LovE LifE Aur KashmiR

LovE LifE Aur KashmiR Entertainment
Tour
Natural Beauty of Azad Kashmir
Technology
Fun
Business https://www.facebook.com/lovelifeaurkashmir/

استاد نے کلاس روم میں داخل ہوتے ہی بغیر کوئی بات کیے.بلیک بورڈ پر چاک سے ایک لمبی لکیر کھینچ دی اور پورے کلاس کو مخاطب ہ...
17/09/2024

استاد نے کلاس روم میں داخل ہوتے ہی بغیر کوئی بات کیے.
بلیک بورڈ پر چاک سے ایک لمبی لکیر کھینچ دی اور پورے کلاس کو مخاطب ہوکر کہا :
“تم میں سے کون ہے جو بلیک بورڈ پر موجود اس لکیر کو چھوئے بغیر اسے چھوٹا کر دے؟ ”
استاد کے سوال کا جواب کلاس میں موجود طلباء میں کسی کے پاس بھی نہیں تھا۔ سوال ہی ایسا عجیب و غریب تھا۔
ساری کلاس سوچ میں پڑ گئی کیونکہ استاد نے ایک ناممکن بات کہہ دی تھی.
کلاس کے سب سے ذہین طالب علم نے کھڑے ہو کر کہا کہ استاد محترم
“یہ ناممکن ہے ، لکیر کو چھوٹا کرنے کے لیے اسے تھوڑا سا مٹانا پڑے گا جو چھوئے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا اور آپ نے چھونے سے منع کیا ہے“ .
باقی طلباء نے بھی سر ہلا کر اس طالبعلم کی بات کی تائید کی۔
استاد نے گہری نظروں سے طلباء کی طرف دیکھا
اور کچھ کہے بغیر بلیک بورڈ پر چاک سے اس لکیر کے متوازی لیکن اس سے بڑی ایک اور لکیر کھینچ دی،
جس کے بعد سب نے دیکھ لیا کہ اب پہلے والی لکیر چھوٹی نظر آ رہی ہے،
استاد نے اس لکیر کو چھوئے بغیر ، اسے ہاتھ لگائے بغیر اُسے چھوٹا کر دیا۔
طلباء نے آج اپنی زندگی کا سب سے بڑا سبق سیکھا تھا کہ دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر , دوسروں پر تنقید کیے بغیر ، اُن کو بدنام کیے بغیر ، اُن سے حسد کیے بغیر , اُن سے آگے بڑھ جانے کا ہنر انہوں نے چند منٹ میں سیکھ لیا تھا.
کہ اپنے آپ کو اخلاق میں ، کردار میں اور عمل سے دوسرے سے آگے بڑھا لو تو تم خودبخود دوسروں سے بڑے نظر آنے لگو گے. دوسروں کو چھوٹا کر کے کوئی بڑا نہیں بن سکتا بلکہ خود بڑا ہوکر بڑا بن سکتا ہے.۔!!!

سیر و تفریح vs سیاحتبھاگتی دوڑتی زندگی سے بریک لینا ضروری ہے۔ ہمارے یہاں اکثر لوگ سیر وتفریح کے لیے نکلنا چاہتے ہیں بجٹ ...
13/08/2024

سیر و تفریح vs سیاحت

بھاگتی دوڑتی زندگی سے بریک لینا ضروری ہے۔ ہمارے یہاں اکثر لوگ سیر وتفریح کے لیے نکلنا چاہتے ہیں بجٹ اکھٹا کرتے ہیں ایریل ویو دیکھ کے یا سنی سنائی جگہ کا فیصلہ کرتے ہیں۔ راستوں کے بارے میں اگاہی بالکل نہیں ہوتی اور نکل پڑتے ہیں۔

دوستو ہمیں سب سے پہلے سیر و تفریح اور سیاحت کا فرق سمجھنا چاہیے۔

سیر و تفریح ہم سب کر سکتے ہیں جبکہ سیاحت باقائدہ ایک انڈسٹری ہے جس پہ ٹھیک ٹھاک وسائل خرچ ہوتے ہیں مثلاً سب سے پہلے تو مہم جوئی کا جذبہ ہو مہم جوئی آسان بات نہیں ہے اعصاب سے لے کے سرمائے تک آپ کی عمر، صحت، سٹیمنا، سفر کے وسائل جیسے فور بائے فور گاڑی اپنی نا بھی ہو تو ہائر کرنے کی استطاعت۔ اپنے ذاتی سامان میں خیمے، مکمل رک سک، کھانے پکانے کا انتظام۔

سیاح کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں ہوتا روڈ کچی ہے راستہ موجود ہی نہیں ہے ہوٹل میں کمرے مل رہے ہیں نہیں مل رہے مہنگے ہیں سستے ہیں کھانے کی صورتحال کیا ہے کچھ بھی اہمیت نہیں رکھتا بس وہ مہم جوئی کے لیے اپنے وسائل خود رکھتے ہیں اور نکل پڑتے ہیں۔ نا انہیں کچے راستوں سے ڈر لگتا ہے نا کھائیوں سے نا بلند وبالا پہاڑ ان کی راہ کی رکاوٹ بنتے ہیں وہ نئی سے نئی دنیا دریافت کرنے نکلے ہوتے ہیں یہی ان کا شوق اور منزل ہے۔

دوسرے نمبر پہ آتے ہیں ہم جیسے لوگ جو اپنی مصرف ترین زندگی سے کچھ دیر کو بریک لینے کے لیے کچھ دن سستانے کو، تازہ دم ہونے کو، روٹین بدلنے کو سفر پہ نکلتے ہیں۔ جو فریش ہونے جاتے ہیں ٹیڑھے میڑھے کچے پکے راستوں پہ خوف کھانے، گندے ہوٹلوں میں ٹھہرنے اور خراب ٹوائلٹ سے ہمیں ویسے ہی خفگان ہونے لگتا ہے اور ہم بیزار ہو جاتے ہیں۔ انجوائے تو کیا کرنا الٹا اور الجھ جاتے ہیں
تو یہ پوسٹ ہمارے جیسے لوگوں کے لیے ہے۔

اپنی زندگی سے کچھ فرصت کے لمحات نکالیں وسائل اکھٹے کریں اور فیملی ٹائم گزاریں۔

اب سوال ہے کہ جگہ کا انتخاب۔۔۔۔۔۔
کبھی کسی جگہ کا ایریل ویو دیکھ کے کہیں جانے کا فیصلہ مت کریں ہم نے جگہوں کو ڈرون پہ بیٹھ کے نہیں زمین سے دیکھنا ہے۔ اس لیے زمینی حقائق پہ نظر رکھیں۔

