16/11/2023
میری بیگم برانڈڈ بریلوی ہے یعنی شُدھ بریلوی۔ میرے بچوں کو قرآن پڑھانے والے قاری صاحب برانڈڈ دیوبندی ہیں۔ میرے بہترین دوست برانڈڈ اہلحدیث ہیں۔ ان کے بیچ میرا خاندان تو برانڈڈ فقہ جعفریہ سے ہے مگر میں اَن برانڈڈ مسلم ہوں۔ خاندان کے لوگ مجھے “وہابی شیعہ” کہتے ہیں وجہ بس یہ کہ میں کئیں معاملات میں ان سے اختلاف رکھتا ہوں۔ میری بیگم مجھے کبھی کبھی غصے میں “غیر مقلد” کہہ دیتی ہے اور میرے غیر مقلد اہلحدیث دوست مجھے “لبرل” کہہ دیتے ہیں وجہ بس یہ کہ وہ مجھے “کھٹمل” ثابت نہیں کر پاتے تو جھنجھنا کر مجھے ایسا کہہ دیتے ہیں۔ حالانکہ میں نے ان کو کئی بار سمجھایا کہ بھائیو “لبرل” کا مطلب ہوتا ہے کہ مجھے کسی کے مذہب، مسلک و عقیدے سے کوئی مسئلہ نہیں اور کسی کو میرے سے نہیں ہونا چاہئے۔ مگر یہاں کون سمجھتا ہے۔ مذہبی لوگوں کے ہاں “لبرل” کا مطلب “ لا دین” لے لیا جاتا ہے۔
سال قبل ایک دن یوں ہُوا کہ گھر کی بیل بجی۔ اتوار کا دن تھا یا شاید کسی چھُٹی کا بہرحال میں گھر تھا۔ باہر نکل کر دیکھا تو ایک پینتالیس پچاس سالہ شخص سائیکل سٹینڈ پر لگائے کھڑا تھا۔ اس نے مجھ سے سلام لینے کے بعد کہا کہ وہ ایک قاری ہے اور بچوں کو قرآن پڑھاتا ہے۔ کسی سبب آجکل مالی حالات اچھے نہیں چل رہے تو وہ گھر گھر جا کر معلوم کر رہا ہے شاید کسی نے بچوں کو گھر میں قرآن پڑھانا ہو۔
بندہ بھلا مانس تھا اور بچوں کو جو قاری صاحب پہلے قرآن پڑھانے آتے تھے وہ بیشمار چھٹیاں کرتے تھے۔ وہ مرضی کے مالک تھے۔ دل کیا تو آ گئے نہیں تو ہفتہ ہفتہ غائب۔ البتہ ماہانہ تنخواہ مکمل وصولتے تھے اور جب ان سے کہتا کہ قاری صاحب چلیں مانا کہ انسان کو کام ہوتے ہیں مگر اتنے کام ؟ کم از کم ہفتے میں چار دن تو آ جایا کریں۔ ہر بار وہ ایسے بچگانہ بہانے بنانے لگتے کہ مجھے ہنسی آ جاتی۔ میں نے سوچا کہ یہ بندہ جو دروازے پر کھڑا ہے یہ اس سے زیادہ ضرورتمند اور بہتر لگ رہا ہے۔ میں نے ان سے حامی بھر لی کہ کل سے آ جایا کریں۔ معاوضہ انہوں نے فی بچہ ڈھائی ہزار بتایا۔
جب وہ جانے لگا تو میں نے انہیں روکا اور کہا” قاری صاحب، ایک بات کا دھیان رکھئیے گا کہ آپ نے بچوں کو قرآن پڑھانا ہے اپنا مسلک یا عقیدہ نہیں۔ آپ کو قرآن واسطے رکھا ہے۔”۔ انہوں نے ہنس کے جواب دیا “ آپ بے فکر رہیں میرا یہ کام نہیں۔ میں قرآن ہی پڑھاتا ہوں بس۔”
