Qalam Kaman TV

Qalam Kaman TV Qalam Kaman TV HD is a Famous News Chennal which cover all types of events and all kind of news around the world with full spirt of independent sources

تحصیل میاں چنوں کا سب سے زیادہ شائع ہونے والا واحد اخبار ،ظلم کے خلاف مظلوموں کی زبان اخبار قلم کمان ستمبر 2023 خود بھی ...
15/09/2023

تحصیل میاں چنوں کا سب سے زیادہ شائع ہونے والا واحد اخبار ،ظلم کے خلاف مظلوموں کی زبان اخبار قلم کمان ستمبر 2023 خود بھی پڑھیں اور دوسروں کو بھی پڑھائیں۔برائے مہربانی Like اور Share کولازمی کلک کریں ۔شکریہ

26/05/2023

سلام و علیکم! ڈیئر پیج ممبرز۔۔۔
پلیز اپنے شہر کا نام لکھیں تاکہ پتہ چلے کہ معزز ممبرز نے کہاں کہاں سے جائن کر رکھا ہے۔

22/11/2022
22/11/2022

میاں چنوں (رضا جعفری سے) بزم حسان اور انسان دوست ٹرسٹ میاں چنوں کے زیر اہتمام مسجد دربار بابا میاں چنوں میں سالانہ 63 محافل میلاد شیڈول کے سلسلہ کی آخری محفل میلاد مصطفیٰ ص جاری

22/11/2022

*جھنگ شادی میں ڈانس کے دوران چھت گِرگئی اس طرح عذاب آتا ہے جو ہم سمجھ بھی نہیں پاتے خدارا شادی کو کنجر خانہ مت بنائیں 😭😱*

18/12/2021

رضا جعفری ایڈووکیٹ ہائیکورٹ
-exنائب صدر بار ایسوسی ایشن میاں چنوں
03006892578
03126892578

17/04/2021

*تمام گروپ ممبران متوجہ ہوں۔*

*حالات کے پیشِ نظر اس واٹس ایپ نیوز گروپ میں کسی بھی قسم کی ملکی سلامتی اور سیکورٹی فورسز کے حوالے سے کوئی بھی غیرتصدیق شدہ خبر چلانے کی سختی سے پابندی ہے اور اسی طرح اس واٹس ایپ گروپ نیوز گروپ میں کوئی انتشار پھیلانے والی خبریں ، فرقہ واریت و دیگر مذہبی خبریں چلانے کی بھی کسی کو کوئی اجازت نہیں ، اگر کسی نے بھی اس واٹس ایپ نیوز گروپ میں کوئی بھی انتشار پھیلانے والی خبر یا پوسٹ چلائی تو وہ اس خبر یا پوسٹ کا خود ذمہ دار ہوگا ، واٹس ایپ نیوز گروپ پر غلط جھوٹی خبر چلانے والوں کے خلاف ٹیلی گراف ایکٹ 25D کے تحت مقدمہ بھی درج کروایا جا سکتاہے*
*قانون کو ہاتھ میں لینے سے پرہیز کریں برائے مہربانی قانون نافذ کرنے اداروں / پولیس انتظامیہ کے ساتھ امن و امان قائم رکھنے کیلئے تعاون فرمائیں ،*
*انتشار انگیزی سے پرہیز کریں ،*
والسلام
*گروپ ایڈمنز*