اپنے بجٹ کے حساب سے جگہ سلیکٹ کریں دور یا نزدیک اس کا انحصار جیب پہ ہے قریب ترین بھی خوبصورت نظارے اور موسم موجود ہے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں جہاں تک کے وسائل ہیں وہاں تک جائیں پر سکون ہو کے ایک جگہ بیٹھیں تاشہ ہوا کو اہنے اندر اتاریں فرصت کو محسوس کریں۔

آپ یہ ضرور دیکھیں کہ آپ جہاں جانا چاہتے ہیں وہاں کی روڈ کنڈیشن کیسی ہے بچوں کے ساتھ جا رہے ہیں تو روڈ لازمی دیکھیں۔
تمام گلیات کی روڈز بیترین ہیں۔
سوات میں مالم جبہ اور کالام تک بہترین روڈ ہے۔
ناران بابو سر، ہنزہ، گلگت، سکردو، چائنہ بارڈر تک سڑک بہترین ہے۔
اور جب میں بہترین کہہ رہی ہوں تو اس کا مطلب ہماری موٹر وے والی بہترین نہیں بلکہ پہاڑی علاقوں والی بہترین ہے۔ سڑک گول گول گھومے گے دو رویہ بہترین روڈ ہو گی لیکن کہیں کہیں خراب پیج بھی آئیں گے کچھی پتھریلی روڈ بھی ہو گی لینڈ سلائڈنگ اور پانی کی وجہ سے رکاوٹیں بھی آئیں گی۔ ہو ٹرن پہ خطرناک موڑ بھی آئیں گے بابو سر سے چلاس روڈ مستقل اترائی کی وجہ سے خطرناک ہے۔ اس کے علاوہ پانی کے جھرنے بھی روڈ سے گزریں گے اور کئی بار پانی کا بہاو بہت زیادہ ہو گا تو گاڑی گزارنا دشوار ہو سکتا ہے۔
اس سب کے لیے گاڑی اور ڈرائیور دونوں کا فٹ ہونا بہت ضروری ہے۔

پبلک ٹرانسپوٹ پہ جائیں تو گاڑی اچھی طرح چیک کر لیں اور ڈرائیور کو گاڑی تیز مت چلانے دیں۔ جہاں تک روڈ جاتی ہے وہاں تک جائیں۔ جب جھجک ختم ہو جائے تو جیپ ہائیر کر کے تھوڑے ایڈونچر کیے جا سکتے ہیں۔
مہوڈنڈ، سیف الملوک ، شاران، سری پائے، دیوسائی، سد پارہ لیک وغیرہ وغیرہ

ہم اس بار کشمیر گئے اور یقین کریں کشمیر کے راستے باقی جگہوں کے مقابلے میں شدید خراب اور خطرناک ہیں اندھے موڑ ہیں لینڈ سلائڈ کا حد سے زیادہ خطرہ رہتا ہے بعض پہاڑ ایسے ہیں جیسے ایک پتھر پہ ٹکے ہوئے ہوں۔ سڑکیں تنگ ہیں ہر موڑ اونچا ہے جب آپ اسپر چڑھتے ہیں تو آپ کو نہیں پتہ آگے نوے ڈگری کا موڑ ہے اور سامنے کوئی رکاوٹ نہیں لگائی گئی نیچے ہزاروں فٹ میں نیلم بہتا ہے اور اوپر سیدھے سیدھے پہاڑ ہیں۔

اس کے علاوہ انڈیا کا بارڈر 'اٹھ مقام' سے مستقل ساتھ ساتھ چلتا ہے کبھی بھی حالات خراب ہوں اور فائرنگ شروع ہو جائے یہ خطرہ سر پہ منڈلاتا ہی رہتا ہے۔

دوسری بات کشمیر میں ابھی معیاری ہوٹل نہیں ہیں۔ واش رومز گزارے لائق ہیں گرایے البتہ کم ہیں کھانا بھی نارمل سا ہے۔ لائٹ موجود نہیں ہے۔ جنرئٹرز سے گزارا چل رہا ہوتا ہے۔
کیرن تنگ سی جگہ ہے شاردہ میں نیلم پہ بوٹنگ ہو سکتی ہے بس۔ کیل کے راستے میں خراب لینڈ سلائڈ تھی اس سلائڈ کے اوپر کچا راستہ بنا کے گاڑیاں گزاری جا رہی تھیں۔ ہم وہیں سے واپس ہو لیے تفریح کا مطلب جان کو خطرے میں ڈالنا نہیں ہوتا۔

کیل کے بعد اڑنگ کیل ڈولی جاتی ہے لیکن کیل تک پہنچنا ہی خطرے سے خالی نہیں ہے ابھی ہم وہ لوگ ہیں جو ہر سال جاتے ہیں اور کچھ نا کچھ خراب راستوں کے عادی ہیں۔ جبکہ پہاڑی لوگوں سے پوچھیں تو کہتے ہیں بالکل سیدھی روڈ ہے۔

اس کے علاؤہ کشمیر میں جتنے بھی پوائنٹ ہیں یقیناً حسین ترین ہوں گے لیکن وہاں تک پہنچنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ اس لیے کشمیر والے اگر ٹورازم کو فروغ دینا چاہتے ہیں تو انہیں سب سے پہلے سڑکوں کی حالت بہتر کرنی ہو گی ورنہ اس طرف ٹور ازم کو فروغ نا دیں
کشمیر میں سب سے خاص فیلنگ یہ ہے کہ دریا کے اس طرف ہم ہیں پرلی طرف انڈیا ہے ہم دریا کے کنارے بیٹھ کے چپلی کباب کھاتے ہیں اور سوچتے پیں انڈیا کو آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور بس۔

کمراٹ کی ہائپ بہت ہے مگر وہاں کے راستے بھی دشوار گزار ہیں اور سہولیات نا ہونے کے برابر۔ یقینا جگہ خوبصورت ہوگی۔

ہمیں ان خطرناک راستوں میں بھی ایسی بسیں ملتی ہیں جن کی چھتوں پہ لڑکیاں بھی بیٹھی ہیں لڑکے بھی بسیں اڑتی چلی جا رہی ہیں لڑکے لڑکیاں گانے گا رہے ہیں ایسی کئی گاڑیاں ہیں جن کے ڈرائیور پہاڑوں پہ گاڑی چلانے کا تجربہ نہیں رکھتے لیکن پھر بھی محتاط نہیں ہیں کچھ ایسی کھانستی گاڑیاں بھی دیکھیں جن کو موٹر وے پہ چڑھنے نا دیا جائے اور وہ ہچکیاں لیتی خطرناک راستوں پہ رواں دواں ہیں جیسے کوئی بات ہی نا ہو۔

