Pind Karnana, Tehsil Kharian, Zillah Gujrat, Punjab

Pind Karnana, Tehsil Kharian, Zillah Gujrat, Punjab KARNANA is a village in district Gujrat, Punjab, Pakistan. It's also known as "Akhtar Karnana Railway

08/06/2024
یہ کسی نے بیلجئیم میں مُقیم بھائی عظمت علی کھٹانہ صاحب آف کرنانہ کی جعلی فیس بُک آئی ڈی بنا رکھی ہے جس کا مقصد یقیناً اِ...
08/06/2024

یہ کسی نے بیلجئیم میں مُقیم بھائی عظمت علی کھٹانہ صاحب آف کرنانہ کی جعلی فیس بُک آئی ڈی بنا رکھی ہے جس کا مقصد یقیناً اِس آئی ڈی کا غلط استعمال ہے جو کہ سائبر کرائم ہے!
لہذا سب دوستوں سے گذارش ہے کہ اِس فیک آئی ڈی سے رابطے کرنے والے مجرم کو چودھری عظمت علی کھٹانہ نہ سمجھا جائے!

مُلتمِس،
رائے یُوسُف رضا دھنیالہ
Watch Rai Yusuf Raza Dhanyala
Pind Karnana, Tehsil Kharian, Zillah Gujrat, Punjab

کِرغِستان میں طلبہ کے فسادات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تحریر: آسیہ بتول، میرپور آزادکشمیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کِرغ...
30/05/2024

