Discover Kashmir

Discover Kashmir Wellcome to Kashmir community .We will show you eveything that is for from your reach.Stay connected

03/12/2023
04/12/2021

Follow & like this video and Page.

کشمیریات....سماوار جس میں کشمیری چائے خاص انداز کے ساتھ بنائی جاتی ہے.اور ساتھ میں کشمیری کلچہ..کیا بات ہے سماوار کشمیری...
29/11/2021

کشمیریات....

سماوار جس میں کشمیری چائے خاص انداز کے ساتھ بنائی جاتی ہے.اور ساتھ میں کشمیری کلچہ..
کیا بات ہے سماوار کشمیری ثقافت کا لازمی جزو ہے....

Kashmir community Aj&k.....

مظفرآباد (آزادکشمیر) کا مشہور اور قدیم "خواجہ بازار" ۔ ۔ کشمیر کی سوغات یعنی "کلچہ" بھی یہیں کا مشہور ہے، یہ الگ بات کہ ...
29/11/2021

مظفرآباد (آزادکشمیر) کا مشہور اور قدیم "خواجہ بازار" ۔ ۔ کشمیر کی سوغات یعنی "کلچہ" بھی یہیں کا مشہور ہے، یہ الگ بات کہ اب پاکستان اور کشمیر میں کئی مقامات پر "کشمیری کلچہ" دست یاب ہے۔..
Kashmir community Aj&k....

‏کشمیر میں ابتدائی برفباری نے سیب کی فصل کو نقصان پہنچایا اور وادی بھر کے کسانوں کی پریشانیوں میں اضافہ کیا ہے۔بارش اور ...
24/10/2021

‏کشمیر میں ابتدائی برفباری نے سیب کی فصل کو نقصان پہنچایا اور وادی بھر کے کسانوں کی پریشانیوں میں اضافہ کیا ہے۔
بارش اور برفباری کے درمیان سیبوں کی اترائی شروع کردی گئی ہے۔

Inaugurated by our Top fan☺
11/10/2021

Inaugurated by our Top fan☺

CRICKET NEWS     Umran Malik pacer from Jammu and Kashmir selected as Team India's Net bowler for T20 World Cup.
09/10/2021

CRICKET NEWS
Umran Malik pacer from Jammu and Kashmir selected as Team India's Net bowler for T20 World Cup.

حویلی اور اس کا تاریخی ورثہ۔۔۔1947ء کے انقلاب تک سرزمینِ حویلی علم و دانش کا گہوارہ تھی۔جس کی دانش کا معترف اک زمانہ رہا...
23/09/2021

حویلی اور اس کا تاریخی ورثہ۔۔۔

1947ء کے انقلاب تک سرزمینِ حویلی علم و دانش کا گہوارہ تھی۔جس کی دانش کا معترف اک زمانہ رہا ہے۔اس کی زرخیز مٹی نے چراغ حسن حسرت جیسے سلطان القلم پیدا کئے۔ان کے دیگر تین بھائی بھی شاعر تھے۔ان کے علاوہ کرشن چندر بھی حویلی ہی کی کوکھ میں شہرۂ آفاق افسانہ نگار بنے۔اسی مٹی نے مہندر ناتھ اور ٹھاکر پونچھی جیسے ادیب پیدا کئے۔چراغ حسن حسرت تو اپنی ادیبانہ،شاعرانہ اور صحافیانہ صلاحیتوں کے بل بوتے پر بین الاقوامی پلیٹ فارم تک چلے گئے البتہ حویلی کی رونقیں بحال رکھنے کیلئے دیگر بہت سارے شعراء کرام موجود تھے جن میں عبدالقادر خزین،فرزند علی یاس بخاری،تحسین جعفری،سید احمد درد،امام الدین ہدہد،سرون ناتھ آفتاب،ضیاء الحسن ضیاء اور سراج الحسن سراج وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔

اکثر دوست احباب حویلی نام کی وجۂ تسمیہ پوچھتے رہتے ہیں۔ ہماری معلومات کے مطابق مقبوضہ پونچھ شہر کی چار تحصیلیں تھیں۔حویلی،مہنڈر،باغ اور سدھنوتی۔۔۔
حویلی مرکزی تحصیل تھی جس میں دیگوار ملدیالاں کا علاقہ بھی شامل تھا جو کہ لائن آف کنٹرول کے اس پار واقع ہے۔
حویلی ملدیالاں میں ایک مسلمان وزیر میاں نظام دین ہوگزرے ہیں جو ڈوگرہ دربار سے منسلک تھے۔ان کے نام سے ایک بہت بڑی اور رفیع الشان عمارت تعمیر ہوئی تھی۔جس کے پہلو میں ایک خوبصورت مسجد بھی انہی کے نام سے بنائی گئی۔اسی عمارت کے نام پر پونچھ کی مرکزی تحصیل کا نام حویلی پڑ گیا۔کیونکہ پرانے وقتوں میں بڑی عمارت کو حویلی کہا جاتا تھا۔میاں نظام دین کی وفات کے بعد ڈوگرہ راجوں نے اس تاریخی عمارت میں وی۔جے اسٹیٹ ہائی اسکول قائم کر دیا تھا۔
حویلی کا زیادہ تر قابلِ دید علاقہ حدِمتارکہ کے اس جانب واقع ہے البتہ سیاحت کیلئے اس طرف بھی قدرتی خوبصورتی سے مالا مال کئی ایک جگہیں موجود ہیں جن میں لس ڈنہ،محمود گلی،شیرو ڈھارہ،مانجھی شہید،علی آباد،نیلفری،مین سر،کھٹناڑ، سری ، گزن، ہلاں،کاچربن اور سنکھ وغیرہ کی خوابناک ڈھوکیں شامل ہیں۔جن کی قدرتی خوبصورتی، تاحد نظر پھیلا زمردیں فرش اور فطرت کا حسنِ شاداب سیاحوں کو مبہوت کئے دیتا ہے۔
یوں تو حویلی کا سارا علاقہ مختلف معدینیات اور اناج و غلہ کی گوناں گوں اقسام کے باعث مشہور ہے البتہ حویلی درہ حاجی پیر کے حوالے سے پوری دنیا میں معروف ہے۔یہ دنیا کے چند بڑے اور مشہور ترین پہاڑی دروں میں سے ایک ہے جو صدیوں سے تجارت،ہجرت، جنگ اور دیگر نقل و حمل کیلئے استعمال ہوتا رہا۔
اس کے علاوہ برٹش دور میں اس مشہور تاریخی گزرگاہ پر تعمیر کی جانے والی سڑک اور آس پاس کے تاریخی مقامات بھی خاص اہمیت رکھتے ہیں۔اس صدیوں پرانی گزرگاہ پر بننے والی سڑک مقبوضہ پونچھ کو اوڑی شہر اور سری نگر سے ملاتی ہے جو 1920ء میں تعمیر کی گئی۔درہ حاجی پیر کی عظیم اور تاریخی گزرگاہ سے دراوڑ،کورو اور پانڈو بھی گزرتے رہے۔ بدھ تہذیب کے کارواں نے بھی اپنے نقوش پا چھوڑے۔ اشوک اعظم کے پھریرے بھی یہاں لہراتے رہے۔ سولہویں صدی عیسوی میں مغل بادشاہوں کے نقوشِ دوام سے بھی یہ سرزمین محروم نہیں رہی۔مغل شہنشاہ اکبر دی گریٹ کے لشکر جرار نے اس راستے سفر کرتے ہوئے علی آباد کے پرفضا مقام پر پڑاؤ کیا۔
اس گزرگاہ پر بننے والی سڑک جموں شاہراہ کے مقابلہ میں مختصر ترین روڈ ہے جو شہر پونچھ کو مقبوضہ کشمیر کے دارالخلافہ سری نگر کے ساتھ ملاتی ہے۔ایک صدی پیشتر تعمیر کی گئی یہ سڑک بلاشبہ فنِ تعمیر اور انجینئرنگ کا ایک شاہکار تھی۔کیونکہ اس کا گریڈ اور سروے ایسا تھا کہ اس پر تانگے بھی بآسانی چل سکتے تھے۔ کچی روڈ ہونے کے باوجود 1947ء تک اس پر بسیں چلا کرتی تھیں۔
یہ ہسٹاریکل روڈ مقبوضہ شہر پونچھ سے گاؤں دیگوار تیڑواں (آزاد کشمیر) کے بیچوں بیچ اور نالۂ بیتاڑ کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی ضلعی ہیڈ کوارٹر کہوٹہ کو چھوتی ہوئی ہالن شمالی،علی آباد اور درہ حاجی پیر سے ہوتی ہوئی بھیڈی کے آخری گاؤں خواجہ بانڈی کے مقام پر اوڑی مقبوضہ کشمیر میں داخل ہو جاتی ہے۔اس سڑک کے دائیں بائیں بل کھاتے ندی نالوں،سرسبز و شاداب وادیوں، کھیت کھلیانوں،جنگلوں اور کہساروں کا نظارہ آنکھوں کو خیرہ کیے دیتا ہے۔

