16/12/2022
https://www.jasarat.com/sunday/2021/03/14/282243/
میں ڈائجسٹوں کی جانب بہ امر مجبوری گیا کہ وہاں سے معقول معاوضہ ملتا ہے۔ برعکس اس کے ادبی رسائل میں معاوضے کا تصور ہی محال ہے۔ حالانکہ میں اپنا شمار ان ادیبوں میں کرتا ہوں جنہوں نے ہمیشہ اپنی تحریر کا معاوضہ وصول کیا ہے‘ خواہ وہ ’’نقوش‘‘ اور ’’سویرا‘‘ جیسے دقیع ادبی رسائل ہی کیوں نہ ہوں۔ معاوضہ وصول کرنے کی اپنی ایک منطق ہے۔ وہ جو کسی نے کہا ہے کہ محنت باپ ہے اور یہ زمین ماں ہے۔ ان دونوں کے امتزاج و اتحاد سے تخلیق اور ارتقا کا عمل جاری ہے۔ تو جب محنت اللہ کی جانب سے انسان کو بخشی ہوئی سب سے بڑی نعمت ہے تو پھر اس کا معاوضہ بھی ہونا چاہیے۔ مزدور‘ کاری گر‘ بڑھئی‘ کلرک‘ افسر غرض کہ ہر ایک کو اس کی محنت کا معاوضہ ملتا ہے۔ صرف ایک بے چارہ ادیب ہی اس سے محروم ہے۔ میں نے ادب سے برگشتہ ہو کر صحافت کا دامن تھاما تھا اس لیے کہ ادب سے پیٹ کی بھوک نہیں مٹتی۔ ادب پیشہ نہیں ہے۔ فیض جیسے شاعر کو بھی ملازمت کرنی پڑتی ہے۔
شوکت صدیقی کا انٹرویو - ڈاکٹر طاہر مسعود - March 14, 2021 641 فيس بک پر شیئر کیجئیے ٹویٹر پر ٹویٹ کريں tweet ۔’’میں ڈائجسٹوں کی جانب بہ امر مجبوری گیا کہ وہاں سے معقول معاوضہ ملت...