22/02/2021

قتل کا مقدمہ یا مقدمے کا قتل۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد رضا قصوری پیپلز پارٹی کے بنیادی اراکین میں شامل تھا اچھا مقرر تھا مگر حصول مفاد کے لیے کسی حد تک جا سکتا تھا اس کی ایک اور خوبی یہ تھی کہ وہ منہ سے طبلے کی کی آواز بڑی خوبصورتی سے نکال سکتا تھا ایک دفعہ بٹھو صاحب تلاگنگ جلسے سے خطاب کے بعد واپس راولپنڈی فلش مین آ ہے تکاوٹ کی وجہ سے بستر پر لیٹ گے تو احمد رضا قصوری نے ان کی ٹانگیں دبانی شروع کر دی اور منہ سے طبلے کی دھن بجانی شروع کر دی میں اس کا عینی شاہد ہوں 1970 کے انتخابات میں قصوری بھی ایک بڑے مد مقابل کو شکست دے کر قصور سے قومی اسمبلی کا ممبر منتخب ہو گیا انتخابات میں شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ نے اکثریت حاصل کی اور بظاہر یہی لگتا تھا کہ عوامی لیگ حکومت بنانے گی اس موقعے کا فایدہ اٹھا نے کے لئے احمد رضا قصوری اور سندھ سے پیپلز پارٹی کی ہی ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا ممبر یہ دونوں مشرقی پاکستان شیخ مجیب الرحمان کے ساتھ ملاقات کرنے چلے گئے اور اس کو یقین کرائی کیونکہ آپ کے پاس مغربی پاکستان سے کوئی ممبر اسمبلی نہیں ہے اور حکومت سازی کیلئے آپ کی ضرورت ہے اور ہم دونوں پیپلز پارٹی چھوڑ کر آپ کی پارٹی میں شامل شامل ہونے کو تیار ہیں مگر مجیب الرحمن کو کیوں کے وزیراعظم بنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی وہ صرف چھ نکات پر مبنی آئین سازی کے بعد مشرقی پاکستان کا وزیر اعلیٰ بن پاکستان سے الگ ہونا چاہتا تھا لہذا اس نے نہ صرف ان کو لفٹ نہیں کرائی بلکہ ایک ملاقات میں بھٹو صاحب کو بتا دی بٹھو صاحب نے لوگوں کو کچھ نہیں کہا مگر جب مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد باقی مندہ پاکستان میں حکومت سازی کا وقت آیا تو احمد رضا قصوری نے وزارت داخلہ کا مطالبہ کیا بٹھو صاحب نے وزارت داخلہ تو درکنار اس وزیر مملکت کیا پارلیمانی سیکرٹری بھی نہیں بنایا جس کے بعد اس نے پارٹی اور بٹھو صاحب کے خلاف اسمبلی میں تقاریر کرنی شروع کر دی جب اس کے بعد بھی لفٹ نہ ملی تو کہنا شروع کردیا کے بٹھو مجھے قتل کرنا چاہتا ہے ایک دفعہ اسمبلی میں آتے ساتھ ہی شور ڈالنے لگا کے راستے میں مجھ پر گولی چلائی گئی جب اس تحقیقات کرائی گئی جس جگہ کے لئے کہ رہا تھا وہاں لوگوں سے دریافت کیا گیا کسی ایک شخص نے بھی اس بات کی تصدیق نہیں کی اس گولی چلنے کی آواز سنی اس میں ناکامی کے بعد اپنی ٹانگ میں بے زرر جگہ گولی مارکر تھانے میں پرچہ درج کریا کے اس پر قاتلانہ حملہ گیا ہے اور شک ظاہر کیا کہ ان وجوہات کی وجہ سے حملہ کیا گیا پہلا شک بھٹو نے کریا دوسرا یہ کہ میرے سیاسی مخالف جن کو میں نے انتخابات میں شکست دی یا پھر قادیانی جماعت کے لوگ چونکہ میں قادیانیوں کا شدید مخالف ہوں پولیس نے تحقیقات کے آغاز میں اس کا میڈیکل کریا ڈاکٹروں کے بورڈ مشترکہ رپورٹ دی زخم خود ساختہ ہے اس طرح پرچہ خارج کر دیا گیا اس کے بعد لاہور میں ایک شادی کی تقریب سے واپسی پر اس جگہ قتل کر دیا گیا جہاں پہلے کبھی جیل تھی اور اسی جیل میں بھگت سنگھ شہید کو پھانسی دی گئی تھی اور نواب محمد احمد جو اس وقت آنریری مجسٹریٹ کے طور پر اس