ہفت روزہ انسانی ترقیWeekly INSANI TARAQQI

ہفت روزہ انسانی ترقیWeekly INSANI TARAQQI Weekly INSANI TARAQQI newspaper publish in Urdu and Ebglish from Rawalpindi ... Chaudhry Ahsan Preme Weekly Insani Taraqqi a newspaper publish from Rawalpindi

سینٹ کی قرارد اد عوام کو گمراہ کرنے اور اسٹیبلشمنٹ کو مزید بااختیار بنانے کی بد نیتی کی کوشش انسانی حقوق کی ضمانتوں کے س...
20/11/2023

سینٹ کی قرارد اد عوام کو گمراہ کرنے اور اسٹیبلشمنٹ کو مزید بااختیار بنانے کی بد نیتی کی کوشش
انسانی حقوق کی ضمانتوں کے ساتھ قانون سازی کی مطابقت کا جائزہ لینا عدالتوں کا اولین فرض ہے
توشہ خانہ کیس: نیب کو 30 نومبر تک نواز شریف کا بیان ریکارڈ کرنے کی ہدایت
اٹھارویں ترمیم میں تبدیلی مسلم لیگ (ن) کے انتخابی منشور کا حصہ ہونے کا امکان
رپورٹ: چودھری احسن پریمی: ایسوسی ایٹڈ پریس سروس (اے پی ایس)
23 اکتوبر 2023 کو سپریم کورٹ نے ایک تاریخی فیصلہ سنایا۔ ایک مختصر حکم نامے میں، تفصیلی وجوہات جن کی ابھی تک اشاعت نہیں کی گئی، سپریم کورٹ نے آرمی ایکٹ 1952 کی دفعات کو قرار دیا، جو شہریوں کو اپنے دائرہ کار میں لاتے تھے اور ان کے مقدمے کی سماعت کورٹ مارشل کے ذریعے کرتے تھے، آئین کے خلاف تھے اور ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی۔ اس کے علاوہ، فوجی عدالتوں کے بجائے سپریم کورٹ میں، مجاز دائرہ اختیار کی باقاعدہ فوجداری عدالتیں 9 اور 10 مئی 2023 کو جرائم کے ارتکاب کے ملزمان کے ٹرائل کریں گی۔اس حکم کو متفقہ طور پر ملک میں قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی اور انسانی حقوق کی فتح کے طور پر منایا جانا چاہیے تھا۔پھر بھی، ہماری ٹیلی ویژن اسکرینوں اور سوشل میڈیا پر، ہم نے ملا جلا ردعمل دیکھا۔ کچھ قابل ذکر وکلا، صحافیوں اور سیاست دانوں نے اس حکم پر وحشت کا اظہار کیا اور پاکستان کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے پر اس کی مذمت کی۔ اس کے علاوہ، ایک درجن سے کم سینیٹرز نے کورم کی کمی کے باوجود ایک عجیب و غریب 'قرارداد' پاس کی یہ تجویز کرتی ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کے ذریعے آئین کو "دوبارہ لکھا"۔ "قرارداد" میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے "شہادت کے جذبے" کو ترک کر دیا ہے اور "دہشت گردوں، ریاست مخالف عناصر، غیر ملکی ایجنٹوں اور جاسوسوں کو عام عدالتوں میں ٹرائل کرنے کے لیے نرم آپشن دیا ہے"۔بہترین طور پر، عام شہریوں کے فوجی ٹرائل کی اس طرح کی حمایت اور سپریم کورٹ کے حکم کی مذمت متعلقہ قانونی فریم ورک اور فقہ سے لاعلمی کو ظاہر کرتی ہے۔ بدترین طور پر، یہ عوام کو گمراہ کرنے اور پاکستان کے عوام کے حقوق کی قیمت پر سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو مزید بااختیار بنانے کی بد نیتی کی کوششیں ہیں۔ملٹری جسٹس کے حوالے سے چار افسانے خاصے گمراہ کن ہیں۔پہلا، یہ دعوی کہ فوجی عدالتوں کا طریقہ کار منصفانہ ٹرائل کے معیار پر پورا اترتا ہے، کئی وجوہات کی بنا پر غلط ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ فوجی عدالت کے جج فوجی افسران ہوتے ہیں جو ایگزیکٹو برانچ کا حصہ ہوتے ہیں اور فوجی درجہ بندی سے آزادی حاصل نہیں کرتے۔ یہ بنیادی طور پر منصفانہ ٹرائل کے حق کی نفی کرتا ہے، جس کے لیے ایک مجاز، آزاد اور غیر جانبدار عدالت کے ذریعے ٹرائل کی ضرورت ہوتی ہے، ساتھ ہی آئین کا آرٹیکل 175، جو عدلیہ کو ایگزیکٹو سے الگ کرنے کی ضمانت دیتا ہے۔دوسرا، آئین کا آرٹیکل 8 واضح طور پر فراہم کرتا ہے کہ کوئی بھی قانون جو بنیادی حقوق سے متصادم ہو، اس حد تک غیر مطابقت کی حد تک کالعدم ہو گا۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے پاس قانون سازی کا جائزہ لینے کا اختیار ہے - چاہے وہ نیا ہو یا پرانا - اور اسے بنیادی حقوق سے متصادم قرار دیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عدالتیں آئین کو 'دوبارہ لکھ رہی ہیں' - یہ عدالتوں کا اولین فرض ہے کہ وہ انسانی حقوق کی ضمانتوں کے ساتھ قانون سازی کی مطابقت کا جائزہ لیں۔تیسرا، یہ تجویز کرنا غلط ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کے ذریعے "دہشت گردوں اور ریاست مخالف اداکاروں" کو "نرم" اختیار دیا ہے۔یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ آرمی ایکٹ کی دفعات جنہیں سپریم کورٹ نے الٹرا وائرس قرار دیا تھا، فوجی عدالتوں کے ذریعے شہریوں کے مقدمے کی سماعت صرف ان حالات میں کرنے کی اجازت دی گئی تھی جہاں عام شہریوں پر فوجی افسران کو ان کی ڈیوٹی سے "بہکانے یا بہکانے کی کوشش" یا بعض جرائم کے ارتکاب کا الزام لگایا گیا تھا۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت فوج سے متعلق یہاں تک کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے، اس لیے، باقاعدہ فوجداری عدالتوں اور انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کے پاس دہشت گردی اور فوجی افسران یا تنصیبات پر حملے جیسے جرائم میں ملوث افراد کے مقدمات کی سماعت کرنے کا دائرہ اختیار تھا۔درحقیقت صورت حال اس قدر مضحکہ خیز تھی کہ ایک شخص پر دہشت گردی کے حملے میں ایک اسکول کو نشانہ بنانے اور درجنوں بچوں کو ہلاک کرنے کا الزام انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کے دائرہ اختیار میں آیا۔ لیکن کورٹ مارشل کو ان شہریوں کے خلاف مقدمہ چلانے کی اجازت دی گئی جن پر بغیر اجازت کے فوجی تنصیب کے آس پاس ہونے کا الزام تھا۔یقینا، اگر باقاعدہ فوجداری انصاف کے نظام میں عدالتیں دہشت گردی جیسے سنگین ترین جرائم میں ملوث شہریوں کا ٹرائل کرنے اور مجرموں کو ذمہ دار ٹھہرانے کے لیے کافی اہل ہیں، تو وہ ان لوگوں کا ٹرائل کرنے کی بھی اہل ہیں جن پر جرائم کے ارتکاب کا الزام ہے۔ جو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ہیں۔ یہ کسی بھی طرح سے ہمارے فوجداری نظام انصاف کی ناکامیوں کا جواز نہیں ہے، جو کہ مایوس کن حالت میں شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ تاہم، ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کی وجوہات کی درست تشخیص کی جائے اور بامقصد اصلاحات لائی جائیں یعنی نظام انصاف کو فوج کے حوالے نہ کیا جائے۔آخر میں، یہ دعوی کہ سپریم کورٹ کے بڑے بنچوں نے بار بار عام شہریوں کے فوجی ٹرائل کو آئینی قرار دیا ہے۔