کِرغِستان میں طلبہ کے فسادات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: آسیہ بتول، میرپور آزادکشمیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کِرغِستان 1،99،900 مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل خشکی میں گھرا ہوا پاکستان کا ایک قریب ترین وسط ایشیائی ملک ہے جس کی ننانوے فیصد آبادی سُنّی مسلمان ہے۔ یہاں کی کُل آبادی 7 ملین یعنی 70 لاکھ ہے جس میں سے 74 فیصد کِرغیز ہیں۔ یہ وسط ایشیائی خانہ بدوش قبائل تھے۔ ان کا مذہب اسلام ہے اور یہ سرخ بالوں والے لوگ ہیں۔ زیادہ تر آبادی شہروں میں آباد ہے اور دیہات میں یہاں کے صرف ایک تہائی لوگ آباد ہیں۔ یہاں جرمن نسل کے لوگ بھی آباد تھے جو 1991ء میں جرمنی ہجرت کر گئے تھے۔ تاہم روسی نسل کے لوگ یہاں ابھی بھی آباد ہیں۔ کِرغیز نسل کے بعد یہاں دوسرا بڑا نسلی گروہ اُزبِک لوگوں کا ہے۔
یہاں کی سرکاری بولی کرغیز ہے، جسے بیسویں صدی تک عربی رسمُ الخط میں لکھا جاتا تھا تاہم 1928ء میں سٹالن کے حکم پر اسے لاطینی میں منتقل کر دیا گیا۔ 1941ء میں اس کا رسم الخط دوبارہ بدل کر CYRILLIC SCRPT کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ یہاں روسی زبان بھی بہت اہمیت رکھتی ہے اور روسی میڈیا بھی مقبولیت رکھتا ہے۔
یہاں کے کلچر اور ثقافت سے اگرچہ اسلامی رنگ جھلکتا ہے تاہم نمایاں چھاپ خانہ بدوش طرزِ زندگی کی ہے۔ گھوڑے کا گوشت بھی مرغوب ہے اور الکوحل آمیز دودھ بھی۔ شادی کے لیے لڑکی کو اُٹھا کر لے جانا بھی روایت تھی جو پابندی لگنے کے باوجود بھی کہیں نہ کہیں رائج ہے۔
روس کے قبضے کے اثرات بُرے سہی مگر اچھے بھی بہت ہیں۔ یہاں شرح تعلیم 99 فیصد ہے۔
کرغستان میں میڈیکل کی تعلیم بالخصوص سستی ہے اور میرٹ بھی کم ہے۔ سرکاری میڈیکل کالجز میں ساڑھے تین سے چار لاکھ روپے تک سمیسٹر فیس ہے جو کہ پاکستان کے مقابلے میں کافی کم ہے۔ پاکستان میں میڈیکل کی سِیٹیں کم ہوتی ہیں حتٰی کہ 90 فیصد سے زائد نمبر حاصل کرنے والے بھی پاکستانی میڈیکل کالجوں میں سرکاری سِیٹ نہیں لے پاتے۔
اگر ایک طالبعلم نے نوے فیصد نمبر حاصل کیے ہیں تو ظاہر ہے کہ وہ ڈاکٹر بننے کے قابل ہے لیکن سرکاری کالجز میں داخلہ نہ ملنے اور پرائیوٹ کالجز میں بھاری فیسیں ہونے کی وجہ سے طلبہ سستے ممالک کا رخ کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اِس وقت دس سے بارہ ہزار پاکستانی طلبہ کرغِستان میں زیرِتعلیم ہیں۔ دوسرے کئی ممالک کی طرح کرغستان بھی غیر ملکی طلبہ کو اسکالرشپ وغیرہ فراہم کرتا ہے جو کہ قابل مگر مستحق طلبہ وطالبات کے لئے ایک بہترین آفر ہے۔
کرغستان کی معیشت کا دارومدار کچھ معدنیات کی برآمدات، مویشی پالنے اور غیر ملکی طلبہ کے داخلوں پر ہے۔ ان طلبہ نے ہزاروں ڈالرز لگا کر داخلے لیے ہوتے ہیں جنہیں محفوظ ماحول میں تعلیم مہیا کرنا کرغیز حکومت کا کام ہے لیکن 2010ء میں بھی اسی طرح کے فسادات پھوٹے اور ایک پاکستانی طالب علم شہید ہو گیا تھا، اور اب دوبارہ درجنوں شدید زخمی ہو چکے ہیں۔
13 مئی 2024ء کو مصری طلبہ اور مقامی کرغیز طلبہ کے درمیان جھگڑا ہوا جس میں ایک مقامی طالبعلم زخمی ہو گیا۔ (یہ جھگڑا یقیناً اچانک نہیں ہوا ہوگا۔ تناؤ کی فضا پہلے ہی ہو گی۔ آگ اچانک نہیں بھڑک اٹھتی، اس کے پیچھے اسے سُلگانے کا سامان بھی ہوتا ہے)۔
پولیس کے عمل دخل سے معاملہ وہیں ختم ہو گیا لیکن حقیقت میں اس کو بھڑکاؤ ملا۔ مقامی طلبہ کے مطابق پولیس کا رویہ ان کے ساتھ سخت تھا اور بین الاقوامی طلبہ کے ساتھ نرم تھا۔ اس واقعے کی خوب تشہیر کی گئی اور 17 مئی کی رات کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ غیر ملکی طلبہ کے ہاسٹلوں پہ دھاوا بول دیا گیا۔ یہ اتنا متشدد اور اچانک تھا کہ نہتے غیر ملکی طلبہ کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے۔ پولیس مظاہرین کے آگے بے بس تھی۔ بھاگنے والے طلبہ کا پیچھا کر کے انہیں مارا پیٹا گیا اور تشدد کا نشانہ بنا یا گیا۔ پولیس سے محض یہ مدد ملی کہ واقعے سے کچھ وقت قبل طلبہ کو کہہ دیا گیا کہ ہاسٹلوں میں لائٹس بند رکھیں اور باہر نہ نکلیں اور جو طلبہ باہر تھے اگر وہ کہیں نہ کہیں پناہ لینے میں کامیاب ہو گئے تو وہ بچ گئے۔ اگلے دن فوج کے آنے کے بعد طلبہ کی جان بچی۔
طلبہ نے دو دو دن بھوکے رہ کر گذارے۔ پاکستان واپس آنے والے طلبہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت آئے ہیں اور پاکستانی سفارت خانے نے ان کی کوئی مدد نہیں کی۔ صرف فون نمبرز دیے اور ان نمبرز کو بند کر دیا گیا۔ پاکستان میں بھی حکومت یہ دعوے کرتی نظر آئی کہ کرغیزستان میں حکومت، سفارت خانے اور طلبہ کے ساتھ ہمارا رابطہ ہے اور ہم طلبہ کو واپس لا رہے ہیں لیکن واپس آنے والے طلبہ کے دیے گئے بیانات نے تمام بھانڈے پھوڑ دیے۔ اعدادو شمار کے مطابق دس سے بارہ ہزار پاکستانی طلبہ کرغیزستان کی یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجوں میں زیر تعلیم ہیں۔ واپس آنے والے بچوں کی تعداد ابھی بھی صرف تقریباً چار سے پانچ ہزار ہے۔ جو واپس آچکے ہیں ان کا مستقبل داؤ پہ لگ چکا ہے۔ پیسے بھر کے داخلے لیے، اچانک جان بچا کر بھاگنا پڑا۔ اب ان کی ڈگریوں کا کیا ہو گا؟ کہا جا رہا ہے کہ آنلائن کلاسز کے بعد ڈگری مل جائے گی لیکن فائنل ائیر کے طلبہ پیپر دینے جائیں گے۔
کرغستان مسلمان ملک ہے لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ جہاں جہاں بھی نسلی فساد پھُوٹے وہاں مذہب ہمیشہ بے بس نظر آیا۔ کسی بھی بحرانی کیفیت یا مسابقت اور اشتعال کی حالت میں لوگ مذہب کو وقتی طور پہ بھول جایا کرتے ہیں اور نسلی، لسانی اور ثقافتی شناخت اور تفاخر اُبھر کر عود آتا ہے۔ کرغستان میں کم و بیش 80 نسلوں کے لوگ آباد ہیں جن کی اکثریت مسلمان ہے جبکہ عیسائی اور دوسرے مذاہب بھی وہاں موجود ہیں لیکن اس اتحاد میں صرف قومیت نظر آئی۔ غیر ملکیوں کے مقابلے میں وہ صرف کرغیز تھے بس۔ اسی طرح پاکستانی اور انڈین چاہے مذہبی طور پر ایک دوسرے کو مشرک، کافر، پلید اور ایک دوسرے کو اپنا دشمن سمجھیں مگر کرغیزستان میں ان کی نسلی، لسانی اور ثقافتی شناخت ایک سی نظر آئی اور اُس وقت وہ ایک دوسرے کے ہمدرد نظر آئے۔
جب ایک ہی خطے کےلوگ کافی زیادہ تعداد میں کسی دوسری جگہ جا کر آباد ہو جاتے ہیں تو وہاں ان کا آپس میں میل جول بڑھ جاتا ہے۔ لباس، زبان اور باہمی میل جول کے انداز وہ عناصر ہیں جو باہر کے لوگوں کو مقامی لوگوں کے لیے اجنبی بناتے ہیں۔ خاص طور پر زبان نہ آنے کی وجہ سے باہمی تعلقات نہیں بن پاتے۔ انگریزی زبان جو دونوں کی غیر مادری زبان ہو تو صرف ضرورت کی حد تک ہی بات چیت کی جا سکتی ہے، بے تکلفی نہیں بن سکتی۔ دوسرا یہ کہ ہر کسی کو انگریزی زبان آتی بھی نہیں ہے۔ اس کے باعث مقامی اور غیر مقامی باہمی میل جول نہیں بنا سکتے۔ غیر ملکی تارکین چاہے وہ ورکرز ہوں یا طلبہ، یہ ہمیشہ اپنے لوگوں کے ساتھ گروہ بنا کر رہتے ہیں تا کہ باہمی میل جول کی ضرورت پوری ہوتی رہے۔ یہی بات اکثر نسلی فسادات کی وجہ بنتی ہے۔
دوسری طرف آج کی دنیا گلوبل ویلج بن رہی ہے۔ بچوں کو شروع سے ہی کثیرالثقافتی معاشرے میں رہنے کے آداب سکھانے چاہئیں۔ دوسرے ملک اور نسل کے لوگوں کے ساتھ میل جول اور رواداری کا سلوک رکھنا چاہیے تاکہ وہ ذہنی طور پر دوسرے لوگوں کو قبول کر سکیں۔ اگر کرغیز حکومت کی طرف سے غیر ملکی طلبہ کو بنیادی حد تک کرغیز زبان سکھائی جاتی تو شاید روابط بڑھنے میں آسانی رہتی جیسا کہ چین، جاپان، ترکی وغیرہ میں طلبہ کو شکالر شپ پر بلایا جاتا ہے تو اُن کو پہلے سمسٹر میں اُس ملک کی زبان سکھائی جاتی ہے۔ اس سے یقیناً اس ملک میں رہنے میں آسانی ہوتی ہے۔ لیکن افسوس ترقی پذیر ممالک کی طرح کرغیز حکومت بھی صرف پیسے بنانے کے چکر میں رہی۔ انہوں نے دوسروں کا نقصان تو کیا ہی مگر کرغیز حکومت خود بھی اس کا خمیازہ کئی سالوں تک بھگتے گی کیونکہ کرغیزستان کی شہرت داغدار ہو چکی ہے۔ اور چونکہ غیر ملکی طلبہ کا داخلہ اُن کا بزنس ہے جس سے وہ زرمبادلہ کماتے ہیں مگر اب کون وہاں جانا پسند کرے گا؟ جب آپ شرپسندوں کو کھلی چھوٹ دے دیں گے کہ جو من چاہے غیر ملکیوں کے ساتھ کرتے پھرو تو پھر آئندہ سے غیر ملکی طلبہ کرغیزستان کیوں آئیں گے بھلا؟
ساتھ ہی ہماری حکومتوں کی بھی نااہلی ہے کہ طلبہ کے ساتھ اتنا کچھ ہونے کیوں دیا۔ یہ طلبہ اگر یورپی ممالک کے ہوتے تو اب تک اس واقعے پر دنیا ہِل چکی ہوتی۔ مگر ہمارے یہاں محض دو دن ہل چل رہی اور اس کے بعد طلبہ جانیں اور ان کے والدین۔
بدقسمتی یہ ہے کہ یہ واقعہ ایسے وقت میں رُونما ہوا جب طلبہ وطالبات کی طرف سے سکالر شِپس کی تیاریاں عروج پر ہوتی ہیں۔ اپریل سے ستمبر تک بیرونی یونیورسٹیاں داخلے لے رہی ہوتی ہیں۔ پاکستانی طلبہ میں شکالرشپس پر پڑھنے کا شعور بیدار ہو رہا ہے اور وہ تگ ودو میں لگے ہوئے ہیں۔ اس طرح کے واقعے سے اچانک خوف کی فضا قائم ہوئی ہے، خاص طور پر لڑکیوں کے والدین تو انہیں باہر بھیجنے سے پہلے سو بار سو چیں گے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ حکومت باہر جانے والے ہر شہری کے پیچھے وارث بن کے کھڑی ہو لیکن باقی تمام معاملات کی طرح اس معاملے میں بھی ہنُوز دِلی دُور اَست!

