Hazara Television - H TV

Hazara Television - H TV Hazara Television is an International Hazara news channel.
(1)

نام کتاب " دوختر وزیر " مصنف : ڈاکٹر للیاس ہملٹن ترجمہ نگار : اشفاق بخاری تبصرہ : جے ایم ہزارہ کتاب  " دوختر وزیر " ایک ...
22/12/2023

نام کتاب " دوختر وزیر "
مصنف : ڈاکٹر للیاس ہملٹن
ترجمہ نگار : اشفاق بخاری
تبصرہ : جے ایم ہزارہ

کتاب " دوختر وزیر " ایک ناول استہ ، کی دہ بارے بیست ومنہ صدی " جنگ ھای کی منے قوم دلیر ھزارہ و قابض افغان ھا شدہ بیان شدہ ۔ ای ناول را یک انگریز ڈاکٹر و مصنفہ ڈاکٹر للیاس ہملٹن نوشتہ کدہ ۔ وہ خود شی دہ سال 1890 از شہر کلکتہ بنگال ہندوستان دہ کابل مورہ ۔ و تقریباً 6 سال زیاد وہ دہ کابل مومنہ ۔ ای انگریز خاتون ذاتی طور پر علاج و معالجہ " ملعون افغان بادشاہ عبدالرحمن " را ام موکد ۔

ای نوشتہ ازی باری اول دہ زبان انگریزی دہ سال 1900 چھاپ شد ، ازو باد ای کتاب " دوختر وزیر" ام دہ فارسی ھزارگی و ہم دہ اردو ترجمہ شدہ ۔

از انگریزی ایرا دہ اردو اشفاق بخاری ترجمہ کدہ ۔ کی خود مترجم استاد دانشگاہ در شعبہ زبان اردو بودہ ۔

کتاب دوختر وزیر از نام شی معلوم موشہ کی دہ باری دوختر وزیر ہی گب زدہ شودہ ، وزیر نام شی غلام حسین ہزارہ استہ کی یک از وزیر ھای امیر ھزارہ قوم استہ کی خلاف افغان قابض بادشاہ تا آخری حدود زندگی خو مبارزہ مونہ ۔
ای وزیر بیسار ادم قابل و فامیدہ و سر خلاص استہ ۔ و دوختر ازی نام شی استہ " گل بیگم ہزارہ " کی منے کتاب دوختر وزیر مخاطب شدہ ۔ وزیر دوختر خورہ ام بیسار بہترین تربیت مونہ ۔

زمانے کی افغان قابض فوج بلے ھزارستان حملہ آوار موشہ ، افغان قابض قوم را انگریز ھا مکمل پیسہ ، نفری و اسلحہ میدہ ، بیسار دہ تعداد کلان " ماہر نشانہ باز " کی انگریز استہ قد افغان فوج یک جای شدہ حملہ بلے ھزارستان مونہ ۔
ڈاکٹر للیاس ہملٹن نوشتہ کدہ کی مردم ھزارہ از صد ھا سال ازاد بطور قبائلی بلے سرزمین ھای خو زندگی موکد ۔ وقتی کی قابض افغان بادشاہ کوشش مونہ ھزارہ ھا تسلیم شونہ ، و ٹیکس بیدہ ، ونجی ھزارہ ھا از تسلیم شدو انکاری موشہ و تا آخری حدود را از سرزمین خو دفاع مونہ و جنگ مونہ ۔

از خاطر جنگ وزیر غلام حسین ھزارہ دوختر خورہ گل بیگم ھزارہ را از منطقے خود خو دہ جائ دیگہ رای مونہ ، تا کی خدا نخواستہ ناموس باد از جنگ دہ دست دشمن نرہ ۔
لیکن بالا آخر گل بیگم ھزارہ بادی ازی کی دہ جنگ ھزارہ ھا دوچار مسائل موشہ ، بطور جنگی قیدی کابل بور دہ موشہ ۔

گل بیگم ھزارہ انتہائی ہوشیار و عقل مند دوختر استہ ، دہ ہر جائ خود خورہ بچاو مونہ ، و تا آخری وقت را کوشش مونہ کی واپس دہ ھزارستان بایہ از کابل ،

منے ازی ناول چند بہترین صفات ھای گل بیگم ھزارہ را ام تذکرہ شودہ مثلآ " یک جائ کی دیگہ کی جنگی قیدی ھا گل بیگم ھزارہ را موگہ از مالکن برای خو نو کالا بیخایو ۔ انجی گل بیگم ھزارہ موگہ ما دہ نو کالا ضرورت ندروم ، ما دہ آزادی ضرورت دروم ۔

گل بیگم ھزارہ انتہائی آزاد پسند و خود دار دوختر استہ ۔ امزو خاطر تا آخری قطرے خون خو کوشش مونہ کی آز غلامی آزاد شونہ ۔

ای کتاب " دوختر وزیر " سیاسی ، معاشی و فرہنگ حالت امزو وقت و جنگ ھای منے فرزندانِ ھزارستان را قد قابض افغان ھا را بیسار دہ بہترین انداز احاطہ کدہ ۔ کلان ترین خوبی ازی کتاب اینی استہ کی نوشتہ گر ازی دہ امو زمان خود شی دہ کابل موجود بودہ ، و ہر چیز را کی ہوش کدہ امورہ نوشتہ کدہ ۔ یعنی پرائمری سورس امی خود شی بودہ ۔

