Akhlaq e Sabri

Akhlaq e Sabri اخلاقِ صابری حضرت سید غلام حسین شاہ صابری حیدرآباد دکن? post share in my page

20/06/2024

مورخہ 18 فروری 2024 بروز اتوار میں اپنے تین ساتھیوں (اسد سرور، ناجد علی، احسن جاوید) کے ساتھ منہاج یونیورسٹی لاہور میں واقع "معھد شیخ الاسلام للعلوم الروحیہ" میں موجود تھا۔ منہاج یونیورسٹی کی جانب سے 4 ماہ کا کورس بنام "اہل تصوف کی قیادت سازی"
کا آغاز کیا گیا ۔قیادت سازی کا عمل آخر کار مورخہ 10 جون 2024 کو خوش اسلوبی کے ساتھ "تقریب تقسیم اسناد"پر اختتام پذیر ہوا۔

دوران کورس نئےدوستوں سے ملاقات ہوئی۔ ہمارے کورس کے روح رواں اور کورس کوارڈینیٹر جناب محترم "علی سعد القادری" اپنے مرشد کے رنگ میں رنگے ہوئے نظر آئے۔مرشد کی ہر ادا کو اپنی عادت میں پرو کر اور تصوف کے واضح کردہ اصولوں پر کار بند ہو کرمحترم نے مکمل جان فشانی کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو سرانجام دیا۔ ایک زیرک اندیش شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ ان میں علم و ادب کا حسین امتراج بھی دیکھنے کو ملا۔ دبلے پتلے سے جسم کے ساتھ پھرتیلے سے کام کرنا ، کمال جگرے کا کام تھا۔ بقول شاعر
*ادھر آ پیارے ہنز آزمائیں۔*
*تو تیر آزما، ہم ہنر آزمائیں۔*

محترم علی سعد القادری کے دست بازو جناب محترم "حسین علی خان" ہر لمحہ ان کی نائب ہونے کی ذمہ داری کو نبھاتے رہے۔پرکشش شخصیت، دھیما لہجہ، لطافت اور مطعانت سے لبریز گفتگو اور جاذب نظر مسکراہٹ کو سجائے ہوئے ہر وقت سر جھکا کر کام کرتے نظر آئے۔ شاعر کی زبان میں
*نرم دمِ گُفتگو، گرم دمِ جُستجو*
*رزم ہو یا بزم ہو، پاک دل و پاک باز*

ہمارے پہلے استاد محترم جناب *"محمد فاروق رانا"* مقرر ہوئے ۔ حیاء کے پیکر اور علم و عمل کے سمندر، انداز تکلم ایسا کے بے عزتی بھی عزت محسوس ہو۔تصوف کی کتب کے نام یوں بتاتے تھے جیسے ماہانہ راشن میں موجود اشیاء کے نام ہو ں۔ بقول اقبال۔۔
*حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی*
*خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ*

اگلے سیشن میں کورس کے مرکزی استاد پروفیسر ڈاکٹر "شبیر احمد جامی" نے ڈائس سنبھالا۔ ابتدائے گفتگو سے انتہائے گفتگو تک ہم محو حیرت رہے۔ الفاظ کہاں سے آرہے ہیں اور کہاں جا رہے ہیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ کیا ہمارے سامنے ہمارے ہی سماج کا استاد ہے یا پھر یہ کسی اور دنیا سے تعلق رکھتا ہے۔ الفاظات کو روح تک پہنچانے کا ملکہ اللہ کریم نے جامی صاحب کو خوب خوب عطا فرمایا ہے۔ آخری نشست تک ہمارا یہی گمان ہے کہ حقیقی رجال الغیب ایسے ہوتے ہیں۔ یعنی
*موسم موسم آنکھوں کو اک سپنا یاد رہا*
*صدیاں جس میں سمٹ گئیں وہ لمحہ یاد رہا*
*قوس قزح کے ساتوں رنگ تھے ان کے لہجے میں*
*ساری محفل بھول گئی ، وہ چہرہ یاد رہا۔*

چند اور اساتذہ کے علم سے فیض یاب ہونے کے بعدخوش نصیبی نے دستک دی اور ہم بہ نفس نفیس شاہِ فن تحقیق و خطابت کے محبوب لختِ جگر ، موجزن علم و حلم جناب محترم "ڈاکٹر حسین محی الدین قادری" صاحب کے روبرو ہوئے۔ اپنے دور حصول علم سے لیکر دور تعلم تک میں نے اتنی سلیس زبان میں تصوف کو کبھی نہ سمجھا اور نہ سمجھایا۔ بصیرت سے مزین بارعب شخصیت نے ہم سب کو نہ صرف محسور کیا بلکہ عالم ناسوت سے عالم ھا ہوت تک کا سفر بھی طے کر وا دیا۔ ہمارے لئے یہ کسی بڑے اعزاز سے کم نہ تھا کہ ہم لوگ شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری کے علمی فیضان کے وارث سے بالواسطہ علم حاصل کر رہے تھے۔
*جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک*
*ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں*

ہمارے کورس میں ہمارے ساتھ نشستوں پر براجمان احباب بھی کچھ کم اہمیت کے حامل نہ تھے۔ اسلاف کی روایات کو اس دور میں بھی تازہ کئے ہوئے ہمارے "سید بادشاہ بھائی جان" چھپے رستم سے کم نہ تھے۔ ان کے ساتھ ساتھ نوجوان سکالرز اور لازوال عشق میں ڈوبی ہوئی میری بہنیں بھی اپنی مثال آپ تھیں۔

ہر کلاس کے اختتام پر "تھیوری کو پریکٹیکل" میں تبدیل کرنے کا انتظام بھی "مراقبہ" کی صورت میں موجود تھا۔ قرآن پاک کی پر نور آیات مقدسہ جب قاری صاحب کی زبان سے بلند ہوتیں تو پورے "زاویۃ المراقبہ"میں ایک سحر طاری ہو جاتا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی انسان رب کریم کی بارگاہ اقدس میں سر بسجود ہو جاتا۔

کورس کو مرحلہ تکمیل تک لے جانے والے ہر فرد جو انتظامیہ سے تعلق رکھتا ہو (چاہے گیٹ پر بیٹھا سیکورٹی گارڈ ہی کیوں نہ ہو) یقنا مبارک باد کے حامل ہیں۔ جنہوں نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو برو ئے کار لا کر اسے کامیاب کیا اور خاص طور پر 9 جون 2024 کو پلان کیا گیا "زیاراتی ٹور" جس میں انتہا کی ذہنی و جسمانی کوفت کو برداشت کی کے خیر و عافیت کے ساتھ مکمل کروایا۔