سڑک کے گرد و نواح میں مختلف تاریخی مقامات بھی واقع ہیں جن کی اپنی ایک الگ ہسٹری ہے۔جس میں سرائے علی آباد،رانی باغ،شکار گاہ لوئی دندی اور علی آباد ،درہ حاجی پیر،نوری چھم وغیرہ کافی مشہور ہیں۔بعض جگہوں پر پانی کے چشمے اور باؤلیاں بنی ہیں جو اگرچہ امتدادِ زمانہ کے ہاتھوں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہیں لیکن اب بھی مغلیہ اور سکھ دور کی یاد تازہ کرتی ہیں۔اس طرز کے چشموں اور باؤلیوں کی باقیات حویلی میں جا بجا نظر آتی ہیں۔بالخصوص کہوٹہ (چنار) ، پنج پیر،ہوتر،سولی، کالامولہ وغیرہ کے مقامات پر ان کے نشانات بآسانی دیکھے جا سکتے ہیں۔
درہ حاجی پیر کے راستے مختلف کارواں گزرتے رہے ہیں۔جن کا پڑاؤ علی آباد کے خوبصورت اور پرفضا مقام پر ہوا کرتا تھا۔جہاں ان قافلوں کی رہائش کیلئے ایک بہت بڑی قدیم سرائے موجودتھی۔ایک روایت کے مطابق جب شہنشاہ جلال الدین اکبر کے لشکر نے علی آباد کی سرائے میں قیام کیا تو لشکریوں کے طعام کیلئے تیار کیے جانے والے کھانے میں صرف ڈھائی من ہینگ استعمال ہوا تھا۔بعض روایات میں نو من ہینگ کا ذکر بھی ملتا ہے۔جس سے لشکر کی غیرمعمولی تعداد اور سرائے کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔
اکبر دی گریٹ کے اس لشکر کی آمد اور پڑاؤ کی تاریخ پاس ہی ایک بہت بڑی چٹان پر کندہ ہے جسے مقامی زبان میں "لکھی تراڑ" کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔چٹان پر کندہ تختی کا ڈیزائن تاحال موجود ہے البتہ اس پر فارسی رسم الخط میں لکھی گئی تحریر کافی ماند پڑ چکی ہے۔
سرائے کے ساتھ والئی پونچھ کی محبوب بیوی کیلئے رانی باغ کے نام سے ایک خوبصورت باغ بھی لگایا گیا ہے جس میں وہ اپنی کنیزوں کے ہمراہ سیرو چہل قدمی کیا کرتی تھی۔رانی باغ اپنی جزوی شکل میں ہنوز موجود ہےجسے دیکھنے کیلئے دور دراز سے سیاح آتے جاتے رہتے ہیں۔
بعد ازاں انگریزوں کے دور میں علی آباد کے مقام پر ایک خوبصورت اور وسیع ڈاک بنگلہ بھی تعمیر کیا گیا جس کے آثار تقریباً ناپید ہو چکے ہیں۔
پونچھ شہر سے اوڑی اور سرینگر جانے والی یہ سڑک اپنے دامن میں گزشتہ کئی صدیوں کی تاریخ سموئے ہوئے ہے۔اس راستے برگزیدہ ہستیوں، اولیاء کرام،علماء کرام، سکھوں، راجوں مہاراجوں، انگریزوں اور چوٹی کے سیاسی رہنماؤں نے بھی کئی ایک سفر کیے۔
آنجہانی اندرا گاندھی بھی بطور خاص درہ حاجی پیر تک آئیں اور معاہدہ تاشقند کے تحت اپنی فوجوں کو پیچھا ہٹا لیا۔شیرکشمیر شیخ عبداللہ بھی تشریف لاتے رہے۔سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے بھی یہاں قدم رنجہ فرمایا۔
حاجی پیر کے مقام پر ایک خدا رسیدہ بزرگ حاجی سید عبد اللہ شاہ بخاری کا مزار ہے۔جن کے دوسرے بھائی سید حاجی محمد ابرہیم شاہ بخاری کہوٹہ مدفون ہیں اور ایک ہمشیرہ علی آباد نزد رانی باغ مدفن ہیں۔حضرت جہانیاں جہاں گشت کی کئی ایک بیٹھکیں بھی حویلی میں موجود ہیں۔
حویلی کی قدرتی خوبصورتی نے کئی ایک شعراء،ادباء اور افسانہ نگاروں کو بھی اس جانب متوجہ کیا اور انہوں نے حویلی کے دور دراز گاؤں اور ڈھوکوں تک سفر کر کے ادب کے شہ پارے تخلیق کیے۔کرشن چندر نے چھانجل،علی آباد،حاجی پیر، مین سر اور گزن ڈھوک پر کئی ایک شہرۂ آفاق افسانے تحریر کیے۔ہلاں ٹیڈا بن کے ساتھ بٹ ہالن کے مقام پر بدھ یونیورسٹی کے آثار ابھی بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
البتہ 1947ء کے انقلاب نے حویلی کو تمام پہلو ہائے زندگی سے پسماندگی کی جانب دھکیل دیا۔حد متارکہ نے اس تاریخی سڑک کی اہمیت اور حسن کو بھی کافی گہنا دیا۔چنانچہ وہی مصروف و بارونق گزرگاہ جس نے کئی صدیوں تک مختلف حکمرانوں اور مشاہیر کے کروفر اور جاہ و جلال کا مشاہدہ کیا تھا اب پون صدی سے ویران اور خستہ حال پڑی ہے۔اگرچہ چند سالوں سے اس سڑک کو کسی حد تک قابل استعمال بنا دیا گیا ہے لیکن سندر مار سے آگے خواجہ بانڈی تک اس کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔حویلی کے اندر واقع دیگر تاریخی مقامات کے نشانات بھی (سوائے رانی باغ ) تیزی کے ساتھ معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔درہ حاجی پیر کا نام بھی کم کم سننے میں آتا ہے۔گھنے اورسرسبز و شاداب جنگلات،بیش قیمتی جڑی بوٹیاں، نایاب جنگلی حیات اور قیمتی لکڑ بھی تیزی کے ساتھ ناپید ہوتی جا رہی ہے۔
نتیجتاً ہم جلد ہی اپنی نسل نو کو آبا کی یہ تاریخی نشانیاں دکھانے سے معذور ہو جائیں گے اور سلف کی یادگاریں محض الف لیلوی کہانیاں بن کر رہ جائیں گی۔۔۔
تحریر و تحقیق: ظہیر ایوب

