Analysis & Media

Analysis & Media مقبوضہ جموں و کشمیر میں حریت قیادت کی گرفتاریوں کا پس م?

04/08/2022

China begins military exercises in the Taiwan Strait, state media reports, in a deliberate show of force after US House Speaker Nancy Pelosi's visit

04/08/2022

تائیوان پر امریکہ چین تنازعہ
امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی تائیوان کے دورے پر ہیں جس کو لے کر امریکہ اور چین کے درمیان سخت اور پالیسی بیانات کو سلسلہ جاری ہے جس کے مندرجہ ذیل نکات ہیں ۔
تائیوان :
 صدر سائے انگ وین نے کہا کہ تائیوان اپنی دفاعی صلاحیت میں اضافہ کر رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’تائیوان خطے میں جمہوریت کے لیے دفاعی لائن کا کردار ادا کرے گا۔
 تائیوان کی صدر نے کہا کہ ’روس کے یوکرین پر حملے کی وجہ سے تائیوان کے گرد سکیورٹی کا معاملہ دنیا کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔
 تائیوان کے خلاف کسی قسم کی جارحیت کا پورے انڈو پیسیفک پر بے پناہ اثر پڑے گا۔
 تائیوان پیچھے نہیں ہٹے گا۔ ہم اپنی قومی خودمختاری کی حفاظت کریں گے اور عالمی سکیورٹی کے لیے کردار ادا کرتے رہیں گے۔
امریکہ :
 چین کی مخالفت کے باوجود امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی تائیوان پہنچی اور انھوں نے تائیوان کی پارلیمینٹ سے خطاب کیا۔
 تائیوان کے پارلیمان میں اپنے خطاب میں نینسی پلوسی نے کہا کہ تائیوان `دنیا کے سب سے آزاد معاشروں میں سے ایک ہے۔ ا
 وہ امریکہ اور تائیوان کے درمیان پارلیمانی تبادلے کو بڑھانا چاہتی ہیں۔
 نینسی پلوسی نے ٹیکنالوجی کے شعبے میں تعاون پر بھی بات کی۔
 وائٹ ہاؤس میں بریفنگ میں جان کربی نے چینی فوج کے ردعمل پر کہا ہے کہ امریکہ چین کی جارحیت پر ردعمل ظاہر نہیں کرے گا۔ان کا کہنا تھا کہ امریکہ فوجی طاقت کا مظاہرہ نہیں کرے گا۔
 جان کربی نے کہا کہ نینسی پلوسی کا دورہ تائیوان ون چائنا پالیسی کے ساتھ مطابقت رکھتا تھا۔ ون چائنا پالیسی کا مطلب ہے کہ امریکہ چین کی اس پوزیشن کہ چینی حکومت ایک ہی ہے کو تسلیم کرتا ہے۔
 جان کربی نے کہا کہ امریکہ اب بھی آزاد تائیوان کی حمایت نہیں کرتا۔
 جان کربی سے پوچھا گیا کہ کیا نینسی کو تائیوان کے دورے کے لیے امریکی صدر کی حمایت حاصل ہے تو ان کا جواب تھا صدر ان کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں۔
 نینسی پلوسی کے تائیوان جانے کے فیصلے کو امریکی ایوان صدر وائٹ ہاؤس کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ یہ کئی دہائیوں بعد اس طرح کے اعلیٰ امریکی عہدیدار کا تائیوان کا پہلا دورہ ہے۔
 صدر جو بائیڈن نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ امریکی فوج کا خیال ہے کہ پلوسی کا تائیوان کا دورہ 'ابھی اچھا خیال نہیں ہے۔
 امریکہ چین کی دھمکیوں یا جنگی بیانات سے ڈرنے والا نہیں، پلوسی کا دورۂ تائیوان کسی بحران یا تنازع کو جنم دینے کے لیے نہیں ہےاور ہم تائیوان کی مدد جاری رکھنے سمیت آزاد انڈو پیسفک کا دفاع کریں گے اور بیجنگ کے ساتھ بھی بات چیت کا عمل جاری رکھیں گے۔
 چین امریکی شخصیات کے دورۂ تائیوان کو آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی حمایت کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ تاہم تائیوان کا اصرار ہے کہ تائیوان کے عوام ہی اپنے ملک کے مستقبل کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔

چین :
 نینسی پلوسی منگل کو رات گئے تائیوان پہنچیں۔ جس کے بعد تائیوان کی جانب سے کہا گیا کہ چین کے طیارے اس کے فضائی دفاعی شناختی زون میں داخل ہوئے ہیں۔
 چین نے نینسی پلوسی کے دورے کے باعث بطور احتجاج بیجنگ میں موجود امریکی سفیر کو طلب کیا ہے۔
 چین کے نائب وزیر خارجہ زی فینگ نے کہا کہ `پیلوسی کے دورے کی نوعیت `شیطانی ہے ۔
 منگل کی رات تائیوان کی وزرات برائے قومی دفاع کی جانب سے بتایا گیا کہ 21 چینی ائیر کرافٹ تائیوان کی فضائی دفاعی شناختی زون میں داخل ہوئے ہیں۔ ان طیاروں میں 10 شین یانگ، جے 16 شامل ہیں جو کہ چین کے جدید فائٹر طیارے ہیں۔
 روس نے بھی چین کی حمایت کی ہے اور نینسی پلوسی کے دورے کو واضح اشتعال انگیزی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ چین کو اپنی خودمختاری کے تحفظ میں کارروائی کرنے کا حق ہے۔
 نینسی پلوسی دورے کی مخالفت کرنے والے چین نواز گروپ کی طرف سے ہوٹل کے باہر احتجاج کیا گیا۔ کچھ مظاہرین نے بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا 'گھر جاؤ جنگ کے جنونی۔
 چین کی وزارت خارجہ نے نینسی پیلوسی کے تائیوان کے دورے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے `ایک چائنہ اصول کی سنگین خلاف ورزی` قرار دیا ہے جس کا چین امریکہ تعلقات کی سیاسی بنیاد پر `شدید اثر` پڑے گا۔
 وزارت نے کہا کہ پلوسی کا دورہ `چین کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
 چین نے کہا، `اس سے آبنائے تائیوان کے امن و استحکام کو بری طرح نقصان پہنچتا ہے، اور علیحدگی پسند قوتوں کو 'تائیوان کی آزادی' کے لیے سنگین طور پر غلط پیغام بھیجتا ہے۔
 چین نے امریکہ پر سختی سے زور دیا کہ وہ `تائیوان کارڈ` کھیلنا اور چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت بند کرے، اور `غلط اور خطرناک راستے پر مزید آگے نہ بڑھے۔
 چین کی افواج لائیو فائر مشقیں بھی کر رہی ہیں اور چینی فوج کی مشرقی کمانڈ نے ایک ویڈیو آن لائن پوسٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ 'کسی بھی صورت حال کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔
 امریکہ کے چین کے ساتھ باضابطہ سفارتی تعلقات ہیں نہ کہ تائیوان کے ساتھ لیکن امریکہ کے تائیوان کے ساتھ 'مضبوط، غیر سرکاری تعلقات' رکھتا ہے۔
چین نے عارضی طور پر تائیوان سے چین درآمد کی جانے والی متعدد اشیاء اور کمپنیوں پر پابندی عائد کردی ہیں ۔ بلیک لسٹ کی گئی کمپنیوں میں چائے کی پتی، خشک میوہ جات، شہد، کوکو پھلیاں اور سبزیاں پیدا کرنے والی کمپنیاں شامل ہیں، تقریباً 700 ماہی گیری کے جہازوں کو روک دیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ بدھ سے تائیوان کے علاقے سے لیموں کے پھل، سفید بالوں اور منجمد ہارس میکریل کی درآمدات بھی معطل کر دی ہیں۔