تحریر کرنے کو ایک ایک لمحہ قلم بند کیا جا سکتا ہےمگر اس کے لئے ہر اس کیفیت کو پیش کرنا بہت ضروری ہو گا جو ہمیں ان 4 ماہ میں نصیب ہوئی اور یقناً یہ ایک طویل کام ہے۔ میں اپنی تمام تر علمی و ادبی خامیوں کے ساتھ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے جناب محترم "علی سعد القادری" صاحب اور انکی تمام ٹیم کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور اپنی ٹیم کے ہمراہ دعا کرتا ہوں کہ اللہ کریم میرے آقا کریم ﷺ کے صدقے ان کو ہر آفت سے محفوظ فرمائے اور ان پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے۔ آمین
احقر
پروفیسر کامران سعید توگیروی صابری (اوکاڑہ۔ ساہیوال)

گجرات کے معروف علمی  و روحانی خانوادے  حضرت پیرسید ولایت شاہ صاحب کے  چشم و چراغ زینت القرا فخرالسادات حضرت علامہ پیر سی...
18/06/2024

گجرات کے معروف علمی و روحانی خانوادے حضرت پیرسید ولایت شاہ صاحب کے چشم و چراغ زینت القرا فخرالسادات حضرت علامہ پیر سید نذرحسین شاہ صاحب کےہمراہ حضرت امام سید موسیٰ کاظم علیہ السلام کے در بااودس ملک عراق کاظمین شریفین میں خوبصورت یادگار

18/06/2024
18/06/2024

قربانی کرنے والےدوست احباب مجھے اک با ضرور پڑھے
شاید دنیا میں میں وہ واحد انسان ہو گا جسے عید کے قریب آنے پر خوشی نہیں ہوتی ،بلکہ میری کیفیت عجیب سی ہونے لگتی ہے ۔
ٹھیک ہے یہ اسلامی تہوار ہے منانے چاہیے لیکن میری اذیت میں اضافہ ہونے لگ جاتا ہے جب بھی عید قریب آنے لگتی ہے ۔
جہاں کہی بھی لوگ عید کا ،عید کی تیاریوں کا تذکر کرنے لگتے ہیں میں وہاں سے اٹھ آتا ہوں ۔
عید قربان جب بھی قریب آتی ہے تو کچھ لوگ قربانی اور جانور اور فلاں فلاں حصہ جیسی مصروفیات میں شامل ہوتے ہیں تو ایسے لوگ مجھے زہر لگنے لگتے ہیں ۔۔
میں اس کیفیت کی وجہ آج تک نہیں سمجھ سکا ۔۔
مجھے تو پانچ سال ہو گئے ہیں ،میں قربانی نہیں کر سکا ۔
لیکن اس کے باوجود جب بھی بڑی عید آتی ہے تو میں اس سے لاتعلق ہونے کی کوشش کرتا ہوں ۔
دو سال پہلے بڑی عید کے موقع پر میری بیٹیوں نے گوشت کا ضد کیا تھا ۔۔۔لیکن اب وہ بھی سمجھدار ہو گئی ہے ۔
ایک بار دو سال پہلے عید کے موقع پر میری چھوٹی بیٹی شازیہ مجھے کہتی ہے کہ

بابا.... بابا .... ہمیں بھی گوشت ملے گا نا ؟

میں نے کہا : ہاں ہاں کیوں نہیں بِالکُل ملے گا۔۔

لیکن بابا ....پچھلی عید پر تو کسی نے بھی ہمیں گوشت نہیں دیا تھا،
اب تو پورا سال ہو گیا ھےگوشت دیکھے ہوئے بھی۔۔۔

میں نے بڑے پیار سے سمجھایا :بیٹا اللہ نے ہمیں بھوکا تو نہیں رکھا،
میری پیاری بیٹی، ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیۓ۔۔
میری بیٹی پھر بولنے لگی ۔۔
ساتھ والے انکل قربانی کے لئے بڑا جانور لے کر آئے ہیں،
اور سامنے والے چاچا اقبال بھی تو بکرا لے کر آئےہیں،

میں دل میں سوچ رہا تھا کہ ہم غریبوں کے لیے ہی تو قربانی کا گوشت ہوتا ہے،
امیر لوگ تو سارا سال گوشت ہی کھاتے ہیں،

یہی سوچتے ہوئے میں عید کی نماز کیلے مسجد کی طرف چل پڑا ۔
وہاں بھی مولوی صاحب بیان فرما رہے ہیں
کہ قربانی میں غریب مسکین لوگوں کونہیں بھولنا چاہئے۔۔
ان کے بہت حقوق ہوتے ہیں۔۔۔۔

خیر میں بھی نماز ادا کر کےگھر پھنچ گیا،

کوئی گھنٹہ بھر انتظار کرنے کے بعد میری بیٹی بولی۔۔

بابا ابھی تک گوشت نہیں آیا ،

بڑی بہن رافیہ بولی ۔۔ چپ ہو جاٶ شازی بابا کو تنگ نہ کرو

میں چپ چاپ دونوں کی باتیں سنتا رہا اور نظرانداز کرتا رہا ۔۔
کافی دیر کے بعد بھی جب کہیں سے گوشت نہیں آیا تو شازیہ کی ماں بولی۔
سنیۓ میں نے تو پیاز ٹماٹر بھی کاٹ دیۓہیں۔ لیکن کہیں سے بھی گوشت نہیں آیا،
کہیں بھول تو نہیں گئے ہماری طرف گوشت بجھوانا۔۔۔۔
آپ خود جا کر مانگ لائیں،

میں نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا کہ یہ کیا عجیب بات کر رہی ہے ۔
میں نے نرمی سے کہا ۔۔
دیکھو شازیہ کی ماں۔۔۔۔ تمہیں تو پتہ ھے آج تک ہم نےکبھی کسی سے مانگانہیں ،
اللہ کوئی نہ کوئی سبب پیدا کرے گا۔۔

دوپہر گزرنے کے بعد شازیہ کے بار بار اصرار پر پہلے دوسری گلی میں ایک جاننے والے ڈاکٹر صاحب کے گھر گئے،
بیٹی کا مایوسی سے بھرا چہرہ برداشت نہیں ہو رہا تھا ۔
اس لئیے مجبوراً اس کو ساتھ لے کر چل پڑا ۔۔۔

ڈاکٹر صاحب دروازے پر آئے تو میں بولا ۔۔

۔ ڈاکٹر صاحب میں آپ کاپڑوسی ہوں کیا قربانی کا گوشت مل سکتاہے؟
یہ سننا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کا رنگ لال پیلا ہونے لگا،
اور حقارت سے بولے پتہ نہیں کہاں کہاں سے آ جاتے ہیں گوشت مانگنے،
تڑاخ سے دروازہ بند کر دیا ۔۔
توہین کے احساس سے میری آنکھوں میں آنسو آ گۓ۔۔
لیکن بیٹی کا دل نہ دکھے ،آنسووں کو زبردستی پلکوں میں روکنے کی کوشش کرنے لگا ۔۔

آخری امید اقبال چاچا ۔۔بو جھل قدموں سے چل پڑا ۔۔
ان کے سامنے بھی بیٹی کی خاطر گوشت کیلے دست سوال۔

