21/06/2024
*** *copied* ***
حج پر اموات کیوں ہوئیں ؟ یعقوب عالم صاحب کا آنکھوں دیکھا احوال:
حج کے شروع کے تین دن 8 سے 10 ذی الحج تک کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ وجہ یہ کہ شروع کے تین دن حج کے زیادہ تر ارکان ٹھنڈے وقت کے تھے، مثلاً 7 ذی الحج کی شام کو یا 8 ذی الحج کی صبح منی کیلئے بس میں روانہ ہونا ۔ منی کے قدرے ٹھنڈے خیموں میں دن اور رات گزارنا جہاں ٹھنڈا پانی ہر خیمے کے باہر وافر موجود ہوتا ہے ۔ ناشتہ ، کھانا ، پھل اور جوس بھی مختلف اوقات میں دیا جارہا تھا پھر 8 ذی الحج کی شام یا 9 ذی الحج کی صبح بس میں عرفہ روانہ ہونا اور پھر عرفہ کے قدرے ٹھنڈے خیموں میں کچھ گھنٹے گزارنا جہاں کھانا، پھل، جوس وغیرہ دئیے گئے۔ پھر مغرب کے بعد مزدلفہ کیلئے بس یا پیدل روانہ ہونا۔ رات مزدلفہ میں گزار کر 10 ذی الحج کی صبح طلوع آفتاب کے وقت رمی کیلئے جانا، یہ تینوں دن بغیر کسی ناخوشگوار واقعہ کے گزرے۔
زیادہ تر اموات 11 اور 12 ذی الحج کو ہی ہوئی ہیں۔ وجہ یہ کہ گیارہ اور بارہ ذی الحج کی رمی کا وقت طلوع آفتاب کے بعد نہیں بلکہ زوال کے بعد تھا یعنی 51 ڈگری کی شدید گرمی اور دھوپ میں کھلے آسمان تلے پانچ سے چھے کلو میٹر پیدل چلنا۔
چونکہ یہ وقت شدید دھوپ کا تھا تو سرکار نے منی کے خیموں میں اعلان کیا کہ 11 بجے سے 5 بجے تک رمی کیلئے نہ جائیں اور گیٹ بند کر دئیے مگر میں نکل گیا اور شیٹ والا راستہ اختیار کرتے ہوئے مسجد خیف پہنچ گیا۔ آج کے دن رش بالکل نہ تھا 12بج کر 22 منٹ پر زوال کے بعد جب میں نے رمی کی تو بہت کم لوگ تھے۔ راستے میں کوئی ناخوشگوار واقعہ دیکھنے کو نہیں ملا مگر آج کے دن اموات رپورٹ ہوئیں۔
ان اموات کی کچھ وجوہات مندرجہ ذیل ہوسکتی ہیں:
1) یہاں حج پر زیادہ تر بزرگ اپنے بیٹوں کے بغیر اکیلے آئے ہوئے تھے۔ جون کے مہینے میں ان بزرگوں کو اکیلے حج پر بھیجنا موت کے حوالے کرنے کے مترادف تھا۔ کئی تصاویر میں آپ نے دیکھا بھی ہوگا کہ لاش کے پاس لواحقین نظر نہیں آرہے ۔
2) ان بزرگوں کو حج گروپ والوں نے گائڈ نہیں کیا کہ رمی کیلئے آپ کو کس راستے سے کب نکلنا چاہئیے اور کیا کیا احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے اور اگر کیا بھی تو بہت سے حاجیوں نے اس پر عمل نہیں کیا ۔
رمی کیلئے جانے کے کئی راستے ہیں جس میں ایک راستے کے علاوہ باقی سارے راستے کھلے آسمان تلے جانا ہوتا ہے۔ کاش کہ ان حاجیوں کو کوئی بتاتا کہ شیٹ والا راستہ اختیار کریں جہاں دائیں طرف لائن سے واش روم بائیں طرف ٹھنڈے پانی کے نلکے اور سر پر چھت اور اس چھت کے بیچے بڑے بڑے پنکھے لگے ہیں۔
3) ان بزرگوں کو رمی کیلئے عصر کے بعد کا وقت منتخب کرنا چاہئیے تھا جب سورج ڈھلنے لگتا ہے اور تپش بھی ہر تھوڑی دیر بعد کم ہونے لگتی ہے مگر کئی حاجیوں نے ایسا نہیں کیا۔
4) اپنی صحت کا خاص خیال رکھنا اوّلین ذمہ داری ہے مگر کچھ حاجی جو حج پر آنے سے پہلے دعائیں کرتے ہیں کہ یااللہ مکہ مدینہ میں حج کے دوران موت دے دے، وہ جذبات میں آکر سب سے پہلے دھوپ میں یہ کہتے ہوئے نکل پڑتے ہیں کہ موت کا وقت مقرر ہے اور اس راستے میں موت سعادت ہے۔
