EnewsDaily

EnewsDaily Public awareness, national & international up-to-date information, current affairs.

12/06/2024

A mutoscope from 1930s.
A coin-operated machine that shows a succession of still photographs as a moving picture.

Ibn Arabi’s diagram of Spiritual Realm and metaphysical self. ORThis is the source of the diagram, based on Ghazali’s Ih...
12/06/2024

Ibn Arabi’s diagram of Spiritual Realm and metaphysical self.
OR
This is the source of the diagram, based on Ghazali’s Ihya Ulum Al-Din.

Central Circle:

قلب (Kalb)
The heart, considered the spiritual center of a person and the point closest to Allah.

عقل (Aql)
The mind, representing the capacity for thought and understanding, closely connected to the heart.

روح (Ruh)
The soul, regarded as a divine element residing at the heart’s center.

Middle Circle:

نفس (Nafs)
The self or ego, which passes through different stages of development and purification.

النفس الأمارة بالسوء (Nafs al-Ammara)
The soul inclined towards evil, the first and lowest stage of the self.

النفس اللوامة (Nafs al-Lawwama)
The self-reproaching soul, the second stage, characterized by self-reflection and remorse for wrongdoing.

النفس المطمئنة (Nafs al-Mutmainna)
The soul at peace, the highest stage of the self, marked by tranquility and contentment in Allah’s will.

Outer Circle:

فطرة (Fitra)
The natural and pure state of a person at birth.

آخرة (Akhira)
The afterlife, representing the life after death.

منجيات (Munjiyat)
Means of salvation, actions, and practices that lead to spiritual safety and success.

تزكية النفس (Tezkiye-i Nefs)
The purification of the self, a process of cleansing the heart and soul from spiritual diseases.

تهذيب الأخلاق (Tahzib-i Ahlak)
The refinement of morals, improving one’s character and behavior.

جهاد النفس (Jihad Al Nafs)
The struggle against the self, fighting inner desires and impulses to achieve spiritual growth.

شيطان (Shaytan)
Satan, the entity that tempts and directs towards evil.

غفلة (Ghafle)
The state of heedlessness, being neglectful and absorbed in worldly distractions.

دنيا (Dunya)
The material world and its temporary pleasures and distractions.

مهلكات (Mulikat)
Dangers to the soul, elements that endanger spiritual well-being and lead to moral and spiritual decline.

people claimed in Turkish circles that this is a diagram of Ibn Arabi, but obviously this is just a depiction of the inner world and spiritual ascension which confirms with his teachings.

In a sense this is a visual diagram of his works in this regards and a very useful one.

12/06/2024

تو نے جس وقت یہ انسان بنایا یا رب
اس گھڑی مجھ کو تو ایک آنکھ نہ بھایا یا رب
اس لیے میں نے سر اپنا نہ جھکایا یا رب
لیکن اب پلٹی ہے کچھ ایسی ہی کایا یا رب
عقل مندی ہے اسی میں کہ میں توبہ کر لوں
سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لوں

ابتداءً تھی بڑی نرم طبیعت اس کی
قلب و جاں پاک تھے شفاف تھی طینت اس کی
پھر بتدریج بدلنے لگی خصلت اس کی
اب تو خود مجھ پہ مسلط ہے شرارت اس کی
اس سے پہلے کہ میں اپنا ہی تماشا کر لوں
سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لوں

بھر دیا تو نے بھلا کون سا فتنہ اس میں
پکتا رہتا ہے ہمیشہ کوئی لاوا اس میں
ایک اک سانس ہے اب صورتِ شعلہ اس میں
آگ موجود تھی کیا مجھ سے زیادہ اس میں
اپنا آتش کدۂ ذات ہی ٹھنڈا کر لوں
سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لوں

اب تو یہ خوں کے بھی رشتوں سے اکڑ جاتا ہے
باپ سے بھائی سے بیٹے سے بھی لڑ جاتا ہے
جب کبھی طیش میں ہتھے سے اکھڑ جاتا ہے
خود مرے شر کا توازن بھی بگڑ جاتا ہے
اب تو لازم ہے کہ میں خود کو ہی سیدھا کر لوں
سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لوں

مری نظروں میں تو بس مٹی کا مادھو تھا بشر
میں سمجھتا تھا اسے خود سے بہت ہی کمتر
مجھ پہ پہلے نہ کھلے اس کے سیاسی جوہر
کان میرے بھی کترتا ہے یہ لیڈر بن کر
شیطنت چھوڑ کے میں بھی یہی دھندا کر لوں
سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لوں

اب جھجھکتا ہے نہ ڈرتا ہے نہ شرماتا ہے
نت نئی فتنہ گری روز یہ دکھلاتا ہے
اب یہ ظالم مرے بہکاوے میں کب آتا ہے
میں برا سوچتا رہتا ہوں یہ کر جاتا ہے
کیا ابھی اس کی مریدی کا ارادہ کر لوں
سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لوں

اب جگہ کوئی نہیں میرے لیے دھرتی پر
میرے شر سے بھی سوا ہے یہاں انسان کا شر
اب تو لگتا ہے یہی فیصلہ مجھ کو بہتر
اس سے پہلے کہ پہنچ جائے واں سوپر پاور
میں کسی اور ہی سیارے پہ قبضہ کر لوں
سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لوں

ظلم کے دام بچھائے ہیں نرالے اس نے
نت نئے پیچ عقائد میں بھی ڈالے اس نے
کر دیے قید اندھیروں میں اجالے اس نے
کام جتنے تھے مرے سارے سنبھالے اس نے
اب تو خود کو میں ہر اک بوجھ سے ہلکا کر لوں
سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لوں

استقامت تھی کبھی اس کی مصیبت مجھ کو
اپنے ڈھب پر اسے لانا تھا قیامت مجھ کو
کرنی پڑتی تھی بہت اس پہ مشقت مجھ کو
اب یہ عالم ہے کہ دن رات ہے فرصت مجھ کو
اب کہیں گوشہ نشینی میں گزارہ کر لوں
سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لوں

مست تھا میں ترے انساں کی حقارت کر کے
خود پہ نازاں تھا بہت تجھ سے بغاوت کر کے
کیا ملا مجھ کو مگر ایسی حماقت کر کے
کیا یہ ممکن ہے کہ پھر تیری اطاعت کر کے
اپنے کھوئے ہوئے رتبے کی تمنا کر لوں
سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لوں

طالب خوّند مِیری

11/06/2024

Calcium Carbide→ (Gun Powder):

11/06/2024

مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ،

10/06/2024
"When we pick up the phone, we say ' ' But what is 'Hello'?It is not a greeting but rather the name of a person.It is ' ...
10/06/2024

"When we pick up the phone, we say ' ' But what is 'Hello'?

It is not a greeting but rather the name of a person.

It is ' Hello,' the fiancée of the inventor ' .'

It was the first word he said in the initial test of his ,
and it has been used since then as the opening of any call worldwide."

10/06/2024

The art of gold/silver beating to make gold or silver leaves (1959).