اقبال چاچا نے گوشت کا سن کرعجیب سی نظروں سے دیکھا اور چلےگۓ۔
تھوڑی دیر بعد باھرآۓ تو شاپر دے کرجلدی سے اندر چلۓ گۓ۔
جیسے میں نے گوشت مانگ کر گناہ کر دیا ہو۔۔
گھر پہنچ کر دیکھا تو صرف ہڈیاں اور چربی ۔۔

خاموشی سے اٹھ کرکمرے میں چلے آیا اور بے آواز آنسو بہتے جارہے تھے ۔
بیوی آئی اور بولی کوئی بات نہیں۔۔ آپ غمگین نہ ہوں۔
میں چٹنی بنا لیتی ہوں۔

تھوڑی دیر بعد شازیہ کمرے میں آئی ۔
اور بولی بابا
ہمیں گوشت نہںں کھانا ۔ میرے پیٹ میں درد ہو رہا ہے ۔۔
لیکن میں سمجھ گیا کہ بیٹی باپ کو دلاسہ دے رہی ہے ۔۔

بس یہ سننا تھا کہ میری آنکھوں سے آنسو گرنےلگے اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا
لیکن رونے والا میں اکیلا نہیں تھا۔۔
دونوں بچیاں اور بیوی بھی آنسو بہا رہی تھی
اتنے میں پڑوس والے اکرم کی آواز آئی ۔۔
جو سبزی کی ریڑھی لگاتا تھا۔۔
آزاد بھائی ،
دروازہ کھولو،
دروازہ کھولا۔۔
تو اکرم نے تین چار کلوگوشت کا شاپر پکڑا دیا،
اور بولا ،
گاٶں سے چھوٹا بھائی لایا ہے۔
اتنا ہم اکیلے نہیں کھا سکتے۔
یہ تم بھی کھا لینا
خوشی اورتشکر کے احساس سےآنکھوں میں آنسو آ گۓ ۔
اور اکرم کے لیۓ دل سے دعا نکلنے لگی۔
گوشت کھا کر ابھی فارغ ھوۓ ہی تھے کہ بہت زور کا طوفان آیا ۔
بارش شروع ہو گئ۔ اسکے ساتھ ہی بجلی چلی گئی۔
دوسرے دن بھی بجلی نہی آئی۔
پتہ کیا تو معلوم ہوا ٹرانسفارمر جل گیا۔

تیسرے دن میری بیٹی شازیہ اور میں باہر آئے تو دیکھا کہ،
اقبال چاچا اور ڈاکٹر صاحب بہت سا گوشت باہر پھینک رہے تھے ۔
جو بجلی نہ ہونےکی وجہ سے خراب ہو چکا تھا۔
اور اس پر کُتے جھپٹ رہے تھے۔
شازیہ بولی ،
بابا ۔
کیا کُتوں کے لیۓ قربانی کی تھی ؟
وہ شازیہ کا چہرہ دیکھتے رہ گئے ۔

اقبال چاچا اور ڈاکٹر صاحب نے یہ سُن کر گردن جھکا لی۔


یہ صِرف تحریر ھی نہیں،گذشتہ چند سالوں میں قربانی کے موقع پر آنکھوں دیکھا حال ہے۔
اور میں پچیس برس تک امامت و خطابت کے فرائض بھی انجام دیتارہاواللہ العظیم شازرو نا زر کوئی بندہ ء خداہو جس کسی نے گوشت بھیجا ہو خدابھلاکرے ان کا
ایک عجیب اور خوبصورت بات یہ بھی یاد آئی کہ جب سے دینی مدرسہ قائم کیاھے اس کے بعد سے میرے تمام دوست احباب و رشتہ دار حضرات ادارہ کے ساتھ تعاون کے لیے قربانی کے بکرے ہابیل کی کھال ضرور بلضرو بھجوا دیتےہیں ،،،مگر امام خطیب یاادارہ کے مدرس اور طلبائے کرام کو گوشت نہیں بھیج تے
ان کے ذہن میں یہ خیال ہوتاھے کہ مدرسہ والوں کے پاس 20,,یا 15 جانور قربانی ہوئے ہیں لہذا انہیں گوشت۔ نہیں بھیجناچاہئیے
جبکہ حقیقت حال یہ ھے کہ ہر حصہ دار اپنے حصےکاگوشت
تلوانے کے بعد مولانا صاحب کو سلام بھی کرتے اور بھاگتےہنظر آئیں گے
خدارا احساس کریں غریب اور مسکین لوگوں کا جو آپ کے آس پاس ہی رہتے ہیں ۔

18/06/2024

قربانی کرنے والےدوست احباب مجھے اک با ضرور پڑھے
شاید دنیا میں میں وہ واحد انسان ہو گا جسے عید کے قریب آنے پر خوشی نہیں ہوتی ،بلکہ میری کیفیت عجیب سی ہونے لگتی ہے ۔
ٹھیک ہے یہ اسلامی تہوار ہے منانے چاہیے لیکن میری اذیت میں اضافہ ہونے لگ جاتا ہے جب بھی عید قریب آنے لگتی ہے ۔
جہاں کہی بھی لوگ عید کا ،عید کی تیاریوں کا تذکر کرنے لگتے ہیں میں وہاں سے اٹھ آتا ہوں ۔
عید قربان جب بھی قریب آتی ہے تو کچھ لوگ قربانی اور جانور اور فلاں فلاں حصہ جیسی مصروفیات میں شامل ہوتے ہیں تو ایسے لوگ مجھے زہر لگنے لگتے ہیں ۔۔
میں اس کیفیت کی وجہ آج تک نہیں سمجھ سکا ۔۔
مجھے تو پانچ سال ہو گئے ہیں ،میں قربانی نہیں کر سکا ۔
لیکن اس کے باوجود جب بھی بڑی عید آتی ہے تو میں اس سے لاتعلق ہونے کی کوشش کرتا ہوں ۔
دو سال پہلے بڑی عید کے موقع پر میری بیٹیوں نے گوشت کا ضد کیا تھا ۔۔۔لیکن اب وہ بھی سمجھدار ہو گئی ہے ۔
ایک بار دو سال پہلے عید کے موقع پر میری چھوٹی بیٹی شازیہ مجھے کہتی ہے کہ

بابا.... بابا .... ہمیں بھی گوشت ملے گا نا ؟

میں نے کہا : ہاں ہاں کیوں نہیں بِالکُل ملے گا۔۔

لیکن بابا ....پچھلی عید پر تو کسی نے بھی ہمیں گوشت نہیں دیا تھا،
اب تو پورا سال ہو گیا ھےگوشت دیکھے ہوئے بھی۔۔۔

میں نے بڑے پیار سے سمجھایا :بیٹا اللہ نے ہمیں بھوکا تو نہیں رکھا،
میری پیاری بیٹی، ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیۓ۔۔
میری بیٹی پھر بولنے لگی ۔۔
ساتھ والے انکل قربانی کے لئے بڑا جانور لے کر آئے ہیں،
اور سامنے والے چاچا اقبال بھی تو بکرا لے کر آئےہیں،