Asiya Batool, Mirpur Azad Kashmir

Pind Karnana, Tehsil Kharian, Zillah Gujrat, Punjab

بیلجئیم سے وطن واپس آئے ہوئے چودھری عظمت علی کھٹانہ نے گزشتہ روز اپنے گاؤں کے گورنمنٹ ہائی سکول کرنانہ، تحصیل کھاریاں، ض...
23/05/2024

بیلجئیم سے وطن واپس آئے ہوئے چودھری عظمت علی کھٹانہ نے گزشتہ روز اپنے گاؤں کے گورنمنٹ ہائی سکول کرنانہ، تحصیل کھاریاں، ضلع گجرات، پنجاب، پاکستان کا دورہ کیا اور سکول میں نئے تعمیر کردہ کمروں، واش رُومز اور اپنی مدد آپ کے تحت کروائے گئے کاموں کا معائنہ کیا جس میں سب سے زیادہ رقم بیلجیئم اور انگلینڈ میں مُقیم اِنہی تین بھائیوں؛ چودھری عظمت علی کھٹانہ، چودھری قیصر محمود کھٹانہ اور چودھری تصور حسین کھٹانہ نے عطیہ کی تھی!

سکول انتظامیہ نے پاکستان آمد پر چودھری عظمت علی کھٹانہ صاحب کو سکول میں مدعو کرکے اُن کا بھرپور استقبال کیا، طلبہ نے اُن پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں اور اُن کے عطیات سے مکمل کئے گئے سکول پراجیکٹس کا معائنہ کروایا!

اِس موقع پر چودھری عظمت علی کھٹانہ نے مہمانِ خصوصی کے طور پہ سکول کونسل کے منتخب عہدیداران میں سرٹیفیکیٹ تقسیم کئے۔

گورنمنٹ ہائی سکول کرنانہ کے ہیڈ ماسٹر و اساتذہ نے تینوں مُخیّر بھائیوں چودھری عظمت علی کھٹانہ، چودھری قیصر محمود کھٹانہ اور چودھری تصور حسین کھٹانہ کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا کہ جو نہ صرف گورنمنٹ سکولوں بلکہ اپنے گاؤں کرنانہ کے ہر فلاحی کام میں سب سے زیادہ ڈونیشن دینے میں ہمیشہ سرِ فہرست رہتے ہیں!

Watch Rai Yusuf Raza Dhanyala

🌹💐💐❤️

Chaudhry Azmat Ali Khatana, who returned home from Belgium, visited his village Government High School Karnana, Tehsil Kharian, District Gujrat, Punjab, Pakistan yesterday and inspected the newly constructed rooms, washrooms and self-help facilities in the school.

He inspected the works, in which the largest amount was donated by the same three brothers, Chaudhry Azmat Ali Khatana, Chaudhry Qaiser Mahmood Khatana and Chaudhry Tasawar Hussain Khatana, residing in Belgium & the UK!

The school administration welcomed Chaudhry Azmat Ali Khatana by inviting him to the school during his stay in Pakistan, the students showered him with flower petals and he inspected the school projects completed with his donations!

On this occasion, Chaudhry Azmat Ali Khatana distributed the certificates among the elected students of the school council as the chief guest.

The headmaster and teachers of Government High School Karnana paid great tribute to the three charitable brothers, Chaudhry Azmat Ali Khatana, Chaudhry Qaiser Mehmood Khatana and Chaudhry Tasawar Hussain Khatana, who are the most dedicated not only in government schools but also in every welfare work of their village Karnana, being always leading the way in donating more!

🌹💐💐❤️
Watch Rai Yusuf Raza Dhanyala
🇵🇰
Pind Karnana, Tehsil Kharian, Zillah Gujrat, Punjab

13/05/2024
13/05/2024
📲 ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی چڑھانے والے جیلر مجید قریشی کے ساتھ وابستہ میری یادداشتیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔✍️ رائے ...
02/05/2024

📲
ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی چڑھانے والے جیلر مجید قریشی کے ساتھ وابستہ میری یادداشتیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
✍️ رائے یُوسُف رضا دھنیالہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سن 2020ء میں سوشل میڈیا پر ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی کے سابق اسسٹنٹ اور شیخوپورہ جیل کے سابق سپرنٹنڈنٹ جناب مجید قریشی صاحب کی ساڑھے تین منٹ کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں وہ قادیانیوں کے کسی فنکشن میں اپنی جماعتِ احمدیہ کے سینئیر لوگوں کو یہ بتا رہے تھے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سابق صدر و وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھُٹو کو پھانسی کی رات اُنہوں نے ہی ہتھکڑی لگائی تھی اور اُنہوں نے ہی اُن کو پھانسی کے پھندے تک پہنچایا اور اپنی موجودگی میں اُنہیں پھاہے لگوایا تھا!
وغیرہ وغیرہ۔

سال 2021ء میں پاکستانی قادیانیوں کے خلاف نفرت کے اظہار اور اُن کی ملک دشمنی کے ثبوت کے طور پر ایک ٹیکسٹ کے ساتھ مجید قریشی صاحب کی وہی پرانی ویڈیو ایک بار پھر سے وائرل کی گئی جو ہمارے ایک سوبر پاکستانی دوست جناب پروفیسر شمشاد جالندھری نے مجھے بھی بھیجی تو میں نے ضروری سمجھا کہ مجید قریشی صاحب کے بارے میں اپنی یادداشتیں میں بھی رقم کروں۔

1)۔
مجید قریشی صاحب کے ساتھ میری بھی کچھ یادیں وابستہ ہیں۔

10 اپریل 2004ء کو میں اپنی نو مُسلم اِنڈین پنجابی دُلہن اُلفت رضا (سُکھجِندر کور پِنکی سِدّھو) اور اُس کے بھارتی سِکھ والدین کے ہمراہ ننکانہ صاحب گردوارہ جنم استھان گیا۔

وہاں کے سِکھ ہیڈ گرنتھی بلونت سنگھ کو جب یہ پتہ چلا کہ سُکھجِندر پنکی مسلمان ہو کر یوسف رضا کے ساتھ پاکستان رہنے کے لئے آئی ہے تو اُن کی خواہ مخواہ غیرت جاگ اُٹھی اور اُنہوں نے میرے سِکھ سسر سردار ہربنس سنگھ سِدّھو اور ساس کرن جیت کور سِدّھو کو بہت زیادہ لعن طعن کیا اور اُنہیں احساس دلایا کہ اُن سے بہت بڑا پاپ ہو گیا ہے لہذا وہ گُرو گھر جنم استھان ننکانہ صاحب اگر آ ہی گئے ہیں تو توبہ کریں اور اپنی بیٹی کو واپس انڈیا لے جائیں۔

مختصراً یہ کہ ننکانہ صاحب کے پاکستانی سِکھوں نے میرے انڈین سِکھ سُسر اور ساس کو اِس بات پر قائل کر ہی لیا کہ وہ اپنی بیٹی کو واپس انڈیا لے جائیں۔

لیکن پنکی واپس جانے پر تین دن تک آمادہ نہ ہوئی حتیٰ کہ پاکستانی سکھوں نے IB (اِنٹیلی جنس بیورو) والوں کی مدد حاصل کر لی اور انہیں کہا کہ:
"یہ ہمارے دھرم کا معاملہ ہے۔ لہذا ہماری سکھ لڑکی کو ہر صورت واپس انڈیا بھجوایا جائے اور یُوسُف رضا پر کوئی ایسا کیس ڈال دیا جائے کہ یہ چھ مہینے یا سال تک باہر ہی نہ نکل پائے اور اِس دوران پنکی کے والدین انڈیا میں اُسے کسی ٹھکانے لگا دیں!"

