Syed fuzail ahmad nasri official

Syed fuzail ahmad nasri official اس پیج کے ذریعے مسلکِ علمائے دیوبند کے مطابق احقاقِ حق ?

13/04/2024
13/04/2024

ایک تازہ خواب، جس کا علما میں بہت چرچا ہے۔ خواب بیان کرنے والے یہ کون صاحب ہیں؟ اگر کسی کو معلوم ہو تو براہِ کرم بتائیں!

16/02/2024

امام مہدی رضی اللہ عنہ کی دعوت کا مرکز نظام الدین دہلی ہوگا؟ دارالعلوم دیوبند نے اس سوال کے جواب میں کیا کہا؟ تبلیغی جماعت میں اس طرح کی باتیں کیوں چلنے لگیں؟

03/04/2023

مسلم لڑکیوں کو ہندو بنانے کے لیے جال بچھا لیا گیا
جاگ مسلماں جاگ!

24/03/2023

حرمین شریفین میں تراویح پر پابندی

23/03/2023

علامہ سعد کاندھلوی کی غلط تقریر اور اس کا جائزہ

11/09/2022

یہ مضمون دو سال پہلے کا لکھا ہوا ہے۔ سرِ دست یہی پیشِ خدمت ہے:

*ادیب العصر حضرت مولانا نسیم اختر شاہ قیصر*

✏️ سید فضیل احمد ناصری
خادمِ حدیث و نائب ناظمِ تعلیمات جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند

دیوبند کے وہ خانوادے، جن کی شہرت اور دھاک صرف علمی بنیاد پر ہے، ان میں ممتاز ترین خانوادہ، خانوادۂ انوری ہے۔ امام العصر علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے بارے میں کچھ لکھنا تحصیلِ حاصل ہے۔ ان پر اتنا لکھا گیا اور. اس قدر قلم چلایا گیا کہ ایک ریکارڈ ہے۔ ان کے ایک معاصر نے کہا اور کائناتِ علم کی ترجمانی کر دی: *لم تر العیون مثلہ، ولایری ہو مثلَ نفسہٖ*۔ ان کے دو فرزند ہوئے، اور دونوں ہی عبقری۔ ان کے چھوٹے فرزند علامہ سید محمد انظر شاہ کشمیریؒ تھے، جن کے فضل و کمال کا ڈنکا بجتا رہا۔ تحریر ہو، تقریر ہو، تدریس ہو، سیاست ہو، ہر میدان میں ان کی شاہی مسلّم تھی۔ ان کی حیات و جہات پر ایک ضخیم سوانحِ حیات ان شاءاللہ جلد ہی آ رہی ہے۔ کشمیری الامامؒ کے بڑے فرزند مولانا سید ازہر شاہ قیصر تھے۔ جی ہاں! قیصرِ علم و ادب۔ دستِ قدرت سے انہوں نے کیا ذہانت و فطانت پائی تھی۔ رسالہ دارالعلوم دیوبند کے 31 / 32 سال مدیر رہے اور دنیائے لوح و قلم پر حکمرانی کی۔ مولانا نسیم اختر شاہ قیصر مدظلہ انہیں کے فرزند ہیں اور آج انہیں کی شخصیت کو موضوعِ سخن بنا رہا ہوں۔

گورا چٹا رنگ۔ میانہ قد۔ بھاری بھرکم جسم۔ چوڑا چکلا سینہ۔ ٹھوس اور مضبوط ہاڑ۔ سیدھا سادا لباس۔ سفید کرتا اور ہم رنگ پاجامہ۔ سردیوں میں شیروانی لازم اور ہم رنگ کلاہ۔ 25 اگست 1960 میں پیدا ہوئے۔ 1980 میں فراغت پائی۔

مولانا موصوف کو پہلی بار میں نے 1996 میں دیکھا۔ اس وقت وہ جوانی کے سنہرے دور میں تھے۔ دارالعلوم وقف دیوبند میں مدرس۔ ادارے کے ترجمان پندرہ روزہ ندائے دارالعلوم کے معاون مدیر۔ دارالعلوم وقف میں زیرِ تعلیم میرے بعض احباب شاہ منزل میں رہتے تھے، اس مناسبت سے وہاں میری آمد و رفت برابر تھی۔ اسی موقع پر ان کی زیارت ہوتی رہی اور بار بار ہوتی رہی۔

مولانا کی شہرت اس زمانے میں بصیغۂ خطابت زیادہ تھی۔ دیوبند کا کوئی بھی اجلاس ہو، ان کا نام ضرور ہی شامل ہوا کرتا۔ وہ آتے اور دم زدن میں مجمع پر چھا جاتے۔ دھواں دار تقریر۔ سحر انگیز طرزِ بیان۔ الفاظ کی آمد ہی آمد۔ آواز کا زیر و بم۔ طلبہ کو معلوم ہوتا کہ ان کی تقریر شروع ہو چکی ہے تو آنے والوں کی لائنیں اس طرح لگ جاتیں، جیسے نوٹ بندی کے زمانے میں بینک کی قطاریں۔ خطابت جوش و خروش سے لبریز۔ افکارِ تازہ سے معمور۔ کوئی اٹک، نہ جھٹک۔ حاضرین گوش بر آواز۔ ٹک ٹک دیدم، دَم نہ کشیدم کی تصویر۔

یہ وہ مسعود دور تھا جب فخرالمحدثین حضرت مولانا سید محمد انظر شاہ کشمیریؒ آسمانِ خطابت کے خورشیدِ عالَم تاب کا سکہ رائج تھا۔ اپنے ہوں یا بیگانے، حریف ہوں یا حلیف، سب ان کی گھن گرج اور علمی ابر و باراں پر ٹوٹے پڑتے۔ جو جلسہ انہیں حاصل نہ کر پاتا، مولانا نسیم شاہ صاحب کو بے تکلف بلا لیتا، وہ آتے اور شاہ صاحب کے رنگ میں شروع۔ تقریباً وہی لب و لہجہ، وہی شوکتِ اظہار، وہی روانی اور برق سامانی۔

ان کی خطابت انہیں ریڈیو اسٹیشن بھی لے گئی، جہاں سے ان کی تقریریں خوب نشر ہوئیں۔ ریڈیائی تقریروں کا مجموعہ *حرفِ تابندہ* کے نام سے کتابی شکل میں چھپ چکا ہے۔ ایک کتاب *خطباتِ شاہی* کے عنوان سے بھی مارکیٹ میں دستیاب ہے۔

میں ان کی تقریروں کا دیوانہ رہا۔ تقریر ہی کیا، ان کی تحریریں بھی میرے مطالعے میں آنے لگی تھیں، رسیلا اسلوب۔ چنیدہ اور پرکشش الفاظ۔ شستہ اور شگفتہ جملے۔ برجستگی اور بے ساختگی لیے ہوئے۔ تاہم اس دور میں ان سے کوئی ملاقات نہ رہی، کوئی تعارف نہ رہا۔