میں دل میں سوچ رہا تھا کہ ہم غریبوں کے لیے ہی تو قربانی کا گوشت ہوتا ہے،
امیر لوگ تو سارا سال گوشت ہی کھاتے ہیں،

یہی سوچتے ہوئے میں عید کی نماز کیلے مسجد کی طرف چل پڑا ۔
وہاں بھی مولوی صاحب بیان فرما رہے ہیں
کہ قربانی میں غریب مسکین لوگوں کونہیں بھولنا چاہئے۔۔
ان کے بہت حقوق ہوتے ہیں۔۔۔۔

خیر میں بھی نماز ادا کر کےگھر پھنچ گیا،

کوئی گھنٹہ بھر انتظار کرنے کے بعد میری بیٹی بولی۔۔

بابا ابھی تک گوشت نہیں آیا ،

بڑی بہن رافیہ بولی ۔۔ چپ ہو جاٶ شازی بابا کو تنگ نہ کرو

میں چپ چاپ دونوں کی باتیں سنتا رہا اور نظرانداز کرتا رہا ۔۔
کافی دیر کے بعد بھی جب کہیں سے گوشت نہیں آیا تو شازیہ کی ماں بولی۔
سنیۓ میں نے تو پیاز ٹماٹر بھی کاٹ دیۓہیں۔ لیکن کہیں سے بھی گوشت نہیں آیا،
کہیں بھول تو نہیں گئے ہماری طرف گوشت بجھوانا۔۔۔۔
آپ خود جا کر مانگ لائیں،

میں نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا کہ یہ کیا عجیب بات کر رہی ہے ۔
میں نے نرمی سے کہا ۔۔
دیکھو شازیہ کی ماں۔۔۔۔ تمہیں تو پتہ ھے آج تک ہم نےکبھی کسی سے مانگانہیں ،
اللہ کوئی نہ کوئی سبب پیدا کرے گا۔۔

دوپہر گزرنے کے بعد شازیہ کے بار بار اصرار پر پہلے دوسری گلی میں ایک جاننے والے ڈاکٹر صاحب کے گھر گئے،
بیٹی کا مایوسی سے بھرا چہرہ برداشت نہیں ہو رہا تھا ۔
اس لئیے مجبوراً اس کو ساتھ لے کر چل پڑا ۔۔۔

ڈاکٹر صاحب دروازے پر آئے تو میں بولا ۔۔

۔ ڈاکٹر صاحب میں آپ کاپڑوسی ہوں کیا قربانی کا گوشت مل سکتاہے؟
یہ سننا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کا رنگ لال پیلا ہونے لگا،
اور حقارت سے بولے پتہ نہیں کہاں کہاں سے آ جاتے ہیں گوشت مانگنے،
تڑاخ سے دروازہ بند کر دیا ۔۔
توہین کے احساس سے میری آنکھوں میں آنسو آ گۓ۔۔
لیکن بیٹی کا دل نہ دکھے ،آنسووں کو زبردستی پلکوں میں روکنے کی کوشش کرنے لگا ۔۔

آخری امید اقبال چاچا ۔۔بو جھل قدموں سے چل پڑا ۔۔
ان کے سامنے بھی بیٹی کی خاطر گوشت کیلے دست سوال۔

اقبال چاچا نے گوشت کا سن کرعجیب سی نظروں سے دیکھا اور چلےگۓ۔
تھوڑی دیر بعد باھرآۓ تو شاپر دے کرجلدی سے اندر چلۓ گۓ۔
جیسے میں نے گوشت مانگ کر گناہ کر دیا ہو۔۔
گھر پہنچ کر دیکھا تو صرف ہڈیاں اور چربی ۔۔

خاموشی سے اٹھ کرکمرے میں چلے آیا اور بے آواز آنسو بہتے جارہے تھے ۔
بیوی آئی اور بولی کوئی بات نہیں۔۔ آپ غمگین نہ ہوں۔
میں چٹنی بنا لیتی ہوں۔

تھوڑی دیر بعد شازیہ کمرے میں آئی ۔
اور بولی بابا
ہمیں گوشت نہںں کھانا ۔ میرے پیٹ میں درد ہو رہا ہے ۔۔
لیکن میں سمجھ گیا کہ بیٹی باپ کو دلاسہ دے رہی ہے ۔۔

بس یہ سننا تھا کہ میری آنکھوں سے آنسو گرنےلگے اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا
لیکن رونے والا میں اکیلا نہیں تھا۔۔
دونوں بچیاں اور بیوی بھی آنسو بہا رہی تھی
اتنے میں پڑوس والے اکرم کی آواز آئی ۔۔
جو سبزی کی ریڑھی لگاتا تھا۔۔
آزاد بھائی ،
دروازہ کھولو،
دروازہ کھولا۔۔
تو اکرم نے تین چار کلوگوشت کا شاپر پکڑا دیا،
اور بولا ،
گاٶں سے چھوٹا بھائی لایا ہے۔
اتنا ہم اکیلے نہیں کھا سکتے۔
یہ تم بھی کھا لینا
خوشی اورتشکر کے احساس سےآنکھوں میں آنسو آ گۓ ۔
اور اکرم کے لیۓ دل سے دعا نکلنے لگی۔
گوشت کھا کر ابھی فارغ ھوۓ ہی تھے کہ بہت زور کا طوفان آیا ۔
بارش شروع ہو گئ۔ اسکے ساتھ ہی بجلی چلی گئی۔
دوسرے دن بھی بجلی نہی آئی۔
پتہ کیا تو معلوم ہوا ٹرانسفارمر جل گیا۔

تیسرے دن میری بیٹی شازیہ اور میں باہر آئے تو دیکھا کہ،
اقبال چاچا اور ڈاکٹر صاحب بہت سا گوشت باہر پھینک رہے تھے ۔
جو بجلی نہ ہونےکی وجہ سے خراب ہو چکا تھا۔
اور اس پر کُتے جھپٹ رہے تھے۔
شازیہ بولی ،
بابا ۔
کیا کُتوں کے لیۓ قربانی کی تھی ؟
وہ شازیہ کا چہرہ دیکھتے رہ گئے ۔

اقبال چاچا اور ڈاکٹر صاحب نے یہ سُن کر گردن جھکا لی۔


یہ صِرف تحریر ھی نہیں،گذشتہ چند سالوں میں قربانی کے موقع پر آنکھوں دیکھا حال ہے۔
خدارا احساس کریں غریب اور مسکین لوگوں کا جو آپ کے آس پاس ہی رہتے ہیں ۔

18/06/2024

قربانی۔۔! شریعت طریقت حقیقت اور معرفت میں۔

قربانی اسلام میں ایک اہم عمل ہے جو اللہ کے قریب ہونے کے لیے انجام دیا جاتا ہے۔ یہ عمل نبی ابراہیم علیہ السلام کی سنت کی پیروی میں ہے، جب انہوں نے اللہ کے حکم پر اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کی کوشش کی تھی۔ قربانی کا بنیادی مقصد اللہ کی رضا اور قربت حاصل کرنا ہے، اور حضور ﷺ نے جب اس عمل کو خود کیا اور اپنے اُمت کو بھی حکم دیا تو ہم پر واجب ہے کہ قربانی ضرور کریں۔