سپریم کورٹ نے چند مواقع پر کورٹ مارشل کے ذریعے عام شہریوں کے ٹرائل کی آئینی حیثیت پر غور کیا ہے، لیکن متعلقہ آئینی ڈھانچہ اور اس وقت عدالت کے زیر غور مسائل مختلف تھے۔ان میں سے زیادہ تر فیصلے، خاص طور پر ایف بی علی کا کیس، 2010 سے پہلے سنایا گیا تھا، جب آرٹیکل 10A منصفانہ ٹرائل کا حق آئین کے بنیادی حقوق کے باب کا حصہ نہیں تھا۔ ایک اہم فیصلہ، 'ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن'، 2010 کے بعد دیا گیا تھا، لیکن موجودہ کیس میں سپریم کورٹ کے سامنے موجود مسائل سے الگ ہے۔'ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن' میں، سپریم کورٹ کی ایک فل کورٹ بنچ نے آئین کی 21ویں ترمیم اور آرمی ایکٹ سے متعلقہ ترامیم کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کا فیصلہ کیا۔ اکثریت سے، سپریم کورٹ نے ایسے افراد کو ٹھہرایا جو "مذہب یا فرقے کا نام استعمال کرنے والے کسی بھی دہشت گرد گروپ یا تنظیم" سے تعلق رکھنے کا دعوی کرتے ہیں، یا ان کے بارے میں جانا جاتا ہے، آئین کے تحت امتیازی سلوک کی اجازت دینے والی ایک درست درجہ بندی تشکیل دی گئی، اور اس کے نتیجے میں، فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔ یہ آئینی ترامیم 2019 میں ختم ہوگئیں اور اب نافذ العمل نہیں ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے ذریعے ختم کیے گئے آرمی ایکٹ کی دفعات کو ایسا آئینی احاطہ حاصل نہیں تھا۔جیسا کہ نگراں حکومتیں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کرتی ہیں، یہ واضح ہونا چاہیے کہ شہریوں کے فوجی ٹرائل کی اجازت دینے کا سوال ہمارے آئینی اور جمہوری نظام کے مرکز میں ہے۔ اگر ہم خفیہ کارروائیوں میں اس طرح کے مقدمات چلانے والے فوجی افسروں کو جواز فراہم کرنے، قانونی حیثیت دینے اور ان کی تعریف کرنے جارہے ہیں تو اسے اپنی بنیادی آزادیوں کی توہین کے طور پر دیکھنے کے بجائے، ہم ایک ساتھ جمہوریت، اختیارات کی علیحدگی اور سویلین حکمرانی کا بہانہ بھی ترک کر سکتے ہیں۔ جبکہ احتساب عدالت اسلام آباد نے توشہ خانہ کیس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کا بیان قلمبند کرنے کی درخواست منظور کرتے ہوئے قومی احتساب بیورو (نیب) کو سابق وزیر اعظم کا بیان 30 نومبر تک ریکارڈ کرنے کی ہدایت کردی۔احتساب عدالت میں نواز شریف، آصف علی زرداری، یوسف رضا گیلانی، خواجہ عبدالغنی مجید، انورمجید اور دیگر کے خلاف توشہ خانہ نیب ریفرنس پر سماعت ہوئی، احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کیس کی سماعت کی۔نواز شریف کی جانب سے پلیڈر رانا عرفان عدالت کے روبرو پیش ہوئے جب کہ آصف علی زرداری، خواجہ عبدالغنی مجید، انور مجید اور یوسف رضا گیلانی کے پلیڈر بھی عدالت میں پیش ہوئے۔نواز شریف کے وکیل قاضی مصباح الحسن ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے جہاں عدالت نے ملزمان کی حاضریاں لگائیں، وکیل صفائی قاضی مصباح نے کہا کہ ایک دفاع کا بیان رہتا ہے، عدالت نیب کو نواز شریف کا بیان ریکارڈ کرنے کی ہدایت کرے۔وکیل صفائی نے کہا کہ ضمنی ریفرنس فائل کرنا ہوگا، نواز شریف کی غیر حاضری میں ریفرنس فائل ہوا تھا، ہم چاہتے ہیں نواز شریف کا مقف نیب ریکارڈ کرلے۔نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ درخواست پڑھنے کا وقت دیا جائے، عدالت نے ریمارکس دیے کہ اس میں کیا مسئلہ ہے نواز شریف کو بلا کر بیان ریکارڈ کرلیں، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ تفتیشی افسر نے بیان ریکارڈ کرنا ہوتا ہے، وہی کریں گے۔وکیل صفائی نے کہا کہ ہمیں سوالنامہ دے دیں، ہم جواب دے دیتے ہیں، کوئی نزدیکی تاریخ دے دیں، پراسیکیوٹر نے کہا کہ تفتیشی افسر بیان ریکارڈ کرلیں، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔احتساب عدالت نے نواز شریف کا بیان قلمبند کرنے کی درخواست منظور کرتے ہوئے 30 نومبر تک سابق وزیر اعظم کا بیان ریکارڈ کرنے کی ہدایت کی اور کیس کی سماعت 30 نومبر تک ملتوی کردی۔واضح رہے کہ احتساب عدالت نے 24 اکتوبر کو نواز شریف کی 10 لاکھ روپے مچلکوں پر ضمانت منظور کر لی تھی، اس کے ساتھ عدالت نے توشہ خانہ ریفرنس کیس کی سماعت 20 نومبر تک ملتوی کر تے ہوئے کہا تھا کہ آئندہ سماعت پر نقول تقسیم کی جائیں گی۔عدالت نے جائیداد ضبطی کی درخواست پر نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 20 نومبر کو جائیداد ضبطی کی درخواست پر دلائل طلب کیے تھے۔احتساب عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ نیب کے مطابق نواز شریف کی گرفتاری درکار نہیں، وارنٹ کا مقصد عدالت حاضری تھا جو مکمل ہوگیا، نیب کے بیان اور دلائل کی روشنی میں نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری منسوخ کیے جاتے ہیں۔تحریری فیصلے میں کہا گیا تھا کہ وکیل صفائی کے مطابق نواز شریف بیمار ہیں، ہر سماعت پر عدالت پیش نہیں ہوسکتے جبکہ عدم پیشی پر عدالتی کارروائی تاخیر کا شکار ہوگی اور عدالت کا وقت ضائع ہوگا لہذا رانا محمد عرفان کو نواز شریف کی جانب سے پلیڈر مقرر کیا گیا ہے، نواز شریف کی جانب سے رانا محمد عرفان ہر عدالتی پیشی پر حاضر ہوسکتے ہیں۔واضح رہے کہ 19 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنسز میں نواز شریف کی حفاظتی ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں گرفتار کرنے سے روک دیا تھا۔بعد ازاں 21 اکتوبر کو نواز شریف نے وطن واپسی پر اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ایون فیلڈ اپارٹمنٹس اور العزیزیہ ریفرنسز میں اپنی سزاں کے خلاف زیر التوا اپیلوں کی بحالی کے لیے درخواستوں پر دستخط کردیے تھے۔یاد رہے کہ نواز شریف کو 2018 میں العزیزیہ ملز اور ایون فیلڈ کرپشن کیسز میں سزا سنائی گئی تھی، العزیزیہ ملز ریفرنس میں انہیں لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں 7 برس کے لیے قید کردیا گیا تھا تاہم کچھ ہی عرصے بعد انہیں طبی بنیادوں پر لندن جانے کی اجازت دے دی گئی تھی۔نواز شریف جیل میں صحت کی خرابی کے بعد نومبر 2019 میں علاج کی غرض سے لندن روانہ ہوگئے تھے لیکن وہ تاحال پاکستان واپس نہیں آئے جبکہ ان کے خلاف پاکستان میں متعدد مقدمات زیر التوا ہیں۔نواز شریف کی لندن روانگی سے قبل شہباز شریف نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے اس بات کی یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ 4 ہفتوں یا ان کے ڈاکٹر کی جانب سے ان کی صحت یابی کی تصدیق کے بعد وہ پاکستان واپس آجائیں گے۔