کے کھانے کی بدتعریفی بھی کرتاہے اوربچوں کے لیے فاسٹ فوڈ بھی منگوا لیتاہے۔اولاد نہیں جانتی کہ ان کے موبائل خریدنے کے لیے باپ نے دفتر سے کتنا ایڈوانس لیا تھا، بیٹے کے لیپ ٹاپ کی بیٹری ڈلوانے کے لیے کون سی بچت کی تھی۔ باپ گھر کا درخت تو ہوتاہے لیکن اسے کوئی پانی نہیں ڈالتا، صرف پھل کھاتے ہیں۔ماں دُکھ کے عالم میں ہو تو رو بھی سکتی ہے،باپ کو تو یہ سہولت بھی میسر نہیں۔ کئی بچوں نے تو پیسے بھی مانگنے ہوں تو ماں سے کہتے ہیں اور وہ پھر باپ سے لے کر دیتی ہے۔ گویا باپ بچوں کے ساتھ اس انٹریکشن سے بھی محروم ہوجاتاہے۔ضروری نہیں ہر باپ ایسا ہی ہو۔ لیکن عموماً ایسا ہی ہوتاہے۔گھر بھی باپ ہی بناتاہے۔بیٹا گھر بنانے کے بارے میں تب سوچتا ہے جب خود باپ بن جاتا ہے۔ آپ نے کبھی کسی یونیورسٹی یا کالج کے سٹوڈنٹ سے سنا ہے کہ میں اپنا گھر بنانا چاہتا ہوں؟ یہ خواہش ایک باپ کے دل میں ہی جنم لیتی ہے۔یہ جو باپ اپنے بیٹے سے پوچھتا ہے کہ کہاں جارہے ہو، کب آؤ گے، ابھی تک کیوں نہیں آئے؟ یہ اس لیے پوچھتاہے کہ زمانے کو جانتا ہے، گھر سے باہر کے خطرات کو سمجھتاہے۔یہ اولاد کی بھوک کو اُن سے زیادہ سمجھتاہے۔یہ کبھی نہیں بتاتا کہ گھر چلانے کے لیے یہ کہاں کہاں سے پڑھے لکھے انداز میں بھیک مانگ کر آیا ہے۔ یہ اسی لیے دفتر کی باتیں گھر میں نہیں کرتا۔اولاد پڑھ لکھ جائے تو ان کی نوکریوں کے لیے یہ باپ ہی لوگوں کی خوشامدیں کرتا پھرتاہے۔ میں نے کئی ایسے لڑکے دیکھے ہیں جو بال کٹوانے کے لیے سیلون کے علاوہ کہیں نہیں جاتے، لیکن ان کے باپوں کو جب بھی دیکھا فٹ پاتھ پر بیٹھے حجام کے آگے سرجھکائے دیکھا۔اس لیے کہ باپ پہلے دل میں حساب لگاتاہے کہ خرچہ کتنا ہوگا۔ یہ بچت وہ صرف اس لیے کرنا چاہتاہے تاکہ مہینے بھر کا بجٹ نہ متاثر ہوجائے۔اس کے باوجود ایک سنہری جملہ اولاد کی طرف سے ضرور سننے کو ملتاہے’ابو آپ نے ہمارے لیے کیا ہی کیا ہے؟‘۔اولاد بالکل ٹھیک کہتی ہے، باپ نے اپنی محنت کی تشہیر ہی نہیں کی تو اولاد کیسے جانے گی؟اُس کی تو ساری زندگی اے ٹی ایم کی طرح گذر گئی۔گھر میں پیسے دیے، مکینوں کی خوشی بھری ٹوں ٹوں سنی اور باہر نکل گیا۔
آپ نے کئی مائیں دیکھی ہوں گی جو اپنی پچیس سال پرانی شادی کے دُکھڑے اولاد کو سنا کر ہمدردیاں سمیٹتی ہیں، لیکن بہت کم ایسے باپ دیکھے ہوں گے جو اولاد کو بتائیں کہ سسرال نے اُن کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا۔میری کل ایک سیکنڈ ایئر کے بچے سے بات ہورہی تھی، کہنے لگا ’میرے ابو نے ماضی میں میری امی پر بہت ظلم کیے ہیں۔‘ میں نے پوچھا ’بیٹا آپ کو کیسے پتا چلا؟‘ اطمینان سے بولا”امی نے بتایا ہے“۔ میں نے کچھ دیر توقف کے بعد سوال کیا’کیا آپ کے ابو پر بھی آپ کی امی نے کوئی ظلم کیا ہے؟‘۔ ایک دم سے نفی میں سرہلاکربولا”بالکل نہیں“۔ میں نے اسے غور سے دیکھا’یہ بات آپ اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہیں؟‘کندھے اچکا کر بولا’کیونکہ ابو نے آج تک ایسی کوئی بات بتائی ہی نہیں‘۔