و شودہ میتنہ کی بطور سند ازی کتاب استفادہ شونہ ، چون ظلم ھای کی قابض افغان سامراج باد از جنگ ھا قد مردم ھزارستان کدہ وہ غیر انسانی و زد قوانین جنگی بودہ ، کی تذکرے ازی منے ازی کتاب ام شودہ ۔

منے ازی کتاب مصنفہ کوشش کدہ کم و بیش وجوہات شکست مردم ھزارستان را ام بیان کنہ ، مثلآ یک از وجوہات شکست مردم ھزارستان ای بودہ بقول مصنفہ کی مردم ھزارستان مطابق امزو زمان و مکان اپڈیٹ نہ بودہ ،
اسلحہ ھای مردم ھزارستان روایتی بودہ ، جبکہ دہ مقابلے مردم ھزارستان افغان قابض فوج منظم و مکمل حمایت انگریز ھا را دشتہ بودہ ۔ یک ہم وجہ شکست ای ام بودہ کی افغان قابض فوج را انگریز ، نفری ، پیسہ و اسلحہ مسلسل کمک موکد ۔

دوئم منے ازی کتاب منظر کشی یک جاہل و پسماندہ قبائلی معاشرہ را ام کدہ کی منے معاشرے قد خواتین بیسار امتیازی سلوک ھا موشدہ بودہ ۔ و احساس بیگانگی را ام منظر کشی شی شدہ کی مختلف قبیلے ھزارہ ھا قد یک دیگے خو بیگانہ بودہ ، یعنی دہ نام قبیلہ اینا تقسیم در تقسیم بودہ ۔

مرکزی نقطہ ازی کتاب را کی ما فامیدوم وہ استہ کی ناول مکمل مکمل بلے جہد مسلسل و آزادی و خودمختاری مشتمل استہ ۔ ای ناول یک طرف ظلم و ستم ھای قابض افغان ھا را قد مردم ھزارستان نشان میدہ ، جبکہ دویم طرف ای وجوہات شکست را بیان مونہ ، سویم چیز عزم و ہمت ھزارہ ھا را نشان میدہ کی تا آخری حدود را از مادر وطن خو دفاع مونہ و حد تا یک دوختر کی نام شی گل بیگم ھزارہ استہ بے انتہا آزادی پسند و نفرت از غلامی مونہ ، چہارم چیز کی ای ناول بیان مونہ وہ ای استہ کی جنگ منے قابض افغان ھا و مردم ھزارستان از خاطر آزادی و خودمختاری ھزارہ ھا استہ ۔

برای کی اگو کس بوفامہ مسلہ ھزارہ ھا قد افغان ھا چی استہ ، بیسار لازم استہ کی ای کتاب را مطالعہ کنہ ، چون افغان ھا ایک قابض اجنبی طاقت استہ جبکہ ھزارہ ھا از خاطر دفاع مادر وطن خو جنگ مونہ ، و ای جنگ تا امروز را ام ادامہ درہ ۔ بلخصوص ای کتاب را مطالعہ برای ہر زن و دوختر ھزارہ مانندہ " نان خوردو " وری لازمی استہ کی مطالعہ کنہ ۔ چون واقعین ہمت و آزاد پسندی گل بیگم ھزارہ یک بہترین نمونہ برای نسل جدید و خواہران عزیز ازمو استہ ۔

ہزارہ کلچر ڈے ! تحریر از جان محمد ہزارہدنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں جس کا اپنا کوئی کلچر نہ ہو اور نہ ہی کوئی کلچر قوم کے...
17/05/2023

ہزارہ کلچر ڈے !
تحریر از جان محمد ہزارہ

دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں جس کا اپنا کوئی کلچر نہ ہو اور نہ ہی کوئی کلچر قوم کے بغیر وجود رکھتی ہیں۔ محکوم قوموں کیلئے کلچر ایک ہتھیار ہوتی ہیں کہ جس کے زریعے سے وہ قابض کے خلاف مزاحمت کا جذبہ اپنے اندر پیدا کرتی ہیں ۔ کلچر سے ہی قوموں کی شناخت ہوتی ہیں ۔
اج ایک ایسے دور میں جب ہزارہ قوم انتہائی بحرانوں کا شکار ہیں ، کلچر کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے ۔
کیونکہ
نسل خطرے میں ہے ۔
شناخت خطرے میں ہے ۔
تاریخ خطرے میں ہے ۔
زبان خطرے میں ہے ۔
قومی وقار خطرے میں ہے ۔
فرہنگ خطرے میں ہے
ہزارہ خطرے میں ہے اور ہزارستان خطرے میں ہیں۔

