Darul Uloom Deoband

Darul Uloom Deoband Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Darul Uloom Deoband, Digital creator, Deoband.

دارلعلوم دیوبند
25/04/2024

دارلعلوم دیوبند

حادثۂ فاجعہ!انتھائی غم وافسوس کیساتھ یہ خبر دی جاتی ھے کہ عالمِ اسلام کے مشھور وممتاز عالمِ دین ٬ جانشینِ امام اھلِ سنت...
24/04/2024

حادثۂ فاجعہ!
انتھائی غم وافسوس کیساتھ یہ خبر دی جاتی ھے کہ عالمِ اسلام کے مشھور وممتاز عالمِ دین ٬ جانشینِ امام اھلِ سنت ومناظرِ اسلام حضرتِ اقدس مولانا عبدالعلیم صاحب فاروقی رحمۃ اللہ علیہ سابق ناظمِ عمومی جمعیۃ علماء ھند و رکنِ شوریٰ دارالعلوم دیوبند و دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کچھ روز علالت کے بعد نمازِ فجر سے قبل آج بروز بُدھ اس دارِ فانی سے دارِ بقا کی جانب کوچ فرماگئے ھیں.! اِنّا للہِ وَاِنّا اِلَیهِ رَاجِعُونْ
حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال پوری ملتِ اسلامیہ کے لئے ناقابلِ تلافی خسارہ ھے ۔
اللہ تبارک وتعالیٰ حضرت مولانا کی مغفرت فرمائے ، درجات بلند فرمائے ، جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ، متعلقین ومتوسلین وجملہ اھل خانہ وپسماندگان کو صبرِ جمیل کی توفیق نصیب فرمائے آمین ثم آمین اللھم یا ربّ العالمین ۔
نمازِ جنازہ بعد نمازِ عصر دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں ادا کی جائے گی ٬ تدفین عیش باغ قبرستان میں ھوگی ان شاءاللہ

20/04/2024

Palasten ke talluk se ek aham paigam jarur sune

علم حاصل کرنے کی کوئی عمر نھیں ھوتی ۔اِمسال دارالعلوم دیوبند میں داخلہ امتحان میں شرکت کے لئے پینسٹھ (65) سالہ ایک سفید ...
13/04/2024

علم حاصل کرنے کی کوئی عمر نھیں ھوتی ۔
اِمسال دارالعلوم دیوبند میں داخلہ امتحان میں شرکت کے لئے پینسٹھ (65) سالہ ایک سفید ریش بزرگ (جو ایک ماھر ڈاکٹر ھونے کے ساتھ ساتھ دھلی میں ثمرہ ھسپتال کے مالک بھی ھیں) دورۂ حدیث شریف (عالمیت کے آخری سال) میں داخلہ کے لئے درخواست دے رھے ھیں ۔
آپ حضرات دعا فرمائیں کہ اِن کا داخلہ ہوجائے ۔

اعلان نمازِ عیدالفطر -- مسجد رشید دارالعلوم دیوبند
08/04/2024

اعلان نمازِ عیدالفطر -- مسجد رشید دارالعلوم دیوبند

Darul Uloom Deoband
08/04/2024

Darul Uloom Deoband

03/04/2024

Hazrat M***i Tapi Usmani Sahab

30/03/2024

امیرُالھند حضرتِ اقدس مولانا سید ارشد صاحب مدنی دامت برکاتھم صدر جمعیۃ علماء ھند کی نقل کرتا ھوا ایک بچہ۔۔

26/03/2024

حضرت علامہ شاہ کشمیری رحمت اللہ کا واقعہ

25/03/2024

افطار کے وقت دُعا کی قبولیت کا وقت کیا ھے ؟
حضرتِ مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری رحمۃ اللہ علیہ سابق شیخ الحدیث وصدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند الھند

19/03/2024

رمضان المبارک پر نیو نعت شریف

ماہِ رمضان المبارک 1445ھ کا چاند نظر آگیا مرکزی رویت ھلال کمیٹی دارالعلوم دیوبند
11/03/2024

ماہِ رمضان المبارک 1445ھ کا چاند نظر آگیا
مرکزی رویت ھلال کمیٹی دارالعلوم دیوبند

11/03/2024

ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے لئے دعا فرماتے ھوئے
حضرتِ اقدس مولانا پیر ذوالفقار احمد صاحب نقشبندی مجدّدی دامت برکاتھم العالیہ
اللہ ربّ العزت والجلال ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے حق میں ان دعاؤں کو قبول فرمائے ۔ آمین اللھم یاربّ العالمین

28/02/2024

موت کی شدت بیان ۔ قاری حنیف صاحب ملتانی۔

آج سے ام المدارس دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کا                 سہ روزہ اجلاس شروع   دیوبند : 28 فروری 2024ء (پریس ری...
28/02/2024

آج سے ام المدارس دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کا
سہ روزہ اجلاس شروع
دیوبند : 28 فروری 2024ء (پریس ریلیز)

حسب روایت عالمی شھرت یافتہ عظیم دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کا سہ روزہ تعلیمی اجلاس آج بروز بدھ کی صبح نو بجے سے دارالعلوم دیوبند کے مھمان خانہ میں منعقد ھورھا ھے ۔ مجلس شوریٰ کا یہ تعلیمی اجلاس ھے جبکہ بجٹ اور مالیات سے متعلق اجلاس محرم میں ھوتا ھے ۔ وھیں حالیہ کئی تنازعات کو لیکر دارالعلوم دیوبند کے اراکین شوریٰ اھم فیصلے لے سکتے ھیں ، خاص طور پر غزوۂ ھند کے فتویٰ کے نام پر جس طرح میڈیا اور اور زعفرانی طاقتوں نے منظّم سازش کے تحت اس عظیم علمی دانش گاہ کو نشانہ بنایا ھے ، اس کے سلسلہ میں غوروفکر کیا جانا طے ھے ۔ حالانکہ عام طور پر اس اجلاس میں دارالعلوم دیوبند کی تعلیمی رپورٹ کی بنیاد پر نئے داخلوں کو منظوری اور تمام طلبہ کو ششماھی امتحان کے نتائج کی بنیاد پر اگلے درجات کے لئے ترقی دی جاتی ھے ۔ اس کے علاوہ طلبہ کو ملنے والی سھولیات کو بھتر بنانے اور درپیش مسائل کا حل کرنے کے ساتھ ساتھ تعمیر ، مالیات اور دیگر داخلی و خارجی امور پر اھم فیصلے لئے جاتے ھیں ، حالیہ تنازعہ کے سبب مجلس شوریٰ کے اس اجلاس پر ملک کی نظریں لگی ھوئی ھیں ۔
پانچ نشستوں میں ھونے والے اس اھم اجلاس میں مھتمم دارالعلوم دیوبند مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی ، صدرالمدرسین مولانا سید ارشد مدنی ، مولانا سید محمود مدنی ، مولانا سید محمد عاقل سھارنپوری ، مولانا غلام محمد وستانوی ، مولانا بدرالدین اجمل ، مولانا عبدالعلیم فاروقی ، مولانا مفتی اسماعیل مالیگاؤں ، مولانا مفتی احمد خانپوری ، حکیم کلیم اللہ علی گڑھی ، مولانا رحمت اللہ کشمیری ، مولانا انوارالرحمٰن بجنوری ، مولانا سید حبیب احمد باندوی ، مولانا سید انظر حسین میاں دیوبندی ، مولانا حسن محمود راجستھانی ، مولانا مفتی شفیق احمد بنگلوری ، مولانا محمد عاقل گڑھی دولت ، مولانا بلال حسنی ندوی لکھنؤ ، مولانا محمد اشتیاق مظفرپوری ، مولانا ملک ابراہیم اور مولانا عبدالصمد مغربی بنگال کی شرکت متوقع ھے ۔

28/02/2024

نواسۂ شیخ الاسلام حضرت مدنی قدس سِرّہ صاحبزادۂ محترم امیرالھند حضرتِ اقدس مولانا مفتی قاری سیّد محمد عفّان منصورپوری دامت ٬ شیخ الحدیث وصدرالمدرسین جامعہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد امروھہ

25/02/2024

شبِ بَراءَت میں کونسے کونسے اعمال کرسکتے ھیں ؟
از : حضرتِ اقدس مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری نوّر اللہ مرقدہ شیخ الحدیث وصدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند

25/02/2024

پندرہ شعبان کی عبادت

از : حضرتِ اقدس مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری نوّر اللہ مرقدہ شیخ الحدیث وصدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند

