15/04/2024
ایران نے اسرائیل پر حملہ کیوں کیا؟
۱۴ اپریل ۲۰۲۴ء کو ایران نے اسرائیل پر دو سو کے قریب مزائیل داغے لیکن اسرائیل کے ڈیفنس سسٹم کی وجہ سے اسرائیل میں کچھ خاص نقصان نہیں ہے۔ اگر اِس پاکستانی عوام اور خواص کی بات کی جائے تو اُنہوں نے ایران کے اِس حملے کو ایک عجیب ہی رنگ دیا ہوا ہے۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہیکہ ایران نے فلسطینوں کی حمایت میں اسرائیل پر حملہ کیا ہے اور وہ ایران کی طاقت بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں، اور دوسرا طبقہ ایران کے شیعہ ملک ہونے کی وجہ سے اِس حملے کا مذاق اُڑا رہی ہیں، لیکن حقیقت یہ ہیکہ ایران کا اسرائیل پر حملہ کسی بھی زاویے سے فلسطین میں اسرائیل کی طرف سے جاری جنگ کے جواب میں نہیں کیا گیا، بلکہ ایران نے یہ حملہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں موجود آرٹیکل نمبر ۵۱ کے تحت اپنا دفاعی حق استعمال کرتے ہوئے ۱ اپریل ۲۰۲۴ء کے شام کے دارالخلافہ دمشق میں موجود ایرانی ایمبیسی پر حملے کی جوابی کاروائی کے طور پر کیا ہے۔ اور یہ حملہ ایک طرح سے اسرائیل کیلے ایک وارننگ ہے کیونکہ اقوام متحدہ کے مستقل ایرانی مندوب نے صاف الفاظ میں یہ بیان دیا ہیکہ ایران اِس کے بعد اسرائیل پر حملہ نہیں کرے گا بشرطیکہ اسرائیل ایران یا ایران کی کسی ایمیسی پر حملہ نہیں کرے گا۔ اس حملے کا فلسطین میں چل رہی جنگ سے کسی طرح کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
اب آپ کے ذہن میں یہ سوال بھی ہوگا کہ یکم اپریل ۲۰۲۴ کو اسرائیل نہیں ایرانی ایمبیسی پر کیوں حملہ کیا تھا؟ اگر آپ کے ذہن میں یہ سوال نہیں آیا تو آنا چاہیے تھا اگر آپ منطقی سوچ کے مالک ہیں یا کم اَز کم دعویدار ہیں۔ تو نہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ایران شام میں بیٹھ کر اسرائیل پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہا تھا اور اسرائیل کو اِس بات کا پتا چل گیا اور اسرائیل نے اُس کے خلاف منصوبہ بندی کرنے والوں پر حملہ کردیا۔ ایسا بلکل بھی نہیں ہے۔ جب بھی کسی ریجن میں کوئی لڑائی ہوتی ہے تو ہر علاقی قوت کا اُس لڑائی میں کوئی نہ کوئی مفاد ہوتا ہے، اور ہر پاور اپنے مفادات کے تحفظ کیلے کچھ نہ کچھ ترکیب ضرور لڑاتی ہے۔ ماڈرن ریاستوں میں یہ روجحان پایا جاتا ہیکہ کہ وہ اپنی مفادات کے تحفظ کیلے پیرا ملٹری فورسز اور خفیہ مسلط تنظیموں کی غیرعلانیہ طور پر حمایت کرتی ہیں۔ اور اِس طرح کی تنظیموں کو عام طور پراُس ریاست کی پُروکسیاں کہا جاتا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ اِس وقت کوئی اِیسی ریاست ہوگئی جس کی کوئی پُروکسی نہ ہو۔ حزب اللہ نامی ایک تنظیم ایران کی پُروکسی ہے جو وسطی ایشاء کے مختلف ممالک میں ایران کے مفادات کا تحفظ بھی کرتی ہے اور ایران کا اثرورسوخ کو برقرار رکھنے کا ایک آلہ بھی۔ حزب اللہ کی شامی برانچ آج کل اسرائیل سے گولن ہائیٹ چھیننے کیلے کوششیں کررہی ہے۔ اِس تنظیم کو ایرانی اور شامی دونوں حکومتوں کی حمایت حاصل ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہیکہ اُس نے ایرانی ایمبیسی پر حملہ اِس لیے کیا ہیکہ کونکہ اُسے شک تھا کہ حزب اللہ کی اعلی قیادت ایرانی ایمیسی میں موجود تھی۔ عام طور پر حالات جتنے مرضی خراب ہو جائیں کوئی ملک دوسرے ملک کی ایمبیسی پر حملہ نہیں کرتا ہے۔ اِس لیے شاید حزب اللہ کے قیادت ایرانی ایمبیسی میں میٹنگیں کرتی بھی رہتی ہو گئی۔
حزب اللہ وہاں پر میٹنگ کررہی تھی یا نہیں، اسرائیل نے ایرانی ایمبیسی پر حملہ کر کے ایران کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل ۵۱ کے مطابق اسرائیل پر جوابی حملہ کرنے کا جواز دے دیا۔ یہ آرٹیکل کہتا ہیکہ اگر کسی ملک پر کوئی دوسرا ملک حملہ کرتا ہے تو پہلے ملک کے پاس یہ حق ہیکہ وہ اپنے دفاع میں جوابی کاروائی کرسکتا ہے، اور ایران نے وہی کیا ہے جس کی بین الاقوامی قانون اُسے اجازت دیتا ہے۔ ایک اور بات یہ کہ ۱ اپریل کے حملے کے بعد اسرائیل پر حملہ کرنا ایران کی مجبوری بن چکا تھا کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرتا تودنیا میں یہ پیغام جاتا کہ ایران ایک کمزور ملک ہے، اور کوئی بھی ملک یہ نہیں چاہتا کہ اُس کا تعارف ایک کمزور ملک کے طور پر ہو۔