1. چین کی وزارت دفاع نے یہ بھی کہا کہ فوج کو ہائی الرٹ پر رکھا گیا ہے اور وہ اس دورے کے جواب میں ''ٹارگیٹڈ ملٹری آپریشن'' شروع کرے گی۔
2. تائیوان کی وزارت دفاع نے بھی کہا کہ جزیرے کا محاصرہ کرنے والی چین کی فوجی مشقوں سے اس کی اہم بندرگاہوں اور شہری علاقوں کو خطرہ لاحق ہے۔
3. امریکہ اور انڈونیشیا کی فوجوں نے بھی بدھ کے روز انڈونیشیا کے سماترا جزیرے پر اپنی سالانہ مشترکہ جنگی مشقوں کا آغاز کیا ہے۔ ان مشقوں میں پہلی بار دیگر اتحادی ممالک بھی شامل ہیں
4. امریکہ، انڈونیشیا، آسٹریلیا، جاپان اور سنگاپور کے 5,000 سے زائد فوجی حصہ لے رہے ہیں، جو کہ 2009 میں ہونے والی مشقوں کے بعد سب سے بڑی عسکری مشقیں ہیں۔
5. بین الاقوامی امور کے جریدے ’دی ڈپلومیٹ‘ کے مطابق اگر چین تائیوان کا کنٹرول حاصل کر لیتا ہے تو مشرق کی جانب اس کے میزائل کی مار 150 نوٹیکل میل بڑھ جائے گی۔اس صورت میں چین مشرقی بحیرۂ چین میں امریکہ کے اتحادی جاپان اور امریکہ کے جزیرے گوام کو نشانہ بنانے کے قابل ہو جائے گا۔
6. جریدے ’دی اٹلانٹک‘ کے مطابق گزشتہ چند دہائیوں کے دوران مشرقی بحیرۂ چین میں اپنی عسکری قوت بڑھائی ہے اور اس وقت اس علاقے میں طاقت کا توازن چین کے حق میں ہے۔
7. مبصرین کا کہنا ہے کہ تائیوان ایشیا کے قلب میں چین کی حریف ایسی جمہوریت ہے جس کے واشنگٹن سے مضبوط روابط ہیں۔ چین کی زیادہ تر تجارت مشرقی و جنوبی بحیرہ چین سے ہوتی ہے جہاں تائیوان کے علاوہ جاپان اور فلپائن امریکہ کے اسٹریٹجک اتحادی ہیں۔
8. کونسل آن فارن افیئر کے مطابق اس وجہ سے امریکہ تائیوان کی آزادی یا چین سے علیحدگی کا حامی نہ ہونے کے باوجود اسے چین کی جانب سے کسی ممکنہ خطرے سے محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔
9. کونسل آن فارن افیئرز کے مطابق بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ جدید ترین آلات میں استعمال ہونے والی سیمی کنڈکٹر چپ کی پیداوار کے اعتبار سے تائیوان پہلے نمبر پر ہے۔یہ چپ اسمارٹ فونز، کمپیوٹر، گاڑیوں اور ایسے دفاعی آلات میں بھی استعمال ہوتی ہے جو آرٹیفیشل انٹیلی جنس پر منحصر ہیں۔ دنیا بھر میں استعمال ہونے والی ایسی چپس کا 60 فی صد تائیوان میں تیار کی جاتی ہیں۔ امریکہ جدید آلات میں استعمال ہونے والی چپس کے لیے تائیوان پر انحصار کرتا ہے اس لیے چین کے کسی بھی ممکنہ حملے سے دفاع میں اس کی مدد کرے گا۔
10. بعض ماہرین کے نزدیک امریکہ نے سرد جنگ کے دوران خطے میں تین دہائی قبل سوویت یونین اور کمیونزم کو شکست دی تھی۔ اس لیے وہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کے عزائم کے خلاف چین کے مقابلے میں تائیوان میں ایک مستحکم ہونے والی جمہوریت کی مدد کر رہا ہے۔
کیا چین تائیوان پر حملہ کرسکتا ہے ؟
امریکہ کے محکمۂ دفاع نے 2021کی ایک رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا تھا کہ تائیوان کو چین میں شامل کرنے کے لیے چین کی پیپلز لبریشن آرمی منصوبے پر کام کر رہی ہے۔گزشتہ برس مارچ میں انڈو پیسیفک میں امریکہ کے عسکری کمانڈرز نے خبردار کیا تھا کہ چین آئندہ دہائی میں تائیوان پر حملہ کر سکتا ہے۔
ماہرین کے نزدیک تائیوان پر چین کی کسی فوری کارروائی کے امکانات کم ہیں کیوں کہ چین ایسا کرتا ہے تو اسے نہ صرف اس اقدام کی مالی بلکہ سفارتی قیمت بھی ادا کرنا پڑے گی۔چین کے حملے کی صورت میں تائیوان کو عالمی سطح پر ہمدردی حاصل ہو گی۔ دوسری جانب چین خود کو ایک ذمے دار قوت کے طور پر سامنے لا رہا ہے، ایسے کسی اقدام سے اس کی ان کوششوں کو بھی شدید دھچکا لگے گا۔
متعدد مرتبہ رائے شماری کے نتائج سے یہ بھی سامنے آیا ہے کہ تائیوان میں آزادی کا اعلان کرنے کی رائے کو اکثریت کی حمایت حاصل نہیں ہے۔عسکری قوت کے اعتبار سے چین کو تائیوان پر واضح برتری حاصل ہے جب کہ امریکہ نے چین کی جارحیت کی صورت میں تائیوان کو کوئی واضح یقین دہانی نہیں کرائی ہے اس لیے تائیوان کی جانب سے کوئی براہِ راست اقدام خارج از امکان ہے۔ان حالات کو دیکھتے ہوئے مبصرین کا خیال ہے کہ تائیوان میں صورت حال جوں کی توں رہے گی اور یہ مستقبل قریب میں بھی نہ صرف چین بلکہ بین الاقوامی تعلقات میں ’ریڈ لائن‘ بنا رہے گا۔

تائیوان تنازعہ ، امریکہ اور چین  تعارف : رپبلک آف چین (آراو سی )عوامی جمہوریہ  چین  کا جزیرہ جو کہ تائیوان کے نام سے مشہ...
04/08/2022

تائیوان تنازعہ ، امریکہ اور چین

تعارف :
رپبلک آف چین (آراو سی )عوامی جمہوریہ چین کا جزیرہ جو کہ تائیوان کے نام سے مشہور ہے صدیوں سے چین کا حصہ تھا۔ 1895 میں دوسری عالمی جنگ کی عظیم طاقت ایمپائر آف جاپان نے تائیوان سمیت چین کے زیادہ تر حصے پر قبضہ کرلیا ۔جب 1945 میں امریکہ نے جاپان پر ایٹم بم گرا کر اسے شکست دی تو چین عوامی جمہوریہ چین یعنی ریپبلک آف چائنہ کی صورت میں امریکہ کے زیر اثر جمہوری حکومت قائم ہوگئی ۔جب 1949 میں چائینیز کمیونسٹ پارٹی نے ماؤزے تنگ کی قیادت میں چین کے مرکزی علاقے پر قبضہ کرلیا تو عوامی جمہوریہ چین کی جمہوری حکومت چیانگ کائی شیک کی قیادت میں تائیوان تک سمٹ گئی ۔اور تائیوان کو اصل چین اور چائنیز کمیونسٹ پارٹی کی حکومت کو غاصب قرار دینے لگی ۔جبکہ چائنیز کمیونسٹ پارٹی کا مرکزی چین تب سے اسے چین کا حصہ قرار دیتے ہوئے اسے منحرف صوبہ قرار دیتی ہے ۔
چین نے دنیا کو تائیوان سے سفارتی تعلقات قائم کرنے سے روک رکھا ہے ۔کمیونسٹ چینی حکومت اس کے لئے فوج کشی کو بھی حق بجانب قرار سمجھتی ہے ۔ جبکہ امریکہ چین کو اس پر قبضہ کرنے میں بڑی رکاوٹ رہاہے اور اب بھی بڑی رکاوٹ ہے ۔امریکہ 1949 سے 1979 تک تائیوان کی جمہوریہ چین کو چین کی نماندہ حکومت قرار دیتارہا اس کے بعد امریکہ نے تائیوان کے جمہوریہ چین سے اپنے تعلقات اور باہمی دفاعی معاہدہ ختم کرکے عوامی جمہوریہ چین یعنی کمیونسٹ چین کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرلیے ۔تاہم امریکہ کے تائیوان کے ساتھ غیرسرکاری تعلقات قائم ہیں اور تائیوان کو دفاعی سازوسامان فروخت کررہاہے ۔حالانکہ چین امریکہ کو مسلسل منع کررہاہے اور وارننگزدے رہاہے ۔امریکہ اور چین علاقے میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لئے آبنائے تائیوان میں اپنی فوجی طاقت کی نمائش کرتے رہتے ہیں ۔صدر ٹرمپ کے دور میں امریکہ نے تائیوان کو 18ارب ڈالر کے ہتھیار فروخت کیے ۔
امریکہ اور چین اور تنازعہ تائیوان :
موجودہ چین کےقیام سے آج تک تائیوان امریکہ اور چین کے درمیان سلگتی چنگاری کی طرح ہے ۔جو کبھی بھی چین کا امریکہ کے درمیان جنگ کا باعث بن سکتی ہے ۔ جرمن میڈیا کے مطابق امریکہ کے تائیوان کے ساتھ رسمی سفارتی تعلقات تو نہیں ہیں تاہم اس نے تائیوان کے ساتھ قریبی غیر سرکاری تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں۔واشنگٹن چین کی جانب سے سخت تنبیہ کے باوجود تائیوان کو فوجی ساز و سامان کی فروخت بھی جاری رکھے ہوئے۔ امریکہ کے مطابق یہ ہتھیار تائیوان کو اپنے دفاع کی خاطر مہیا کیے جا رہے ہیں۔امریکی بحریہ کے جنگی جہاز بھی باقاعدگی سے آبنائے تائیوان سے گزرتے رہتےہیں تاکہ خطے میں امریکی عسکری طاقت کا اظہار کیا جا سکے۔امریکہ کا کہنا ہے کہ ایسے اقدمات کا مقصد آبنائے تائیوان میں امن و استحکام یقینی بنانا ہے۔صدر جو بائیڈن یہ تک کہہ چکے ہیں کہ اگر چین نے تائیوان پر حملہ کیا تو امریکہ تائیوان کی مدد کو پہچنے گا۔
گزشتہ جمعرات کے روز چینی صدر شی جن پنگ نے تائیوان کے لیے امریکی حمایت کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے امریکی ہم منصب کو فون پر متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا، ’’آگ سے کھیلنے والے آخرکار جل جائیں گے۔‘‘چین بھی اپنی عسکری طاقت کے اظہار کے لیے آبنائے تائیوان میں جنگی بحری جہاز بھیجتا رہتا ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران تائیوان کی فضائی حدود میں بھی تسلسل کے ساتھ نگرانی کرنے والے اور جنگی جہاز بھیجے جانے کے واقعات میں بھی تواتر سے اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
حالیہ تنازعہ اس ہفتے امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی کے ایشیا کے دورے پر آنے کی خبروں سے شروع ہوا جس نے ممکنہ طور پر تائیوان کا دورہ بھی کرنا تھا جو اگرچے غیر واضح تھا۔چین نے اس دورے کو اشتعال انگیز قرار دیا ہے ۔
مئی میں امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ چین تائیوان کے قریب اپنے جنگی طیارے اڑا کر خطرے سے کھیل رہا ہے۔ انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ اگر اس جزیرے پر حملہ ہوا تو وہ اس کی عسکری طور پر بھی حفاظت کریں گے۔
بیجنگ نے امریکہ پر تائیوان سے متعلق اپنے وعدے کی خلاف ورزی اور چین کے معاملات میں مداخلت کرنے کا الزام لگاتے ہوئے جواب دیا، اور کہا کہ ملک تائیوان کو باضابطہ طور پر آزادی کا اعلان کرنے سے روکنے کے لیے چین جنگ سے بھی گریز نہیں کرے گا۔چینی وزیر دفاع جنرل وائی نے اتوار کو اپنے بیان میں کہا تھا اور ان کے بیان کے مطابق وہ صرف اس وقت ردعمل دیں گے اگر انھیں ایسا کرنے پر مجبور کیا گیا یا اکسایا گیا۔