پندرہ شعبان کے سلسلے میں چار باتیں صحیح ہیں :
❶ اس رات میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ جتنی توفيق دیں ، اتنی گھر میں انفرادی عبادتیں کرنا ، مگر ہم نے اس رات کو ہنگاموں کی رات بنادیا ہے ، مسجدوں اور قبرستانوں میں جمع ہوتے ہیں ، کھاتے پیتے اور شور کرتے ہیں ، یہ سب غلط ہے ، اس کی کوئی حقیقت نہیں ، اس رات میں نفلیں پڑھنی چاہئیں ، اور پوری رات پڑھنی ضروری نہیں ، جتنی اللہ تعالیٰ توفيق دیں گھر میں پڑھے ، یہ انفرادي عمل ہے ، اجتماعی عمل نہیں ۔
❷ اگلے دن روزہ رکھے ، یہ روزہ مستحب ہے ۔
❸ اس رات میں اپنے لئے ، اپنے مرحومین کے لئے ، اور پوری امت کے لئے مغفرت کی دعا کرے ، اس کے لئے قبرستان جانا ضروری نہیں ، اس رات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان ضرور گئے ہیں ، مگر چپکے سے گئے ہیں ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اتفاقاً پتہ چل گیا تھا ، نیز حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نےاس رات میں قبرستان جانے کا کوئی حکم بھی نہیں دیا ، اس لئے ہمارے یہاں جو تماشے ہوتے ہیں ، وہ سب غلط ہیں ۔
❹ جن دو شخصوں کے درمیان لڑائی جھگڑا اور اختلاف ہو ، وہ اس رات میں صلح صفائی کر لیں ، اگر صلح صفائی نہیں کریں گے ، تو بخشش نہیں ہوگی ۔
یہ چار کام اس رات میں ضعیف حدیث سے ثابت ہیں ، اور ضعیف کا لحاظ اس وقت نہیں ہوتا جب سامنے صحیح حدیث ہو ، صحیح حدیث کے مقابلے میں ضعیف حدیث کو نہیں لیا جاتا ، لیکن اگر کسی مسئلہ میں ضعیف حدیث ہی ہو ، اس کے مقابلے میں صحیح حدیث نہ ہو ، تو ضعیف حدیث لی جاتی ہے ، اور ایسا یہی ایک مسئلہ نہیں ہے ، بہت سے مسائل ہیں ، جن میں ضعیف حدیثیں ہیں ، اور ضعیف احادیث سے مسائل ثابت ہوئے ہیں ، جیسے صلٰوۃ التسبیح کی گیارہ روایتیں ہیں ، اور سب ضعیف ہیں ، مگر سلف کے زمانے سے صلٰوۃ التسبیح کا رواج ہے ۔
البتہ ضعیف حدیث سے واجب اور سنت کے درجہ کا عمل ثابت نہیں ہوگا ، استحباب کے درجے کا حکم ثابت ہوگا ، پس صلٰوۃ التسبیح پڑھنا مستحب ہے ، ایسے ہی پندرہ شعبان کے بارے میں ، جو روایات ہیں وہ بھی ضعیف ہیں ، مگر ان سے استحباب کے درجہ کا عمل ثابت ہوسکتا ہے ، پس احادیث میں بیان کئے گئے چاروں کام مستحب ہوں گے ، شب برأت ، اور اسکے اعمال کو بالکل بے اصل کہنا درست نہیں ، البتہ سورہ دخان کی تیسری آیت : انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ کا مصداق شب برأت نہیں ، اس کا مصداق شب قدر ہے ، کیونکہ قرآن کریم شب قدر میں نازل ہوا ہے ۔
( علمی خطبات جلد : 2 صفحہ نمبر : 247 )

24/02/2024

Shab e Barat Ki Fazilat - M***i Muhammad Taqi Usmani Sahab...

مختصر جامع سوانح حیات23؍ فروری ۔۔۔۔۔ 1962ء ۔۔۔۔۔ 62 واں ۔۔۔۔۔ یومِ وفاتشیخُ التّفسیر امامُ الاولیاء حضرتِ اقدس مولانا اح...
23/02/2024

مختصر جامع سوانح حیات
23؍ فروری ۔۔۔۔۔ 1962ء ۔۔۔۔۔ 62 واں ۔۔۔۔۔ یومِ وفات
شیخُ التّفسیر امامُ الاولیاء حضرتِ اقدس مولانا احمد علی
صاحب لاھوری نوّراللہ مرقدہ

تعارف :
آپ اپنے وقت کے مشہور مُفسّرِ قرآن ، خادمِ قرآن ، عالم باعمل ، ولئ کامل ، درویش صِفت بزرگ ، انجمن خُدّام الدّین شیرانوالہ لاھور کے بانی و امیر اور روحِ رواں ، مدرسہ قاسم العلوم لاھور کے بانی ، تحریک خلافت کے ایک سرگرم رکن ، جمعیۃ علماء ھند کے ایک اہم وفادار رہنما و رکن ، حضرت مولانا عبید اللہ سندھی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردِ رشید ، بڑے ہی وسیع القلب اور وسیع النظر عالمِ دین تھے ۔

ولادت :
آپ کی ولادت باسعادت 2؍ رمضان المبارک 1304ھ بمطابق 1887ء بروز جُمعہ قصبہ ''جلال " ضلع گوجرانوالہ (پاکستان) میں ہوئی ۔ آپ ایک نو مسلم خاندان کے فرد تھے ، آپ کے والد ماجد شیخ حبیب اللہ صاحبؒ خود اسلام لائے تھے ، آپ کے والد ماجد گوجرانوالہ پنجاب کے ایک شریف ہندو خاندان کے فرد تھے اور ایک صالح دین دار بزرگ تھے ۔ حضرت مولانا عبید اللہ سندھی رحمۃ اللہ علیہ ، جو اصلاً پنجابی تھے ، طویل قیام کی وجہ سے سندھی مشہور ہوگئے ، آپ کے رشتہ دار ہوتے تھے ۔

تعلیم و تربیت :
آپ کی والدہ ماجدہ جو کہ ایک نہایت عابدہ ، زاہدہ اور صالحہ خاتون تھیں انہوں نے آپ کو خود ہی قرآن پاک پڑھایا اور پھر آپ کو ایک قریبی گاؤں کے پرائمری اسکول میں داخل کرادیا گیا ، اسکول میں آپ نے پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی اس کے بعد آپ کو گوجرانوالہ کی جامع مسجد کے خطیب مولانا عبد الحق صاحبؒ کے حلقہ درس میں داخل کرادیا گیا جہاں آپ کی دینی تعلیم کی ابتداء ہوئی اس کے بعد آپ کے والد شیخ حبیب اللہؒ نے آپ کو حضرت مولانا عبید اللہ سندھی رحمۃ اللہ علیہ کے ہمراہ بغرض تعلیم و تربیت سندھ بھیج دیا اور یہ بھی کہا کہ میں نے اپنے بچے کو اللہ تعالیٰ کے دین کے لئے وقف کردیا ہے چنانچہ حضرت مولانا سندھیؒ آپ کو اپنے ساتھ سندھ لے گئے ، ابتدائی صرف و نحو عربی و فارسی کتب حضرت مولانا سندھیؒ نے پڑھائیں ۔ 1319ھ مطابق 1901ء میں مدرسہ دارالارشاد کی بنیاد رکھی گئی ، حضرت مولانا عبیداللہ سندھیؒ اس مدرسہ کے روحِ رواں تھے ، آپ کی تعلیم و تربیت انہیں کے زیرِ سایہ اور نگرانی میں ہوئی اور اپنی تعلیم کے چھ سال مکمل کرکے درس نظامی کی تکمیل کی ، اور خاص طور سے فنِ تفسیر میں انہیں سے مہارت حاصل کی ، اور حدیث کی کتابیں شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھیں ۔ 1326ھ مطابق 1908ء میں حضرت لاھوریؒ کی سندِ فراغت ہوئی اور دستارِ فضیلت بھی عطا کی گئی ۔

درس و تدریس :
حضرت مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے حضرت لاھوریؒ کو حکم دیا کہ اب اس مدرسہ میں تم بھی پڑھاؤ ، چنانچہ تین سال تک حضرت لاھوریؒ سی مدرسہ میں درس نظامی کی تعلیم دیتے رہے ۔ حضرت مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے اپنی پہلی زوجہ کی بیٹی سے حضرت لاھوریؒ کا نکاح کردیا لیکن وہ ایک سال بعد ہی انتقال کرگئی ، اس کے بعد حضرت مولانا عبیداللہ سندھیؒ حضرت لاھوریؒ کو دیوبند لے کر گئے اور وہاں حضرت شیخ الہندؒ سے عرض کیا کہ احمد علی کا نکاح کرنا ہے حضرت شیخ الہندؒ نے فرمایا کون احمد علی ، حضرت سندھیؒ نے فرمایا یہ میرا داماد ہے اور اس کی بیوی فوت ہوگئی ہے اس پر حضرت شیخ الہندؒ نے فرمایا پھر جلدی سے بتائیے کہ ہمارے ساتھیوں میں سے کس کے گھر رشتہ موجود ہے اس سے قبل کہ حضرت سندھیؒ بتاتے چکوال کے ایک بزرگ کھڑے ہوگئے جن کا نام مولانا ابو محمد احمد صاحبؒ تھا (خطیب صوفی مسجد کشمیری بازار لاھور) انہوں نے عرض کیا کہ حضرت میرے گھر میں جتنے رشتے ہیں سب احمد علی پر قربان آپ میری بیٹیوں میں سے جس سے چاہیں انکی شادی کردیں حضرت شیخ الہندؒ نے مراقبہ کے بعد فرمایا احمد علی مصحفہ ہے تمہارے گھر کوئی صفیہ ہے انہوں نے جواب دیا حضرت اسکی عمر 13 سال ہے حضرت شیخ الہندؒ نے فرمایا احمد علی کے لئے یہ چاہئیے ، حضرت شیخ الہندؒ نے حضرت قاری محمد طیب صاحبؒ کو آواز دی کہ صاحبزادہ آپ کو کسی کا بھائی بنائیں گے تو بنوگے حضرت شیخ الہندؒ نے فرمایا احمد علی کا نکاح کرنا ہے حضرت قاری محمد طیب صاحبؒ نے عرض کیا کون احمد علی ، حضرت شیخ الہندؒ نے فرمایا وہ جنگل میں لکڑیاں کاٹ رہا ہے چنانچہ حضرت مولانا قاری محمد صاحبؒ حضرت لاھوریؒ کے پیچھے درخت پر چڑھ گئے اور پوچھا کہ آپ کیسی لڑکی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں حضرت لاھوریؒ نے فرمایا :
1 تھجد گذار ہو
2 میرے بچوں کو اپنا دودھ پلانے والی ہو
3 اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والی ہو
پھر لڑکی کے پاس تشریف لائے کہ آپ کا کیسے لڑکے سے نکاح کیا جائے تو انہوں نے فرمایا مجھے حق مہر میں دورہ تفسیر قرآن پڑھائے
چنانچہ محرم 1330ھ دسمبر 1911ء میں دارالعلوم دیوبند کی مسجد میں حضرت شیخ الہندؒ نے نکاح پڑھایا ۔
کتنے مبارک ہیں حضرت لاھوریؒ جن کو حضرت مولانا عبیداللہ سندھیؒ جیسے مربی واستاذ ، حضرت خلیفہ غلام محمد دین پوریؒ اور حضرت مولانا سید تاج محمود امروٹیؒ جیسے شیخ ، قطب الارشاد حضرت گنگوہیؒ کے شاگرد مولانا ابو محمد احمدؒ جیسے سسر اور حضرت شیخ الہندؒ جیسے نکاح خواں میسر آئے ۔
شروع شروع میں آپ نے اپنے استاذ حضرت مولانا عبید اللہ سندھی رحمۃ اللہ علیہ کی جگہ دہلی میں جب کہ وہ ہجرت فرماگئے ، درس کا سلسلہ جاری رکھا ، جب انگریزی حکومت نے آپ کو دہلی سے جِلا وطن کرکے لاھور پہنچایا تو آپ نے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر درسِ قرآن کا آغاز کیا ، رفتہ رفتہ آپ شیرانوالہ دروازہ میں اس مسجد میں منتقل ہوئے جو لائن والی مسجد یا سبحان خاں کی مسجد کے نام سے مشہور ہے ۔ آپ کا درسِ قرآن مرجع خاص و عام بن گیا اور قدیم مسجد بالکل ناکافی ثابت ہوئی ، اور روز بروز مجمع زیادہ ہونے لگا آپ کی قبولیت و مرجعیت برابر بڑھ گئی اور آخری زندگی میں تو یہ حال ہوگیا کہ لوگ دور دور سے پروانہ وار آتے اور ایک ہجوم رہتا ، اسی کے ساتھ آپ کی مشغولیت اور انہماک بھی بڑھتا گیا ۔ آپ نے تقریباً نصف صدی تک مدرسہ قاسم العلوم لاھور میں جس کے آپ خود بانی تھے تفسیر و حدیث کا درس دیا ۔