لہذا ہماری آئی بی نے سکھوں کا رانجھا راضی کرنے کے لئے 13 اپریل 2004ء کو پنکی کو اُس کے والدین کے ساتھ واپس بھٹنڈہ، انڈین پنجاب بھجوا دیا جبکہ مجھ پر ایک جھوٹا کیس ڈال کر مجھے شیخوپورہ جیل میں بند کروا دیا جہاں سے ضمانت کروا کر باہر آتے آتے مجھے دس مہینے لگ ہی گئے۔

مجید قریشی صاحب تب شیخوپورہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ تھے اور یہ دس مہینے میں نے اُنہیں تِگنی کا ناچ نچا کے رکھا۔
وجہ یہ تھی کہ میں نے پہلے پہل کچھ ہفتے تو جیل کے ماحول کو سمجھا اور پھر ایک دن میں نے دبنگ اعلان کر دیا کہ جب تک یوسف رضا دھنیالہ شیخوپورہ جیل میں موجود ہے، تو خبردار میرے ہوتے ہوئے جیل کے کسی بھی حوالاتی پر تشدد کیا جائے!

میں سچی مچی آتم وِشواس سے بھرا ہوا، انتہائی بلند مورال اور نفسیاتی طور پر کچھ زیادہ ہی پُراعتماد ہو گیا تھا۔ لہذا میرا دبنگ اعلان پوری جیل میں گونج گیا اور ہر قیدی و حوالاتی تک یہ بات پہنچ گئی کہ کوئی یوسف رضا شیخوپورہ جیل آ گیا ہے۔

میرا اِس طرح کا چیلنج اور دوسرے حوالاتیوں کے لئے جیل انتظامیہ کے خلاف سٹینڈ جیل حکام کو حیران و پریشان کر گیا۔ لہذا اُنہوں نے مجھے بارک سے نکال کر تنگ و تاریک کوٹھری میں ڈال دیا جہاں چوبیس گھنٹے دس بارہ دوسرے سنگین جرائم میں ملوّث ملزمان کے ساتھ ایک چھوٹے سے کچن کے سائز کے کمرے میں بند رہنا پڑتا تھا۔

لیکن وہاں کی چکیوں کے ملزمان کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک پر بھی جب میں نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج شیخوپورہ کے نام کچھ شکائتی خطوط لکھ کے اپنے پاس اِس مقصد کے لئے رکھ لئے کہ جیل کے دورے پر جب جج صاحب آئیں گے تو وہ خط بطورِ شکائتی درخواست میں اُنہیں دے دوں گا۔ لیکن ہر جیل میں مُخبری کا کمال کا ایک نیٹ ورک موجود ہوتا ہے، لہذا میرے وہ خطوط جج صاحب تک پہنچنے سے پہلے ہی جیل والوں کے ہتھے لگ گئے جنہیں پڑھ کر جیل حکام کو کنبنی لگ گئی کیونکہ قلم بہرحال تلوار سے گہری کاٹ رکھتا ہے۔

میرے خطوط اور تحریریں پڑھ کر جیل حکام کو صحیح اندازہ ہوا کہ یوسف رضا کِسی بلأ کا نام ہے!

تاہم شاباش ہے جیل سپرنٹنڈنٹ مجید قریشی صاحب اور اُن کے اسسٹنٹ ملک مدثر صاحب کو کہ جنہوں نے میری نفسیات کو سمجھا اور جیل کے پرانے قیدیوں کا ایک وفد میرے پاس یہ یقین دلانے کے لئے بھیجا کہ میرے ہوتے ہوئے جیل کے کسی حوالاتی (ملزم) کو ناحق تنگ نہیں کیا جائے گا۔
اور ساتھ ہی اُنہوں نے ایک بندوبست یہ کیا کہ مجھے کال کوٹھڑی سے نکال کر بی کلاس میں منتقل کر دیا جس کا مقصد خیر سگالی کے طور پہ مجھے عزت اور اعلیٰ درجے کی سہولیات دینے کا اظہار بھی تھا۔

جیل حکام نے مزید مجھے ٹھنڈا رکھنے کے لئے میرے گھر والوں، خصوصاً میرے چھوٹے بھائی حافظ یعقوب داتار صاحب سے رابطہ اُستوار کر کے اُن کے ذریعے مجھ تک اپنی نیک خواہشات اور اپنی مجبوریاں پہنچانی شروع کر دیں کہ جیل کا انتظام چلانے کے لئے اور رنگ رنگ کے مجرمان کو قابو میں رکھنے کے لئے بعض اوقات سختی دکھانا کیوں ضروری ہو جاتا ہے۔

یعقوب صاحب ملاقات کے لئے جاتے تو مجھے جیل حکام کا پیغام پہنچاتے کہ سپرنٹنڈنٹ اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ صاحبان نے کہا ہے کہ یوسف رضا کو سمجھاؤ کہ اسے جیل میں لانے یا بند کروا کے رکھوانے میں ہمارا کوئی کردار نہیں۔ ہم تو محض مجبور اور عدالت کے بھجوائے ہوئے حوالاتیوں کے نگران اور میزبان ہیں بس۔ لہذا یوسف رضا کو کہو کہ اپنی مشکل کے دن یہاں ہمارے ڈسپلن کے ساتھ گذارے اور ہمارے ساتھ تعاون کرے اور اگر اُسے ذاتی طور پہ کوئی پریشانی ہو تو برائے راست ہمیں بتائے لیکن دوسرے مجرموں کے معاملات کے بارے میں ہم سے مت اُلجھا کرے۔

خیر، میرا اطمینان رہا کہ میرے شیخوپورہ جیل کے قیام کے باقی کے آٹھ ماہ کے دوران جیل حکام نے کسی حوالاتی پر کوئی خاص تشدد نہ کیا تھا اور مجھے بھی ریسٹ ہاؤس سہولیات کے ساتھ بی کلاس میں انتہائی تکرِیم کے ساتھ رکھا گیا۔

شیخوپورہ جیل کو پاکستان کی سخت ترین جیلوں میں سے ایک سمجھا جاتا تھا، لہذا وہاں کے جیلر اپنا دبدبہ قائم رکھنے کے لئے حوالاتیوں پر اکثر ناحق ظلم وتشدد بھی کرتے رہتے تھے۔
میرے ساتھ 302 کا ایک ملزم یاسین بھی تھا جس نے میرے کہنے پر 27 رمضان کو روضہ رکھ لیا تھا، لیکن عصر کے ٹائم نہ جانے کس کی شکایت پر جیل اسسٹنٹ بشیر نے یاسین کو باہر چکر میں بُلوا کر روزے کی حالت میں اُس پہ شدید تشدد کروایا۔
یاسین جب واپس چکی میں آیا تو تو اس کی کمر لہو لہان تھی جسے دیکھ کر میں آگ بگولا ہوگیا اور میں جیل حکام پر اتنا چیخا، چلایا کہ میں نے دھمکی دے ڈالی کہ خبردار اگر میرے ہوتے ہوئے جیل کے کسی بھی ملزم حوالاتی پر تشدد کیا گیا تو!
جیل میں قید اجنبیوں کے حق میں میری پکار اور دھمکی ایک ایک ملزم تک پہنچ گئی اور پوری جیل میں جب میرے بارے میں چرچا شروع ہوگیا تو جیل حکام مجھ سے سچی مُچی ڈر گئے، اور پھر میرے ہوتے ہوئے کسی ملزم پہ بھی جیل والوں کو ہاتھ اُٹھانے کی ہمت نہیں ہو پائی تھی۔
میں شیخوپورہ جیل کے حوالاتیوں کے تحفظ کی علامت بن گیا تھا، میں واقعی ایک بپھرے شیر اور چنگھاڑتے ہاتھی کی طرح جیل حکام کو وارننگ دیتا رہا کہ جب تک میں شیخوپورہ جیل میں موجود ہوں تو تب تک کسی بھی ملزم کو جیل انتظامیہ تشدد کا نشانہ نہیں بنا سکتی۔ میری یہ دھمکی واقعی کارگر ثابت ہوئی تھی۔ اور جیل سپرنٹینڈنٹ مجید قریشی صاحب مجھ سے خائف ہونے کے بجائے بہت زیادہ متاثر ہونے لگ گئے تھے، لہذا انہوں نے میرے الٹی میٹم کو انأ کا مسئلہ نہیں بنایا تھا بلکہ میری جُرأت کا اعتراف کرتے ہوئے اُنہوں نے واقعی جیل میں تشدد بند کروا دیا تھا!

