Jamiat Ahlehadith khairpur mirs sindh

Jamiat Ahlehadith khairpur mirs sindh جمعیت اہل حدیث خیرپور میرس سندھ کی سرگرمیاں اس پیج سے ش?

🔍 سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں عام پائی جانے والی غلط فہمیوں اور شبہات پر مبنی 8 سوالات کے علمی جوابات:♦ ...
10/10/2024

🔍 سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں عام پائی جانے والی غلط فہمیوں اور شبہات پر مبنی 8 سوالات کے علمی جوابات:

♦ کیا سیّدنا امیر معاویہ رضى الله عنه وحی کے کاتب تھے؟
https://thehadith.net/knowledgebase/kia-hazrat-muavia-wahi-ke-katib-thy/

♦ کیا سیّدنا امیر معاویہ رضى الله عنہ خود کو خلافت کے زیادہ اہل سمجھتے تھے؟
https://thehadith.net/knowledgebase/hazrat-muavia-khud-ko-khilafat-ke-ahal-samajhty-thy/

♦ کیا سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ(نعوذ بالله) باغی تھے ؟
https://thehadith.net/knowledgebase/kia-ameer-muavia-ra-nauzubillah-baghi-thy/

♦ کیا نبی ﷺ نے سیّدنا امیر معاویہ کے لیے بد دعا کی؟
https://thehadith.net/knowledgebase/kia-nabi-saw-ne-ameer-muavia-ke-liye-bad-dua-ki/

♦ کیا سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں کوئی حدیث ثابت نہیں؟
https://thehadith.net/knowledgebase/kia-ameer-muavia-ra-ki-fazilat-me-koi-hadees-sabit-nahi/

♦ سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ شراب کے حرام ہونے کے بعد بھی شراب پیتے تھے! (معاذاللہ)
https://thehadith.net/knowledgebase/syedana-muavia-or-sharab-ki-hurmat/

♦ سیّدنا امیر معاویہ کا حضرت علی کو گالیاں دلوانا!؟
https://thehadith.net/knowledgebase/hazrat-muavia-ka-hazrat-ali-ko-galiya-dilwana/

♦ سیّدنا امیر معاویہ کا حضرت علی کو بر سرِ منبر گالیاں دینے کی روایات کا تحقیقی جائزہ!
https://thehadith.net/knowledgebase/hazrat-muavia-ka-hazrat-ali-ko-gaaliyan-dena/

📌 مزید معلومات اور سوالات کے جوابات کے لیے ہماری ویب سائٹ ملاحظہ فرمائیں۔
Thehadith.net

#تاریخ #صحابہ #غدیر #خلفاء #حضرت #معاویہ #علی #شبہات #امیرالمومنین #حدیث

🌐محاضراتِ جلال الدین قاسمی1- کیا سلفی (اہل حدیث) دہشت گرد ہیں؟https://youtu.be/n6MXkZqzAc02- سلفیت کا تعارفhttps://youtu...
26/09/2024