10/06/2024

When phone becomes addiction,

10/06/2024

5336 likes, 206 comments. “ #ہم واہگہ باڈر پر ٹانگے اُٹھاتے رہ گئے اور بھارت نے PIA کا سانس لینا محال بنا دیا!لمحہ فکریہ”

10/06/2024

جب ایک پاکستانی صحافی نے بنگلادیش میوزیم کا دورہ کیا تو وہ حیران رہ گیا کہ کیسے یہ سب کچھ قوم سے چُھپایا گیا!!
کیسے اپنے ہی عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے!!

10/06/2024

Whatever decision we take, its consequences good or bad, we will have to live with them.

Husband said to his wife – I am going out with my friends. She replied – Ok.
After a while, son said – Mother, I got my results for mock exams and it’s not good. Son expected to get a scolding from his mother but to his surprise, his mother calmly said – Ok. If you work hard you will be able to do good and if not you have to repeat semester. It’s up to you.
Next day, her daughter came to her and hesitatingly said – Mother, I smashed car. Daughter was scared that mother would get angry but to her surprise, she said – Ok. take it to car shop and get it fixed.

'Person' was usually irritated and grumpy, was now suddenly changed.

Seeing such reactions, everyone got worried and thought if something was wrong. Everyone came to her and asked,
“Is something wrong? Why are you acting so calm?”

She smiled and replied, “It took me a long time to realize that, each person is responsible for their own life.
I realized that my anguish, worrying, anxiety, stress… doesn’t solve your problems but aggravates mine. I realized that i can only give you advice if you ask but it depends on you to follow or not. Whatever decision you take, its consequences good or bad, you will have to live with them. I am not responsible for actions of anyone. I realized that i can only control myself. My job is to care for you, love you, encourage you but after that it all depends on you to solve you problems and find your own happiness.
Therefore, I should remain calm and let each of you solve your problems yourself.” Everyone at home was speechless. From that day on, the family began to function better because everyone in the house knew exactly what it is that they needed to do!

Credit to the respective owner ✍️

10/06/2024
10/06/2024

قینچی:Sisors
Made in Pakistan:

10/06/2024

اَن ہیپی پاکستان!

اس موضوع پر پہلے بھی لکھا ہے. مجھے تو پاکستان میں اترتے ہی آس پاس زندگی کی ایک ترنگ سی نظر آتی تھی. یہ ضرور ہے کہ پچھلے دس برس میں اسے مدھم پڑتے دیکھا ہے، جیسے کوئلوں پر کوئی پانی کے مسلسل چھینٹے مارتا رہے. پاکستان کا خوشی کا انڈیکس ابھی بھی ریجن میں بلندی پر ہے، مگر لگتا ہے کچھ نہ کچھ ہوا ہے، جس نے جستہ جستہ ہم سے ترنگ چھین لی ہے. جب آپ پاکستان سے باہر درجنوں ملکوں میں جاتے ہیں، ان میں بھی جو ہم سے زیادہ مفلوک الحال ہیں تو پھر بھی فرق لگتا ہے، کہ کچھ نہ کچھ ہاتھ ہو گیا ہے. امتیاز صاحب کی تحریر پیش خدمت ہے۔ میں خاص طور پر ان دوستوں سے کمنٹس کے لیے کہوں گا جو پچھلے تین سے پانچ برس میں پاکستان گئے ہیں، وہ کیا دیکھتے ہیں؟

باقی جو یہاں کے مستقل باسی ہیں، ان کا کیا خیال ہے؟ خوشی کے مشکیزے میں کتنا پانی رہ گیا ہے؟

اس موضوع پر بات ہونی چاہئے. ہو سکتا ہے یہ مایوسی والی بات لگے، مگر یہ جگانے والی بات زیادہ ہے۔

اینگری پاکستان سے تو ہم واقف ہیں اور اس کی وجوہات سے بھی۔ مگر کیا یہ غصہ ہمارے جینے کی دھار کو بھی کند کر رہا ہے؟

ہم سے جینا کون چھین رہا ہے؟ اور ہم یہ واپس کیسے چھین سکتے ہیں؟

عارف انیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لوگ خوش نہیں ہیں!

یہ بات پہلی مرتبہ محسوس نہیں ہوئی ہر مرتبہ یہی لگتا ہے۔

خطہ ایک سا ہے، بھارت میں بھی شاید ایسا ہی ہو لیکن ادھر لاہور ائیرپورٹ پر اترتے ہی آپ محسوس کرتے ہیں کہ یہاں کے لوگ خوش نہیں ہیں۔

پہلے سوچتا تھا کہ میں اکثر صبح سویرے لینڈ کرتا ہوں، اس وجہ سے ایئرپورٹ سے گاوں پہنچنے تک سب کے چہرے مرجھائے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن یہ بات بھی غلط ہے۔

کسی وقت، کسی سے بھی ملو، سو میں سے پچانوے فیصد لوگ ناخوش ہیں۔ پیسے والا بھی خوش نہیں ہے اور جس کے پاس نہیں ہے وہ بھی خوش نہیں ہے۔ ایک عجیب ریس ہے!
قہقہے اور مسکراہٹیں ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔ بازار میں، دکانوں پر ہنس کر شکریہ کہنے والا کوئی کہیں نہیں ملتا۔

ائیرپورٹ پر اترتے ہی بڑی توندوں پر چھوٹی شرٹوں والے لوگ نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں، کسی کے لباس میں نفاست دور دور تک نہیں نظر آتی۔

ورزش نہیں ہے، فٹنس نہیں ہے، بے ترتیب کھانے ہیں شاید، یا کیا ہے، لوگوں کے جسم بے ڈھنگے ہوتے جا رہے ہیں۔ جو کمزور ہیں، وہ بہت ہی کمزور ہیں۔

اتنی گرمی میں بھی لوگ خوشبو کا استعمال کرنا مناسب نہیں سمجھتے۔ چہروں پر پہلے ہی سوچیں ہیں، یا کیا ہے، رنگ زرد ہیں، نوجوانوں تک کی آنکھیں نچڑی ہوئی ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے سبھی یرقان میں مبتلا ہوں۔

لاہور کی ہوا میں سانس لیں تو ہلکی ہلکی بدبو محسوس ہوتی ہے۔ فوگ یا آلودگی اتنی ہوتی ہے کہ جہاز سے ہی منظر آلودہ اور سرمئی سا لگنے لگتا ہے۔

ایئرپورٹ سے نکلتے ہیں تو ہر طرف کنکریٹ، سڑکیں اور سڑکوں کے کناروں پر ہوا کے ساتھ اڑتے ہوئے آوارہ شاپر ملتے ہیں، پھول، درخت، سبزہ سب غائب ہیں۔
یہ پاکستان لینڈ کرتے ہوئے پہلا امپریشن ملتا ہے۔

ساری دنیا تو نہیں گھومی، لیکن پچیس تیس ممالک کے ساتھ موازنہ کر سکتا ہوں۔ یہاں تک کے سری لنکا جیسے ملک کے ایئرپورٹ پر بھی اتریں تو تازگی کا احساس ملتا ہے، لوگوں کے چہروں سے مسکراہٹ ختم نہیں ہوتی۔ ہوا صاف ملتی ہے، کھانوں میں ملاوٹ نہیں ہے۔

