14/08/2022
ہم کو تو میسّر نہیں مٹّی کا دِیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
علم دولت کا محتاج ہے۔۔۔۔
آج ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں ہمیں اس کی ظاہری حقیقت کو سامنے رکھ کہ سوچنا ہو گا کہ علم کا حصول کس طبقے کے لیے آسان ہے؟
ہمارا طبقاتی نظام تعلیم جو مرسڈیز پر سکول آنے والے برہمنوں کے بچوں کے لیے کچھ اور، 10,15 کلومیٹر پیدل چل کر سکول آنے والے شودروں کے بچوں کے لئے اور ہے۔
جو ایک طرف تو احساس کمتری ، بے شعوری اور روزگار سے محرومی کا سبب بنتا، دوسری طرف ہزاروں بچوں کو علم سے محروم رکھے ہوئے ہے کیونکہ ہم نے علم کو دولت کا محتاج بنا دیا ہے۔
اسی طبقاتی تقسیم کی ایک تازہ جھلک گذشتہ روز قومی اسمبلی میں دیکھنے کو ملی جہاں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے مختلف امیر کبیر VIP گھرانوں کے بچے مدعو تھے اور وہ تقریریں کر رہے تھے۔
جس طرح یہ ملک طبقاتی ہے اسی طرح اس کا نظام تعلیم بھی طبقاتی ہے۔
تقاریر کرنے والے یہ بچے اور ان کے والدین وہ لوگ ہیں جنہوں نے صرف خبروں میں گرمی دیکھی ہے اور بھوک کے بارے میں صرف کتابوں میں ہی پڑھا ہے۔
انہیں کیا معلوم کہ وہ بچے جو نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں انہیں اس اسمبلی کے اندر جانا تو درکنار انہیں اس اسمبلی کی جانب جانے والے سڑک پر جانے کی اجازت حاصل نہیں۔
وہ ان بچوں کے بارے میں کیا جانیں جن کے پاس سکول بیگ نہیں ہیں لیکن اپنی کتابیں تھیلے میں رکھتے ہیں اور اسکول جاتے ہیں۔
وہ ان بچوں کا درد کہاں محسوس کریں گے جو صبح سویرے اپنی ماں سے روتے ہیں کہ اسے پانچ یا دس روپے دو حالانکہ ان کے گھر میں ایک روپیہ بھی نہیں ہوتا۔
انہیں ان بچوں کے کرب کا اندازہ کیونکر ہو سکتا ہے جس کی پھٹی ہوئی چپل دھاگے سے سلی ہوئی جبکہ پاؤں گیلے ہونے سے بچنے کیلئے جرابوں کی جگہ شاپنگ بیگ پاؤں کو چڑھایا ہوتا ہے
آپ کسی ایسے بچے کے دل کو نہیں جانتے جو دو گھنٹے پہلے اسکول جاتا ہے اور راستے پر آتی گاڑی سے سائیڈ چھپ جاتا ہے کیونکہ اس کے پاس کرایہ نہیں ہوتا ہے
آپ اس بچے کے درد کو محسوس نہیں کر سکتے ہیں جو صبح قہوے کے ساتھ رات کی روٹی کھا کر آتا ہے اور اسمبلی میں نقاہت سے گر جاتا ہے اور غربت و احساس محرومی کی شرمندگی چھپانے کیلئے بتاتا ہے کہ
صبح دھی کے ساتھ پراٹھا اور فرائی انڈے کے ساتھ ناشتہ کر کے آیا ہوں
یہ امیر زادے تو ہمیشہ اپنے کھانے کے ساتھ کھجور کا پھل کھاتے ہیں صبح سینڈوچ ، مكهن اور دودھ کا ناشتہ کرتے ہیں سکول میں برگر کے ساتھ جوس جبکہ
اس قوم کے غریب کے بچوں کے پاس سموسہ خریدنے کے لئے 10 روپے نہیں ہوتے اور وہ پانی سے افطار کرتے ہیں۔
امیروں کے یہ بچے اسکول کے بعد گھر آ کر لنچ کر کے آرام کرتے ہیں اور شام کو ٹیوشن کے لئے جاتے ہیں جبکہ
باقی شودروں کے بچے صبح کے ناشتے پر شام تک گزارہ کرتے ہیں اور اسکول کے بعد شام تک ہوٹلوں، ورکشاپس اور بازاروں میں محنت مزدوری کرتے ہیں۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کو انتہا پسندی اور عدم برداشت سے پاک کرنے کیلئے سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی، اساتذہ اور طلبہ کو مل کر طبقاتی نظام تعلیم کو ختم کرنا ہوگا
معاشرے کا ہر طبقہ اسلام کے اخوت، اتحاد اور رواداری پر مبنی پیغام اور تعلیم کو اختیار کریں۔