ہاسے کھو لئے تیریاں یاداں نے آ مل سجناں فریاداں نے   میرے دل دا سونا تک ویہڑادرداں نے ٹھکانہ لبھیا اےتو نہ وچھڑ کہ ملیوں...
25/06/2022

ہاسے کھو لئے تیریاں یاداں نے
آ مل سجناں فریاداں نے
میرے دل دا سونا تک ویہڑا
درداں نے ٹھکانہ لبھیا اے
تو نہ وچھڑ کہ ملیوں چن سجناں
اساں سارا زمانہ لبھیا اے
تصویر بنا کے میں تیری
جیون دا بہانہ لبھیا اے
،تیرے ہجر دی کوئی مثال نی
اک توں جو میرے نال نی
تیری خاطر گلیاں رول گے آں
دنیا نوں دیوانہ لبیا اے
تو نہ وچھڑ کہ ملیوں چن سجناں
اساں سارا زمانہ لبھیا اے

19/06/2022

سنا ہے جس عورت سے آپکی شادی ہوئی تھی وہ بڑی خطرناک عورت تھی، اور آپ نے ڈر کے مارے اسے طلاق دے دی تھی" برگد کے درخت کے نیچے کرسی پر بیٹھے ایک خاموش طبع بوڑھے سے ایک منچلے نے استہزائیہ کہا.

"اللہ بخشے اسے، بہت اچھی عورت تھی" بنا ناراض ہوئے
، بغیر غصہ کئے بابا جی کی طرف سے ایک مطمئن جواب آیا.
ایک نوجوان نے ذرا اونچی آواز میں کہا "لیکن بابا جی لوگ کہتے ہیں وہ بڑی خطرناک عورت تھی. بابا جی کچھ دیر خاموش رہے پھر کہنے لگے.
"کہتے تو ٹھیک ہی ہیں، وہ واقعی بہت خطرناک تھی اور حقیقتاً میں نے ڈر کے مارے اسے طلاق دی تھی".

"یہ بات تو مردانگی کے خلاف ہے، عورت سے ڈرنا کہاں کی بہادری ہے؟ "نوجوان جوشیلے انداز میں بولا...
"میں عورت سے نہیں ڈرتا تھا، میں تو 'اس' سے ڈرتا تھا جس تک اس کی رسائی تھی" پرسکون جواب...
جوانوں نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا.
ایسی عورتوں کو تو جہنم میں ہونا چاہیئے...لا حول ولا قوہ.. کہاں آپ جیسا شریف النفس آدمی کہاں وہ عورت؟اچھا کیا چھوڑ دیا" نوجوان کے لہجے میں غصہ تھا. بوڑھے کی متجسس زندگی کا پٹارا کھل کر سامنے آگیا تھا. تجسس ختم ہوا، اب سب باری باری منتشر ہونے لگے. جانے والوں نے عنوان پڑھ لیا تھا،کہانی خود بنانی تھی, جو رہ گئے تھے وہ وہی تھے جو اصل کہانی جاننا چاہتے تھے-

