Daily Jang Employees

Daily Jang Employees This social media page belongs to the contract employees of Jang Rawalpindi who have been affected by the organization victam employees iuse

11/07/2024

Tensions flare as PTI lawyers take to the streets in a fiery protest! This video captures the intensity of their chants, "Wahi Howa Jess Ka Dar Tha" (That wa...

20/11/2023

عاصمہ اقبال کے معاملہ پر صحافتی تنظیمیں چپ کیوں ہیں؟

پی ٹی وی پر ہونے والی حماقتوں کا شکار عاصمہ اقبال کیوں بنیں ؟
عاصمہ ایک پروفیشنل صحافی ہیں پی ٹی وی میں ان کے پروگرام دنیا کے ساتھ میں ایک متنازعہ سوال پر بیک جنبش قلم ان کا روزگار چھین لیا گیا اس نوجوان صحافی اور اینکر کے پورے کئریر پر مٹی ڈال دی گئی اور صحافتی تنظیموں کو اس معاملہ میں نہ جانے کیوں سانپ سونگھ گیا ایک پر حملہ سب پر حملہ کے نعرے کہاں گم ہو گئے
کیا کسی نے پوچھا کہ وہ متنازعہ سوال کس نے اینکر کو لکھ کر دیا ؟کیا تحقیقات ہوئیں کہ ایک ریکارڈد پروگرام میں اگر ایسا سوال ہو بھی گیا تھا تو اس پروگرام کو آن ائیر کرنے کی منظوری کس نے اور کیوں دی؟
یہ سوال صرف عاصمہ اقبال کرتیں تو بات بھی تھی پی ٹی وی کے مارننگ شو میں بھی اس جیسا سوال کیوں دوہرایا گیا جس کا واضح مطلب ہے اس بیانیے کے سوال کسی ایک بدبودار ذہنیت کی اختراع تھے اور دباؤ ڈال کر یہ سوال کروائے گئے
ایک ہی معاملہ میں ریڈیو پاکستان اور پھر پی ٹی وی کی خوفناک غلطیوں کا بوجھ عام کارکنان پر ڈال کر کیا مرتضی سولنگی اینڈ کمپنی اپنا دامن جھاڑ کر صاف نکلنے کے چکر میں ہے
عاصمہ اقبال مفادی صحافتی تنظیمیں شاید اپنا الو سیدھا کرنے کیلئے ان بااثر لوگوں کی رکھیل بن چکی ہیں لیکن ہم آپ کے ساتھ ہیں ہم اس وقت تک آواز اٹھاتے رہیں گے جب تک قومی نشریاتی اداروں کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرکے ملک کی جگ ہنسائی کا سبب بننے والے اصلی مکروہ کردار کٹہرے میں نہیں آتے

20/11/2023
20/11/2023

روزنامہ جنگ لاہور کے گروپ ایڈیٹر کا میر شکیل الرحمن کے ظلم و جبر کی کار ستانی سناتے ہوئے اور ورکنک جرنلسٹ کے ساتھ ناروا سلوک کو جس انداز میں کھل کر بیان کیا ان کی عظمت کو سلام اور ورکنک ساتھیوں کے لئے پہلا ایڈیٹر روزنامہ جنگ گروپ کا دیکھا جو اپنے ساتھیوں کی آواز بنا اور جنگ گروپ کے ہر اسٹیشن کے ملازمین کو چاہیے وہ بھی ان کا بازو بن کر ان کے شانہ نشانہ چلے وگرنہ اس گروپ میں جی حضور ایڈیٹر کی لمبی فہرست ہے

14/09/2023

پاکستان کا سب سے بڑا میڈیا ٹائی ٹینک کا دعوی دار اخبار چھ صحفات کر کہ ملازمین کے فاقہ کشی کی تیاری کر چکا ہے اتوار کو صحفات بڑھا کر اشتہاری ہدف حاصل رہے گا

08/09/2023

9 ستمبر بروز ہفتہ روزنامہ جنگ راولپنڈی کے ملازمین اپنے معاشی حقوق کے لئے مظاہرہ کرینگے اب دیکھنا یہ ہے سوشل میڈیا لیڈر شپ مظاہرے میں عملی شامل ہو گے یا نہیں?

06/09/2023

پوچھنا یہ تھا میڈیا انڈسٹری ٹی وی چینل اور اخبارات میں حکومت کے کم ازکم ویجز کب عمل درآمد ہو گا یونین لیڈر کچھ کرینگے یا ملازمین کو خود ہی حق کے لڑنا ہوگا