بعد ازاں گزشتہ سال اگست میں نواز شریف نے برطانوی محکمہ داخلہ کی جانب سے طبی بنیادوں پر ان کے ملک میں قیام میں توسیع کی اجازت دینے سے انکار پر امیگریشن ٹربیونل میں درخواست دی تھی۔جب تک ٹریبونل نواز شریف کی درخواست پر اپنا فیصلہ نہیں دے دیتا نواز شریف برطانیہ میں قانونی طور پر مقیم رہ سکتے ہیں، ان کا پاسپورٹ فروری 2021 میں ایکسپائر ہوچکا تھا تاہم پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت بننے کے بعد ان کو پاسپورٹ جاری کردیا گیا تھا۔یاد رہے کہ 2020 میں اسلام آباد کی احتساب عدالت نے توشہ خانہ ریفرنس میں سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، عبدالغنی مجید اور انور مجید پر فرد جرم عائد کی تھی جب کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کو اشتہاری قرار دیا تھا۔جبکہ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ(ن) نے 18ویں آئینی ترمیم میں تبدیلیاں کرنے کا عندیہ دیا ہے جس میں صوبوں کے درمیان محصولات کی تقسیم کا طریقہ کار از سر نو تشکیل دینے پر نمایاں توجہ ہوگی۔ مسلم لیگ (ن) کی منشور کمیٹی کو کئی تجاویز موصول ہوئی ہیں، جن میں 18ویں ترمیم کو یکسر تبدیل کرنے سے لے کر صوبوں کے درمیان مالی وسائل کی تقسیم کے طریقہ کار کو تبدیل کرنا شامل ہے۔مسلم لیگ (ن) اِس آئینی شق میں ترمیم کرنے اور اسے اپنے منشور کا حصہ بنانے کے وعدے کے ساتھ انتخابی مہم میں اترنے کے لیے تیار ہے، پارٹی کا منشور اگلے ماہ منظر عام پر لایا جائے گا۔2010 میں پیپلزپارٹی کی زیر قیادت حکومت کے دوران منظور ہونے والی 18ویں ترمیم میں صحت، خواتین کی ترقی، سماجی بہبود اور مقامی حکومت سمیت عوامی خدمات کے اہم شعبوں میں اختیارات صوبوں کو منتقل کر دیے گئے تھے۔ترمیم کے تحت وفاق کے وسائل میں صوبوں کا حصہ 57.5 فیصد مقرر کیا گیا تھا جبکہ باقی ماندہ وسائل وفاقی حکومت قرضوں کی ادائیگی، ترقیاتی پروگراموں اور دفاع وغیرہ پر خرچ کرتی ہے۔مسلم لیگ (ن)کے ذرائع نے کہا کہ پارٹی کی اعلی قیادت میں بہت شدت سے یہ احساس، بلکہ یقین پایا جاتا ہے کہ صوبوں کے درمیان(آئین کی 18ویں ترمیم کے تحت) مالی وسائل کی تقسیم کے موجودہ انتظام نے مالی مسائل پیدا کیے ہیں۔مسلم لیگ (ن) نے حال ہی میں 8 فروری کے انتخابات کے لیے منشور کا مسودہ تیار کرنے کے لیے ایک کمیٹی قائم کی ہے، پارٹی قیادت اپنے اراکین کی جانب سے موصول ہونے والی رائے اور تجاویز کو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ فی الحال یہ سمجھا جا رہا ہے کہ پارٹی 18ویں ترمیم کو مکمل طور پر تبدیل نہیں کرے گی لیکن یہ اس کی نمایاں خصوصیات پر توجہ دے گی اور صوبوں کے درمیان مالی وسائل کی تقسیم کے طریقہ کار کو نئی شکل دے گی، ممکنہ طور پر آپ اسے مسلم لیگ (ن) کے منشور کے حصے کے طور پر دیکھیں گے۔مسلم لیگ (ن) کے ایک سینیئر رہنما نے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ ایسی کئی تجاویز زیر غور ہیں، قومی مالیاتی کمیشن(این ایف سی) کی ری اسٹرکچرنگ کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ صوبوں کو منتقل کیے جانے والے وسائل نچلی سطح، یعنی شہروں میں بلدیاتی حکومت تک پہنچیں۔مسلم لیگ (ن) کی منشور کمیٹی کے سربراہ سینیٹر عرفان صدیقی اور پارٹی کی ترجمان مریم اورنگزیب سے اس معاملے پر تبصرے کے لیے بار بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تاہم انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔دریں اثنا پارٹی کے ایک اور رہنما نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) اور دیگر جماعتوں کی قیادتوں کے درمیان انتخابی اتحاد بنانے کے لیے حالیہ ملاقاتوں نے پارٹی کی اعلی قیادت کو مزید حوصلہ دیا ہے کہ ریاستی امور ہموار انداز میں چلانے کے لیے گورننس کے ہر کلیدی شعبے میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کی جائیں۔انہوں نے کہا کہ یہ اصلاحات منشور میں تجویز کی جائیں گی جن کے ذریعے پارٹی کا مقصد بدعنوانی پر قابو پانا اور نچلی سطح پر لوگوں تک بہتر شہری سہولیات پہنچانا ہے۔رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ صوبائی خود مختاری کے نام پر ہم نے دیکھا ہے کہ صوبوں کو این ایف سی ایوارڈ کے تحت اپنا حصہ ملنے کے بعد بری الذمہ کردیا جاتا ہے جبکہ قرضوں اور سود کی ادائیگی، دفاعی بجٹ کے تحت رقم کی فراہمی، خسارے سے دوچار قومی اداروں کے معاملات، کرنٹ اکانٹ خسارے کی ادائیگی اور بہت سے دیگر مالیاتی معاملات صرف وفاق کی ذمہ داری بن جاتے ہیں۔انہوں نے کراچی میں ایم کیو ایم (پاکستان)کے رہنماں سے ملاقات کے بعد پارٹی کے ایک اور سینئر رہنما خواجہ سعد رفیق کی میڈیا سے گفتگو کا حوالہ دیا، جہاں انہوں نے واضح طور پر بہتر عدالتی انتظام کے لیے آئینی اصلاحات اور مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے کے لیے نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی کا اشارہ دیا تھا۔پیپلز پارٹی 18ویں ترمیم کا کریڈٹ لیتی ہے اور اسے ایک کارنامہ قرار دیتی ہے، اس نے 18ویں ترمیم میں تجویز کردہ کسی بھی تبدیلی کی سختی سے مخالفت کی ہے۔پارٹی کے سینیئر رہنماں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ ترمیم ختم کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔اگر 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی کی پرانی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ن) اقتدار میں آجائے تو یہ خدشات حقیقت بن سکتے ہیں، تاہم پیپلزپارٹی نے پوری طاقت کے ساتھ ایسے اقدام کی مزاحمت کرنے کا عزم کیا ہے۔مسلم لیگ (ن) کے مجوزہ منصوبوں پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے پیپلزپارٹی نے کہا کہ نواز شریف اس طرح کی حرکتوں سے صرف اپنا سیاسی مستقبل تاریک کریں گے۔یاد رہے کہ 18ویں ترمیم میں تبدیلی کے مطالبات گزشتہ چند برسوں سے اقتدار کی راہداریوں میں گونج رہے ہیں۔2018 سے 2022 تک سابق وزیر اعظم عمران خان اور پی ٹی آئی کے اہم رہنماں نے اپنے دور حکومت میں وسائل کی تقسیم کے طریقہ کار میں بے ضابطگیوں کو دور کرنے کی خواہش کا بارہا اظہار کیا۔2020 میں سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ این ایف سی کے ساتھ ساتھ اِس 10 سال پرانی ترمیم کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے، اس ترمیم کے بعد کئی انتظامی مسائل پیدا ہوئے ہیں اور وفاق انہیں حل کرنے میں بے بس ہے۔