کشمیر کا موسم نارمل تھا کمروں میں پنکھے فل سپیڈ میں چل رہے تھے دریا کے کنارے اچھی ہوا تھی مگر دن کے وقت تیز دھوپ۔

پہاڑوں کے سفر کے دوران بارش کی دعا تو میں کبھی بھی نہیں مانگتی کیونکہ بارش کے ساتھ سڑکوں پہ پھسلن اور لینڈ سلائڈ کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

کشمیر سے زیادہ شاندار موسم اس بار گلیات میں تھا مری نا تو دور ہے نا مہنگا اسلام آباد والے صبح جا کے شام واپس بھی آسکتے ہیں۔
مری میں فائیو سٹار ہوٹل رمادا بھی ہے اور بہت کم قیمت میں کمرے بھی با آسانی مل جاتے ہیں۔
ہم کبھی بھی مری کے اندر نہیں ٹھہرتے بلکے اپر جھیکا گلی یا گھڑیال میں ٹھہرتے ہیں یہ جگہیں آباد بھی ہیں رش سے دور بھی اور پرفضا اور پُرسکون بھی۔

جہاں کا بھی سفر کریں ان علاقوں کے ایجنٹس سے بچ کے رہیں جہاں بھی جائیں کمروں کے کرایے اور ٹرانسپورٹ کے ریٹس تین چار جگہ سے کنفرم کریں ایجنٹس گھیر گھار کے ڈبل ریٹس وصول کرتے ہیں۔
آج کل آن لائن بکنگ کا رواج ہے ہوٹل والے آپ کو کمروں کی تصویریں بھیجتے ہیں اور ویو کی اقر ہم دیوانہ وار بکنگ کروا لیتے ہیں یاد رکھیں پہاڑی علاقوں میں اپروچ روڈز سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں وہاں جا کے پتہ چلتا ہے کہ کئی کلومیٹر steep کچی چڑھائی کے بعد یہ ہوٹل برآمد ہوتے ہیں۔ اس لیے بہتر ہے جا کے وزٹ کر کے بکنگ کروائیں۔

دوستوں سیر و تفریح فیول کا کام کرتی ہے انرجی بحال کرتی ہے لیکن جان پہ کھیل کے کوئی تفریح نہیں ہوتی۔
اور تفریح کے لیے سفر کرنا اور پہاڑوں پہ جانا بھی ضروری نہیں بس فیملی ٹائم ضروری ہے۔

🤫

04/07/2024
۸ اکتوبر ۲۰۰۵ -۸اکتوبر ۲۰۲۳زندگی پھر سے رواں دواں سب کچھ بدل گیازخم بھر گئے آنسو تھم گئے بھوک مٹ گئی سب کچھ مل گیا لیکن ...
08/10/2023

۸ اکتوبر ۲۰۰۵ -۸اکتوبر ۲۰۲۳

زندگی پھر سے رواں دواں
سب کچھ بدل گیا
زخم بھر گئے
آنسو تھم گئے
بھوک مٹ گئی
سب کچھ مل گیا
لیکن وہ نہ ملے
جو کھو گئے تھے اس طوفان میں

اللہ سبحان و تعالیٰ تمام شہدائے زلزلہ اکتوبر ۲۰۰۵ کی بخشش فرمائے اُور روزِ قیامت محمد و آلِ محمد علیہ اسلام کی شفاعت نصیب فرمائے۰

*ہم بچوں کے سیکھنے کا وقت چیخ کر اور ان پر غصہ کر کے ضائع کر دیتے* *ہیں*محمّد علی کو میں نے پانی دیا پینے کے لئے، مگر اس...
18/09/2023

*ہم بچوں کے سیکھنے کا وقت چیخ کر اور ان پر غصہ کر کے ضائع کر دیتے* *ہیں*

محمّد علی کو میں نے پانی دیا پینے کے لئے، مگر اس نے فورا سارا گلاس ٹیبل پر الٹ دیا!
اف آپ سمجھ سکتے ہیں ناں کہ میرے دماغ میں جو لاوا ابل رہا ہو گا؟
ایک آپشن تو یہ تھی کہ میں کہتی!
کیا بدتمیزی ہے، سارا ٹیبل گیلا ہو گیا ہے اور محمّد علی خوفزدہ میرے ایکسپریشنز دیکھتا رہتا۔ اور میں ڈانٹ کر پہلے اپنا غصہ کم کرتی، پھر ٹیبل صاف کرتی۔
دوسرا آپشن یہ تھا کہ
میں ٹیبل صاف کرتی اور محمّد علی کو کہتی کہ پلیز میری تھوڑی سی مدد کر دیں۔ ماما کو وہ ٹشو پکڑا دیں اور یہ گیلا ٹشو ڈسٹ بن میں پھینک دیں۔
اب دونوں آپشنز میں فرق کیا تھا؟
ٹیبل تو صاف کرنا ہی تھا مجھے کیوں کہ وہ گندا ہو چکا تھا، مگر میرے چیخنے سے محمّد علی کبھی سیکھ نہ سکتا کہ ٹیبل صاف کیسے کرنا ہے۔ بلکہ خوف اسکے دماغ کو بند کر دیتا اور وہ ڈر کر صرف دیکھتا رہتا۔
دوسرے آپشن میں، اس نے سیکھا کہ کیسے ٹیبل صاف کرنا ہے۔ کیسے غلطی ہو جاۓ تو اسکو صحیح کیا جا سکتا ہے۔
*ہم بچوں کے سیکھنے کا وقت چیخ کر اور ان پر غصہ کر کے ضائع کر دیتے* *ہیں*
اور پھر ہم خود شکایت کرتے ہیں کہ بچے سیکھتے نہیں ہیں۔
*بچوں کو ہم اپنے عمل سے ہی سیکھا سکتے ہیں۔ انکو ساتھ ملا کر انکا پھیلاوا سمیٹا جاۓ اور پلیز اس دوران کچھ بہت اہم باتیں* یاد رکھیں۔
💠1۔ ہم بچوں کو کبھی بھی شرمندہ نہیں کرتے، مطلب یہ کہنا
" دیکھا آپ نے پانی گرایا تھا، اس لئے صاف کرنا پڑ رہا ہے۔"
یا
"اپکی وجہ سے یہ سارا گند پھیل گیا ہے"
💠2۔ ہم بچوں کو فورس بھی نہیں کریں گے۔ کیوں کہ دباؤ میں آ کر بچے کچھ نہیں سیکھتے۔ سیکھنے کے لئے اتنا کافی ہے کہ پاس کھڑے ہمیں دیکھتے رہیں۔
💠3۔ ہم بچوں کو اگر اپنے الفاظ سے غصہ ظاہر نہیں کر رہے تو اپنے چہرے کے تاثرات سے بھی حتی المقدور کوشش کریں گے کہ غصہ ظاہر نہ ہو۔
آخر میں!
*بچے ، بچے ہی ہوتے ہیں، اگر وہ ابھی غلطیاں نہیں کریں گے تو کب کریں گے، یہ انکی سیکھنے کی عمر ہے، غلطیاں* کرنے دیں تا کہ وہ سیکھ سکیں۔