01/09/2023

جنگ اور جیو جینے دو کا جھوٹے دعوے کہ اس ملک کے سب سے بڑے اخبار اور ٹی وی چینل کا دعوی کرنے والے مالک نے اپنے ملازمین کو پچھلے دس سال سے نہ تو تنخواہ بڑھائی اور نہ ہی اس آئے روز بڑھتی مہنگائی کے طوفان کو مد نظر رکھتے ہوئے کم ازکم ویجز پر بھی عمل درآمد نہیں کیا آج تک وہی حکومت سے مالی حالت بتا کر 35 فی صد اشتہارات کی مد میں اضافہ بھی کرا لیا لیکن ملازمین کو کم ازکم تنخواہ دینے پر بھی خاموشی اختیار کر رکھی ہے وہی صحافتی یونین بھی اپنے مزدور کے درد کو سمجھتے ہوئے خاموش ہیں چلے اب ان کا زندہ رہینا تو مشکل ہو گیا مرنے پر شور شرابی کر کہ حکومتوں سے مالکان کے لئے کوئی فائدہ ہی حاصل کر لیا جائے وہی اس اسلامی جمہیوریہ حکومت کی بے غیرتی اس نے میڈیا مالکان کو سہولت دینے کے لئے تو ہر وہ قانون پر عمل درآمد کرایا جس میں مالکان کو فائدہ حاصل ہو لیکن صحافی مزدور کے لیے کسی قانون پر سختی سے عمل درآمد نہیں پاکستان کے یتیم اور مجبور لاغر انصاف کی پیروکار عدالتوں کے حوالے کردیا جو انہی مالکان اور حکومت کے مر ہون منت ہے افسوس اس ملک کے نظام پر اور افسوس ان ملازمین پر وہ مرنے کو تیار ہیں لیکن ان کے خلاف کھڑے ہونے کو تیار نہیں

01/05/2023

وزیر اعظم نےNIRC میں آٹھ ممبران کےتقرر کی منظوری دیدی
وزارت سمندر پار پاکستانیز نے قومی صنعتی تعلقات کمیشن کے ارکان کی تقرری کا باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا
اسلام آ باد ( جنگ نیوز)وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کابینہ کی مشاورت کے بعد مزدوروں کے عالمی دن کے موقع پر قومی صنعتی تعلقات کمیشن (این آئی آر سی) میں 8 ممبران کی تقرری کی منظوری دے دی۔ جس کا وزارت سمندر پار پاکستانیز و انسانی وسائل کی ترقی نے باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا ۔جار ی نوٹیفکیشن کے مطابق وزارت سمندر پار پاکستانیز و انسانی وسائل کی ترقی نے کمیشن کی خالی آسامیوں پر تقرری کے لیے نامزدگیوں کے پینل پر مشتمل سمری کابینہ کو پیش کی ، وفاقی کابینہ نے وزارت کی تجویز پر ان آسامیوں پر فوری طور پر اپنے فیصلے کیس نمبر 223/رول-19/2023 ، 30 اپریل 2023 کے ذریعے سید نور الحسنین (ریٹائرڈ سول سرونٹ)، عبدالقیوم (ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج)، سہیل اکرم (ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج)، محمد زبیر خان (ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج)، شبیر حسین اعوان (ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج)، محمد سراج الاسلام خان (ایڈووکیٹ)، عبدالغنی (ایڈووکیٹ)اور منور حسین طوری (ایڈووکیٹ)کو این آئی آر سی میں ممبران کے طور پر تعینات کرنے کی منظوری دیدی۔ وزارت نے کابینہ کے فیصلے کی تعمیل کرتے ہوئے اس کے مطابق اراکین کی تقرری کا باضابطہ نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا ۔

30/04/2023
مکان برائے فروخت6مرلہ رجسٹری (موقع پر ساڑھے 6مرلہ) ڈبل سٹوری 6 کشادہ بیڈ روم 2 ڈرائنگ روم مع سب اٹیچ باتھ 2 کچن 2 ٹی وی ...
30/04/2023

مکان برائے فروخت
6مرلہ رجسٹری (موقع پر ساڑھے 6مرلہ) ڈبل سٹوری 6 کشادہ بیڈ روم 2 ڈرائنگ روم مع سب اٹیچ باتھ 2 کچن 2 ٹی وی لاونج
گیس بجلی پانی (سپلائی لائن)
مدینہ ٹاؤن کھنہ ایسٹ اسلام آباد
ڈیمانڈ 1.60