سامراجی طاقتوں کا پہلا حملہ محکوم قوموں کی کلچر پر ہوتی ہیں ۔ جب نازی جرمنی کے معروف پروپیگنڈا وزیر گوئبلز نے کچھ لوگوں کو ثقافت کے بارے میں گفتگو کرتے سنا تو غصے میں اکر پستول نکالا اور ان سب کو قتل کر ڈالا ، کیونکہ استعماری طاقت کے خلاف مزاحمتی عمل میں ثقافت کا کردار انتہائی اہمیت کے حامل ہوتی ہیں ۔

ثقافت کا بنیادی تعلق سرزمین سے ہوتی ہیں۔ ثقافت کو سیاست اور معیشت سے الگ نہیں کیا جاسکتا ۔ نسل ، شناخت ، تاریخ ، زبان ، قومی وقار ، فرھنگ اور ہزارہ کے بعد آخر میں ہزارستان خطرے میں ہے کا ذکر اس وجہ سے کیا گیا ہے کہ جب تک ہزارستان کو نہیں بچایا جائے گا اس وقت تک ( نسل ، تاریخ ، زبان ، شناخت، قومی وقار ، اور ہزارہ ) تمام چیزوں کو نہیں بچایا جاسکتا ہیں۔

افغان سامراج نے ہر دور میں یہ کوشش کرتے رہے ہیں کہ ہماری کلچر کو مسخ کرئے ، ہمیں افغان ملت میں ضم کریں ، چونکہ ہزارستان افغانیوں کیلئے ایک نوآبادیاتی ہے ۔ سامراجی بالا دستی کی بنیاد زیر دست سماج کی پیدوار قوتوں کو پسماندہ رکھنا ہوتی ہے ۔ اس کے زریعے عوام کو اپنی مخصوص تاریخی ترقی کے عمل کو روکا جاتاہے ۔ کسی بھی سماج میں پیداواری قوتوں کی ترقی کو سمجھنا در اصل اس سماج کے تمام پہلوں کو سمجھنے کا نام ہے ۔

پیداواری قوتوں کی ترقی کا تعلق ثقافت سے ہے ۔ چونکہ ہزارستان افغانیوں کیلئے ایک نو آبادیاتی ہے اس لئے تمام قوت پیداوار پر افغان قابض ہے اسی لیے ثقافتی لحاظ سے ہزارہ کافی کمزور نظر آتے ہیں۔

ثقافت کی اہمیت سے کوئی بھی ذی شعور انسان انکار نہیں کر سکتا ۔ لیکن ہمیں یہ بات یاد رکھنا ہوگا کہ نو آبادیاتی نظام میں محکوم قوموں کی ثقافت بھی مسخ کی جاتی ہیں اور چی گویرا کے بقول جب غلاموں ، قابضوں اور ظالموں کیخلاف بغاوت نہیں کی جاتی ہے تو غلامی قوم کا کلچر بنتی ہیں ۔ چونکہ ہزارستان افغان نو آبادیاتی ہے لہذا نو آبادیاتی کلچر کی شناخت اور بیخ کنی اور کلچر کو بطور ہتھیار آزادی کیلئے استعمال کرنے کی اشد ضرورت ہیں۔

ہزارہ کلچر کو ہزارستان کی آزادی کے بغیر نہیں بچایا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کو دنیا کے سامنے اس کی حقیقی چہرے کی مناسبت سے پیش کیا جاسکتا ہے ۔

غلامی میں رہتے ہوئے کلچر منانے کا مقصد کسی قومی ننگ سے کم نہیں ہے ۔ تاج برطانیہ کے احکام اعلیٰ جب ہندوستان کے دورے پر آتے تھے تو وہ مقامی لوگوں کو کہہ دیتے کہ وہ اپنی قومی لباس میں ملبوس ہو کر ان کا استقبال کریں۔

مقامی محکوم لوگ خوش ہوتے کہ وہ اپنی قومی لباس میں برطانیہ کے اعلیٰ حکام کے سامنے ہونگے جبکہ در اصل انگریز سامراج انہیں نفسیاتی طور پر شکست دینے کیلئے انہیں ان کے قومی لباس پہنا کر غلامی کرواتے تا کہ ان میں اور مقامی لوگوں میں واضح فرق ہوں اور یہ تصور دیا جائے کہ وہ تہذیبی طور پر انگریزوں سے کم تر ہیں۔

ایسے موقعے پر وہ مقامی لوگوں کو انگریزی لباس کے ساتھ ان کی استقبال سے منع کرتے کیونکہ اس سے وہ سب برابر نظر آئینگے ۔ یہ اور بھی خطرناک ہوگا کہ ہم اپنی قومی لباس ، زبان ، اور ثقافت کو اختیار کرتے ہوئے غلامی کریں کیونکہ جب غداروں ، قابضوں اور ظالموں کے خلاف بغاوت نہیں کیا جاتا تو غلامی کلچر بن جاتی ہیں۔ لہذا ہمیں کلچر ڈے مناتے ہوئے اپنی نئ نسل کو غداروں ، قابضوں اور ظالموں کے خلاف بغاوت اختیار کرنا سیکھنا چاہیے ۔