▬๑۩۞۩๑▬▬▬❂

 #شاردہ 💞 شاردہ آزاد کشمیر کے ضلع نیلم کی ایک تحصیل ہے جو مظفر آباد سے شمال مغرب کی جانب لگ بھگ 136 کلو میٹر کی دوری پ...
07/08/2023

#شاردہ 💞
شاردہ آزاد کشمیر کے ضلع نیلم کی ایک تحصیل ہے جو مظفر آباد سے شمال مغرب کی جانب لگ بھگ 136 کلو میٹر کی دوری پر واقع دریائے نیلم کے کنارے آباد ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں اس شہر کی شناخت بارے جو مستند حوالے دستیاب ہیں وہ وسطی ایشیائی قبائل کے بارے میں ہیں جو 3100 قبل مسیح کے آس پاس اس وادی میں آنا شروع ہوئے تھے۔ان قبائل کی اکثریت بدھ مت اور ہندو مت کے پیرو کاروں پر مشتمل تھی۔ان قبائل کا ایک متحرک قبیلہ جو کشن کہلاتا تھا کے ایک سربراہ نے جب یہ اعلان کیا کہ اس نے خواب میں ایک نئی دیوی کو دیکھا ہے یوں ایک نئی دیوی کا وجود عمل میں آیا جسے '' شاردہ ‘‘ کا نام دیا گیا۔شاردہ بنیادی طور پر سنسکرت کے لفظ '' شردھا ‘‘ سے ماخوذ ہے جس کے لفظی معنی '' خزاں کے موسم سے پیار کرنیوالی دیوی ‘‘ کے ہیں ۔ بلکہ پرانے زمانے میں شاردہ کے قریب اس دیوی کا مجسمہ بھی تھا جسے قدیم نام '' سرسوتی دیوی ‘‘ سے یاد کیا جاتا تھا آج کل بھی شاردہ میں ایک مندر موجود ہے جسے''شاردہ پتھ‘‘بھی کہتے ہیں۔ '' پتھ‘‘کے لفظی معنی کسی مقدس ہستی کے بیٹھنے کی جگہ کے ہیں۔ یوں یہ شہر '' شاردہ ‘‘ کے نام کی شہرت اختیار کر گیا۔
شاردہ یونیورسٹی:شاردہ یونیورسٹی 2 پہاڑوں شاردی اور ناردی کے دامن میں واقع ہے۔ مشہور مسلمان مؤرخ البیرونی اپنی کتاب'' الہند‘‘ میں شاردہ کے بارے میں ان الفاظ میں اس کا احاطہ کرتا ہے '' سری نگر کے جنوب مغرب میں شاردہ کا شہر واقع ہے۔اہل ہند اس مقام کو انتہائی مقدس سمجھتے تھے۔بیساکھی کے موقع پر ہندوستان بھر سے لوگ یہاں یاترا کیلئے آتے تھے۔ کنشک اول (نیپال کا شہزادہ) کے دور میں شاردہ وسطی ایشیاء کی سب سے بڑی تعلیمی درسگاہ تھی۔ جہاں بدھ مت کی تعلیم کیساتھ ساتھ تاریخ ، جغرافیہ ، منطق اور فلسفہ سمیت متعدد دیگر علوم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اس درسگاہ کی عمارت کی تعمیر کا سہرا سن 24 اور 27 کے درمیان کنشک اول کو جاتا ہے۔ اس درسگاہ کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اس درسگاہ نے اپناایک الگ رسم الخط متعارف کرایا تھا۔اور یہ رسم الخط ''شاردہ ‘‘ کے نام ہی سے شہرت پا گیا تھا۔
زمانۂ قدیم میں جنوبی ایشیاء وسطی ایشیاء اور چین سمیت دیگر علاقوں سے حصول علم کے متلاشی یہاں کا رُخ کرتے تھے کیونکہ یہ یونیورسٹی اپنے دور میں مذہبی تعلیم ، سنسکرت کے عالموں کشمیری پنڈتوں اور بدھ پیشواؤں کی مذہبی تعلیم کے علاوہ فلسفہ منطق اور دیگر علوم میں اپنا ایک مقام رکھتی تھی۔
اپنے دور میں اس یونیورسٹی کے معیار اور مرتبے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے بقول نامور مؤرخ ذون راج گجرات کی حدود میں واقع ریاست میں ہیما چندرا نامی ایک شخص جو علم و فضل اور ذہانت میں اپنا ثانی نہ رکھتاتھا اس کی شہرت کے چرچے دور دور تک پھیلنے لگے تو گجرات کے راجہ جیا سمہا نے اسے اپنے دربار میں علم و ادب کی ترویج کیلئے شامل کر لیا۔ ایک موقع پر جب اس عالم نے راجہ سے ایک ایسے انسائیکلو پیڈیا کی تیاری کی اجازت چاہی جو مختلف موضوعات کا احاطہ کر سکے جس پر راجہ نے اجازت دے دی ۔ ایک اورموقع پر جب اس نے راجہ سے یہ درخواست کی کہ اس کام کی تکمیل کیلئے اسے 8 قدیم زبانوں کی چند ایسی کتب درکار ہیں جو صرف ''شاردہ یونیورسٹی ‘‘کے کتب خانے سے ہی دستیاب ہو سکتی ہیں ۔ چنانچہ اس علم دوست راجہ نے ایک اعلیٰ سرکاری وفد کشمیر کی راجدھانی پری وار پورا روانہ کیا۔ جہاں سے مطلوبہ کتب شاردہ سے گجرات پہنچائی گئیں جنکی مدد سے ہیما چند را نے ایک ضخیم کتاب جو علم و ادب کے خزانے سے بھرپور تھی تخلیق کی۔
اس درسگاہ کی عمارت جو اگرچہ اب کھنڈرات میں تبدیل ہو چکی ہے لیکن اس کی تعمیر آج بھی ماہرین تعمیرات کو حیرت میں ڈال دیتی ہے کہ کئی صدیاں قبل بھی اس عہد کا فن تعمیر کس قدر اعلیٰ ہوتا تھا ۔شاردہ یونیورسٹی کی عمارت جسکی اونچائی لگ بھگ 100 فٹ تھی اس کے درمیان بنایا گیا چبوترا فن تعمیر کا ایک ایسا شاہکار تھا جسے دیکھنے والے داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتے تھے ۔ یہاں پر لگا بھاری بھر کم پتھر دیکھنے والوں کو حیرت زدہ کر دیتا ہے کہ جب ٹیکنالوجی ابھی اتنی ترقی یافتہ نہیں تھی تب اتنے بھاری بھر کم پتھر ایک دوسرے کے اوپر انتہائی ترتیب سے18 سے30 فٹ کی بلندی پر کیسے چڑھائے گئے ہونگے؟ ماہرین تعمیرات کہتے ہیں کہ یہ کام بظاہر انسانی طاقت سے تو ممکن نظر نہیں آتا یقینااس دور میں انہیں اوپر چڑھانے کیلئے کوئی ٹیکنالوجی ہی ایجاد کی گئی ہو گی ۔اس کے چاروں اطراف دیواروں کو خوبصورت نقش و نگار سے مزین کیا گیا ہے۔جنوبی جانب داخلی دروازہ ہے لیکن چھت مکمل طور پر حادثاتِ زمانہ کی نذر ہو چکی ہے۔ البتہ مغرب کی جانب عمارت میں داخل ہونے کیلئے 63 سیڑھیاں اب بھی باقی ہیں۔ان سیڑھیوں کی خاص بات انکی منفرد تعمیر تھی جنہیں پتھروں سے نہایت سلیقے سے تراش کر تخلیق کیا گیا تھا۔ چونکہ ان کی اونچائی قدرے زیادہ ہے اس لیے ان سیڑھیوں کے ساتھ ساتھ ایک مضبوط رسے کو سہارے کیلئے لگایا گیا ہے تاکہ چڑھنے اور اترنے میں دشواری نہ ہو۔
ان سیڑھیوں کے بارے میں ایک روایت یہ بھی چلی آ رہی ہے کہ سیڑھیوں کی 63 کی تعداد رکھنے کے پیچھے یہ فلسفہ کار فرما تھا کہ صدیوں سے جنوبی ایشیاء کے بیشتر مذاہب بالخصوص بدھ مت کے قبائل کے ہاں 63 کے ہندسے کو مقدس جانا جاتا تھا۔اسی لیے صدیاں گزر جانے کے باوجودآج بھی بدھ مت کے بعض قبائل میں 63 زیورات پر مشتمل ہار ہاتھیوں کو پہنا کر انکی پوجا کی جاتی ہے اور بعض قبائل تو اس موقع پر اپنی مرادیں پانے کیلئے منتیں بھی مانتے ہیں ۔اس وسیع و عریض عمارت میں ایک قدیم تالاب کے آثار بھی ملے ہیں اگرچہ اب اس کا وجود نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے تاہم قدیم روایات کے مطابق اس تالاب سے لوگ جلدی امراض سے شفا پانے کیلئے دور دراز سے آتے تھے کیونکہ اس تالاب کا پانی 2 کلو میٹر دور سے پہاڑوں سے اپنے ساتھ سلفر ملا پانی لاتا تھا جو جلدی امراض کیلئے ا کثیر کی حیثیت رکھتا تھا۔
بعض اور مقامی روایات کے مطابق یہاں سے کچھ ہی دور پہاڑوں کے دامن میں '' شردھ ‘‘ نامی لکڑی سے بنا ایک بہت بڑا مجسمہ بھی یہاں کے مذہبی عقائد میں مقبول ہوا کرتا تھا جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ اس مجسمے کو چھوتے ہی انسان کا ماتھا پسینے سے شرابور ہو جاتا تھا۔ جو اس بات کی علامت سمجھا جاتا تھا کہ دیوتا نے اسکی حاضری کو قبول کر لیا ہے۔
دو ہزار سال قبل ایشیا کی سب سے بڑی درسگاہ شاردہ یونیورسٹی جہاں پورے ایشیا سے تشنگان علم سیراب ھونے چلے أتے تھے۔۔۔مشہور ہندوستانی فلاسفر وزیر چانکیہ اور کالیداس اسی یونیورسٹی کے طلباء میں سے تھے۔