30/04/2023

یکم مئی ہر سال پوری دنیا میں زوروشور سے منایا جاتا ہے
کسی بھی معاشرے میں ورکرز کا کردار ہمیشہ بہت اہم رھا ہے۔ھاتھ سے کام کرنے والے کو جس کو اللہ کا دوست قرار دیا گیا ہے معاشی ترقی میں انتہائی اہم مقام حاصل ہے انسانی ترقی کے ساتھ ساتھ ورکرز کی فلاح ورکرز بہبود کیلئے مختلف ممالک میں قانون سازی کے ذریعے ورکرز کو بہتر مراعات دی جاتی رہی ہیں تاکہ انکا معیار زندگی بہتر ھو سکے
حکومت پاکستان اور صوبائی حکومتوں کے مختلف ادارے ورکرز کی فلاح کے لیے کام کر رہے ہیں ورکرز کی پنشن، علاج معالجہ، اوقات کار اور کم از کم اجرت کے علاوہ بچوں کی تعلیم اور شادی میں امداد جیسے قوانین موجود ہیں جس سے ورکرز مستفید ہوتے ہیں، ان قوانین میں کافی بہتری لائی گئی ہے اور مزید بہتری کے لیے حکومت کوشش کر رہی ہے۔ ورکرز کی تنظیمیں اور ورکرز یونینوں کا اس سلسلے میں بڑا اہم کردار رہا ہے
موجودہ دور میں ایک اور پہلو جس پر اب زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے وہ ورکرز کی تعلیم و تربیت اور آگاہی کا سلسلہ ھے عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ ھمارے ورکرز بہت اچھے کاریگر، بہت اعلی مستری، اور بہت محنتی ہونے کے باوجود اچھی بول چال، احساس ذمہ داری، اور ملکر کام کرنے کی صلاحیت میں کمی کا شکار ہیں۔ صفائی ستھرائی، مناسب لباس کا استعمال،کام کے دوران بات چیت کا انداز اس بیین الاقوامی معیار کے مطابق نہیں ہے جو درکار ھونا چاہیے۔ مزید برآں ھمارے ورکرز سوشل میڈیا کے استعمال اور جنسی ھراسیت جیسے قوانین سے نابلد ھیں۔ اس سلسلے میں حکومت پاکستان کے ادارے ڈائریکٹوریٹ آف ورکرز ایجوکیشن نے اپنا کردار ادا کیا ہے اور اسکو مزید با مقصد جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔اس سلسلے میں اندرون ملک کام کرنے والے ورکرز کے لیے سافٹ سکلز کی تربیت کا اہتمام ضروری ہے جس طرح حکومتی افسران اور اہلکاروں کے لیے لازمی تربیتی کورس موجود ہیں اسی طرح ورکرز کی تربیت کے لئے قانون سازی کی ضرورت ہے تاکہ کسی بھی صنعت یا فیکٹری کے کم از کم کچھ لوگ سالانہ لازمی تربیتی کورس کر سکیں۔
بیرون ملک روانہ ھونا والے ورکرز کے لیے ایسی تربیت بہت ضروری ہے جس میں وہ وہاں کی مقامی زبان سے آشنائی، مقامی لیبر قوانین سے آگاہی اور اچھے اخلاقی کردار کی تربیت بہت اہم ہے اس کے علاوہ وقت کی پابندی، مناسب لباس، اور ساتھی کارکنوں سے اچھا برتاو اور حسن سلوک بہت اہم ہیں چونکہ بیرون ملک پاکستانی ورکرز کا وھاں مقابلہ اور موازنہ مختلف قومیتوں کے ورکرز سےھوتا ہے اور انہیں پاکستان کا ایک اچھا اور روشن تشخص اجاگر کرنا ہے۔ورکر ایک بہت بڑا اثاثہ ہے اور اسکی قدروعزت بہت ضروری ہے
رائے محمد اکبر ڈائریکٹر ڈائریکٹوریٹ آف ورکرز ایجوکیشن وزارت بیرون ملک پاکستانی اور ترقی انسانی وسائل

ایک فتویٰ جس نے مسلم تہذیب کو جہالت کے کفن میں لپیٹ کر رکھ دیا.... پرنٹنگ مشین جرمنی کے ایک سنار گوتنبرگ نے 1455 میں ایج...
26/04/2023

ایک فتویٰ جس نے مسلم تہذیب کو جہالت کے کفن میں لپیٹ کر رکھ دیا....

پرنٹنگ مشین جرمنی کے ایک سنار گوتنبرگ نے 1455 میں ایجاد کی. اسوقت مسلم تہذیب تاریخی عروج پر تھی. عثمانی خلافت کی عظیم سلطنت ایشیا میں شام عراق ایران آرمینیا آذربائیجان اردن سعودی عرب یمن مصر تیونس لیبیا مراکو تک اور یورپ میں یونان روم بوسنیا بلغاریہ رومانیہ اسٹونیا ہنگری پولینڈ آسٹریا کریمیا تک پھیلی ہوئی تھی.

مذہبی علما نے فتوی دیدیا کہ پرنٹنگ مشین بدعت ہے اس پر قران اور اسلامی کتابوں کا چھاپنا حرام ہے. عثمانی خلیفہ سلطان سلیم اول نے پرنٹنگ مشین کے استعمال پر موت کی سزا کا فرمان جاری کر دیا. مسلم ممالک پر یہ پابندی 362 سال برقرار رہی. ہاتھ سے لکھے نسخے چھاپہ خانے کا مقابلہ کیسے کرتے..!؟
کتابوں رسالوں کی فراوانی نے مغرب کو جدید علوم کا سمندر اور مسلم تہذیب کو بنجر سوچ کے جوہڑ میں تبدیل کر دیا. جاگے تو فکری بینائی کھو چکی تھی.

آخر 1817 میں فتوی اٹھا لیا گیا. لیکن ان پونے چار سو سال کی پابندی نے مسلم تہذیب کو عقیدوں کا ذہنی غلام بنا دیا. از خود سوچنے کی صلاحیت سے محروم کر دیا. یہ فاصلہ آج تک نہ صرف برقرار ہے بلکہ مزید بڑھتا جا رہا ہے. مقام حیرت ہے کہ مسلمانوں کو اس تہذیبی زیاں پر ملال بھی نہیں، نہ ہی یہ تاریخ نصاب میں پڑھائی جاتی ہے کہ نئی نسل سابقہ غلطیوں سے سبق سیکھ سکے.