پھانسی کے عمل کا نگران تھا حملے گولیاں سیدھی نواب احمد پر چلائی گئی احمد رضا قصوری جو اس گاڑی کو چلا رہا تھا جس میں اس کے باپ کو قتل گیا کو خراش تک نہیں آئ مگر جب تھانے میں پرچہ درج کرانے گیا تو اس نے کہا کہ حملہ بٹھو صاحب کی ایما پر اس پر کریا گیا جس میں میرا والد مارا گیا پولیس افسر نے وزیراعظم کے خلاف پرچہ درج کرنے سے انکار کردیا تو یہ تھانے میں دھرنا دے کر بیٹھ گیا پولیس والوں آئی جی راؤ رشید صاحب کو صورت حال سے آگاہ کیا راؤ رشید نے وزیر اعلی پنجاب جناب محمد حنیف رامے کو ساری صورتحال بتائی رامے صاحب نے بٹھو صاحب کو جو اس وقت ملتان میں تھے بتایا بٹھو صاحب آگاہ کیا جس پر بھٹو نے کہا کہ ایف آئی آر درج کرنا اس کا حق ہے اور وہ جو کچھ بھی کہتا ہے اس کے مطابق پرچہ درج کیا جائے اس طرح پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی وزیر اعظم کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا گیا وزیر اعلیٰ پنجاب نے جوڈیشل انکوائری کا حکم دیا اور لاہور ہائی کورٹ کے سنیر جج جسٹس شفیع الرحمن کو انکوائری کی درخواست کی گئی جناب جسٹس نے تفصیل سے سارے کا حالات کا جائزہ لیا اور اپنی رپورٹ میں احمد رضا قصوری کے الزامات کو بیبنیاد قرار دیا اس کچھ عرصے کے 1977 کے انتخابات سے پہلے محترمہ بیگم نصرت بھٹو صاحبہ ملاقات کر کے قصوری معافی مانگی اور اپنے کئے پر شرمیدگی کا اظہار کیا اور 1977کے انتخابات کے لئے پاٹی ٹکٹ کی درخواست کی جو بابائے سوشلزم شیخ رشید کی قیادت میں بننے والے بورڈ نے مسترد کر دی مگر احمد رضا قصوری اس کے بعد بھی پارٹی میں شامل رہے انتخابات کے جب امریکی سی آئی اے اور پاکستانی آئ ایس آئ کی سرپرستی میں قومی اتحاد نے تحریک شروع کی اور آئر مارشل اصغر خان کو یقین دلایا گیا کے بھٹو کی حکومت ختم کر کے اس کو اقتدار دیا جائے گا اس وقت قصوری پیپلز پارٹی چھوڑ کر اصغر خان کی تحریک استقلال میں شامل ہو گیا اس کے بعد ضیاء نے مارشل لاء نافذ کر دیا بٹھو صاحب کو گورنر ہاؤس مری میں نظر بند کر دیا گیا اور قومی اتحاد لیڈروں بشمول اصغر خان کو پنجاب ہاؤس میں رکھا گیا انداز ایک ہفتے کے بعد فوجیوں نے ٹیسٹ کے لیے کارکنوں کو اپنے اپنے لیڈروں سے ملاقات کی اجازت دے دی میں بھی کچھ ساتھیوں کے ہمراہ گیا تھا فوجی حکام کے لیے باعث پریشانی یہ بات ثابت ہوئی کہ بٹھو صاحب کی ملاقات کے لیے پہلے ہی روز جانے والے کارکنوں کی تعداد ہزاروں سے تجاوز کرگئی اور دوسری طرف ان کے پیاروں کو ملنے والے سو کے ہندسے کو بھی نہیں پونچھ پائی نتیجہ یہ کہ دو دنوں کے بعد ملاقات پر پابندی عائد کر دی گئ اور پھر جب لیڈروں رہا کیا گیا جب اس خبر کو چھپایا گیا مگر چند منٹوں میں سیکڑوں افراد جمع ہو گئے خوب نعرے بازی کی رات گرفتاریوں کا سلسلہ شروع میں اتفاقی طور پر گھر نہیں تھا بچ گیا نذر کیانی سمت دس بارہ ساتھی گرفتار ہوئے ان میں ایک طالب علم ساتھی راٹھور تھا جو اجکل انگلستان میں ہے کو دس کوڑے مارے جو کوڑے کھانے والوں کی لمبی فہرست میں پہلا مجاہد ہے ایک نا قابل فہم ہے کہ جنرل ضیا اور چشتی کو امید کیوں تھی کہ تحریک جو ان معاونت اور امریکی ڈالر کی بنیاد پر چلی اسکے نتیجے میں بھٹو اتنا ان پاپولر ہو جائے گا کہ عوام اس کو سڑک پر چلنے