17/09/2021
محرم کا مہینہ اور ایک بیٹی ایک بہن پر 400 لوگوں کی یلغار۔۔ سر سے چادر ہٹا دی۔۔ کپڑے پھاڑے۔۔ نازیبا حرکات کیں۔۔ ہوا میں ا...
18/08/2021

محرم کا مہینہ اور ایک بیٹی ایک بہن پر 400 لوگوں کی یلغار۔۔ سر سے چادر ہٹا دی۔۔ کپڑے پھاڑے۔۔ نازیبا حرکات کیں۔۔ ہوا میں اچھالتے رہے۔۔۔ ویڈیو بھی بناتے رہے۔۔۔
میرا ایک سوال ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا یزیدی سوچ ابھی تک زندہ ہے؟

18/08/2021

کشمیریوں پر بھونکنے سے پہلے اپنے جنرل صاحب کی بات سن لو

 : A youth identified as Shahid Manzoor Ganaie son of Manzoor Ahmad Ganie from Nagbal Urpara area in Shopian was murdere...
18/08/2021

: A youth identified as Shahid Manzoor Ganaie son of Manzoor Ahmad Ganie from Nagbal Urpara area in Shopian was murdered and found dead in Turkawangam village in Shopian.

18/08/2021

امریکہ ان لوگوں سے ٹریننگ سیکھے۔

Police foils Muharram procession in SgrCops fire tear gas shells to disperse mourners, dozens detained; many injured; Re...
18/08/2021

Police foils Muharram procession in Sgr

Cops fire tear gas shells to disperse mourners, dozens detained; many injured; Restrictions imposed in city areas, Anjuman-e-Shair-e-Shia condemns police action; Media men allege police highhandedness

Srinagar, Aug 17 (KNO): Scores of Shia mourners and policemen were injured on Tuesday after the authorities foiled the Muharram procession in Dalgate and Lal Chowk areas of the city.

The authorities had also imposed restrictions in several areas of Srinagar in a bid to prevent the Shia mourners from carrying out the major procession in remembrance of Karbala martyrs. On this day, Hazrat Imam Hussain (AS) along with his family members and companions were martyred in the battle of Karbal in Iraq.

In wake of the Muharram procession that was scheduled to be carried out from Abi Guzar today, restrictions were imposed in Maisuma, Abi Guzar, TRC, Dalgate, Budshah Bridge, Gowkadal and Kralkhud areas.

Witnesses told the news agency—Kashmir News Observer (KNO) that concertina wires were erected on the entry and exit points of the Lal Chowk and Dalgate to prevent the Shia mourners from reaching the areas.

However, Shia mourners managed to reach Lal Chowk and Dalgate today from where they tried to carry out the Muharram processions. Nonetheless, police swung into action and used tear smoke shells to disperse the mourners. Police men also used cane charge to quell the mourners.

Scores of mourners and policemen suffered injuries during the incident, witnesses said, adding that some of the mourners have also received pellet injuries today.

Notably, Muharram procession from Abi Guzar has been banned since 1989.

Pertinently, the government had announced that Muharram procession will be allowed to be carried out this year after 30 years.

Anjuman-e-Shair-e-Shia spokesman, Aga Muntazir Mehdi condemned the action on mourners.

“The restrictions being imposed on every 8th and 10 Muharram is not acceptable. We will continue to carry out the processions on these days,” he said. Meanwhile, scores of photojournalists alleged police highhandedness while covering the Muharram procession at Jehangir Chowk. A group of journalists told KNO that a police official first hurled abuses at them and when they reacted, he cane-charged at them and also thrashed a few while a camera of one photojournalist Sajad Hamid was also damaged in police action. Inspector General of Police (IGP) Kashmir Vijay Kumar told KNO that he has taken up the matter of allegations levelled by the media men with the concerned officials—(KNO)

چین، روس اور پاکستان کے سفارتخانے کابل میں کام جاری رکھیں گے۔۔۔!
18/08/2021

چین، روس اور پاکستان کے سفارتخانے کابل میں کام جاری
رکھیں گے۔۔۔!

طالبان  پریس کانفرنس: ہم خواتین کو شریعت پر مبنی قواعد و ضوابط کے فریم ورک میں ہمارے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کام کرنے...
17/08/2021

طالبان پریس کانفرنس: ہم خواتین کو شریعت پر مبنی قواعد و ضوابط کے فریم ورک میں ہمارے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کام کرنے کی اجازت دیں گے۔ خواتین کو آزادی دی جائے گی اور وہ اپنی حدود میں رہتے ہوئے اپنے حقوق کا استعمال کر سکتی ہیں۔ #کابل #طالبان #افغانستان۔

وادی نیلم کشمیری بچے صبح ہنسی خوشی سکول گئے تھے اپنے گھر صحیح سلامت چھوڑ کر جب واپس  آئے تو آگ لگی تھی کس سے شکوہ کریں گ...
14/11/2020