اور سچ میں اس بندے نے ایسا ہی کیا۔بیگم نے شروع شروع میں مجھے سمجھانا چاہا کہ قاری کم از کم بریلوی تو ڈھونڈیں۔ یہ نجانے کیا پڑھائے گا ان کی عادت ہوتی ہے بچوں کو بہانے بہانے تبلیغ کرنے لگنا۔ مگر اس کے “خدشات” کچھ روز میں ہی دور ہو گئے اور وہ مطمئن ہو گئی۔ قاری صاحب کا نام عبدالکریم ہے۔ باقاعدگی سے آتے ہیں۔ بہت اچھی قرآت ہے۔ انتہائی بہترین پڑھاتے ہیں۔ دونوں بچوں سے گپ شپ بھی لگاتے ہیں مگر غیر مذہبی، سکول وغیرہ کے بارے یا پھر برائے امتحان انبیاء کے بارے پوچھتے ہیں۔ میں نے بھی ان کا عیدین وغیرہ پر ہر طرح سے خیال رکھا کیونکہ بندہ ہے ہی اچھا۔
ایک دن میں گھر میں داخل ہو رہا تھا اور وہ نکل رہے تھے۔ گیراج میں ملے اور بولے “ شاہ جی، بچوں کا تیسواں پارہ ہے۔ قرآن مجید اس ماہ کے آخر تک تمام ہو جائے گا۔اس کے بعد دوبارہ شروع کرنا ہے یا کیا کرنا ہے ؟۔”۔ مجھے سمجھ آ گئی کہ یہ اس واسطے پریشان ہے کہ کہیں اس کی چھٹی تو نہیں ہونے والی۔ بچے پہلے بھی دو بار ختم کر چکے یہ تیسری بار تھا۔ میں نے ہنس کے کہہ دیا “ اس کے بعد آپ ترجمے کے ساتھ پڑھانا شروع ہو جاؤ اور کیا۔”۔ بولا “ اچھا۔ کونسا ترجمہ ؟”۔
ہاں، یہ سوال پیچیدہ تھا کہ کونسا ترجمہ، کس کا ترجمہ۔ علامہ حلی والا، اعلیٰ حضرت والا، ڈاکٹر اسرار والا کہ فلاں والا یا ڈھینگ والا۔ میں نے کہا” عبدالکریم صاحب، جو آپ کو بہتر لگے پڑھا دیں۔ میں نے تو ترجمہ کیا نہیں نہ آپ نے کیا ہو گا ۔ کیا کریں پھر۔”۔ قاری اتنا سادہ بندہ ہے پہلے ہنسا پھر بولا “ آپ خود اپنا کوئی لا دیں میں وہی پڑھا دیتا ہوں۔”۔ میں نے پھر کہا “ اپنا لکھا ہوتا تو ضرور دے دیتا۔ آپ کو کہا ناں کہ جو آپ باقی بچوں کو پڑھاتے ہیں وہ پڑھا دیں۔”
مجھے بالکل نہیں معلوم کہ وہ کیا پڑھانے لگا اور کس کا پڑھانے لگا۔ نہ مجھے اس بابت جاننے میں کوئی تجسس رہا ہے۔ البتہ بیگم کا کہنا ہے کہ ٹھیک ہے تو ٹھیک ہو گا۔ بچے جب بڑے ہو جائیں گے خود ہی اپنی راہ اختیار کر لیں گے اگر انہوں نے کسی برآنڈ کا حصہ بننا ہی ہے تو ان کی مرضی جس برآنڈ سے بھی مطمئن ہوں۔ میں تو اتنا جانتا ہوں کہ ان کو انسانیت اور دین کا بنیادی و ضروری پیغام سکھانا مجھ پر فرض ہے۔
میں نے ان کو جو عقیدہ تاحال پڑھایا اور سکھایا ہے وہ تو کچھ یوں ہے۔ ہو سکتا ہے آپ میں سے کئیوں کی نظر میں کچھ غلط ہو مگر میں تو اپنے رب کو اپنے عقیدے کا جوابدہ ہوں ناں سو یہی ہے جو ہے۔