اس حالیہ دورے کے دوران چین نے آبنائے تائیوان میں "لائیو فائر" کے ساتھ فوجی مشقیں شروع کررکھی ہیں ۔اعلان کے مطابق ان مشقوں میں توپوں ۔ میزائلوں ۔ جنگی جہازوں اور دیگر بھاری اسلحے کا استعمال کیاجائے گا۔نینسی پیلوسی نے دوسرے سے پہلے تائیوان کی حمایت کو امریکہ کے لیے اہم قرار دیاتھا۔مگر اب چین کے انتبہ کے بعد تائیوان کے حوالے سے خاموشی ہے ۔امریکہ نے تائیوان کی 1.4 ملین ڈالر کی امداد کا اعلان کیاہے ۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان برائے قومی سلامتی جون کربی نے کہا ہے کہ صدر جو بائیڈن چینی رہنما شی جن پنگ کے ساتھ سربراہ ملاقات میں اس عہد کی تجدید کریں گے کہ امریکہ کی " چین پالیسی"میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔انہوں نے یہ بات، تائیوان سے متعلق امریکی اقدامات پر بیجنگ کی شدید نا پسندیدگی کے اظہار کے بعد کی۔ کربی نے بدھ کے روز واشنگٹن میں دہرایا کہ وہ "آبنائے کے آرپار معاملات اور تناؤ کا یک طرفہ یا بزور طاقت حل دیکھنا نہیں چاہتے"۔امریکی ایوان کی اسپیکر نینسی پلوسی کے بارے میں حالیہ دنوں میں اطلاع آئی تھی کہ وہ تائیوان کے دورے پر غور کر رہی ہیں۔ محترمہ پلوسی صدارتی عہدے کے بعد دوسرے نمبر پر ہیں کیونکہ صدر کے بعد ان سے اوپر صرف نائب صدر ہیں۔
تائیوان ایشیائی ترقیاتی بینک اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن جیسی تنظیموں کا رکن ہے جبکہ اقوام متحد ہ اور اس کی ذیلی تنظیموں کا رکن نہیں ہے ۔
اب تائیوان کو وہاں کی سرکار جمہوریہ چین قرار دیتی ہے اور چین کا سرکاری نام عوامی جمہوریہ چین ہے ۔آج چین میں آرمی ڈے منایا جارہاہے ۔
تنازعہ تائیوان اور تجزیہ کار:
1. بی بی سی کے مطابق تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس وقت ایسا کچھ نہیں ہونے جا رہا۔اس بات پر بحث ہوتی رہی ہے کہ آیا چین کے پاس حملے کے صورت میں کامیاب ہونے کی فوجی صلاحیت موجود ہے،جبکہ تائیوان اپنے فضائی اور سمندری دفاع کو کافی حد تک بڑھا رہا ہے۔لیکن بہت سے ماہرین اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ چین کو اس بات کا ادراک ہے کہ ایسا کوئی بھی قدم نہ صرف اس کے لیے بلکہ باقی دنیا کے لیے بھی بہت تباہ کن اور مہنگا ثابت ہو گا۔
2. انسٹیٹیوٹ آف ساؤتھ ایسٹ ایشین سٹیڈیز کے سنیئر فیلو ولیم چونگ کہتے ہیں کہ "دونوں ممالک کے درمیان بیان بازی تو بہت ہے لیکن اگر چین تائیوان پر حملہ کرنا چاہتا ہے، خاص طور پر ایک ایسے وقت پر جب پہلے ہی دنیا کو یوکرین بحران کا سامنا ہے تو چینیوں کو اس فرق کو بہت اچھی طرح ذہن میں رکھنا ہو گا کہ چین کی معیشت روس کے مقابلے میں عالمی معیشت سے کہیں زیادہ جڑی ہوئی ہے۔"
3. ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹیڈیز کے سنیئر فیلو کولن کوہ کہتے ہیں کہ "دونوں ممالک اپنے اپنے مؤقف پر قائم ہیں انھیں سخت موقف اپنائے ہوئے نظر آنے کی ضرورت ہے، وہ دنیا کے سامنے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا نہیں چاہتے۔"وہ کہتے ہیں کہ "لیکن اسی وقت میں وہ ایک صریح تنازعے میں داخل ہونے کے بارے میں بہت محتاط ہیں۔ وہ کھلی آنکھوں سے ایک دوسرے کی بیان بازی کو دیکھ رہے ہیں اور دونوں فریق خطرے کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘تجزیہ کار کولن کوہ کا کہنا ہے کہ ’شنگریلا ڈائیلاگ کے دوران چینی وزیر دفاع اور امریکی سیکرٹری دفاع کی ملاقات ایک مثبت پیشرفت ہے اور اس کا مطلب ہے کہ دونوں ممالک یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ اب بھی ایک ساتھ بیٹھ کر مذاکرات کرنے اور کسی متفقہ فیصلے پر پہنچے کے لیے تیار ہیں۔

4. چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز نے نینسی پلوسی کے تائیوان کے مجوزہ دورے پر اپنی ایک خبر میں کہا ہے کہ گذشتہ چند دنوں میں چین نے اس بارے میں چھ مرتبہ خبردار کیا ہے۔ چین کی وزارتِ خارجہ نے گذشتہ پیر کو اس ضمن میں اپنے انتباہ میں چینی زبان کی اصطلاح"ژن جن یدآئی" استعمال کی۔ اس کا لفظی ترجمہ ہے: "دشمن کے انتظار میں فوج کو صفوں میں کھڑا کرنا۔"
5. چین کی وزارت دفاع نے کہا کہ پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) نینسی پلوسی کے دورۂ تائیوان پر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھی رہے گی۔گلوبل ٹائمز کے ایک تجزیہ کار ہوژئی جن کا کہنا ہے کہ چین کی وزارتِ خارجہ اور دفاع کی طرف سے استعمال کی جانے والی زبان امریکی سپیکر کے دورہ تائیوان کو روکنے کے بارے میں چین کے عزم کی مظہر ہے۔ہوژئی جن نے تاریخ سے مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ چین نے ماضی میں یہ اصطلاحات دو مرتبہ استعمال کی ہیں۔
6. "چین کے سابق صدر ژون لائی نے سنہ پچاس کی دہائی میں کوریا میں امریکی جارحیت اور امداد کو روکنے کے لیے امریکہ کو خبر دار کیا تھا کہ اگر امریکہ نے 38 متوازی لائن عبور کی تو چین ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھے گا۔"
7. 1964 میں چین کی حکومت نے خلیج ٹونکن کے واقعے کے بعد امریکی حکومت کو خبردار کیا تھا کہ وہ ڈیموکریٹک ریپبلک آف ویتنام کی طرف پیش قدمی نہ کرے۔یہ اصطلاح"ژن جن یدآئی"جس کا وزارتِ خارجہ نے استعمال کیا اس کا مطلب ہے ہر قسم کی صورت حال کے لیے چوکس رہنا۔ چوکس رہنے کے معنی صرف یہ نہیں ہیں کہ فوج کی لام بندی کی جائے بلکہ فوجی رسد کے تمام وسائل تیار رکھنے کے علاوہ ممکنہ جنگ کے لیے فوجیوں کی صف بندی کرنا اور اسلحہ و بارود اگلے مورچوں تک پہنچا دینا ہے۔
8. برطانوی جریدے فنانشل ٹائمز نے کہا ہے کہ نینسی پلوسی کا تائیوان دورہ روکنے کے لیے چین نے دھمکیوں کے ساتھ ساتھ تائیوان کے قریب بحری اور فضائی جنگی مشقیں تیز کر دیں ہیں۔
9. برطانوی جریدے کے مطابق چین کا ردعمل اور دھمکیاں اتنی شدید ہیں کہ جن کی وجہ سے خطے میں ایک سنگین بحران پیدا ہونے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
10. شنگھائی میں فوڈن یونیورسٹی کے امریکی علوم کے مرکز کے ڈائریکٹر وہ زنباؤ نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر نینسی پلوسی تائیوان جاتی ہیں تو آبنائے تائیوان میں ایک بڑا بحران آئے گا جو ماضی میں 1995 اور 1996 کے بحران سے زیادہ سنگین ہو گا۔‘ان کے مطابق اس کی بڑی وجہ چین کی فوجی صلاحیتیں ہیں جو 26 سال پہلے سے کہیں زیادہ ہیں۔
11. چینی امور کے ماہر اور سابق امریکی اہلکار رچرڈ بش کا کہنا ہے کہ باوجود تمام باتوں کے چین، امریکہ سے مسلح تصادم سے گریز کرے گا۔انھوں نے مزید کہا کہ صدر شی کے چینی فوج کو کارروائی کرنے کے ممکنہ حکم کو سنجیدگی سے لینا ہوگا لیکن چین کے کسی محدود جنگ میں بھی الجھنے کے امکانات بہت کم ہیں اور اس کی ٹھوس وجوہات ہیں۔2005 میں آبنائے تائیوان کے بحران کے وقت رچرڈ بش امریکہ میں نیشنل انٹیلی جنس آفیسر تھے۔اس بحران کو قریب سے دیکھنے کا تجربہ رکھنے والے رچرڈ بش کا کہنا تھا کہ چین کی طرف سے کسی قسم کی کارروائی کا امریکہ کی طرف سے جواب دیا جائے گا اور چین یہ یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اس میں کس کو برتری حاصل ہو گی۔
تائیوان تنازعہ ، امریکہ اور چین