یقین کریں یہاں پاکستان میں یہ تازگی کہیں ختم ہوتی جا رہی ہے۔ کوئی بھی شخص مطمئن نظر نہیں آتا، جن کے پاس سب کچھ ہے، وہ بھی بے چین ہیں۔ پیسے گنتے گنتے لوگ ختم ہو رہے ہیں، زندگی انجوائے کرنے کا فن ختم ہو رہا ہے، یہاں کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ہے، یہاں زندگی ہار رہی ہے۔

(امتیاز احمد) جون 2024

08/06/2024

Penicillin:

At the beginning of the 20th century, a Scottish farmer was returning home. Walking past the swamp, he suddenly heard a cry for help. The farmer ran to the sound and saw a boy trying to get out of the shack. The farmer quickly cut down the fat bitch, carefully approached and extended the branch to the drowning one. When the boy got out, he couldn't hold back his tears for a long time, he was trembling.
“Let’s go to my house,” said the farmer. - You need to calm down and warm up.
- No, no, - the boy shook his head, - my father is waiting for me. He must be very worried .
The boy thanked his saviour... And in the morning, the farmer saw that a carriage laden with high-breed grasshoppers approached his house. A well-dressed gentleman came out of the carriage and asked:
- Did you save my son's life yesterday?
“Yes, I am,” the farmer replied.
- How much do I owe you?
- Don't hurt me, mister. You dont owe me any thing. I did what a normal person should do.
- No, I can't leave it just like that, because my son is very dear to me. Name any amount, the visitor insisted.
- I don't want to talk about this topic anymore. Good-bye. - The farmer turned to leave. And then his sonny jumped out on the porch.
- Is this your son? - asked the guest.
“Yes,” the farmer proudly replied, patting the boy on the head.
- Let's make it happen. I will take your son with me to London and pay for his education. If he is as noble as his father, then neither you nor I will regret this decision.
It's been a few years. The farmer's son graduated from school, then medical school, and soon his name became universally known as the name of the man who discovered penicillin. His name was Alexander Fleming.
Before the war, the son of the same gentleman was admitted to a London clinic with a severe form of pneumonia. What do you think saved his life this time? - Yes, penicillin, discovered by Alexander Fleming.
The name of the gentleman who educated Fleming was Randolph Churchill. And his son was named Winston Churchill, who later became Prime Minister of England.
Perhaps these were the events Winston Churchill recalled, saying: "What you do will come back to you."

08/06/2024

Fasting,

07/06/2024

Ladyfingers,
بھنڈیاں شوگر کنٹرول کرنے میں بہت مددگار ہیں۔

07/06/2024

یہ پوسٹ بغیر کسی تبصرے کے پیش کر رہا ہوں۔ اس سے اتفاق، اختلاف کے بغیر ہی۔ میرے خیال میں بہت کچھ ایسا ہے جو ہمیں اس حوالے سے سیکھنا ہو گا، دونوں کو۔ صرف بیوی کو نہیں، خاوند کو بھی۔ ریلیشن شپ کے لئے ہمیں اپنے نئے جوڑوں کو بہت کچھ سکھانے، سمجھانے اور تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ یہ کہانی بظاہر یک طرفہ لگتی ہے مگر اس طرح کے واقعات بھی ہوتے ہیں اور ایسے بھی بہت ہیں جہاں پر لڑکی مظلوم ہے اور اس کے ساتھ صریحاً ظلم ہوا۔
اس طرح کی پوسٹیں بعض اوقات بحث یا مکالمہ شروع کرنے کے لئے بھی میں شیئر کرتا ہوں۔ اس پوسٹ کو اسی تناظر میں دیکھئیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

