Murree Spring's

Murree Spring's Social news and information about Murree.

25/11/2022

نوجوانو اٹھو سنگ ہمارے چلو!

25/11/2022

نوجوانو اٹھو سنگ ہمارے چلو

19/11/2022
19/11/2022

ماجد قتل کیس! 23 نومبر 2022 ۔اسلام آباد پرس کلب۔ احتجاجی مظاہرہ ۔ اسلام آباد کوہسار کا منتظر! عوامی شو!
لائحہ عمل! ظالموں کا احتساب! مظلوم کے ساتھ ۔اہل کوہسار

Congratulations 🎇 PAKISTAN TEAM
09/11/2022

Congratulations 🎇 PAKISTAN TEAM

بسلسلہ یوم اقبال:مفکر اسلام مولانا سید ابوالاعلی مودودی  رحمتہ اللہ علیہ کا شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال  رحمتہ اللہ علیہ ...
09/11/2022

بسلسلہ یوم اقبال:
مفکر اسلام مولانا سید ابوالاعلی مودودی رحمتہ اللہ علیہ کا شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے حوالے سے خاص مضمون

سب جانتے ہیں کہ اقبال نے یہی مغربی تعلیم حاصل کی تھی جو ہمارے نوجوان انگریزی یونیورسٹیوں میں حاصل کرتے ہیں۔ یہی تاریخ یہی ادب، یہی اقتصادیات، یہی سیاسیات، یہی قانون اور یہی فلسفہ انہوں نے بھی پڑھا تھا اور ان فنون میں بھی وہ مبتدی نہ تھے بلکہ منتہی فارغ التحصیل تھے۔ خصوصاً فلسفہ میں تو ان کو امامت کا مرتبہ حاصل تھا جس کا اعتراف موجودہ دور کے اکابر فلاسفر تک کر چکے ہیں۔ جس شراب کے دو چار گھونٹ پی کر بہت سے لوگ بہکنے لگتے ہیں یہ مرحوم اس کے سمندر پیئے بیٹھا تھا۔ پھر مغرب اور اس کی تہذیب کو بھی اس نے محض ساحل پر سے نہیں دیکھا تھا
جس طرح ہمارے ۹۹فیصدی نوجوان دیکھتے ہیں بلکہ وہ اس دریا میں غوطہ لگا کر تہہ تک اتر چکا تھا، اور ان سب مرحلوں سے گزرا تھا جن میں پہنچ کر ہماری قوم کے ہزاروں نوجوان اپنے دین و ایمان ، اپنے اصول ، تہذیب و تمدن اور اپنے قومی اخلاق کے مبادی تک سے برگشتہ ہو جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ اپنی قومی زبان تک بولنے کے قابل نہیں رہتے۔
لیکن اس کے باوجود اس شخص کا حال کیا تھا؟ مغربی تعلیم و تہذیب کے سمندر میں قدم رکھتے وقت وہ جتنا مسلمان تھا، اس کے منجدھار میں پہنچ کر اس سے زیادہ مسلمان پایا گیا۔ اس کی گہرائیوں میں جتنا اترتا گیا اتنا ہی زیادہ مسلمان ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ اس کی تہہ میں جب پہنچا تو دنیا نے دیکھا کہ وہ قرآن میں گم ہو چکا ہے اور قرآن سے الگ اس کا کوئی فکری وجود باقی ہی نہیں رہا۔ وہ جو کچھ سوچتا تھا قرآن کے دماغ سے سوچتا تھا، جو کچھ دیکھتا تھا قرآن کی نظر سے دیکھتا تھا۔ حقیقت اور قرآن اس کے نزدیک شے واحد تھے، اور اس شے واحد میں وہ اس طرح فنا ہو گیا تھا کہ اس کے دور کے علماء دین میں بھی مجھے کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جو فنائیت فی القرآن میں اس امام فلسفہ اور اس ایم اے پی ایچ ڈی بار ایٹ لا سے لگا کھاتا ہو۔
بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ آخری دور میں اقبال نے تمام کتابوں کو الگ کر دیا تھا اور سوائے قرآن کے اور کوئی کتاب وہ اپنے سامنے نہ رکھتے تھے۔ وہ سالہا سال تک علوم و فنون کے دفتروں میں غرق رہنے کے بعد جس نتیجے پر پہنچے تھے، وہ یہ تھا کہ اصل علم قرآن ہے اور یہ جس کے ہاتھ آ جائے وہ دنیا کی تمام کتابوں سے بے نیاز ہے۔ ایک مرتبہ کسی شخص نے ان کے پاس فلسفہ کے چند اہم سوالات بھیجے، اور ان کا جواب مانگا۔ ان کے قریب رہنے والے لوگ متوقع تھے، کہ اب علامہ اپنی لائبریری کی الماریاں کھلوائیں گے اور بڑی بڑی کتابیں نکلوا کر ان مسائل کا حل تلاش کریں گے، مگر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ لائبریری کی الماریاں مقفل کی مقفل رہیں، اور وہ صرف قرآن ہاتھ میں لے کر جواب لکھنے بیٹھ گئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی ذات مبارک کے ساتھ ان کی والہانہ عقیدت کا حال اکثر لوگوں کو معلوم ہے، مگر یہ شاید کسی کو نہیں معلوم کہ انہوں نے اپنے سارے تفلسف اور اپنی تمام عقلیت کو رسول عربی صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کے قدموں میں ایک متاع حقیر کی طرح نذر کر کے رکھ دیا تھا۔ حدیث کی جن باتوں پر نئے تعلیم یافتہ نہیں پرانے مولوی تک کان کھڑے کرتے ہیں اور پہلو بدل بدل کر تاویلیں کرنے لگتے ہیں، یہ ڈاکٹر آف فلاسفی ان کے ٹھیٹھ لفظی مفہوم پر ایمان رکھتا تھا اور ایسی کوئی حدیث سن کر ایک لمحہ کے لیے بھی اس کے دل میں شک کا گزر نہ ہوتا تھا۔
ایک مرتبہ ایک صاحب نے ان کے سامنے بڑے اچنبھے کے انداز میں اس حدیث کا ذکر کیا جس میں بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اصحابِ تلاثہ کے ساتھ کوہ احد پر تشریف رکھتے تھے، اتنے میں احد لرزنے لگا اور حضور نے فرمایا کہ ٹھہر جا تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا کوئی نہیں ہے۔ اس پر پہاڑ ساکن ہو گیا۔
اقبال نے حدیث سنتے ہی کہا کہ اس میں اچنبھے کی کونسی بات ہے؟ میں اس کو استعارہ و مجاز نہیں بالکل ایک مادی حقیقت سمجھتا ہوں، اور میرے نزدیک اس کے لیے کسی تاویل کی حاجت نہیں، اگر تم حقائق سے آگاہ ہوتے تو تمہیں معلوم ہوتا کہ ایک نبی کے نیچے آ کر مادے کے بڑے سے بڑے تودے بھی لرز اٹھتے ہیں، مجازی طور پر نہیں واقعی لرز اٹھتے ہیں۔