🌐محاضراتِ جلال الدین قاسمی

1- کیا سلفی (اہل حدیث) دہشت گرد ہیں؟
https://youtu.be/n6MXkZqzAc0
2- سلفیت کا تعارف
https://youtu.be/W99o42F5xgY
3- اہل حدیث اپنے آپ کو سلفی کیوں کہتا ہے؟
https://youtu.be/IHr9Lvhh3VM
4- اہل حدیثوں کو وہابی کیوں کہا جاتا ہے؟
https://youtu.be/XrD2Bb3c1b0
5- اہل حدیث یا سلفی نام رکھنا ضروری کیوں؟
https://youtu.be/aFgqumtfmgI
6- اہل حدیث نام
https://youtu.be/zxX5ss5deUA
7- اہل حدیثوں کے امام کون؟
https://youtu.be/sUtqTYm7Yp8
8- تعارف اہل حدیث
https://youtu.be/bSCLakjSzUU
9- دعوت اہل حدیث
https://youtu.be/LYppsv1_UVU
10- تاریخ مسلک اہل حدیث
https://youtu.be/gOyR-98-KGs
11- اہل حدیث جماعت کب سے ہے؟
https://youtu.be/hljlxR2kRrA
12- اہل حدیث مسلک کب بنا؟
https://youtu.be/Fh5VyWLZW_E
13- مسلک اہل حدیث کی حقانیت
https://youtu.be/fHe9K5HDsFY
14- کیا اہل حدیث سے مراد صرف محدثین ہیں؟
https://youtu.be/IFmNvGONs08
15- کیا اہل حدیث گمراہ ہیں؟
https://youtu.be/TlZHCwLl5Eg
16- کیا اہل حدیث شیعہ ہیں؟
https://youtu.be/yZwt_UW8IuAI
17- کیا اہل حدیث یہودی ہیں؟
https://youtu.be/OdRUwLLLq5o
18- کیا اہل حدیث اجماع اور قیاس کو نہیں مانتے؟
https://youtu.be/yQMOQum5GcI
19- حدیث اور اہل حدیث
https://youtu.be/fwsSTW5FWXM
20- کیا اہل حدیثوں نے اپنا نام انگریزوں سے الاٹ کروایا؟
https://youtu.be/RaxKBFmyKQg
21- اہل حدیث کا ذکر نبی کی زبانی
https://youtu.be/qjFr5IvTCz4
22- مسلک اہل حدیث اور اختلافی مسائل
https://youtu.be/bF7_WE9LGBI
23- کیا1857 سے پہلے اہل حدیث مسجدیں تھیں؟
https://youtu.be/1vzkvGO0ZHc
24- اہل حدیثوَں کی نماز کا طریقہ؟
https://youtu.be/s8Ucxa4Tv9Y
25- اہل حدیثوں کے پیر و مرشد کون؟
https://youtu.be/x6mOVIa5kdE

نوٹ: زیادہ سے زیادہ شیئر کریں تاکہ غلط فہمیوں کا ازالہ ہو سکے.

QURAN O HADEES Ki Roshni MeApne AQIDON Ki Islah Ke Liye SUBSCRIBE Kare Hamara YouTube Channel JAMIAT AHLE HADEES HIND Aur Paiye Saheeh Ul Aqida SALAFI Ulema ...

فضیلۃ الشیخ جلال الدین قاسمی حفظہ اللہ کی تمام تقریریں اور مناظرے وغیرہ یہاں سے حاصل کر سکتے ہیں۔
19/09/2024

فضیلۃ الشیخ جلال الدین قاسمی حفظہ اللہ کی تمام تقریریں اور مناظرے وغیرہ یہاں سے حاصل کر سکتے ہیں۔

حافظ جلال الدین قاسمی حفظہ اللہ کے دروس، مضامین اور کتابیں

14/09/2024

ڈاکٹر علی محمد صلابی

ڈاکٹر صلابی سن ١٩٦٣ء میں لیبیا کے بنغازی شہر میں پیدا ہوئے، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے بکالوریوس اور جامعہ ام درمان الاسلامیہ سوڈان سے ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، آپ نے جن اساتذہ سے علم حاصل کیا ان میں یوسف قرضاوی، سلمان عودۃ اور راشد غنوشی وغیرہم کے نام سرِ فہرست ہیں، آپ کے پسندیدہ شخصیات میں مولانا مودودی، حسن البنا، محمد الغزالی، راتب نابلسی اور شعراوی وغیرہم ہیں۔

آپ نوجوانی ہی میں اخوان المسلمین سے وابستہ ہو گئے تھے اور جماعت کے ایک فعال رکن کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے، یہی وجہ ہے کہ لیبی حکومت نے آپ کو سن ١٩٨١ء سے لے کر سن ١٩٨٨ء تک تقریباً آٹھ سال پابند سلاسل رکھا۔
آپ تفسیر، عقیدہ، فقہ اور تاریخ وغیرہ مختلف فنون میں ستر سے زائد کتابوں کے مؤلف ہیں۔
١- ڈاکٹر صلابی اخوان المسلمین کے سرگرم کارکن اور فی الحال سربراہ ہیں، لہٰذا جو انحرافات جماعت کے اندر ہیں وہ لزوما ڈاکٹر صاحب کے اندر بھی ہیں۔