چلہانہ سے لیکر تاؤبٹ تک نیلم ویلی کے خوب صورت نظارے ♥️زمین پر اگر جنت دیکھنی ہے تو نیلم ویلی کے خوب صورت میدان ،پہاڑ ،ٹھ...
07/08/2023

چلہانہ سے لیکر تاؤبٹ تک نیلم ویلی کے خوب صورت نظارے ♥️
زمین پر اگر جنت دیکھنی ہے تو نیلم ویلی کے خوب صورت میدان ،پہاڑ ،ٹھنڈے چشمے ،سرسبز کھیت ،ٹھنڈی ہوائیں،جھیلیں ،آبشاریں ،دیکھ سکتے ہیں 👇

❤️❤️❤️❤️

02/08/2023

87uhvvfd

خوش رہنا شروع کیجئےچائے میں بسکٹ ڈبو کر تو دیکھئے، اگر ٹوٹ کر گِر گیا تو کونسا قیامت آ جائے گی ایک وقت تھا خوشی بہت آسان...
31/07/2023

خوش رہنا شروع کیجئے
چائے میں بسکٹ ڈبو کر تو دیکھئے، اگر ٹوٹ کر گِر گیا تو کونسا قیامت آ جائے گی

ایک وقت تھا خوشی بہت آسانی سے مل جاتی تھی۔
دوستوں سے ملکر،
عزیز رشتہ داروں سے ملکر،
نیکی کرکے،
کسی کا راستہ صاف کرکے،
کسی کی مدد کرکے۔
خربوزہ میٹھا نکل آیا،
تربوز لال نکل آیا،
آم لیک نہیں ھوا،
ٹافی کھا لی،
سموسے لے آئے،
جلیبیاں کھا لیں،
باتھ روم میں پانی گرم مل گیا، داخلہ مل گیا،
پاس ھوگئے،
میٹرک کرلیا،
ایف اے کرلیا،
بی اے کر لیا،
ایم اے کرلیا،
کھانا کھالیا،
دعوت کرلی،
شادی کرلی،
عمرہ اور حج کرلیا،
چھوٹا سا گھر بنا لیا،
امی ابا کیلئے سوٹ لے لیا،
بہن کیلئے جیولری لے لی،
بیوی کیلئے وقت سے پہلے گھر پہنچ گئے،
اولاد آگئی اولاد بڑی ھوگئی، انکی شادیاں کردیں-
نانے نانیاں بن گئے -
دادے دادیاں بن گئے -
سب کچھ آسان تھا
اور سب خوش تھے.