تعارف :
رپبلک آف چین (آراو سی )عوامی جمہوریہ چین کا جزیرہ جو کہ تائیوان کے نام سے مشہور ہے صدیوں سے چین کا حصہ تھا۔ 1895 میں دوسری عالمی جنگ کی عظیم طاقت ایمپائر آف جاپان نے تائیوان سمیت چین کے زیادہ تر حصے پر قبضہ کرلیا ۔جب 1945 میں امریکہ نے جاپان پر ایٹم بم گرا کر اسے شکست دی تو چین عوامی جمہوریہ چین یعنی ریپبلک آف چائنہ کی صورت میں امریکہ کے زیر اثر جمہوری حکومت قائم ہوگئی ۔جب 1949 میں چائینیز کمیونسٹ پارٹی نے ماؤزے تنگ کی قیادت میں چین کے مرکزی علاقے پر قبضہ کرلیا تو عوامی جمہوریہ چین کی جمہوری حکومت چیانگ کائی شیک کی قیادت میں تائیوان تک سمٹ گئی ۔اور تائیوان کو اصل چین اور چائنیز کمیونسٹ پارٹی کی حکومت کو غاصب قرار دینے لگی ۔جبکہ چائنیز کمیونسٹ پارٹی کا مرکزی چین تب سے اسے چین کا حصہ قرار دیتے ہوئے اسے منحرف صوبہ قرار دیتی ہے ۔
چین نے دنیا کو تائیوان سے سفارتی تعلقات قائم کرنے سے روک رکھا ہے ۔کمیونسٹ چینی حکومت اس کے لئے فوج کشی کو بھی حق بجانب قرار سمجھتی ہے ۔ جبکہ امریکہ چین کو اس پر قبضہ کرنے میں بڑی رکاوٹ رہاہے اور اب بھی بڑی رکاوٹ ہے ۔امریکہ 1949 سے 1979 تک تائیوان کی جمہوریہ چین کو چین کی نماندہ حکومت قرار دیتارہا اس کے بعد امریکہ نے تائیوان کے جمہوریہ چین سے اپنے تعلقات اور باہمی دفاعی معاہدہ ختم کرکے عوامی جمہوریہ چین یعنی کمیونسٹ چین کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرلیے ۔تاہم امریکہ کے تائیوان کے ساتھ غیرسرکاری تعلقات قائم ہیں اور تائیوان کو دفاعی سازوسامان فروخت کررہاہے ۔حالانکہ چین امریکہ کو مسلسل منع کررہاہے اور وارننگزدے رہاہے ۔امریکہ اور چین علاقے میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لئے آبنائے تائیوان میں اپنی فوجی طاقت کی نمائش کرتے رہتے ہیں ۔صدر ٹرمپ کے دور میں امریکہ نے تائیوان کو 18ارب ڈالر کے ہتھیار فروخت کیے ۔
امریکہ اور چین اور تنازعہ تائیوان :
موجودہ چین کےقیام سے آج تک تائیوان امریکہ اور چین کے درمیان سلگتی چنگاری کی طرح ہے ۔جو کبھی بھی چین کا امریکہ کے درمیان جنگ کا باعث بن سکتی ہے ۔ جرمن میڈیا کے مطابق امریکہ کے تائیوان کے ساتھ رسمی سفارتی تعلقات تو نہیں ہیں تاہم اس نے تائیوان کے ساتھ قریبی غیر سرکاری تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں۔واشنگٹن چین کی جانب سے سخت تنبیہ کے باوجود تائیوان کو فوجی ساز و سامان کی فروخت بھی جاری رکھے ہوئے۔ امریکہ کے مطابق یہ ہتھیار تائیوان کو اپنے دفاع کی خاطر مہیا کیے جا رہے ہیں۔امریکی بحریہ کے جنگی جہاز بھی باقاعدگی سے آبنائے تائیوان سے گزرتے رہتےہیں تاکہ خطے میں امریکی عسکری طاقت کا اظہار کیا جا سکے۔امریکہ کا کہنا ہے کہ ایسے اقدمات کا مقصد آبنائے تائیوان میں امن و استحکام یقینی بنانا ہے۔صدر جو بائیڈن یہ تک کہہ چکے ہیں کہ اگر چین نے تائیوان پر حملہ کیا تو امریکہ تائیوان کی مدد کو پہچنے گا۔
گزشتہ جمعرات کے روز چینی صدر شی جن پنگ نے تائیوان کے لیے امریکی حمایت کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے امریکی ہم منصب کو فون پر متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا، ’’آگ سے کھیلنے والے آخرکار جل جائیں گے۔‘‘چین بھی اپنی عسکری طاقت کے اظہار کے لیے آبنائے تائیوان میں جنگی بحری جہاز بھیجتا رہتا ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران تائیوان کی فضائی حدود میں بھی تسلسل کے ساتھ نگرانی کرنے والے اور جنگی جہاز بھیجے جانے کے واقعات میں بھی تواتر سے اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
حالیہ تنازعہ اس ہفتے امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی کے ایشیا کے دورے پر آنے کی خبروں سے شروع ہوا جس نے ممکنہ طور پر تائیوان کا دورہ بھی کرنا تھا جو اگرچے غیر واضح تھا۔چین نے اس دورے کو اشتعال انگیز قرار دیا ہے ۔
مئی میں امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ چین تائیوان کے قریب اپنے جنگی طیارے اڑا کر خطرے سے کھیل رہا ہے۔ انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ اگر اس جزیرے پر حملہ ہوا تو وہ اس کی عسکری طور پر بھی حفاظت کریں گے۔
بیجنگ نے امریکہ پر تائیوان سے متعلق اپنے وعدے کی خلاف ورزی اور چین کے معاملات میں مداخلت کرنے کا الزام لگاتے ہوئے جواب دیا، اور کہا کہ ملک تائیوان کو باضابطہ طور پر آزادی کا اعلان کرنے سے روکنے کے لیے چین جنگ سے بھی گریز نہیں کرے گا۔چینی وزیر دفاع جنرل وائی نے اتوار کو اپنے بیان میں کہا تھا اور ان کے بیان کے مطابق وہ صرف اس وقت ردعمل دیں گے اگر انھیں ایسا کرنے پر مجبور کیا گیا یا اکسایا گیا۔

اس حالیہ دورے کے دوران چین نے آبنائے تائیوان میں "لائیو فائر" کے ساتھ فوجی مشقیں شروع کررکھی ہیں ۔اعلان کے مطابق ان مشقوں میں توپوں ۔ میزائلوں ۔ جنگی جہازوں اور دیگر بھاری اسلحے کا استعمال کیاجائے گا۔نینسی پیلوسی نے دوسرے سے پہلے تائیوان کی حمایت کو امریکہ کے لیے اہم قرار دیاتھا۔مگر اب چین کے انتبہ کے بعد تائیوان کے حوالے سے خاموشی ہے ۔امریکہ نے تائیوان کی 1.4 ملین ڈالر کی امداد کا اعلان کیاہے ۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان برائے قومی سلامتی جون کربی نے کہا ہے کہ صدر جو بائیڈن چینی رہنما شی جن پنگ کے ساتھ سربراہ ملاقات میں اس عہد کی تجدید کریں گے کہ امریکہ کی " چین پالیسی"میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔انہوں نے یہ بات، تائیوان سے متعلق امریکی اقدامات پر بیجنگ کی شدید نا پسندیدگی کے اظہار کے بعد کی۔ کربی نے بدھ کے روز واشنگٹن میں دہرایا کہ وہ "آبنائے کے آرپار معاملات اور تناؤ کا یک طرفہ یا بزور طاقت حل دیکھنا نہیں چاہتے"۔امریکی ایوان کی اسپیکر نینسی پلوسی کے بارے میں حالیہ دنوں میں اطلاع آئی تھی کہ وہ تائیوان کے دورے پر غور کر رہی ہیں۔ محترمہ پلوسی صدارتی عہدے کے بعد دوسرے نمبر پر ہیں کیونکہ صدر کے بعد ان سے اوپر صرف نائب صدر ہیں۔
تائیوان ایشیائی ترقیاتی بینک اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن جیسی تنظیموں کا رکن ہے جبکہ اقوام متحد ہ اور اس کی ذیلی تنظیموں کا رکن نہیں ہے ۔
اب تائیوان کو وہاں کی سرکار جمہوریہ چین قرار دیتی ہے اور چین کا سرکاری نام عوامی جمہوریہ چین ہے ۔آج چین میں آرمی ڈے منایا جارہاہے ۔
تنازعہ تائیوان اور تجزیہ کار:
1. بی بی سی کے مطابق تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس وقت ایسا کچھ نہیں ہونے جا رہا۔اس بات پر بحث ہوتی رہی ہے کہ آیا چین کے پاس حملے کے صورت میں کامیاب ہونے کی فوجی صلاحیت موجود ہے،جبکہ تائیوان اپنے فضائی اور سمندری دفاع کو کافی حد تک بڑھا رہا ہے۔لیکن بہت سے ماہرین اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ چین کو اس بات کا ادراک ہے کہ ایسا کوئی بھی قدم نہ صرف اس کے لیے بلکہ باقی دنیا کے لیے بھی بہت تباہ کن اور مہنگا ثابت ہو گا۔
2. انسٹیٹیوٹ آف ساؤتھ ایسٹ ایشین سٹیڈیز کے سنیئر فیلو ولیم چونگ کہتے ہیں کہ "دونوں ممالک کے درمیان بیان بازی تو بہت ہے لیکن اگر چین تائیوان پر حملہ کرنا چاہتا ہے، خاص طور پر ایک ایسے وقت پر جب پہلے ہی دنیا کو یوکرین بحران کا سامنا ہے تو چینیوں کو اس فرق کو بہت اچھی طرح ذہن میں رکھنا ہو گا کہ چین کی معیشت روس کے مقابلے میں عالمی معیشت سے کہیں زیادہ جڑی ہوئی ہے۔"
3. ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹیڈیز کے سنیئر فیلو کولن کوہ کہتے ہیں کہ "دونوں ممالک اپنے اپنے مؤقف پر قائم ہیں انھیں سخت موقف اپنائے ہوئے نظر آنے کی ضرورت ہے، وہ دنیا کے سامنے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا نہیں چاہتے۔"وہ کہتے ہیں کہ "لیکن اسی وقت میں وہ ایک صریح تنازعے میں داخل ہونے کے بارے میں بہت محتاط ہیں۔ وہ کھلی آنکھوں سے ایک دوسرے کی بیان بازی کو دیکھ رہے ہیں اور دونوں فریق خطرے کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘تجزیہ کار کولن کوہ کا کہنا ہے کہ ’شنگریلا ڈائیلاگ کے دوران چینی وزیر دفاع اور امریکی سیکرٹری دفاع کی ملاقات ایک مثبت پیشرفت ہے اور اس کا مطلب ہے کہ دونوں ممالک یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ اب بھی ایک ساتھ بیٹھ کر مذاکرات کرنے اور کسی متفقہ فیصلے پر پہنچے کے لیے تیار ہیں۔

4. چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز نے نینسی پلوسی کے تائیوان کے مجوزہ دورے پر اپنی ایک خبر میں کہا ہے کہ گذشتہ چند دنوں میں چین نے اس بارے میں چھ مرتبہ خبردار کیا ہے۔ چین کی وزارتِ خارجہ نے گذشتہ پیر کو اس ضمن میں اپنے انتباہ میں چینی زبان کی اصطلاح"ژن جن یدآئی" استعمال کی۔ اس کا لفظی ترجمہ ہے: "دشمن کے انتظار میں فوج کو صفوں میں کھڑا کرنا۔"
5. چین کی وزارت دفاع نے کہا کہ پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) نینسی پلوسی کے دورۂ تائیوان پر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھی رہے گی۔گلوبل ٹائمز کے ایک تجزیہ کار ہوژئی جن کا کہنا ہے کہ چین کی وزارتِ خارجہ اور دفاع کی طرف سے استعمال کی جانے والی زبان امریکی سپیکر کے دورہ تائیوان کو روکنے کے بارے میں چین کے عزم کی مظہر ہے۔ہوژئی جن نے تاریخ سے مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ چین نے ماضی میں یہ اصطلاحات دو مرتبہ استعمال کی ہیں۔
6. "چین کے سابق صدر ژون لائی نے سنہ پچاس کی دہائی میں کوریا میں امریکی جارحیت اور امداد کو روکنے کے لیے امریکہ کو خبر دار کیا تھا کہ اگر امریکہ نے 38 متوازی لائن عبور کی تو چین ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھے گا۔"
7. 1964 میں چین کی حکومت نے خلیج ٹونکن کے واقعے کے بعد امریکی حکومت کو خبردار کیا تھا کہ وہ ڈیموکریٹک ریپبلک آف ویتنام کی طرف پیش قدمی نہ کرے۔یہ اصطلاح"ژن جن یدآئی"جس کا وزارتِ خارجہ نے استعمال کیا اس کا مطلب ہے ہر قسم کی صورت حال کے لیے چوکس رہنا۔ چوکس رہنے کے معنی صرف یہ نہیں ہیں کہ فوج کی لام بندی کی جائے بلکہ فوجی رسد کے تمام وسائل تیار رکھنے کے علاوہ ممکنہ جنگ کے لیے فوجیوں کی صف بندی کرنا اور اسلحہ و بارود اگلے مورچوں تک پہنچا دینا ہے۔
8. برطانوی جریدے فنانشل ٹائمز نے کہا ہے کہ نینسی پلوسی کا تائیوان دورہ روکنے کے لیے چین نے دھمکیوں کے ساتھ ساتھ تائیوان کے قریب بحری اور فضائی جنگی مشقیں تیز کر دیں ہیں۔
9. برطانوی جریدے کے مطابق چین کا ردعمل اور دھمکیاں اتنی شدید ہیں کہ جن کی وجہ سے خطے میں ایک سنگین بحران پیدا ہونے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
10. شنگھائی میں فوڈن یونیورسٹی کے امریکی علوم کے مرکز کے ڈائریکٹر وہ زنباؤ نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر نینسی پلوسی تائیوان جاتی ہیں تو آبنائے تائیوان میں ایک بڑا بحران آئے گا جو ماضی میں 1995 اور 1996 کے بحران سے زیادہ سنگین ہو گا۔‘ان کے مطابق اس کی بڑی وجہ چین کی فوجی صلاحیتیں ہیں جو 26 سال پہلے سے کہیں زیادہ ہیں۔
11. چینی امور کے ماہر اور سابق امریکی اہلکار رچرڈ بش کا کہنا ہے کہ باوجود تمام باتوں کے چین، امریکہ سے مسلح تصادم سے گریز کرے گا۔انھوں نے مزید کہا کہ صدر شی کے چینی فوج کو کارروائی کرنے کے ممکنہ حکم کو سنجیدگی سے لینا ہوگا لیکن چین کے کسی محدود جنگ میں بھی الجھنے کے امکانات بہت کم ہیں اور اس کی ٹھوس وجوہات ہیں۔2005 میں آبنائے تائیوان کے بحران کے وقت رچرڈ بش امریکہ میں نیشنل انٹیلی جنس آفیسر تھے۔اس بحران کو قریب سے دیکھنے کا تجربہ رکھنے والے رچرڈ بش کا کہنا تھا کہ چین کی طرف سے کسی قسم کی کارروائی کا امریکہ کی طرف سے جواب دیا جائے گا اور چین یہ یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اس میں کس کو برتری حاصل ہو گی۔
تائیوان تنازعہ ، امریکہ اور چین