12 ذی الحج حج کا آخری دن تھا۔ آج صبح 9 بجے منٰی کے خیموں میں اعلان ہوا کہ 10 سے 3 بجے تک گیٹ بند رہیں گے۔ رمی کیلئے مت جائیں مگر کل کی نسبت آج کے دن لاکھوں لوگ ایک ساتھ رمی کیلئے نکل پڑے۔
آج کے دن زیادہ اموات ہوئیں جس کی مندرجہ ذیل وجوہات ہو سکتی ہیں ۔
1) چونکہ آج حج کا آخری دن تھا تو لاکھوں حاجی گیٹ بند ہونے سے پہلے اپنے بڑے بڑے بیگ اٹھا کر شدید دھوپ میں رمی کیلئے نکل پڑے کیونکہ رمی کے بعد انہوں نے واپس منٰی نہیں آنا تھا ۔ لالچ بس یہ تھی کہ جلدی جلدی رمی کر کے ہوٹل چلے جاتے ہیں یوں حج ختم۔ نتیجہ یہ کہ شدید گرمی میں پیچھے لٹکا بڑا بیگ، سر پر چھتری اور آگے پیچھے دائیں بائیں حاجی ہی حاجی تو ہوا کہاں سے آئے؟ یوں حبس ہونے لگا اور کمزور افراد چکرانے لگے۔
2) 12 ذی الحج کی رمی کا وقت صبح صادق تک ہوتا ہے مگر پھر بھی بزرگ اور کمزور حاجی رات کے بجائے دن میں رمی کیلئے نکلے جوکہ بالکل غلط وقت تھا۔ گروپ لیڈران کو چاہئیے تھا کہ ان کو سمجھاتے مگر ان میں بھی بہت سوں کو خود بھی جلدی ہوتی ہے کیونکہ حج بزرگ جوان سب کیلئے مشقت کا سفر ہے۔ آپ نے اگر اموات کی تصاویر دیکھی ہیں تو غور کریں سب دن کی تصاویر ہیں۔
3) یہ بزرگ دن 10 بجے بھی رمی کیلئے نکلے تو 30 منٹ میں منزلِ مقصود تک پہنچ کر رک گئے کیونکہ رمی کا وقت زوال کے بعد تھا یعنی 12 بج کر 22 منٹ پر۔ ان لوگوں کو شرطے بار بار کہتے رہے رمی کیلئے نکل جائیں مگر یہ لوگ تیار نہ تھے جبکہ معذوروں اور کمزوروں کیلئے چھوٹ ہوتی ہے یوں ساڑھے دس سے ساڑھے 12 تک دو گھنٹے حاجی شدید دھوپ میں کھڑے رہے اور نڈھال ہوگئے ۔
4) پانچ سے چھے کلو میٹر پیدل چل کر رمی کیلئے جب پہنچ بھی گئے تو آگے اور امتحان باقی تھے۔ اب رمی سے کسی کا ہوٹل دو کلو میٹر کے فاصلے پر تو کسی کا 4 کلو میٹر ۔ لاکھوں حاجی جب رمی سے عزیزیہ کیلئے نکلے تو سارے راستے جام اور ٹریفک بھی رک گیا۔ اب شدید ترین گرمی میں پاس کھڑی گاڑیوں کی ہیٹ سے گرمی کی شدت میں مزید اضافہ ہوا اور جو حاجی ٹیکسی کرنا چاہتے تھے ان کو ٹیکسی نہ ملی۔ یوں مزید کئی گھنٹے سڑکوں پر امتحان سے گزرے اور کئی اپنی جان سے گئے۔ یاد رہے میں بزرگ کا لفظ بار بار اس لئیے استعمال کر رہا ہوں کہ اموات بڑی عمر کے بزرگوں کی ہی ہوئی ہیں۔
5)11 ذی الحج کو رمی کے بعد راستے میں ٹھنڈے پانی کو بوتلیں مفت بٹتی رہیں، تب رش کم تھا مگر 12 ذی الحج کے رش کی وجہ سے بھیڑ والی جگہ پر سرکار پانی تقسیم کرنے نہیں دے رہی تھی، تب مجھے اس بات پر غصہ بہت تھا مگر بعد میں سوچا کہ اس بھیڑ میں اگر پانی تقسیم ہوتا تو بھگدڑ کی وجہ سے زیادہ نقصان ہوسکتا تھا کیونکہ پانی پر سب لپک پڑتے تھے۔ یہاں احتیاطی تدبیر یہ تھی کہ پانی کی بوتل ہمیشہ ساتھ رہے۔ رمی سے نکلتے ہی ٹھنڈے پانی کے نلکے ہیں۔ کچھ پانی پیا جائے کچھ سر پر ڈالا تو کچھ بوتل میں بھرا جائے مگر بہت سے حاجیوں کے پاس پانی نہ تھا جس نے مشکلات میں اضافہ کیا ۔
اتنے بڑے اجتماع میں سرکار کی کچھ جگہوں پر نااہلی ضرور رہی ہوگی بلکہ تھی مگر میں نہیں سمجھتا کہ ان کی نااہلی موت کا کوئی بڑا سبب بنی ہو۔
موت کا سبب شدید گرمی میں احتیاطی تدابیر کے بغیر نکلنا تھا۔
تحریر: یعقوب عالم