# # # شریعت میں قربانی:

*شریعت* میں، قربانی ایک واجب عبادت ہے جو ہر صاحب استطاعت مسلمان پر عید الاضحیٰ کے موقع پر واجب ہوتی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ غرباء و مساکین جو گوشت نہیں کھا سکتے ان تک اس کو پہنچایا جائے۔ اور اس کا ثبوت قرآن اور حدیث دونوں میں ملتا ہے:

- *قرآن:* "وَلِكُلِّ اُمَّةٍ جَعَلۡنَا مَنۡسَكًا لِّيَذۡكُرُوا اسۡمَ اللّٰهِ عَلٰى مَا رَزَقَهُمۡ مِّنۡۢ بَهِيۡمَةِ الۡاَنۡعَامِ" (سورۃ الحج: 34)
ترجمہ: "اور ہر اُمت کے لئے ہم نے قربانی مقرر کر دی تاکہ وہ ان چوپایوں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں۔"

- *قرآن:* "فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ" (سورۃ الکوثر: 2) ترجمہ: "پس اپنے رب کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔"

حضرت محمد ﷺ نے اپنی زندگی میں قربانی کا اہتمام کیا اور اُمت کو بھی اس کا حکم دیا:

- *حدیث:* آپ ﷺ نے اپنے ہاتھوں سے تریسٹھ (63) اونٹ قربان کئے (ذبح کئے) پھر حضرت علی ؓ کو برچھا عطا فرمایا اور انہوں نے باقی قربانیاں ذبح کیں (مسلم 2950)

- *حدیث:* نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص استطاعت رکھتا ہو اور قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے (مسند احمد 7924)

# # # طریقت میں قربانی:

*طریقت* میں قربانی کا مفہوم زیادہ روحانی ہوتا ہے۔ یہاں قربانی صرف جانور کی قربانی تک محدود نہیں بلکہ اپنی خواہشات، نفس اور دنیاوی مال و دولت کی قربانی بھی شامل ہوتی ہے۔ یہ نفس کی قربانی کے ذریعے اللہ سے قربت حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔

# # # حقیقت اور معرفت میں قربانی:

*حقیقت* اور *معرفت* میں قربانی کی گہرائی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ یہاں قربانی کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنی ہر چیز اللہ کی رضا کے لیے قربان کر دے اور اپنی ہر چاہت کو اللہ کی رضا کے تابع کر دے۔ یہ قربانی کی اعلیٰ ترین سطح ہے جہاں بندہ اللہ کی محبت میں اپنی خودی کو فنا کر دیتا ہے۔

# # # اولیاء اللہ اور قربانی:

اولیاء اللہ کی زندگیوں میں قربانی کا اہم مقام ہے۔ انہوں نے نہ صرف جانور کی قربانی کی بلکہ اپنی زندگی، اپنی اولاد، مال و دولت اور ہر چیز اللہ کے راستے میں قربان کی۔ تاریخ میں بہت سے اولیاء اللہ کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے اپنے ہاتھوں سے قربانی کی۔ اور حج کا ایک اہم رکن قربانی ہے بغیر قربانی کے حج مکمل ہو ہی نہیں سکتا۔ اکثر اولیاء اکرام نے حج کیا اور قربانی کی۔ حالانکہ اولیاء ظاہری اور باطنی قربانی کو ہم سے بہتر جانتے تھے پھر بھی انہوں نے ظاہری قربانی کی۔ اور آج کل چند نام نہاد کے جعلی صوفی پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے شریعت کو سرے سے انکار کرنا شروع کر دیا ہے اور وہ ظاہری قربانی کے بالکل خلاف نظر آتے ہیں، اُن کا کہنا ہوتا ہے کہ "جانور کو ذبح کرنا اسلام کی تعلیمات میں سے نہیں ہے یہ قربانی سنت ابراہیمی ہے، سنت محمدی ﷺ اپنے نفس کو قربان کرنا ہے۔"

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود کو تمام، تمام صحابہ کرام، اولیاء اللہ و صوفیہ کرام سے زیادہ تعلیم یافتہ سمجھتے ہیں۔ کیا اولیاء اللہ نفس کی پہچان ان سے بہتر نہیں رکھتے تھے؟ کیا اولیاء اللہ ان سے زیادہ اللہ اور رسول ﷺ سے قربت نہیں رکھتے تھے؟ پھر بھی اُنہوں نے ظاہری طور سے شریعت محمدی کا خیال رکھتے ہوئے حج بھی کیا اور قربانی بھی کیا۔

افسوس ہے ایسے لوگوں پر اور دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کو ہدایات عطا فرمائے۔

چنانچہ آئیں دیکھتے ہیں چند اولیاء کرام کے نام ہیں جنہوں نے شریعت کے مطابق حج بھی کیا اور اپنے ہاتھو سے قربانی بھی کی:

- *مولا علی کرم اللہ وجہہ:* آپ نے ہمیشہ اپنی قربانی خود کی اور سنت کے مطابق قربانی کا جانور خود ذبح کرتے احادیث میں کثرت سے ذکر ہے۔
📚 "صحیح مسلم" حدیث نمبر: 2950

- *حضرت جنید بغدادیؒ* عظیم صوفی اور روحانی پیشوا تھے۔ آپ نے حج کیا اور اپنی روحانی تعلیمات میں قربانی کی اہمیت پر زور دیا۔
📚 "طبقات الصوفیہ" از ابوالعبد الرحمن السلمی

- *حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ* نے کئی بار حج کیا اور اپنی زندگی میں ہمیشہ قربانی کا اہتمام کیا۔ آپ کی کتاب "فتوح الغیب" میں قربانی کے فلسفے پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔
📚 "فتوح الغیب" از شیخ عبدالقادر جیلانی
📚 "غنیۃ الطالبین" از شیخ عبدالقادر جیلانی

- *حضرت حسن بصریؒ* تابعین میں سے تھے اور آپ کی زندگی تقویٰ اور عبادت سے بھرپور تھی۔ آپ نے متعدد بار حج کیا اور قربانی کی۔
📚 "حلیۃ الاولیاء" از ابونعیم الاصفہانی

- *حضرت رابعہ بصریؒ* عظیم صوفیہ میں سے ہیں۔ آپ کی زندگی زہد و تقویٰ کی مثال ہے اور آپ نے بھی حج کی سعادت حاصل کی۔
📚 "حلیۃ الاولیاء" از ابونعیم الاصفہانی

- *حضرت بایزید بسطامیؒ* نے بھی حج کی سعادت حاصل کی اور اپنی زندگی اللہ کی رضا کے لیے وقف کر دی۔ آپ نے بھی قربانی کی۔
📚 "تذکرۃ الاولیاء" از حضرت فرید الدین عطار