تعارف :
رپبلک آف چین (آراو سی )عوامی جمہوریہ چین کا جزیرہ جو کہ تائیوان کے نام سے مشہور ہے صدیوں سے چین کا حصہ تھا۔ 1895 میں دوسری عالمی جنگ کی عظیم طاقت ایمپائر آف جاپان نے تائیوان سمیت چین کے زیادہ تر حصے پر قبضہ کرلیا ۔جب 1945 میں امریکہ نے جاپان پر ایٹم بم گرا کر اسے شکست دی تو چین عوامی جمہوریہ چین یعنی ریپبلک آف چائنہ کی صورت میں امریکہ کے زیر اثر جمہوری حکومت قائم ہوگئی ۔جب 1949 میں چائینیز کمیونسٹ پارٹی نے ماؤزے تنگ کی قیادت میں چین کے مرکزی علاقے پر قبضہ کرلیا تو عوامی جمہوریہ چین کی جمہوری حکومت چیانگ کائی شیک کی قیادت میں تائیوان تک سمٹ گئی ۔اور تائیوان کو اصل چین اور چائنیز کمیونسٹ پارٹی کی حکومت کو غاصب قرار دینے لگی ۔جبکہ چائنیز کمیونسٹ پارٹی کا مرکزی چین تب سے اسے چین کا حصہ قرار دیتے ہوئے اسے منحرف صوبہ قرار دیتی ہے ۔
چین نے دنیا کو تائیوان سے سفارتی تعلقات قائم کرنے سے روک رکھا ہے ۔کمیونسٹ چینی حکومت اس کے لئے فوج کشی کو بھی حق بجانب قرار سمجھتی ہے ۔ جبکہ امریکہ چین کو اس پر قبضہ کرنے میں بڑی رکاوٹ رہاہے اور اب بھی بڑی رکاوٹ ہے ۔امریکہ 1949 سے 1979 تک تائیوان کی جمہوریہ چین کو چین کی نماندہ حکومت قرار دیتارہا اس کے بعد امریکہ نے تائیوان کے جمہوریہ چین سے اپنے تعلقات اور باہمی دفاعی معاہدہ ختم کرکے عوامی جمہوریہ چین یعنی کمیونسٹ چین کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرلیے ۔تاہم امریکہ کے تائیوان کے ساتھ غیرسرکاری تعلقات قائم ہیں اور تائیوان کو دفاعی سازوسامان فروخت کررہاہے ۔حالانکہ چین امریکہ کو مسلسل منع کررہاہے اور وارننگزدے رہاہے ۔امریکہ اور چین علاقے میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لئے آبنائے تائیوان میں اپنی فوجی طاقت کی نمائش کرتے رہتے ہیں ۔صدر ٹرمپ کے دور میں امریکہ نے تائیوان کو 18ارب ڈالر کے ہتھیار فروخت کیے ۔
امریکہ اور چین اور تنازعہ تائیوان :
موجودہ چین کےقیام سے آج تک تائیوان امریکہ اور چین کے درمیان سلگتی چنگاری کی طرح ہے ۔جو کبھی بھی چین کا امریکہ کے درمیان جنگ کا باعث بن سکتی ہے ۔ جرمن میڈیا کے مطابق امریکہ کے تائیوان کے ساتھ رسمی سفارتی تعلقات تو نہیں ہیں تاہم اس نے تائیوان کے ساتھ قریبی غیر سرکاری تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں۔واشنگٹن چین کی جانب سے سخت تنبیہ کے باوجود تائیوان کو فوجی ساز و سامان کی فروخت بھی جاری رکھے ہوئے۔ امریکہ کے مطابق یہ ہتھیار تائیوان کو اپنے دفاع کی خاطر مہیا کیے جا رہے ہیں۔امریکی بحریہ کے جنگی جہاز بھی باقاعدگی سے آبنائے تائیوان سے گزرتے رہتےہیں تاکہ خطے میں امریکی عسکری طاقت کا اظہار کیا جا سکے۔امریکہ کا کہنا ہے کہ ایسے اقدمات کا مقصد آبنائے تائیوان میں امن و استحکام یقینی بنانا ہے۔صدر جو بائیڈن یہ تک کہہ چکے ہیں کہ اگر چین نے تائیوان پر حملہ کیا تو امریکہ تائیوان کی مدد کو پہچنے گا۔
گزشتہ جمعرات کے روز چینی صدر شی جن پنگ نے تائیوان کے لیے امریکی حمایت کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے امریکی ہم منصب کو فون پر متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا، ’’آگ سے کھیلنے والے آخرکار جل جائیں گے۔‘‘چین بھی اپنی عسکری طاقت کے اظہار کے لیے آبنائے تائیوان میں جنگی بحری جہاز بھیجتا رہتا ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران تائیوان کی فضائی حدود میں بھی تسلسل کے ساتھ نگرانی کرنے والے اور جنگی جہاز بھیجے جانے کے واقعات میں بھی تواتر سے اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
حالیہ تنازعہ اس ہفتے امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی کے ایشیا کے دورے پر آنے کی خبروں سے شروع ہوا جس نے ممکنہ طور پر تائیوان کا دورہ بھی کرنا تھا جو اگرچے غیر واضح تھا۔چین نے اس دورے کو اشتعال انگیز قرار دیا ہے ۔
مئی میں امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ چین تائیوان کے قریب اپنے جنگی طیارے اڑا کر خطرے سے کھیل رہا ہے۔ انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ اگر اس جزیرے پر حملہ ہوا تو وہ اس کی عسکری طور پر بھی حفاظت کریں گے۔
بیجنگ نے امریکہ پر تائیوان سے متعلق اپنے وعدے کی خلاف ورزی اور چین کے معاملات میں مداخلت کرنے کا الزام لگاتے ہوئے جواب دیا، اور کہا کہ ملک تائیوان کو باضابطہ طور پر آزادی کا اعلان کرنے سے روکنے کے لیے چین جنگ سے بھی گریز نہیں کرے گا۔چینی وزیر دفاع جنرل وائی نے اتوار کو اپنے بیان میں کہا تھا اور ان کے بیان کے مطابق وہ صرف اس وقت ردعمل دیں گے اگر انھیں ایسا کرنے پر مجبور کیا گیا یا اکسایا گیا۔

اس حالیہ دورے کے دوران چین نے آبنائے تائیوان میں "لائیو فائر" کے ساتھ فوجی مشقیں شروع کررکھی ہیں ۔اعلان کے مطابق ان مشقوں میں توپوں ۔ میزائلوں ۔ جنگی جہازوں اور دیگر بھاری اسلحے کا استعمال کیاجائے گا۔نینسی پیلوسی نے دوسرے سے پہلے تائیوان کی حمایت کو امریکہ کے لیے اہم قرار دیاتھا۔مگر اب چین کے انتبہ کے بعد تائیوان کے حوالے سے خاموشی ہے ۔امریکہ نے تائیوان کی 1.4 ملین ڈالر کی امداد کا اعلان کیاہے ۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان برائے قومی سلامتی جون کربی نے کہا ہے کہ صدر جو بائیڈن چینی رہنما شی جن پنگ کے ساتھ سربراہ ملاقات میں اس عہد کی تجدید کریں گے کہ امریکہ کی " چین پالیسی"میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔انہوں نے یہ بات، تائیوان سے متعلق امریکی اقدامات پر بیجنگ کی شدید نا پسندیدگی کے اظہار کے بعد کی۔ کربی نے بدھ کے روز واشنگٹن میں دہرایا کہ وہ "آبنائے کے آرپار معاملات اور تناؤ کا یک طرفہ یا بزور طاقت حل دیکھنا نہیں چاہتے"۔امریکی ایوان کی اسپیکر نینسی پلوسی کے بارے میں حالیہ دنوں میں اطلاع آئی تھی کہ وہ تائیوان کے دورے پر غور کر رہی ہیں۔ محترمہ پلوسی صدارتی عہدے کے بعد دوسرے نمبر پر ہیں کیونکہ صدر کے بعد ان سے اوپر صرف نائب صدر ہیں۔
تائیوان ایشیائی ترقیاتی بینک اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن جیسی تنظیموں کا رکن ہے جبکہ اقوام متحد ہ اور اس کی ذیلی تنظیموں کا رکن نہیں ہے ۔
اب تائیوان کو وہاں کی سرکار جمہوریہ چین قرار دیتی ہے اور چین کا سرکاری نام عوامی جمہوریہ چین ہے ۔آج چین میں آرمی ڈے منایا جارہاہے ۔
تنازعہ تائیوان اور تجزیہ کار:
1. بی بی سی کے مطابق تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس وقت ایسا کچھ نہیں ہونے جا رہا۔اس بات پر بحث ہوتی رہی ہے کہ آیا چین کے پاس حملے کے صورت میں کامیاب ہونے کی فوجی صلاحیت موجود ہے،جبکہ تائیوان اپنے فضائی اور سمندری دفاع کو کافی حد تک بڑھا رہا ہے۔لیکن بہت سے ماہرین اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ چین کو اس بات کا ادراک ہے کہ ایسا کوئی بھی قدم نہ صرف اس کے لیے بلکہ باقی دنیا کے لیے بھی بہت تباہ کن اور مہنگا ثابت ہو گا۔
2. انسٹیٹیوٹ آف ساؤتھ ایسٹ ایشین سٹیڈیز کے سنیئر فیلو ولیم چونگ کہتے ہیں کہ "دونوں ممالک کے درمیان بیان بازی تو بہت ہے لیکن اگر چین تائیوان پر حملہ کرنا چاہتا ہے، خاص طور پر ایک ایسے وقت پر جب پہلے ہی دنیا کو یوکرین بحران کا سامنا ہے تو چینیوں کو اس فرق کو بہت اچھی طرح ذہن میں رکھنا ہو گا کہ چین کی معیشت روس کے مقابلے میں عالمی معیشت سے کہیں زیادہ جڑی ہوئی ہے۔"
3. ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹیڈیز کے سنیئر فیلو کولن کوہ کہتے ہیں کہ "دونوں ممالک اپنے اپنے مؤقف پر قائم ہیں انھیں سخت موقف اپنائے ہوئے نظر آنے کی ضرورت ہے، وہ دنیا کے سامنے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا نہیں چاہتے۔"وہ کہتے ہیں کہ "لیکن اسی وقت میں وہ ایک صریح تنازعے میں داخل ہونے کے بارے میں بہت محتاط ہیں۔ وہ کھلی آنکھوں سے ایک دوسرے کی بیان بازی کو دیکھ رہے ہیں اور دونوں فریق خطرے کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘تجزیہ کار کولن کوہ کا کہنا ہے کہ ’شنگریلا ڈائیلاگ کے دوران چینی وزیر دفاع اور امریکی سیکرٹری دفاع کی ملاقات ایک مثبت پیشرفت ہے اور اس کا مطلب ہے کہ دونوں ممالک یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ اب بھی ایک ساتھ بیٹھ کر مذاکرات کرنے اور کسی متفقہ فیصلے پر پہنچے کے لیے تیار ہیں۔

4. چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز نے نینسی پلوسی کے تائیوان کے مجوزہ دورے پر اپنی ایک خبر میں کہا ہے کہ گذشتہ چند دنوں میں چین نے اس بارے میں چھ مرتبہ خبردار کیا ہے۔ چین کی وزارتِ خارجہ نے گذشتہ پیر کو اس ضمن میں اپنے انتباہ میں چینی زبان کی اصطلاح"ژن جن یدآئی" استعمال کی۔ اس کا لفظی ترجمہ ہے: "دشمن کے انتظار میں فوج کو صفوں میں کھڑا کرنا۔"
5. چین کی وزارت دفاع نے کہا کہ پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) نینسی پلوسی کے دورۂ تائیوان پر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھی رہے گی۔گلوبل ٹائمز کے ایک تجزیہ کار ہوژئی جن کا کہنا ہے کہ چین کی وزارتِ خارجہ اور دفاع کی طرف سے استعمال کی جانے والی زبان امریکی سپیکر کے دورہ تائیوان کو روکنے کے بارے میں چین کے عزم کی مظہر ہے۔ہوژئی جن نے تاریخ سے مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ چین نے ماضی میں یہ اصطلاحات دو مرتبہ استعمال کی ہیں۔
6. "چین کے سابق صدر ژون لائی نے سنہ پچاس کی دہائی میں کوریا میں امریکی جارحیت اور امداد کو روکنے کے لیے امریکہ کو خبر دار کیا تھا کہ اگر امریکہ نے 38 متوازی لائن عبور کی تو چین ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھے گا۔"
7. 1964 میں چین کی حکومت نے خلیج ٹونکن کے واقعے کے بعد امریکی حکومت کو خبردار کیا تھا کہ وہ ڈیموکریٹک ریپبلک آف ویتنام کی طرف پیش قدمی نہ کرے۔یہ اصطلاح"ژن جن یدآئی"جس کا وزارتِ خارجہ نے استعمال کیا اس کا مطلب ہے ہر قسم کی صورت حال کے لیے چوکس رہنا۔ چوکس رہنے کے معنی صرف یہ نہیں ہیں کہ فوج کی لام بندی کی جائے بلکہ فوجی رسد کے تمام وسائل تیار رکھنے کے علاوہ ممکنہ جنگ کے لیے فوجیوں کی صف بندی کرنا اور اسلحہ و بارود اگلے مورچوں تک پہنچا دینا ہے۔
8. برطانوی جریدے فنانشل ٹائمز نے کہا ہے کہ نینسی پلوسی کا تائیوان دورہ روکنے کے لیے چین نے دھمکیوں کے ساتھ ساتھ تائیوان کے قریب بحری اور فضائی جنگی مشقیں تیز کر دیں ہیں۔
9. برطانوی جریدے کے مطابق چین کا ردعمل اور دھمکیاں اتنی شدید ہیں کہ جن کی وجہ سے خطے میں ایک سنگین بحران پیدا ہونے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
10. شنگھائی میں فوڈن یونیورسٹی کے امریکی علوم کے مرکز کے ڈائریکٹر وہ زنباؤ نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر نینسی پلوسی تائیوان جاتی ہیں تو آبنائے تائیوان میں ایک بڑا بحران آئے گا جو ماضی میں 1995 اور 1996 کے بحران سے زیادہ سنگین ہو گا۔‘ان کے مطابق اس کی بڑی وجہ چین کی فوجی صلاحیتیں ہیں جو 26 سال پہلے سے کہیں زیادہ ہیں۔
11. چینی امور کے ماہر اور سابق امریکی اہلکار رچرڈ بش کا کہنا ہے کہ باوجود تمام باتوں کے چین، امریکہ سے مسلح تصادم سے گریز کرے گا۔انھوں نے مزید کہا کہ صدر شی کے چینی فوج کو کارروائی کرنے کے ممکنہ حکم کو سنجیدگی سے لینا ہوگا لیکن چین کے کسی محدود جنگ میں بھی الجھنے کے امکانات بہت کم ہیں اور اس کی ٹھوس وجوہات ہیں۔2005 میں آبنائے تائیوان کے بحران کے وقت رچرڈ بش امریکہ میں نیشنل انٹیلی جنس آفیسر تھے۔اس بحران کو قریب سے دیکھنے کا تجربہ رکھنے والے رچرڈ بش کا کہنا تھا کہ چین کی طرف سے کسی قسم کی کارروائی کا امریکہ کی طرف سے جواب دیا جائے گا اور چین یہ یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اس میں کس کو برتری حاصل ہو گی۔
تائیوان تنازعہ ، امریکہ اور چین

تعارف :
رپبلک آف چین (آراو سی )عوامی جمہوریہ چین کا جزیرہ جو کہ تائیوان کے نام سے مشہور ہے صدیوں سے چین کا حصہ تھا۔ 1895 میں دوسری عالمی جنگ کی عظیم طاقت ایمپائر آف جاپان نے تائیوان سمیت چین کے زیادہ تر حصے پر قبضہ کرلیا ۔جب 1945 میں امریکہ نے جاپان پر ایٹم بم گرا کر اسے شکست دی تو چین عوامی جمہوریہ چین یعنی ریپبلک آف چائنہ کی صورت میں امریکہ کے زیر اثر جمہوری حکومت قائم ہوگئی ۔جب 1949 میں چائینیز کمیونسٹ پارٹی نے ماؤزے تنگ کی قیادت میں چین کے مرکزی علاقے پر قبضہ کرلیا تو عوامی جمہوریہ چین کی جمہوری حکومت چیانگ کائی شیک کی قیادت میں تائیوان تک سمٹ گئی ۔اور تائیوان کو اصل چین اور چائنیز کمیونسٹ پارٹی کی حکومت کو غاصب قرار دینے لگی ۔جبکہ چائنیز کمیونسٹ پارٹی کا مرکزی چین تب سے اسے چین کا حصہ قرار دیتے ہوئے اسے منحرف صوبہ قرار دیتی ہے ۔
چین نے دنیا کو تائیوان سے سفارتی تعلقات قائم کرنے سے روک رکھا ہے ۔کمیونسٹ چینی حکومت اس کے لئے فوج کشی کو بھی حق بجانب قرار سمجھتی ہے ۔ جبکہ امریکہ چین کو اس پر قبضہ کرنے میں بڑی رکاوٹ رہاہے اور اب بھی بڑی رکاوٹ ہے ۔امریکہ 1949 سے 1979 تک تائیوان کی جمہوریہ چین کو چین کی نماندہ حکومت قرار دیتارہا اس کے بعد امریکہ نے تائیوان کے جمہوریہ چین سے اپنے تعلقات اور باہمی دفاعی معاہدہ ختم کرکے عوامی جمہوریہ چین یعنی کمیونسٹ چین کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرلیے ۔تاہم امریکہ کے تائیوان کے ساتھ غیرسرکاری تعلقات قائم ہیں اور تائیوان کو دفاعی سازوسامان فروخت کررہاہے ۔حالانکہ چین امریکہ کو مسلسل منع کررہاہے اور وارننگزدے رہاہے ۔امریکہ اور چین علاقے میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لئے آبنائے تائیوان میں اپنی فوجی طاقت کی نمائش کرتے رہتے ہیں ۔صدر ٹرمپ کے دور میں امریکہ نے تائیوان کو 18ارب ڈالر کے ہتھیار فروخت کیے ۔
امریکہ اور چین اور تنازعہ تائیوان :
موجودہ چین کےقیام سے آج تک تائیوان امریکہ اور چین کے درمیان سلگتی چنگاری کی طرح ہے ۔جو کبھی بھی چین کا امریکہ کے درمیان جنگ کا باعث بن سکتی ہے ۔ جرمن میڈیا کے مطابق امریکہ کے تائیوان کے ساتھ رسمی سفارتی تعلقات تو نہیں ہیں تاہم اس نے تائیوان کے ساتھ قریبی غیر سرکاری تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں۔واشنگٹن چین کی جانب سے سخت تنبیہ کے باوجود تائیوان کو فوجی ساز و سامان کی فروخت بھی جاری رکھے ہوئے۔ امریکہ کے مطابق یہ ہتھیار تائیوان کو اپنے دفاع کی خاطر مہیا کیے جا رہے ہیں۔امریکی بحریہ کے جنگی جہاز بھی باقاعدگی سے آبنائے تائیوان سے گزرتے رہتےہیں تاکہ خطے میں امریکی عسکری طاقت کا اظہار کیا جا سکے۔امریکہ کا کہنا ہے کہ ایسے اقدمات کا مقصد آبنائے تائیوان میں امن و استحکام یقینی بنانا ہے۔صدر جو بائیڈن یہ تک کہہ چکے ہیں کہ اگر چین نے تائیوان پر حملہ کیا تو امریکہ تائیوان کی مدد کو پہچنے گا۔
گزشتہ جمعرات کے روز چینی صدر شی جن پنگ نے تائیوان کے لیے امریکی حمایت کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے امریکی ہم منصب کو فون پر متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا، ’’آگ سے کھیلنے والے آخرکار جل جائیں گے۔‘‘چین بھی اپنی عسکری طاقت کے اظہار کے لیے آبنائے تائیوان میں جنگی بحری جہاز بھیجتا رہتا ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران تائیوان کی فضائی حدود میں بھی تسلسل کے ساتھ نگرانی کرنے والے اور جنگی جہاز بھیجے جانے کے واقعات میں بھی تواتر سے اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
حالیہ تنازعہ اس ہفتے امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی کے ایشیا کے دورے پر آنے کی خبروں سے شروع ہوا جس نے ممکنہ طور پر تائیوان کا دورہ بھی کرنا تھا جو اگرچے غیر واضح تھا۔چین نے اس دورے کو اشتعال انگیز قرار دیا ہے ۔
مئی میں امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ چین تائیوان کے قریب اپنے جنگی طیارے اڑا کر خطرے سے کھیل رہا ہے۔ انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ اگر اس جزیرے پر حملہ ہوا تو وہ اس کی عسکری طور پر بھی حفاظت کریں گے۔
بیجنگ نے امریکہ پر تائیوان سے متعلق اپنے وعدے کی خلاف ورزی اور چین کے معاملات میں مداخلت کرنے کا الزام لگاتے ہوئے جواب دیا، اور کہا کہ ملک تائیوان کو باضابطہ طور پر آزادی کا اعلان کرنے سے روکنے کے لیے چین جنگ سے بھی گریز نہیں کرے گا۔چینی وزیر دفاع جنرل وائی نے اتوار کو اپنے بیان میں کہا تھا اور ان کے بیان کے مطابق وہ صرف اس وقت ردعمل دیں گے اگر انھیں ایسا کرنے پر مجبور کیا گیا یا اکسایا گیا۔