یہ ہماری تاریخ میں کیا جانے والا ایک ظلم تھا، اور اس بارے میں موجودہ نسل کو ذرا بھی معلومات نہیں ہونگی...
یہ کوئی ایک فتویٰ نہیں تھا سائنس کی ہر ایجادات پر اسی طرح فتویٰ جاری کیے گئے ہیں اور بعد میں اسی سے فائدہ اٹھانے والوں میں بھی سب سے آگے ہوتے ہیں...
مسلمانوں کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ جدیدیت Modernization کے اصولوں کو چھوڑ کر روایت پسندی Traditionalism جیسی لعنت کو گلے سے لگا لیا اور نہ روکنے والے زوال کی ایک وجہ یہ بھی ہے کے ہم نے آسانیاں تقسیم کرنے کے بجائے مشکلات سے لڑنے کا فن سیکھ لیا ہے

18/04/2023

بلآآخر مافیا کو بے نقاب کرنے کیلئے نوز زمان صاحب نے ٹھان لی اور میڈیا ورکرز سمیت پاکستان بھر کے انڈسٹری سے وابستہ ملازمین میں خوشی کی لہر دوڑ گئی
اللہ پاک نور زمان صاحب کو ہر مشکل اس مافیا کے سامنے کامیابی نصیب ہو

اسلام آباد ہائیکورٹ ،NIRC کے ممبر نور زمان کی برطرفی کا حکم معطل
فریقین کو 20 اپریل تک جواب جمع کرانیکا حکم،اٹارنی جنرل ،کریم کنڈی،حافظ عرفات ایڈووکیٹ عدالتی معاون مقرر
اسلام آباد () اسلام آباد ہائیکورٹ نے نیشنل انڈسٹریل ریلیشنز کمیشن کے ممبر نور زمان کی برطرفی کا حکم معطل کر دیا ہے۔ گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ممبر این آئی آر سی نور زمان کی درخواست پر سماعت کے جاری 7 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ میں اٹارنی جنرل سمیت سینئر وکلا افنان کریم کنڈی اور حافظ عرفات کو عدالتی معاون مقرر کرتے ہوئے 20 اپریل کیلئے نوٹس جاری کر دئیے ہیں۔ عدالت کاکہناہے کہ بادی النظر میں برطرفی کا نوٹیفکیشن کر کے درخواست گزار کو اپنے کام سے روکا گیا ، 11اپریل کو وفاقی کابینہ نے نور زمان کے بطور برطرفی کی منظوری دی ، وزارت اورسیز پاکستانیز نے 11 اپریل کو برطرفی نوٹیفکیشن جاری کیا ، اس سے قبل وزارت اوورسیز پاکستانیز نے 3 اپریل کو نور زمان کو این آئی آر سی لاہور برانچ ٹرانسفر کیا ، 7 اپریل کو اس عدالت نے ٹرانسفر کا نوٹیفکیشن معطل کیا ۔ عدالت نے فریقین کو 20 اپریل تک جواب جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔
حکم معطل

11/10/2022

پاکستان کے پریشان حال صحافی میڈیا مالکان کے رحم و کرم پر
ایک دور تھا کہ پاکستان میں بھی صحافت کا احترام کیا جاتا تھا۔ صحافتی اداروں کے مالکان بھی آمرانہ طاقتوں کا سامنا کرنے کو تیار رہتے تھے لیکن جب سے یہ پیشہ کاروبار بنا ہے، تب سے صحافت اور صحافی کے ایام گردش میں ہیں۔
ساتھ ہی صحافت کا ادارہ معاشرے کے طاقتور طبقات کے زیر اثر آ کر عوام الناس اور معاشرے کو مطلوب حد تک پیشہ ورانہ خدمات دینے سے قاصر ہوتا جا رہا ہے۔ صحافت صرف ٹی وی پر نظر آتے گلیمر اور ریڈیو پر رس گھولتی آواز کے سرور کا نام نہیں اور نہ ہی محض اخبار میں نام کے ساتھ چھپنے والی کسی خبر پر رشک آنے کا۔
یہ پیشہ دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ چیلنجنگ بھی ہے۔ اس پیشے میں آنے والا اپنی زندگی کے قیمتی لمحات، سکون، صحت، جان سب داؤ پر لگاتا ہے، جیسا کہ کوئی فوج کا سپاہی ہو اور جسے اس پیشے سے لگاؤ ہو جائے اس کا دل پھر کسی اور شعبے میں لگتا بھی نہیں۔