راہِ سلوک :
حضرت مولانا سندھیؒ آپ کو لے کر امام العارفین حضرت خلیفہ غلام محمد دین پوریؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت دین پوریؒ نے آپؒ کو از خود سلسلۂ عالیہ ، قادریہ میں بیعت فرمالیا اور اسم ذات کی تلقین فرمائی ، اس وقت آپ کی عمر صرف 9؍ برس تھی ، جب امروٹ شریف جانا ہوا تو حضرت قطب الاقطاب مولانا سید تاج محمود امروٹیؒ (جو پاکستان کے مشہور اولیاء اللہ میں شمار ہوتے تھے) کی شفقت کی بھی انتہا نہ تھی ان کی خدمت میں رہ کر منازل سلوک طے کیں ۔

آپ کا دینی و اصلاحی کارنامہ :
1922ء میں حکیم فیروزالدین کی تحریک پر انجمن خدّام الدین کا قیام عمل میں لایا گیا ، قرآن کریم اور سنت نبوی ﷺ کی نشرواشاعت کو انجمن خدام الدین کا نصب العین قرار دیا گیا ، انجمن نے وقتی ضروریات کے مطابق دینی ، اصلاحی اور سماجی ضرورتوں کے پیش نظر قرآن و سنت کی روشنی میں کئی رسالے اور کتابیں شائع کیں ، یہ تمام رسالے اور کتابچے حضرت لاھوریؒ کے تحریر کردہ تھے ۔ 1924ء میں انجمن خدام الدین کی زیر نگرانی مدرسہ قاسم العلوم قائم فرمایا گیا ، ابتداء میں یہ مدرسہ کرایہ کے مکان میں تھا لیکن بعد میں مدرسہ کے لئے زمین خرید کر عمارت بنائی گئی جس میں آٹھ کمرے تھے ، اس عمارت کا افتتاح 1934ء میں حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کے دستِ مبارک سے ہوا ۔ آپ نے عمر بھر قرآن کریم کی لفظاً و معناً خدمت کی ۔
آپ کو اللہ تعالیٰ نے فنِ تفسیر میں زبردست ملکہ عطا فرمایا تھا ، قرآن مجید کی تفسیر اور اس کی تعلیم و تدریس سے آپ کو خاص شغف تھا ، اور اس کا آپ کے یہاں بڑا اہتمام تھا ، چنانچہ آپ سے فنِ تفسیر حاصل کرنے کے لئے دارالعلوم دیوبند اور دیگر مدارس عربیہ سے دور دراز سے فارغ التحصیل طلبہ بھی دورۂ حدیث سے فراغت کے بعد ایک سال تفسیر پڑھنے کے لئے لاھور آپ کی خدمت میں جاتے تھے اور آپ کے درسِ قرآن سے مستفید ہوتے تھے ، اور اپنے مقصد میں کامیاب ہوکر واپس جاتے ، تفسیر کے اختتام پر باقاعدہ سند دی جاتی تھی اس تفسیر درس قرآن کی تکمیل کے بعد جو حضرات مزید تعلیم حاصل کرنے کے خواہش مند ہوتے انہیں چار ماہ میں فلسفہ ، شریعت اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کی مشہور کتاب حجۃ اللہ البالغہ پڑھاتے تھے ۔ 1940ء سے شروع ہونے والا تفسیر درس قرآن کریم کا یہ سلسلہ آپ کی زندگی کے آخری ایام تک جاری رہا ۔ آپ نے سندھی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ کیا اور اُس کے حواشی بھی لکھے ۔ 1947ء میں اردو میں بھی مترجم قرآن مجید شائع فرمایا ، جس میں ترجمہ حضرت شاہ عبد القادر دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے ، اور حواشی آپ کے قلم سے لکھے گئے ہیں ۔ اس کے علاوہ آپ نے انجمن خدّام الدین کی طرف سے بڑی تعداد میں کثیر التعداد تبلیغی رسائل شائع فرمائے ۔ آپ نے تقریباً نصف صدی تک قرنِ اوّل کے مسلمانوں کی یاد تازہ کی اور بے غرضی اور لگن کے ساتھ احیاء دین ، شریعت اور اعلاء کلمۃ الحق کے لئے کام کیا ۔ آپ کی ساری زندگی دینی و علمی خدمات میں بسر ہوئی ۔
آپ نے اصلاحی کارنامہ بھی انجام دیا ۔ 1955ء میں آپ کی سرپرستی میں انجمن خدام الدین کی طرف سے "خدام الدین " کے نام سے ایک ہفت روزہ رسالہ جاری کیا گیا جس میں دینی ، اصلاحی ، معاشرتی اور سیاسی مضامین شائع ہوتے تھے یہ رسالہ آج بھی جاری ہے ، آپ نے غلط عقائد ، فاسد اخلاق ، غیر دینی اور غیر شرعی رسوم و اعمال ، غیر اسلامی معاشرت و تمدن کی اصلاح پر بھی بذریعہ تقریر زور دیا ، جس سے بہت سے لوگ تائب ہوئے ۔ آپ نے تحریکِ خلافت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس کی وجہ سے قید و بند کی صعوبتیں بھی جھیلنی پڑیں ۔ آپ ایک عالم باعمل ، درویش صفت بزرگ ، علم و فضل ، اخلاص و تقویٰ اور سادگی و تواضع کا عظیم پیکر تھے ، آپ کی زندگی میں سادگی ، خلوص اور تواضع نمایاں اور صاف دکھائی دیتے تھے ۔ آپ کی ذات مرجع خواص و عوام تھی ۔
1953ء میں جب تحریک ختم نبوت شروع ہوئی تو آپ نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ، آپ کی گرفتاری بھی عمل میں آئی اور آپ کو دوسرے علماء کے ساتھ ملتان کی جیل میں رکھا گیا ، بعد میں لاھور کی جیل میں منتقل کردیا گیا بعد ازاں آپ کی رہائی عمل میں آئی ۔
آپ تحریکِ خلافت اور جمعیۃ علماء ہند میں بھی شامل رہے ۔ تقسیمِ وطن کے بعد شیخ الاسلام حضرت علامہ شبّیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کا ارادہ فرمایا اور جمعیت علماء اسلام میں شامل ہوئے اور اس کے امیر بھی رہے ۔
تحریک ریشمی رومال برصغیر کی آزادی کے لئے ایک منصوبہ تھا جس کے ذریعے انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی مگر بدقسمتی سے یہ منصوبہ قبل از وقت طشت ازبام ہوگیا ، انگریزوں نے اس تحریک کے قائدین اور اس سے وابستہ کارکنان کو گرفتار کرنا شروع کیا تو حضرت لاھوریؒ بھی گرفتار کرلئے گئے ، حضرت لاھوریؒ کو گرفتار کرکے دہلی ، شملہ ، لاھور اور جالندھر کی مختلف جیلوں میں کئی ماہ گذارنے کے بعد ضلع جالندھر میں تھانہ راہوں میں نظر بند کردیا گیا ، پھر کچھ عرصہ کے بعد آپ کو مشروط طور پر رہا کردیا گیا ، آپ پر دہلی اور سندھ جانے پر پابندی لگادی گئی اور آپ کو لاھور میں پابندِ ضمانت کرکے چھوڑ دیا گیا ، حضرت لاھوریؒ کی اہلیہ محترمہ بھی لاھور آگئیں ، لاھور کی زندگی کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے جس وجہ سے آپ لاھوری کہلاتے ہیں ۔
حضرت لاھوری رحمۃ اللہ علیہ کی حیات میں فیض باغ لاھور کے عبد القادر راج نے خواب میں دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدّام الدین کے دفتر میں تشریف فرماہیں اور حضرت لاھوریؒ آپ ﷺ کے سامنے دو زانو بیٹھے ہیں ، وہ کہتے ہیں میں نے حضور اکرم ﷺ کے سامنے اپنے ایک ساتھی کو پیش کیا جو مسلک کے بارے میں ان سے جھگڑا کرتا تھا اور دریافت کیا کہ امت کے موجودہ فرقوں میں کونسا فرقہ حق پر ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت لاھوریؒ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ " یہ جو کچھ کہتے ہیں حق ہے ۔" (خدام الدین ۲۳؍ فروری ۱۶۳)