والدین کی اکلوتی ذرا نازوں سے پلی، ابو شروع سے ہی کہتے تھے کہ ایسے لاڈ نہ کیا کرو اس سے کہ جو کل کو اس کے لیے پریشانی کا باعث بنیں لیکن امی اپنی ناک کے نیچے ساری ضدیں پوری کیا کرتیں اور ابو کو خبر نہ ہوتی۔۔۔ جس کام کو ابو منع کرتے امی خاموشی سے اجازت دے دیتیں اور میں کر لیتی۔
انٹر کے بعد شادی ہو گئی، بیس سال کی عمر میں۔ اچھا پڑھا لکھا رشتہ تھا کھاتا کماتا۔ ابو نے چھان بین کر کے بیاہ دیا۔ امی راضی نہیں تھیں کہ ابھی اور اچھے رشتے آئیں گے ذرا انتظار کریں خیر ابو نے خاندان کے بڑوں کو شامل کر کے امی کو منوا لیا اور پھر میری بھی رضا تھی کہ چلو لڑکا پیسے والا بھی یے اور ہینڈسم بھی ہے۔
میں چونکہ بہت نازوں میں پلی تھی تو برداشت بہت کم تھی۔ تربیت کسی قسم کی کچھ تھی نہیں۔ میں نے اپنے شوہر کی باتیں امی کو بتانی شروع کر دیں۔ ذرا ذرا سی باتیں شکایت کی صورت میں بتانے لگی امی چونکہ خود یہ کام کرتی رہی تھیں اس لیے مزے لے لے کر سنتیں اور پھر الٹے سیدھے مشورے دیتیں۔ دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہوگیا لیکن میرا یہی حال رہا۔ ایک دو بار میاں نے سختی کرنے کی کوشش کی تو میں بیماری کا ڈھونگ رچا کر میکے چلی گئی۔ ابو نے بہت سمجھایا سختی کی تو واپس آگئی لیکن عادت سے مجبور تھی سو وہ ہی سب کیا کہ غلطیاں کر کے سینہ چوڑا کر کے بدتمیزی کرنا اور اپنی غلطی نہ ماننا۔۔۔۔ میاں نے بھی پیار سے سمجھا کر ہر طرح کوشش کی کہ میں سدھر جاوں لیکن اس وقت مجھے یہ شخص دنیا کا سب سے برا آدمی لگتا تھا۔
ابو نے ڈانٹ کر پیار سے، ہاتھ جوڑ کر ہر طرح سمجھایا کہ بیٹا اپنا گھر آباد رکھو ایسا نہ کرو۔۔۔۔ لیکن میری والدہ کی طرف سے ملنے والی ٹیوشن نے آخر کار وہ سیاہ دن دیکھا ہی دیا۔۔۔ کچھ دن سے شوہر سے ان بن چل رہی تھی۔ امی سے روز سبق لے رہی تھی میں بس صبح ہی صبح ذرا سی بات کا میں نے پتنگڑ بنایا جیسا کہ میں اکثر کیا کرتی تھی اور دس سال کی بھڑاس میرے میاں کے منہ سے طلاق کے تین لفظوں کی صورت میں نکل گئی۔۔۔
میں نے کال کر کے ابو کو کہا کہ لڑائی ہو گئی ہے آکر لے جائیں اس وقت طلاق کا نہیں بتایا تھا کیوں کہ مجھے پتا تھا کہ ابو کے لیے یہ بہٹ بڑا صدمہ ہو گا۔۔۔ ابو گھر میں آتے ہی میرے میاں سے کہنے لگے کہ اس کی طرف سے مجھے معافی مانگنے دو بیٹا مجھے پتا ہے میری بیٹی کی غلطی ہے کیوں کہ ایسی لڑائیاں میں اکثر کرتی رہتی تھی۔۔۔۔۔ میرے میاں نے بہت تحمل سے ابو کو طلاق کا بتا دیا۔
ابو نے کہا کہ مجھے رکشہ کروا دو میں اسے گھر لے جاوں میرے شوہر نے کہا کہ نہیں آپ گاڑی میں جائیں۔ اصرار کر کے ابو سے معافی مانگ کر گاڑی ڈرائیور کے ساتھ ہمیں چھوڑنے کے لیے بھیج دی۔۔۔۔۔ ابو گاڑی میں بلکل خاموش رہے گھر میں آتے ہی امی سے کہا لو تمھاری بیٹی کو صلہ مل گیا ہے اس کے کیے کا، اب تمھیں بھی یہ انعام ملنا چاہیے اور امی کو اسی وقت طلاق دے دی۔۔۔۔
مجھے نہیں پتا کہ ابو نے غلط کیا یا صحیح لیکن ابو کی حالت ایسی تھی کہ مجھ سے دیکھا نہیں جا رہا تھا۔
تم دونوں ماں بیٹی کو طلاق مبارک، اب ساتھ بیٹھ کر عدت کرنا (ابو نے اس وقت باقاعدہ تالیاں بجا کر کہا۔۔۔ شاید وہ اس وقت شدید زہنی دباو میں تھے) ابو یہ کہہ کر باہر چلے گئے۔۔۔۔ پھر چار دن ہو گئے، ابو واپس نہیں آئے۔۔۔ ہم ڈھونڈتے رہے کہاں کی عدت اور کیسی عدت بس ابو کو ہر جگہ ڈھونڈا۔۔۔۔ کہیں نہیں ملے۔۔۔۔۔۔ خاندان والوں کی باتیں الگ اور ابو کی گمشدگی الگ۔۔۔۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔۔۔
پانچویں دن جمعے کی نماز کے وقت میرے موبائل پر تایا ذاد کی کال آئی کہ چچا مل گئے ہیں میں گھر لا رہا ہوں ان کو۔۔۔۔ میری کچھ سانس میں سانس آئی۔ ابو آئے تو۔۔۔۔۔ مگر ایدھی کی ایمبولینس میں کفن میں لپٹے ہوئے۔۔۔ پانچ دن ابو کہاں رہے نہیں معلوم بس ایدھی والوں کا کہنا تھا کہ یہ صاحب فٹھ پاتھ پر پڑے ملے تھے۔۔۔ نہ کوئی زخم نہ چوٹ کا نشان ابو کا دل بند ہونے سے ان کی موت ہوئی تھی۔۔۔۔
اور آپ کو پتا ہے فیض عالم کہ ان کا دل میں نے اور امی نے مل کر بند کیا ہے۔۔۔
اس چھتیس سالہ لڑکی کا یہ جملہ میرے دل پر گھونسے کی طرح لگا۔۔۔۔۔
پھر کہتی ہے کہ ابو نے ہمارے لیے گھر چھوڑا جو کہ وہ پہلے ہی امی کے نام کر چکے تھے۔۔۔ اوپر والا پورشن ہم نے کرائے پر اٹھا دیا، ابو کی پینشن بھی آتی ہے، کسی سے مانگنے کی ضرورت نہیں پڑی، سفید پوشی میں اچھے سے گزارا ہو رہا ہے۔ ددھیال والے ہم سے ملتے نہیں ہیں کہتے کہ تم دونوں ہمارے بھائی کی موت کا سبب ہو۔۔۔۔ میرے تین میں سے دو بڑے بچے اپنی مرضی سے اپنے باپ کے پاس جا چکے ہیں۔ باقاعدہ لڑ کر گئے ہیں۔ ملنے بھی نہیں آتے۔ چھوٹے والا ابھی تین سال کا ہے تو وہ میرے پاس ہے مگر مجھے پتا ہے کہ وہ بھی چلا جائے گا۔۔۔
امی ابھی تک ویسی ہی ہیں۔ ابو کو بہت کوستی ہیں۔۔۔ اب میری اور امی کے گھمسان کے معرکے ہوتے ہیں۔۔۔۔ میں کہتی ہوں کے اگر ابو نے آپ کو پہلے ہی طلاق دے دی ہوتی تو آج مجھے طلاق نہ ہوتی۔
کھانے پینے کو سب ملتا ہے، رہنے کو سر پر چھت ہے مگر اب سکون نہیں ہے۔۔۔ ابو کا چہرہ دماغ میں گھومتا رہتا ہے۔ اپنا شوہر بھی یاد آتا ہے۔ وہ برا نہیں تھا میری تربیت بری تھی۔۔۔ آپ سمجھ رہی ہوں گی کہ میں ساری غلطی امی کی کیوں بتا رہی ہوں۔ میں تو بالغ تھی سب دیکھ اور سمجھ رہی تھی آخر کیوں امی کی باتوں میں آگئی۔۔۔ آپ بتائیں جس لڑکی کی تربیت ہی ایسی ہوئی ہو۔۔۔ میں نے ساری زندگی امی کو نانی سے یہی باتیں کرتے دیکھا تھا۔ بس نانی یہ کہتی تھیں دیکھو کچھ بھی ہو طلاق مت لینا تو امی طلاق کی نوبت نہیں آنے دیتی تھیں کچھ ابو بھی چپ ہو جاتے تھے۔ ہر کسی کے صبر کا پیمانہ ایک نہیں ہوتا۔ میرے شوہر نیک فطرت کے تھے لیکن بس اس دن ان کا پیمانہ چھلک گیا۔ میں نے ان کو اس حد تک پریشان کیا۔۔۔ کہ آخر نوبت یہاں تک آگئی۔۔۔
امی یہی کہتی تھیں کہ تمھاری شادی ہی غلط شخص سے ہوئی ہے۔۔۔ بس یہ بات میرے ذہن میں بیٹھ گئی تھی۔ ان کی اچھائی بھی برائی ہی لگتی تھی۔ میں آپ کے پاس اس لیے آئی ہوں کہ اب مجھے نیند نہیں آتی میں چوبیس میں سے بمشکل دو گھنٹے سو پاتی ہوں۔۔۔
آپ بتائیں کیا ابو کی جان لے کر اور اپنا گھر تباہ کر کے مجھے نیند آنی چاہیے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی کلائنٹ کی اس آب بیتی کو آپ سب کے سامنے رکھنے کا بس ایک مقصد ہے کہ تربیت پر کام کریں۔۔۔۔۔ اور بہت ذیادہ کریں۔ عورت بطور ماں گیم چینجر بن سکتی ہے۔
کون غلط ہے کون صحیح اس بحث میں جانے کی بجائے تربیت اولاد اور خود اپنا احتساب کریں۔ اولاد کے سامنے ہر وقت رونے مت روئیں۔ مظلوم بننے کی سوچ سے باہر آ جائیں اور شادی شدہ بیٹیوں پر رحم کریں۔ ان کے کچن میں بیڈروم میں ان کے ذہن میں گھسنے کی کوشش نہ کریں۔۔۔۔۔ بیٹیوں کو بھڑکانے کی پالیسی ختم کر دیں۔
ماں کی بہت زیادہ مداخلت بیٹیوں کے گھر اجاڑنے کا ایک اہم سبب ہے۔ آپ نہایت سلجھی ہوئی باشعور خواتین ہیں اسی لیے مجھے امید ہے کہ کسی بھی قسم کے فیمنزم کا چشمہ لگائے بغیر اس تحریر کو پڑھ کر سبق حاصل کریں گی۔
وما علینا الاالبلاغ