یہ صحافی جب چیخ چیخ کر ٹی وی اور سوشل میڈیا پر عوام کے حقوق کی بات کر رہے ہوتے ہیں، تنخواہوں کی عدم ادائیگیوں اور ہراسگی جیسے مسائل کے خلاف آواز اٹھا رہے ہوتے ہیں تب یہ لوگ خود بھی اپنے اداروں میں ان سب معاملات کو برداشت کر رہے ہوتے ہیں۔
گزشتہ کچھ عرصے میں، جس طرح سے پاکستانی میڈیا انڈسٹری نے معاشی ترقی کی ہے، اس طرح صحافی اور یہاں کے ورکرز نے نہیں کی (پروگرام اینکرزکے علاوہ)۔ میڈیا انڈسٹری گزشتہ چند برسوں میں اربوں روپے کے اشتہارات وصول کر چکے ہیں۔ لیکن کارکنوں کو تنخواہیں اور مالی مراعات ادا نہیں کرتے۔ صحافیوں اور ورکرز کے مالی حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جا رہے ہیں جبکہ مالکان کے خوب سے خوب تر۔ ملازمین کے سامنے رونا یہ رویا جاتا ہے کہ ادارے کے حالات اچھے نہیں، مشکل وقت میں ساتھ دیں لیکن یہ مشکل حالات ملازمین کی زندگی میں ہمیشہ کے لیے ہی رہ جاتے ہیں۔ جبکہ مالکان کے دوسرے کاروبار بھی خوب پھل پھول رہے ہوتے ہیں۔

کیپیٹل ٹی وی، پبلک نیوز اور نوائے وقت جیسے ادارے اس دوڑ میں سرفہرست ہیں، جہاں صحافیوں کی 12، 12 ماہ کی تنخواہیں رُکی ہوئی ہیں۔ اور جنگ جیسے بڑے میڈیا گروپ کی پچھلے 9 سالوں سے تنخواہیں نہیں بڑھائی گئی وہی جو تنحواہیں دی جارہی ہیں وہ اس وقت ایک خاکروب کے برابر ہیں کم ازکم تنخواہ کے سکیل سے بھی بہت کم دی جاتی ہیں لیکن عالی شان گھروں میں رہنے والے مالکان کو کوئی احساس نہیں کہ کرائے کے مکان میں رہنے والا ان کا ورکر کس طرح گھر کا کرایہ، بجلی کا بل ، راشن اور دیگر ضروریات زندگی پورا کرے گا۔

کوئی پوچھنے والا نہیں۔ میڈیا مالکان کی تنظیمیں اپنے سیاسی و مالی مفادات کے لیے متحد ہیں لیکن صحافیوں کی تنظیم چھ گروپوں میں تقسیم ہے۔ صحافیوں کو ملنے والا فنڈ کہاں سے آیا، کہاں کو گیا۔ کسی کو کچھ پتہ نہیں چلتا۔
میڈیا مالکان کے علاوہ کچھ قصور شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں کا بھی ہے، دراصل صحافیوں کے گروہوں میں بیٹھے یہ گِد اپنے اور اپنے بوٹ پالیشیوں کی تنخواہیں مالکان سے نکلوا لیتے ہیں،تنخواہ میں اضافہ بھی کروا لیتے ہیں، مالکان سے اعزازی گاڑیاں بھی لیتے ہیں جبکہ سارا بوجھ اپنے سے نچلے طبقے پر ڈال دیتے ہیں۔ یہ بوجھ مالی بھی ہوتا ہے اور کام کا بھی۔ ساتھ کے ساتھ ذہنی طور پر حراساں بھی کیا جاتا ہے۔
میڈیا کے ادارے مالی بحران کا بہانا بنا کر ایک جھٹکے میں کم تنخوا داروں کو نوکری سے فارغ کر دیتے ہیں جبکہ لاکھوں کی تنخوا لینے والوں کو سر آنکھوں پر بیٹھا کے رکھا ہوتا ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں نیوز میڈیا انڈسٹری میں بحران کے نام پر 15 سے 40 ہزار والے ملازمین کو فارغ کیا گیا۔

کچھ لوگوں کی کم تنخوا ہونے کے باوجود اس میں کٹ لگائے گئے، جبکہ 10، 20، 30 لاکھ حتی کہ ایک کروڑ لینے والے اینکرز کا ایک روپیہ بھی ٹس سے مس نہیں ہوا۔ پروگرام اینکرز میڈیا مالکان سے جیسے اپنی ہر بات منوا لیتے ہیں، یہ بھی کر سکتے ہیں کہ کسی کو خیرات دینے سے بہتر ہے مالکان سے یہ ہی کہہ دیں کہ میر ی 15 لاکھ تنخواہ میں سے 2 ،3 لاکھ کاٹ لیں لیکن کم ازکم ملازمین کو نہ نکالیں اور جو ہیں، انہیں تنخواہ بھی دیں۔کاش ہی ایسا ہو جائے۔