وادی نیلم کشمیری بچے صبح ہنسی خوشی سکول گئے تھے اپنے گھر صحیح سلامت چھوڑ کر جب واپس آئے تو آگ لگی تھی کس سے شکوہ کریں گے سخت سردی ہو اور آپ کا گھر جل گیا ہو تو کیا گزرے گی دل پہ 💔 گولیاں گولا باری کا نشانہ دونوں طرف کشمیر کی عوام ؛ نقصان کشمیر کا ہی ہو رہا ہے اور انڈیا پاکستان جوابی کاروائیوں کا نام دے دیتے ہیں بس 😡 گولی انڈیا چلائے گولی پاکستان چلائے لگتی کشمیری کو ہی ہے انڈیا بھی جوابی کاروائی کا نام دیتا ہے پاکستان بھی جوابی کاروائی کا نام دیتا ہے گھر کشمیریوں کے ہی برباد ہوتے ہیں 💔
یہ منظر۔ جنت جیسی وادی نیلم ویلی کا ھے۔۔ تختی اٹھائی سکول سے واپس آتا بچہ۔۔ اور جلتا ھوا گھر ۔۔۔ کیا ۔۔۔بیتی ھو گی ان پھولوں پہ 😭

یہ کوئی دیوالی اور ہولی کا منظر نہیں ، نہ ہی کسی آتش فشاں سے کوئی لاوا ابل رہا ہے ، اگر آپ اس کو پی سی ایل کے میچز کی تق...
14/11/2020

یہ کوئی دیوالی اور ہولی کا منظر نہیں ، نہ ہی کسی آتش فشاں سے کوئی لاوا ابل رہا ہے ، اگر آپ اس کو پی سی ایل کے میچز کی تقریبات پر آتش بازی کا نظارہ سمجھ رہے ہیں تو آپ غلط ہیں ، یہ شعلے اگلتا افق اور آگ سے سرخ پہاڑ آزاد کشمیر کے ہیں ، جہاں گزشتہ ساٹھ گھنٹوں سے بھارتی فوج مسلسل گولہ باری کر رہی ہے ، سکولوں میں بچے محفوظ نہیں ہیں اور گھروں میں عورتیں محصور ہوچکی ہیں ، مساجد میں نمازی اور بازاروں میں خریدار توپوں کے شعلوں کی زد میں ہیں ۔ وزیر اعظم آزاد کشمیر وزیر اعظم پاکستان سے شکوہ کناں ہیں حالانکہ کل ہی انہوں نے آرمی چیف سے ملاقات کی تھی ۔ آزاد کشمیر بچاؤ تحریک کے علمبردار سوئے ہوئے ہیں ۔ پاکستانی سیاست دان الزامات کی سیاست کر رہے ہیں ، پاکستانی میڈیا کو تو مریم کے بیانئے کی فکر ہے ۔ ایک اور بات اج دوستوں کیساتھ چائے کے ڈھابے پر تھا ، وہاں وادی نیلم کا بچہ ویٹر تھا ، بچے سے پوچھا کہ نیلم میں فائرنگ کیوں ہورہی ہے؟ بچہ بولا کہ یہ تو معمول ہے اگر پاکستان آرمی جواب دے تو انڈیا کی جرات نہیں ہوتی کہ وہ فائرنگ کرے۔ یقین جانیں ! آزاد کشمیر میں پاکستان مخالف بیانیہ بہت زور پکڑ رہا ہے ، اگر درست وقت پر درست حکمت عملی نہ اپنائی گئی تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ۔

13/11/2020

ہمیں شکایت تری خدائی سے کب ہے لیکن
ہماری وادی میں مرتے بچوں کا کیا بنے گا

یہ جنگ چهیڑی ہے کس نے کیوں لوگ مر رہے ہیں
جو مر رہے ہیں پهر ان کی ماؤں کا کیا بنے گا
کشمیر جل رہا ہے🔥😭😭

13/11/2020


Body Count
India = 10
Civilians 4
Army 5
BSF 1
Injured = 17

Pakistan = 5
Civilians = 5
Army/Forces = No Alhamadulilah
Injuries = 25

13/11/2020

آج میرا کشمیر جل رہا ہے
کب تک ہم خون دیتے رہیں
کب تک ایسا ہوگا
کب ہم سکون سانس نصیب ہوگا 😭😭😭

ہم بحثیت ریاست جموں کشمیری قوم سعودی عرب اور ترکی کے بے حد مشکور ہیں۔جہنوں نے ریاست جموں کشمیر کو ایک الگ ریاست کے طور پ...
07/11/2020