2008 میں جب میں دیوبند پہونچا، تو ان سے ملاقاتیں بھی رہنے لگیں اور طول طویل باتیں بھی۔ ان کی شخصیت کو پرکھنے اور سمجھنے کا اب زریں موقع ملا۔ میرے لیے اب وہ حضرت مولانا نسیم اختر شاہ صاحب نہیں، بلکہ فقط بھائی نسیم ہیں۔ عطوف و کریم۔ شفقتِ مجسم۔ کوئی تام جھام نہیں۔ ہٹو بچو سے انہیں آشنائی نہیں۔ سب کے لیے سہل الحصول۔ ان سے رسم و راہ کو تیرہواں سال چل رہا ہے۔ اس دوران میں نے جو کچھ محسوس کیا، وہی قلم بند کر رہا ہوں۔

*مولانا کی مضمون نگاری*

ان کی خطابت پر تبصرہ تو آپ اوپر پڑھ آئے ہیں۔ اللہ جانے کیوں اب وہ سرگرم نہیں رہے، دیوبند کے ہر جلسے کا آج بھی وہ جزء لا ینفک ہیں، لیکن تقریروں سے اطناب غائب اور ایجاز غالب ہے۔ ہاں! کبھی خطابت طویل ہو تو اپنے شبابی دور کی جھلکیاں آج بھی دکھلا جاتے ہیں۔ ان کی مضمون نگاری ہر دور میں مانی گئی۔ وہ لکھتے نہیں ہیں، جادو بکھیرتے ہیں۔ ان کا قلم چلتا نہیں، سرپٹ دوڑتا ہے۔ خامہ بکف ہوئے اور ممبئی کی لوکل ٹرین کی طرح یہ جا، وہ جا۔ استعارات و تشبیہات کی برسات۔ محاورات و ضرب الامثال کا ایک غیر منقطع تسلسل۔ دل کش تعبیرات کا نیل و فرات۔ شوکت و ندرت کا مجسمہ۔ قدیم اساتذہ کی یاد دلاتا لہجہ۔ اردوئے معلیٰ کا نمونہ۔ خوب صورت الفاظ سے مرصع و مزین۔ قاری ان کی ساحرانہ گفتاری اور معجز بیانی میں گم۔ اس وقت بلا شبہہ ملک میں اپنے آہنگ کے اکلوتے ادیب ہیں۔

*صحافتی سرگرمیاں*

مولانا موصوف بچپن سے ہی دنیائے صحافت سے وابستہ ہو گئے۔ رسائل اور اخبارات میں ان کی تخلیقات چھپتی رہیں۔ خود بھی کئی رسالے اپنی ادارت میں نکالے، جن میں پندرہ روزہ اشاعتِ حق اور ماہ نامہ طیب بطورِ خاص قابلِ ذکر ہیں۔ اول الذکر 1979 سے 1993 تک جاری رہا، جب کہ آخر الذکر 1983 سے 1987 تک۔ مولانا موصوف پندرہ روزہ ندائے دارالعلوم اور دیوبند ٹائمز کے شریکِ ادارت بھی رہے ہیں۔ اخبارات نے بھی ان تحریروں سے اپنے جیب و داماں بھرے۔

*خاکہ نگاری و پیکر تراشی*

مولانا کا قلم خاکہ نگاری اور پیکر تراشی میں بڑی جولانیاں دکھا رہا ہے۔ وہ کسی شخصیت یا ادیب پر مائل بہ سخن ہوتے ہیں تو اس کی ایسی تصویر پیش کر دیتے ہیں کہ گویا ان کا ممدوح سامنے ہی کھڑا ہے۔ اس کی رفتار و گفتار، اس کی نشست و برخاست، اس کے اوصاف و اخلاق اور اس کی حیات و جہات پر ایسا بھرپور تبصرہ کہ پڑھتے جائیے اور شربتِ روح افزا کے مزے لیتے جائیے۔ اس فن میں انہیں یدِ طولیٰ حاصل ہے۔ شخصیت نگاری پر ان کی کئی کتابیں آ چکی ہیں، جن میں *دو گوہرِ آب دار*، *جانشینِ امام العصر*، *میرے عہد کے لوگ*، *جانے پہچانے لوگ*، *اپنے لوگ*، *خوشبو جیسے لوگ*، *کیا ہوئے یہ لوگ* خاصی مقبول ہیں۔ ان میں سے کسی بھی کتاب کو اٹھائیے اپنا اسیر کر چھوڑے گی۔ نمکینی اور چاشنی ان میں بلا کی ہے۔ ان میں وہ گھلاوٹ اور شیرینی ہے کہ ایک بار پڑھنے سے سیری نہیں ہوتی۔

*میرے عہد کا دارالعلوم*

مولانا کا قلم صرف خاکہ نگاری پر ہی اپنا شباب نہیں دکھاتا، تاریخ نویسی پر بھی ایسی ہی بہاریں دکھاتا ہے۔ مکتب سے لے کر فراغت تک ان کی تعلیم دارالعلوم میں ہوئی، اس لیے وہ اس کی محبت میں کھوئے رہتے ہیں۔ یہاں ان کے یگانۂ روزگار دادا علامہ کشمیریؒ اپنی شانِ عبقریت کے حسین نظارے دکھا چکے ہیں۔ عمِ مکرم فخرالمحمدثین حضرت مولانا سید محمد انظر شاہ کشمیریؒ کی جلالتِ علمی کی طوطی بھی بول چکی ہے۔ خود والدِ گرامی کی سرگرمیوں کے اس کے در و دیوار شاہد ہیں، پھر بچپن کی یادوں کا اپنا ہی مزا ہے۔ مولانا نے ان یادوں کو سینے سے نکالا اور سفینے میں ڈال دیا۔ میرے عہد کا دارالعلوم انہیں دورانیوں پر مشتمل ہے۔ کتاب میں دارالعلوم اور اس عہد کے اساتذہ کو جس طرح یاد کیا ہے کہ پڑھنے والا اس کی بھول بھلیوں میں کھو کر رہ جاتا ہے۔ کس مدرس کی کیا شان تھی؟ اس کی زندگی کے لازمی عناصر کیا تھے؟ اس کی صفاتِ ممیزہ کیا تھیں؟ دارالعلوم کا علمی ماحول کیا تھا؟ اس کا فضائی پارہ کیسا تھا؟ طلبہ کی سرگرمیاں کیسی تھیں؟ علمی و ادبی مذاکرات کا سماں کس آہنگ کا تھا؟ اس کتاب میں وہ سب موجود ہے اور پوری آب و تاب کے ساتھ۔ اپنا طالب علمانہ ماضی اس طرح دکھایا ہے کہ حال معلوم ہونے لگتا ہے۔ ورق گردانی کی ابتدا کیجیے تو یہ تصنیف خود ہی کہے گی:

صد جلوہ رو برو ہے، جو مژگاں اٹھائیے

*مولانا کی کچھ اور تصنیفات*

جب خدا نے خوب صورت قلم اور کوثر و سلسبیل زبان دی ہو تو اس کا صحیح استعمال ہونا چاہیے، ورنہ روزِ قیامت سخت احتساب ہوگا۔ مولانا نسیم شاہ صاحب اس نکتے سے بخوبی آگاہ ہیں۔ چناں چہ ان کا قلم ہمیشہ صحیح رخ پر چلا۔ شخصیات کے ساتھ دعوتی تحریریں بھی ان سے تخلیق پا چکی ہیں، جن کے مجموعے *اسلام اور ہمارے اعمال* اور *اعمالِ صالحہ* کے نام سے اشاعت پذیر ہو چکے ہیں۔ ایک ادبی کتاب *اوراق شناسی* بھی منظرِ عام پر آ چکی ہے۔