یہ میڈیا مالکان انسانی حقوق، تنخواہوں کی عدم ادائیگیوں پر دھرنوں، صحت اور سیکورٹی کے مسائل کا پرچار، جن صحافیوں کے ذریعے کروا رہے ہوتے ہیں، خود انہی صحافیوں کے حقوق بھی غصب کر کے بیٹھے ہوتے ہیں۔ بے روزگاری اور فارغ بیٹھنے کے ڈر سے صحافی بیچارا مستقبل سے اچھے کی امید لگا کر اپنے ادارے کے ساتھ جڑا رہتا ہے۔
ان کی دیکھا دیکھی مارکیٹ میں آنے والے نئے میڈیا چینلز بھی جب بھرتیاں کرتے ہیں تو آنے والوں کو کم تنخواہ پر رکھنے کے ساتھ یہ کہہ کر احسان جتاتے ہیں کہ فلاں چینل تو تنخواہ بھی نہیں دے رہا تھا، ہم آپ کو کم تنخواہ دیں گے لیکن وقت پر دیں گے۔ پھر یہ معاملات بھی کچھ ماہ صحیح چلتے ہیں، اس کے بعد خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ بدل لیتا ہے۔
جو دوسروں کے لیے آواز اٹھاتے ہیں، خود ان کے لئے کوئی آواز اٹھانے والا نہیں ملتا۔ بیشتر صحافی بشمول خواتین صحافی مہنگائی کے اس دور میں جبری برخاستگیوں اور تنخواہ نہ ملنے کے باعث مشکل حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ آئے روز پریس کلب کے باہر احتجاج ریکارڈ کرواتے ہیں لیکن کوئی سننے والا نہیں۔ افسوس کہ صحافیوں کے حقوق کا بل تو منظور ہو گیا لیکن حقوق نہ مل پائے۔