"میں بھی ایسا ہی سوچتا تھا کہ اسے جہنم میں ہی ہونا چاہیئے تھا، تب ہی میں نے اسے جہنم جیسی زندگی دی تھی" بوڑھی آنکھوں میں اضطراب اترا.
یہ تب کی بات ہے جب میں سرکار کے ہاں ایک روپیہ ماہوار پر ملازم ہوا، میری ماں چاہتی تھی کہ میری شادی ہوجائے. رشتہ ڈھونڈا گیا، ایک مونگ پھلی فروش کی بیٹی میری ماں کو پسند آئی, سلیقہ مند، خوبصورت اور ایک دم خاموش طبع. مجھے اس رشتے پر اعتراض تھا کہ وہ ایک مونگ پھلی بیچنے والی کی بیٹی تھی. مزدور کی اولاد کو پیٹ کی فکررہتی ہے، تربیت کی نہیں، تربیت بڑے گھرانوں میں کی جاتی ہے جہاں افلاس آنکھوں کے روشنی چھیننے سے قاصر ہوتا ہے. وہ کیا تربیت دے گی میری اولاد کو؟ لیکن وہ لڑکی میری ماں کو ایسی پسند تھی کہ اماں اس کے علاوہ کسی کا نام نہیں سننا چاہتی تھیں.
پھر وہ بیاہ کر میرے گھر آگئی، رخصتی کے وقت اس کے باپ نے مجھے کہا "میری بیٹی سیدھی سادھی ہے، اسے دنیاداری کا کوئی خاص پتا نہیں،اگر کہیں کوئی چوک ہوجائے تو معاف کردینا،یوں ہے بڑے دل والی،اپنے *سائیں* کو خوش رکھے گی", وہ بالکل ویسی ہی تھی جیسی میری ماں نے بتایا تھا. سلیقہ مند، سگھڑ اور تابعدار."