- *حضرت علی ہجویری، المعروف داتا گنج بخشؒ*، نے بھی حج کیا اور قربانی کی۔ آپ کی کتاب "کشف المحجوب" میں اس کا ذکر ملتا ہے۔
📚 "کشف المحجوب" از حضرت علی ہجویری

- *حضرت شیخ احمد سرہندی، المعروف مجدد الف ثانیؒ* نے بھی حج کیا اور قربانی کی۔ آپ نے اصلاحِ امت کے لیے اپنی زندگی وقف کی۔
📚 "مکتوبات امام ربانی" از شیخ احمد سرہندی

- *حضرت معین الدین چشتیؒ* نے اپنی زندگی میں حج کیا اور قربانی کا اہتمام کیا۔ آپ کی کتاب "انيس الارواح" میں اس کا ذکر ملتا ہے۔
📚 "انيس الارواح" از حضرت معین الدین چشتی

- *حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ* بھی سلسلہ چشتیہ کے معروف بزرگ ہیں۔ آپ نے حج کیا اور قربانی کی۔
📚 "فوائد السالکین" از حضرت نظام الدین اولیاء

- *حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ* پاکپتن شریف کے مشہور صوفی بزرگ ہیں۔ آپ نے حج کیا اور قربانی کی۔
📚 "اسرار الاولیاء" از مولانا عبدالرحمن چشتی

- *حضرت مولانا جلال الدین رومیؒ* نے بھی حج کیا اور قربانی کی۔ ان کی مثنوی میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔
📚 "مثنوی معنوی" از مولانا جلال الدین رومی

- *حضرت فرید الدین عطارؒ* جنہوں نے اپنی کتاب "تذکرۃ الاولیاء" میں حج اور قربانی کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے۔
📚 "تذکرۃ الاولیاء" از حضرت فرید الدین عطار

- *حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ* نے بھی حج کیا اور قربانی کی۔ آپ کی زندگی اور تعلیمات میں اس کا ذکر ملتا ہے۔
📚 "تاریخ سندھ" از کاظم شاہ

- *حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانیؒ* ملتان کے مشہور صوفی بزرگ ہیں۔ آپ نے حج کیا اور قربانی کی۔
📚 "تاریخ ملتانی" از سید عطاء اللہ شاہ بخاری

- *حضرت وارث علی شاہؒ* دیوا شریف اتر پردیش کے مشہور بزرگ اور سلسلہ وارثیہ کے بانی بھی ہیں آپ نے متعدد بار حج کیا اور قربانی کی۔
📚 "مشکات حقانیہ" از مولوی فضل حسین وارثی
📚 "حیات وارث" از مولانا عبدالحکیم شرف قادری

- *سرکار میم ہندیؒ* دترول شریف نواده بہار ہمارے پیر و مرشد ہر سال عید الاضحٰی کے موقعے پر اپنے ہاتھوں سے قربانی کیا کرتے تھے اور اس گوشت کو غریبوں مسکینوں میں بانٹا کرتے تھے۔
📚 "سوانح حیات سرکار میم ہندیؒ" از معراج افضلی

- *حضرت شاہ رکن عالمؒ* ملتان کے مشہور صوفی بزرگ ہیں۔ آپ نے حج کیا اور قربانی کی۔ آپ کی تعلیمات میں روحانیت اور تقویٰ پر زور دیا گیا ہے۔
📚 "ملتان کے اولیاء" از سید علی ہاشمی

- *حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائیؒ* سندھ کے مشہور صوفی شاعر ہیں۔ آپ نے حج کیا اور قربانی کی۔ آپ کی شاعری میں اللہ کی محبت اور انسانی تعلقات کی عکاسی ہوتی ہے۔
📚 "شاہ جو رسالو" از ڈاکٹر نبی بخش بلوچ

- *حضرت بلھے شاہؒ* پنجاب کے مشہور صوفی شاعر ہیں۔ آپ نے حج کیا اور قربانی کی۔ آپ کی شاعری میں اللہ کی محبت اور انسانی رشتوں کی گہرائی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
📚 "خزینہ الاصفیا" از غلام سرور لاہوری

# # # مستند حوالہ جات:
- "کتاب الفتاویٰ" از ابن تیمیہ
- "احیاء علوم الدین" از امام غزالی
- "الفتاویٰ الکبریٰ" از ابن حجر عسقلانی
- "کشف المحجوب" از حضرت داتا گنج بخش
- "رسالہ قشیریہ" از امام قشیری
- "فتوح الغیب" از شیخ عبدالقادر جیلانی
- "انيس الارواح" از حضرت معین الدین چشتی
- "تذکرۃ الاولیاء" از حضرت فرید الدین عطار
- "سیر الاولیاء" از میر خوشحال خان
- "مشکات حقانیہ" از مولوی فضل حسین وارثی
- "حیات وارث" از مولانا عبدالحکیم شرف قادری
- "قصص الاولیاء" از ملا علی قاری

قربانی کرنے والےدوست احباب تحریر اک بار ضرور پڑھے شاید دنیا میں میں وہ واحد انسان ہو گا جسے عید کے قریب آنے پر خوشی نہیں...
11/06/2024

قربانی کرنے والےدوست احباب تحریر اک بار ضرور پڑھے
شاید دنیا میں میں وہ واحد انسان ہو گا جسے عید کے قریب آنے پر خوشی نہیں ہوتی ،
بلکہ میری کیفیت عجیب سی ہونے لگتی ہے ۔
ٹھیک ہے یہ اسلامی تہوار ہے منانے چاہیے لیکن میری اذیت میں اضافہ ہونے لگ جاتا ہے جب بھی عید قریب آنے لگتی ہے ۔
جہاں کہی بھی لوگ عید کا ،عید کی تیاریوں کا تذکر کرنے لگتے ہیں میں وہاں سے اٹھ آتا ہوں ۔
عید قربان جب بھی قریب آتی ہے تو کچھ لوگ قربانی اور جانور اور فلاں فلاں حصہ جیسی مصروفیات میں شامل ہوتے ہیں تو ایسے لوگ مجھے زہر لگنے لگتے ہیں ۔۔
میں اس کیفیت کی وجہ آج تک نہیں سمجھ سکا ۔۔
مجھے تو پانچ سال ہو گئے ہیں ،میں قربانی نہیں کر سکا ۔
لیکن اس کے باوجود جب بھی بڑی عید آتی ہے تو میں اس سے لاتعلق ہونے کی کوشش کرتا ہوں ۔
دو سال پہلے بڑی عید کے موقع پر میری بیٹیوں نے گوشت کا ضد کیا تھا ۔۔۔لیکن اب وہ بھی سمجھدار ہو گئی ہے ۔
ایک بار دو سال پہلے عید کے موقع پر میری چھوٹی بیٹی شازیہ مجھے کہتی ہے کہ