ایک دن مجید قریشی صاحب معمول کے دورے پر میری چکی میں آئے تو میں نے اُنہیں کہا کہ آپ بھُٹو صاحب پہ انچارج رہے ہیں تو بھٹو صاحب نے کہا تھا کہ:
"اگر میں جانتا ہوتا کہ جیل سپرنٹینڈنٹ اتنا بااختیار ہوتا ہے تو۔۔۔۔۔۔۔"
"پھر میں وزیراعظم بننے کے بجائے جیل سپرنٹینڈنٹ بننا چاہتا!" مجید قریشی صاحب نے میرے پورا جملہ بولنے سے پہلے ہی باقی کا جملہ خود بول کر مکمل کر دیا!

جب سے میں مجید قریشی صاحب کی نظر میں آیا تھا پھر تو اُن کے ساتھ دوستانہ گپ شپ اور اُن کی اڈیالہ ڈیوٹی کے دوران بھُٹو صاحب کی اسیری پر بھی مکالمے بازی ہوتی رہی!

جیل سپرنٹنڈنٹ ہفتے میں عموماً دو بار جیل بارکوں کا دورہ کرتے ہیں۔ لہذا جب سے مجید قریشی صاحب نے اپنے خلاف لکھے ہوئے میرے خطوط پکڑے تھے اُس کے بعد سے وہ ہر دورے کے دوران شعوری یا لاشعوری طور پر میرا نام لے کر میرا حال چال پوچھتے اور برجستہ کوئی ایک آدھ جملہ بول جاتے۔
ایک بار جب مجھے بی بارک میں اُنہوں نے ٹوہری بنا کے رکھا ہوا تھا تو کہنے لگے "ہاں بئی، یوسف کذاب! کیا حال ہے آپ کا؟"
یہ سنتے ہی میں نے ہڑبڑا کے جواباً کہا:
"استغفراللہ، کی کہہ گئے او سر؟"
اِس پر وہ اِنتہائی شرمندہ ہوئے۔
اصل میں اُن دنوں نبوّت کے ایک جھُوٹے دعویدار یُوسف کا بہت چرچا تھا جسے یُوسف کذاب کہا جاتا تھا۔
قریشی صاحب روانی میں بلکہ اپنی طرف سے لاڈ کے ساتھ مجھے یوسف کذاب کہہ تو گئے لیکن فوراً ہی اُن کا اپنا رنگ بھی فَق ہو گیا اور وہ یہ سوچ کے بوکھلأ سے گئے کہ کس بندے کو وہ کیا کہہ بیٹھے تھے، کیونکہ اِس سے پہلے میں ایک دن اُونچی آوازیں لگا لگا کر ملاقات پہ آئے ہوئے اپنے چھوٹے بھائی حافظ یعقوب داتار صاحب کو ملاقات والے شیڈ میں بتا چکا تھا کہ مجید قریشی جھُوٹے نبی مرزا غلام احمد قادیانی کا پیروکار ہے۔

مجھے پہلے دن سے ہی پتہ چل گیا تھا کہ جیل سپرنٹنڈنٹ مجید قریشی صاحب قادیانی تھے۔ اور ایک بار میں نے ملاقات شیڈ میں یعقوب صاحب کو اِتنا زیادہ شور شرابے کے ساتھ بتایا کہ جیل سُپرنٹنڈنٹ قادیانی ہے لہذا اگر اِس نے میرے مطالبات نہ مانے تو تم باہر اِس کے خلاف تحریک چلا دینا، وغیرہ وغیرہ۔

ملاقات شیڈ میں ہنگامہ آرائی اور شور سُن کر اسسٹنٹ ملک مدثر اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ گوندل صاحب دوڑے چلے آئے اور مجھے ٹھنڈا کرنے، بلکہ منت سماجت کرنے میں لگ گئے!

اُس دن کا ملاقات شیڈ میں میرا وعظ سُن کر جیل حکام مجھ سے مزید الرٹ ہو گئے لیکن شاباش ہے ملک مجید قریشی صاحب کو کہ جنہوں نے جنگل کا بادشاہ ہوتے ہوئے بھی میرے بارے انتہائی تحمل، ضبط، حکمت اور ظرف سے کام لے کر مجھے نفسیات اور احتیاط کے اصولوں کے مطابق ڈِیل کیا۔

جیلر بلاشبہ جنگل کا بادشاہ ہوتا ہے اور مجید قریشی صاحب کا شیخوپورہ جیل اور اپنے محکمے پر پورا ہولڈ تھا۔ لیکن اُنہوں نے مجھ سے بُغض وعناد اور تعصب و انتقام کا رویہ اپنانے کے بجائے مجھے مطمئن کر کے رکھنے کا رویہ اپنایا تھا جس کی وجہ سے میں آج تاریخ کی عدالت میں اچھے الفاظ کے ساتھ گواہی دے رہا ہوں کہ مجید قریشی صاحب ایک بہترین پیشہ وارانہ مہارت کے جیلر تھے۔

جیل اصل میں اسسٹنٹ ہی چلاتے ہیں جو جیل کے اندر حوالاتیوں اور قیدیوں کے سروں پر سوار رہتے ہیں۔
میری خوش قسمتی کہ میرے شیخوپورہ جیل کے دوران اسسٹنٹ ملک مدثر بےحد تیز دماغ لیکن متحمل مزاج افسر تھا جو بخوبی جانتا تھا کہ جیل کیسے چلائی جاتی ہے۔
اور بھٹو صاحب کی بھی خوش قسمتی تھی کہ اُن کی اسیری کے زمانے میں مجید قریشی صاحب ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی میں اسسٹنٹ تھے اور اگرچہ تب تک 1973ء کے آئین کے مطابق بھٹو صاحب ہی کی وجہ سے مجید قریشی صاحب بھی غیر مُسلم قادیانی قرار دئیے جا چکے تھے لیکن اِس وجہ سے مجید قریشی صاحب نے نہ ایک قیدی کو کبھی کوئی طعنہ دیا، نہ شکوہ کیا، نہ کبھی اُن کے زوال کو مکافاتِ عمل یا مرزا غلام احمد قادیانی کی کوئی کرامت جتلایا، نہ بھٹو صاحب پہ کوئی سختی کی، نہ اپنی نفرت کا اظہار کیا اور نہ ہی بھٹو صاحب کی عزت میں کمی آنے دی۔ بلکہ اُلٹا بھٹو صاحب کو حوصلہ دیا کہ بھٹو صاحب آپ ایک لیجنڈ ہیں اور لیجنڈ کبھی مرتا نہیں بلکہ تاریخ میں زندہ رہتا ہے۔
بھٹو صاحب کی پھانسی کے برسوں بعد اپنے انٹرویوز میں بھی مجید قریشی صاحب نے بھٹو صاحب کی اسیری اور پھانسی کے واقعات کو دیانت داری کے ساتھ تاریخ کی عدالت میں ریکارڈ کروایا۔