ہم بحثیت ریاست جموں کشمیری قوم سعودی عرب اور ترکی کے بے حد مشکور ہیں۔
جہنوں نے ریاست جموں کشمیر کو ایک الگ ریاست کے طور پہ دکھایا۔
تفصیل کے مطابق حال ہی میں سعودی عرب نے 20 ریال کا کرنسی نوٹ جاری کیا جس پہ پوری دنیا کا نقشہ پرنٹ کیا اور اس نقشے میں ریاست جموں کشمیر کو ایک الگ ملک دکھایا گیا۔
دوسری جانب ترکی نے ارتغرل ڈرامے کی رینکنگ جاری کرتے ہوۓ ریاست جموں کشمیر کو الگ ریاست ظاہر کیا گیا
دونوں تصویروں میں واضع دیکھا جا سکتا ہے۔
یاد رہے۔
پاکستان ایک نام نہاد مسلم ملک کا نام استمعال کر کے ریاست جموں کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ جبری رشتے کا دعویدار رہا ہے۔
مگر گزشتہ سال پاکستانی حکومت کے سربراہ عمران نیازی جنرل باجوہ اور دیگر فوجی و سیول عہداروں کی امریکہ میں مودی اور ٹرنپ سے ایک خفیہ ملاقات ہوئی جس میں ریاست جموں کشمیر کے بندر بانٹ پہ اتفاق کیا گیا۔
اور پھر پلوامہ حملے سے ڈرامے کا آغاز ہوا کیونکہ جواز چاہیے تھا۔
پلوامہ حملہ را نے خود کروایا تھا مگر دو دن قبل پاکستان اسمبلی میں پاکستانی وزیر فواد چوہدری نے اس حملے کا اعتراف کیا کہ پلوامہ حملہ ہماری کامیابی تھی۔
حالانکہ پلوامہ حملہ را کا اپنا منصوبہ تھا جس کے بعد ریاست جموں کشمیر میں اس حملے کو جواز بنا کر آرٹیکل 370 اور شق 35 اے کو ختم کیا گیا۔
اس سے قبل بھارت نے ریاست کے اندر انٹرنیٹ فون سروس کو بند کر دیا تھا
اور کرفیو لگا کر عوام کو گھروں میں مصور کر دیا گیا۔۔۔۔
جس دن بھارت نے جموں اور لداخ کو اپنے صوبوں میں شامل کیا ٹھیک اسی دن پاکستان کے وزیراعظم گلگت میں کروڑوں روپے خرچ کر کے جو پاکستانی جھنڈا لہرایا گیا تھا اس کا افتتاح کرتے ہیں۔
ریاستی باشندوں کے ساتھ بھارتی جبر کے جواب میں نیازی حکومت اور فوج کی بات بھڑکوں سے آگے نہ چل سکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور پھر کچھ دن بعد نیازی حکومت نے گلگت بلتستان کو پاکستان کا آئینی صوبہ بنانے کا دعوی کر دیا۔
جس پہ پاکستانی مقبوضہ کشمیر سے شدید غم غصے کا اظہار کیا گیا۔
جس کے بعد پاکستان کو خاموشی اختیار کرنا پڑی ایسے مشکل وقت میں جب پاک بھارت ریاست کی بندر بانٹ میں مصروف تھے سعودی اور ترکی حکومت نے ریاست جموں کشمیر کو ایک الگ ریاست ظاہر کر کہ حقیقی معنی میں مسلمان ہونے کا ثبوت دیا۔
جس پہ پوری قوم دونوں ملکوں کی انتہائی شکر گزار ہے۔

5 نومبر کوٹلی، جموں کشمیر جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کوٹلی کے زیر اہتمام گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی پاکستانی سازشوں کے خل...
05/11/2020

5 نومبر کوٹلی، جموں کشمیر
جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کوٹلی کے زیر اہتمام گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی پاکستانی سازشوں کے خلاف مظاہرہ کیا گیا۔