٢- ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ اشاعرہ اہل السنہ ہیں۔
٣- ڈاکٹر صاحب تصوف کے قادری سلسلہ کو معتدل تصوف قرار دیتے ہیں اور اس طریقہ تصوف کے متبعین کی تعریف کرتے ہیں۔

٤- ڈاکٹر صاحب نے اپنی کتابوں کے اندر متعدد مقامات پر تلمیحا واشارتًا عرب ممالک کے ریاستی اداروں اور لوگوں کی تکفیر کی ہے۔

٥- ڈاکٹر صاحب اسلامی ممالک میں انقلاب خروج وبغاوت اور احتجاج ومظاہرات کی دعوت دیتے ہیں۔

٦- ڈاکٹر صاحب اور اخوان المسلمین پہلے تو معمر قذافی اور ان کے بیٹے سیف الاسلام کی بڑی تعریفیں کرتے تھے اور عوام کو ان کی اطاعت پر ابھارتے تھے، اور انہیں "الاخ القائد" وغیرہ خطابات سے نوازتے تھے کیونکہ اس وقت ان کی حکومت مستحکم تھی اور ڈاکٹر صاحب اور جماعت کے مفادات کی تکمیل اسی قسم کے رویہ سے ہو سکتی تھی، لیکن جب فروری ٢٠١١ء میں عوامی تحریک مضبوط ہو گئی اور قذافی کی حکومت کمزور ہونے لگی تو اسے طاغیہ مجرم اور زندیق کہنے لگے اور فتویٰ دیا کہ اسے حکومت سے نکال پھینکنا واجب ہے۔
٧- ڈاکٹر صاحب کی کتابیں اخوانی منہج کے تابع ہیں، بالخصوص تاریخی کتابوں کو آپ نے تحریکی رنگ دے کر لکھا ہے، حقائق کی تدوین کے بجائے اپنے اور اپنی جماعت کے مفادات کو مد نظر رکھا ہے، اس لئے صلاح الدین ایوبی اور نور الدین زنکی کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی اشعریت اور صوفیت پر بات نہیں کی ہے اور زنکی اور ایوبی دور حکومت میں عقیدہ سلف اور سلفی علماء کو جو خطرات لاحق تھے ان سے چشم پوشی کی ہے اور جامع ازہر کو اشعریت کے قلعہ کے بجائے سنت کا قلعہ باور کرایا ہے۔

٨- تاریخ کی کتابوں میں ڈاکٹر صاحب کا منہج مجاملت ومداہنت، عقدی مسائل میں تساہل، عوامی جذبات کی رعایت، تدلیس اور عدم تحقیق و تدقیق، حشو و زوائد اور انشائی کلام کی کثرت ہے۔
چنانچہ آپ نے لیبیا جزائر اور عمان کے اباضیہ کی رعایت کرتے ہوئے ایک کتاب لکھی ہے جس کا عنوان ہے "الإباضية مدرسة إسلامية بعيدة عن الخوارج" یعنی اباضیہ خوارج نہیں ہیں، حالانکہ علمائے اہل السنہ کے ہاں یہ متفق علیہ ہے کہ اباضیہ خوارج کا ایک فرقہ ہے اور اس کے عقائد خود اس بات کی گواہی دیتے ہیں۔
جب عراق اور اس کے اطراف کے لوگوں میں شیعوں کے خلاف غصہ ہوتا ہے تو ایران اور شیعوں کی مذمّت میں کتاب لکھتے ہیں لیکن جب یہ غصہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے تو "لا قطيعة مطلقة في السياسة مشاركة إيران بقمة ماليزيا مثالاً" کے عنوان سے مضمون لکھ ڈالتے ہیں۔
ترکی حکومت سے وابستگی بڑھانے کے لئے خلافت عثمانیہ اور عثمانیوں کی بڑی تعریفیں کی ہیں اور انہیں عقیدہ توحید کے محافظ قرار دیا ہے، حالانکہ عثمانی سلاطین بالعموم صوفی قبوری اشعری متعصب تقلیدی حنفی اور قوم پرست تھے، اور اصلاحی تحریکوں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے تھے جیسا کہ امام محمد بن عبد الوہاب اور آل سعود کی پہلی حکومت کے ساتھ کیا تھا، لیکن ڈاکٹر صاحب اس ضمن میں فرماتے ہیں کہ محمد بن عبد الوہاب کی دعوت کے تئیں عثمانی سلطنت کا یہ رویہ بیرونی سازشوں سے متاثر ہونے کی وجہ سے تھا...!!! نیز صوفی قبوری طیب اردوغان کو امت مسلمہ کا عظیم قائد قرار دیا ہے۔
اسی طرح آپ روایات وقصص کی تحقیق کا اہتمام نہیں کرتے ہیں جس کے سبب آپ کی کتابوں میں کافی تعداد میں ضعیف اخبار وقصص موجود ہوتی ہیں۔البتہ یہ حقیقت ہے کہ سیرت النبی اور خلفائے راشدین کی تاریخ پر آپ کی کتابیں نسبتاً اچھی ہیں۔
٩- ڈاکٹر صاحب موسیقی اور ڈرامہ سازی کے جواز کے قائل تھے چنانچہ انہوں نے قرضاوی اور سلمان عودۃ کے ساتھ مل کر "mbc اور مؤسسة قطر للإعلام" کے زیر نگرانی بننے والے ٹی وی سیریل "مسلسل عمر بن الخطاب" کے اسکرپٹ اور مشمولات کی تحقیق و تدقیق کا کام کیا تھا۔