عرب حکومتوں نے ایک نسل کشی اور انسانی تباہی کے تماشائیوں سے زیادہ کام کیا  غزہ :سلامتی کونسل کی پہلی کارروائی زمین پر تب...
20/11/2023

عرب حکومتوں نے ایک نسل کشی اور انسانی تباہی کے تماشائیوں سے زیادہ کام کیا
غزہ :سلامتی کونسل کی پہلی کارروائی زمین پر تباہ کن صورتحال سے نمٹنے میں ناکام رہی
او آئی سی کی عدم فعالیت کو بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کے ساتھ غداری کے طور پر دیکھا گیا
اگر ریاست محروم طبقات کے حقوق کو یقینی بنائے تو عسکریت پسندی کو روکنے میں بہت آگے جا سکتی ہے
رپورٹ: چودھری احسن پریمی: ایسوسی ایٹڈ پریس سروس (اے پی ایس)
غزہ کے الشفا ہسپتال پر اسرائیلی افواج نے ایک اور وحشیانہ قابض طاقت کے ہاتھوں حملہ کیا تو دنیا نے وحشت سے دیکھا۔ ٹینکوں کی مدد سے، زمینی حملے نے ہسپتال میں خوفزدہ مریضوں پر دہشت کی بارش کر دی، جس سے لوگوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہو گیا، جن میں ہزاروں شہری وہاں پناہ لیے ہوئے تھے۔عینی شاہدین نے اسرائیلی فوجیوں کی طرف سے طبی آلات کو تباہ کرنے، طبی عملے سے بندوق کی نوک پر پوچھ گچھ کے ساتھ ساتھ لوگوں کو اتارنے، آنکھوں پر پٹی باندھنے اور حراست میں لینے کے بارے میں بتایا، جنہیں نامعلوم مقامات پر لے جایا گیا۔ اس کے چھاپے کا بہانہ یہ تھا کہ ہسپتال حماس کا اڈہ تھا - ایک پیٹنٹ جھوٹ۔ اس دعوے کے لیے کوئی قابل اعتماد ثبوت پیش نہیں کیا گیا کہ، کسی بھی صورت میں، بین الاقوامی انسانی قانون کے ذریعے ممنوعہ ہسپتال حملے کا جواز پیش نہیں کیا گیا۔جیسے ہی ہسپتال پر ہولناک حملے کی دنیا بھر کے ممالک سے مذمت کی گئی۔ اقوام متحدہ کے حکام، عالمی امداد اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس کارروائی کی مذمت کی۔اقوام متحدہ کے امدادی سربراہ مارٹن گریفتھس اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے سربراہ ٹیڈروس اذانوم گیبریئس دونوں نے کہا، "اسپتال میدان جنگ نہیں ہیں"، اور یہ کہ "نوزائیدہ بچوں، مریضوں، طبی عملے اور تمام شہریوں کے تحفظ کو دیگر تمام خدشات کو زیر کرنا چاہیے۔" جیسے جیسے عالمی تنقید بڑھ رہی تھی، وائٹ ہاس نے اس کی تردید کی کہ اس نے اسرائیل کو فوجی چھاپے کے لیے گرین لائٹ دی۔ایک روز قبل امریکی انتظامیہ کے ترجمان نے اعلان کیا تھا کہ اس کے پاس انٹیلی جنس معلومات ہیں جو حماس کے الشفا ہسپتال کو اپنی فوجی کارروائیوں کے لیے استعمال کرنے کے اسرائیلی دعووں کی تائید کرتی ہیں۔ لیکن اس نے کوئی دلیل پیش نہیں کی۔اس کے بعد، صدر جو بائیڈن نے کارروائی پر عالمی غم و غصے کے باوجود اور اس بات کا ثبوت فراہم کیے بغیر کہ ہسپتال حماس کا کمانڈ سینٹر تھا، چھاپے کا دفاع کیا۔الشفا پر حملہ غزہ پر اسرائیل کی جنگ کے چھٹے ہفتے میں ہوا تھا جس میں 4600 بچوں سمیت 11,500 سے زیادہ فلسطینی مارے گئے تھے۔ 15 لاکھ سے زائد لوگ زبردستی بے گھر ہوئے ہیں۔ جنگ بندی کے لیے بڑھتے ہوئے عالمی شور شرابے کے باوجود، جنگ بندی کی حمایت سے امریکی انکار دشمنی کو ختم کرنے کی راہ میں حائل ہے۔اقوام متحدہ میں، سلامتی کونسل نے جنگ کی انسانی جہت کو حل کرنے کے لیے ایک اور قرارداد پر غور کیا۔ قرارداد منظور کرنے کی چار ناکام کوششوں کے بعد، مالٹا کی طرف سے پانچواں مسودہ پیش کیا گیا جس میں غزہ میں "کافی دنوں" کے لیے "فوری اور توسیع شدہ انسانی توقف" کا مطالبہ کیا گیا تاکہ اقوام متحدہ کی ایجنسیوں اور شراکت داروں کو مکمل اور بلا روک ٹوک رسائی کی اجازت دی جا سکے۔اسے 15 رکنی سلامتی کونسل کے 12 ووٹوں سے منظور کیا گیا۔ قرارداد میں حماس کی مذمت نہ ہونے کی وجہ سے امریکا اور برطانیہ نے احتجاج نہیں کیا۔ روس نے جنگ بندی نہ کرنے کی وجہ سے پرہیز کیا۔انسانی بنیادوں پر 'توقف' اسرائیل کی طرف سے کی جانے والی نسل کشی اور جبری نقل مکانی کو نہیں روکے گا۔ وہ جنگ بندی کا متبادل نہیں ہیں۔ بظاہر عام شہریوں بالخصوص بچوں کی حفاظت کے لیے یہ وقفے غزہ میں انسانی امداد پہنچانے کے لیے صرف تنگ دروازے فراہم کر سکتے ہیں۔ لیکن چونکہ اسرائیل نے طویل عرصے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی ہے، اس لیے تل ابیب کا قانونی طور پر پابند ہونے کے باوجود اس کی پابندی کا امکان نہیں ہے۔اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر گیلاد اردان نے قرارداد کو "بے معنی" قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک اس کی تعمیل نہیں کرے گا۔ فلسطینی ایلچی ریاض منصور نے اس قرارداد پر اپنی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ جس چیز کی ضرورت تھی وہ جنگ بندی اور دشمنی کے خاتمے کی تھی۔ جنگ شروع ہونے کے بعد سے سلامتی کونسل کی پہلی کارروائی زمین پر تباہ کن صورتحال سے نمٹنے میں ناکام رہی۔ اس کے باوجود، اسرائیل کی جانب سے غزہ میں مہلک بمباری میں اضافہ، مغربی کنارے میں چھاپوں میں شدت اور فلسطینیوں کی ہلاکتوں میں اضافہ کے ساتھ، وائٹ ہاس امریکی انتظامیہ کے اندر اختلاف رائے، جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والے عوامی مظاہروں اور اس کے اتحادیوں کے درمیان بڑھتی ہوئی بے چینی کی وجہ سے دبا میں آ گیا۔فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے جنگ بندی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اسرائیل کو غزہ میں بمباری اور بچوں اور خواتین کو قتل کرنا بند کرنا چاہیے۔ جی سیون میں دراڑیں کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کے اسرائیل کو محصور غزہ کی پٹی میں "خواتین، بچوں اور بچوں کے قتل" کو ختم کرنے کے مطالبے سے بھی واضح تھیں۔تاہم، اس نے ابھی تک اسرائیل کے لیے واشنگٹن کی غیر مشروط حمایت کو متاثر کیا ہے۔ یہ بات سان فرانسسکو میں ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن فورم کے اجلاس کے بعد اپنے پریسر میں بائیڈن کے ریمارکس سے ظاہر ہوئی۔ انہوں نے جنگ بندی کی مخالفت کا اعادہ کیا اور اسرائیل کی فوجی مہم کا دفاع کیا۔ انہوں نے ایک بار پھر حماس پر بچوں کے سر قلم کرنے کا الزام لگایا، حالانکہ اس سے قبل کی رپورٹس بالکل غلط ثابت ہوئی تھیں، جن کا وائٹ ہاس نے بھی اعتراف کیا تھا۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ غزہ میں اسرائیل کی جنگ اسی وقت ختم ہو گی جب حماس کی فوجی صلاحیت کم ہو گی۔ ایسی کوئی امید جو امریکہ اسرائیل کو روکے گا ان اعلانات سے ختم ہوتی دکھائی دے رہی تھی۔ یہ امریکہ میں رائے شماری کے نتائج کے باوجود جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زیادہ تر امریکی جنگ بندی چاہتے ہیں۔ رائٹرزکے ایک سروے میں پایا گیا کہ دو تہائی سے زیادہ لوگوں نے جنگ بندی کی حمایت کی اور اسرائیل کے لیے حمایت ختم ہو رہی ہے۔جنگ کا ایک اہم پہلو غلط معلومات کی حد تک رہا ہے اور اسرائیلی رہنماں اور اس کی فوج نے جان بوجھ کر جھوٹ پھیلایا ہے، جس کی بازگشت زیادہ تر مغربی میڈیا نے بلاشبہ سنائی ہے۔ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ کچھ اشاعتوں نے چند مستثنیات کے ساتھ فلسطینیوں کی ہلاکتوں کو مکمل طور پر نظرانداز کیا ہے۔دی اکانومسٹ نے استدلال کیا کہ شہریوں کی ہلاکتوں کی پرواہ کیے بغیر اسرائیل کو جنگ جاری رکھنی چاہیے اور جنگ بندی کو "امن کا دشمن" قرار دیا۔ دیگر خبروں کی اشاعتوں نے پناہ گزینوں کے کیمپوں اور ہسپتالوں پر اسرائیل کی بے دریغ، وحشیانہ بمباری کو اس کے اپنے دفاع کا حق قرار دیا۔ فلسطینیوں کی غیر انسانی سلوک کو مغربی میڈیا نے زیادہ تر کوریج کی ہے۔غزہ میں نہ رکنے والے خونریزی سے اپنے جذبات کو بھڑکانے کے ساتھ، دنیا بھر کے مسلم عوام مغربی میڈیا کی جانبدارانہ کوریج سے حیران نہیں ہوئے کیونکہ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ ان کی گہری مایوسی عرب حکومتوں پر ہے جنہوں نے مذمت جاری کرنے کے علاوہ ایک نسل کشی اور انسانی تباہی کے تماشائیوں سے زیادہ کام کیا۔یہ رپورٹس کہ بعض عرب ممالک نے دیگر ریاستوں کی طرف سے تجویز کردہ کم سے کم اقدامات کی مخالفت کی اور انہیں روکا، جس سے اسرائیل اور امریکہ پر اہم سفارتی دبا بڑھ سکتا تھا، صرف عوامی عدم اطمینان میں اضافہ ہوا۔ او آئی سی میں نمائندگی کرنے والی عرب اور مسلم حکومتوں کی جانب سے عدم فعالیت کو بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کے ساتھ غداری کے طور پر دیکھا گیا۔ لیکن پھر، پوری عالمی برادری نے غزہ کے لوگوں کو ناکام بنایا ہے۔اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نےاسے"انسانیت کا بحران" قرار دیا ہے اس کے جواب میں یہ واحد طور پر ناکام رہا ہے۔ جبکہ طاقت کے استعمال پر صرف ریاست کی اجارہ داری ہے، جب کہ غیر ریاستی عناصر کی طرف سے مسلح کارروائی کا سوال ہی نہیں ہے۔ مزید یہ کہ اقلیتوں اور دیگر پسماندہ گروہوں کے خلاف عدم برداشت کے رویے کو برداشت نہیں کیا جا سکتا، جبکہ مذہبی، فرقہ وارانہ اور لسانی اختلافات پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ یہ اس پیغام کا خلاصہ تھا جو آرمی چیف نے جمعہ کے روز جی ایچ کیو میں جمع ہونے والے مذہبی لوگوں کے ایک اجتماع کو دیا تھا۔آرمی چیف نے 2018 کے پیغام پاکستان فتوی کی نمایاں خصوصیات کو بھی دہرایا کہ تمام اعترافی پس منظر سے تعلق رکھنے والے 1,800 سے زائد علما نے عسکریت پسندی اور انتہا پسندی سے بچنے کی حمایت کی تھی۔خیال کیا جاتا ہے کہ اس کانفرنس کا اہتمام پاکستان بھر میں بڑھتے ہوئے دہشت گردانہ تشدد کے تناظر میں کیا گیا تھا، جس میں بڑی تعداد میں سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ ساتھ عام شہری بھی شہید ہو چکے ہیں۔ اس میٹنگ کے پیغام سے اختلاف کرنا مشکل ہے، اور اسے مزید وسعت دینے کی ضرورت ہے۔تاہم ریاست کے حامی علما مسئلہ نہیں ہیں۔ وہ انتہا پسند مبلغین جو ریاست کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور اس کی جگہ اپنی سیاسی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں وہ امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔حرکی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ، یہ پاکستان میں عسکریت پسندی کے سہولت کار ہیں جن کا مقابلہ کرنا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر، ملک میں فرقہ وارانہ گروہوں اور سخت دائیں بازو کی تنظیموں میں سے، بہت سے لوگ ٹی ٹی پی اور آئی ایس-کے جیسے دہشت گرد گروہوں کے مقاصد سے ہمدردی رکھتے ہیں۔پھر بھی یہ تنظیمیں متحرک رہتی ہیں، منظم اور کام کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ اگرچہ فرقہ وارانہ ڈیتھ اسکواڈز جو ایک دہائی پہلے تک بہت سرگرم تھے، ریاست کی جانب سے بے اثر کر دیا گیا ہو گا، لیکن ان کے سیاسی اور نظریاتی حامی اپنے زہریلے خیالات کی تبلیغ کے لیے آزاد ہیں۔لہذا جب تک یہ عناصر اپنی مرضی سے کام کرتے رہیں گے، اسٹیبلشمنٹ کی قوم کو بنیاد پرست بنانے کی خواہش ادھوری رہے گی۔ دوم، اسٹیبلشمنٹ کے اندر کیتھرسس (جاری رکھنے اور اس کی وجہ سے مضبوطی یا دبے جذبات کو دور کرنے کا عمل )کی ضرورت ہے۔ کئی دہائیوں تک، ریاست نے جہادی اداکاروں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔جغرافیائی سیاسی حقائق بدل گئے، اور یہ حقیقت کہ ان میں سے بہت سے گروہ بدمعاش بن گئے اور اپنی جنگ پاکستان لے آئے، پہلے مشرف دور میں، اور پھر اے پی ایس پشاور کے ظلم کے بعد، یو ٹرن پر مجبور ہوئے۔ اس لیے اسٹیبلشمنٹ کو یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ جب اس نے جہادی اداکاروں کی حمایت کی تو غلطیاں ہوئیں، اور اپنی غلطیوں سے سبق سیکھیں۔پھر بھی انتہا پسندی کے خلاف حرکیاتی، قانونی اور انتظامی کارروائیوں سے ہٹ کر ان بنیادی عوامل کا بھی جائزہ لیا جانا چاہیے جو عسکریت پسندی کو ہوا دیتے ہیں۔ اگرچہ تعلیم یافتہ عسکریت پسندوں کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں، لیکن یہ زیادہ تر بے دخل اور پسماندہ افراد ہیں جو دہشت گرد گروپوں کے لیے توپ کا چارہ بنتے ہیں۔جب ایک لاپرواہ، دور دراز ریاست ان کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ نہیں کرتی ہے، تو بہت سے لوگ محسوس کرتے ہیں کہ مذہبی عسکریت پسندی ہی واحد حل ہے۔ لہذا، اگر ریاست محروم طبقات کے حقوق، تعلیم، ملازمتوں اور سب سے بڑھ کر احترام کو یقینی بنائے، تو وہ عسکریت پسندی کو روکنے میں بہت آگے جا سکتی ہے۔