وفات :
بالآخر وہ وقت آگیا کہ نصف صدی کا پُرمشقت اور طویل مجاہدہ کا سفر طے کرنے والا اپنی آخری آرام گاہ پر پہنچے اور اپنی محنت و وفاداری کا انعام پائے ۔
حضرت شیخ التّفسیر رحمۃ اللہ علیہ کی مبارک زندگی کی پچھتر بہاریں اپنی قدسی و سکوتی فضاؤں سے ہمکنار ہوکر ختم ہوئیں ، اور یکم رمضان المبارک 1381ھ سے آخری بہار تتمۂ حیات بن کر آئی اور پوری صدی کے فیوض و برکات کی تمام وسعتوں کو اپنے دامن میں لپیٹ کر 18؍ رمضان المبارک 1381ھ مطابق 23؍ فروری 1962ء کو 77 سال کی عمر میں آپ اس شان سے دنیا سے رخصت ہوئے کہ رات ساڑھے نو بجے نمازِ عشاء کی نیت باندھی اور سجدے کی حالت میں خالق حقیقی سے جاملے ۔ اِنّا للہِ وَاِنّا اِلَیْہِ رَاجِعُونْ ۔ خادمِ قرآن ، قرآن مجید کے نازل کرنے والے کے جوارِ رحمت میں پہنچ گیا ، جنازہ میں لوگوں کے پروانہ وار ہجوم اور اجتماع عظیم کا وہ منظر تھا جو لاھور جیسے عظیم شہر نے مدت دراز سے نہیں دیکھا تھا ، اور شاید مدت دراز تک نہ دیکھے ۔ حضرت شیخ المشائخ کے اس سانحۂ ارتحال سے لاکھوں قلوب محروم ہوئے ۔ اور بڑے بڑے صبر و استقلال والے یتیموں کی طرح آنسو بہاتے اور آنہیں بھرتے ہوئے دیکھے گئے ۔ وہ قیامت خیز لمحات ، بار بار دل کو آتش غم سے جلاتے ہیں ۔
دوسرے دن نماز ظہر کے بعد جنازہ اٹھایا گیا ، جنازے کے ساتھ ہر قسم اور ہر فرقے کے لوگ تھے ۔ حفّاظ ، قراء ، علماء ، حکماء ، وکلاء ، عوام ، حُکام ، فقراء ، اولیاء کرام اپنے اور بیگانے غرضیکہ مغربی پاکستان کے مختلف شہروں اور دیہاتوں سے جس قدر عقیدت مند حاضر ہوسکتے تھے حاضر ہوئے ، جن کی تعداد لاھور کے باخبر حلقوں نے لاکھوں تک بتائی ہے ۔ بازار انسانوں کے سَروں سے سیلِ رواں بنے ہوئے تھے ، اور چھتوں اور منڈیروں پر بیشمار مرد و زن آخری دیدار کے لئے جمع ہوگئے تھے ، جب اسلامیانِ پاکستان نے اپنے روحانی باپ کے وجود مسعود کو وہاں جاکر رکھا ، صفیں سیدھی ہوئیں نمازِ جنازہ سے پہلے خطیب پاکستان مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ کی آواز بلند ہوئی کہ مغربی پاکستان کے تمام علماء کرام حاضر ہوچکے ہیں اور ان سب کا متفقہ فیصلہ ہے کہ حضرت لاھوریؒ کے صاحبزادے حضرت مولانا عبید اللہ انور صاحبؒ نمازِ جنازہ پڑھائیں گے ۔ یونیورسٹی گراؤنڈ میں نمازِ جنازہ ادا کی گئی ، عشاق نے اپنے محبوب مرشد کے جسد خاکی کو سرِشام میانی صاحب کے قبرستان پہنچایا ۔ المختصر ! سیدنا و مخدومنا کا جسدِ اطہر غروب آفتاب کے فوراً بعد لاھور کے اس جنّت نِشاں قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا ۔
ھزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پے روتی ہے
بڑی مشکل سے ھوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

قبر سے فردوسی خوشبو :
تاریخ میں تین چار ایسے بزرگ ملتے ہیں کہ جن کی قبروں سے بعد از دفن ایسی خوشبو آنا شروع ہوئی کہ لوگ اس کو محسوس کرکے حیران ہوئے کہ ایسی عمدہ خوشبو ہم نے دُنیا میں کبھی نہیں سونگھی ۔ ان میں پہلا نام حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اور دوسرا نام حضرت مولانا میاں سیّد اصغر حسین صاحب دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے ۔ تیسرا اور چوتھا واقعہ پنجاب میں پیش آیا ۔ ساہیوال میں حضرت مولانا مفتی فقیر اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور لاھور میں شیخ التّفسیر حضرت مولانا احمد علی لاھوری رحمۃ اللہ علیہ کی قبر سے ۔ اور نتیجہ ہے کمالِ اتباع کا ۔ لاھور کے باشندوں نے یک زبان ہوکر پکارنا شروع کردیا کہ حضرت مولانا شیخ التّفسیر سید الابرار والاخیار کی تربتِ پاک سے فردوسی خوشبوئیں آنے لگی ہیں ، نہایت معتمد افراد نے جاکر پتہ لگایا ، حضرت شیخ التفسیرؒ کی مرقد اقدس کی پاکیزہ مٹی کا ہر طرح کیمیکل Cheical معائنہ کیا گیا لیکن یہ معلوم ہونا تھا نہ ہوا کہ اس شمیمِ جانفزا کو کس چیز سے منسوب کیا جائے ۔ لہٰذا یہ بات زبانِ زدِ خاص و عام ہوکر قدسی حقیقت کی صورت اختیار کرگئی کہ حضرت شیخ التفسیرؒ کی لحد پاک روضۃ من ریاض الجنّۃ بن چکی ہے ۔ جس طرح آپ کی زندگی آیۃ من آیات اللہ تھی ، اسی طرح آپ کی موت بھی صداقتِ اسلام کا ایک نشان بن گئی ۔
( پرانے چراغ : 134/1 ، بیس بڑے مسلمان ، عبدالرشید ارشد ، تذکرۂ اکابر ص : 146 ، تذکرہ مشاہیر ہند ص : 23 ، پچاس مثالی شخصیات ، ص : 156 ، علماء دیوبند کے آخری لمحات ، ص : 115 ، عشق رسول ﷺ اور علماء حق ص : 270 ، انار کے درخت تلے ص : 173)

21/02/2024

شبِ برات کی فضیلت بیان۔ 🍁

20/02/2024

حضرت اقدس مولانا فضل الرحمن صاحب خوبصورت آواز بهترین دلنشین تلاوت قرآن کریم سماعت فرمائیں ❤️

افسوسناک خبر!نھایت ھی غمناک خبر ابھی موصول ھوئی ھے کہ جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل گجرات کے قدیم و مؤقر بزرگ شیخ الت...
10/02/2024

افسوسناک خبر!
نھایت ھی غمناک خبر ابھی موصول ھوئی ھے کہ جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل گجرات کے قدیم و مؤقر بزرگ شیخ التجوید والقراءت ، استاذ الاساتذہ قاری و مقری حضرتِ اقدس مولانا احمداللہ صاحب قاسمی بھاگلپوری رحمۃ اللہ علیہ جوارِ رحمتِ الٰھی میں پہنچ گئے ھیں ، ‏اِنّا للہِ وَاِنّا اِلَیهِ رَاجِعُونْ
اللہ تبارک وتعالیٰ حضرت مولانا مرحوم کی مغفرت فرمائے ،
درجات بلند فرمائے ، جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ، متعلقین و متوسلین و جملہ اہل خانہ و شاگردانِ رشید کو صبرِ جمیل کی توفیق نصیب فرمائے ۔ آمین یا ربّ العالمین ۔
نوٹ : نماز جنازہ بعد مغرب جامعہ ھٰذا میں ادا کی جائے گی ۔

مختصر جامع سوانح حیات6؍ فروری ۔۔۔۔۔ 2006ء ۔۔۔۔۔ 18 واں ۔۔۔۔۔ یومِ وفاتامیر الھند ، فِدائے مِلّت حضرتِ اقدس مولانا سیّد ا...
05/02/2024

مختصر جامع سوانح حیات
6؍ فروری ۔۔۔۔۔ 2006ء ۔۔۔۔۔ 18 واں ۔۔۔۔۔ یومِ وفات
امیر الھند ، فِدائے مِلّت حضرتِ اقدس مولانا سیّد اسعد مدنی صاحب نوّر اللہ مَرقَدہ ، سابق صدر جمعیۃ علماء ھند واستاذ
دارالعلوم دیوبند

تعارف :
آپ امیر الھند ثانی ، فدائے مِلت ، عظیم المرتبت شخصیت ، ھندوستانی مسلمانوں کے عظیم قائد و رھنما ، شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حُسین احمد صاحب مدنی نوّر اللہ مرقدہ کے بڑے صاحبزادے و جانشین ، جمعیۃ علماء ھند کے صدر اور دارالعلوم دیوبند کی مجلسِ شوریٰ کے رُکنِ رکین تھے ۔

ولادت :
آپ کی ولادت باسعادت 4؍ ذِی قعدہ 1346ھ مُطابق 27؍ اپریل 1928ء بروز جُمعہ بچھرایوں ضلع مرادآباد ٬ یوپی میں ہوئی ٬ جہاں آپ کی نانہال تھی ۔ حضرت مدنیؒ نے آپ کا نام نامی "اسعد" رکھا تھا ٬ خود آپ نے بھی ایک موقع پر کہا تھا کہ میرا نام صرف "اسعد" ہے ۔ یوں تو آپ کا آبائی وطن قصبہ ٹانڈہ ضلع فیض آباد ہے ، لیکن والد صاحب حضرت شیخ الاسلامؒ وہاں سے دیوبند آکر مقیم ہوگئے تھے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کرلی تھی ۔ آپ کے دادا حضرت مولانا سید حبیب اللہ صاحبؒ ، حضرت مولانا فضلِ رحمٰن گنج مرادآبادیؒ کے خلیفۂ مجاز تھے ۔ بڑے ذاکر ، شاغل ، پاکباز و باخدا انسان تھے ۔ مستجاب الدّعوات ایسے کہ جس نے ستایا اور ان کے لئے بددعا نکلی تو وہ پنپنے نہیں پایا ۔ کشف ان کا بہت قوی تھا ۔ ویسے حضرتؒ کے اسلاف سب کے سب اولیاءاللہ تھے ۔ شیخ الاسلام حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ ایک گرامی نامہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ :" ہمارا خاندان اولیاء اللہ اور سچے فقراء باطن کا ہے ، جہاں تک میں نے والد مرحوم سے سنا ہے دادا مرحوم یا ان سے پہلے لوگ اہل باطن اور اہل نسبت تھے ، دنیا دار اور مال و متاع و زمین کے کتے نہ تھے ۔ (مکتوباتِ شیخ الاسلام ص 298 ج 4 ، مکتوب نمبر 108)
آپ تقویٰ و طہارت علم و عمل ، سیاسی بصیرت ، ملی و قومی خدمت میں اپنے والد گرامی کے صحیح جانشین اور خلف الصدق تھے ۔