(ارمان ملک کی وال سے )

07/06/2024

Stanford University:

A strange visit to the house:

A woman in modest dress, accompanied by her husband, dressed in a comfortable but cheap suit, got off a train at Boston Station and went to the Harvard University principal's office.
They did not make an appointment. At first glance, the secretary decided that those people at Harvard had nothing to look for.
"We'd like to meet with the school principal," the man said in a silenced voice.
"He'll be busy all day," the drought secretary answered.
"We'll wait," the woman said.
The secretary ignored the visitors for several hours hoping that at some point they would be disappointed and leave on their own. However, when she made sure that they wouldn't go anywhere themselves, she decided to harass the director and inform about their visit.
"Maybe if you accept them for a minute and wake them up, then they'd rather leave?" she asked the director
The director sighed angrily and agreed. As important as he is, he certainly does not have time to accept people dressed so modestly.

When the visitors entered, the director immediately measured them with his stern and arrogant gaze.
The woman turned to him:
- We had a son, he studied at your university for a year. He loved this place and was very happy here but sadly passed away a year ago unexpectedly. My husband and I would therefore like to leave some memory of him on the territory of this university.
The director was not happy about it at all, but on the contrary he was very irritated.
- Lady! - he replied impudently, - we can't build monuments to everyone who studied at Harvard and died. If we did, it would soon be a cemetery.

- No, I didn't mean so - the woman quickly objected, - we don't want to build a monument, nor a statue, we want to build a new building for Harvard.
The director looked at the faded checkered dress and a cheap suit and exclaimed, "God, do you people have any idea how much such a building costs? All Harvard buildings are worth over seven million dollars together!

The wife hasn’t said anything in a minute. The director had an ominous smile of joy. So they will see her out of here after all!

The woman turned to her husband and said quietly:
Is it so cheap to build a new university? So why don't we build our own university?
The man gave a nod in agreement. Harvard director faded and looked confused.

The Stanford spouses got up and left the office without further ado.
In Palo Alto, California, they established a university that bears his name - Stanford University in memory of their beloved son.

Very important issue,👇
05/06/2024

Very important issue,👇

this concerning episode, we examine the unsettling rise of live-in relationships and extram...

05/06/2024

5 جون 2024:

آج عالمی یوم ماحولیات ہے۔ اس کے حوالے سے لکھا گیا تبصرہ۔
انجینیئر ظفر وٹو

کیا یہ ممکن ہے کہ ایک گرم رات کو آپ سائیڈ ٹیبل پر پڑے گلاس کو پانی پینے کے لئے ہاتھ لگائیں اور گلاس کی ٹھنڈک کے نشان سے یہ احساس ہو کہ بیرونی حصے میں پانی کی ٹھنڈ یا نمی وہاں محسوس نہیں ہوئی، جہاں پہلے ہوا کرتی تھی۔ جب آپ نے پانی پیا ہی نہیں تھا تو پھر یہ گلاس میں پانی کیوں کم ہو گیا ہے۔ آپ دس سال تک اس بات کی تحقیق میں گزار دیں اور پھر یہ "کیوں" کی جستجو ہی آپ سے اردو زبان کے ایک شاہکار ناول کی تخلیق کروا دے۔

"بہاؤ" اردو زبان میں ماحولیاتی تبدیلیوں پر لکھا جانے والا وہ ناول ہے جسے ابھی تک ماحولیات کی بجائے صرف وادیء سندھ کی تہذیب کے حوالے سے پڑھا اور سمجھا گیا ہے۔ یہ مستنصر حسین تارڑ صاحب کی وہ تخلیق ہے جو ان کی بطور ناول نگار پہچان بنی، لیکن ان کا اصل کمال یہ ہے کہ آج سے تیس پینتیس سال پہلے گلاس میں پانی کم ہونے کے ایک چھوٹے سے اشارے کو سمجھ کر انہوں ماحولیاتی تبدیلیوں پر اس وقت ایک شاہکار ناول لکھ ڈالا کہ جب ملک میں ماحولیات سے متعلق تشویش صرف ایک چھوٹی سی انجنئیرنگ کمیونٹی تک محدود تھی۔

ناول کا آغاز ہی ایک پرندے کی چولستان میں زندگی کی طرف اڑان سے ہوتا ہے، جس کے اپنے علاقے میں پانی ختم ہو چکا۔ صحرا نے پھیل کر سبزے کو کھا لیا اور اب ہر طرف موت ہی موت ہے اور جان بچانے کے لئے یہ پرندہ اب پانی ڈھونڈتا ہے اور اسی تگ و دو میں جب اس کی ہمت جواب دینے کے قریب ہوتی ہے تو وہ دریائے گھاگرا کے کنارے ایک بے نام بستی کی خشک ہوتی ہوئی جھیل کے سراب میں زمین پر جا گرتا ہے۔ جہاں اس پہلے اور بھی کئی پرندے مرے پڑے ہوتے ہیں۔

وہاں بیٹھی ناول کی ہیروئن پاروشنی اسے ایک ہاتھ میں اٹھا کر اس کی کھلی چونچ میں پانی ٹپکانے ہوئے کہتی ہے کہ "تم بھی اس جھیل پر مرنے کے لئے آگئے ہو۔" یعنی بستی کے لوگ دور دراز سے اڑ کر اس جھیل پر آنے والے پیاسے پرندوں کو روز مرتے ہوئے دیکھ رہے ہوتے ہیں لیکن ان کا دھیان اس طرف نہیں جا رہا ہوتا کہ آس پاس کے علاقوں میں پانی ختم ہونے کی وجہ سے یہ پرندے ادھر دھڑا دھڑ پیاسے آ کر گرتے ہیں تو ایک دن ہمارے علاقے میں دریائے گھاگرا (ہاکڑہ، سرسوتی) کا بھی پانی خشک ہو سکتا ہے۔

اس سے اگلے حصے میں گلیشئیرز سے پانی کے زور سے ٹوٹ کی علیحدہ ہو جانے والے بوٹے کے سفر کی تفصیل ہے، جو پہاڑ سے اتر کر پہلے برفیلے پانیوں اور پھر میدانی علاقے کے ٹھہرے ہوئے گدلے پانیوں کے ساتھ سفر کرتے ہوئے بالآخر اس گمنام بستی میں دریائے گھاگرا میں غسل لیتی ناول کی ہیروئن کے بدن کو جا کر چمٹتا ہے، جہاں وہ اس کے لمس، شکل و صورت سے اندازہ لگا لیتی ہے کہ یہ گلیشئیرز سے پہنچا ہے اور بڑے پانی (سیلاب) آنے کو ہیں۔