١٠- ڈاکٹر صاحب کا منہج یہ ہے کہ کسی شخصیت، حکومت یا جماعت کی تقییم میں اس کے حسنات وسیئات میں سے اکثر کا اعتبار کیا جائے گا، یہی وجہ ہے کہ وہ مشہور تاریخی شخصیات کے عقدی انحرافات کا تذکرہ نہیں کرتے ہیں، جبکہ بعض رافضی حکمرانوں کے محاسن بیان کرتے ہوئے ان کی سخاوت کا بھی تذکرہ کرتے ہیں۔
نیز ان کا منہج یہ بھی ہے کہ وہ مختلف شخصیات وجماعات کے اندر موجود عقدی ومنہجی انحرافات کو ہلکا اور معمولی بنا کر پیش کرتے ہیں اور تلمیع وتمعییع کی کوشش کرتے ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ ڈاکٹر علی الصلابی ایک اخوانی تحریکی شخص ہیں جن کی کتابیں تحریکیت کی خدمت کے لئے ہوتی ہیں لہٰذا ان کی کتابوں کے قارئین کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے تاکہ متوقع انحراف سے محفوظ رہ سکیں۔

مامون رشید بن ہارون رشید سلفی۔

07/09/2024
01/09/2024

شیخ زھیر رحمانی حفظہ اللہ نے حمد کے کچھ اشعار لکھے ہیں، ملاحظہ فرمائیں

گدا کو بادشاہ ہا بادشاہوں کو گدا کر دے
تو جب چاہے جسے چاہے جو چاہے وہ عطا کر دے

حَباب بحر کو موتی بنا دے جس گھڑی چاھے
جو چاہے چیر کر دریا کی موجیں راستہ کر دے

جو سلطانی کا دعویٰ کر رھا ہے ملک پر برسوں
پکڑ کر ایسے ظالم کو تو لمحوں میں فنا کر دے

جبیں میری جھکی ہرگز نہیں اغیار کے در پر
تو مجھ پر رحم کر مولیٰ جہنم سے رہا کر دے

ابو بکر و عمر عثمان وحیدر جس پہ چلتے تھے
اسی بر حق نبی کی راہ پر ہم کو فدا کر دے

بصیرت کر عطا قرآن کی آیات برحق کی
خدا ہم کو فدائے سنت خیر الوریٰ کر دے

خدایا ہند کے مظلوم بندوں کی دعائیں سن
تو ان کو پنجۂ ظالم سے جلدی سے رہا کر دے

ترے نادران بندے جادۂ حق سے جو بھٹکے ہیں
خدایا ایسے بندوں کو تو رہوارِ هدٰی کر دے

الہی طالبِ عاجز تری رحمت کا طالب ھے
بروز حشر سر پر اس کے رحمت کی ردا کر دے

(مولانا زہیر طالب رحمانی)