تعلیم و تربیت :
آپ نے ابتدائی تعلیم اپنی والدہ ماجدہ " محترمہ سید سائرہ صاحبہؒ" سے حاصل کی ، آپ کی والدہ ماجدہ قصبہ بچھراؤں ضلع امروہہ صوبہ یوپی کے مولوی حکیم قاری سید غلام احمد صاحبؒ کی چھوٹی صاحبزادی تھیں جو خاندانِ سادات کی ایک حسِین ، خوبصورت ، نیک سیرت ، خدا ترس اور قابلِ رشک صفات کی حامل خاتون تھیں ، آپ کی ابتدائی تربیت میں آپ کی والدہ ماجدہ کا بڑا حصہ ہے ، مگر افسوس کہ ابھی آپ کی عمر تقریباً نو سال تھی کہ 1355ھ مُطابق 5؍ نومبر 1936ء میں آپ کی والدہ ماجدہ کا وصال ہوگیا ۔ آپ نے والد صاحب حضرت شیخ الاسلامؒ سے بھی ابتدائی تعلیم حاصل کی ، پھر حضرت شیخ الاسلامؒ کے خادمِ خاص اور آپ کے خانوادے کے مربّی حضرت مولانا قاری اصغر علی صاحب سہسپوریؒ نے آپ کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری سنبھالی اور انہیں کے زیرِ نگرانی آپ نے تعلیم کے مراحل طے کئے ، مولانا قاری اصغر علی صاحب سہسپوریؒ حضرت فدائے ملتؒ کے اولین خصوصی استاذ اور مربی تھے ٬ حضرت قاری صاحبؒ حضرت فدائے ملتؒ کے قرآن مجید اور ابتدائی تعلیم کے علاوہ دارالعلوم دیوبند کی تعلیم کے بھی استاذ تھے ٬ انھیں حضرت فدائے ملتؒ سے مثل اولاد کے محبت تھی ۔ مکتبِی تعلیم کے بعد آپ کا داخلہ دارالعلوم دیوبند میں کرایا گیا ٬ یہ زمانہ 28؍ محرم 1361ھ مطابق 1942ء کا تھا ٬ اسی سال آپ دارالعلوم دیوبند میں کافیہ کی جماعت میں داخل ھوئے ۔ آپ نے از ابتداء تا انتہا تمام علوم کی تکمیل دارالعلوم دیوبند ہی میں رہ کر حاصل کی ۔ 1368ھ مطابق 1948ء میں دارالعلوم دیوبند سے فراغت حاصل کی ۔ جن جلیل القدر اساتذۂ کرام سے آپ نے کسبِ فیض کیا ان میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حُسین احمد صاحب مدنیؒ ، شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحب امروہویؒ ، امام المعقولات حضرت علّامہ ابراھیم صاحب بلیاویؒ ، حضرت مولانا سیّد اصغر حسین میاں صاحب دیوبندیؒ ، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری مُحمّد طیب صاحب قاسمیؒ ، حضرت مولانا مُحمّد ادریس صاحب کاندھلویؒ ، حضرت مولانا سیّد فخرالحسن صاحب مُرادآبادیؒ ، حضرت مولانا مفتی سیّد مہدی حسن صاحب شاہجہاں پوریؒ ، حضرت مولانا جلیل احمد صاحب علوی کیرانویؒ ، حضرت مولانا عبدالحق صاحبؒ بانی دارالعلوم حقّانیہ اکوڑہ خٹک ٬ حضرت مولانا سید اختر حسین صاحب دیوبندیؒ ٬ حضرت مولانا عبدالاحد صاحب دیوبندیؒ ٬ حضرت مولانا معراج الحق صاحب دیوبندیؒ ٬ حضرت مولانا عبدالسمیع صاحب انصاری دیوبندیؒ ٬ حضرت مولانا عبدالحق صاحب نافع گل نوشہرویؒ ٬ حضرت مولانا عبدالشکور صاحب دیوبندی مہاجر مدنیؒ ٬ حضرت مولانا محمد شریف صاحب کشمیریؒ ٬ حضرت مولانا حبیب اللہ سنبھلی ثم میرٹھیؒ ٬ حضرت مولانا قاضی مسعود احمد صاحب دیوبندیؒ ٬ حضرت مولانا عبدالخالق صاحب ملتانیؒ جیسے جلیل القدر اکابرین ، اساطینِ علم و فضل اور علوم نبوت کے آفتاب و ماہتاب شامل ہیں ۔

درس و تدریس :
دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد کچھ عرصہ تک مدینہ مُنوّرہ میں قیام فرمایا ، پھر 28 شوّال 1370ھ مطابق 2 اگست 1950ء میں دارالعلوم دیوبند میں تدریس کے لئے آپ کا اعزازی تقرّر کیا گیا اور پھر اس کے دو سال بعد 1372ھ مطابق 1952 میں آپ کی یہ تقرری مستقلی میں منتقل ہوگئی ، اس طرح 1382ھ مطابق 1962ء تک مُسلسل بارہ سال آپ نے دارالعلوم دیوبند کی مسند تدریس کو زینت بخشی اور زیادہ تر درجات متوسطہ کی کتابیں آپ کے زیر درس رہیں ، اس کے بعد ملّی ضروریات اور قومی خدمات کے پیشِ نظر درس و تدریس کا سِلسلہ موقوف ہوگیا اور آپ دارالعلوم دیوبند سے مستعفی ہوگئے ۔

بیعت و خلافت :
رمضان المبارک 1368ھ میں اپنے والد ماجد حضرت مدنیؒ کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے ، سفر و حضر میں ساتھ رہ کر سلوک و تصوف کے تمام مراحل طے کئے ۔ حضرت شیخ الاسلامؒ کے چشمۂ علم و عرفان سے بھرپور فیضیاب ہوئے اور حضرت شیخ الاسلامؒ اپنی اخیر زندگی میں متوسلین کو آپ کے حوالے کرنے لگے تھے جو آپ کی تکمیل کی طرف اشارہ تھا ، اسی بنا پر حضرت شیخ الاسلامؒ کے وصال کے بعد حضرت کے تمام خلفاء نے متفق ہوکر اجازتِ بیعت سے نوازا اور جانشینِ شیخ الاسلام مقرر کیا ، نیز شیخ الحدیث حضرت مولانا مُحمّد زکریا صاحب کاندھلوی مہاجر مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے حکم سے خصوصی اجازت مرحمت فرمائی ، حضرت مولانا شاہ عبدالقادر صاحب رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی خلعت خلافت سے سرفراز فرمایا ، اور بیعت و ارادت کا سلسلہ جاری رکھنے کا حکم فرمایا ۔ ان اکابر اہل اللہ نے آپ کو جس مقام و منصب پر فائز کیا تھا آپ نے اس منصب کی ذمہ داری کامل طریقہ پر نبھائی ۔ آپ کے ذریعہ نہ صرف ہندوستان بلکہ پورے برِصغیر ، افریقہ ، امریکہ ، انگلینڈ اور یورپ تک کے ہزاروں فرزندانِ توحید راہِ یاب ہوئے اور مدنی سلسلہ سے منسلک ہوئے یہ سلسلہ برابر جاری رہا ۔ آپ کے مریدین کی تعداد تقریباً 18؍ لاکھ اور مجاز طریقت خلفاء کی تعداد تقریباً 264 ہے ۔