11/09/2022

پاکٹ یونین کے صدر حواس باختہ کیوں؟
تحریر:ازقلم مزدور(م و)
یقیناً اب عوامی عدل کی زنجیر چھنکے گی یہ بہتر ہے کہ مجرم خود ہی جرموں کی سزا چن لیں آپ نے مجھ سمیت میرے دوستوں کو ان کے حق اور حقوق سے محروم رکھا لیکن میرا رب رحمان ہے اور تمام کنٹریکٹ ملازمین جس طرح اپنے حق کیلئے کھڑے ہوئے اس نے ثابت کر دیا کہ اب مقبوضہ نہیں ہے لیکن کھیل اب شروع ہوا ہے ہم جوہمیں سب معلوم ہے تھوڑا صبر اصل سرپرائز باقی ہے
جنگ گروپ راولپنڈی کی پاکٹ یونین کے صدر ناصر چشتی 24 سالہ سلیکٹڈ اقتدار کے مزے لوٹنے کے بعد حواس باختہ کیوں ہو گئے ۔24 سال تک جنگ راولپنڈی کی سی بی اے یونین کے نہ تو الیکشن ہونے دئیے گئے اور نہ ہی ادارے میں کام کرنے والے کنٹریکٹ ملازمین کویونین کا ممبربنایا گیا ۔پاکٹ یونین کے صدر نے کنٹریکٹ ملازمین کے ساتھ ایک طرف تو ہمیشہ ناروا سلوک رکھا لیکن دوسری طرف انہی کنٹریکٹ ملازمین کی عددی قوت کے نام پر نہ صرف مالکان جنگ گروپ بلکہ راولپنڈی اسلام آباد کے صحافتی حلقوں میں بھی خود کو ایک بڑے مزدور راہنما کے طور پر پیش کیا ۔ روزنامہ جنگ کے کنٹریکٹ ملازمین نے جب بھی صدرسی بی اے یونین یا ان کے ممبران سے تنخواہ یا ممبر شپ کی بات کی انہوں نے ہمیشہ ان ملازمین سے یہی کہا کہ ہماری یونین میں آپ ممبر شپ کا حق نہیں رکھتے ساتھ ہی یہ باور کراتے رہے کہ ہم نے یہ یونین ، تنخواہیں اور مراعات عدالتی جنگ لڑ کر مالکان سے حاصل کیں لہٰذا آپ عدالتوں میں جائیں اور اپنا حق حاصل کریں ۔ کنٹریکٹ ورکرزکی سہل پسندی، حقوق سے ناآشنائی اور عدم اتفاق کے باعث درحقیقت پاکٹ یونین عہدیداران بدنیت ہو کر ادارے میں بلاشرکت غیرے بے تاج بادشاہ بن گئےجس کی وجہ سےایک طرف تو کنٹریکٹ ورکرز کے حقوق سلب ہونا شروع ہو گئے اور دوسری طرف ان کی مراعات میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا جس کی وجہ سے کنٹریکٹ اور ریگولر ملازمین میں طبقاتی تفریق بہت ہی زیادہ بڑھ گئی۔
25سالہ دورِصدارت کے بعد یہ شخص غیرجمہوری طور پر تاحیات صدر بن بیٹھا اوریونین میں الیکشن کے نام پرکاغذی کارروائی ہونے لگی۔ روزنامہ جنگ میں آج سے 30 سال قبل بننے والی دو سو اڑھائی ممبران پرمشتمل سی بی اے یونین سکڑ کر آج تین درجن سے کچھ زائد ممبر ان پر مشتمل ہے جن کے حقوق کے لئے تو سلیکٹڈ صدر صاحب کمربستہ ہیں لیکن دوسری طرف درجنوں کنٹریکٹ ملازمین ناصر چشتی صاحب کےانتظامیہ کے ساتھ گٹھ جوڑ اور مُک مُکا کے باعث عرصہ 9سال سے مزدور سے بھی کم سیلری لینے پر مجبور ہو چکےہیں اور کنٹریکٹ ملازمین کو گورنمنٹ کی طرف سے مقرر کردہ کم ازکم تنخواہ بھی نہیں دی جا رہی ہے۔ ایسے حالات میں کنٹریکٹ ملازمین نے اپنے بچوں کو بھوک سے بلکتے دیکھ کر اپنے حق کیلئے عدالتی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا اور جنگ نیوز روم ،لے آئوٹ سیکشن ،آئی ٹی اورپریس سیکشن سمیت دیگرکئی شعبوں کے لوگوں نے این آر آئی سی اور لیبر کورٹ میں کیس دائر کر دئیے۔
مرے ہاتھ میں قلم ہے مرے ذہن میں اُجالا مجھے کیا دبا سکے گا کوئی ظلمتوں کا پالا
مجھے فکرِ امنِ عالم تجھے اپنی ذات کا غم میں طلوع ہو رہا ہوں تُو غُروب ہونے والا
سی بی اے یونین کی قیادت کے غیر جمہوری طرز عمل اور انتظامیہ کے ساتھ کئے گئے مک مکا کے باعث کنٹریکٹ ملازمین کےساتھ ہونے والے ظلم وزیادتی کے خلاف مزدور دوست لیڈر عمران فاروق بٹ مرد حُر کا کردار ادا کرتے ہوئے کنٹریکٹ ملازمین کے ساتھ آ ن کھڑا ہوا جس سے کنٹریکٹ ملازمین کا حقوق کے حصول کا عزم نہ صرف مزید پختہ ہوا بلکہ انہیں ایک جاندار اور مزدور دوست قیادت بھی میسر آ گئی اور اِس کے لئے نئی سی بی اے یونین رجسٹرڈ کرائی گئی اور ان کے حقوق کیلئے آواز بلند کی لیکن سابق سی بی اے یونین کے صدر ناصر چشتی صاحب کہ یہ عمل ناگوار گزرا اور انہوں نے کنٹریکٹ ملازمین پر ذاتی حملے شروع کر دئیے اور مختلف شعبہ جات میں جا کر کبھی طنز ومزاح کا سہارا لے کر اور کبھی کھلے عام کنٹریکٹ ملازمین کی تذلیل شروع کر دی اور دوسری طرف نئی بننے والی یونین کے خلاف قانونی جنگ کے لئے ہائیکورٹ چلا گیا لیکن خدا کی لاٹھی بڑی بے آواز ہے اور جب یہ لاٹھی حرکت میں آئی تو اس گھمنڈی شخص کی طرف سے دائر رٹ یہ کہہ کر خارج کر دی گئی ہےکہ آپ بھی ادارے کے ملازم ہیں ایسی رٹ صرف مالکان چاہیں تو دائر کر سکتے ہیں لہٰذا آپ لیبر رجسٹرار آفس جائیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اگر ناصر چشتی ورکرز دوست شخص ہوتا تواسے ایسے عمل پہ شرمندگی ہوتی لیکن یہ شخص تو مزدور دشمنی کی حد کرتے ہوئے کنٹریکٹ ملازمین کے خلاف لیبر رجسٹرار آفس چلا گیا اور وہاں کنٹریکٹ ملازمین کو روزنامہ جنگ کے بجائے آف شور کمپنی کا ملازم قراردیا، اس دوران ایک طرف ورکرز کے حوصلے توڑنے کے لئے زبانی کلامی دفتر میں دوستوں کو چوتیا کمپنی کا لیٹر رکھنے کا طعنہ بھی دیتا رہا اور دوسری طرف نئی بننے والی سی بی اے یونین کوقانونی جنگ کے ذریعے کینسل کرانے کی کوشش کی گئی جو ناکامی سے دوچار ہوئی اور وہاں بھی ان کی رٹ خارج کر دی گئی اور کنٹریکٹ ملازمین کی یونین کو بحال رکھا گیا۔