تاہم بہت سال بعد جب اوپر ہمالیہ کے گلیشئیرز پر برف کے تودے ٹوٹنے سے پانی کا رخ تبدیل ہو جاتا ہے تو اس وقت وہاں چٹانوں سے علیحدہ ہونے والا بوٹا بڑی تگ و دو کے بعد برف میں سے راستہ بنا کر نکل پاتا ہے اور میدانی علاقوں میں جانے کا سفر طے کرنے کے لئے پانی بہت کم ہوتے ہیں تو یہ بوٹا راستے میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس دفعہ کم پانی میں نہاتی پاروشنی اس بوٹے کی حالت زار سے یہ اندازہ لگا لیتی ہے کہ بڑے پانیوں کے رستے اوپر رک چکے اور اب وہ کبھی نہیں آئیں گے۔

تاہم اس ساری ماحولیاتی تبدیلی کو سمجھتے ہوئے بھی بستی کے لوگ دریائے گھاگرا کے منبع بلند علاقوں (گلیشئیرز) کی طرف سفر کر کے اس تبدیلی کو سمجھنے یا پانی کا رخ تبدیل ہو جانے والے نئے علاقوں کی طرف نکل جانے کا تردد نہیں کرتے بلکہ اپنے علاقے میں ہی مرنے سڑنے کے لئے پڑے رہتے ہیں۔

ناول کے ایک ہیرو سمرو کو بھی رات کو برتنوں میں رکھے پانی کا گرمی کی وجہ سے کم ہوتے جانے کا احساس ہو رہا ہوتا ہے اور وہ دریا کو بھی کم ہوتے بغور دیکھ رہا ہوتا ہے۔ وہ اپنے انداز میں بستی والوں کو یہ پیغام دے رہا ہوتا ہے کہ میں دریاؤں کو سوکھتے ہوئے دیکھ رہا ہوں مگر اس کی بات کو اہمیت نہیں دی جاتی اور کہا جاتا ہے کہ وہ خواب دیکھتا ہے یا اسے نیند میں چلنے کی عادت ہے، لیکن ایک دن واقعی یہ ہو جاتا ہے۔ دریا خشک ہو جاتے ہیں۔

ناول میں دریائے گھاگڑا میں سال کے مختلف اوقات میں پانی کی بہاؤ کی کیفیات اور پانی کی سطح کی حدود کو خوب صورتی سے بیان کیا گیا ہے اور پھر اس میں مختلف سالوں میں آنے والی تبدیلیوں کے بارے میں بڑی تفصیل سے بتایا گیا ہے، جیسے کہ پہلے پہل پانی کا ہمیشہ کی طرح کناروں سے نکل کر پاس پڑوس کی زمینوں تک نہ جانا پھر کچھ سال بعد پانی کا سکڑ کر کناروں کے اندر سمٹ جانا اور پھر بعد کے سالوں میں کناروں میں بھی آہستہ آہستہ نیچے چلے جانا اور آخر میں ایک گدلی ندی میں تبدیل ہو کر بالآخر خشک ہو جانا۔

ان تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ جنگل اور پودے بھی کم ہو رہے ہوتے ہیں، لیکن بستی کے لوگ یہ سب دیکھتے بھالتے ہوئے بھی صرف ان نشانیوں کے بارے گفتگو کرتے رہتے ہیں، لیکن عملی اقدام کرتے نظر نہیں آتے۔ یہ لوگ پانی کی بولی سمجھتے ہیں۔ دریا کے بہاؤ اور موڈ کو بھی سمجھتے ہیں، بلکہ انہیں تو اس وقت بہنے والے سندھو دریا کے سات بھائیوں تک کا پتہ ہوتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کا سب دریاؤں کا منبع ایک ہے۔ وہ اپنے دریا کے بہاؤ کو اوپرا ہوتے دیکھتے ہیں، مگر سمجھ نہیں پاتے کہ ایسا کیونکر ہو رہا ہے۔۔۔۔ ”ہر شے اپنی اپنی جگہ تھی تو اب مینہ کیوں نہیں برسا۔ بڑے پانی کیوں کم ہو گئے۔۔۔"

انہیں ماحولیاتی تبدیلی کا بھی احساس ہو رہا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ جیسے یہ لائن ملاحظہ فرمائیں۔۔۔ ”کہیں ایسا تو نہیں کہ ہماری بستی میں اب گرمی بڑھتی جا رہی ہے اور وہ پانی کو سکھاتی ہے۔۔۔ پر نہیں۔۔ رُت کیسے بدل سکتی ہے۔" ٹھنڈے مہینوں جیسے پوہ ماگھ کی دھوپ میں بھی چبھن آنا شروع ہو چکی ہوتی ہے۔ درختوں ٹہنیوں پر سالہا سال سے دھول جم چکی ہوتی ہے۔درختوں کے نیچے کا گھاس پھوس بھی سوکھ جاتا ہے۔ کم پانی والی کانٹے دار جھاڑیاں نمودار ہو چکی ہوتی ہیں۔

ناول میں دریاؤں کے کنارے بستیوں، جنگلات اور سبزے کے نظام اور ان میں بسنے والے جانوروں، پرندوں اور حشرات تک کو ایک پورے ایکو سسٹم بناتے ہوئے دکھایا گیا ہے جو کہ ایک دوسرے پر پل رہے ہوتے ہیں۔ مردہ انسانوں اور جانوروں کا گوشت پرندے اور حشرات کھاتے ہیں، انسان درختوں، پودوں اور فصلوں پر گزارہ کر رہے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد جب ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے یہ ایکو سسٹم ٹوٹتا ہے تو سب کچھ تباہ ہو جاتا ہے۔ انسان بھوکے مرتے ہیں، پیڑ خشک ہو جاتے ہیں، ریت ہوا کے ساتھ اڑ اڑ کر بستی اور جنگلات کو بھر دیتی ہے۔ بارشیں نہ ہونے سے ہر طرف گرد اڑتی نظر آتی ہے۔

زیر زمین پانی بہت نیچے چلا جاتا ہے۔ کنوئیں خشک ہو جاتے ہیں۔ سالانہ سیلاب نہ آنے سے پہلے دریا کے کنارے زرعی زمینیں خشک ہوتی ہیں جن پر کسی زمانے میں سیلاب سے آب پاشی ہوتی تھی۔ پھر فصلیں تباہ ہوتی ہیں اور آخر میں پانی کے اندر رہنے والے جانوروں جیسے کچھوے اور مچھلیوں کو اپنی جان بچانے کی تگ و دو کرنا پڑتی ہے۔

دریاؤں کے کنارے آج سے پانچ ہزار سال قبل کی یہ تہذیب اتنی ترقی یافتہ تو ہوتی ہے کہ وہ مٹی سے برتن بنا کر انہیں آوے میں باقاعدہ پکاتے ہیں اور ان پر طرح طرح کے بیل بوٹے پینٹ کرتے ہیں، بھٹے میں اینٹیں پکا کر گھر بناتے ہیں، لیکن وہ دریائے گھاگرا اور ہاکڑہ کے کم ہوتے پانی کو ذخیرہ کرنے، اس کا رخ موڑ کر اپنے بنجر ہوتے کھیتوں تک اس کا پانی لانے یا پانی کو دریا سے لفٹ کرنے کا بالکل نہیں سوچتے۔ (پانچ ہزار سال بعد بھی آج ہمارا یہی حال ہے)۔ وہ دریا کے کنارے ہاتھ پر ہاتھ دھرے کئی سالوں تک بیٹھے بڑے پانیوں کا صرف انتظار ہی کرتے رہتے ہیں۔