05/11/2020

کشمیریوں کے دوست یا دشمن؟
از:حامد میر
NOVEMBER 05, 2020 ادارتی صفحہ
یہ ایک بہت بڑا دھماکہ تھا لیکن اس دھماکے کی شدت کو صرف آزاد کشمیر اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں محسوس کیا گیا۔
اسلام آباد میں اِس دھماکے پر کچھ چیخ و پکار ہوئی لیکن اقتدار کے ایوانوں میں اِس چیخ و پکار پر کوئی توجہ نہ دی گئی۔ یہ دھماکہ یکم نومبر کو گلگت میں ہوا جہاں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے گلگت بلتستان کو پاکستان کا نیا صوبہ بنانے کا اعلان کر دیا۔
اِس اعلان پر گلگت بلتستان کے عوام کی بڑی اکثریت تو خوش تھی لیکن آر پار کے کشمیریوں میں صفِ ماتم بچھ گئی۔ یکم نومبر کو اتوار کا دن تھا اور اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ نے گلگت بلتستان کے مسئلے پر ایک آل پارٹیز کانفرنس بلا رکھی تھی۔اُس کانفرنس میں تحریک انصاف کے سوا پاکستان اور آزاد کشمیر کی تمام اہم سیاسی جماعتوں کے علاوہ آل پارٹیز حریت کانفرنس کا ایک وفد بھی شریک تھا۔اُس کانفرنس کے شرکاء کو آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر نے بتایا کہ عمران خان نے گلگت بلتستان کو پاکستان کا نیا صوبہ بنانے کا اعلان کر دیا ہے۔
سب سے پہلے تو حریت کانفرنس کے عبدﷲ گیلانی، یوسف نسیم ، محمود ساغر، عبدالمتین اور حسن البناء نے اِس اعلان کو مسترد کیا اور بعد ازاں عمران خان کے اعلان کے خلاف متفقہ قرارداد منظور ہوئی تو اُس کی حمایت کرنے والوں میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی آزاد کشمیر بھی شامل تھی۔ ذرا سوچئے! مسلم لیگ (ن) نے اپنے دورِ حکومت میں سرتاج عزیز کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی تاکہ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کا تعین کیا جا سکے۔
اُس کمیٹی نے سفارش کی کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم کی روشنی میں گلگت بلتستان کو عارضی طور پر صوبے کا درجہ دیا جائے نیز قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اِس نئے صوبے کو تین تین نشستیں دی جائیں۔سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات سامنے آئیں تو حریت کانفرنس کے اہم رہنمائوں سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق اور یاسین ملک نے وزیراعظم پاکستان نواز شریف کو خط لکھا کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے سے اقوامِ متحدہ میں ریاست جموں و کشمیر کا مقدمہ کمزور ہو جائے گا کیونکہ پاکستان نے روزِ اول سے اقوامِ متحدہ میں یہی کہا ہے کہ گلگت بلتستان دراصل ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے۔ حریت کانفرنس کی مخالفت پر نواز شریف رُک گئے۔2018 کا الیکشن آیا تو پیپلز پارٹی نے اپنے منشور میں یہ وعدہ شامل کر لیا کہ گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دیا جائے گا۔
ایک طرف مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کی انتخابی مہم میں علیحدہ صوبے کی حمایت کر رہے ہیں تو دوسری طرف جے کے ایل ایف کی کانفرنس میں اُن دونوں جماعتوں نے علیحدہ صوبے کی مخالفت کی۔سچائی ہمیشہ کڑوی ہوتی ہے۔ سچائی یہ ہے کہ 1947میں گلگت بلتستان میں شامل علاقے ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تھے اور اِسی لئے 16جنوری 1948 کو پاکستان کے وزیر خارجہ ظفر ﷲ خان نے اقوامِ متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے 228ویں اجلاس میں کہا کہ گلگت بلتستان دراصل ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہے۔
یہ بھی ایک سچائی ہے کہ یکم نومبر 1947 کو گلگت بلتستان میں اسکاؤٹس کے ایک افسر میجر براؤن نے ڈوگرہ حکومت کے مقرر کردہ گورنر گھنسارا سنگھ کے خلاف بغاوت کر دی اور پھر جموں و کشمیر سکھ انفنٹری کے کیپٹن مرزا حسن خان نے اُس بغاوت میں شامل ہو کر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کر لیا۔ بعد میں کیپٹن مرزا حسن خان نے 1948میں کشمیر کی آزادی کی جنگ میں اہم کردار ادا کیا اور پاکستان آرمی میں کرنل کے عہدے پر پہنچے۔ اُنہیں آج بھی گلگت بلتستان میں ایک ہیرو کا درجہ حاصل ہے اور وہ چنار باغ گلگت میں دفن ہیں۔
اِس ہیرو کو 1951میں کرنل فیض احمد فیض اور دیگر کے ہمراہ راولپنڈی سازش کیس میں گرفتار کر لیا گیا اور الزام یہ لگایا گیا کہ یہ فوجی افسران وزیراعظم لیاقت علی خان کی کشمیر پالیسی سے مطمئن نہ تھے اور میجر جنرل اکبر خان کے ساتھ مل کر کشمیر کی آزادی کا منصوبہ بنا رہے تھے اور منصوبے پر عملدرآمد کیلئے لیاقت علی خان کو ہٹانا چاہتے تھے۔
عرض یہ کرنا ہے کہ گلگت بلتستان کی تحریک آزادی کا ہیرو کشمیریوں کا بھی ہیرو ہے لیکن افسوس کہ قیامِ پاکستان کے بعد آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں فاصلے پیدا کئے گئے۔ غلط فہمیاں پیدا کی گئیں، ایک طرف اقوامِ متحدہ میں گلگت بلتستان کو ریاست جموں و کشمیر کا حصہ قرار دیا گیا تو دوسری طرف 1949میں لیاقت علی خان نے آزاد کشمیر کے صدر سردار ابراہیم خان پر دباؤ ڈال کر اُن کے ساتھ ایک معاہدہ کراچی کیا جس کے تحت گلگت بلتستان کی نگرانی حکومتِ پاکستان نے لے لی۔
اِس معاہدے پر مسلم کانفرنس کے صدر چودھری غلام عباس نے بھی دستخط کئے۔ اِس سچائی سے بھی انکار ممکن نہیں کہ گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر سے چھیننے کے بعد پاکستان کے ریاستی اداروں نے اُسے شمالی علاقہ جات قرار دیکر مقامی آبادی کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک شروع کر دیا۔
شروع میں مقامی آبادی اپنی فریاد لیکر آزاد کشمیر کی قیادت کے پاس جاتی تھی اور مسلم کانفرنس نے گلگت بلتستان والوں کیلئے آواز بھی اٹھائی لیکن مسلم کانفرنس کے مقامی لیڈر پیرزادہ محمد عالم کو استور میں گرفتار کر لیا گیا۔پھر 1970کے انتخابات آئے۔ جموں و کشمیر محاذ رائے شماری کی قیادت نے ہفتۂ گلگت بلتستان منایا اور مطالبہ کیا کہ آزاد کشمیر کی طرح گلگت بلتستان میں بھی انتخابات کرائے جائیں۔
جے کے ایل ایف کے چیئرمین امان ﷲ خان مرحوم نے اپنی آپ بیتی ’’جہدِ مسلسل‘‘ (جلد دوم) میں لکھا ہے کہ 27نومبر 1970کو ہم گلگت میں ایک جلسے سے خطاب کیلئے پہنچے تو اُن سمیت مقبول بٹ شہید، مہر عبدالمنان، پیرزادہ غلام مصطفیٰ اور جی ایم میر کو گرفتار کر لیا گیا اور بغاوت کا مقدمہ بنایا گیا۔
افسوس کہ گلگت بلتستان کی نئی نسل کو یہ نہیں بتایا گیا کہ شہیدِ کشمیر مقبول بٹ اُن کے حقوق کیلئے آواز اٹھاتے ہوئے 1970میں گلگت میں گرفتار ہوئے تھے۔گلگت بلتستان والے بھی پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور جموں و کشمیر کے لوگ بھی پاکستان سے محبت کرتے ہیں لیکن کیسی ستم ظریفی ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے نے اُن دونوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر دیا ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ اِس کارنامے میں صرف عمران خان نہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت بھی برابر کی شریک ہے۔
کشمیریوں نے تو خود گلگت بلتستان کو آئینی حقوق دینے کیلئے سب سے پہلے آواز اٹھائی تھی لیکن کاش کہ یہ کام اِس انداز سے ہوتا کہ کشمیری قیادت آج علیحدہ صوبے کو مسترد نہ کر رہی ہوتی۔
یہ نہیں سوچا گیا کہ آئینِ پاکستان کی دفعہ 257 جس ریاست جموں و کشمیر کا ذکر کرتی ہے، اُس ریاست کا مستقبل کیا ہو گا؟ یہ بھی نہ سوچا گیا کہ آزاد کشمیر کی سپریم کورٹ نے گلگت بلتستان کو اپنی ریاست کا حصہ قرار دیا اور آزاد کشمیر اسمبلی نے قرارداد کے ذریعہ اُسے اپنا علاقہ قرار دیا تو یہ سب کیوں ہوا اور یہ معاملات کیسے طے کرنا ہیں؟ کچھ عرصہ قبل پاکستان کی حکومت و اپوزیشن کی اہم شخصیات اور عسکری قیادت کی ملاقات میں طے ہوا تھا کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کا فیصلہ 15نومبر کے انتخابات کے بعد ہوگا اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جائے گا لیکن عمران خان نے الیکشن جیتنے کیلئے یکم نومبر کو وہ اعلان کر دیا جس کا کریڈٹ مسلم لیگ (ن) بھی لینا چاہتی ہے اور پیپلز پارٹی بھی۔ اگر صوبہ بنا دینے سے حقوق مل جاتے تو آج بلوچستان والے شور نہ مچا رہے ہوتے۔
سیاسی مفاد پرستی اور عاقبت نااندیشی میں تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں کوئی فرق باقی نہ رہا۔ اِن جیسے دوستوں کی موجودگی میں کشمیریوں کو کسی اور دشمن کی ضرورت نہیں۔