نہیں دیں گے مگر بٹھو شہید جب رہائی کے بعد لاہور گے میں بھی ڈاکٹر خالق جو پنجاب حکومت سنیر وزیر تھے کے ہمراہ لاہور گیا تھاعوام کو صرف اتنی خبر تھی وہ بھی زبانی زبانی کے جناب چیرمین آئر پورٹ سے صادق حسین قریشی کے گھر جائیں گے جس کے چار راستے تھے ہر ایک پر اتنا بڑا اجتماع تھا کہ تک دھرنے کی جگہ نہ تھی ایسی استقبال کے بعد قومی اسمبلی کے رکن جہانگیر بدر اور ایک فلم ایکٹر شاہنواز کو کوڑوں کی سزا ہوئی یہی وہ وقت تھا جب ضیاء اور چشتی نے فیصلہ کیا کہ اگر بٹھو زندہ رہا تو وہ نہیں اس کے بعد تحریک استقلال کے ایک لیڈر ظفر علی شاہ جو پیپلز پارٹی سے نکالا تھا نے استغاثہ کیا کے بھٹو پر نواب احمد کے مقدمہ چلایا جائے قانون کے مطابق ظفر علی شاہ کو جرم کا ثبوت دینا چاہیے تھا مگر اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا اس لیے مارشل لاء حکومت نے احمد رضا قصوری کی Fir کو جسے ہائی کورٹ کا جج بیبنیاد قرار دے چکا تھا اس کو ظفر علی شاہ کی درخواست کے ساتھ جوڑ کر حکومت فریق بنی اور بھٹو صاحب کو گرفتار کر کے لاہور لایا گیا جہاں پر ان کی ضمانت کی درخواست لاہور ہائی کورٹ میں دی گئی جس کی سماعت جسٹس صمدانی نے اور درخواست ضمانت کو منظور کیا اور فیصلے میں لکھا کہ یہ مقدمہ ایک ایسی Fir کی بنیاد پر قائم ہے جس کو ہائی کورٹ کا جج بیبنیاد قرار دے چکا ہے مگر بھٹو صاحب رہا کر نے کی بجائے مارشل لاء کے ضابطہ بارہ تحت نظربند کر دیا اسی عرصے میں لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج مولوی مشتاق کو جسے بٹھو صاحب نے چیف جسٹس نہیں بنایا تھا اور وہ ملازمت چھوڑ کر چلا گیا تھا کو گھر سے بولا کر قائم مقام چیف جسٹس لگایا گیا راضی صرف اس لیے کہ اگر وہ بھٹو صاحب کو سزائے موت دے گا تو پکا ورنہ گھر اس انتظام ک بعد جلدی میں بھٹو صاحب کے خلاف عبوری چالان پیش کیا گیا اس کی بنیاد یہ رکھی گئی کہ موقع واردات سے جو خ*ل برآمد ہوئی تھے ان پر جو مادکینگ وہ لاٹ سے جس کا کچھ حصہ FsF کو الاٹ کیا گیا تھا اس سلسلے میں پہلا اعتراض یہ ہے کے مقدمے کی بجائے سیشن کورٹ میں ہونی چاہیے کیونکہ اس طرح ملزم کو ایک اپیل محروم کر دیا گیا ہے مولوی مشتاق نے اعتراض کر مسترد کردیا دوسرا یہ کہ عدالت کی پریکٹس کے جس جج نے ضمانت سماعت کی وہی کیس سننے جو جسٹس صمدانی تھا مگر اس کو لامنسٹری پوسٹ کر دیا گیا جب مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تو سب سے پہلے DG FSF کی درخواست پیش کی گئی جس کے ساتھ اس کا 164کا بیان جو مجسٹریٹ کے سامنے دیا گیا تھا جس میں وہ بیان کرتا ہے جب میں نے اپنے عہدے کا چارج سنبھال لیا تو کچھ دنوں بعد وزیر اعظم صاحب کا فون آیا کے میں نے پہلے ڈی جی ٹوانہ کو احمد رضا قصوری کے بارے میں ایک کام دیا تھا جو اب تم کو کرنا ہے تو میں نے فون کرکے ٹوانہ کرنا ہے یاد رہے کہ ٹوانہ فوت ہو چکا ہے اس وکیل صفائی کا پہلا اعتراض یہ تھا کہ گواہ کے پاس احمد رضا قصوری کے قتل کوئی جواز نہیں ہے تو یہ شریکِ جرم نہیں ہو سکتا تو پھر وعدہ معاف گواہ کیسے بن سکتا ہے دوسرا بٹھو صاحب نے ایسے کوئی براے راست کوئی حکم نہیں دیا اگر ٹوانہ بٹھو صاحب کے کہنے پر کان مروڑنے جس کا ترجمہ یہ قتل کرنا کہتے ہیں تیار تھا اس ریٹائر کیوں