*مولانا کی مجلسیں*

مولانا صرف لکھنے پڑھنے کے آدمی نہیں، سماجی مزاج بھی رکھتے ہیں۔ اپنے دوستوں، عزیزوں، تعلق داروں سے ان کے مراسم ہمیشہ یکساں رہتے ہیں۔ ان سے ملنا جلنا، ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، ان کے دکھ درد میں شریک ہونا، ان کی خوشی سے خوش ہونا ان کی خاص پہچان ہے۔ اہلِ علم میں یہ چیز اب عنقا ہوتی جا رہی ہے۔ بذلہ سنجی ان کا خاص وصف ہے۔ آپ کتنے ہی غمگین ہوں، مایوسی کیسی بھی ہو، اگر آپ ان کی مجلس میں ہیں تو سب ایک جھٹکے میں کافور۔ بالکل نہیں لگے گا کہ رنج و غم کے پہاڑ سے آپ کا کوئی سابقہ بھی رہا ہے۔ مزاحیہ جملے اور پرلطف چٹکلے اس کثرت سے نکلیں گے کہ ہنستے ہنستے پیٹ پر بل پڑ جائیں۔ ان کی مجلسیں صرف قہقہہ بر دوش ہی نہیں، علمی، ادبی اور تاریخی رنگ بھی خوب لیے ہوتی ہیں۔ ان کا ایک ایک جملہ ہیرے جواہرات کی طرح گراں قیمت ہوتا ہے۔ یہ میری خوش نصیبی ہے کہ ان کی مجلسوں میں باریابی کے مواقع ملتے رہتے ہیں۔

*روشن دماغ*

مولانا کوئی پیر تو نہیں، مگر روشن ضمیر ضرور ہیں۔ ضمیر کی طرح ان کا دماغ بھی خوب روشن ہے۔ طبیعت بڑی درّاک و بَرّاق پائی ہے۔ حالات کو فوراً تاڑ لیتے اور وقت کی نبض کو چشم زدن میں سمجھ جاتے ہیں۔ سیاست پر ان کے تبصرے بڑے عمیق اور جچے تلے ہوتے ہیں۔ ایک زمانے تک ملکی و بین الاقوامی مسائل پر بھی خوب لکھا اور داد و تحسین سمیٹی۔ اب اسلامیات، شخصیات و ادبیات ہی ان کے محور رہ گئے ہیں۔ اللہ انہیں صحت کے ساتھ عمرِ نوح عطا فرمائے۔ مولانا ملت کا بیش بہا سرمایہ ہیں:

اب جس کے جی میں آئے وہ پا جائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سرِ عام رکھ دیا

04/09/2022

ذرا ان کی بھی سنیے:

22/07/2022

*سرزمینِ بہار کی با برکت شخصیت*
حضرت مولانا محمد اختر صاحب دربھنگہ

سید فضیل احمد ناصری
استاذِ حدیث و نائب ناظمِ تعلیمات جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند

*ہمہ پہلو شخصیت*

بچپن میں جن بزرگوں کے نام و کام سے آشنا رہا ہوں ان میں حضرت مولانا سید ابو اختر قاسمی کی ذات گرامی بھی ہے۔ وہ اعلیٰ درجے کے مدرس، قد آور منتظم، علم و فن کے رمز شناس، علوم عربیہ و عصریہ کے سنگم اور میدانِ خطابت کے فقید المثال شہ سوار ہیں۔ فراغت دارالعلوم دیوبند سے ہے۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ کے آخری تلامذہ میں ہیں۔ دیوبند میں صرف ایک سال پڑھا اور بڑے بڑے اساتذہ کے منظورِ نظر رہے۔ وطنی تعلق مونگیر سے رکھتے ہیں۔

*تفہیمی صلاحیتوں کا کوہِ نور*

مولانا کا دورِ طالب علمی بڑا شان دار گزرا۔ کتاب فہمی اور محنت و توجہ نے انہیں بچپن میں ہی ہمہ گیری کا ذائقہ چکھا دیا تھا۔ فراغت کے بعد سے ہی تدریسی میدان میں قدم جمایا اور خوب داد و تحسین سمیٹی۔ افہام و تفہیم کا ملکہ انہیں خوب عطا ہوا ہے۔ عبارت کتنی ہی مغلق اور مسئلہ کتنا ہی پیچیدہ کیوں نہ ہو، اس کے مغز تک پہونچ کر طلبہ کو مطمئن کرنا ان کے لیے نہایت سہل ہے۔ مولانا نے اس راہ سے بڑا نام کمایا اور اپنے مستفیدین کو کبھی تشنہ نہیں چھوڑا۔ اپنی اسی قابلیت اور خدا داد کمال کی بنا پر اپنے وقت کی عظیم شخصیات کے نزدیک دلارے اور پیارے رہے۔ مفکرِ اسلام حضرت مولانا علی میاں ندویؒ ہمیشہ مہربان رہتے۔ امیرِ شریعت رابع حضرت مولانا منت اللہ رحمانیؒ سے اتنا قرب کہ ان کے معتمدِ خاص بھی قرار پائے۔ خانقاہ رحمانی مونگیر میں کئی سال مسندِ درس سنبھالی۔ حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب ان کے اسی دور کے تلامذہ میں سے ہیں۔ میں نے مولانا سے نہیں پڑھا، مگر بعض مسائل پر ان سے گفتگو سے اندازہ ہوا کہ فاطرِ ہستی نے معانی کی ترسیل اور مرادات کے ابلاغ کی صلاحیت ان میں کوٹ کوٹ کر رکھی ہے۔ وہ اردو کے جادوگر تو ہیں ہی، عربی پر بھی انہیں بڑا عبور حاصل ہے۔ طالب علمی کے زمانے میں اپنے سارے امتحانات عربی میں دیتے تھے۔ چھ سات ماہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں بھی اپنا علمی فیض پہونچایا۔ ندوۃ العلماء جیسی نامور عربی فضا میں بھی اپنی کامرانی کے جھنڈے گاڑے۔ مولانا علی میاں ندویؒ بھی ان کے تدریسی ہنر کے قدر داں تھے۔ جب خدا نے چاہا کہ اس کوہِ نور سے دربھنگہ کی سرزمین مستفید ہو تو انہیں مدرسہ امدادیہ دربھنگہ کی تاریخی درس گاہ میں پہونچا دیا۔ مولانا نے اپنی بقیہ زندگی طالبانِ امدادیہ کے لیے وقف کر دی۔ وہاں انہوں نے کم و بیش چالیس برس اپنی خدمات پیش کیں۔ سالہا سال صدر المدرسین بھی رہے۔ ان کا دورِ تدریس تو شان دار رہا ہی، صدارتِ تدریس کا عہد بھی بڑا سنہرا رہا۔