ناصر چشتی نے بطور صدر سی بی اے یونین پچھلے 25 سال میں کی آپریٹر اورنیوز روم سے سفر کرتے ہوئے بطور رپورٹر اپنی خدمات شروع کیں۔ انہوں نےیونین کی قوت سے ادارے سے اپنے لئے گاڑی سمیت دیگر مراعات حاصل کیں اور اپنی ریٹائر منٹ کے بعد مستقل ملازمت میں توسیع کرا لی اور نوکری کی معیاد پوری ہونے کے بعد ملنے والی ایکسٹینشن کے بعد تو ناصر چشتی مزدور دشمنی کی حدیں کراس کرنے لگے ہیں جنگ کے مالک شاید اس بات سے لاعلم تھے کہ جو شخص راولپنڈی اسٹیشن کے سی بے اے یونین کو صدر ہے وہاں ملازمین اس کی صدارت سے سخت نالاں ہیں وہ صرف تین درجن سے زائد ملازمین کیلئے سود مند ہے ۔لیکن اس شخص نے کنٹریکٹ ملازمین اورمالکان کے درمیان جہاں فاصلے بڑھائے وہی ملازمین اور جنگ مالکان کے خلاف نفرتیں پھیلائیں حالانکہ یونین عہدیدار اور صدر ہمیشہ ملازمین اور مالکان کے درمیان فاصلے کم کرتے ہیں۔ ملازمین اپنے بے مثال اتحاد سے اس شخص کا اصل چہرہ سامنے لے آئے جو مالکان کو بھی نظر آنے لگا ہےاور شہر اقتدار کی ہرصحافتی اور مزدور یونین بھی اِسے دیکھ رہی ہے کہ وہ شخص جو کنٹریکٹ ملازمین کو اپنی یونین کی رُکنیت دینے سے انکاری تھا اب اقتدار جاتا دیکھ کر اِس نے یونین کی رُکنیت سازی مہم شروع کر دی اور بے شرمی سےاُنہی لوگوں کو رُکنیت لینے پر مجبور کر رہا ہے جنہیں چند ماہ پہلے تک وہ رُکن بنانے سے انکاری تھا۔مزدور دوستو!یہ آپ کی پہلی فتح ہےاور انشاءاللہ اگلی منزل یہی ہے کہ روزنامہ جنگ میں ایک ہی یونین باقی رہے گی اور آپ کے اتحاد اور استقامت کی بدولت وہ یونین باقی رہے گی جس کا صدر عظیم مزدوردوست رہنما عمران فاروق بٹ ہوگااور اِس کے علاوہ کارکن کسی پاکٹ یونین یا سلیکٹڈ قیادت کو نہیں مانیں گےبلکہ یونین کی منتخب قیادت ہوگی۔
از قلم مزدور آپ کو موجودہ چلتے وقت کی صورتحال سے آگاہ کرتا چلوں پاکٹ یونین کے صدر ریفرنڈم سے تو بھاگ رہی ہے وہی کبھی وہ عدالتوں میںکیس دائر کر کہ خود کے کنٹریکٹ ملازمین کے احتساب سے بچنے کی ناکام کوشش جاری رکھے ہوئے ہے وہی پاکٹ یونین کے صدر 30 سال سے کنٹریکٹ ملازمین کو ممبر شپ سے انکاری کرتے آ رہے تھے ہمارے آئین میں کوئی گنجائش نہیں وہ پاکٹ یونین کے صدر حواس باختہ ہو کر راتوں رات اپنی یونین کی ممبر سازی اوپن کرنے پر مجبور ہو گئے اور آج ایک شعبے کی حد تک ممبر شپ دینے کیلئے لوگوں کو پرسنل فون کئے جانے لگے اور یہ کہا جانا آپ اس پاکٹ یونین کا حصہ بن جائو یہ مالکان کی یونین ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتے ہیں اس وقت جنگ کے کنٹریکٹ ملازمین مدتوں بعد نیند اور خوف سے بیزار ہو چکے ہیں وہ آپ کے کسی بھی لالچ اور جھوٹے خوابوں کے بہکائوے میں نہیں آئے گے اور آپ نے جتنا جنگ کے کنٹریکٹ ملازمین اور جنگ مالکان میں نفرتوں کے بیچ بونے تھے اور فاصلے بڑھانے تھے بڑھا لئے اور اپنے لئے سہولیات لینی تھی حاصل کر چکے ہیں مزید ملازمین کے حقوق پر عیاشی کرنا نا ممکن ہے اگر واقع آپ قلم اور میڈیا کے اس گروپ کے سی بی اے یونین کے حقیقی صدر ہوتے تو آپ ریفرنڈم سے بھاگنے کے بجائے یا انتظامیہ کی آغوش میں جانے کے بجائے ریفرنڈم کا سامنا کرتے لیکن بھاگنے کی نا کام کوشش میں لگے ہوئے ہیں لیکن آخر کب تک حقیقت کو جھٹلایا جائے گا ایک دن سامنا تو کرنا ہو گا اس لئے سامنا کیا جائے اور ریفرنڈم کیلئے خود کو جنگ راولپنڈی کے ملازمین کے سامنے پیش کیا جائے تا کہ وہ اپنے سرخیل اور اور اپنے حقوق کیلئے کسی کو نامزد کر سکے ۔
کاش کہ یہاں احتساب کا اگر کوئی نظام ہوتا تواِن لوگوں کے مزدور یونین کی قوت کے بل بوتے پر بنائے گئے اثاثے بھی سامنے آتےلیکن مزدور دوستو انشاءاللہ روزمحشرانہیں آمدن سے زائد اثاثوں کا حساب ضرور دینا ہوگا۔
کم ظرف اگر دولت و زر پاتا ہے مانند حباب ابھر کے اتر آتا ہے
کرتے ہیں ذرا سی بات پر فکر خسیس تنکا تھوڑی سی ہوا سے اُڑ جاتا ہے

Address

Pakistanpolicyinstituteisb@gmail. Com
Rawalpindi
46000

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Daily Jang Employees posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share


Other News & Media Websites in Rawalpindi

Show All