کیا گیا وہ بھی کنٹریکٹ پر تھا اور یہ بھی وکیل صفائی نے کہا کہ یہ جو کچھ بھی کہتا ہے جھوٹ ہے دوسرا مارشل لاء کے نفاذ کے وقت سے ان قبضے میں تھا لہذا اس سے باتیں زبردستی کہلائی جا رہی ہیں مولوی مشتاق نے سارے اعتراض مسترد کر دیے اور مسعود محمود کی گواہی کو قبول کی مسعود محمود نے کہا کہ اس نے ایس پی عباس کو حکم دیا کے بٹھو صاحب کا حکم ہے احمد رضا قصوری کو ختم کر دو ایس پی عباس نے انسپکٹر غلام حسین کو حکم دیا اور غلام حسی نے موقعے پر کاروائی کی نگرانی کی ایس پی عباس نے بیان دیا کہ نہ تو کبھی مسعود محمود نے مجھے کوئی ایسا حکم دیا اور نہ ہی کسی انسپکٹر غلام حسین کو ایسا حکم دیا مولوی مشتاق نے اس کو منحرف قرار دے کر ملزمان میں شامل کیا ایسی دوران GHQ کی اسلحہ ٹیسٹنگ لیبارٹری جس کے موقعہ واردات سے ملنے والے خ*ل اور جرم قبول کرنے والے ملزمان کی دی بندوقیں تھیں نے یہ رپورٹ دی کے موقعہ والے خ*ل ان بندوقوں سے نہیں چلائے گے یقین جانے جس دن یہ رپورٹ آئی اس دن محترمہ بینظیر بھٹو اس قدر خوش تھیں جتنی وہ وزیر اعظم کا حلف اٹھاتے ہوئے نہیں تھیں میں دونوں موقعوں کا گواہ ہوں تمام قانونی ماہرین کے مطابق کیس اس رپورٹ کے ساتھ ہی ختم ہو گیا مگر مولوی مشتاق احمد ہار ماننے والوں میں سے نہیں وہ جرنیل ضیاء کے ساتھ وعدہ کر چکا تھا کے میں نے بٹھو صاحب کو سزائے موت دینی ہے لہذا اسوقت تھانے کے ایس ایچ او کو بولا کر بیان دلایا گیا کے ہم لوگوں نے اس وقت کے آئی جی راؤ رشید کے گھر یہ خ*ل بدل دے تھے یاد رہے کہ کیس کی ابتدا میں کہا گیا تھا چونکہ موقع سے ملنے والے خ*لوں مادکینگ سے پتہ چلا تھا کہ وہ FSF کے استمعال میں تھے اگر وہ تبدیل شدہ ہیں تو تو کیس بنیاد ہی ختم ہو گئی مگر مولوی مشتاق مانے کو تیار نہیں تھا وکیل صفائی ڈی ایم اعوان نے درخواست کی چونکہ ایس ایچ او کہتا ہے کہ خ*ل آئی جی پنجاب کے گھر تبدیل ہوئے تو آئی جی راؤ رشید کو بطور گواہ طلب کیا جائے مولوی مشتاق نے وہ بھی مسترد کر دی اب آئے دوسرے وعدہ معاف گواہ کی طرف جو کہتا ہے میں نے موقع پر صوفی مصطفیٰ اور دوسرے کا نام یاد نہیں شاید اس پورے کیس میں یہ ہی ایک نام یاد نہیں کو گاڑی نمبر فلاں گیا اور میری نگرانی میں یہ قتل کیا گیا اس موقع پر FSF میں موجود کسی جیالے نے وکیل اعوان کو خبر دی کہ غلام حسین تو اس لاہور میں موجود ہی نہیں تھا لہذا اعوان صاحب نے اس کے ٹی اے طلب کئے جن کے مطابق وہ اس دن سے دس دن پہلے اور پندرہ دن وہ کراچی میں تھا وہاں اس نے محکمے کے لیے خریداری کی تھی جس کے بل شامل تھے مگر مولوی مشتاق نے ان تسلیم کرنے سے انکار کردیا بھٹو شھید نے دوران سماعت کئی درخواستیں دی کے مولوی مشتاق کومیرے خلاف عناد ہے کیونکہ میں نے اس چیف جسٹس نہیں بنایا مگر مولوی نے ساری مسترد کر دیں جس پر قائد نے بائیکاٹ کر دیا اور ڈیفنس پیش کرنے انکار کر دیا یہ کہتے ہوئے ہوئے کے مولوی مشتاق کی موجودگی میں ڈیفنس پیش کرنے کا کوئی فائدا نہیں جب سپریم کورٹ میں اپیل پر کاروائی شروع ہوئی تو 9 جج صاحبان کا فل بنچ تھا جس میں واضح نظر آ رہا تھا کہ پانچ جج صاحبان اپیل کے حق میں ہیں تین اپیل مسترد کرنے اور سزا موت کو بحال کرنے کے حامی ہیں ایک جج جسٹس نسیم حسن شاہ اس بات تو متفق تھآ کیس بیبنیاد ہے مگر کیا وہ چیف جسٹس انوار الحق ۔