اس سرپرائزکو تازہ رکھا کرو ہمارے جوانوں کی حوصلہ افزائی ہوتی  ہے اور انڈین میڈیا کو لال مرچی لگا دیا کرو شئیر کرنا لازمی...
03/11/2020

اس سرپرائزکو تازہ رکھا کرو ہمارے جوانوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور انڈین میڈیا کو لال مرچی لگا دیا کرو شئیر کرنا لازمی شکریہ....

03/11/2020

‏بھارت نے مزید "رافیل طیارے" خریدنے کی بجائے پاکستان میں پانچ چھ ایاز صادق اور نواز شریف جیسے "پالتو" خریدنے کا فیصلہ کر لیا ہے

اہلیہ تنویر احمد کی درخواست پر تنویر احمد راجپوت کی صحت کو مد نظر رکھتے ہوے ڈیپٹی کمشنر میرپور نے راجہ تنویر احمد کو جلد...
03/11/2020

اہلیہ تنویر احمد کی درخواست پر تنویر احمد راجپوت کی صحت کو مد نظر رکھتے ہوے ڈیپٹی کمشنر میرپور نے راجہ تنویر احمد کو جلد از جلد DHQ میرپور ریفر کرنے کا حکم جاری کیا ہے

جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے زیر اہتمام آل پارٹی کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ
02/11/2020

جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے زیر اہتمام آل پارٹی کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ

01/11/2020

نیزہ پیر کیرنی گلی اورفتح پور میں بھارت کی جانب سے شدید گولہ باری شروع

Address

Kahuta
12200

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Discover Kashmir posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Discover Kashmir:

Share

Nearby media companies