مجید قریشی صاحب نے بطورِ اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی بھٹو صاحب کو آخری رات باوقار طریقے سے موت کو قبول کر کے تاریخ میں زندہ ہو جانے کے لئے اپنے نرم ترین الفاظ میں آمادہ کیا اور اُن کو کال کوٹھڑی سے نکال کر پھانسی گھاٹ تک لے جاتے ہوئے کہیں بھی اُن کے ساتھ نفرت یا سختی کا اظہار نہ کیا تھا۔

بھٹو صاحب کو پھانسی گھاٹ تک پہنچانے اور عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کرانے میں مجید قریشی صاحب کا کردار محض سرکاری ڈیوٹی سرانجام دینے والا تھا نہ کہ بھٹو صاحب کے ساتھ نفرت اور ذاتی انتقام والا۔

بھٹو صاحب پر ڈیوٹی پر معمور اسسٹنٹ مجید قریشی کے ذہن میں یقیناً یہ خیال کُلبلاتا تو رہا ہوگا کہ کل کا حاکم یہ وہی شخص ہے جس نے مجھے اور میری پوری جماعت احمدیہ کو ریاستِ پاکستان میں ایک جھُوٹے نبی کا پیروکار اور کافر قرار دیا تھا۔ لیکن بڑے بندے کا ظرف بھی بڑا ہوتا ہے، لہذا مجید قریشی صاحب نے قیدی بھُٹو کو ایک بار بھی ایسی کوئی بات نہیں جِتلائی تھی کہ بھُٹو صاحب آپ نے جس بندے کو کافر پاکستانی قرار دیا تھا آج آپ اُسی کے رحم و کرم پر اپنے ہی ملک کے دارالحکومت کی جیل میں اپنی موت کے دن گِن رہے ہیں۔

بلاشبہ میرے رُشحاتِ قلم، میری لکھی ہوئی جیل کے ابتدائی دنوں کی ڈائری اور جیل حکام کے خلاف سیشن جج کے نام میری وہ درخواستیں جو جیل والوں کے ہاتھ لگ گئی تھیں، اِتنی زوردار تھیں کہ جیل حُکام میرے قلم سے ڈر گئے تھے، ورنہ ویسے ہی کسی کو جیل میں خواہ مخواہ مامے خاں بننے یا دادا گیری دکھانے والے کو اِنتشاری قرار دے کر وہ وہاں تٌن (ڈَک) دیتے ہیں کہ بندہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر وہاں مر بھی جائے تو جیل حُکام اس کی پرواہ نہیں کرتے۔

آج برسوں بعد میں یہ اعتراف کرتا ہوں کہ 2004ء میں شیخوپورہ جیل کا اسسٹنٹ ملک مدثر بلا کا ماسٹر مائنڈ اور ماہرِ نفسیات تھا تو اُس وقت کے جیل سپرنٹنڈنٹ ملک مجید قریشی صاحب بے حد نفیس، زِیرک، درویش منش، سلیقہ مند اور صاحبِ مطالعہ لیکن انتہائی پروفیشنل جیل حاکم تھے جو بخوبی جانتے تھے کہ جیل کو کیسے چلایا اور یوسف رضا جیسے شَوشے یا سر پِھرے سوشل ورکر کو کیسے عزت و تکریم کے حربے سے رام کر کے رکھا جاتا ہے۔

اب آپ خود ہی یہ فیصلہ کریں کہ کیا ریاستِ پاکستان کے ایک قابل ترین افسر کے ساتھ محض اس وجہ سے میں نفرت کا اظہار کرتے ہوئے حق بجانب ٹھہرایا جا سکتا ہوں کہ مجید قریشی صاحب تو قادیانی تھے لہذا شخصی اوصاف اور انتظامی صلاحیتوں کے باوجود وہ پاکستانی مسلمانوں کی نفرت کے حقدار ہیں؟؟؟

ویسے آپس کی بات ہے کہ بھُٹو صاحب کو پھانسی مجید قریشی نے نہیں بلکہ ایک امیرُالمؤمنین جنرل ضیأالحق شہید نے دی تھی۔

جنرل ضیأالحق بزُعمِ خود ایک سچے مسلمان جرنیل تھے جو بھُٹو صاحب کو ہٹا کر خود سیاہ و سفید کے مالک بن گئے تھے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس فرقے کو بھٹو صاحب نے ہی پاکستان میں کافر قرار دے دیا تھا تو اُسی بھُٹو پر امیرُالمؤمنین نے مُجید قریشی قادیانی کو ہی کیوں جیل افسر لگایا تھا اور مجاہدِ اسلام جنرل ضیأ نے یہ سعادت ایک قادیانی کو ہی کیوں بخشی تھی کہ وہ اُن کی زندگی کی آخری رات اُن کے ہاتھ پاؤں باندھ کر، اُن کو سٹریچر پر لِٹا کر، اُن کے گلے میں پھندا ڈال کر اُن کو پھانسی اپنے ہاتھوں سے لگوائے؟؟؟

لیکن اِس کے باوجود مُجید قریشی صاحب نے شخصی طور پر بھٹو صاحب کے ساتھ کوئی بُرا سلوک نہیں کیا تھا۔

ریٹائرمنٹ کے بعد مجید قریشی صاحب نے سپریم کورٹ کے وکیل کی حیثیت سے اسلام آباد میں پریکٹس شروع کر دی تھی اور حسرت ہی رہی کہ ایک لائق فائق جیلر سے بعد میں بھی ایک ملاقات ہوجاتی۔
اور مجھے یقین ہے کہ اُنہیں بھی "مارگُزیدۂِ سِکھنی" اب تک یاد ہو گا کہ کوئی یوسف رضا بھی اُن کے پاس دس ماہ رہ کے گیا تھا۔

آخر پہ یہ بھی بتا دوں کہ تب ننکانہ صاحب کو الگ سے ضلع نہیں بنایا گیا تھا بلکہ ننکانہ صاحب ضلع شیخوپورہ کی ایک تحصیل تھی، اور شیخوپورہ کے بارے میں کہاوت مشہور تھی کہ:
"ایک ہاتھ میں قرآن، دوسرے ہاتھ میں چھُرا،
شیخوپورہ سب سے بُرا"

یعنی یہ لوگ مسلمان تو ہو گئے لیکن پاکستان میں کسی زمانے میں جرائم کی سب سے زیادہ شرح ضلع شیخوپورہ میں ہوتی تھی (بشمول ننکانہ صاحب)!

بابا وارث شاہ، گُرو نانک دیو جی اور میاں شیر محمد شرقپوری رحمتہ اللہ علیہ کی دھرتی اخلاقی لحاظ سے آج بھی اتنی ہی بنجر ہے کہ جرائم، لڑائی جھگڑے، قتل و غارت، وارداتیں، چوریاں، ڈکیٹیاں، کار لِفٹِنگ، ذات پات، جاگیرداری، راجپوتوں کا تسلط اور بے رحمانہ اُونچ نیچ، سماجی تفریق اور بدلے کی آگ اِن اضلاع میں تھوہر کی فصل کی طرح لوگوں کے دماغوں میں اُگتی ہے!

شیخوپورہ جیل میں خطرناک ترین جرائم میں ملوّث قیدی موجود رہتے ہیں۔ اور ایسی سخت جیل کو کامیابی کے ساتھ چلانے والے مجید قریشی صاحب اور اُن کے اُس وقت کے اسسٹنٹ جیل ملک مدثر صاحب کو ڈھیروں سلام!