پھر ہم نے پریشانی ڈھونڈنا شروع کردی،
بچہ کونسے سکول داخل کرانا ھے،
پوزیشن کیا آئے،
نمبر کتنے ہیں،
جی پی اے کیا ھے،
لڑکا کرتا کیا ہے،
گاڑی کونسی ہے،
کتنے کی ہے،
تنخواہ کیا ہے،
کپڑے برانڈڈ چاہیئں
یا پھر اس کی کاپی ہو،
جھوٹ بولنا پھر اسکا دفاع کرنا، سیاست انڈسٹری بن گئی.

ھم سے ھمارے دور ھوگئے

شاید ہی ہمارے بچوں کو فوج کے عہدوں کا پتہ ہو
پر ان کو ڈی ایچ اے کونسے شہر میں ہیں، سب پتہ ہے،
گھر کتنے کنال کا ہو،
پھر آرچرڈ سکیمز آگیئں،
گھر اوقات سے بڑے ہو گئے،
اور ہم دور دور ہو گئے،
ذرائع آمدن نہیں بڑھے پر قرضوں پر گاڑیاں، موٹر سائیکل، ٹی وی، فریج، موبائل سب آگئے،
سب کے کریڈٹ کارڈ آگئے -
پھر ان کے بل بجلی کا بل،
پانی کا بل، گیس کا بل، موبائل کا بل، سروسز کا بل،
پھر بچوں کی وین،
بچوں کی ٹیکسی،
بچوں کا ڈرائیور،
بچوں کی گاڑی،
بچوں کے موبائل،
بچوں کے کمپیوٹر،
بچوں کے لیپ ٹاپ،
بچوں کے ٹیبلٹ، وائی فائی، گاڑیاں،
جہاز،
فاسٹ فوڈ،
باھر کھانے،
پارٹیاں،
پسند کی شادیاں،
دوستیاں، طلاق پھر شادیاں، بیوٹی پارلر،
جم،
پارک،
اس سال کہاں جائیں گے،
یہ سب ہم نے اختیار کئے
اور اپنی طرف سے ہم زندگی کا مزا لے رہے ہیں -
کیا آپ کو پتہ ھے آپ نے خوشی کو کھودیا ہے۔
جب زندگی سادہ تھی تو خوشی کی مقدار کا تعین ناممکن تھا -
اب اسی طرح دھوم دھڑکا تو بہت ھے پر پریشانی کا بھی کوئی حساب نہیں۔

اپنی زندگی کو سادہ بنائیے

تعلق بحال کیجئے،
دوست بنایئے،
دعوت گھر پر کیجئے،
بے شک چائے پر بلائیں،
یا پھر آلو والے پراٹھوں کا ناشتہ ساتھ کیجئے،
دور ھونے والے سب چکر چھوڑ دیجئے،
واٹس ایپ فیس بک زرا کم استعمال کیجئے ، آمنے سامنے بیٹھئیے،
دل کی بات سنیئے اور سنائیے، مسکرائیے۔
یقین کیجئے خوشی بہت سستی مل جاتی ہے -
بلکہ مفت،
اور پریشانی تو بہت مہنگی ملتی ہے
جس کیلئے ہم اتنی محنت کرتے ہیں،
اور پھر حاصل کرتے ھیں۔
خوشی ہرگز بھی چارٹر طیارے میں سفر کرنے میں نہیں ھے۔ کبھی نئے جوتے پہن کر بستر پر رھیئے پاؤں نیچے رکھے تو جوتا گندا ھوجائے گا۔
بس محسوس کرنے کی بات ہے ،

ہمسائے کی بیل تو بجائیے -
ملئے مسکرائیے،
بس مسکراھٹ واپس آجائے گی، دوستوں سے ملئے دوستی کی باتیں کیجئے
ان کو دبانے کیلئے ڈگریاں، کامیابیاں، فیکٹریوں کا ذکر ھرگز مت کیجئے۔
پرانے وقت میں جایئے جب ایک ٹافی کے دوحصے کرکے کھاتے تھے
،فانٹا کی بوتل آدھی آدھی پی لیتے تھے.
ہم نے کیا کرنا چائے خانہ کا جہاں پچاس قسم کی چائے ہے۔
آؤ وہاں چلیں جہاں سب کیلئے ایک ہی چائے بنتی ہے ملائی مارکے، چینی ہلکی پتی تیز۔

آؤ پھر سے خوش رہنا شروع کرتے ھیں.
خوش رہنے کے لئے بچوں جیسے بن کے تو دیکھئ
چائے میں بسکٹ ڈبو کر تو دیکھئے-
ٹوٹ کر گر گیا تو کونسی قیامت آجائے گی...!
منقول!❤️💓❤️

ایک روپے کی آٹھ "ٹافیاںاور آٹھ روپے کی ایک ٹافی ۔کے درمیاں ہم بڑے ہو گئے ۔گراؤنڈ میں آ جا اور آن لائن آ جاکے درمیاں ہم ب...
05/07/2023

ایک روپے کی آٹھ "ٹافیاں
اور
آٹھ روپے کی ایک ٹافی ۔
کے درمیاں ہم بڑے ہو گئے ۔

گراؤنڈ میں آ جا
اور
آن لائن آ جا
کے درمیاں ہم بڑے ہو گئے ۔

بہن کی چاکلیٹ چرانے
اور
اس کے بچوں کے لئے چاکلیٹ لانے
کے درمیاں ہم بڑے ہو گئے

اپنی ضد منوانے کے لئے رونے
اور
خواب ٹوٹنے پر آنسو روکنے
کے درمیاں ہم بڑے ہو گئے ۔

میں بڑا ہونا چاہتا ہوں
اور
کاش میرا بچپن واپس آ جائے
کے درمیاں ہم بڑے ہو گئے ۔

مل کر پلان بنانے
اور
پلان بنا کر ملنے
کے درمیاں ہم بڑے ہو گئے ۔

والدین کے آنے سے ڈرنے کے
اور
اب والدین کے چلے جانےکے ڈر
کے درمیاں آخرکار ہم بڑے ہو ہی گئے ۔