"باہر دوستوں کے ساتھ میری صحبت کوئی اچھی نہیں تھی، ملازمت کے اوقات میں کھانا گھر سے باہر کھاتا، دوستوں میں بیٹھتا ،رات گئے تک محفل چلتی پھر گھر جاتا. وہ کیا کھاتی کیا پیتی کس حال میں رہتی تھی مجھے کوئی پرواہ نہیں تھی. انہی دنوں میری ماں بھی دنیا سے رخصت ہوگئی تھی.
ایک روز میں جوئے میں بھاری رقم ہار کر جب تھکا ہارا گھر آیا تو کہنے لگی "آپ تو کھانا باہر کھالیتے ہیں، مجھے بھوک لگتی ہے، ہوسکے توایک ہی بار مہینے کا راشن ڈلوا دیا کیجیئے، روز روز بازار سےخریداری کی صعوبت نہیں اٹھانی پڑے گی"- کیا؟ اس پھونگ پھلی بیچنے والے کی بیٹی کی اتنی اوقات کہ مجھ سے مطالبہ کرسکے- مجھے طیش آیا.
"ہو ناں تم کسی بہت بڑے باپ کی بیٹی کہ تمہیں پورے مہینے کا راشن اور خرچ چاہیئے, اپنی اوقات دیکھی ہے؟ "غصے میں آکر اس پر ہاتھ اٹھایا اور مغلظات بھی بکے. میں یہ نہیں سوچ سکا کہ آخر اسے زندہ رہنے کے لئے روٹی تو ہر حال میں چاہیئے تھی!
وہ جسمانی اعتبار سے کافی کمزور تھی، مار برداشت نہیں کرسکتی تھی, پشیمانی تھی یا کیا وہ دودن تک بستر پر پڑی رہی. مجھے اسکی بھی کوئی پرواہ نہیں تھی.
پھر اس نے گھر میں ہی سینا پرونا شروع کردیا، ہاتھ کا ہنر اس کے کام آیا، یوں اسکی روٹی کا انتظام ہوگیا اور میں یہ سوچ کر پہلے سے بھی بےپرواہ ہوگیا.
ایک روز ایک ہمسائے نے مجھے روک کر کہا "دن میں جب آپ گھر نہیں ہوتے تو آپ کے گھر سے باتوں کی آوازیں آتی ہیں", میرے سوا میری غیر موجودگی میں کون آتا تھا جس سے وہ اتنی آواز میں باتیں کرتی تھی؟ غصہ حد سے سوا تھا، بس نہ چلتا تھا کہ اسے جان سے مار دوں، لیکن میں بس ایک موقع کی طاق میں تھا.
ایک رات پچھلے پہر کسی کے بولنے کی آواز پر میری آنکھ کھلی، چاندی رات میں صحن میں پڑی ہر شے بالکل واضح طور پر دکھائی دیتی تھی، میں اٹھ کر دروازے تک آیا.اب آواز زیادہ واضح تھی.وہ کہ رہی تھی:
"سائیں! صبح ایک روٹی کے لئے آٹا گھر میں موجود ہے، وہ ایک روٹی کھا کر چلا جائے گا، یہ سوچے بنا کہ میں سارا دن بھوکی رہوں گی, میری روٹی جب تک تیرے ذمے تھی تو عزت سے ملتی تھی، جب تو نے اپنے نائب کے ہاتھ دی تو روٹی کیساتھ بےعزتی اور اذیت بھی ملنے لگی، مجھے اب روٹی تو ہی دے...تیرا بنایا نائب تو خائن نکلا" وہ میری شکایت کررہی تھی؟ لیکن کس سے؟ کون تھا جو اسے روٹی دیتا تھا مجھ سے بھی پہلے؟؟؟
میں نے باہر آکر دیکھا وہ صحن کے بیچ چارپائی پر بیٹھی خود سے باتیں کررہی تھی. وہاں کوئی بھی نہ تھا. میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی, وہ خدا سے میری شکایت کررہی تھی, وہ اس لمحے مجھے کوئی اور ہی مخلوق لگی. وہ بہت کم بولتی تھی لیکن وہ کس کے ساتھ اتنا بولتی تھی, آج مجھے سمجھ آیا تھا. وہ تو بہت بڑے باپ کی بیٹی تھی. کیسی عورت تھی جو افلاس کے ہوتے بھی خدا شناس تھی, میرا جسم خوف سے کانپ رہا تھا.
دن چڑھتے ہی میں نے سامان باندھا اور اسے اسکے گھر چھوڑ آیا، سسر نے طلاق کی وجہ پوچھی تو میں ڈرتے ہوئے کہنے لگا.
" یہ بڑی خطرناک عورت ہے، بڑے دربار میں میری شکایتیں لگاتی ہے.مجھے ڈر ہے کہ بادشاہ کو کسی دن تاو آگیا تو میرا حشر نہ کردے" - حقیقت یہ تھی کہ میں اس کیساتھ انصاف نہیں کرسکا تھا.
اس کا باپ گھر کی دہلیز پر کھڑا تھا. میرے پلٹنے پر کہنے لگا "میں نے تمہیں کہا بھی تھا کہ اسے دنیاداری نہیں آتی، وہ تو بس 'سائیں' کو خوش رکھنا جانتی ہے" , اس کی مراد خدا سے تھی اور میں خود کو سمجھا تھا.
جب میں واپس گھر آیا تو مجھ پر انکشاف ہوا کہ رات اس نے یہی تو مانگا تھا." تو خود مجھے روٹی دے، تیرا نائب تو خائن نکلا", اور آج نان نفقے کا اختیار مجھ سے چھین لیا گیا.
میں بے تحاشہ رویا، اس کا سائیں بہت بڑا تھا، اس کی رسائی جس تک تھی وہ تو دوجہانوں کا رب تھا. وہ جس کی ایک روٹی مجھ پر بھاری تھی وہ اس کے لئے کیا نہیں کرسکتا تھا. میں واقعی ڈر گیا تھا. میں آج بھی ڈرتا ہوں کہیں میرے حق میں اس نے کوئی بددعا نہ کردی ہو.
ٹھیک کہتے ہیں لوگ!!کہاں میں کہاں وہ؟؟ "بوڑھی آنکھوں میں نمی اتری تھی.
"میں کور چشم اسے پہچان نہ سکا، میں نہیں ڈرتا تھا، حالانکہ ڈرنا چاہیئے تھا ،اس کے سائیں نے تو پہلے ہی کہ دیا تھا کہ عورتوں کے معاملے میں خدا سے ڈرو۔“