اس حالیہ دورے کے دوران چین نے آبنائے تائیوان میں "لائیو فائر" کے ساتھ فوجی مشقیں شروع کررکھی ہیں ۔اعلان کے مطابق ان مشقوں میں توپوں ۔ میزائلوں ۔ جنگی جہازوں اور دیگر بھاری اسلحے کا استعمال کیاجائے گا۔نینسی پیلوسی نے دوسرے سے پہلے تائیوان کی حمایت کو امریکہ کے لیے اہم قرار دیاتھا۔مگر اب چین کے انتبہ کے بعد تائیوان کے حوالے سے خاموشی ہے ۔امریکہ نے تائیوان کی 1.4 ملین ڈالر کی امداد کا اعلان کیاہے ۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان برائے قومی سلامتی جون کربی نے کہا ہے کہ صدر جو بائیڈن چینی رہنما شی جن پنگ کے ساتھ سربراہ ملاقات میں اس عہد کی تجدید کریں گے کہ امریکہ کی " چین پالیسی"میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔انہوں نے یہ بات، تائیوان سے متعلق امریکی اقدامات پر بیجنگ کی شدید نا پسندیدگی کے اظہار کے بعد کی۔ کربی نے بدھ کے روز واشنگٹن میں دہرایا کہ وہ "آبنائے کے آرپار معاملات اور تناؤ کا یک طرفہ یا بزور طاقت حل دیکھنا نہیں چاہتے"۔امریکی ایوان کی اسپیکر نینسی پلوسی کے بارے میں حالیہ دنوں میں اطلاع آئی تھی کہ وہ تائیوان کے دورے پر غور کر رہی ہیں۔ محترمہ پلوسی صدارتی عہدے کے بعد دوسرے نمبر پر ہیں کیونکہ صدر کے بعد ان سے اوپر صرف نائب صدر ہیں۔
تائیوان ایشیائی ترقیاتی بینک اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن جیسی تنظیموں کا رکن ہے جبکہ اقوام متحد ہ اور اس کی ذیلی تنظیموں کا رکن نہیں ہے ۔
اب تائیوان کو وہاں کی سرکار جمہوریہ چین قرار دیتی ہے اور چین کا سرکاری نام عوامی جمہوریہ چین ہے ۔آج چین میں آرمی ڈے منایا جارہاہے ۔
تنازعہ تائیوان اور تجزیہ کار:
1. بی بی سی کے مطابق تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس وقت ایسا کچھ نہیں ہونے جا رہا۔اس بات پر بحث ہوتی رہی ہے کہ آیا چین کے پاس حملے کے صورت میں کامیاب ہونے کی فوجی صلاحیت موجود ہے،جبکہ تائیوان اپنے فضائی اور سمندری دفاع کو کافی حد تک بڑھا رہا ہے۔لیکن بہت سے ماہرین اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ چین کو اس بات کا ادراک ہے کہ ایسا کوئی بھی قدم نہ صرف اس کے لیے بلکہ باقی دنیا کے لیے بھی بہت تباہ کن اور مہنگا ثابت ہو گا۔
2. انسٹیٹیوٹ آف ساؤتھ ایسٹ ایشین سٹیڈیز کے سنیئر فیلو ولیم چونگ کہتے ہیں کہ "دونوں ممالک کے درمیان بیان بازی تو بہت ہے لیکن اگر چین تائیوان پر حملہ کرنا چاہتا ہے، خاص طور پر ایک ایسے وقت پر جب پہلے ہی دنیا کو یوکرین بحران کا سامنا ہے تو چینیوں کو اس فرق کو بہت اچھی طرح ذہن میں رکھنا ہو گا کہ چین کی معیشت روس کے مقابلے میں عالمی معیشت سے کہیں زیادہ جڑی ہوئی ہے۔"
3. ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹیڈیز کے سنیئر فیلو کولن کوہ کہتے ہیں کہ "دونوں ممالک اپنے اپنے مؤقف پر قائم ہیں انھیں سخت موقف اپنائے ہوئے نظر آنے کی ضرورت ہے، وہ دنیا کے سامنے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا نہیں چاہتے۔"وہ کہتے ہیں کہ "لیکن اسی وقت میں وہ ایک صریح تنازعے میں داخل ہونے کے بارے میں بہت محتاط ہیں۔ وہ کھلی آنکھوں سے ایک دوسرے کی بیان بازی کو دیکھ رہے ہیں اور دونوں فریق خطرے کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘تجزیہ کار کولن کوہ کا کہنا ہے کہ ’شنگریلا ڈائیلاگ کے دوران چینی وزیر دفاع اور امریکی سیکرٹری دفاع کی ملاقات ایک مثبت پیشرفت ہے اور اس کا مطلب ہے کہ دونوں ممالک یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ اب بھی ایک ساتھ بیٹھ کر مذاکرات کرنے اور کسی متفقہ فیصلے پر پہنچے کے لیے تیار ہیں۔

4. چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز نے نینسی پلوسی کے تائیوان کے مجوزہ دورے پر اپنی ایک خبر میں کہا ہے کہ گذشتہ چند دنوں میں چین نے اس بارے میں چھ مرتبہ خبردار کیا ہے۔ چین کی وزارتِ خارجہ نے گذشتہ پیر کو اس ضمن میں اپنے انتباہ میں چینی زبان کی اصطلاح"ژن جن یدآئی" استعمال کی۔ اس کا لفظی ترجمہ ہے: "دشمن کے انتظار میں فوج کو صفوں میں کھڑا کرنا۔"
5. چین کی وزارت دفاع نے کہا کہ پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) نینسی پلوسی کے دورۂ تائیوان پر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھی رہے گی۔گلوبل ٹائمز کے ایک تجزیہ کار ہوژئی جن کا کہنا ہے کہ چین کی وزارتِ خارجہ اور دفاع کی طرف سے استعمال کی جانے والی زبان امریکی سپیکر کے دورہ تائیوان کو روکنے کے بارے میں چین کے عزم کی مظہر ہے۔ہوژئی جن نے تاریخ سے مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ چین نے ماضی میں یہ اصطلاحات دو مرتبہ استعمال کی ہیں۔
6. "چین کے سابق صدر ژون لائی نے سنہ پچاس کی دہائی میں کوریا میں امریکی جارحیت اور امداد کو روکنے کے لیے امریکہ کو خبر دار کیا تھا کہ اگر امریکہ نے 38 متوازی لائن عبور کی تو چین ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھے گا۔"
7. 1964 میں چین کی حکومت نے خلیج ٹونکن کے واقعے کے بعد امریکی حکومت کو خبردار کیا تھا کہ وہ ڈیموکریٹک ریپبلک آف ویتنام کی طرف پیش قدمی نہ کرے۔یہ اصطلاح"ژن جن یدآئی"جس کا وزارتِ خارجہ نے استعمال کیا اس کا مطلب ہے ہر قسم کی صورت حال کے لیے چوکس رہنا۔ چوکس رہنے کے معنی صرف یہ نہیں ہیں کہ فوج کی لام بندی کی جائے بلکہ فوجی رسد کے تمام وسائل تیار رکھنے کے علاوہ ممکنہ جنگ کے لیے فوجیوں کی صف بندی کرنا اور اسلحہ و بارود اگلے مورچوں تک پہنچا دینا ہے۔
8. برطانوی جریدے فنانشل ٹائمز نے کہا ہے کہ نینسی پلوسی کا تائیوان دورہ روکنے کے لیے چین نے دھمکیوں کے ساتھ ساتھ تائیوان کے قریب بحری اور فضائی جنگی مشقیں تیز کر دیں ہیں۔
9. برطانوی جریدے کے مطابق چین کا ردعمل اور دھمکیاں اتنی شدید ہیں کہ جن کی وجہ سے خطے میں ایک سنگین بحران پیدا ہونے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
10. شنگھائی میں فوڈن یونیورسٹی کے امریکی علوم کے مرکز کے ڈائریکٹر وہ زنباؤ نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر نینسی پلوسی تائیوان جاتی ہیں تو آبنائے تائیوان میں ایک بڑا بحران آئے گا جو ماضی میں 1995 اور 1996 کے بحران سے زیادہ سنگین ہو گا۔‘ان کے مطابق اس کی بڑی وجہ چین کی فوجی صلاحیتیں ہیں جو 26 سال پہلے سے کہیں زیادہ ہیں۔
11. چینی امور کے ماہر اور سابق امریکی اہلکار رچرڈ بش کا کہنا ہے کہ باوجود تمام باتوں کے چین، امریکہ سے مسلح تصادم سے گریز کرے گا۔انھوں نے مزید کہا کہ صدر شی کے چینی فوج کو کارروائی کرنے کے ممکنہ حکم کو سنجیدگی سے لینا ہوگا لیکن چین کے کسی محدود جنگ میں بھی الجھنے کے امکانات بہت کم ہیں اور اس کی ٹھوس وجوہات ہیں۔2005 میں آبنائے تائیوان کے بحران کے وقت رچرڈ بش امریکہ میں نیشنل انٹیلی جنس آفیسر تھے۔اس بحران کو قریب سے دیکھنے کا تجربہ رکھنے والے رچرڈ بش کا کہنا تھا کہ چین کی طرف سے کسی قسم کی کارروائی کا امریکہ کی طرف سے جواب دیا جائے گا اور چین یہ یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اس میں کس کو برتری حاصل ہو گی۔
تائیوان تنازعہ ، امریکہ اور چین

تعارف :
رپبلک آف چین (آراو سی )عوامی جمہوریہ چین کا جزیرہ جو کہ تائیوان کے نام سے مشہور ہے صدیوں سے

Address

Islamabad

Opening Hours

Monday 09:00 - 20:00
Tuesday 09:00 - 20:00
Wednesday 09:00 - 20:00
Thursday 09:00 - 17:00
Friday 09:00 - 20:00
Saturday 09:00 - 20:00
Sunday 09:00 - 20:00

Telephone

+923036637768

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Analysis & Media posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Analysis & Media:

Videos

Share


Other Broadcasting & media production in Islamabad

Show All