وہ نہ پانی کے رواں راستوں یا ذخیروں کی طرف رخ کرتے ہیں اور نہ ہی میسر پانی کے بہتر استعمال پر سوچتے ہیں اور بالآخر ختم ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ ان کو معلوم ہوتا ہے کہ دریا خشک ہونے سے آس پاس کی کئی اور بھی کتنی بستیاں ختم ہو چکیں۔

تاہم ان مایوس کن حالات میں بھی اس ناول کا اختتام ایک نئی زندگی کی شروعات اور ایک نئے حوصلے سے ہوتا ہے۔ جو یہ پیغام دیتا ہے کہ گو دریاؤں اور سمندروں کے پانی کم ہونے یا خشک ہونے سے زندگی تعطل کا شکار ہو جاتی ہے اور بہت سے جاندار ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتے ہیں، حتی کہ ڈائنو سار بھی۔ مگر انسان واحد ایسی عجیب و غریب مخلوق ہے جو ان تمام حادثات و واقعات اور تباہی کے بعد بھی بچ نکلتا ہے۔ کیونکہ وہ اپنی عقل استعمال کر کے خود کو ہر قسم کے حالات کے مطابق ڈھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

پاکستان بھی موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے متاثرہ دنیا کے دس ممالک میں شامل ہے۔ ہمیں بھی سمجھداری سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔

02/06/2024

انسان زمینی مخلوق نہیں ہے!!!

امریکی ایکولوجسٹ ڈاکٹر ایلس سِلور کی تہلکہ خیز ریسرچ ارتقاء (Evolution) کے نظریات کا جنازہ اٹھ گیا:

ڈاکٹر ایلیس سِلور (Ellis Silver) نے اپنی کتاب (Humans are not from Earth)
میں تہلکہ خیز دعویٰ کیا ہے کہ انسان اس سیارے زمین کا اصل رہائشی نہیں ہے، بلکہ اسے کسی دوسرے سیارے پر تخلیق کیا گیا اور کسی وجہ سے اس کے اصل سیارے سے اس کے موجودہ رہائشی سیارے زمین پر ٹرانسفر کر دیا گیا۔

ڈاکٹر ایلیس جو کہ ایک سائنسدان محقق مصنف اور امریکہ کا نامور ایکالوجسٹ (Ecologist) ہے، اس کے الفاظ پر غور کیجئے۔ زہن میں رہے کہ یہ الفاظ ایک سائنسدان کے ہیں جو کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتا۔

اس کا کہنا ہے کہ انسان جس ماحول میں پہلی بار تخلیق کیا گیا اور جہاں یہ رہتا رہا ہے وہ سیارہ، وہ جگہ اس قدر آرام دہ پرسکون اور مناسب ماحول والی تھی جسے وی وی آئی پی کہا جا سکتا ہے، وہاں پر انسان بہت ہی نرم و نازک ماحول میں رہتا تھا، اس کی نازک مزاجی اور آرام پرست طبیعت سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے اپنی روٹی روزی کے لئے کچھ بھی تردد نہیں کرنا پڑتا تھا، یہ کوئی بہت ہی لاڈلی مخلوق تھی جسے اتنی لگژری لائف میسر تھی۔ وہ ماحول ایسا تھا جہاں سردی اور گرمی کی بجائے بہار جیسا موسم رہتا تھا اور وہاں پر سورج جیسے خطرناک ستارے کی تیز دھوپ اور الٹراوائلیٹ شعاعیں بالکل نہیں تھیں جو اس کی برداشت سے باہر اور تکلیف دہ ہوتی ہیں۔

تب اس مخلوق انسان سے کوئی غلطی ہوئی۔ اس کو کسی غلطی کی وجہ سے اس آرام دہ اور عیاشی کے ماحول سے نکال کر ٹرانسفر کر دیا گیا تھا۔ جس نے انسان کو اس سیارے سے نکالا، لگتا ہے وہ کوئی انتہائی طاقتور ہستی تھی، جس کے کنٹرول میں سیاروں ستاروں کا نظام بھی تھا۔۔۔ وہ جسے چاہتا، جس سیارے پر چاہتا، سزا یا جزا کے طور پر کسی کو بھجوا سکتا تھا۔ وہ مخلوقات کو پیدا کرنے پر بھی قادر تھا۔

ڈاکٹر سلور کا کہنا ہے کہ ممکن ہے زمین کسی ایسی جگہ کی مانند تھی، جسے جیل قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہاں پر صرف مجرموں کو سزا کے طور پر بھیجا جاتا ہو۔ کیونکہ زمین کی شکل۔۔ کالا پانی جیل کی طرح ہے۔۔۔ خشکی کے ایک ایسے ٹکڑے کی شکل جس کے چاروں طرف سمندر ہی سمندر ہے، وہاں انسان کو بھیج دیا گیا۔

ڈاکٹر سلور ایک سائنٹسٹ ہے جو صرف مشاہدات کے نتائج حاصل کرنے کے بعد رائے قائم کرتا ہے۔ اس کی کتاب میں سائنسی دلائل کا ایک انبار ہے جن سے انکار ممکن نہیں۔ اس کے دلائل کی بڑی بنیاد جن پوائنٹس پر ہے ان میں سے چند ایک ثابت شدہ ہیں۔

نمبر 1:-
زمین کی کش ثقل اور جہاں سے انسان آیا ہے اس جگہ کی کشش ثقل میں بہت زیادہ فرق ہے۔ جس سیارے سے انسان آیا ہے وہاں کی کشش ثقل زمین سے بہت کم تھی، جس کی وجہ سے انسان کے لئے چلنا پھرنا بوجھ اٹھا وغیرہ بہت آسان تھا۔ انسانوں کے اندر کمر درد کی شکایت زیادہ گریوٹی کی وجہ سے ہے۔

نمبر 2:-
انسان میں جتنے دائمی امراض پائے جاتے ہیں وہ باقی کسی ایک بھی مخلوق میں نہیں جو زمین پر بس رہی ہے۔ ڈاکٹر ایلیس لکھتا ہے کہ آپ اس روئے زمین پر ایک بھی ایسا انسان دکھا دیجئیے جسے کوئی ایک بھی بیماری نہ ہو تو میں اپنے دعوے سے دستبردار ہو سکتا ہوں، جبکہ میں آپ کو ہر جانور کے بارے میں بتا سکتا ہوں کہ وہ وقتی اور عارضی بیماریوں کو چھوڑ کر کسی ایک بھی مرض میں ایک بھی جانور گرفتار نہیں ہے۔

نمبر 3:-
ایک بھی انسان زیادہ دیر تک دھوپ میں بیٹھنا برداشت نہیں کر سکتا بلکہ کچھ ہی دیر بعد اس کو چکر آنے لگتے ہیں اور سن سٹروک کا شکار ہو سکتا ہے، جبکہ جانوروں میں ایسا کوئی ایشو نہیں ہے، مہینوں دھوپ میں رہنے کے باوجود جانور نہ تو کسی جلدی بیماری کا شکار ہوتے ہیں اور نہ ہی کسی اور طرح کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں، جس کا تعلق سورج کی تیز شعاعوں یا دھوپ سے ہو۔