کلچر انسانوں کا تخلیق کردہ ہوتی ہیں ۔ کلچر ایک متحرک عمل ہوتی ہے ۔ اور نئ کلچر اختیار کیا جاسکتا ہیں۔ اگر کوئی ہزارگی ، ٹوپی ، شال ، اور ہزارگی زبان میں کسی کی غلامی کررہا ہوں تو یہ اور بھی خطرناک اور قومی ننگ ہوگی ۔ چونکہ ہم اس وقت غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں لہذا ہمیں کلچر ڈے اس طریقے سے منانے کی اشد ضرورت ہے کہ افغان سامراج کے خلاف اور ہزارستان کی آزادی کیلئے نوجوان نسل کو امادہ کیا جاسکے۔ اگر کلچر ڈے کی منانے سے ہم ہزارستان کی آزادی کے قریب نہیں ہورہے ہیں تو وہ یقیناً غلامی کا کلچر ہے ۔ کیونکہ جس طرح

" ملا کو جو ہے ہزارستان میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ ہزارہ ہے آزاد ،

ٹھیک کلچر ڈے والے بھی غلامی کا کلچر منانا کر خود کو ازاد خیال کریں گے جس سے نئ نسل گمراہی میں مبتلا ہوسکتی ہیں۔

سوال بھگت سنگھ ، حمید بلوچ ، خالق شھید 1. بھگت سنگھ یک نوجوان سکھ بود ، سوشلسٹ سیاسی خیالات دشت ، خلاف انگریز  استبداد م...
09/04/2023

سوال

بھگت سنگھ ، حمید بلوچ ، خالق شھید

1. بھگت سنگھ یک نوجوان سکھ بود ، سوشلسٹ سیاسی خیالات دشت ، خلاف انگریز استبداد مقاومتی سیاست اختیار کد ، بلے اسمبلی بم اندخت و یک پولیس افسر انگریز را قتل کدہ فرار کد ، و آخری دہ 23 مارچ 1931 قد دو رفیق ہمکار خو پھانسی ( اعدام ) شود .

2. حمید بلوچ یک نوجوان بلوچ بود ، خلاف ازی کی بلوچاں را عمانی سرکار دہ جنگ خود خو بطور جنگی ایندھن استعمال موکد ۔ مقاومتی عمل اختیار کد ۔ یک عمانی افسر را دہ تربت دہ کیمپ بھرتی حملہ کدہ افسر را قتل کدہ فرار کد ، روزی کی گرفتار شد دہ دور ضیاء الحق 11 جون 1981 دہ مچھ جیل پھانسی ( اعدام ) شود۔

3. خالق شھید یک نوجوان ہزارہ بود ، خلاف افغان استبداد مقاومت اختیار کد ، وہ زمان بلے تخت کابل دہ شکل نادر شاہ معلون یک بادشاہ بر سر اقتدار بود۔ دہ یک تعلیمی پروگرام سند تقسیم خالق شھید دہ سال 1933 نادر شاہ را قد گولی دہ فرق سر شی زد ، و بجائے فرار کردن گرفتاری دھد ، 18 دسمبر افغان استبداد خالق را پھانسی ( اعدام) کد و تمام فامیل و دوستائی نزد شیرہ ام دہ پاداش ازی عمل خالق قتل کد۔

باید امروز ای سہ عظیم انسان ھا را یک جائزہ بیگریم ، امروز بھگت سنگھ را تمام دنیا میشناسہ ، فلم ھا و کتاب ھا بلے بھگت سنگھ نوشہ شودہ ، وہ یک علامت مزاحمت جور شدہ ، وہ فقط بلے اسمبلی بم اندخت و پولیس افسر انگریز را قتل کدہ فرار کد ۔

و امیتر حمید بلوچ را توغ کنیم ، امروز دہ خانے بلوچ عکس حمیدہ زدہ استہ ، ہر تنظیم بلوچ نوجوان ھا از فداکاری ازی حمید خبر درہ ، حمید باد از حملہ توسط دولت گرفتار شد و پھانسی شد ، فقط یک افسر عمانی را دہ کیمپ حملہ کدہ قتل کدہ بود ،

خالق شھید اگو معمولی پولیس افسر ای افغان استبداد را نہ کوشت و نہ مثلی بگھت سنگھ و حمیدہ بلوچ وری توسط دولت گرفتار ( دستگیر ) شد ، بلکہ وہ بادشاہ افغان را قد گولی ( مرمی ) دہ فرق سر شی زد ، بجاے فرار ایستہ شدہ گرفتاری ام دھد تا ای دہ دنیا و ائندہ نسل ھای ھزارہ معلوم باشہ کی ای عمل را خالق شھید دہ جذبات و حادثاتی انجام نہ دھدہ بلکہ دہ شعوری ای کار را کدہ ، ولیکن افسوس خالق شھید بجائے کی شخصیت شی مانند بھگت سنگھ جہانی شونہ ، حد تا مانند حمید بلوچ وری منے قوم شی ام اگو زیاد عقیدت و جنبش پیدا نہ تنسیت وجوہات شی چی است و آخر چرا ؟

جان محمد ہزارہ

قالو انا اللہ و انا الہ راجعون مومنین یک علان فوت شدہ گی بشنوید۔ فقیر حسین فولادی  ولد غلام علی ( پدر میجر غلام رضا فولا...
27/02/2023