🕌 اسلام فورٹ پیش کر رہا ہے حالات حاضرہ سے متعلق ایک اہم لائیو پوڈکاسٹ بعنوان:  🇵🇰 نا امید پاکستان 🇵🇰🔖 اضافی ٹیکسز ، بلوں...
10/08/2024

🕌 اسلام فورٹ پیش کر رہا ہے حالات حاضرہ سے متعلق ایک اہم لائیو پوڈکاسٹ
بعنوان:

🇵🇰 نا امید پاکستان 🇵🇰

🔖 اضافی ٹیکسز ، بلوں میں اضافہ ، بدامنی، نا انصافی، آئین پاکستان سے بغاوت اور IMF کی غلامی

❗ آخر کب تک؟❗

🏘 کیا واقعی پاکستان اب رہنے کے قابل نہیں رہا؟
🗺 پاکستان سے دیار غیر کی طرف ہی سفر کیوں؟ وجوہات اور حکم؟
⚔ پاکستان کی تباہی کس کا ایجنڈا ہے؟
💟 پاکستان سے محبت کیوں ضروری ہے؟
📌 اور مزید سوالات کے جوابات جانیے اس خصوصی لائیو پوڈ کاسٹ میں۔۔۔

🎤 اسپیکرز:
1️⃣ الشیخ عثمان صفدر
🎓 (فاضل مدینہ یونیورسٹی)

2️⃣ الشیخ ڈاکٹر فراز الحق
🎓 (پی ایچ ڈی حدیث نبوی، فاضل مدینہ یونیورسٹی)

3️⃣ الشیخ عبداللہ شمیم
🎓 (فاضل مدینہ یونیورسٹی)

🗓 12 اگست بروز پیر
🕰 ـ10:00-11:00PM


#پاکستان #پوڈکاسٹ #آزادی #14اگست #حالات #ناامیدپاکستان #بیان #موجودہ

09/08/2024

ماہ صفر اور نحوست نامہ
یا
برکت و نحوست کا اسلامی تصور
مرشد کامل صلی اللہ علیہ وسلم
کی تعلیمات کی روشنی میں

ڈاکٹر پروفیسر عبدالرزاق ساجد

لوگوں کے ھاں برکت و نحوست کے بارے غلط تصورات مشہور ھو چکے ہیں۔ جن کا خلاصہ درج ذیل ہے۔

خلاصہ:
دنیاوی زندگی تین چیزوں کا مجموعہ ہے:
1۔ ظرف زمان۔۔۔ کہ ھر انسان کسی نہ کسی وقت میں رہ رھا ھوتا ہے ۔
2۔ ظرف مکان۔۔۔ ھم کسی نہ کسی جگہ اور مکان میں ھوتے ہیں۔
3۔ دنیاوی ساز و سامان۔۔۔۔ ہمارے آس پاس کوئی نہ کوئی چیز، سامان، حجر، شجر، حشرات ، درند، چرند، پرند یا جن و انس ھوتے ہیں۔۔۔۔

نحوست اور ہمارے معاشرتی پیمانے:
طویل مشاہدے کی بات ہے کہ جب بھی ہمارا کوئی نقصان ھوتا ھے تو ہم ان تین میں سے کسی ایک یا سب کو منحوس سمجھ لیتے ہیں، حالانکہ ان تینوں میں سے نحوست کسی بھی چیز میں نہیں۔

بلکہ نحوست انسان کے اپنے اعمال و افعال ، حرکات و سکنات، کرتوتوں اور رویوں کی وجہ سے ہوتی ھے اور ہم اسے وقت، جگہ یا اشیاء سے منسوب کردیتے ہیں۔۔۔