*خانوادۂ ناصری سے مولانا کے مراسم*

میرے خانوادے سے ان کا تعلق بہت قدیم رہا ہے۔ جدِ مکرم حضرت مولانا مفتی محمود احمد ناصریؒ سے ہمیشہ قریبی روابط رہے۔ جس زمانے میں مولانا دام ظلہ مونگیر میں مدرس تھے، اسی وقت سے دادا مرحوم سے ان کی وابستگی رہی۔ ان کے صاحب زادے عمِ مکرم جناب الحاج عتیق احمد ناصری مدظلہ مولانا کی سرپرستی میں مونگیر میں پڑھ چکے ہیں۔ پھر جب امدادیہ آ گئے تو ان مراسم میں اور بھی مضبوطی آئی۔ ملاقاتوں کا سلسلہ مزید بڑھتا گیا۔

جدِ مکرم صاحب امام العصر علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ کے تلمیذِ رشید تھے۔ دارالعلوم دیوبند کے جید فاضل ۔ مولانا ڈپٹی عبدالصمد ناصریؒ کے فرزند اور بانئ امدادیہ مولانا شاہ منور علی دربھنگویؒ کے پوتے۔ بڑی اعلیٰ نسبتوں کے حامل۔ قطب الاقطاب حضرت مولانا بشارت کریم صاحبؒ کے مسترشد اور شاہ نور اللّٰہ قدس سرہ کے خلیفۂ اجل۔ بہار کی اہم ترین شخصیات میں نمایاں مقام کے حامل۔ متبرک اور برگزیده۔ قاضی مجاھد الاسلام قاسمیؒ جیسے یگانۂ روزگار رجال ان کی آغوشِ تربیت سے فیض یاب ہو چکے ہیں۔

جدِ مکرم جب اپنی عمر کی آخری سانسیں گن رہے تھے، مولانا ابو اختر صاحب وہیں مقیم تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ قاضی مجاھد الاسلام صاحبؒ بھی عیادت کو آئے تھے، مگر شب بھر قیام کر کے صبح صبح ہی پٹنہ روانہ ہو گئے۔ ابھی وہ راستے میں ہی تھے کہ جدِ مکرم کا وصال ہو گیا۔ جنازے کی امامت کے لیے خاندان میں کئی علما تھے، خود میرے والدِ مرحوم حضرت مولانا جمیل احمد ناصری بھی، مگر طے پایا کہ مولانا سید ابو اختر صاحب یہ فریضہ ادا کریں گے۔ اس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ خانوادۂ ناصری سے ان کی قربت کس درجے کی ہے!!

*بہترین قاضی*

مولانا اپنی علمی لیاقت کے طفیل امارتِ شرعیہ کی طرف سے ضلع دربھنگہ کے قاضیٔ شریعت بھی رہے۔ ان کے دورِ قضا میں خانگی معاملات جب بھی آتے تو اپنی خوب صورت تقریر اور پر زور افہام و تفہیم کے ذریعے انہیں نمٹا دیتے۔ خلع یا طلاق کی نوبت ان کے عہد میں ش*ذ و نادر ہی پیش آئی ہے۔ ان کی ان کامیابیوں پر امیرِ شریعت رابع مولانا منت اللہ رحمانیؒ بڑے حیران ہوتے اور خوب ستائش کرتے:

ایں سعادت بزورِ بازو نیست

*عند الناس مقبوليت*

مولانا کی خاص بات یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کی گروہ بندی میں کبھی نہیں پڑے۔ ان کی اس وسعتِ ظرفی کا نتیجہ یہ ہے کہ سارے فرقوں سے ان کے مراسم ہمیشہ مضبوط رہے ہیں۔ دیوبندیت سے محکم تعلقات کے باوجود انہوں نے دوسرے گروہوں سے تصادم کی فضا بننے نہیں دی۔ بریلویوں سے بھی ان کے تعلقات ویسے ہی مستحکم ہیں، جیسے دیوبندیوں سے۔ پوکھریرا جیسے بریلویت زدہ گاؤں میں بھی ان کے چاہنے والے موجود ہیں۔ مشہور بریلوی رہ نما جناب شبنم کمالی صاحب کے والد ان کے خصوصی معتقد رہے۔ وہ ان کے پیچھے بڑے شوق سے نماز پڑھ لیتے تھے۔ مجھ جیسے دیوبندیوں سے اس کا تصور بھی ممکن نہیں۔

*حسِ ظرافت*

مولانا کے مزاج میں ظرافت بہت ہے۔ ان کا ہر لفظ آمدِ بہار کا اعلان لگتا ہے۔ بولتے ہیں تو پھول جھڑتے ہیں۔ ظرافت میں بھی سنجیدگی کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ حلقۂ یاراں ہو یا محفلِ معتقدین، ہر موقعے پر وہی تبسم ریز جملے اور قہقہہ انگیز شگوفے۔ ناممکن ہے کہ ان کی مجلس میں کسی کو رونا آ جائے۔ یہ بھی ایک بڑا ہنر ہے جو بلاشبہ سب کو نہیں آتا۔

*نامور اور مؤثر خطیب*

عوامی اور علمی حلقوں میں مولانا کے تعارف کی بڑی وجہ ان کی رس دار خطابت ہے۔ وہ کبھی متھلانچل کے لازمی اور خصوصی خطیب رہے۔ ایک طویل زمانے تک جلسے کا ہر اشتہار ان کے نام سے رونق پاتا۔ ان کی موجودگی اجلاس کی کامیابی کی ضمانت بنتی۔ تقریریں قرآن و سنت، اسلاف کے واقعات اور ظرافت کا حسین امتزاج ہوتیں۔ اپنا موقف سمجھانے کے لیے ایسی تمثیل پیش کرتے کہ سامعین ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو جاتے اور مسئلہ بھی منقح ہو کر اچھی طرح ذہن نشین ہو جاتا۔ مجھے ان کی تقریر سننے کا کئی بار موقع ملا ہے۔

*مولانا سے میری ملاقاتیں*

مولانا سے میری باتشخص ملاقات صرف دو بار ہوئی۔ ایک مرتبہ مدھوبنی میں واقع گاؤں 'بانکا' میں۔ اور دوسری مرتبہ دربھنگہ میں۔ بانکا کی ملاقات بہت پرانی ہے۔ میں اس وقت دوم سوم کا طالب علم تھا۔ گاؤں میں جلسہ تھا۔ مولانا کے ساتھ مغرب پڑھنے جانا ہوا۔ اس وقت ان کے ساتھ میرے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔ راہ چلتے تعارف ہوا۔ میرے والد مولانا جمیل احمد ناصری صاحبؒ کا نام سن کر کہنے لگے کہ میں ان سے واقف ہوں۔ نماز سے فارغ ہو کر ہم ان کی قیام گاہ کی طرف چلے تو دیکھا کہ راستے میں کچھ خواتین ادھر ادھر جا رہی ہیں۔ مولانا کی رگِ ظرافت پھڑکی اور کہنے لگے: اس ضمیرِ 'ھُنَّ' کا کوئی مرجع بھی ہے یا نہیں، یا ساری ہی ضمیریں بغیر مرجع کی ہیں؟ یہ سن کر میں دیر تک محظوظ ہوتا رہا۔ ان کا یہ جملہ جب بھی یاد آتا ہے طبیعت منشرح ہو جاتی ہے۔