قالو انا اللہ و انا الہ راجعون

مومنین یک علان فوت شدہ گی بشنوید۔

فقیر حسین فولادی ولد غلام علی

( پدر میجر غلام رضا فولادی ، غلام حسین فولادی )

بچے کاکای ( مرحوم سخی ٹھیکدار فولادی ، شھید حاجی موسی فولادی

مامای ( عید محمد فولادی ۔ )

خسری ( حسین علی ، علی جمعہ ، ایوب و انسپکٹر علی رضا )

از برادران دئی فولاد فوت کردیدہ۔

جنازہ ان مرحوم امروز ساعت 30 : 8 بجہ صبح از امام بارگاہ ولی عصر ور داشتہ سپرد خاک می میشود ۔

در این تشریع جنازہ شرکت نمودہ ثواب دارد حاصل نوماید۔

استاد محمد علی ہزارہ ! تحریر از جان محمد ہزارہ میں استاد محمد علی ہزارہ کی شخصیت سے تو زیادہ واقفیت نہیں رکھتا ہاں البتہ...
14/02/2023

استاد محمد علی ہزارہ !
تحریر از جان محمد ہزارہ

میں استاد محمد علی ہزارہ کی شخصیت سے تو زیادہ واقفیت نہیں رکھتا ہاں البتہ فیسبوک پر ماشاءاللہ ہر کچھ مدت کے بعد مٹھائیوں کے ساتھ ان کا تصویر آتے رہتے ہیں۔
یہ مٹھائیاں ان کے کسی شاگرد کی بطور سرکاری وظیفہ حاصل کرنے کی خوشی میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔ اب تک شاید استاد صاحب کی ایک درجن سے زائد شاگردوں نے سرکاری نوکریاں حاصل کرلی ہے ۔ پیشے کے لحاظ سے استاد بھی سرکاری نوکری کے شعبے سے وابستہ ہے ۔ ان سے ایک مرتبہ قیوم پاپا فٹبال اسٹیڈیم مری آباد میں ہاتھ ملانے اور سلام دعا کی حد تک ملنا نصیب ہوا۔ لیکن ان سے کبھی زیادہ گفتگو کرنے کا موقع نہیں ملا ۔ وہ شارٹ ہینڈ پڑھاتے ہے اور عرصہ دراز سے اپنی کاوشوں کو جاری رکھیں ہوئے ہیں۔ شاید وہ بھی دیگر ہزارہ سرکاری افسران سمیت ملازمین کی طرح اپنی اس ہنر کو باقاعدہ بطور اضافی آمدنی استعمال میں لا سکتے تھے یا پھر دیگر ہزارہ ملازمین کی طرح پراپرٹی ، ہوٹلز ، شورومز وغیرہ کے کاروبار سے منسلک ہوسکتے تھے ۔ لیکن انہوں نے قومی خدمات کو ترجیح دی ۔ ان کی جتنی بھی تعریف و ثناء بیان کیا جائے کم ہے کیونکہ انہوں نے اکثریت کی طرح ذاتی ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوئے بلکہ اپنی ہنر و صلاحیت سے نوجوانوں کی رہنمائی کو اپنا ہدف قرار دیا۔ علی ظہیر ہزارہ ( سابقہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری بلوچستان ) کی گران قدر خدمات کی لوگ آج بھی یاد کرتے ہے ۔ انہیں کئ ہزارہ اداروں کی طرف سے اعزازات بھی ملے ہے ۔ علی ظہیر ہزارہ کو شاید صوبائی حکومت بھول چکا ہوگا ۔ لیکن قوم کو ان کی خدمات یاد ہے ۔ سرکاری نوکری ایک مدت تک ہوتی ہے اس کے بعد آپ واپس اپنے قوم کے درمیان ہی ہوتے ہیں لہذا جو لوگ سرکاری پیشوں سے وابستہ ہے ان کیلئے یہ ایک پیغام ہے کہ آج بہت سارے لوگ ہمارے معاشرے میں موجود ہے جو کسی زمانے میں بڑئے عہدوں پر فائز تھے لیکن آج نہیں ہے ، آج انہیں کوئی یاد تک نہیں کرتے ۔ یاد تو دور کی بات راستے پر دیکھ کر سلام تک نہیں کرتے ۔ صوبائی حکومت کو آپ سے کوئی غرض نہیں ہوتا اس کے پاس سینکڑوں کے حساب سے افسران آتے ہے اور چلے جاتے ہے ۔
لیکن آپ نے یاد رکھنا ہے کہ آپ واپس اپنے ہی لوگوں کے اندر زندگی گزارنے ہوتے ہے ۔ استاد محمد علی شاید مال و دولت زیادہ جمع کرنے میں دیگر سے پیچھے رہ گئے ہونگے لیکن انہوں نے ٹھیک ٹھاک عزت و احترام کمایا ہے اس بات میں کوئی شک نہیں ۔ محمد علی ہزارہ دوسرا علی ظہیر ہزارہ ہے ۔ شاید آئندہ چند سالوں میں وہ بھی سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوجائے لیکن قوم انہیں ہمیشہ یاد رکھیں گا ۔ استاد محمد علی ہزارہ نے جہاں اپنی کاوشوں سے قوم کی خدمت کی ہے وہی دیگر ہزارہ اکابرین اور معتبرین اور صاحب حیثیت و اختیار رکھنے والوں کیلئے انتہائی میدان میں مشکلات پیدا کی ہے ۔ ان کی کردار اور اعمال پر سوالیہ نشان چھوڈ دی ہے ۔ استاد محمد علی ہزارہ نے ثابت کیا ہے کہ خدمت کیلئے اقتدار اور فنڈز کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ انسان کو اپنے ساتھ اور اپنے پیشے اور قوم کے ساتھ مخلص ہونا ضروری ہے ۔ انسان ذاتی طور پر بھی اگر قوم کے ساتھ مخلص ہو تو بہت کچھ کرسکتا ہے اس بات کو عملی طور پر محمد علی ہزارہ نے ثابت کی ہے ۔ اخر میں شاعر نے شاید محمد علی ہزارہ جیسے انسانوں کی خدمات کو دیکھ کر ہی کہا ہوگا کہ :