14/06/2022

لڑکیوں کا حال برا ہے ۔۔۔۔گھر بسانا نہیں جانتں ۔۔۔۔دیر سے سو کر اٹھتی ہیں۔پتہ لگا خاتون اپنی چھوٹی بہو سے بہت ناخوش ہیں
کہنے لگیں کہ ایک بڑی بہو ہے ۔وہ بہت اچھی ہے سویرے سے سارا گھر وہی تو سنھبالتی ہے۔کہیں اتی جاتی بھی نہیں ۔جبکہ دوسری تو ہر وقت گھومتی پھرتی ہے کسی کے کہنے سننے میں ہی نہیں ۔۔۔۔۔سخت ناراض تھیں ۔۔۔
ان سے پوچھا ۔۔۔۔۔۔۔کہ اگر آپ برا نہ مانیں تو ایک بات کہوں ۔۔۔۔۔۔اپ کے ہی معیار کے مطابق جس بہو سے آپ ہہت خوش ہیں اس کو اچھے ہونے کا کیا صلہ ملا ہے ؟
کبھی آپ نے دونوں بہووں کو حاصل شدہ آزادی ، سہولت اور آسانی کا موازنہ کیا ہے ؟
کون فائدے میں رہا کون نقصان میں ؟

وہ تو چپ رہیں ۔۔۔۔ لیکن ہمیں اندازہ تھا کہ فائدے میں چھوٹی والی رہی ہوگی کیوں کہ اس نے کسی کو خاطر میں ہی نہ رکھا نہ پرواہ کی ۔۔۔۔۔۔۔
ذرا سوچ کر حقیقت سامنے رکھیے گا کہ ہمارے گھرانے اچھی بہووں سے خالی ہوتے جارہے ہیں تو اس کی بہت سی وجوہات کے ساتھ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ۔۔۔۔اچھی کا حشر دیکھ کر دوسری بری بننا پسند کرتی ہے ۔ ۔۔۔!
کیوں کہ معاشرے نے با اخلاق لوگوں کو اپنے لحاظ مروت خلوص کی وجہ سے خوب رگڑا ہے ۔۔اور ۔۔استحصال کا ذریعہ بنایا ہے۔

