09/11/2023
اگر ہے عشق دنیا میں تو پھر یہ بے بسی کیا ہے
جو کی تم نے وفا درویشؔ پھر ہوتی جفا کیا ہے
ڈبویا مجھ کو دنیا نے مری عادت بگاڑی ہے
جہاں ساقی بھی ہو باطل تو پھر اسمیں بُرا کیا ہے
بُرائی خون میں شامل ہے تو کردار دھوکے باز
ہوں میں جِس دَور کا انسان اسکی کیمیا کیا ہے
مری تخلیق اک نطفہ مری اوقات ہے مِٹّی
خطا کا میں اگر پُتلہ تو پھر میری خطا کیا ہے
مجھے لگتا ہے یہ مشکل خودی کو جان پاؤں میں
نہ میں یہ جان پایا ہوں مقامِ کبریا کیا ہے
مرا یہ حال دیکھو اور بتاؤ اب خرد مندوں
اگر یہ ابتداء ہے تو شَر کی انتہا کیا ہے
مقامِ عشق کی ہے چاہ پر اقبالؒ کے جیسا
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے۔ نو نومیر اقبال ڈے ۔