15/12/2021
برصغیر پاک وہند کی دوسری بڑی اسلامی ریاست بہاولپور کی بنیاد
عمر سیف المعروف انوکھا لاڈلا کا اپنے انٹرویو میں کہنا ہے کہ
برصغیر پاک وہند کی دوسری بڑی اسلامی ریاست بہاولپور کی بنیاد 1727ء میں نواب صادق محمد خان عباسی اول نے رکھی اور تحصیل لیاقت پور کا قصبہ اللہ آباد ریاست کا پہلا دارالخلافہ قرار پایا۔
برصغیر کی تقریباً چھ سو ریاستوں میں سے ریاست بہاول پور کا نمبر بالحاظ مرتبہ بائیسواں تھا اس کے فرماروا سترہ توپوں کی سلامی پاتے تھے - اور خود مختار ہونے کی حیثیت سے اپنا ٹکسال وسکہ بھی رکھتے تھے -یہ ریاست دولت خداداد کہلاتی تھی حکومت برطانیہ ریاست بہاولپور کو کس قدر اہمیت دیتی تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایاجا سکتا ہے کہ ۱۹۳۷ء میں جارج ششم (۱۹۳۷ء - ۱۹۵۲ئ) کی تاجپوشی کی تقریب میں شرکت کےلیےہندوستان کے تقریباً چھ سو والیان ریاست میں سے صرف چھ حکمرانوں کو مدعوکیا گیا جن میں نواب آف بہاولپور بھی شامل تھے
1892ء میں ریاست میں ڈگری کلاسز کا اجراء کیا گیا۔
برصغیر کے ممتاز ماہرینِ تعلیم کا تقرر ایس ای کالج میں کیا گیا، جن میں بابو پرسنا کمار بوس بطور پہلے پرنسپل، پروفیسر لالہ رام رتن،پروفیسر مرزا اشرف گورگانی، مولوی محمد دین، پروفیسر وحید الدین سلیمؔ پانی پتی نمایاں نام ہیں۔
1925ء میں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ دینی تعلیم کے لیے جامعۃ الازہر کی طرز پر جامعہ عباسیہ قائم کیا گیا ۔ یہ پورے برصغیر میں اپنی نوعیت کا واحد ادارہ تھا، جہاں تمام مکاتبِ فکر کے علماء و اساتذہ تعلیم دیتے تھے
فنی تعلیم کے لیے صادق کمرشل انسٹی ٹیوٹ قائم ہوا جواَب صادق کامرس کالج کے نام سے پوسٹ گریجوایٹ تک طلبہ کو زیورِ تعلیم سے اب تک آراستہ کر رہا ہےایچی سن کالج کی طرز پر1954ء میں صادق پبلک سکول جیسے اعلیٰ معیاری ادارا قائم کیا گیا جو 450 ایکڑ زمین پر محیط ہے ۔
1928 دریائے ستلج پر تین ہیڈ ورکس سلیمانکی، ہیڈ اسلام اور ہیڈ پنجند تعمیر کیے گئے اور پوری ریاست میں نہروں کا جال بچھا دیا گیا پر افسوس اس بات کا ہے کہ ایک خودمختار ریاست کے بانی کی ان بے دریغ قربانیوں کا صلہ ریاست سے آدھے سیکرٹریٹ تک کی تنزلی کی صورت میں دیا جا رہا ہے
3 دسمبر 1930ء کو سر راس مسعود (وائس چانسلر) کی دعوت پر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے سالانہ کانووینشن میں ریاست کی طرف سے ایک لاکھ روپے کی خطیر رقم بطور عطیہ دی گئی ۔ 28 دسمبر 1930ء کو انجمن حمایت اسلام لاہورکے سالانہ جلسہ کے لیے گرانقدر مالی امداد دی گئی جو تاریخ کے اوراق کا حصہ ہیں۔
اس کے علاوہ
1908ء میں ندوۃالعلماء لکھنؤ کے لیے ریاست کی طرف سے دی جانے والی پچاس ہزار روپے کی مالی امداد کے جواب میں علامہ شبلی نعمانی نے شکریہ کا خط تحریر کیا جو محافظ خانہ (محکمہ دستاویزات) بہاو ل پور میں محفوظ ہے۔
پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس کا سینٹ ہال (جہاں اس وقت یونیورسٹی کالج آف انفارمیشن ٹیکنالوجی قائم ہے) اسی ریاست بہاولپور کی طرف سے تعمیر کرایا گیا اس عمارت کی پیشانی پر آج بھی نواب صاحب کے نام کی تختی موجود ہے۔
کنگ ایڈورڈمیڈیکل کالج کابہاول پور بلاک ہو یا ایچیسن کالج کا بورڈنگ ہاؤس (بہاول پور ہاؤس) نواب = صادق کی یادگار ہیں۔
صادق ایجرٹن کالج (ایس ای کالج) میں آل انڈیا مشاعرہ کا اہتمام کیا گیا جس کی تین نشستیں منعقد ہوئیں اور برصغیر کے طول و عرض سے نامور شعراء کرام نے اس میں شرکت کی۔
قادر الکلام صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فریدؒ کا کلام ’’دیوانِ فرید‘‘ ترجمہ اور تشریح کے ساتھ 1942ء میں عزیز المطابع پریس سے شائع کیا گیا ۔
ریاست بہاولپور کی طرف سے حکومت پاکستان کو ابتدائی طور پر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے لیے 7 کروڑروپے اور بعد ازاں 2 کروڑ روپے ، پھر 22 ہزار ٹن گندم اور مہاجرین کے لیے 5 لاکھ روپے دیے گئے۔
ﺗﺤﺮﯾﮏ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﮐﺮﺍﭼﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ریاست بہاولپور کی ملکیت ﺍﻟﺸﻤﺲ ﻣﺤﻞ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻘﻤﺮ ﻣﺤﻞ ﻗﺎﺋﺪ ﺍﻋﻈﻢ ﻣﺤﻤﺪ ﻋﻠﯽ ﺟﻨﺎﺡ ﺍﻭﺭ ﻓﺎﻃﻤﮧ ﺟﻨﺎﺡ ﮐﻮ دیئے گئے ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﺁﺝ ﺳﻨﺪﮪ ﮐﺎ ﮔﻮﺭﻧﺮ ﺑﯿﭩﮭﺘﺎ ﮬﮯ
1954 میں پاکستان اور بھارت کا پہلا میچ بھی ڈرنگ سٹیڈیم میں ہوا تھا
یہ ریاست بہاولپور ہی تھی ﺟﺲ ﻧﮯ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺑﻨﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﮐﺮﻧﺴﯽ ﮐﯽ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﮔﺎﺭﻧﭩﯽ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ ﺟﺐ ﮐﻮﺋﯽ ملک ﮔﺎﺭﻧﭩﯽ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮩﻠﯽ ﺗﻨﺨﻮﺍﮦ ﭼﻼﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺧﻄﯿﺮ ﺭﻗﻢ ﺑﮭﯽ ﺩﯼ ۔ ریاست ﮐﯽ ﺩﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﺷﺎﮨﯽ ﺳﻮﺍﺭﯼ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﻗﺎﺋﺪ ﺍﻋﻈﻢ ﻣﺤﻤﺪ ﻋﻠﯽ ﺟﻨﺎﺡ ﺑﻄﻮﺭ ﮔﻮﺭﻧﺮ ﺟﻨﺮﻝ ﺣﻠﻒ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﮔﺌﮯ۔
پاکستان کے سربراہ قائداعظم کو ان کے شایان شان مہنگی ترین رولز رائس گاڑی ان کو تحفے میں دی گئی۔
اِن ﺧﺪﻣﺎﺕ کو ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻗﺎﺋﺪ ﺍﻋﻈﻢ نےﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ” ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺑﻨﻨﮯ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﭘﮩﻠﮯ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﮨﮯ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﺑﮩﺎﻭﻟﭙﻮﺭ ۔
طالب دعا !
آپکا اپنا عمر سیف المعروف انوکھا لاڈلا