مولانا سے دوسری ملاقات حال ہی میں 24 دسمبر 2019 میں ہوئی۔ میں کسی خاص کام سے دربھنگہ شہر پہونچا۔ مدرسہ امدادیہ دیکھنے کی بڑی خواہش تھی۔ بچپن میں ایک دو بار اس کی زیارت کر چکا تھا، مگر اس وقت تک یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کا بانی کون ہے اور میرے خانوادے کا اس سے کیا رشتہ ہے۔ یہ ساری تفصیلات تو زمانۂ تدریس میں ملیں۔ دربھنگہ پہونچا تو ای ٹی وی کے معروف نامہ نگار جناب عارف اقبال صاحب سے رابطہ کیا۔ پتہ چلا کہ وہ دربھنگہ میں اپنے گھر پر ہی ہیں۔ میں نے اپنی آمد کی اطلاع دی اور امدادیہ دیکھنے کی خواہش کے ساتھ مولانا سید ابو اختر صاحب سے ملاقات کا اشتیاق بھی رکھا۔ وہ کہنے لگے: آپ بڑھیے، میں آتا ہوں۔ عصر کے بعد میں مدرسہ امدادیہ میں تھا۔ یہ وہی ادارہ ہے جس کی بنیاد میرے والد کے پردادا حضرت مولانا شاہ منور علی دربھنگویؒ نے اپنے پیر و مرشد کے اشارے پر رکھی تھی۔ حکیم الامت حضرت تھانویؒ کو اس سے بڑا لگاؤ رہا۔ مناظرِ اسلام مولانا سید مرتضیٰ حسن چاند پوریؒ انہیں کی ہدایت پر یہاں کے صدر المدرسین بنا کر بھیجے گئے تھے۔ بانئ مرحوم کے بعد میرے پردادا مولانا ڈپٹی عبدالصمد ناصریؒ اس کے مہتمم رہے۔ میرے دادا مولانا مفتی محمود احمد ناصریؒ نے یہاں تدریس کی صدارت بھی فرمائی۔ میرے والد نے اپنی طالب علمی کے ابتدائی ماہ و سال یہیں گزارے۔ غرض کہ ایک طویل داستان ہے جو میرے خاندان اور امدادیہ سے جڑی ہوئی ہے۔ تفصیل کے لیے کسی اور تحریر کا انتظار کیجیے!

امدادیہ کے احاطے میں جوں ہی داخل ہوا، محترم جناب مولانا مفتی عبدالسلام قاسمی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ مدرسہ امدادیہ کے قدیم ترین استاذ ہیں اور شعبۂ افتا کے سربراہ بھی۔ یہ ان سے میری پہلی ملاقات تھی۔تعارف کرایا تو وہ پہچان گئے۔ عصرانے سے بندہ نوازی کی۔ ابھی عصرانہ جاری ہی تھا کہ جناب عارف اقبال بھی تشریف لے آئے۔ وہ اپنی طالب علمی کے ایام یہاں گزار چکے ہیں۔ چائے نوشی کے بعد مولانا عبدالسلام صاحب فاضلِ دارالعلوم دیوبند اور عارف اقبال صاحب کی رہبری میں امدادیہ کا تفصیلی معائنہ کیا۔ ساتھ میں صدرالمدرسین مولانا نورالہدیٰ صاحب بھی تھے۔ موصوف دارالعلوم وقف دیوبند کے فاضل ہیں۔ مدرسے کے معائنے سے میں بہت خوش تھا کہ میرے باپ دادا کی امانت الحمدللہ اب بھی زندہ ہے۔ یہ وہی امدادیہ ہے، جس نے بہار میں اسلامی علوم و فنون کے احیا کی روح پھونکی۔ کبھی یہ ادارہ صوبے کا دارالعلوم ہوا کرتا تھا۔

مغرب کا وقت ہوا۔ نماز کے بعد طے شدہ پروگرام کے مطابق ہم لوگ مولانا سید ابو اختر صاحب کی زیارت کو چلے۔ امدادیہ کے صدر دروازے سے باہر نکلے اور راستہ پار کر کے مشرق کی طرف بڑھ گئے ۔ تیس چالیس قدم اور چلے ہوں گے کہ ان کا گھر آ گیا۔ اجازت ملنے پر ہم اندر داخل ہوئے تو مولانا مسکراہٹ کے ساتھ خیر مقدم کرتے نظر آئے۔ علیک سلیک اور مصافحہ ہوا۔ اب تک میرے ذہن میں مولانا کی 30 برس پہلے والی شکل تھی۔ تر و تازہ اور باغ و بہار۔ اب جو دیکھا تو بڑھاپے سے نڈھال تھے۔ فالج کے حملے کے بعد آدمی کسی کام کا رہتا ہی کہاں ہے! مگر مولانا جیسے بھی تھے، بسا غنیمت۔ دیر تک مجلس چلی۔ ماضی کی داستانوں کے ورق در ورق الٹنے لگے۔ بات بات میں وہی ظرافت۔ اس ملاقات سے ان کی نرم و گداز شخصیت کا بھی اندازہ ہوا۔ عمر کے اس پڑاؤ میں بھی حافظہ محفوظ۔ زبان میں لرزش اور ضعف ضرور تھا، مگر تسلسل پچھلے وقتوں سا ہی تھا۔ بڑا اچھا لگا۔ جب ہم رخصت ہو کر مولانا سے جدا ہوئے تو ان کی بزرگانہ اداؤں کا خود کو اسیر پایا۔ مولانا کی اس ملاقات نے ان کی محبت اور بڑھا دی۔ خدا کرے کہ بہار کا یہ اختر آسمانِ علم و فن پر یوں ہی روشنی بکھیرتا رہے۔

14/07/2022

*ہم یوں ہی نہیں دھتکارے گئے*

✏ فضیل احمد ناصری

یوں تو ہمارے لیے حالات پچھلے 70 برسوں سے کبھی اچھے نہیں رہے، مگر امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے بعد تو جیسے فتنوں کی باڑھ آ گئی ہے۔ افغانستان، عراق، شام، لیبیا، فلسطین، یمن اور ہندوستان میں ہمارے لوگ اتنے مارے گئے، اتنے مارے گئے کہ پچھلے 500 برسوں میں بھی اتنے نہیں مارے گئے تھے۔ پوری روئے زمین خون سے لالہ زار ہو گئی۔ آسمان رو پڑا۔ در و دیوار آہیں بھر رہے ہیں۔ سمندر سسکیاں لے رہا ہے۔ بیابان و خیابان اپنے سینے پیٹ رہے ہیں۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ 11 ستمبر 2001 میں ہوا تھا۔