۔۔جو لوگ کسی پر طنز نہیں کرتے ۔۔۔دل آزاری کرنے سے بچتے ہیں ۔۔۔۔کہیں خاموش رہ کر ۔۔۔اور کہیں درگزر کر کے ۔۔۔۔تلخی سے بچنا چاہتے ہیں ۔۔۔کچھ اضافی ذمہ داریاں کو نبھا جاتے ہیں ۔۔۔۔۔کچھ الٹ پلٹ بے ترتیبی کو چھپا جاتے ہیں ۔۔۔۔۔مسکرا کر بات ٹال جاتے ہیں ہر خلوص سادہ سے ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے ؟
اردگرد دیکھیےکہ ۔۔۔۔۔
گھر کا خاموش فرمائش نہ کرنے والا بہن بھائی ۔۔۔۔۔
اپنا حق چھوڑ دینے والی اولاد ۔۔۔۔۔
صبر و شکر سے گزارا کرنے والی بیوی ۔۔۔۔۔۔
درگزر کرنے والا ذمہ دار شوہر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معاملات کو خوش اسلوبی سے نبھانے والی ساس صاحبہ یا نند ۔۔۔۔۔۔
سب کی ذمہ داریوں کا بوجھ اپنے کندھے پر اٹھانے والی مصروف بھابھی یا بہو ۔۔۔۔
ایمانداری سے کام کرنے والا باصلاحیت ملازم ۔۔۔۔۔
ان سے ہم کیسی کیسی قربانیاں طلب کرتے ہیں ؟اس کے باوجود ہم میں سے ہر ایک کی طاقت کا استعمال اور زبان کی تیزی انہی اچھے لوگوں پر کمزور سمجھ کر استعمال ہوتی ہے ۔۔۔۔ ہم ان کی اچھائیوں کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ایزی گوئنگ یا بے وقوف سمجھ کر ہر حق سے محروم کردیتے ہیں ۔۔۔۔ ایک وقت آتا ہے کہ سب سے خراب حصہ اسی کا ہوتا ہے۔
دوسری طرف منہ پھٹ ، مرنے مارنے پر اتر آنے والے ، اینٹ کا جواب پتھر سے دینے والے ، دوغلی صفت سے ہر ایک کو خوش رکھنے والے ہر دفعہ ہی بچ جاتے ہیں ہمیشہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔
معاشرہ اخلاق سے پیش آنے والوں کو دھتکارے گا ۔۔۔ان کے اچھائیوں کو کمزوری سمجھے گا ۔۔۔۔۔اس سے ناجائز فائدہ اٹھائے گا ۔۔۔۔۔۔اتنا ہی اخلاق کا زوال بڑھتا چلا جائے گا ۔۔۔۔ہم اپنے عمل اور رویوں سے ثابت کرتے ہیں کہ ہمارے نزدیک اخلاقی قدروں کی کتنی عزت ہے ۔
۔۔۔۔یہ بھی سوچئیے کہ کتنی ہی زیادتیاں ہیں جو ایسے لوگ چپ چاپ خموشی سے سہ جاتے ہیں۔؟

۔۔۔۔۔۔نگہت حسین ۔۔۔۔۔۔
11 جون 2021

05/06/2022

Copied
اَبر کے چاروں طرف باڑ لگا دی جائے
مفت بارِش میں نہانے پہ سزا دی جائے

سانس لینے کا بھی تاوان کیا جائے وُصول
سبسڈی دُھوپ پہ کچھ اور گھٹا دی جائے

رُوح گر ہے تو اُسے بیچا ، خریدا جائے
وَرنہ گودام سے یہ جنس ہٹا دی جائے

قہقہہ جو بھی لگائے اُسے بِل بھیجیں گے
پیار سے دیکھنے پہ پرچی تھما دی جائے

تجزیہ کر کے بتاؤ کہ منافع کیا ہو
بوندا باندی کی اَگر بولی چڑھا دی جائے

آئینہ دیکھنے پہ دُگنا کرایہ ہو گا
بات یہ پہلے ، مسافر کو بتا دی جائے

تتلیوں کا جو تعاقب کرے ، چالان بھرے
زُلف میں پھول سجانے پہ سزا دی جائے

یہ اَگر پیشہ ہے تو اِس میں رِعایت کیوں ہو
بھیک لینے پہ بھی اَب چنگی لگا دی جائے

کون اِنسان ہے کھاتوں سے یہ معلوم کرو
بے لگانوں کی تو بستی ہی جلا دی جائے

حاکمِ وَقت سے قزاقوں نے سیکھا ہو گا
باج نہ ملتا ہو تو گولی چلا دی جائے

کچی مِٹّی کی مہک مفت طلب کرتا ہے
قیس کو دَشت کی تصویر دِکھا دی جائے

Address

Sahiwal

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Urdu Poetry posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share

Category


Other Magazines in Sahiwal

Show All