ہر کی خدمت کر او مخدوم شد
ہر کی خود را دید محروم شد۔

فرد را ربط جماعت رحمت است
جوہر او را کمال از ملت است۔

تا توانی با جماعت یار باش
رونق ہنگامہ احرار باش۔

حرز جاں کن گفتہ خیر البشر
ہست شیطان از جماعت دور تر ۔

فرد و قوم آئینہ یک دیگر اند
سلک و گوہر، کہکشاں و اختر اند۔

فرد می گیرد از ملت احترام
ملت از افراد می باید نظام۔

اقبال

Dr. Shah Muhammad Murri is one of the finest writer, prolific translator and historian of Balochistan. He is one of thos...
25/01/2023

Dr. Shah Muhammad Murri is one of the finest writer, prolific translator and historian of Balochistan.
He is one of those who, despite their financial constraints, keep producing good work for the benefit of society.

We are delighted to announce that he will be sharing his valuable thoughts on economic default and political instability.

We are happy to have him in the event and for you 😊
So, see you all at the event.

Date: January 27, 28 and 29

Venue: sports complex opposite to Pentagon Academy, Block #2, Hazara Town Quetta .




مدر ڈے* Mother Day * کی تاریخ اور ہمارا سماج . تحریر از قلم مہدی ہزارہ انسانی رشتوں میں سب سے بے لوث اور مخلص رشتہ  ماں ...
13/01/2023

مدر ڈے* Mother Day * کی تاریخ اور ہمارا سماج .
تحریر از قلم مہدی ہزارہ

انسانی رشتوں میں سب سے بے لوث اور مخلص رشتہ ماں اور بچے کا ہوتا ہے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کے ماں زمیں پر خدا کی تصویر ہے ۔ ماں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا رسم زمانہ قدیم کے مختلف مذاھب قوم اور تہذیبوں میں رہی ہیں ۔

جیسے قدیم یونان اور روم میں دیوی mother Rhea اور دیوی mother cybele کے اعزاز میں تہوار کا انعقاد کیا جاتا تھا ۔ چین Lunar کے دوسرے دن مصری 21 مارچ کو جب کے بدھ مت کے پیروکار Mua Vu Lan کے نام سے تقریب کا انعقاد کرتے ہیں ۔

جب کے یہودی مذہب اس دن کو جیکب jacob کی بیوی روحیل Rohel کی یادگار کے طور پر مناتے ہیں جو کے عبرانی مہینے جیشوان کے 2 تاریخ کو آتا ہے ۔

ہندو اور قدیم ہندوستانی تہذیب اسے ماتا ٹراتھا اونشی Mata Tritha Aunshi کا نام دیتے ہے اور بیساک مہینے کی پہلی چاند سے منسوب کرتے ہیں ۔

جدید مغربی ممالک میں اس کی ابتدا امریکی ریاست ورجینیا سے ہوئی جب پہلی بار ایک مقامی چرچ میں 10 مئی 1908 کو تقریب کا انعقاد کیا گیا ۔ اج دنیا کے اکثر ممالک میں Mother Day مئی کے مختلف تاریخوں میں منایا جاتا ہیں ۔

اسلامی نقطہ نظر سے اہل تشیع 20 جماد الثانی دوختر رسول اللہ (ص) بی بی فاطمہ زھراء س کی یوم ولادت کو Mother Day کے طور پر مناتے ہیں ۔

میرے نزدیک ہر انسان کی تین مائیں ہوتی ہے ۔ ایک ماں جو ایسے جسمانی طور پر اس کائنات میں وجود میں لاتی ہے ۔
جو ایسے نو ماہ تک اپنے وجود میں رکھتی ہے۔ وہ اخری دم تک اپنی اولاد سے محبت کرتا رہتا ہے ۔ اس کیلئے ہر قسم مشکلات اور مصائب کا سامنا کرتا ہے ۔

دوسری ماں انسان کا معنوی ماں ہوتی ہے ۔ آپ ایسے روحانی ماں بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ وہ انسان کی روحانی رہنمائی کرتا ہے ۔ وہ روحانی حوالے سے اس کی ضروریات کو پورا کرتا ہے ۔