ہندوستانی سطح پر دیکھیں تو ہمارے ساتھ کیا نہیں ہوا؟ دہشت گرد ہمیں سمجھا گیا۔ جیلوں میں ہم گئے۔ عصمتیں ہم نے لٹوائیں۔ جانیں ہم نے گنوائیں۔ مسجدیں ہم نے کھوئیں۔ سرکاری مراعات ہم محروم ہوئے۔ حکومتی دفاتر ہمارے لیے نہ رہے۔ ہمیں کاروبار میں بھی آگے بڑھنے نہیں دیا گیا۔ یہ ساری باتیں ہوئیں، مگر ہم ہر زخم بھول کر حکومت سے پر امید رہے۔ ہمیں لگا کہ حالات بدلیں گے۔ فضا سازگار ہوگی۔ وقت ہمارا غلام ہوگا، لیکن پھر 2014 آ گیا۔ اب حکومت میں ایسے لوگ آگئے کہ ہماری قسمت کی سیاہی مزید سیاہ ہو گئی۔ اب ہماری داستانِ الم مزید درد ناک ہونے لگی۔ موب لنچنگ کی اصطلاح اور عمل ہمارے خلاف متعارف کرایا گیا۔ بابری مسجد کے مسئلے پر گالیاں ملنے لگیں۔ احکامِ شرع میں کھلی مداخلت ہونے لگی۔ گرفتاریوں کا سلسلہ اگرچہ تھم گیا، مگر ظلم و جبر کے دوسرے ہتھکنڈے زور و شور سے اپنائے گئے۔ اب نہ جانے کیا کیا پاپندیاں ہمارے سامنے آئیں گی۔ پچھلے پانچ سال تو بہت برے گزرے، بڑے بھیانک۔ لگتا ہے کہ یہ پانچ سال اور بھی برے گزریں گے۔

ملک ان سارے انقلابات سے گزرتا رہا اور ہم موج مستی اور ذخیرہ اندوزی میں لگے رہے۔ سچ کہیے تو اللہ اور رسول کا باغی ہم سے زیادہ کوئی نہیں۔ دشمن تو دشمن ہیں۔ چھ دہائیاں چھپ کر ہم پر وار کرتے رہے اور ہم انہیں تاڑ نہ سکے۔ ہمیں حلوے کے ساتھ زہر کھلاتے رہے اور ہم بے تکلف کھاتے رہے۔ جب ہم پوری طرح بے دست و پا ہو گئے۔ ہماری صحت مکمل جواب دے گئی۔ ہمارے قویٰ کمزور سے کمزور ہو گئے۔ ہماری قوتِ فکر و نظر سلب ہو گئی۔ ہماری بینائی ختم ہو گئی۔ ہمیں ہر طرح مفلوج اور نہتا کر دیا گیا تو اب کھلے دشمن سامنے آ گئے۔ اب ہمارا سامنا آستین کے سانپوں سے کم، کھلے دشمنوں سے زیادہ ہے۔ اب ہمارے لیے گھر سے باہر نکلنا مشکل ہو گیا۔ داڑھی ہمارے لیے وبالِ جان گئی۔ شرعی لباس ہمارے جی جنجال بن گیا۔ ہم ہر جگہ مار کھانے لگے، لیکن ہم اب بھی نہ سدھرے۔ ہم نے اللہ اور رسول سے زیادہ دشمنوں پر اعتماد کیا۔ ہمیں رسولﷺ کی زلفِ مبارک نہیں، انگریزوں کے بال اچھے لگنے لگے۔ رسولﷺ کی داڑھی نہیں، اسلام دشمنوں کا کلین شیو نظر میں جچنے لگا۔ رسولﷺ کی وضع قطع نہیں، فرنگیوں کی تہذیب و تمدن خوب تر معلوم ہوئی۔ پیغمبرﷺ کی طرزِ حیات کو ہم نے مسترد کر دیا۔ صحابہؓ کا رنگ و آہنگ اب کون اپنا رہا ہے؟ ہم شکایتیں کرتے ہیں کہ ہم پر ظلم ہو رہا۔ دل پر ہاتھ رکھ کر کہیے: کیا ہم میں سے ہر شخص ظالم نہیں؟ جس کا جہاں بس چل رہا ہے وہاں ضرور ظلم کر رہا ہے۔ والدین اپنی اولاد پر بلڈوزر چلا رہے ہیں۔ بچے اپنے ماں باپ کو دھتکار رہے ہیں۔ بھائی بھائی پر گرج رہا ہے۔ مسجد کے ٹرسٹی ائمہ پر ظلم کر رہے ہیں۔ مدارس کے مہتمم اساتذہ پر ستم ڈھا رہے ہیں۔ صدر المدرسین عام مدرسین پر جفاؤں کے ہتھوڑے برسا رہے ہیں۔ ڈاکٹر مریضوں کو لوٹ رہے ہیں۔ وکیل اپنے مؤکلین کو مار رہے ہیں۔ دینی اور غیر دینی اداروں کے سربراہان اپنے ماتحتوں پر ہاتھ صاف کر رہے ہیں۔ شٖیر فروش دودھ کے نام پر سفید زہر بیچ رہے ہیں۔ دکان دار اپنے گاہکوں کو اینٹھ رہے ہیں۔ قرض لینے والے واپسی کا ارادہ تک بھول جاتے ہیں۔ پڑوسی اپنے پڑوسی کے راز فاش کر دیتا ہے۔ ظالم کون نہیں ہے؟

جب موبائل نہیں تھا تو ہمارے گھرانوں میں اللہ اور رسول کے خلاف اتنی بغاوت نہیں تھی۔ جاہل بھی اللہ سے بے تحاشا ڈرتے تھے۔ ہمارے گھروں میں قرآن کی تلاوت چلتی تھی۔ تہجد کا مزاج بھی بنا ہوا تھا۔ نمازی کسی بھی حال میں ترکِ نماز کا روا دار نہ تھا۔ حرص و ہوس کا دور دور تک پتہ نہ تھا۔ آج ہمارے گھر سینما میں تبدیل ہو گئے۔ مندروں اور چرچوں میں بدل گئے۔ جوا خانے اور زنا کے اڈے بن گئے۔ اب ہمارے گھروں میں اسلام بالکل ویسا ہی اجنبی ہو گیا، جس طرح مکہ میں اپنے ابتدائی دور میں تھا۔ یہ حدیثِ رسول بھی ہے: بدا الاسلام غریباً و سیعود غریباً۔ اتنی ساری برائیوں کے بعد بھی اگر ہم یہی سوچ رہے ہیں کہ ہمارا اچھا دور پھر آئے گا۔ ہمارا تابناک ماضی پھر الٹی زقند لگائے گا۔ ہماری مجاہدانہ تاریخ پھر مرتب ہوگی تو یقین جانیے ہم احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا شان دار دور اور اسلاف جیسی کامیابیاں پھر ہماری قدم بوس ہوں تو عقائد، عبادات، معاملات، معاشرت اور اخلاق کا ہمیں جامع بننا پڑے گا۔ ہماری پریشانی یہ ہے کہ عقائدِ اسلام سے برائے نام بھی واقف نہیں۔ اصلاح کے عنوان سے کوئی بھی کھڑا ہو ہم اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ کبھی قادیانی ہمیں اچک لیتا ہے۔ کبھی مہدوی پھانس لیتا ہے۔ کبھی شکیلیت شکار کر لیتی ہے۔ کبھی جاہل واعظ اپنی بھیڑ کا حصہ لیتا ہے۔

عبادات میں بھی ہمارا کوئی حصہ نہ رہا۔ رمضان اور جمعہ کے علاوہ ہم کسی عبادت سے واقف نہیں۔ معاملات میں ہماری بے اعتدالی بالکل واضح ہے۔ معاشرت میں ہم جیسا کوئی نااہل نہیں۔ اخلاق سے تو کوئی آشنائی نہیں۔ پھر ہمیں کامل اسلام کی طرف آنا ہوگا۔ پھر انہیں راہوں پر چلنا پڑے گا جن پر ہمارے اکابر کے نقوش آج بھی تازہ ہیں، بصورتِ دیگر عالمِ کفر کا ظالمانہ نظام اسی طرح عروج پر رہے گا اور حضرتِ مہدیؓ سے پہلے کوئی پرسانِ حال نہ ہوگا:

جسے فضول سمجھ کر بجھا دیا تم نے
وہی چراغ جلاؤ تو روشنی ہوگی

11/07/2022

قربانی کا اہم مسئلہ

10/07/2022

تمام عالمِ اسلام کو عیدِ قرباں کی تہِ دل سے مبارک باد! اللہ تمام مسلمانوں کو نمرودوں اور بولہبوں کے شر سے نجات عطا فرمائے اور اسلام کا بول بالا کرے۔

سید فضیل احمد ناصری
آلِ شہاب الدین کبیر زاہدیؒ امامِ کعبہ

07/07/2022

سلمان ندوی صاحب کی نئی بکواس کا آپریشن

05/07/2022

مہتمم حضرات توجہ فرمائیں!

04/07/2022

*مدارس اسلامیہ اور تعطیلات*

✏️ سید فضیل احمد ناصری

قارئین! ہر مدرسہ دوسرے مدرسے سے الگ ہوتا ہے۔ کسی بھی ادارے کا نصاب دوسرے ادارے سے صد فی صد یکساں نہیں ہوتا۔ کچھ ادارے دارالعلوم کے مطابق نصاب رکھتے ہیں اور کچھ ادارے ندوے کے مطابق، مگر صد فی صد نصاب ایک ادارے کا دوسرے ادارے سے بالکل نہیں ملتا۔ کہیں نہ کہیں فرق اور کچھ نہ کچھ تبدیلی تو بہر حال رہتی ہے۔ نصاب کی تبدیلی یا تعلیم کا دورانیہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس پر فی الوقت کوئی بات کی جائے۔ اس وقت گفتگو چھٹیوں سے متعلق ہے۔

قارئین! مدارسِ اسلامیہ میں بڑی چھٹیوں کا جب وقت آتا ہے تو میرا تجربہ اور مشاہدہ ہے کہ اس دوران بڑی افراتفری اور ہاہاکار مچ جاتی ہے۔ طلبہ اور اساتذہ سبھی گھبرائے ہوتے ہیں کہ کیوں اور کیسے سفر ہوگا؟ سفر کو ہمارے آقا ﷺ نے قطعہ من السقر بھی فرمایا ہے یعنی سفر جہنم کا ایک ٹکڑا ہے، اسی لیے ہمارے مذہب میں مسافروں کو بہت سی سہولیات بھی دی گئی ہیں۔ ان کے لیے قصر کا خصوصی آرڈر آیا یعنی چار رکعتوں والی نماز میں صرف دو ہی رکعتیں پڑھی جائیں۔ قبلے کی پابندی اور خشوع و خضوع کا ویسا مطالبہ ان سے نہیں کیا گیا، جیساکہ گھر میں مقیم افراد سے کیا گیا ہے۔ سنتوں کی درجہ بندی بالکل ختم کر دی گئی۔ سنتِ مؤکدہ ہو یا غیر مؤکدہ، دونوں کو ایک ہی خانے میں ڈال دی گئی۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ ساری آسانیاں سفر کی مشکلات کی مرہونِ منت ہیں۔ خیر کہنا یہ تھا کہ جب شریعت عام حالات کے سفر کو بھی قطعۃ من السقر کہہ رہی ہے اور ڈھیر ساری سہولتیں دے رہی ہے تو آج کے ماحول میں اس کی حیثیت کیا ہوگی! سچی بات یہ ہے کہ موجودہ وقت میں سفر جہنم کا ٹکڑا ہی نہیں، بلکہ پورا پورا جہنم ہے۔ غالب دہلوی کا یہ شعر یاد آ رہا ہے:

کاوِ کاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا

بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر جی چاہتا ہے کہ اسی غالب دہلوی کے یہ اشعار بھی سنا دیے جائیں:

گھر سے بازار کو نکلتے ہوئے
زہرہ ہوتا ہے آب انساں کا

چوک جس کو کہیں وہ مقتل ہے
گھر نمونہ بنا ہے زنداں کا

شہرِ دہلی کا ذرہ ذرۂ خاک
تشنۂ خوں ہے ہر مسلماں کا

کوئی واں سے نہ آ سکے یاں تک
آدمی واں نہ جا سکے یاں کا

ملک کی فضائیں اور ہوائیں اس حد تک زہر آلود اور بگڑ چکی ہیں کہ سفر کسی بھی نوعیت کا ہو، قریب کا یا دور کا، آسان نہیں رہا۔ اس لیے ضرورت ہے کہ تمام مدارسِ اسلامیہ اس عنوان پر سر جوڑ کر بیٹھیں!

قارئین! مدارس کی چھٹیوں اور انہیں سے ملحق موضوعات سے متعلق میرے چند مشورے ہیں۔ اگر ان پر عمل ہوا تو ان شاء اللہ کوئی مسئلہ کھڑا نہیں ہوگا۔ پہلا مشورہ یہ ہے کہ ہر علاقے کے تمام مدارس ایک ہی تاریخ میں کھلیں اور ایک ہی تاریخ میں بند ہوں۔ مثلاً دیوبند کے تمام مدارس اس پر اتفاق کر لیں کہ مثلاً پانچ شوال تک ہر حال میں حاضر ہو جائیں! اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ہر علاقے کے طلبہ قافلہ بنا کر سفر کر سکیں گے اور اگر ساتھی گھر سے نہیں بھی ملے تو تاریخِِ سفر ایک ہونے کی وجہ سے ٹرین میں قافلہ بن ہی جائے گا، اس طرح اجنبیت اور کمزوری کا کوئی احساس نہیں ہوگا۔ اسی طرح کے اتفاق کا مظاہرہ دیوبند سے واپسی کے وقت بھی کریں! اس کی ایک شکل تو یہ ہے کہ ہر علاقے کے مدارس اپنا ایک وفاق بنا لیں اور ایک میٹنگ کے ذریعے اس مسئلے کو حل کریں! اگر وفاق بنانے پر اتفاق نہ ہو تو ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہر مدرسہ علاقے کے سب سے بڑے مدرسے کو اپنے لیے معیار بنالے اور وہ ادارہ تعطیلات سے متعلق اپنا اعلامیہ علاقے کے تمام مدارس کو بھیج دے، تاکہ تمام اساتذہ اور طلبہ کارواں بنا کر سفر پر روانہ ہو سکیں۔

قارئین! دوسرا مشورہ یہ ہے کہ تعطیلات کا اعلان دو ماہ یا کم از کم ڈیڑھ ماہ پہلے ہونا چاہیے تاکہ کنفرم ٹکٹ کے حصول میں کوئی دشواری نہ ہو، پھر جو اعلان کر دیا جائے اس میں کوئی ترمیم یا چھیڑ چھاڑ نہ ہو، ورنہ نئے کنفرم ٹکٹ کا حاصل کرنا مشکل، بلکہ بسا اوقات ناممکن ہو جائے گا۔ مدارس میں بیش تر طلبہ یوپی اور بہار کے ہوتے ہیں اور اس لائن کی ٹرینیں کافی مصروف رہتی ہیں۔ ان صوبوں کے لیے کنفرم ٹکٹ کا حصول اکثر تھکا دیتا ہے، اس لیے تعطیل کی طے کردہ تاریخ میں کوئی ترمیم نہیں ہونی چاہیے، الا یہ کہ حالات اس تبدیلی کے لیے ناگزیر ہو جائیں۔