اسلامی شریعت کے جن احکام کو بہت سے روشن خیال حضرات فرسودہ اور بوسیدہ قوانین سمجھتے ہیں اور جن پر اعتقاد رکھنا ان کے نزدیک ایسی تاریک خیال کی ہے کہ مہذب سوسائٹی میں ان کی تائید کرنا ایک تعلیم یافتہ آدمی کے لیے ڈوب مرنے سے زیادہ بدتر ہے۔ اقبال نہ صرف ان کو مانتا اور ان پر عمل کرتا تھا بلکہ برملا ان کی حمایت کرتا تھا۔ اور اس کو کسی کے سامنے ان کی تائید کرنے میں باک نہ تھا۔ ان کی ایک معمولی مثال سن لیجئے۔ ایک مرتبہ حکومت ہند نے ان کو جنوبی افریقہ میں اپنا ایجنٹ بنا کر بھیجنا چاہا اور یہ عہدہ ان کے سامنے باقاعدہ پیش کیا، مگر شرط یہ تھی کہ وہ اپنی بیوی کو پردہ نہ کرائیں گے، سرکاری تقریبات میں لیڈی اقبال کو ساتھ لے کر شریک ہوا کریں گے۔ اقبال نے اس شرط کے ساتھ یہ عہدہ قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا اور خود لارڈ لنگڈن کو کہا کہ میں بے شک ایک گناہ گار آدمی ہوں، احکامِ اسلام کی پابندی میں بہت کوتاہیاں مجھ سے ہوتی ہیں، مگر اتنی ذلت اختیار نہیں کر سکتا کہ محض آپ کا عہدہ حاصل کر نے کے لیے شریعت کے حکم کو توڑ دوں۔
اقبال کے متعلق عام خیال یہ ہے کہ وہ فقط اعتقادی مسلمان تھے، عمل سے ان کو کچھ سروکار نہ تھا۔ اس بدگمانی کے پیدا کرنے میں خود ان کی افتادِ طبیعت کا بھی بہت کچھ دخل ہے۔ ان میں کچھ فرقۂ ملامتیہ کے سے میلانات تھے، جن کی بناء پر اپنی رندی کے اشتہار دینے میں انہیں کچھ مزا آتا تھا ورنہ درحقیقت وہ اتنے بے عمل نہ تھے۔
قرآن مجید کی تلاوت سے ان کو خاص شغف تھااور صبح کے وقت بڑی خوش الحانی کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ مگر اخیر زمانے میں طبیعت کی رقت کا یہ حال ہو گیا تھا کہ تلاوت کے دوران میں روتے روتے ہچکیاں بندھ جاتی تھیں اور مسلسل پڑھ ہی نہ سکتے تھے۔نماز بھی بڑے خشوع و خضوع سے پڑھتے تھے مگر چھپ کر۔ ظاہر میں یہی اعلان تھا کہ گونراگفتار کا غازی ہوں۔
ان کی سادہ زندگی اور فقیرانہ طبیعت کے حالات ان کی وفات ہی کے بعد لوگوں میں شائع ہوئے۔ ورنہ عام خیال یہی تھا کہ جیسے اور سرصاحبان ہوتے ہیں، ویسے ہی وہ بھی ہوں گے، اور اسی بناء پر بہت سے لوگوں نے یہاں تک بلاتحقیق لکھ ڈالا تھا کہ ان کی بارگاہ عالی تک رسائی کہاں ہوتی ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ شخص حقیقت میں اس سے بھی زیادہ فقیر منش تھا جتنا اس کی وفات کے بعد لوگوں نے اخبارات میں بیان کیا ہے۔ ایک مرتبہ کا واقعہ سن لیجئے جس سے اس نائٹ اور بیرسٹر کی طبیعت کا آپ اندازہ کر سکیں گے۔ پنجاب کے ایک دولت مندرئیس نے ایک قانونی مشورہ کے لیے اقبال اور سرفضل حسین مرحوم اور ایک دو اور مشہور قانون دان اصحاب کو اپنے ہاں بلایا اور اپنی شاندار کوٹھی میں ان کے قیام کا انتظام کیا۔ رات کو جس وقت اقبال اپنے کمرے میں آرام کرنے کے لئے گئے تو ہر طرف عیش و تنعم کے سامان دیکھ کر اور اپنے نیچے نہایت نرم اور قیمتی بستر پا کر معاً ان کے دل میں خیال آیا کہ جس رسول پاک کی جوتیوں کے صدقے میں آج ہم کو یہ مرتبے نصیب ہوئے ہیں، اس نے بوریے پر سو سو کر زندگی گزاری تھی۔ یہ خیال آنا تھا کہ آنسوئوں کی جھڑی بندھ گئی۔ اس بستر پر لیٹنا ان کے لیے نا ممکن ہو گیا۔ اٹھے اور برابر کے غسل خانہ میں جا کر ایک کرسی پر بیٹھ گئے اور مسلسل رونا شروع کر دیا۔ جب دل کو قرار آیا تو اپنے ملازم کو بلا کر اپنا بستر کھلوایا اور ایک چار پائی اس غسل خانے میں بچھوائی اور جب تک وہاں مقیم رہے غسل خانہ ہی میں سوتے رہے۔ یہ وفات سے کئی برس پہلے کا واقعہ ہے۔ جب باہر کی دنیا ان کو سوٹ بوٹ میں دیکھا کرتی تھی کسی کو خبر نہ تھی کہ اس سوٹ کے اندر جو شخص چھپا ہوا ہے اس کی اصلی شخصیت کیا ہے؟ وہ ان لوگوں میں سے نہ تھا کہ جو سیاسی اغراض کے لیے سادگی و فقر کا اشتہار دیتے ہیں، اور سوشلسٹ بن کر غریبوں کی ہمدردی کادم بھرتے ہیں، مگر پبلک کی نگاہوں سے ہٹ کر ان کی تمام زندگی رئیسانہ اور عیش پسندانہ ہے۔
اقبال کے نائٹ ہڈ اور سرشفیع مرحوم جیسے حضرات کے ساتھ ان کے سیاسی رشتہ کو دیکھ کر عام خیال یہ تھا اور اب بھی ہے، کہ وہ محض شاعری ہی میں آزاد تھے عملی زندگی میں آزاد خیالی ان کو چھو کر بھی نہ گزری تھی، بلکہ وہ نرے انگریز کے غلام تھے۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ ان کے قریب جو لوگ رہے ہیں اور جن کو گہرے ربط و ضبط کی بناء پر ان کی اندرونی زندگی اور ان کے اندرونی خیالات کا علم ہے وہ جانتے ہیں کہ انگریزی سیاست سے ان کو خیال اور عمل دونوں میں سخت نفرت تھی۔ بارگاہ حکومت سے وہ کوسوں دور بھاگتے تھے۔ سرکار اور اس کے پرستار دونوں ان سے سخت بدگمان تھے۔ اور ان کی ذات کو اپنے مقاصد میں حارج سمجھتے تھے۔
سیاسیات میں ان کا نصب العین محض کامل آزادی ہی نہ تھا بلکہ وہ آزاد ہندوستان میں دارالاسلام کو اپنا مقصودِ حقیقی بنائے ہوئے تھے۔ اس لیے کسی ایسی تحریک کا ساتھ دینے پر آمادہ نہ تھے۔ جو ایک دارالکفر کو دوسرے دارالکفر میں تبدیل کرنے والی ہو۔
صرف یہی وجہ ہے کہ انھوں نے عملی سیاسیات میں ان لوگوں کے ساتھ مجبوراً نہ تعاون کیا، جو برٹش گورنمنٹ کے زیر سایہ ہندو راج کے قیام کی مخالفت کر رہے تھے، گو مقاصد کے اعتبار سے ان میں اور ان میں اور اس طبقہ میں کوئی ربط نہ تھا مگر صرف اس مصلحت نے ان کو اس طبقہ کے ساتھ جوڑ رکھا تھا کہ جب تک مسلمان نوجوانوں میں دارالاسلام کا نصب العین ایک آتشِ فروزاں کی طرح پھڑک نہ اٹھے اور وہ اس کے لیے سرفروشانہ جدوجہد پر آمادہ نہ ہو، اس وقت تک کم از کم انقلاب کے رخ کو بالکل دوسری جانب پلٹ جانے سے روکے رکھا جائے۔ اس بنا پر انہوں نے ایک طرف اپنی شاعری سے نوجوانانِ اسلام کے دلوں میں وہ روح پھونکنے کی کوشش کی جس سے سب لوگ واقف ہیں اور دوسری طرف عملی سیاسیات میں وہ روش اختیار کی جس کے اصل مقصود سے چند خاص آدمیوں کے سوا کوئی واقف نہیں، اور جس کے بعض ظاہری پہلوئوں کی وجہ سے وہ خود اپنے بہترین عقیدت مند معترفین تک کے طعنے سنتے رہے۔
(رسالہ جوہر اقبال نمبر۱۹۳۸، بہ حوالہ : اقبال اور مودودی)