جبکہ تیسری ماں انسان کی مادر وطن ہوتی ہے ۔ کیونکہ جسمانی اور روحانی ماں کے ساتھ ساتھ مادر وطن بھی اس کی شخصیت کی نشونما کرتی ہے ۔ مادر وطن بھی وہ ماں ہے جو انسان کو اپنی اغوش میں لیکر ایسے قدرت سے محفوظ اور قدرت کے استعمال کی تربیت کرتا ہے ۔ مادر وطن ہی وہ ماں ہوتی ہے جو انسان کو شناخت عطا کرتی ہے ۔ ۔ جہاں ہمیں اپنی جسمانی اور روحانی ماں کی عظمت ، احترام اور قدردانی کا احساس کرنا چاہیے وہی مادر وطن سے انکاری دوری نامناسب ہے ۔ تینوں ماوں کی اپنی اپنی عظمت اور بلندی کا مقام ہے لیکن میرے نزدیک مادر وطن کی عظمت سب سے اوپر ہوتی ہے کیونکہ مادر وطن کی کوکھ میں انسان جسمانی ماں کی وجود سے دنیا میں آتی ہے اور آخر وہی واپس مادر وطن کی سینے میں سو جاتی ہے ۔ جب تک مادر وطن آزاد نہیں ہوگا جسمانی مادر اور روحانی مادر کی عظمت اور بلندی نامکمل ہے ۔

یوم مادر ماننے کا مقصدِ یہ ہونا چاہے کہ تنیوں ماؤں کی عظمت ، بلندی اور اہمیت کا ادارک اور ان کا حق ادا کرنے کیلئے خود سے تجدید عہد کرنا ہوگا ۔

تنظیم نسل نو ہزارہ مغل کا دوغلا پن پالیسی اور ھزارہ ھای جہان تحریر عاصم ہزارہ افغانستان ایک ناجائز اور غیر فطری ریاست ہے...
16/12/2022

تنظیم نسل نو ہزارہ مغل کا دوغلا پن پالیسی اور ھزارہ ھای جہان

تحریر عاصم ہزارہ

افغانستان ایک ناجائز اور غیر فطری ریاست ہے جو در اصل ہزارہ قوم کے زمینوں پر قبضہ کر کے انگریز سامراج کی مدد سے بنایا گیا ہے۔ دو سو سال سے ھزارستان ایک کالونی ہے اور افغان ایک استعمار جو سیاسی و معاشی استحصال اور ہزارہ کا قتل عام کرتا آرہا ہے ۔ ہر وہ آدمی جو جمہوری یا امارتی افغانستان کو امن و خوشحالی سے تعبیر کرتے ہے اور ہزارہ کو افغان ملت میں شمار کرتے ہیں میرے نزدیک کم از کم وہ ہزاروں ہزارہ شہداء ھزارستان کے خون سے خیانت کر رہے ہیں ۔ ایسے موقعے پر جہاں دنیا بھر میں ہزارہ نسل کشی کے خلاف اور ہزارستان کی آزادی کیلئے شعوری اور غیر شعوری طور پر لوگ جمع ہورہے ہیں اور مسلسل اپنا احتجاج ریکارڈ کیا جارہا ہے ۔ اس دوران تنظیم نسل نو ہزارہ مغل کی جانب سے " لیسہ عالی نسل نو " کے سالانہ تقسیم نتائج کے موقعے پر امارتی حکومت کے نمائندہ برای تعلیم مقیم کوئٹہ مولوی محمد ولی کو مدعو کرنا بہت سے شک و شبہات کو جنم دیتی ہیں۔ اور کئ چیزوں کا پیش خیمہ ثابت ہو رہا ہے کہ آیا یہ بھی طالبان کے حمایتی تو نہیں بنے ہیں اور دونوں کا مفاد تو مشترکہ نہیں ہے ایک طرف مزاری کی برسی منانا اور دوسری طرف استعمار کے ساتھ تصویر بنانا دوغلا پن پالیسی کی نشاندھی کو ظاہر کرتی ہے ۔ ان سیاسی حالات کے پیش نظر جہاں طالبان مسلسل ہزارہ نسل کشی اور کوچی پشتون قبائل کو ہزارستان کی سرزمین پر آباد کاری کا سلسلہ شروع کرچکے ہے ، دوسری طرف سے اقوام متحدہ سمت دیگر بین الاقوامی اداروں میں ہزارہ نسل کشی کے متعلق گفتگو گردش میں ہے اسے موقعے پر ایسے اقدامات یقیناً دنیا کو یہ دیکھنے کی شرمندہ کوشش کی جارہی ہے کہ ہزارہ اور طالبان کا کوئی مسلہ نہیں ہے ۔
اور نہ ہی تحریک آزادی ھزارستان جاری ہے ۔ ہم ایسے ایک سازش سمجھتے ہے کہ جان بوجھ کر تنظیم نسل نو ہزارہ مغل دنیا کو یہ تصور دینے کی کوشش کی ہے کہ ہزارہ اور طالبان کا کوئی مسلہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی نسل کشی ہورہی ہیں ہم طالبان کے امارات اسلامی سے بہت راضی ہے ۔
ہزارہ نوجوان ھزارستان کی آزادی سے کم کسی چیز پر بھی قائل نہیں ہونگے ۔ لہذا ایسے اقدامات ہزارہ قوم سے دشمنی کے مترادف ہے ۔ تنظیم نسل نو مغل ہزارہ اپنے نام کے ساتھ پاکستان کا بھی اضافہ کرئے تاکہ یہ واضح سمجھا جائے کہ ان کی حدود پاکستان کے اندر تک ہے ۔ اور بیرونی دنیا کے ہزاروں سے ان کا کوئی سیاسی رشتے نہیں ہے کیونکہ بیرونی دنیا کے سارے ہزارے تحریک آزادی ھزارستان کے حق میں ہے ۔ کوئٹہ میں مقیم کسی بھی شخصیات اور گروہ کی جانب سے اگر تحریک آزادی ھزارستان کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئ تو ہم اس کی پر زور ہمیشہ مذمت کرتے رہے گئے۔