جمعیۃ علماء ھند کے اسٹیج پر :
جمعیۃ علماء ہند سے فکری ہم آہنگی آپ کو گھریلو ماحول سے عطا ہوئی تھی ۔ آپ نے آنکھیں کھول کر تحریکات ہی تحریکات دیکھی تھیں ۔ اپنے عظیم باپ کی قربانیوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تھا اور حضرت شیخ الاسلامؒ کے جیلوں میں جاتے وقت فراق کے غم انگیز لمحات بھی دل پر پتھر رکھ کر برداشت کئے تھے ۔ ان حالات نے آپ کو تپاکر کندن بنادیا تھا ۔ قومی خدمت آپ کے رگ و پے میں رچ بس گئی تھی ۔ جمعیۃ علماء ہند سے آپ کو جذباتی لگاؤ تھا ۔ چنانچہ اپریل 1956ء میں حضرت شیخ الاسلامؒ کی زندگی ہی میں آپ جمعیۃ علماء دیوبند کے نائب صدر بنادئیے گئے ۔
1957ء کے اواخر میں شیخ الاسلام حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ صدر جمعیۃ علماء ہند کی وفات کے بعد جمعیۃ علماء ہند سے وابستہ حضرات کی نظریں بے اختیار آپ کی طرف اُٹھنے لگیں ۔ اس وقت پوری جماعت کے دلی جذبات آپ کے ساتھ تھے ، حضرت شیخ الاسلامؒ کے متوسلین کے لئے آپ کی شخصیت مرجع و سرچشمہ بن گئی ۔ آپ جہاں بھی جاتے عوام کا عظیم مجمع آپ کی زیارت اور آپ سے استفادہ کے لئے امڈ آتا ، نہ صرف عوام بلکہ خواص کی نظر میں بھی آپ کا مقام نہایت بلند تھا ۔ حضرت شیخ الاسلامؒ سے انتساب اور آپ کے نقش قدم کو مضبوطی سے پکڑے رہنے کی ادا نے آپ کو بڑے بڑے اکابر وقت کا مخدوم بنادیا تھا ۔
24 جون 1960ء میں مرادآباد میں جمعیۃ علماء یوپی کے اجلاس منتظمہ میں آپ کو ملک کے سب سے بڑے صوبہ اترپردیش کی جمعیۃ علماء کی صدارت کے منصب پر فائز کیا گیا ، ریاست بھر میں اس انتخاب پر مسرت محسوس کی گئی ، جہاں پہنچتے نہایت گرم جوشی سے استقبال کیا جاتا ، اسی دن سے آپ نے جمعیۃ علماء کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا اور پوری زندگی اور خدمات اسی کے لئے وقف کردیں ۔ اس دورِ صدارت میں حضرت فدائے ملتؒ نے خاص طور پر پورے صوبہ یوپی میں دینی تعلیمی بورڈ کا نظام مستحکم کرنے پر توجہ مبذول کی اور اسلامی شعائر کی حفاظت ، مسلمانوں کے تشخص کے تحفظ اور جمعیۃ علماء کی تنظیم پر زور دیا ۔
9 اگست 1963ء کو فخرالمحدثین حضرت مولانا سید فخرالدین صاحب مرادآبادیؒ کی زیر صدارت میں مجلس عاملہ کے مشورہ سے آپ کو جمعیۃ علماء ھند کا ناظم عمومی بنایا گیا اور اپنی بے مثال جدوجہد سے پوری جماعت میں تازگی پیدا کی ۔
حضرت فدائے ملتؒ کے ناظم عمومی بننے پر جمعیۃ علماء ہند اور دھلی معزز شہریوں کی طرف سے 8؍ ستمبر 1963ء کو دھلی کے مشہور کانسٹی ٹیوشن کلب میں پرتپاک استقبالیہ دیا گیا جس میں وزیر اعظم ہند جواہر لال نہرو نے بھی شرکت کی ۔ استقبالیہ ایڈریس کے جواب میں حضرت فدائے ملتؒ نے اپنی زندگی کا نصب العین ان الفاظ میں بیان کیا کہ میرے والد ماجد حضرت شیخ الاسلامؒ نے ہمیں ایمان و یقین اور تحصیل و اشاعتِ دین کے ساتھ وطن عزیز سے تعلق ، آزادی سے محبت اور انسانوں کی خدمت کی جو راہ دکھائی تھی میری کوشش یہی ہے کہ جب تک زندہ رہوں ان عنوانات پر زندگی کی داستان ترتیب دیتا رہوں ۔
ناظم عمومی کے منصب پر فائز ہونے کے بعد آپ نے جمعیۃ علماء ہند کے شایانِ شان مرکزی دفتر کی تعمیر اور حضرت مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمٰن صاحب سیوہاروی رحمۃ اللہ علیہ کے دیرینہ خواب کی تکمیل پر بھرپور توجہ دی ۔ نئی دھلی کے انتہائی برمحل اور جائے وقوع کے اعتبار سے نہایت مصروف علاقہ میں واقع قدیم مسجد عبدالنبی اگرچہ 2؍ فروری 1963ء کو جمعیۃ علماء ہند کے حوالہ کی جاچکی تھی ، حضرت فدائے ملتؒ نے تعمیری منصوبوں میں مرکزی دفتر کی تعمیر اور مسجد کی آبادی کو اوّلین حیثیت دی ۔ آپ کی شبانہ روز جدوجہد سے 1965ء کے اوائل میں جمعیۃ علماء ہند کا مرکزی دفتر گلی قاسم جان کی مصروف گلیوں سے نکل کر مسجد عبدالنبی (آئی ٹی او) میں منتقل ہوگیا ۔
19؍ اپریل 1965ء کو شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی مہاجر مدنی رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت جی مولانا انعام الحسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ و دیگر اکابر تبلیغ کی معیت میں مسجد عبدالنبی میں تشریف لائے اور دعاؤں سے نوازا ۔
22؍ اپریل 1965ء کو فخرالمحدثین حضرت مولانا سید فخرالدین صاحب مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند کی صدارت میں جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کا اجلاس مسجد عبدالنبی میں پہلی مرتبہ منعقد ہوا ۔ آج الحمد للہ یہ دفتر پوری شان و شوکت کے ساتھ ہندوستان میں مسلمانوں کی زندگی کی علامت بن چکا ہے ۔ اب یہ صرف مسجد تک محدود نہیں رہا بلکہ شاندار مدنی ہال ، محمودیہ لائبریری ، مہمان خانہ ، مفتی کفایت اللہؒ ہال ، دفتر محکمہ شرعیہ ، دفتر ہفت روزہ الجمعیۃ ، کمپیوٹر سینٹر اور جدید سہولیات سے آراستہ خوبصورت کمپلیکس میں تبدیل ہوچکا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اسے ہمیشہ اسی طرح شاداب رکھے آمین ثم آمین ۔
1968ء مطابق 1388ھ میں آپ کو جامعہ ازہر مصر کی اِسلامی تحقیقات اکیڈمی کا نمائندہ منتخب کیا گیا اور 1968ء ، 1970ء 1971ء اور 1972ء میں اُس کی چوتھی ، پانچویں ، چھٹی اور ساتویں کانفرنس منعقدہ قاہرہ میں شریک ہوئے ۔
آپ 9؍ اگست 1963ء سے 10؍ اگست 1963ء تک (10 سال) جمعیۃ علماء ہند کے ناظم عمومی کے منصب پر فائز رہے ۔
11 اگست 1973ء بمطابق 18؍ شعبان 1393ھ کو مجلس عاملہ کے اجلاس میں آپ کو جمعیۃ علماء ھند کا بالاتفاق صدر منتخب کیا گیا جس پر تادمِ حیات 6؍ فروری 2006ء تک مسلسل 33 سالوں تک اس عظیم منصب پر فائز رہ کر جمعیۃ کا قافلہ آپ کی قیادت میں ملک و مِلّت کے لئے عظیم خدمات انجام دیتا رہا جن کا احاطہ دشوار ہے یہاں تک کہ آپ اللہ کو پیارے ہوگئے ۔
آپ نے اپنے دورِ صدارت و نظامت میں پورے ملک میں جمعیۃ علماء ہند کی شاخوں کا جال بچھادیا اور اس کے تمام شعبوں کو اتنا شاندار متحرک اور فعال بنادیا کہ جمعیۃ کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔ جمعیۃ علماء ہند کے تعلق سے آپ کی خدماتِ جلیلہ کے عنوانات (جو اپنی جگہ مستقل تاریخ ہیں) کی مختصر فہرست اس طرح ہے ۔ فسادات کی روک تھام اور مظلومین کی امداد اور فریاد رسی ، مسئلہ کشمیر ، مسئلہ آسام مسلم اوقاف کی حفاظت اور جدوجہد اردو کا تحفظ اور اس کی بقا ، عالمِ اسلام سے ملت کا واسطہ اور تعلق ، بابری مسجد ، مسلم یونیورسٹی کا تحفظ اور اس کے اقلیتی کردار کی بحالی کے لئے جدوجہد ، مسئلہ ارتداد اور اس کا ڈٹ کر مقابلہ ، مسلمانوں کی اقتصادی بحالی کے پروگرام ، مسلم پرسنل لاء ، تحفظ حرمین شریفین ، مسئلہ فلسطین ، مسئلہ ، افغانستان ، چیچنیا ، بوسنیا ، مسئلہ عراق و کویت ، تحفظ شریعت ، تحفظ حقوق شہریت ، یکساں سول کوڈ ، اصلاح معاشرہ ، رویت ہلال ، امارتِ شرعیہ ، مسئلہ کسٹوڈین ، جبری نسبندی ، تعمیری و تعلیمی پروگرام ، ارتدادی علاقوں میں مکاتب کا قیام ، عصری تعلیمی اداروں کا قیام اور اس کے لئے جدوجہد ، ملت اسلامیہ ہندیہ کے حقوق کی بازیابی کے لئے جدوجہد اور فرقہ باطلہ اور فرقہ ضالہ کا دفاع ، فتنہ قادیانیت کی بیخ کنی کے لئے جدوجہد ، مسلک دیوبند اور اکابرین دیوبند کی خدماتِ جلیلہ کا عالم اسلام میں تعارف ، دارالعلوم دیوبند اور دیگر عظیم مدارس کی سرپرستی اور شوریٰ کی رکنیت ، محاکم شرعیہ کا قیام ، ادارۃ المباحث الفقہیہ کا قیام اور مشکل مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے پورے ملک کے مفتیان کرام اور بالبصیرت علماء کرام کے فقہی اجتماعات ہیں جو مستقل تصانیف کی متقاضی ہیں اور ان شاءاللہ کوئی مؤرخ اس عظیم خدمت کو انجام دے گا ۔
حضرت مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمٰن صاحب سیوہاروی رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کے بعد سے پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی حمایت میں کھل کر آواز اُٹھانے والے کی کمی شدت سے محسوس ہوتی تھی ضرورت تھی کہ اس خلا کو پُر کیا جائے ۔
بالآخر 1968ء میں متعدد حلقوں اور شخصیتوں کے اصرار نیز حالات کے تقاضوں کے تحت راجیہ سبھا کا الکیشن لڑنے کے لئے تیار ہوئے اور منتخب ہوکر پارلیمنٹ میں پہنچے اور ملت کی وہ آرزوئیں پوری کر دِکھائیں جو حضرت مجاہد ملّتؒ کے انتقال کے بعد آپ کی ذات سے وابستہ کی گئی تھیں ۔
1968ء تا 1994ء تین ٹرم (18) سال پارلیمنٹ کے ممبر رہ کر ملک و ملت کے تمام مسائل کی پوری جراءت و بیباکی کے ساتھ ترجمانی کی اور اعلائے کلمۃ الحق عند السلطان الجائز کا فریضہ انجام دیا اس عرصہ میں آپ کی 56 تقریریں پارلیمنٹ کے ریکارڈ میں محفوظ ہیں اور کتابی شکل میں بھی شائع ہوچکی ہیں جو جراءت و بیباکی اور حق گوئی کی زرّیں شاہکار اور اعلائے کلمتہ الحق کی روشن مثال ہیں ۔ جن کے مطالعہ کے بعد کوئی شخص یہ کہے بغیر نہ رہ سکے گا کہ اگر حضرت فدائے ملتؒ وہاں نہ ہوتے تو ملک کے منتخب نمائندوں اور ذمہ داروں کے سامنے مسلمانوں کے مسائل بھی اس طرح سے نہ آسکتے ۔
حضرت مولانا سید اسعد مدنیؒ کی سیاست کو ایک اور اعزاز اور امتیاز حاصل ہے کہ جمعیۃ علماء ہند کے پلیٹ فارم سے آپ نے ہمیشہ مسلمانوں کے حقوق کی لڑائی اربابِ اقتدار سے لڑی ۔ ملّی امور اور مسلمانوں کے مسائل میں کبھی مصلحت کوشی سے آپ نے کبھی کام نہیں لیا ۔ آپ نے اسلاف کے سچے جانشین اور اکابر کے ورثہ کے امین اور رہنما ہونے کے ناطے جمعیۃ علماء ہند وقار اور اس کے اثرات ہی میں اضافہ نہیں کیا بلکہ اس کے وسائل اور ذرائع میں بھی اضافہ کیا ، اپنی سیاسی قوت اور جماعتی وحدت کو اقتدار کی سودا بازی اور بڑی طاقتوں کی سازشوں کی تکمیل کا ذریعہ نہیں بنایا ، ورنہ وہ کونسا عہدہ تھا جو انہیں نہیں مل سکتا تھا ، مگر آپ نے مسلمانوں کی وحدت اور اپنی سیاسی قوت کو اقتدار کے گرداب میں نہیں پھنسایا بلکہ مکمل آزادی ، خدمت اور انقلاب کی جدوجہد کرتے رہے ۔ آپ نے سیاست کا سبق مغرب کی کتاب سے نہیں پڑھا بلکہ یہ درس بارگاہِ رسالت مآب ﷺ سے لیا ، کیونکہ سیاسی مہنت چودہ سو سال پہلے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھنے کی آفر کیا کرتے تھے اور آج بھی عالمی طاقتیں اسی طرح کی مرغوب پیشکش ہر وقت اپنی جیب میں رکھتی ہیں ، مگر حضرت مولانا سید اسعد مدنیؒ نے ہر چمک کو ٹھکرادیا وہ مستضعفینِ جہاں کے نزدیک جانِ آرزو کا درجہ حاصل کرچکے تھے ۔
آپ دارالعلوم دیوبند کے فرزند جلیل اور نامور فیض یافتگان میں سے ہیں ، دارالعلوم دیوبند ہی سے آپ کو سب کچھ حاصل ہوا ، بلاشبہ آپ اپنے مادر علمی مخلص سپوت ہیں اس لئے مادر علمی کی خدمت اور اس کی ترقی و استحکام کے لئے جدوجہد آپ کا نصب العین رہا ہے ۔ دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد مسلسل بارہ سال تک دارالعلوم ہی میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے پھر بعض ملی ، قومی تقاضوں کے پیش نظر اگرچہ تدریسی ذمہ داریوں سے خود علاحدگی اختیار کرلی تھی مگر باہر رہ کر دارالعلوم دیوبند کی خدمت انجام دیتے رہے ۔ اجلاس صدسالہ کے موقع پر دارالعلوم دیوبند کے لئے آپ کی خدمات دارالعلوم کی تاریخ میں سنہرا باب ہیں ۔
مطابق 1985ء بمطابق 1405ھ میں دارالعلوم دیوبند کی ہیئت حاکمہ مجلس شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے ، دارالعلوم دیوبند میں شورائی نظام کی بحالی و بالادستی میں نمایاں خدمات انجام دیں ۔ دارالعلوم دیوبند کے وسائل کی توسیع ، تعمیر و ترقی اور دیگر امور میں آپ کی مخلصانہ کاوشیں تادمِ حیات قائم رہیں ۔ اور آپ کی مساعئی جمیلہ سے دارالعلوم کا حلقہ اثر داخلی اور خارجی ہر اعتبار سے شاہراہ ترقی پر رواں دواں رہا ، دارالعلوم دیوبند کی نشاۃِ ثانیہ کے بعد اس کی تعلیمی و تبلیغی خدمات کی توسیع و ترقی میں آپ کا بڑا ہاتھ تھا ۔ دارالعلوم دیوبند میں کل ہند مجلس تحفظ ختم نبوت کا قیام ، شعبہ تخصص فی الحدیث ، شعبہ انگریزی ادب ، شیخ الہندؒ اکیڈمی وغیرہ کا اضافہ آپ کی خصوصی دلچسپی کا ثمرہ ہے ۔
غرض آپ کمالات و فضائل کا مجمع البحار تھے اور آنے والی نسل بلاشبہ آپ کے لائق تقلید کارناموں سے فائدہ اٹھائے گی اور آنے والے مؤرخین آپ کی حیات طیبہ کے مخفی گوشوں پر لکھتے رہیں گے ۔