نواز شریف کو غیر منصفانہ جیت مزید کمزور کر دے گیعمران خان کو اپنے سیاسی مخالفین کی بے توقیری پر قابو پا نا ہوگا سیاسی تص...
18/11/2023

نواز شریف کو غیر منصفانہ جیت مزید کمزور کر دے گی
عمران خان کو اپنے سیاسی مخالفین کی بے توقیری پر قابو پا نا ہوگا
سیاسی تصفیہ تک پہنچنے میں ناکامی پاکستانی جمہوریت کو اندر سے ختم کر رہی ہے
نوازشریف نیا 'لاڈلا' کے بعد عمران خان کے سیاسی امکانات مٹائے جا رہے ہیں
جمہوری نظام تہس نہس، آئین کی پامالی اور معاشی تباہی کے باوجودانا کا یہ تصادم جاری ہے
رپورٹ: چودھری احسن پریمی: ایسوسی ایٹڈ پریس سروس (اے پی ایس)
مسلم لیگ (ن) کے سپریم لیڈر نواز شریف کے اس اعتراف کہ پی ڈی ایم حکومت کا قائم رہنے کا فیصلہ 'دھمکیوں' کا جواب تھا اس نے پاکستان کے موجودہ سیاسی بحران کی ابتدا کو شدید راحت بخشی ہے۔اس سے پہلے کہ نواز شریف اس کے سچ ہونے کی تصدیق کرتے، افواہ یہ تھی کہ پی ڈی ایم عمران خان کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے بے دخل کرنے کے فورا بعد عام انتخابات کرانے کے لیے تیار تھی۔صورتحال نے اس کا مطالبہ کیا: یہ پی ٹی آئی کی بے دخلی کے بعد تیزی سے واضح ہو گیا تھا کہ معیشت کو ایک مضبوط اور مستحکم منتخب حکومت کی ضرورت ہے تاکہ اسے بحران زدہ پانیوں سے نکالا جا سکے۔تاہم، کچھ بدل گیا، اور پی ڈی ایم اتحاد نے توقع سے کہیں زیادہ طویل عرصے تک حکومت کی۔ اب یہ واضح نظر آتا ہے کہ عمران خان کی مئی 2022 میں اسلام آباد پر مارچ کرنے کی دھمکی نے مسلم لیگ (ن) کا ذہن بدل دیا۔عمران خان کے 'آزادی مارچ' کا منصوبہ پی ڈی ایم حکومت کے انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے بنایا گیا تھا، اور یہ واضح ہے کہ عمران خان مسلم لیگ ن کی زیر قیادت حکومت کو گھر بھیجنے کا کریڈٹ لینے کے لیے خود کو پوزیشن میں لینا چاہتے تھے۔تاہم، مسلم لیگ (ن) کے سپریم لیڈر نے اس چال کو محسوس کیا اور وہ پی ٹی آئی کے سربراہ کو یہ اطمینان دینے کے موڈ میں نہیں تھے۔ انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی کو جاری رکھنے کی ہدایت کی حالانکہ مخر الذکر "مستعفی ہونے کے لیے تیار تھے اور اپنی الوداعی تقریر بھی تیار کر چکے تھے"۔نواز شریف کی کہانی کے بارے میں حالیہ بیان سے، یہ واضح ہے کہ فیصلہ بالآخر ایک انا پرستی والا تھا - حالانکہ نواز شریف اور ان کی پارٹی دونوں نے طویل عرصے سے اصرار کیا ہے کہ انہوں نے پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے سیاسی سرمائے کی قربانی دی۔نواز شریف کے اپنے اعتراف سے، یہ 'خطرہ' تھا، نہ کہ معیشت کے لیے، جس نے مسلم لیگ ن اور اس کے اتحادیوں کو قائم رہنے کی ترغیب دی۔انا کا یہ تصادم اس کے بعد سے جاری ہے، یہاں تک کہ جب معیشت تباہ ہو گئی، جمہوری نظام کو تہس نہس کر دیا گیا، آئین کو پامال کیا گیا، اور شہری حقوق پر تلوار لگ گئی۔اچھے مطلب کے مبصرین اس بات کی نشاندہی کرتے رہے کہ سیاسی تصفیہ تک پہنچنے میں ناکامی پاکستانی جمہوریت کو اندر سے ختم کر رہی ہے۔ آج، نواز شریف کی پوری سیاسی جدوجہد کو غیر قانونی قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ انہیں نیا 'لاڈلا' کہا جاتا ہے، جب کہ عمران خان کے سیاسی امکانات مٹائے جا رہے ہیں کیونکہ کوئی دوسری پارٹی ان کا ساتھ دینے کو تیار نہیں ہے۔دو بڑے سیاسی لیڈروں کا اس طرح کم ہونا ملک کے لیے اچھا نہیں ہے۔نواز شریف کو یہ سمجھنا ہوگا کہ غیر منصفانہ جیت انہیں مزید کمزور کر دے گی، جب کہ عمران خان کو اپنے سیاسی مخالفین کی بے توقیری پر قابو پانا چاہیے اور انہیں برابر کے طور پر دیکھنا شروع کر دینا چاہیے۔دونوں کو اگلے انتخابات برابر کی شرائط پر لڑنے کے قابل ہونا چاہیے، اس بنیاد پر کہ وہ عوام کو کیا پیش کر سکتے ہیں۔ ماضی کے دروازے بند کرنے کا وقت آگیا ہے۔ جبکہ پاکستان ایک خاتون وزیر اعظم منتخب کرنے والا پہلا مسلم ملک بننے کے کئی دہائیوں بعد، اس کے ٹیسٹوسٹیرون ( مردانہ فوطے کا اندرونی افراز جو خون میں مل کر تحریک اعضا کا باعث بنتا ہے )سے چلنے والے سیاسی منظر نامے میں خواتین کی انتخابی شرکت اب بھی معاشرے میں ان کے ناقابلِ تعریف مقام کی نمائندگی کرتی ہے۔ جب کہ پارٹی ٹکٹ والی خواتین امیدواروں کو ترقی پسندی کو برقرار رکھنے کا نشان ہوتا ہے، لیکن انتخابی مہم کے بغیر دی جانے والی ریزرو نشستوں کو سیاسی فیورٹ سمجھا جاتا ہے۔ دونوں منظرناموں میں، زیادہ تر آپریشنل رکاوٹوں میں قید رہتے ہیں۔ اس لیے خواتین کی حیثیت سے متعلق طویل عرصے سے خواتین کو زیادہ ٹکٹ دینے کے لیے زور دینا ہوگا تاکہ پالیسیاں بنانے میں ان کا تعاون قابل ذکر ہو۔ جھنگ سے تعلق رکھنے والی عابدہ حسین، وہاڑی میں تہمینہ دولتانہ، بلوچستان کی زبیدہ جلال اور دیگر بہت سے لوگ ثابت کرتے ہیں کہ مقننہ کے متعلقہ رہنے کے لیے صنفی مرکزیت کو ادارہ جاتی بنانا ناگزیر ہے۔ مزید برآں، پہلی نسل اور اقلیتی خواتین سیاست دان ہر مرحلے پر تعصب برداشت کرتی ہیں، بشمول ان کی پارٹیوں میں کنارہ کشی بھی۔ اقوام متحدہ کی خواتین کے "ویمن ان پولیٹکس 2023" کے نقشے کے مطابق، "عالمی سطح پر خواتین اراکین پارلیمنٹ کا تناسب 2021 میں 25.5 فیصد سے بڑھ کر 26.5 فیصد ہو گیا ہے"، جب کہ خواتین قانون سازوں کی کارکردگی رپورٹ 2017-18 میں، پاکستان ڈیموکریسی میں 89ویں نمبر پر ہے۔ قومی اسمبلی میں خواتین کی تعداد 18.3 فیصد اور سینیٹ میں 18.3 فیصد۔تاہم، ایک واضح احساس ہے کہ خواتین کو متوازن، قابل عمل معاشی ترقی کے لیے ایجنسی کی ضرورت ہے اور ان کی بات سنی جانی چاہیے۔ خواتین قیادت خواتین اور بچوں کے حامی قوانین اور حکمت عملیوں سے معاشرے کو حساس بناتی ہے۔ اس لیے ہماری سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ ایک سازگار ماحول میں 5 فیصد سے زیادہ خواتین کو غیر مخصوص نشستوں پر کھڑا کریں۔ ای سی پی کو خواتین عملے کے ساتھ صرف خواتین کے لیے پولنگ بوتھ کا پتہ لگانا ہے تاکہ قدامت پسند حلقوں میں مزاحمت کا انتظام کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ، سیاسی مہمات کو سیاست سے جڑے بدنما داغوں کو دور کرنے کے لیے خواتین نمائندوں کی خوبیوں پر مرکوز جدید ذہنیت کی وکالت کرنی چاہیے۔ بلاشبہ، پرانی پدر شاہی کو جلدی میں الگ نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم، جماعتوں اور اداروں کے اندر سے خواتین کے لیے مسلسل حمایت پاکستانی خواتین کی آواز کو پروان چڑھانے اور مضبوط کرنے کا راستہ ہے۔ لاکھوں خواتین کی ایماندارانہ نمائندگی کے لیے، زیادہ مین اسٹریم پارٹیوں کو خواتین امیدواروں کو کھڑا کرنے کی ضرورت ہے۔