"سب سے پہلے حمد اس رب کی جس کی قدرتوں کا کچھ شمار نہیں۔ جس نے لاکھوں کروڑوں کہکشائیں و دنیائیں بنائیں اور دس لاکھ مربع میل قطر کا سورج بنا کر اسے اس کائنات میں نقطے کی حیثیت بخشی۔
پھر درود اس نبی پر جس نے بادشاہوں کو فقیری اور فقیروں کو بادشاہت دے کر ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا۔ اس نے عقلوں سے پتھر ہٹا کر اپنے پیٹ پر باندھ لیئے۔
پھر سلام روشنی کے ان میناروں پر جنہوں نے باطل کا ساتھ نہ دیا اور حق کی خاطر اپنی گردنیں کٹوا کر نیزوں پر بلند کروا لیں۔
پھر رحمت ان عظیم لوگوں پر جنہوں نے فضا میں اوزون ، مٹی میں تیل اور ایٹم میں الیکٹرون پروٹون دریافت کیئے۔
اور آخر میں شاباش ان بہادروں کو جنہوں نے ہزار رکاوٹوں کے باوجود ہر حال میں زندگی کا سفر جاری رکھا"
ہو سکتا ہے یہ آپ کو سمجھ نہ آیا ہو۔ مزید وضاحت ضروری ہو تو کئے دیتا ہوں۔
"میری وہی کتاب ہے جو لوح محفوظ سے صادق و امین قلب پر نازل ہوئی۔ جس کا لانے والا امین فرشتہ ہے۔ جس کو بھیجنے والا خالق مطلق ہے۔ جس کو سنانے والا رحمت للعالمین ہے۔
میرا وہی پیغمبر ہے جس نے دشمنیاں ختم کروا کے عرب و عجم کو ایک کر ڈالا۔ جس نے تلوار دفاع میں اٹھائی۔ جو فتح مکہ کے بعد فاتح کی حیثیت سے شہر میں داخل نہیں ہوا بلکہ سفید جھنڈا تھامے داخل ہوا۔ جس نے بدترین دشمن کو فی النار نہیں کیا بلکہ کھلی امان کا اعلان کیا۔
میرا وہی دین ہے جس نے فساد پھیلانے والوں پر کھُلی لعنت بھیجی۔ جو ظالموں کو عذاب کی وعید سناتا ہے۔ جس نے مظلوم کی آواز بلند کی۔"
باقی یوں ہے کہ آپ کالی، ہری، براؤن، سفید یا جس رنگ کی پگڑی پہنیں، جیسا مرضی برآنڈ فالو کریں، جو مرضی چاہیں مجھے اس سے کوئی غرض نہیں۔ مجھے تب فرق پڑے گا جب کوئی بزور بازو یا ڈانگ کے زور پر اپنا مسلکی عقیدہ اُلٹی کرنے لگے۔یا جو مسلط ہونے پر تُلا ہو۔ یا جس نے “میرے سوا سب گمراہ ہیں” کا قاعدہ پڑھ رکھا ہو۔ یا جس کا منشور ہو “ مجھے اپنے سوا ساری دنیا کی اصلاح کرنی ہے”۔ یا جو متشدد ذہنیت کو جنت کا پروانہ سمجھتا ہو۔یا جو آن لائن فتویٰ بانٹتا ہو۔ یا جو کسی کو کسی بھی سبب “خارجی”، “رافضی”، “ناصبی” ،” مشرک” ، “ایجنٹ” وغیرہ وغیرہ کہتا ہو۔ یا جو لوگوں کے عقائد تولتا ہو۔