آپ کا اہم کارنامہ :
2 نومبر 1986ء بمطابق 28؍ ربیع الاوّل 1407ھ کو مدنی ہال بہادر شاہ ظفر مارگ نئی دھلی میں علماء کرام ، مفتیان عظام اور دانشوران ملک و ملت کا ایک عظیم اجتماع منعقد ہوا جس میں پورے ملک کے چودہ صوبوں سے تین ہزار افراد شریک تھے اور باتفاق رائے امارت شرعیہ ہند کے قیام کا فیصلہ کیا گیا ، اس کا اولین امیرالہند مُحدّثِ کبیر حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی رحمۃ اللہ علیہ اور نائب امیرالہند آپ کو منتخب کیا گیا ۔ 1992ء میں امیرالہند حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمیؒ کے انتقال کے بعد 9؍ مئی 1992ء کے عظیم الشان نمائندہ اجتماع میں آپ کو امیرالہند منتخب کیا گیا ، جس پر تادمِ واپسیں فائز رھے اور دینی ، قومی ، مِلّی ، سماجی ، سیاسی اور معاشرتی خدمات انجام دیتے رھے ۔ آپ تاحیات آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکنِ تاسیسی رہے ، عملی میدان میں سرگرم کار ہونے کے اولین مرحلے میں ہی آپ نے غیر سودی مسلم فنڈ دیوبند میں قائم کیا ، جس کی متعدد شاخیں ملک کے طول و عرض بالخصوص مغربی یوپی میں قائم ہوچکی ہیں ۔ جمعیۃ علماء ھند کے پلیٹ فارم سے آپ نے ہندوستانی مسلمانوں کی شاندار مثالی قیادت کی اور بے لوث خدمات کی ایک روشن تاریخ رقم کی ، ملک میں مسلمانوں کو پیش آنے والے تمام چیلنجوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ہر موڑ پر ملت اسلامیہ کی شاندار قیادت کی ، آزاد ہند میں مسلم اقلیت کی خدمات کے حوالے سے آپ کا نام تاریخ میں جلی حروف میں لکھا جائے گا ۔
ان ہمہ جہت خدمات اور کثرتِ اسفار کے ساتھ آپ کا ذوقِ عبادت ، اتباعِ سنت ، نماز باجماعت اور شب بیداری قابلِ رشک ہے ۔ حضرت فدائے ملتؒ کی ایک اہم صفت نماز باجماعت اور قیام اللیل کی پابندی تھی ، نماز کو انتہائی خشوع و خضوع و اطمینان سے ادا کرنے میں وہ ممتاز حیثیت کے حامل تھے ۔ ارکان کی ادائیگی اور تمام اجزائے صلوٰۃ کو پورا کرنے میں درازی ، سکون اور انہماک ، میں نے اُن کی طرح بہت کم لوگوں میں دیکھا ہے ، خواہ کتنی عجلت ہو نماز میں رواداری اور کنسیشن کے قائل اور عامل نہ تھے ، لوگوں کو کتنی ہی عجلت ہو ، کوئی بڑا لیڈر آرہا ہو یا انہیں کسی سے ملنے جانا ہو ، گاڑی تیار ہو ، دسترخوان چُن دیا گیا ہو ، جلسے کے منتظمین عجلت مچارہے ہوں ، حضرت فدائے ملتؒ نماز شروع کرنے کے بعد اس کو انتہائی اطمینان ہی سے ادا کرتے تھے ۔
حضرت فدائے ملتؒ میں مرد ہوشیار کی ذہانت ، قائد کی دور رسی ، سپہ سالار کی جراءت ، عالم کا وقار ، داعی کی حکمتِ عملی ، سیاست داں کی سمجھداری ، سپاہی کی تیز روی ، برسرِ جنگ سالارِ لشکر کی احساسِ ذمہ داری ، مصلح کی فکر مندی ، مثالی عبادت گذار کا انہماک ، پیدائشی فیاضی و سخی کی کشادہ دلی اور ہمہ جہت مقابلے کی صلاحیت رکھنے والے مُحارِب کی چوکسی اور بیداری تھی ۔

حج و زیارت :
آپ کو حرمین شریفین کی حاضری اور حج بیت اللہ کی زیارت کا والہانہ ذوق نصیب ہوا تھا اور اللہ تعالی کی طرف سے اس کی قابلِ رشک توفیق بھی ملی ۔ اس سعادت و خصوصیت میں بھی آپ اپنی مثال آپ ہیں ۔ دستیاب معلومات کے مطابق آپ نے 37 حج اور 32 عمرہ کے سفر فرمائے ۔ اِیں سعادت بزور نیست ۔

اسفار :
فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنیؒ نے دنیا کے کونے کونے کا لاتعداد مرتبہ سفر کیا ، ذرائع اِبلاغ کے مطابق کثرتِ اسفار کے حوالے سے برِصغیر کا کوئی عالم اور قائد یا داعی الی اللہ آپ کی ہمسری نہ کرسکا ۔ آپ نے اندرونِ ہند و بیرونِ ہند دعوتی ، اصلاحی ، ثقافتی اغراض اور سیمیناروں ، کانفرنسوں اور دینی و سیاسی جلسوں میں شرکت کے لئے ، ملک کے گوشے گوشے میں اتنی بار سفر کیا کہ اخبار نویسوں کے بہ قول آپ نے اپنے مستقر پر قیام کم اور سفر میں اپنی زندگی کے اوقات زیادہ گذارے ۔