مولوی مشتاق اور جرنیل ضیاء کے خلاف جا سکتا ہے ضیاء نے یہاں پر لاہور والا فارمولہ آزمانے کی پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس صفدر شاہ صاحب کو لایا کیوں کہ اس کے بھی بٹھو صاحب کے ساتھ مگر یہاں پر یہ بیک فائر کر گیا جناب صفدر شاہ صاحب بہت ہی کھلے طور سے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو غلط قرار دے رہے تھے مگر دوران جسٹس قیصر کی ریٹائرمنٹ کی یحیٰی بختار نے چیف جسٹس انوار الحق کو بہت دلایل کے اہم مقدمے میں جس ملک کے سابق وزیراعظم اور اسلامی سربراہ کانفرنس کے چیئرمین کی زندگی کا سوال ہے بنچ سے ایک جسٹس کوکس نے نصف سے زیادہ کاروائی سن لی ہے کو بنچ سے الگ نہ کیا جائے مگر انوار الحق نے مولوی مشتاق کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یہ درخواست مسترد کر اسی دوران جسٹس نسیم حسن شاہ پر دباؤ ڈالا گیا جس کا اقرار نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں کیا اور اپنی کتاب میں بھی ذکر کیا اس طرح سے انوار الحق نے چار چار ججوں کی تقسیم کو قائم رکھا بد قسمتی یہ ہوئی کے فیصلے کے بہت قریب جسٹس وجیہہ الدین کی طبیعت خراب ہوئی تو محترم جسٹس نے سماعت دو دن کے لیے ملتوی کردی جائے مگر اس ملک میں عام آدمی کی اپیل سال ہا سال کے لئے زیر التوا رہتی ہے اسلامی سربراہ کانفرنس کے چیئرمین کے دو التوا کا جسٹس کے پر نہیں دیا گیا حالانکہ اگرجج صاحبان کی چار چار بھی تو قانون کے مطابق ہائی کورٹ کا فیصلہ بحال رہتا پھر بھی التوا نہیں کیا گیا شائد نسیمِ حسین شاہ کا ڈر تھا بلکہ التوا کی بجائے جسٹس وجیہہ الدین کو زبردستی ہسپتال میں داخل کردیا گیا اس طرح تین کے مقابلے میں چار ججوں کی اکثریت سے سزائے موت کو بحال رکھا اس علاوہ۔جیل میں جیل منول کی خلاف ورزی کر کے پھانسی دی گئی قانون کے مطابق قتل ہے اس لیے کوئی عدالت میں اس فیصلے کو دلائل میں نذیر کے طور پر قبول نہیں کرتی کریمنل کیسز کی تاریخ میں بھی شخص کو Abatement میں سزائے موت نہیں ہوئی ہے اس کا ایک بہت ہی دردناک پہلو یہ ہے کہ جب محترمہ بینظیر بھٹو اقتدار دیا گیا حالانکہ وہ الیکشن جیت کر آئی تھی مگر غلام اسحاق خان اور جرنیل اسلم بیگ نے مشروط اقتدار دیا جس میں کافی ساری وزارتیں اپنے رکھنے کے علاؤہ ایک شرط یہ بھی تھی کہ وہ بٹھو شہید مقدمے کا ریٹائر یل نہیں کرائیں گی زرداری صاحب نے کوشش کی سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی مگر وکیل ایسے شخص کو کیا جس بھٹو صاحب کی شہادت پر مٹھائی تقسیم کی اور بنگھڑا ڈالا وہ بابر اعوان بٹھو شہید نے جب ایٹمی پروگرام شروع کیا تو امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے کہا کہ چھوڑ ورنہ تم کو نشان عبرت بنایا جائے گا ضیاء کا مارشل لاء یہ جھوٹا مقدمہ محترمہ بینظیر کا قتل مرتضیٰ بھٹو کا قتل شاہنواز بھٹو کو زیر دے کر قتل کرنا سب نشان عبرت بنانے کا حصہ ہے۔۔۔۔۔
Sardar Saleem

Address

08-Rehmaniah
Mian Channun
58000

Telephone

+923006892578

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Qalam Kaman TV posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Qalam Kaman TV:

Videos

Share