اور

اب اس سب کے درمیاں جب ہم بڑے ہو گئے۔
ہم خاموشی سے کتنا بدل گئے ‛
کہ ہاں
اب ہم بڑے ہو گئے.🙂💚

نفسا نفسی کے اس دور میں موبائل جیسی بَلا ایک طرف رکھ کر اپنوں سے بات چیت کر لیں، تو آپ کو احساس ہوگا کہ وقت کتنا آہستہ ا...
26/06/2023

نفسا نفسی کے اس دور میں موبائل جیسی بَلا ایک طرف رکھ کر اپنوں سے بات چیت کر لیں، تو آپ کو احساس ہوگا کہ وقت کتنا آہستہ اور خوبصورتی سے گزرتا ہے♥♥

😜کچھ دن کے لیے خود کو ریلیکس کریں۔۔سیاست، مذہب، عشق عاشقی، پڑھائی، اور آمدنی کے ذرائع کو ایک طرف رکھ کر اپنے لیے جئیں،کچ...
10/06/2023

😜

کچھ دن کے لیے خود کو ریلیکس کریں۔۔سیاست، مذہب، عشق عاشقی، پڑھائی، اور آمدنی کے ذرائع کو ایک طرف رکھ کر اپنے لیے جئیں،
کچھ گولز سیٹ کریں جنہیں اچیوو کرنے کی خاطر تھوڑی سی تگ ودو کریں۔۔

جیسا کہ
رات کو سوتے وقت خود کو کہیں کہ صبح اپنے لیے زبردست قسم کا ناشتہ خود بنانا ہے۔۔ یہ ایک گول ہے ، میں نوے فیصد یقین کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ آپکا دماغ آپ کو مقررہ وقت سے پہلے جگا دے گا۔۔

ناشتے کے بعد پھر سے سوچیں کہ اب کیا کیا جائے؟
چلیں آج کچھ پرانی یادیں دہراتے ہیں، سکول کالج یونیورسٹی حتی کہ بچپن کے کھلونوں تک سوچیں کہ آخر کونسی چیزیں آپکے لیے مثبت رہی۔۔۔
ان سارے کھلونوں ،تصاویر، کارڈز یونیفارم تک سے جڑی اچھی یادوں کو یاد کریں اور دیر تک مسکراتے رہیں🤗۔۔۔

دوپہر کو نہائیں اور اپنا پسندیدہ لباس پہن کر اپنے کھانے کے لیے اپنی جیب کے مطابق کچھ اچھا خریدیے یا پھر گھر پر بنائیں، اچھے سے ٹیبل سجا کر خود کی دعوت کریں۔۔۔

سہ پہر کو اچھے سے تیار ہو کر اپنی پسندیدہ جگہ پر جائیے، کسی پارک ،میوزیم، کسی باغ یا پھر سڑک پر۔۔۔ وہاں موجود ایک ایک نظارے کو انجوائے کریں، سوچیں کہ ماضی میں یہ وہ جگہیں تھیں جہاں آپکا مثبت وقت گزرا، کرکٹ کھیلی، پھل توڑ کر کھائے، جھولے جھولتے رہے یا پھر شور مچاتے سب دوستوں کے ساتھ دوڑ لگاتے ہوئے گھر پہنچے؟
شام ڈھلنے لگے تو آہستہ آہستہ واک کرتے ہوئے اپنے گھر کی طرف گامزن ہوں، گلی میں کرکٹ کھیلتے ہوئے بچوں کی مدد کریں، کسی بزرگ ریڑھی بان کی ریڑھی کو دھکیلتے ہوئے کچھ پل انہیں بھی آرام کا موقع دیں، راستے سے گذرتے ہوئے شرارتاً کسی انجان شخص کو سلام کر کہ مسکرا دیں، تاکہ کم از کم ایک مرتبہ تو وہ آپ کو سوچ سکے۔۔

رات ہوتے ہی گھر والوں کے ساتھ مل بیٹھ کر کھانا کھائیں، دسترخوان لگانے میں مدد کر دیں، کسی کو گلاس میں پانی ڈال دیں، یا پھر گندے برتنوں کو سمیت کر دھلنے کے لیے سنک تک پہنچا دیں۔۔۔
کتنی انرجی صرف ہوئی اس سب میں؟ یہ میٹر نہیں کرتا، میٹر یہ کرتا ہے کہ چند مثبت چیزوں کو ڈھونڈنے کے لیے آپ نے مزید کتنی مثبت راہیں ہموار کیں۔۔۔
یہ دنیا ہے ،اسکی ضرورتیں کبھی کم نہیں ہونگی، ایسے میں اگر کہی کچھ پازیٹیو ٹی ہماری وجہ سے ممکن ہو تو کچھ مضائقہ نہیں!!

سکون کیا ہے کبھی نیلفری جھیل کنارے بیٹھ کر محسوس کریں۔نیلفری جھیل اور فیسٹیول 2023....سطح سمندر سے تقریباً ساڑھے آٹھ ہزا...
23/05/2023

سکون کیا ہے
کبھی نیلفری جھیل کنارے بیٹھ کر محسوس کریں۔
نیلفری جھیل اور فیسٹیول 2023....

سطح سمندر سے تقریباً ساڑھے آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر "نیل فری جھیل" ایک سرسبز و شاداب کہسار کی گود میں ہلکورے لیتی ہے۔۔۔کہسار پر فطرت کی صناعی و کاریگری دیکھ کر انسان مبہوت سا ہو کر رہ جاتا ہے۔زینہ بہ زینہ ہرے رنگ کی طویل دھاریاں اور ان کا متناسب درمیانی فاصلہ و سیدھائی دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ۔۔۔جیسے فطرت نے برسہا برس کی محنت ِشاقہ سے کہسار کو ایک دھاری دار اور دلآویز پوشاک پہنا رکھی ہے۔
تاحدِ نگاہ پھیلے ہوئے پیر پنجال کے پرجلال اور وسیع و عریض سلسلہ ہائے کوہ کا جادوئی منظر، گرد و پیش میں چھائی ہوئی دھند اور ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں محوِِ پرواز خوش نما بھنورے ماحول کو اور زیادہ افسانوی، پرشکوہ اور خوابناک بنا دیتے ہیں۔

جھیل کے نشیب میں "مین سر" گاؤں واقع ہے جو قدرتی حُسن و جمال کا ایک انوکھا شاہکار ہے۔پھولوں سے لدے وسیع میدان و چراہ گاہیں، بہتے جھرنے اور گاؤں کے عین سامنے واقع "سر پیر" بیٹھک کا انتہائی خوبصورت اور سرسبز و شاداب ٹیلہ۔۔۔جو مین سر گاؤں کی دلکشی و جاذبیت کچھ اور بڑھا دیتا ہے...