مرض الموت :
1425ھ میں کعبہ مُشرّفہ کے غسل موقع سے ، سعودی عرب کی دعوت پر آپ مکۂ مکرّمہ تشریف لے گئے ، جہاں حج و زیارت سے شرف یاب ہوئے ۔ مدینہ منورہ میں قیام کے دوران شدید طور پر بیمار ہوگئے ، آپ وہاں ایک ہسپتال میں زیرِ علاج رہے ، مرض کی شدت کے کم ہونے کے بعد آپ وطن لوٹ آئے اور دھلی میں "اپولو" ہسپتال میں زیرِ علاج رہ کر ایک مدت کے بعد صحت یاب ہوکر گھر واپس آگئے ؛ لیکن صحت کی قدرتی حالت بحال نہ ہوسکی ۔

وفات :
5؍ نومبر 2005ء مطابق 2؍ شوّال المُکرم 1426ھ بروز شنبہ کو آپ وہیل چیئر پر ، دھلی سے دیوبند واپسی پر اپنے گھر میں داخل ہورہے تھے کہ اُس سے پھسل گئے ، جس کے نتیجے میں سر کے پچھلے حصے میں شدید ضرب آئی ، دماغ میں گہرا زخم آیا ، خون زیادہ بہنے کی وجہ سے دماغ کی رگیں ناکارہ ہوگئیں اور آپ مفلوج ہوگئے ، رات ہی میں دھلی لے جایا گیا ، دھلی کے "اپولو" ہسپتال میں دوبارہ داخل کئے گئے اور انتہائی نگہداشت والے کمرہ میں ایڈمٹ کئے گئے ، جہاں اعلیٰ سے اعلیٰ علاج ہوتا رہا ، لیکن آپ مُسلسل تین ماہ پانچ دن تک بیہوش رھے ، عیادت کنندوں اور معاشرے کے ہر طبقے کے سیکڑوں لوگوں کی روزانہ آمد و رفت رہی ، جو آپ کی خبر خیریت معلوم کرنے کے لئے ہسپتال کے زیریں ملاقاتی ہال میں بھیڑ لگائے رہتے تھے ، وقتِ آخر آچکا تھا ، اس لئے ساری تدبیریں ناکام ثابت ہوئیں اور 7؍ مُحرّم الحرام 1427ھ مطابق 6؍ فروری 2006ء بروز دوشنبہ کی شام پونے چھ بجے بمقام اپولو ہوسپٹل نئی دھلی یہ آفتابِ عزیمت غروب ہوگیا ۔ 8؍ بجے کے قریب آپ کا جنازہ بذریعہ ایمبولینس جمعیۃ علماء ہند کے آئی ٹی او میں واقع مرکزی دفتر میں لایا گیا ، کچھ ہی دیر بعد ملک کے وزیر اعظم جناب منموہن سنگھ ، کانگریس پارٹی کی صدر محترمہ سونیا گاندھی دسیوں وزراء اور معزز سیاسی و سماجی شخصیات اپنے محبوب کا آخری دیدار اور خراج تحسین پیش کرنے کے لئے جمعیۃ علماء ہند کے مرکزی دفتر پہنچے ، تقریباً رات ساڑھے دس بجے بذریعہ ایمبولینس حضرتؒ کا جسد خاکی دیوبند کے لئے روانہ ہوا ساتھ گاڑیوں کا ایک قافلہ دیوبند کے لئے روانہ ہوا اور تین بجے شب میں دیوبند پہنچا تو ہزاروں انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اپنے شیخ کے آخری استقبال کے لئے جی ٹی روڈ پر موجود تھا ۔ جنازہ حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب کے مکان پر لایا گیا جہاں گھر کی تمام مستورات جمع تھیں ، فوراً غسل دیا گیا اور پھر کچھ دیر تک اہل خانہ کی زیارت کے لئے رکھ دیا گیا ، صبح پانچ بجے جنازہ کو دارالعلوم دیوبند کی دارالحدیث میں آخری دیدار کے لئے لے جایا گیا بہ مشکل تمام 40؍ منٹ میں جنازہ گھر سے دارالحدیث پہنچا ، نماز فجر کے کچھ دیر بعد سات بجکر بیس منٹ پر جنازہ دارالحدیث سے باہر لایا گیا اور باب الظاہر کے سامنے رکھ دیا گیا ، مجمع اتنا زیادہ تھا کہ نہ صرف دارالعلوم دیوبند چپہ چپہ لوگوں سے بھرا ہوا تھا ، شمال میں مدنی گیٹ سے گذر کر مسجد رشید کے آخری گوشہ تک جنوب میں معراج گیٹ سے ہوکر رواق خالد کے صحن تک ۔ مشرق میں دارالعلوم کے مہمان خانہ کے پیچھے تک ۔ اس درمیان کے تمام صحن ، دالان ، درسگاہیں ، طلبہ کی قیام گاہیں ، نوردہ ، احاطۂ مولسری ، صدر گیٹ وغیرہ میں اوپر تلے کوئی ایسی جگہ خالی نہ تھی جہاں نمازِ جنازہ کے لئے صفیں نہ لگی ہوں ۔ جن لوگوں کو دارالعلوم دیوبند دیکھنے کی سعادت حاصل ہے وہ بخوبی اس کی وسعت کا اندازہ لگاسکتے ہیں ۔ اسی پر بس نہیں بلکہ لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے کہ چڑھا آرہا ہے اور لوگ حیرت زدہ ہیں کہ اتنی صبح اتنی کثرت سے لوگ کہاں سے آگئے اور کیسے انہیں خبر ہوئی ۔
8؍ مُحرّم الحرام 1427ھ مطابق 7؍ فروری 2006ء کو بعد نماز فجر ٹھیک اشراق کے وقت صُبح 7؍ بجکر 25 منٹ پر دارالعلوم دیوبند میں حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی مہاجر مدنیؒ کے صاحبزادۂ محترم پِیر طریقت حضرت مولانا مُحمّد طلحہ صاحب کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کی امامت میں لاکھوں افراد نے نماز جنازہ ادا کی ، جس میں ایک لاکھ سے زائد عُلماء و مَشائخ ، طالبانِ علوم نبوّت اور عام مسلمانوں نے شرکت کی ، اخباری نمائندوں کے مطابق ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد نے آپ کے جنازے میں شرکت کی ، جنازہ میں لمبی لمبی بلّیاں باندھ دی گئی تھیں کے لے جانے میں سہولت ہو اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو کاندھا دینے کی سعادت حاصل ہو ، اب جنازہ کو قبرستان تک لے جانا بڑا اہم مرحلہ تھا ، آنے والوں کا جو سلسلہ رات سے شروع ہوا تھا تسلسل کے ساتھ جاری تھا اور مجمع اندازے سے باہر ہوگیا تھا ، اور ہر فرد کی یہ خواہش تھی کہ جنازہ کو کندھا دینے کی سعادت حاصل کرے ، لیکن یہ ناممکن تھا ، احاطۂ دارالعلوم سے لے کر قبرستان قاسمی تک کوئی دیوار ، مکان ، یا اونچی عمارت حتیٰ کے درخت ایسا نہیں تھا جس پر لوگوں کا جم غفیر موجود نہ ہو جس کو جہاں جگہ ملی کھڑا ہوگیا اور حسرت بھری نگاہوں سے جنازہ کی آمد کا منظر دیکھنے لگا ، اِدھر جنازہ کو دیکھئے تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ پانی میں تیر رہا ہے ۔ وہ تو اچھا ہوا کہ بروقت نماز جنازہ ہوگئی ورنہ اگر تھوڑی بھی تاخیر کردی جاتی ۔ جیسا کہ آنے والے لوگوں کا برابر اصرار تھا ، تو مجمع بے قابو اور کنٹرول سے باہر ہوجاتا ۔ دارالعلوم سے قبرستان قاسمی تک کی مسافت جو مشکل سے پانچ منٹ میں طے ہوجاتی تھی ، آج وہ قبرستان آنے کا نام نہیں لے رہا تھا ، پھر بھی مدنی گیٹ سے ہوتا ہوا تقریباً دو گھنٹے میں جنازہ قبرستان قاسمی میں پہنچا ، جہاں حضرت فدائے ملت کو ان کی آخری آرام گاہ پہنچایا گیا ، اب آپ کو آخری آرام گاہ میں اتارنے کی تیاری کی جانے لگی ، حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم نے فرمایا کہ :" حفّاظ قرآن ہی آپ کو قبر میں اتاریں ۔" چنانچہ حضرت مولانا سید ارشد صاحب مدنی ، حضرت مولانا سید اسجد صاحب مدنی ، حضرت مولانا سید محمود صاحب مدنی ، مولانا محمد مدنی صاحب ، مولانا ازہد مدنی صاحب ، مفتی سید محمد سلمان صاحب منصورپوری اور مفتی سید محمد عفان صاحب منصورپوری نے آپ کو قبر اتارا ، اور دیوبند کے تاریخی قبرستان مزارِ قاسمی میں اپنے والد ماجد شیخ الاسلام حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے پہلو میں جانبِ غرب ہمیشہ کے لئے علم و عمل ، روح و تقویٰ ، خلوص و للّٰہیت ، جراءت و شجاعت اور روحانیت و عزیمت کے اس عظیم پیکر کو سپردِ خاک کیا گیا ۔ رحمۃ اللہ رحمۃً واسعۃً ۔

پسماندگان :
آپ نے اپنے پیچھے پانچ بیٹے ، دو بیٹیاں اور دو بھائی ، اُن کی والدہ محترمہ (جو اَب رحلت فرماچکی ہیں) اور خاندان کے بہت سے افراد کے ساتھ ساتھ مریدین ، متوسلین ، معتقدین ، مُحبّین اور اہل تعلق کی بہت بڑی تعداد چھوڑی ۔
(ماہنامہ دارالعلوم دیوبند ، مارچ 2006ء ، ہفت روزہ الجمعیۃ اکتوبر 1995ء ، جمعیۃ علماء نمبر : ص 248 ۔ 255 ، تاریخ شاھی ص : 288 ، پسِ مرگ زندہ ص : 763 ۔ 765 ، تذکرہ اکابر : ص 281 ، حیاتِ فدائے مِلتؒ ٬ دارالعلوم دیوبند کی جامع و مختصر تاریخ : ص 676 ، ہفت روزہ الجمعیۃ فدَائے مِلت نمبر اپریل 2007ء ، سات عالمی شخصیات : ص 355 ، لالۂ وگل : ص 412)

Address

Deoband

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Darul Uloom Deoband posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share