بابا.... بابا .... ہمیں بھی گوشت ملے گا نا ؟

میں نے کہا : ہاں ہاں کیوں نہیں بِالکُل ملے گا۔۔

لیکن بابا ....پچھلی عید پر تو کسی نے بھی ہمیں گوشت نہیں دیا تھا،
اب تو پورا سال ہو گیا ھےگوشت دیکھے ہوئے بھی۔۔۔

میں نے بڑے پیار سے سمجھایا :بیٹا اللہ نے ہمیں بھوکا تو نہیں رکھا،
میری پیاری بیٹی، ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیۓ۔۔
میری بیٹی پھر بولنے لگی ۔۔
ساتھ والے انکل قربانی کے لئے بڑا جانور لے کر آئے ہیں،
اور سامنے والے چاچا اقبال بھی تو بکرا لے کر آئےہیں،

میں دل میں سوچ رہا تھا کہ ہم غریبوں کے لیے ہی تو قربانی کا گوشت ہوتا ہے،
امیر لوگ تو سارا سال گوشت ہی کھاتے ہیں،

یہی سوچتے ہوئے میں عید کی نماز کیلے مسجد کی طرف چل پڑا ۔
وہاں بھی مولوی صاحب بیان فرما رہے ہیں
کہ قربانی میں غریب مسکین لوگوں کونہیں بھولنا چاہئے۔۔
ان کے بہت حقوق ہوتے ہیں۔۔۔۔

خیر میں بھی نماز ادا کر کےگھر پھنچ گیا،

کوئی گھنٹہ بھر انتظار کرنے کے بعد میری بیٹی بولی۔۔

بابا ابھی تک گوشت نہیں آیا ،

بڑی بہن رافیہ بولی ۔۔ چپ ہو جاٶ شازی بابا کو تنگ نہ کرو

میں چپ چاپ دونوں کی باتیں سنتا رہا اور نظرانداز کرتا رہا ۔۔
کافی دیر کے بعد بھی جب کہیں سے گوشت نہیں آیا تو شازیہ کی ماں بولی۔
سنیۓ میں نے تو پیاز ٹماٹر بھی کاٹ دیۓہیں۔ لیکن کہیں سے بھی گوشت نہیں آیا،
کہیں بھول تو نہیں گئے ہماری طرف گوشت بجھوانا۔۔۔۔
آپ خود جا کر مانگ لائیں،

میں نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا کہ یہ کیا عجیب بات کر رہی ہے ۔
میں نے نرمی سے کہا ۔۔
دیکھو شازیہ کی ماں۔۔۔۔ تمہیں تو پتہ ھے آج تک ہم نےکبھی کسی سے مانگانہیں ،
اللہ کوئی نہ کوئی سبب پیدا کرے گا۔۔

دوپہر گزرنے کے بعد شازیہ کے بار بار اصرار پر پہلے دوسری گلی میں ایک جاننے والے ڈاکٹر صاحب کے گھر گئے،
بیٹی کا مایوسی سے بھرا چہرہ برداشت نہیں ہو رہا تھا ۔
اس لئیے مجبوراً اس کو ساتھ لے کر چل پڑا ۔۔۔

ڈاکٹر صاحب دروازے پر آئے تو میں بولا ۔۔

۔ ڈاکٹر صاحب میں آپ کاپڑوسی ہوں کیا قربانی کا گوشت مل سکتاہے؟
یہ سننا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کا رنگ لال پیلا ہونے لگا،
اور حقارت سے بولے پتہ نہیں کہاں کہاں سے آ جاتے ہیں گوشت مانگنے،
تڑاخ سے دروازہ بند کر دیا ۔۔
توہین کے احساس سے میری آنکھوں میں آنسو آ گۓ۔۔
لیکن بیٹی کا دل نہ دکھے ،آنسووں کو زبردستی پلکوں میں روکنے کی کوشش کرنے لگا ۔۔

آخری امید اقبال چاچا ۔۔بو جھل قدموں سے چل پڑا ۔۔
ان کے سامنے بھی بیٹی کی خاطر گوشت کیلے دست سوال۔

اقبال چاچا نے گوشت کا سن کرعجیب سی نظروں سے دیکھا اور چلےگۓ۔
تھوڑی دیر بعد باھرآۓ تو شاپر دے کرجلدی سے اندر چلۓ گۓ۔
جیسے میں نے گوشت مانگ کر گناہ کر دیا ہو۔۔
گھر پہنچ کر دیکھا تو صرف ہڈیاں اور چربی ۔۔

خاموشی سے اٹھ کرکمرے میں چلے آیا اور بے آواز آنسو بہتے جارہے تھے ۔
بیوی آئی اور بولی کوئی بات نہیں۔۔ آپ غمگین نہ ہوں۔
میں چٹنی بنا لیتی ہوں۔

تھوڑی دیر بعد شازیہ کمرے میں آئی ۔
اور بولی بابا
ہمیں گوشت نہںں کھانا ۔ میرے پیٹ میں درد ہو رہا ہے ۔۔
لیکن میں سمجھ گیا کہ بیٹی باپ کو دلاسہ دے رہی ہے ۔۔

بس یہ سننا تھا کہ میری آنکھوں سے آنسو گرنےلگے اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا
لیکن رونے والا میں اکیلا نہیں تھا۔۔
دونوں بچیاں اور بیوی بھی آنسو بہا رہی تھی
اتنے میں پڑوس والے اکرم کی آواز آئی ۔۔
جو سبزی کی ریڑھی لگاتا تھا۔۔
آزاد بھائی ،
دروازہ کھولو،
دروازہ کھولا۔۔
تو اکرم نے تین چار کلوگوشت کا شاپر پکڑا دیا،
اور بولا ،
گاٶں سے چھوٹا بھائی لایا ہے۔
اتنا ہم اکیلے نہیں کھا سکتے۔
یہ تم بھی کھا لینا
خوشی اورتشکر کے احساس سےآنکھوں میں آنسو آ گۓ ۔
اور اکرم کے لیۓ دل سے دعا نکلنے لگی۔
گوشت کھا کر ابھی فارغ ھوۓ ہی تھے کہ بہت زور کا طوفان آیا ۔
بارش شروع ہو گئ۔ اسکے ساتھ ہی بجلی چلی گئی۔
دوسرے دن بھی بجلی نہی آئی۔
پتہ کیا تو معلوم ہوا ٹرانسفارمر جل گیا۔

تیسرے دن میری بیٹی شازیہ اور میں باہر آئے تو دیکھا کہ،
اقبال چاچا اور ڈاکٹر صاحب بہت سا گوشت باہر پھینک رہے تھے ۔
جو بجلی نہ ہونےکی وجہ سے خراب ہو چکا تھا۔
اور اس پر کُتے جھپٹ رہے تھے۔
شازیہ بولی ،
بابا ۔
کیا کُتوں کے لیۓ قربانی کی تھی ؟
وہ شازیہ کا چہرہ دیکھتے رہ گئے ۔

اقبال چاچا اور ڈاکٹر صاحب نے یہ سُن کر گردن جھکا لی۔


یہ صِرف تحریر ھی نہیں،گذشتہ چند سالوں میں قربانی کے موقع پر آنکھوں دیکھا حال ہے۔
خدارا احساس کریں غریب اور مسکین لوگوں کا جو آپ کے آس پاس ہی رہتے ہیں ۔