مجید قریشی صاحب کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا اعتراف نہ کرنا بدترین بد دیانتی ہوتی۔
اور میں جو آج اتنا کُندن بنا ہوا ہوں تو اِس کی وجہ شیخوپورہ جیل کی بھٹی بھی ہو سکتی ہے!

میں 2004ء میں دس ماہ شیخوپورہ جیل میں پاکستانی سکھوں اور پاکستانی ایجنسیوں کی وجہ سے ناحق قید رہا اور اُس جھوٹے کیس سے بری بھی ہوا۔

اپنے دس ماہ کی اسیری کے شب و روز کی یاد داشتیں میں مرنے سے پہلے ضرور چھپواؤں گا تو آج کا موضوع (ایک قادیانی جیلر مجید قریشی) مزید وضاحت سے آپ کو پڑھنے کو مل جائے گا، ان شأ اللہ، اور ساتھ وہ داستان بھی جس کے سبب پاکستان میں موجود سکھوں کی بدولت کیسے مجھے اپنی اُلفت سے محروم ہونا پڑا اور کیسے اُس وقت کے انٹیلی جنس بیورو ضلع شیخوپورہ کے انچارج ملک اشرف اعوان اور ننکانہ صاحب کے ان انچارج رانا افضل نے ننکانہ کے سکھوں کا رانجھا راضی کرنے کی خاطر میری مسلمان بیوی کو واپس انڈیا بھیج کر مُجھ پر دباؤ ڈالے رکھا کہ میں پنکی کو طلاق دے دوں۔ لیکن میں نے جب اُن کا مطالبہ پورا نہ کیا تو پھر اُنہوں نے مجھے دس ماہ اس لئے جیل میں رکھوائے رکھا کہ نہ میں آزاد ہوں گا اور نہ سُکھجِندر پنکی کو پھر سے حاصل کرنے کی کوشش کروں گا۔

انڈیا جاکر وہ بھی بدل گئی تھی اور پھر 2006ء میں فریدکوٹ شہر کے ایک اِنڈین سِکھ کھتری مُنڈے کے ساتھ بیاہ رچأ کے کینیڈا سیٹل ہو گئی تھی!

تیری اُلفت میں صنم، دل نے بہت درد سہے،
مگر "ہم" چپ نہ رہے!!!

2)۔
پنکی جب واپس انڈیا پہنچی تو وہاں بھی ہماری اِس کہانی میں ایک قادیانی آ گیا جو میرے لئے بدترین کردار ثابت ہوا۔
اُس کا نام تھا احمد مقبول اور وہ خاص قادیان کا رہائشی اور کٹر قسم کا مِشنری مرزائی تھا۔

احمد مقبول نے فیصل آباد، پاکستان کی ایک قادیانی لڑکی طاہرہ کے ساتھ ٹیلی فون پر نکاح کرکے قادیان کے لئے اُس کا ویزہ اپلائی کیا تو اِسی دوران انڈین پارلیمنٹ پر اٹیک ہو گیا جس کی وجہ سے تین سال تک انڈیا۔پاکستان کے سفارتی تعلقات منقطع رہے اور دونوں ملکوں میں آوا جائی بالکل بند ہوگئی۔

احمد مقبول کا چونکہ صحافت کے ساتھ بھی کچھ تعلق تھا تو اُس نے اپنی بیوی کو بھارتی ویزہ نہ ملنے کے معاملے کو اتنا اُچھالا کہ انڈیا نے کشیدہ حالات کے باوجود طاہرہ مقبول کو ویزہ جاری کر دیا جو واہگہ کے راستے جب بھارت پہنچی تو انڈیا، پاکستان کے میڈیا میں یہ واقعہ بہت ہائی لائٹ ہوا۔

یہ وہ دن تھے جب میری بھارتی بیوی سُکھجِندر کور پنکی عُرف اُلفت رضا بھی پاکستان کا ویزہ حاصل کرنے کے لئے بہت زیادہ کوشش کر رہی تھی تاکہ وہ میرے پاس پہنچ سکے۔
لہذا احمد مقبول کی بیوی کے پاکستان سے بھارت پہنچنے پر میری بیوی نے بھٹنڈہ سے احمد مقبول کی بیوی طاہرہ کو قادیان میں مُبارکباد کا خط لکھ دیا اور ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ وہ بھی پاکستان آنے کے لئے ترس رہی ہے۔
اِس پر احمد مقبول نے اُسے گائیڈ کیا کہ کیسے اُسے جلد پاکستان کا ویزہ مل سکتا تھا۔

خیر، ننکانہ سے جب پنکی واپس انڈیا پہنچی تو کچھ عرصے بعد احمد مقبول کو پتہ چل گیا کہ پنکی اور یوسف ہمیشہ کے لئے جُدا ہو گئے ہیں اور اب دونوں کے دوبارہ مل پانے کے کوئی امکانات نہیں رہے تو اُس کی فطری پاکستان دشمنی کھُل کر سامنے آگئی اور اُس نے میرے خلاف پنکی کے سابقہ شوہر کی حیثیت سے انڈین میڈیا میں کچھ ایسی خبریں لگوائیں کہ "ایم ایم اے کا لیڈر سُکھجِندر پنکی کو دوبارہ پانے کی خاطر اسلام چھوڑ کر سِکھ ہو گیا ہے!"

احمد مقبول قادیانی نے نہ صرف یہ کہ میرے خلاف خبریں لگوائیں بلکہ وہ خبریں (اخباری تراشے) پاکستان میں متحدہ مجلسِ عمل کے لیڈروں قاضی حسین احمد، مولانا فضل الرحمٰن، علامہ ساجد نقوی، پروفیسر ساجد میر، صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر اور مولانا سمیع الحق صاحب کو پوسٹ کر کے ساتھ یہ لکھا کہ"آپ کا اسمبلی اُمیدوار مُرتد ہو گیا ہے، لہذا شرعی سزا کے مطابق اِس کو قتل کر دیا جائے!"

میں نے اکتوبر 2002ء میں چونکہ ایم ایم اے کے ٹکٹ پر جہلم کے حلقہ نمبر پی پی 25 سے پنجاب اسمبلی کا الیکشن لڑا ہوا تھا لہذا احمد مقبول قادیانی نے قادیان سے پاکستان خطوط پوسٹ کر کر کے مجھے یہاں پر مروانے کی اپنی پوری کوشش کی۔
وجہ یہ تھی کہ میرے سسر سے اُس نے پیسے لئے تھے کہ وہ یوسف سے پنکی کا پیچھا چھُڑا دے گا۔

اُن دنوں میں جمعیت علمأ پاکستان (JUP-Noorani) ضلع جہلم کا جنرل سیکرٹری اور متحدہ مجلس عمل (MMA) ضلع جہلم کا جوائنٹ سیکرٹری تھا۔
لہذا ایم ایم اے کے مرکز کی طرف سے میرے خلاف جماعتِ اسلامی جہلم کے دفتر میں انکوائری آئی تو میرے لئے یہ پریشان کُن مرحلہ تھا۔
دوسری طرف سُکھجِندر پنکی کے ساتھ اُس کا خاندان میرا رابطہ نہیں ہونے دے رہا تھا کہ میں کچھ جان سکتا کہ یہ سب پراپیگنڈہ کون اور کیوں کروا رہا تھا۔