قارئین! میرے یہ مشورے سفری سہولیات کے ساتھ مدارس کے نظام کو بھی بہتر بنانے کے لیے ہیں۔ طلبہ مدارس میں آتے کیوں ہیں؟ ظاہر ہے کہ یکسوئی اور تواتر کے ساتھ علم حاصل کرنے کے لیے۔ اگر تعطیل کا نظام بہتر اور معیاری نہیں ہوگا تو تعلیم کی یکسوئی اور تواتر شدید متاثر ہوگا اور انتظامیہ کا وقار بھی مجروح ہوگا۔ اگر ایک ہی علاقے کا ہر مدرسہ اپنے اپنے حساب سے چھٹی کا اعلان کرے، جیساکہ ہو رہا ہے تو طلبہ کا عمل کرنا مشکل ہو جائے گا۔ مثلاً ایک ادارہ 3 جولائی کو چھٹی دے رہا ہے اور کوئی ادارہ چھ کو دے رہا ہے تو چھ والے طلبہ تین والے کے ساتھ سفر پر نکل جائیں گے۔ خواہ انہیں کتنا ہی کیوں نہ روکا جائے۔ اس سے انتظامیہ کا حکم بھی ٹوٹے گا، وقار بھی داؤ پر لگے گا، سبق کا ناغہ بھی ہوگا اور تعلیمی ماحول بھی بے پناہ متاثر ہوگا۔ اس لیے میں عرض کر رہا ہوں کہ خدا کے لیے ہر علاقے کے تمام مدارس اپنا ایک وفاق بنا لیں یا کسی ایک کو بڑا مان کر اس کے مطابق چھٹی کا اعلان کریں!

قارئین! طلبہ کو سفر کے آداب کو سمجھنا اور سمجھانا بھی بہت ضروری ہے۔ ہمارے نبیﷺ سفر کے معاملے میں ہمیشہ حساس رہتے تھے اور امت کو بھی حساس رہنے کی تاکید کی۔ ایک موقع پر فرمایا: الواحد شیطان و الاثنان شیطانان و الثلاثۃ رکب۔ یہ حدیث صحیح ابنِ خزیمہ میں ہے۔ جلد نمبر 4،صفحہ نمبر 257۔ اور یہ حدیث ایک دم صحیح ہے۔ اس کے علاوہ امام حاکم کی کتاب المستدرک علی الصحیحین میں بھی ہے، حدیث نمبر ہے 2531 اور یہ امام مسلم کی شرط کے مطابق صحیح رتبے کی ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی کتابوں میں یہ حدیث موجود ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ایک مسافر ایک شیطان ہے۔ دو مسافر دو شیطان ہیں اور تین مسافر ایک جماعت ہے۔ اس کی حکمت بعض شارحین نے اس طرح بیان کی ہے کہ اگر بالفرض ان میں ایک بیمار پڑ گیا تو دوسرا اس کی دیکھ بھال کرے گا اور تیسرا دوا دارو کے انتظام میں لگ جائے گا۔ اس طرح مریض کو کوئی وحشت نہیں ہوگی۔ لیکن اگر مسافر دو ہی ہوں، یا سفر اکیلا کر رہا ہو تو آفت کے وقت خدا نخواستہ بڑی زحمت پیش آ سکتی ہے اور ایسے وقت میں معاملے کو قابو کرنا بسا اوقات ٹیڑھا ہو جاتا ہے۔ تین آدمیوں کی جماعت چوں کہ جماعت ہے اور جماعت پر اللہ کی مدد کا وعدہ ہے، اس لیے سفر ہمیشہ جماعت کی شکل میں ہونا چاہیے۔

قارئین! سفر سے متعلق یہ تو ایک حدیث ہوئی۔ اس سلسلے میں ذخیرۂ احادیث میں ایک اور حدیث بھی ہے، جو ابو داؤد شریف میں ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ جماعت میں کم از کم چار آدمی ضرور ہوں۔ اس کی حکمت بعض محدثین یہ بیان کی ہے کہ سفر کے دوران اگر ان میں سے ایک شدید بیمار پڑ گیا اور جان جانے کا خطرہ منڈلانے لگا تو مرنے والا اپنے ایک ساتھی کو وصی بنا دے گا کہ میری موت کے بعد آپ فلاں فلاں کام انجام دے دیں گے۔ اور بقیہ دو ساتھی اس کے گواہ بن جائیں گے، کیون کہ شریعت میں گواہی کا نصاب دو مردوں کو رکھا گیا ہے۔ قافلہ بڑے ہونے کے اور بھی فائدے ہیں۔ دشمنوں کو ٹیڑھی نگاہ ڈالنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ بدخواہوں کی کوششیں ناکام ہو جاتی ہیں۔ اللہ کی مدد اس کے شاملِ حال رہتی ہے۔

قارئین! اخیر میں طلبہ سے یہ کہنا ہے کہ سفر اکیلا بالکل بھی نہ کریں، بلکہ کم از کم تین افراد کا قافلہ بنا لیں اور ایک کو امیر منتخب کر لیں تاکہ آپ کا سفر سنت کے مطابق تمام ہو۔ اس میں اللہ کی مدد بھی ہے۔ اتباعِ سنت بھی ہے اور اپنا تحفظ بھی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ سفر کے دوران سیاسی موضوعات پر کوئی بھی تبصرہ نہ کریں، بلکہ کوئی آپ سے رائے لے تو آپ احسن طریقے سے انکار کر دیں! اگر آپ جواب دیں گے تو بات سے بات نکلے گی اور معاملہ ٹی وی چینلوں پر مباحثوں جیسا ہو جائے گا۔ اس سے مخالفین کو موقع مل جائے گا۔ تیسری بات یہ ہے کہ جنرل ڈبے کے سفر سے حتی الامکان بچیں! جنرل ڈبے کا سفر علما اور طلبہ کے وقار کے بھی خلاف ہے اور جان پر آفت بھی ہے۔ اس بوگی کا سفر گوانتا ناموبے قید خانے سے کسی درجہ کم نہیں۔ چوتھی بات یہ ہے کہ باہر کی کھلی ہوئی چیزیں نہ کھائیں اور کسی اجنبی کو اپنی چیز کھلانے کی غلطی نہ کریں! پانچویں اور آخری بات یہ ہے کہ سفر کی دعاؤں کا اہتمام کریں! ہو سکے تو دعائیں یاد کر لیں! اگر یاد نہ ہوں تو انہیں لکھ کر رکھ لیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ تمام مسلمانوں کی حفاظت فرمائے اور علما و طلبہ کو ہر طرح کے نقصان سے بچائے۔ و آخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین۔

Address

Deoband
247554

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Syed fuzail ahmad nasri official posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Syed fuzail ahmad nasri official:

Videos

Share

Category