حضرت خواجہ غلام فرید (رحمتہ اللہ علیہ) کے ایک مُرید کی بیٹی کی شادی ہوئی۔ اُس مُرید نے اپنی بیٹی کو کہا کہ خواجہ صاحب سے...
06/06/2024

حضرت خواجہ غلام فرید (رحمتہ اللہ علیہ) کے ایک مُرید کی بیٹی کی شادی ہوئی۔ اُس مُرید نے اپنی بیٹی کو کہا کہ خواجہ صاحب سے ملاقات کر آنا٬ لڑکی تھوڑی کم عقل تھی اس لیے ساتھ تاکید کی کہ خواجہ صاحب جو سوال کریں بس اُسی کا جواب دینا اور کوئی فضول بات نہ کرنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لڑکی خواجہ غلام فرید (رحمتہ اللہ علیہ) کی بارگاہ میں پہنچی اور سلام عرض کیا۔ آپؒ نے سلام کا جواب دیا. لڑکی نے پوچھا کہ آپؒ کا کیا حال ہے؟ خواجہ صاحب نے فرمایا میں ٹھیک ہوں۔ پھر خواجہ صاحب نے پوچھا بیٹی تمہارے باپ کا کیا حال ہے؟ لڑکی بولی حضور وہ ٹھیک ہیں۔ لڑکی چونکہ کم عقل تھی اس لیے بولی آپؒ کے والد کا کیا حال ہے؟ خواجہ صاحب نے فرمایا الحمدللہ ہمارے والد صاحب بھی ٹھیک ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تھوڑی دیر گزری خواجہ صاحب نے پوچھا تمہاری شادی خیریت سے ہوگئی ہے؟ لڑکی بولی جی سائیں میری شادی خیریت سے ہوگئی ہے٬ اور آپکی بھی شادی خیریت سے ہوگئی ہے؟ خواجہ صاحب نے فرمایا جی ہاں ہماری شادی بھی خیریت سے ہوگئی۔ تھوڑی دیر گزری تو خواجہ صاحب نے پوچھا کہ تمہارے دولہے کا کیا حال ہے؟۔۔۔۔۔۔۔.

لڑکی بولی جی سائیں میرا دولہا ٹھیک ہے اور آپؒ کے دولہے کا کیا حال ہے؟ آپؒ نے فرمایا جی الحمدللہ ہمارے دولہا بھی ٹھیک ہیں۔ پھر تھوڑی دیر بعد حضرت خواجہ صاحب نے لڑکی سے فرمایا کہ کبھی اپنا دولہا دکھاؤ! لڑکی بولی جی سائیں میں اگلی بار آئی تو اسکو آپؒ کی بارگاہ میں لاؤں گی آپؒ سے ملاقات کروا دوں گی۔ لڑکی ہے تو کم عقل تھی لیکن ہے بہت قسمت والی تھی٬ بولی خواجہ صاحب کبھی آپ ؒ بھی اپنا دولہا دیکھائیں؟۔۔۔۔۔۔۔۔.

جب لڑکی نے یہ بات کہی تو خواجہ غلام فرید (رحمتہ اللہ علیہ) وجد میں آگئے اور فرمایا تم نے میرا دولہا دیکھنا ہے؟ وہ لڑکی بولی جی سائیں! آپؒ کے اپنا ہاتھ اٹھایا تو کوٹ مٹھن سے مدینہ منورہ تک کے پردے ہٹ گے اور فرمایا دیکھ اور بتا میرا دولہا کتنا سوہنا ہے۔

25/05/2024

اہلسنت کے چندوں پر پلنے والے عطار اور اس کے اندھے بھگتوں کی خرافات ملاحظہ فرمائیں

عطاری بھگت کی طرف سے کیا گپ ہانکی گئی ہے حالت بیداری میں الیاس عطار کے عطار کے اندھے بھگت نے صرف دیدار ہی نہیں کیا بلکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست اقدس کو بوسہ بھی دیا ۔ واہ رے عطاری بھگت تیری شان کا کیا کہنا ؟ اب تم لوگ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم پاک کو مس (touch) کرنے کی جرات کرنے لگے ۔اور وہ بھی خواب میں نہیں حالت بیداری میں ۔ واہ کیا گپ ماری ہے

اس عطاری کذ۔اب کے توسط سے یعنی اسے قاصد بنا کر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عطار کو پیغام بھیج رہے ہیں کہ پیارے عطار اس بار مدینہ کیوں نہیں آئے ؟ پھر میرا سلام عطار سے کہنا ۔اور یہ بھی کہنا کہ " وہ مدینہ آئیں، چاہے کچھ لمحات کے لئے ہی آئیں " کیا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عطار کے منتظر تھے ؟ کیا عطار کی آمد مدینہ کے لئے بےقرار تھے ؟ کہ اس طرح عاجزی و انکساری کے ساتھ فرما رہے ہیں کہ کچھ لمحات کے لئے ہی آئیں "

اگر واقعی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عطار کو مدینہ شریف بلانا چاہتے ہیں تو آپ کو اللہ تبارک و تعالٰی نے ایسی قوت اور ایسا تصرف عطا فرمایا ہے کہ آپ عطار کے خواب میں تشریف لے جاتے اور عطار کو مدینہ آنے کی دعوت پیش فرمائیں دیتے ۔ آپ بلاواسطہ عطار سے فرمایا سکتے تھے مگر بیچ میں عطاری بھگت کا واسطہ اس لئے رکھا کہ اگر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عطار کے خواب میں تشریف لے جا کر عطار کو مدینہ آنے کی دعوت پیش فرماتے تو کسی کو بھی کانوں کان خبر نہ ہوتی ۔ اور الیاس کی بارگاہ رسالت میں پہنچ و رسائی اور اہمیت و عزت کا پتہ کیسے اور کیوں کر چلتا؟ مگر یہاں الیاس عطار کی عظمت اور بارگاہ رسالت میں عطار کی اہمیت کا ڈھول ڈھمکا اور ڈھولک بجانا مقصود ہے کہ دیکھو ! دیکھو! ہمارے پیر و مرشد الیاس عطار کا مرتبہ اور رتبہ دیکھو۔ خود تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الیاس عطار کو مدینہ بلا رہے ہیں ۔

عطار کی کیا بساط و اوقات کہ اسے خود سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ آنے کی دعوت پیش فرمائیں؟ اور زیادہ وقت مدینہ شریف میں نہ ٹھہر سکیں تو چند لمحات کے لئے ہی آجائیں ۔ کیا الیاس عطار کو یہ نہیں معلوم کہ تجھ سے ( ک۔ت۔ے) ہزار پھرتے ہیں ۔

پیشکش محمد راشد قادری 25/05/2024

Address

Rawalpindi

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Akhlaq e Sabri posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share


Other Digital creator in Rawalpindi

Show All