نمبر 4:-
ہر انسان یہی محسوس کرتا ہے اور ہر وقت اسے احساس رہتا ہے کہ اس کا گھر اس سیارے پر نہیں۔ کبھی کبھی اس پر بلاوجہ ایسی اداسی طاری ہو جاتی ہے جیسی کسی پردیس میں رہنے والے پر ہوتی ہے چاہے وہ بیشک اپنے گھر میں اپنے قریبی خونی رشتے داروں کے پاس ہی کیوں نا بیٹھا ہو۔

نمبر 5:-
زمین پر رہنے والی تمام مخلوقات کا ٹمپریچر آٹومیٹک طریقے سے ہر سیکنڈ بعد ریگولیٹ ہوتا رہتا ہے، یعنی اگر سخت اور تیز دھوپ ہے تو ان کے جسم کا درجہ حرارت خود کار طریقے سے ریگولیٹ ہو جائے گا، جبکہ اسی وقت اگر بادل آ جاتے ہیں تو ان کے جسم کا ٹمپریچر سائے کے مطابق ہو جائے گا، جبکہ انسان کا ایسا کوئی سسٹم نہیں بلکہ انسان بدلتے موسم اور ماحول کے ساتھ بیمار ہونے لگ جائے گا۔ موسمی بخار کا لفظ صرف انسانوں میں ہے۔

نمبر 6:-
انسان اس سیارے پر پائے جانے والے دوسرے جانداروں سے بہت مختلف ہے۔ اسکا ڈی این اے اور جینز کی تعداد اس سیارہ زمین پہ پائے جانے والے دوسرے جانداروں سے بہت مختلف اور بہت زیادہ ہے۔

نمبر 7:-
زمین کے اصل رہائشی (جانوروں) کو اپنی غذا حاصل کرنا اور اسے کھانا مشکل نہیں، وہ ہر غذا ڈائریکٹ کھاتے ہیں، جبکہ انسان کو اپنی غذا کے چند لقمے حاصل کرنے کیلیئے ہزاروں جتن کرنا پڑتے ہیں، پہلے چیزوں کو پکا کر نرم کرنا پڑتا ہے، پھر اس کے معدہ اور جسم کے مطابق وہ غذا استعمال کے قابل ہوتی ہے، اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انسان زمین کا رہنے والا نہیں ہے۔ جب یہ اپنے اصل سیارے پر تھا تو وہاں اسے کھانا پکانے کا جھنجٹ نہیں اٹھانا پڑتا تھا بلکہ ہر چیز کو ڈائریکٹ غذا کیلیئے استعمال کرتا تھا۔
مزید یہ اکیلا دو پاؤں پر چلنے والا ہے جو اس کے یہاں پر ایلین ہونے کی نشانی ہے۔

نمبر 8:-
انسان کو زمین پر رہنے کیلیے بہت نرم و گداز بستر کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ زمین کے اصل باسیوں یعنی جانوروں کو اس طرح نرم بستر کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ اس چیز کی علامت ہے کہ انسان کے اصل سیارے پر سونے اور آرام کرنے کی جگہ انتہائی نرم و نازک تھی، جو اس کے جسم کی نازکی کے مطابق تھی۔

نمبر 9:-
انسان زمین کے سب باسیوں سے بالکل الگ ہے، لہذا یہ یہاں پر کسی بھی جانور (بندر یا چمپینزی وغیرہ) کی ارتقائی شکل نہیں ہے بلکہ اسے کسی اور سیارے سے زمین پر کوئی اور مخلوق لا کر پھینک گئی ہے۔

انسان کو جس اصل سیارے پر تخلیق کیا گیا تھا وہاں زمین جیسا گندا ماحول نہیں تھا، اس کی نرم و نازک جلد زمین پر سورج کی دھوپ میں جھلس کر سیاہ ہو جاتی ہے اس کے پیدائشی سیارے کے مطابق بالکل مناسب بنائی گئی تھی۔ یہ اتنا نازک مزاج تھا کہ زمین پر آنے کے بعد بھی اپنی نازک مزاجی کے مطابق ماحول پیدا کرنے کی کوششوں میں رہتا ہے۔ جس طرح اسے اپنے سیارے پر آرام دہ اور پرتعیش بستر پر سونے کی عادت تھی وہ زمین پر آنے کے بعد بھی اسی کے لئے اب بھی کوشش کرتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ آرام دہ زندگی گزار سکے۔ جیسے خوبصورت قیمتی اور مضبوط محلات مکانات اسے اور اس کے ماں باپ کو میسر تھے وہ اب بھی انہی جیسے بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ جبکہ باقی سب جانور اور مخلوقات اس سے بے نیاز ہیں۔ یہاں زمین کی مخلوقات عقل سے عاری اور تھرڈ کلاس زندگی کی عادی ہیں جن کو نہ اچھا سوچنے کی توفیق ہے نہ اچھا رہنے کی اور نہ ہی امن سکون سے رہنے کی۔ انسان ان مخلوقات کو دیکھ دیکھ کر خونخوار ہو گیا۔ جبکہ اس کی اصلیت محبت فنون لطیفہ اور امن و سکون کی زندگی تھی۔۔

ڈاکٹر ایلیس کا کہنا ہے کہ انسان کی عقل و شعور اور ترقی سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس ایلین کے والدین کو اپنے سیارے سے زمین پر آئے ہوئے کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا، ابھی کچھ ہزار سال ہی گزرے ہیں یہ ابھی اپنی زندگی کو اپنے پرانے سیارے کی طرح لگژری بنانے کے لئے بھرپور کوشش کر رہا ہے، کبھی گاڑیاں ایجاد کرتا ہے، کبھی موبائل فون اگر اسے آئے ہوئے چند لاکھ بھی گزرے ہوتے تو یہ جو آج ایجادات نظر آ رہی ہیں یہ ہزاروں سال پہلے وجود میں آ چکی ہوتیں، کیونکہ میں اور تم اتنے گئے گزرے نہیں کہ لاکھوں سال تک جانوروں کی طرح بیچارگی اور ترس کی زندگی گزارتے رہتے۔

ڈاکٹر ایلیس سِلور کی کتاب میں اس حوالے سے بہت کچھ ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس کے دلائل کو ابھی تک کوئی جھوٹا نہیں ثابت کر سکا۔۔ یہ حقیقت ایک سائنسدان بیان کر رہا ہے، یہ کوئی کہانی نہیں بلکہ حقیقی داستان ہے جسے انسانوں کی ہر الہامی کتاب میں بالکل اسی طرح بیان کیا گیا ہے۔ ہم سب اپنے باپ آدم ؑ اور حوا ؑ کے قصے کو اچھی طرح جانتے ہیں۔۔ سائنس اللہ کی طرف چل پڑی ہے۔۔ سائنسدان وہ سب کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں جو انبیاء کرام اپنی نسلوں کو بتاتے رہے تھے۔

Address

Stoke-on-Trent

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when EnewsDaily posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share


Other Media/News Companies in Stoke-on-Trent

Show All