وادی میں ہرسُو زمزموں کا سرودِ پیہم، فطرت کے حسن ِشاداب کا پھیلا فسوں اور رنگ و نکہت کی نزہت سے بھرپور مناظر دیکھ کر بہشت ِارضی یا پھر کسی مصور کے کینوس کا گمان گزرتا ہے...
چاروں طرف سے دھرتی پر اترے ہوئے سحاب کی اٹکھیلیاں، معطر ہواؤں کے جھونکے، خوشنما و رنگ برنگی تتلیوں کا رقص، آب جوئے رواں کا مدھر ترنم، جھیل کے آبِ نیلگوں کا پراسرار سکوت،پھولوں کی مہکار، وادی کی رنگین فضاؤں میں جابجا اڑتے پرندوں کی چہکار اور وادئ نیلفری کے ملکوتی حسن اور بوقلمونئ رنگ و بو پر پرستان کا سا گمان ہوتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ابھی کوئی اپسرا اپنی تمام ترحشر سامانیوں کے ساتھ سکھیوں کے جھرمٹ میں جلوہ افروز ہوگی ۔۔۔جس کے استقبال کیلئے تاحدِنظر زمردیں قالین بچھا ہے۔۔۔ اور۔۔۔اور عروسِ فطرت۔۔۔ کوہ قاف کی ان جادوگر شنگولیوں کے حُسن و جمال اور دلکشی و رعنائی سے مرعوب ہوکر بار بار اپنی زلفیں سنوار رہی ہے اور بے تابی کے ساتھ اپنے جلوؤں کی مشاطگی میں لگی ہے...

نیلفری نام کی وجۂ تسمیہ دراصل چہار سو پھیلے مرغزار اور زمردیں فرش ہے۔پرانے لوگ آج بھی سبزے کو نیلا کہتے ہیں۔یہاں چونکہ ہر طرف سبزہ ہی سبزہ اور ہریالی ہی ہریالی ہے۔دھرتی نے تاحدِنگاہ ایک ہرے رنگ کی پوشاک پہن رکھی ہے۔جس کے باعث اسے نیل (نیلا) اور فر (جانوروں کے بالوں سے تیار کیا گیا گارمنٹ) سے فری کہا جاتا ہے۔۔۔
بعض لوگ "فری" کو "فیری" بھی کہتے ہیں۔جو کہ انگریزی زبان کا لفظ ہے،جس کے معنی ایک افسانوی اور رومانوی مخلوق (پری) کے ہیں۔اس لیے بعض اسکول آف تھاٹ اسے نیل (نیلی) فیری (پری) کے ساتھ بھی جوڑتے ہیں۔
چند ادبی حلقے نیلفری نام کی وجۂ تسمیہ یہاں کھلنے والے نیلوفر کے نیلے نیلے پھولوں کو قرار دیتے ہیں۔
بہرحال وجۂ تسمیہ خواہ کچھ بھی ہو لیکن موسمِ بہار میں اس وادئ خوش رنگ کے سرسبز و شاداب میدانوں و مرغزاروں میں واقعی اُودے اُودے، نیلے نیلے اور پیلے و بنفشی پھولوں کی اک بہارِ جانفزا ہوتی ہے۔ ان پھولوں کی بھینی بھینی مہک دل و دماغ پر وجد (Ecstacy) کی سی کیفیت طاری کردیتی ہے اور ان کادلکش نظارہ آنکھوں کو ٹھنڈک اور روح کو تازگی بخشتا ہے۔

نیلفری جھیل کے بارہ میں ایک حکایت ( Myth) بھی کافی مشہور ہے کہ پارٹیشن سے قبل یہاں دو بیل آپس میں لڑتے بھڑتے ہوئے پانی میں گرے اور غائب ہو گئے تھے،جنہیں بعد ازاں لوگوں نے منڈی ( پونچھ شہر) میں دیکھا اور یوں یہ انہونی زبانِ زدِ عام ہو گئی۔

یہاں کی نشاط خیز و سحرانگیز فضاؤں، گل ہائے رنگ و بُو وادیوں اور ہارٹ نما جھیل کے آبِ نیلگوں کو دیکھنے کے لیے دور دراز سےحُسنِ ِذوق رکھنے والے سیاح ہر سال آتے ہیں اور اپنے آڈیو وڈیو پیغامات کے ذریعے دیگر لوگوں کی توجہ بھی اس جنت نظیر وادی کی جانب مبذول کراتے رہتے ہیں۔

اگر فردوس بہ روئے زمیں است......!
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است

امسال مورخہ 11 جون 2023ء کو اس مشہور ومعروف اور بلند و بالا سیاحتی مقام پر انتظامیہ اور سول سوسائٹی حویلی کے اشتراک و تعاون سے پہلا ایک روزہ گرینڈ "نیلفری ٹورازم فیسٹیول" منعقد کیا جا رہا ہے۔جس میں رنگا رنگ تقریبات ہوں گی اور آزادکشمیر کابینہ و بیوروکریسی کے ساتھ ساتھ باہر سے سیاحوں کی ایک بھاری تعداد بھی متوقع ہے۔یہ فیسٹیول ضلع حویلی کے سیاحتی مقامات کی پروموشن کے لیے ایک سنگِ میل ثابت ہوگا اور جس کی بدولت مقامی روزگار کو بھی بھرپور فروغ ملے گا۔

(نیلفری تک رسائی کیلئے دو راستے ہیں۔
ضلعی ہیڈکوارٹر کہوٹہ سے بساہاں بالا (شمال مشرق) تک پکی روڈ جاتی ہے۔وہاں سے پیدل ڈیڑھ گھنٹے جبکہ فور بائی فور جیپ پر محض آدھے گھنٹے کا سفر ہے۔مشرق کی طرف سے برنگ بن تک پختہ سڑک ہے جہاں سے براستہ ککو ڈھارہ پیدل دو گھنٹے جبکہ گاڑی پر ایک گھنٹے کی مسافت ہے 🍂🍂🌾🌹

Address

Muzaffarabad

Telephone

+923459100260

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when LovE LifE Aur KashmiR posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to LovE LifE Aur KashmiR:

Videos

Share

Category


Other Video Creators in Muzaffarabad

Show All