حکومت نے سپریم کورٹ کے فوجی عدالتوں کے فیصلے کو چیلنج کر دیاعدالت عظمی آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی شقوں کو بحال کرے ، وزارت دفاع...
17/11/2023

حکومت نے سپریم کورٹ کے فوجی عدالتوں کے فیصلے کو چیلنج کر دیا
عدالت عظمی آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی شقوں کو بحال کرے ، وزارت دفاع
سپریم کورٹ میں عمران خان کی ضمانت کیلئے دائر اپیلیں 22 نومبر کو سماعت کے لیے مقرر
سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دیا تھا
درخواست میں عدالت عظمی کو خبردار کیا گیا ہے کہ آرمی ایکٹ، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی کچھ شقوں کو غیر قانونی قرار دینے سے ملک کو نقصان پہنچے گا
رپورٹ: چودھری احسن پریمی: ایسوسی ایٹڈ پریس سروس (اے پی ایس)
وزارت دفاع نے جمعہ کو سپریم کورٹ میں پانچ رکنی بینچ کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کی جس نے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔درخواست میں وزارت نے عدالت عظمی سے اپیل کی ہے کہ وہ 23 اکتوبر کے فیصلے کو کالعدم قرار دے اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی ان شقوں کو بحال کرے جنہیں غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔ یہ سپریم کورٹ سے آرمی ایکٹ کے سیکشن 59(4) کو بحال کرنے پر بھی زور دیتا ہے۔درخواست میں یہ تنبیہ بھی کی گئی ہے کہ آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی کچھ شقوں کو غیر قانونی قرار دینے سے ملک کو نقصان پہنچے گا۔وزارت دفاع کی یہ درخواست نگراں حکومت سندھ اور شہدا فورم بلوچستان کی جانب سے الگ الگ سپریم کورٹ سے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے والے اپنے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کے ایک دن بعد سامنے آئی ہے۔چیف سیکریٹری سندھ نے سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کے سیکشن 5 کے تحت اپیل دائر کی جس میں آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے ساتھ عدالت عظمی کی جانب سے فوج میں شہریوں کے مقدمے کی سماعت کو چیلنج کرنے کے خلاف درخواست دائر کی گئی۔ عدالتیںنگراں صوبائی حکومت نے عدالت عظمی سے استدعا کی کہ 23 اکتوبر کے مختصر حکم نامے کے خلاف اس کی اپیل کی اجازت دی جائے۔عدالت سے مزید استدعا کی کہ اپیل زیر التوا ہونے تک مختصر حکم نامے کی کارروائی کو معطل کیا جائے۔23 اکتوبر کو جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ اے ملک پر مشتمل سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ .اس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ 9 اور 10 مئی کو پیش آنے والے واقعات کے سلسلے میں 103 افراد اور دیگر افراد کے خلاف ملک کے عام یا خصوصی قانون کے تحت قائم فوجداری عدالتوں کے ذریعہ مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔پاکستان تحریک انصاف اور دیگر نے اس بنیاد پر فوجی عدالتوں میں اپنے ٹرائل کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے کہ ان میں شفافیت کا فقدان ہے۔فوجی عدالتوں کے استعمال کا فیصلہ شہباز شریف کی حکومت نے کیا تھا، جس نے اگست میں اپنی مدت پوری کر کے ایک نگران حکومت کو سونپ دیا تھا جو جنوری میں ہونے والے انتخابات کی نگرانی کرے گی۔پنجاب رینجرز کے ہاتھوں سابق وزیر اعظم کی مختصر گرفتاری کے بعد عمران خان کے سینکڑوں حامیوں نے فوجی اور سرکاری تنصیبات پر دھاوا بول دیا، اور یہاں تک کہ ایک جنرل کے گھر کو نذر آتش کر دیا۔ جبکہ سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی ضمانت کے لیے دائر اپیلیں 22 نومبر کو سماعت کے لیے مقرر کر دی ہی۔چیف جسٹس فائز عیسی نے چیئرمین پی ٹی آئی کی اپیلوں پر جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں تین رکنی بینچ تشکیل دے دیا ہے۔ بینچ میں جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس عائشہ ملک بھی شامل ہیں۔عمران خان نے سائفر کیس میں ضمانت کے لیے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی اور اس کے ساتھ سائفر کیس میں فرد جرم کی کارروائی بھی چیلنج کی تھی۔عمران خان نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے سائفر کے مقدمے کے فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر کی تھیں۔یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے یہ کہہ کر عمران خان کی ضمانت کی درخواست مسترد کردی تھی کہ ایسے شواہد سامنے آئے ہیں کہ ملزم عمران خان نے سائفر کو اپنے سیاسی مقاصد کرلیے استعمال کیا ہے۔جبکہ وزارت دفاع نے فوجی عدالتوں میں سویلنز کا ٹرائل روکنے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔اپیل میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے جن درخواستوں پر فیصلہ دیا وہ ناقابل سماعت تھیں۔ آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات کالعدم ہونے سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔واضح رہے کہ 23 اکتوبر 2023 کو سپریم کورٹ نے عام شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ عام شہریوں کے مقدمات کو فوجی عدالتوں میں نہیں چلایا جا سکتا۔سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں آرمی تنصیبات پر حملوں کے ملزمان کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہ کرنے کو فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔وزارت دفاع نے آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی کالعدم قراردی گئی دفعات بھی بحال کرنے کی استدعا کر دی۔وزارت دفاع نے اپیلوں پر حتمی فیصلے تک فوجی عدالتوں میں ٹرائل روکنے کے خلاف حکم امتناع کی بھی استدعا کر دی۔یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے 23 اکتوبر کو اپنے فیصلے میں نو اور دس مئی کے واقعات میں گرفتار ہونے والے تمام ملزمان کے مقدمات فوجی عدالتوں سے فوجداری عدالتوں میں بھیجنے کا حکم دیا تھا۔جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے چار ایک کی اکثریت سے سویلین کے خلاف ٹرائل فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف دائر درخواستوں پر یہ فیصلہ سنایا تھا۔جبکہ عمران خان کے کیس کے ساتھ بشری بی بی کی عبوری ضمانت کی درخواستوں پر سماعت جیل میں ہو گی،عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی کی توشہ خانہ اور 190 ملین پانڈ سکینڈل کیسز میں عبوری ضمانت کی درخواستوں پر سماعت جج محمد بشیر نے کی تو دوران سماعت بشری بی بی اور ان کے وکیل لطیف کھوسہ بھی عدالت پیش نہ ہوئے۔پی ٹی آئی وکیل انتظار پنجوتھہ عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت کے استفقار پر بتایا کہ سماعت جیل میں ہی رکھ لیں ،پٹشنر بھی وہیں ہیں۔عدالت نے ان کی استدعا منظور کر لی۔ بشری بی بی کے وکیل کی استدعا پر چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے کیس کے ساتھ بشری بی بی کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت جیل میں دن گیارہ بجے ہو گی۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے 190 ملین پانڈز سکینڈل کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی ضمانت بحالی کی درخواست غیرموثر ہونے کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کی ٹرائل کورٹ سے عدم حاضری دانستہ نہیں تھی۔ نیب نے جب گرفتاری ڈال دی تو پھر ضمانت بحالی کی درخواست غیرموثر ہو جاتی ہے۔تحریری فیصلے میں عدالت نے کہا ہے کہ یہ عدالت اِس درخواست میں ملزم عمران خان کی گرفتاری کی قانونی حیثیت کا جائزہ نہیں لے سکتی۔190 ملین پانڈز سکینڈل کیس میں عمران خان کی ضمانت بحالی کی درخواست غیرموثر ہونے کا فیصلہ چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری نے تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے۔تحریری فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ ٹرائل کورٹ کا درخواست ضمانت مسترد کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی عدالت سے استدعا کی گئی ۔فیصلے کے مطابق 10 اگست کو چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست ضمانت مسترد ہوئی اور نیب نے جب گرفتاری ڈال دی۔فیصلے کے مطابق عمران خان درخواست ضمانت بعد از گرفتاری متعلقہ عدالت میں دائر کر سکتے ہیں۔یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل ڈویژن بینچ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی 2 نیب کیسز میں ضمانت بحال کرنے کی درخواستوں پر دلائل سننے کے بعد دو روز قبل سماعت میں محفوظ فیصلہ سنایا تھا۔ جبکہ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے کے نتیجے میں قوم کو نو مئی کے واقعات دیکھنا پڑیسپریم کورٹ نے 15 نومبر کو فیض آباد دھرنا کیس پر ہونے والی سماعت کے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ اس کیس میں عدالتی فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے کا نتیجہ قوم کو نو مئی کے واقعات کی صورت میں دیکھنا پڑا ہے۔15 نومبر کو ہونے والی سماعت کا تحریری فیصلہ آج جاری کیا گیا ہے۔ اس حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ 6 فروری 2019کو دیا تھا جس میں ماضی کے پر تشدد واقعات کا حوالہ دے کر مستقبل کے لیے وارننگ دی گئی تھی۔تحریری حکمنامے کے مطابق تقریبا پانچ سال گزرنے کے باوجود متعدد حکومتوں نے فیض آباد دھرنا کیس فیصلے پر عملدرآمد نہ کیا جبکہ اس فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواستیں دائر ہوئی جنھیں سماعت کے لیے مقرر نہ کیا گیا۔تحریری حکم میں کہا گیا ہے کہ نظرثانی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر نہ ہونے کے سبب عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہ ہوا اور اس فیصلے کے تناظر میں نہ کسی کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور نہ ہی پر تشدد احتجاج پر کسی کا احتساب ہوا نتیجتا قوم کو 9مئی کے واقعات دیکھنے پڑے۔

Address

ISLAMABAD, ISLAMABAD
Pakistan
44000

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when ہفت روزہ انسانی ترقیWeekly INSANI TARAQQI posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to ہفت روزہ انسانی ترقیWeekly INSANI TARAQQI:

Share

Category


Other Pakistan media companies

Show All