حولی گروی دو کمرہ تائنہ منزل و دو کمرہ بالنہ منزل۔ایڈرس: محلہ حیدری نزد امام بارہ گاہ حیدری فون نمبر:  03197903173
10/12/2022

حولی گروی
دو کمرہ تائنہ منزل و دو کمرہ بالنہ منزل۔
ایڈرس: محلہ حیدری نزد امام بارہ گاہ حیدری
فون نمبر:
03197903173

تاریخ میں جب کسی ایجاد یا کسی فکر کے زریعہ تبدیلی آتی ہے تو زمانہ ایک نئے دور میں داخل ہو جاتا ہے ۔ مگر تبدیلی کا یہ عمل...
04/12/2022

تاریخ میں جب کسی ایجاد یا کسی فکر کے زریعہ تبدیلی آتی ہے تو زمانہ ایک نئے دور میں داخل ہو جاتا ہے ۔ مگر تبدیلی کا یہ عمل بہت آہستہ آہستہ اور سست ہوتا ہے ۔ اس دوران میں ایک درمیانی عہد ہوتا ہے جس میں پرانی اور نئ چیزیں ایک ساتھ چلتی ہیں۔ یہاں تک کہ ایک وقت آتا ہے کہ پرانی چیزیں بالکل ختم ہوجاتی ہیں اور ان کی جگہ نئ چیزیں لے لیتی ہیں۔

ممتاز مورخ ڈاکٹر مبارک علی


The New Conflict in Central & South Asia?✍️ Written By Jan Muhammad Hazara📰 Daily Balochistan Express🗓️ 24 - Nov - 2022 ...
24/11/2022

The New Conflict in Central & South Asia?
✍️ Written By Jan Muhammad Hazara

📰 Daily Balochistan Express
🗓️ 24 - Nov - 2022 , Thursday

What is corruption?✍️ Written By Jan Muhammad Ansari📰 Daily Balochistan Express🗓️ 13 - Nov - 2022 , Sunday When we hear ...
17/11/2022

What is corruption?
✍️ Written By Jan Muhammad Ansari

📰 Daily Balochistan Express
🗓️ 13 - Nov - 2022 , Sunday

When we hear the word "corruption" quickly we realise it means the structure of illegal works.
We just realised about the one n only financial corruption. But did you ever thing what more kinds we have?

According to the google Wikipedia curruption is the dishonest behavior by those on powers, such as managers and governament Officials etc.

One of the biggest problems of 3rd world countries is curruption. It is more dangerous for the any nation , society or country then the COVID-19.

We have many types of corruptions such as miss use of their powers, financial, ethical & many more types.

If anyone will not be able to do their own individual or collective duty, I think it is also a kind of corruption so before we talking about the political or financial corruptions, We must do our own social duty. We will be developed when everyone of our society understand their social duty & about the site effect of corruption on the society.


👑 Hazara " The Word Hazara is The modified for the Second Capital of Ancient Arachozia. Herola  or Ozola. He gives the m...
15/11/2022

👑 Hazara

" The Word Hazara is The modified for the Second Capital of Ancient Arachozia. Herola or Ozola. He gives the meaning of Hazaras as " Happy " Good " and Fame . "

✍️ ( REF : The Hazaras By Hassan - Foladi page No - 2 )


📌 Special Online Session With.🎤  Speaker " Adnan Haider From Parachinar "( Sports Journalist, Columnist, story Maker, Re...
12/11/2022

📌 Special Online Session With.

🎤 Speaker " Adnan Haider From Parachinar "
( Sports Journalist, Columnist, story Maker, Reporter at Hum News Urdu Bs - Mass Communication from Karachi University )

🎤 Host : J M Ansari

🔸 Topic Title : T20 WorldCup Final _ 2022

🔺 ️ Live Streaming

🗓 November 12Th ( Saturday ) 2022 ,
🕐 4 : 00 PM ( Day) pakistani🇵🇰
📹 Jan Muhammad Ansari

Address

Alamdar Road Quetta
Quetta

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Hazara Television - H TV posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share

Nearby media companies


Other News & Media Websites in Quetta

Show All

You may also like