01/11/2022
30 اکتوبر 2006
خیبر پختونخواہ میں متحدہ مجلس عمل برسراقتدار تھی
اکرم خان درانی کی حکومت ہے
مدرسہ ضیاء العلوم تعلیم القرآن پہ حملہ
86 بچے شہید
لیکن استعفی صرف جماعت اسلامی ہارون الرشید نے دیا تھا۔
نام نہاد قائد ملت اسلامیہ تب کہاں تھا۔
تب بنگلہ نمبر 22 میں مکین شخص نے کوئی لانگ مارچ یا دھرنا کیوں نہ دیا تھا ۔
سارا مسئلہ اقتدار کا ہے
سوال اسلام نہیں اسلام آباد کا ہے
یہ 30 اکتوبر 2006 سوموار کا دن تھا۔
ڈمہ ڈولہ باجوڑ میں سورج قہر و غضب کا پروانہ لے کر طلوع ہوا تھا۔ مدرسہِ ضیاء العلوم تعلیم القرآن جو اشاعتِ توحید و سنت کے زیرِاہتمام تھا ، میں طلباء معمول کے مطابق قرآن کی تلاوت میں مصروف تھے ۔ کہیں سورہِ کہف کی تلاوت ہورہی تھی تو کہیں سورہِ رحمٰن ۔ سب اپنا اپنا سبق یاد کرنے میں مصروف تھے ۔ کچھ نئے طلباء بھی داخلے کی غرض سے آئے تھے ۔ طلباء کی عمریں 10 سال سے لے کر پچیس سال تک تھیں ۔ قرآن و اہلِ قرآن کا دشمن جو پرویز مشرف سے ہاتھ ملاچکا تھا ، اور دوسری طرف پرویز مشرف ڈالروں کی خاطر اپنے وطن کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا تہیہ کرچکا تھا ۔ دینی مدارس پر ظلم ڈھانے کی منصوبہ بندی کی جاچکی تھی ۔
ابھی تلاوتیں جاری تھیں کہ اچانک طیاروں نے بمباری شروع کردی اور قرآن کی تلاوت میں مصروف طلباء اپنے اللہ سےملاقات کے لیے چلے گئے ۔ 86 کمسن طلباء کو بے دردی سے شہید کردیا گیا ۔ کچھ شدید زخمی بھی ہوئے ۔ عمارت زمین بوس ہوگئی ، اور قرآنِ پاک کے سینکڑوں نسخے ڈکٹیٹر کے عتاب کا شکار ہوگئے ۔ ظلم کا بدترین باب قائم کردیا گیا ۔ اور ریاست نے اپنی ”رٹ ” قائم کرلی۔, قائد ملت اسلامیہ کے ماتھے پہ شکن تک نہ آئی تھی۔
تحریر عدیل الرحمان بھائی کی