بشکریہ: Syed Saleem Gardezi+اسامہ بھائی

ماجد ستی قتل کیس لواحقین اور فرخ کھوکھر آمنے سامنے آج نتاشه سپرا صاحبه کى عدالت میں پیش ہونے والے ملزم فرخ امتیاز کھوکھر...
08/11/2022

ماجد ستی قتل کیس لواحقین اور فرخ کھوکھر آمنے سامنے
آج نتاشه سپرا صاحبه کى عدالت میں پیش ہونے والے ملزم فرخ امتیاز کھوکھر کی تاریخ پے بار بار ٹک ٹاک پر التجا کرنے کے باوجود کوئی ساتھ نہ آیا نوجواونون کو اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے کہ یہ معاشرے کا ناسور ہیں جو جوانوں کی زندگی برباد کرتے ہیں حقیقی زندگی اور فلمی زندگی میں بہت فرق ہے آج اسکی حالت قابل رحم تھی اور كوهسار برادری کے ڈر سے چوروں کی طرح چھپ کر آیا اور کوئی ٹک ٹا کر ساتھ نہ آیا اصل طاقت ماں باپ کی تربیت اور برادری ہوتی ہے فرخ کھوکھر 302 کے مقدمہ میں ملزم ہے ۔ اس کا پرچہ تھانہ صادق آباد میں درج هوا۔
خطہ كوهسار کى بڑى تعداد روالپنڈی کچرى میں موجود تھی اور پولیس بھى بڑى تعداد میں موجود تھى۔ جب کے آج کل کے جواں لڑکوں کے جعلی ہیرو کے ساتھ کوئی بھی نہ تھا
معاشرے میں بڑھتى بے چینى اور جرائم کی صورت حال کا ایک پہلو یہ بھی ہے کے کریمنلز کو اپنا ہیرو بنایا جاتا ہے ۔
نوجوان کتاب ،سکول ،کالج چھوڑ کے عدالت کے باہر گھنٹوں کھڑے ہوتے ہیں ۔ سلفى لینا اورلمبے بالوں کے ساتھ جرائم کی دنیا میں اپنى پهچان بنانا چاہتے ہیں ۔
شہرت حاصل کرنے کے لئے سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہیں ۔
معاشرتی رویے کسى بھى سوسائٹی کی بقا اور ترقى کے ضامن ہیں ۔
نوجوانوں کی بڑى تعداد کو اس طرف جاتے دل میں مروڑ اٹھتے ہیں ۔آخر ہماری نوجوان نسل کو حرامی بننے کا اتنا شوق کیوں
بلاشبہ اس معاشرے میں پیسے اور گاڑى کى دوڑ میں سب پامال ہوتا جا رہا ہے ۔
اس کوبچانے کی اشد ضرورت ہے ۔ نوجوانوں کو قلم ، کتاب اور تعلیم پے توجہ مرکوز کرنا پڑےگى۔۔

03/11/2022

عمران خان پر حملہ کرنے والے ملزم کا پہلا بیان

03/11/2022

عمران خان پر حملے کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔گولی کی سیاست کسی صورت قابل قبول نہیں۔
اللہ تعالیٰ زخمیوں کو جلد صحتیاب کریں۔

02/11/2022

Halloween in Riyadh (Najd), Saudi Arabia🇸🇦

‎The beloved Prophet Muhammad ﷺ had already said about Najd: “There will appear earthquakes and Fitnahs, and from there will come out the side of the head of Shaytan.”
[Sahih Al-Bukhari, Vol. 9, Book 88, Chapter: “The Fitnah will appear from the east”, Hadith 214]

May Allah forgive us all and keep us away from what is forbidden in Islam.😭

Address

Murree
4700

Telephone

+923125684881

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Murree Spring's posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Murree Spring's:

Share