اُنہی دنوں ہمارے سوبر دوست میاں افتخار احمد رضا صاحب امریکہ سے پاکستان آئے ہوئے تھے، لہذا میں نے اپنی پریشانی اُنہیں اُن کے گاؤں چک شیر محمد، نزد ڈنگہ، ضلع منڈی بہاؤالدین جاکر بتائی تو میاں صاحب میرے ساتھ جماعت اسلامی کے ضلعی دفتر مسجد قوّتِ اسلام جہلم شہر تشریف لائے جہاں ایم ایم اے کا بھی ضلعی دفتر واقع تھا۔

میاں افتخار احمد رضا صاحب نے گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج جہلم سے ہی تعلیم حاصل کی تھی۔ اپنے کالج کے وہ سٹوڈنٹ یونین کے نائب صدر اور ہماری تنظیم انجمن طلبأ اسلام (ATI) کے ضلع جہلم کے ناظم بھی رہے تھے، لہذا اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی ضلع جہلم والے اُنہیں زمانہ طالب علمی سے چونکہ جانتے تھے، لہذا احمد مقبول کی انکوائری والا معاملہ میاں افتخار احمد رضا صاحب کی بدولت حل ہوگیا۔
ویسے بھی جماعتِ اسلامی پاکستان کے اکابرین بڑے تدبّر اور فراست والے لوگ ہوتے ہیں، لہذا اُنہوں نے میرے بارے قادیان سے آئے ہوئے خطوط کو اہلسنت کے ایک بندے، گھرانے یا جماعت کے خلاف پراپیگنڈے کے لئے استعمال نہیں کیا تھا۔
غالباً یہ 2005ء کا معاملہ تھا۔
اُسی سال میاں افتخار احمد رضا صاحب کے والدِ گرامی کی رحلت بھی ہوئی تھی اور وہ پاکستان آئے ہوئے تھے۔
@⁨Spain Mian Iftikhar Ahmed Raza⁩

یہ ساری رام کہانی لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ میری پریم کہانی میں جس پاکستانی قادیانی مجید قریشی صاحب کا جتنا ذکر تھا اُسے بھی ریکارڈ پر لایا جائے اور جس بھارتی قادیانی احمد مقبول نے ہم دونوں میاں بیوی کو ہمیشہ کے لئے جُدا کر دینے میں جتنا گھناؤنا کردار ادا کیا تھا، اُسے بھی تاریخ کے حوالے کیا جائے!

بلاشبہ پاکستان میں بڑے بڑے رئیس، امیر، چودھری، جاگیردار، سرمایہ دار، وُکلأ، سرکاری ملازم، بیوروکریٹ، سول سوسائٹی کے لوگ، بڑی بڑی برادریوں والے، بڑے بڑے ناموں والے لوگ قادیانی ہیں اور اپنے مذہب پر وہ اُسی طرح کاربند ہیں جس طرح دوسرے دھرموں کے ماننے والے وہ لوگ جنہیں اپنا اپنا مذہب اپنے ماں باپ اور آباؤ اجداد سے ورثے میں ملا ہوتا ہے۔

ضلع گجرات کے ہمارے شہر کھاریاں کے قیمتی رقبوں کے مالک قادیانی ہیں۔ اسی طرح تحصیل کھاریاں کے کئی دیہاتوں کے بااثر زمیندار، برادریوں والے قبیلے قادیانی ہیں۔ شیخوپورہ، فیصل آباد، گوجرانوالہ ڈویژن سمیت ملک کے کئی علاقوں اور شہروں میں بھی قادیانی ایک جماعت کے طور پہ موجود ہیں۔ میرے اپنے شہر اور ضلع جہلم میں بھی کافی تعداد میں قادیانی آباد ہیں۔
کھاریاں کے نواح میں میرے اپنے ننھیالی گاؤں بوریانوالی میں بھی طاقتور گجر زمیندار برادریاں، حتیٰ کہ میری اپنی چوہان گوت کے زمیندار بھی قادیانیت سے وابستہ چلے آ رہے ہیں۔
شروع میں سب کا قبرستان ایک ہی تھا لیکن اب افہام و تفہیم سے دونوں دھڑوں نے پرانے مشترکہ قبرستان میں حد بندی کرلی ہوئی ہے اور اب قادیانی اور مسلمان اپنے اپنے حصے میں ہی اپنے اپنے پیاروں کو دفنا لیتے ہیں۔
تاہم بوریانوالی گاؤں میں ایک دوسرے کا سماجی بائیکاٹ بالکل بھی نہیں ہے اور خوشی، غمی اور دنیاوی معاملات میں سب ایک دوسرے کے ساتھ جُڑے رہتے ہیں۔

لہذا پاکستان کا آئین اگرچہ قادیانیوں کو غیرمُسلم قرار دے چکا ہے لیکن اپنے طور پہ وہ خود کو ہی پکے مسلمان سمجھے ہوئے ہیں اور لامحالہ اپنی سماجی، کاروباری اور سیاسی حیثیت کو استعمال کرتے ہوئے ابھی بھی اُن کی پوری کوشش ہے کہ اُنہیں پاکستان میں اسلام کا ہی ایک فرقہ پھر سے مان کر بھُٹو کے بنائے ہوئے آئینِ پاکستان سے قادیانیوں کے نان مُسلم ہونے کی شق نکال دی جائے۔
لیکن ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ ایسا نہیں ہونا چاہئیے کیونکہ قادیانی کوئی مسلک نہیں بلکہ اپنا ایک الگ نبی رکھنے والا مذہب ہے!
تاہم ایک اقلیت کے طور پر پاکستان کے قادیانیوں کے جان و مال اور شہری حقوق بھی محفوظ رہنے چاہئیں اور مجید قریشی صاحب کی طرح کے جو قادیانی شخصی اعتبار سے اچھے اخلاق والے اور ذمہ دار شہری ہوں، اُن کی تعریف بھی کی جانی چاہئے۔
آپ کسی فرد کو اُس کے اچھے اور ذمہ دارانہ رویے کے باوجود محض اُس کے مذہب یا جماعت کی وجہ سے اپنی نفرت کی بھینٹ نہیں چڑھا سکتے۔

تاہم میری زندگی میں آنے والے دوسرے قادیانی احمد مقبول جو ہندوستانی شہری اور انڈین پنجاب کا ایک صحافی بھی تھا، نے محض میرے پاکستانی شہری ہونے کی وجہ سے میری شہرت کو جس طرح داغدار کر کے میری ازدواجی زندگی میں زہر گھولا، اس سے یہ بات بہرحال ثابت ہو جاتی ہے کہ اُن کے مرکز قادیان سے اور اُن کی جماعتِ احمدیہ کی طرف سے ریاستِ پاکستان اور مسلمانانِ پاکستان کے خلاف شدید نفرت اور سازشیں کی جاتی ہیں۔

احمد مقبول ساکن قادیان، پنجاب، ہندوستان نے میرے کچھ سکھ دوستوں کو فون کرکر کے پاکستان اور پاکستانیوں کے خلاف ناقابل اشاعت زبان استعمال کی جس سے ثابت ہوا کہ بطورِ احمدیہ جماعت، دنیا بھر کے قادیانی ریاستِ پاکستان کے اس لئے خلاف ہیں کیونکہ اُنہیں پاکستان میں مسلمان نہیں مانا جاتا۔

مزید تفصیل مرنے سے پہلے اپنی کتاب میں بیان کروں گا، ان شأ اللہ

✍️
رائے یوسف رضا دھنیالہ،
جہلم۔ پنجاب۔ پاکستان۔
03022844632

Address

Gujrat

Telephone

+923022844632

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Pind Karnana, Tehsil Kharian, Zillah Gujrat, Punjab posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share


Other News & Media Websites in Gujrat

Show All