برکت اور ہمارے تصورات:
اسی طرح برکت کے بارے بھی ہمارے تصورات کی اصلاح کی ضروت ھے کیونکہ ھم برکت ، کثرت مال ومتاع کو سمجھتے ہیں۔
جبکہ برکت کثرت کا نام نہیں۔ بلکہ صحت و سلامتی، عافیت و بھلائی، فضل و کرم رحمت اور کم پر اکتفاء اور مالک کے فیصلوں پر راضی رہنے کا نام ہے۔

نحوست:
جس معاشرے میں ہم رہ رہے ہیں یہاں صفر کا مہینہ شروع ہوتے ہی نحوست، نحوست کے راگ سننے کو ملتے ہیں، یوں لگتا ہے کہ ہر شخص توہمات کی دلدل میں دھنسا ہوا اور شھرِ طلسمات میں پھنسا ہوا ہے۔۔۔۔ حقیقت کیا ہے۔۔۔؟ سراب کیا ہے۔۔۔؟ سچ کیا پے۔۔؟ اور جھوٹ کیا ہے...؟ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے ۔۔۔؟
یہ جاننے کیلئے درج ذیل نکات قابلِ التفات ہیں:

(1) دکھ، درد، رنج و الم، آفات و بلیات، نوازل و زلازل، مصائب و حوادث۔۔۔ سال و ماہ، ، شب و روز یا زمان و مکان دیکھ کر نہیں آتے بلکہ یہ سب ھموم و غموم مالک کے حکمِ " کن" کے پابند ہوتے ہیں۔

لھٰذا کسی کی زندگی میں تباہی آنی ہو تو رمضان جیسے ماہ غفران کی 27 ویں شب کی پر رحمت ساعات اور گھڑیوں میں بھی آ جاتی ہے۔۔۔۔ اور معاملہ برعکس ہو تو ماہ صفر کی گرج، چمک ، باد و باراں کے زناٹے دار تھپیڑوں اور زور دار حملوں میں بھی انسان محفوظ و سلامت رہتا ہے۔

(2) نحوست وقت یا موسموں میں نہیں، بلکہ افکار و نظریات اور خیالات و تصورات میں نسل در نسل شعوری و لاشعوری طور پر ٹھونسا گیا وہ زہر ہے جسے اعتقاد کا درجہ دے دیا جاتا ہے۔۔۔ اور یہی وہ زہر ہے جو انسان کی سوچوں کو ھذیل، فکروں کو علیل ، نظروں کو رذیل، ہاتھوں کو بخیل، اپنے وجود کو بوجھل اور روحوں کو ثقیل در ثقیل بنادیتا ہے۔۔۔۔ اور ایسے کردار پھر ساری زندگی خود بھی رسوا ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی ذلیل کرتے ہیں اور دلیل کیا ہوتی ہے؟ وہی منحوس ماری قاتل ۔۔۔ خود ساختہ نحوست اختِ قابیل "

(3) اور جہاں فضا اس قدر زہریلی اور مسموم ہو وہاں معصوم لوگ بھی گنہگار اور حقیر لگنے لگتے ہیں، قرب و جوار کی ہر چیز سے مزعومہ ڈر اور خوف محسوس ہونے لگتا ہے دراصل یہ اندر کا کوڑھ ہوتا ہے جو ورثے میں ہمیں ملتا ہے اور اس کا علاج کرنے کروانے کی بجائے اس کا سارا نزلہ ہم زمان و مکان یا کسی انسان پر گرا دینے میں عافیت سمجھتے ہیں۔

اپنی کوتاہیوں کو پس پشت ڈال کر
ہر شخص کہہ رہا ہے زمانہ خراب ہے

اس زہر کا تریاق کیسے ممکن ہے؟ اور دوا، دارو یا علاج کیا ہے۔۔۔؟ اس کیلئے دو چیزیں سمجھنا ضروری ہیں:
(1) ماہ صفر کا تاریخی پسِ منظر
(2) ماہ صفر کا شرعی حکم

اولاً: ماہ صفر اور بد شگونی کا تاریخی پس منظر:

ماہ صفر کو منحوس سمجھا جانے کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں لوگ قبائلی جنگ و جدل میں رہتے تھے۔ جبکہ ذوالقعدہ کے چڑھتے ہی تین ماہ کیلئے جنگ بندی کردیتے تھے کیونکہ ذوالقعدہ ، ذوالحجۃ اور محرم حرمت کے مہینے شروع ہو جاتے تھے۔ اور یوں دشمن کو وارننگ دے کر جنگ بندی کردی جاتی کہ صفر کا مہینہ چڑھنے دو پھر تمہارے ساتھ دو دو ھاتھ کریں گے۔ تو صفر کا چاند چڑہتے ہی طاقتور خون ریزی پر اتر آتے اور چاروں طرف خوف کی ایک فضا بپا ہوتی، اس ماہ کے چڑھنے سے قبل ہی کمزور لوگ اپنے خیمے سمیٹ کر دور دراز علاقوں، پہاڑوں ، غاروں میں نکل جاتے کہ قتل و غارت سے بچ سکیں، تو آباد جگہیں ویرانی کا منظر اور بربادیوں کا نظارہ پیش کرتیں ۔ چاروں طرف ہو کا عالم ہوتا اور الو بولتے سنائی دیتے، یوں لگتا کہ ہر طرف نحوست و اجاڑ نے ڈیرے ڈال رکھے ہوں، عرب لوگ چونکہ پانیوں کے آس پاس پڑاو ڈالتے تھے، اور مستقل آباد کاری نہ تھی، تو اس ماہ میں کوئی بھی کام کاج، کاروباری معاملات، لین دین، خرید و فروخت، یا رشتہ داری نہیں کر سکتے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ اس مہینے کو منحوس تصور کیا جانے لگا، اور اس میں کیا جانے والا کوئی بھی کام یا معاملہ بدشگونی کی نظر ہوگیا، اور یوں اس ماہ میں منگنی نکاح ، شادی بیاہ یا کسی قسم کی خوشی سے منع کیا جانے لگا۔

ثانیاً: نحوست و بد شگونی کی حقیقت اور شرعی حکم:

جب اسلام آیا تو اس نے ماہ صفر کے جنگ و جدل کو امن میں تبدیل کردیا اور اس کے نتیجے میں پیش آمدہ تمام مسائل و مشکلات اور برے نتائج کا جہاں خاتمہ فرما دیا وہیں اس مہینے کے بارے ہونے والے معاملات میں نقصان کے وہم، خوف کے تصور ، اور بد شگونی کے عقیدے کا یہ کہہ کر خاتمہ فرما دیا :

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَكَمِ ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ ، أَخْبَرَنَا أَبُو حَصِينٍ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ . (صحیح البخاری حدیث نمبر 5757)

دروس و فوائد:

نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
(1) ” چھوت لگنے کا تصور یا متعدی بیماری کی سوچ کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔
(2) بدشگونی، کالی بلی کے راستہ کاٹنے، کسی شخص کے سامنے آجانے، طوطے، تیر یا پرچیوں سے بری فال نکل آنے سے نتیجہ برا ہی نکلے ضروری تو نہیں ۔
(3) الو کے بولنے سے انسان کی جان مال گھر بار یا گلشن برباد نہیں ہو جاتے۔
(4) صفر کے مہینہ میں کیا جانے والا کوئی بھی کام، معاملہ، لین دین، شادی بیاہ یا سفر وغیرہ میں نحوست نہیں ہوتی۔ یہ کوئی چیز نہیں ہے ۔“

اور یوں مرشدِ کامل ، رحمت دوعالم ﷺ کے اس فرمان عالی شان سے مذکورہ بالا چار معاشی، معاشرتی اور نفسیاتی بیماریوں کا علاج کر دیا گیا۔۔۔
الغرض اسلام میں صفر کے مہینے میں تباہی و بربادی، قتل و غارت، معاملات، کاروبار، رشتہ داری یا سفر وغیرہ میں نقصان ہونے کی کوئی حقیقت نہیں ، نہ اس ماہ میں الو بولتے ہیں، نہ ان کے بولنے سے گھر بار اور گلشنِ حیات کی تباہی و بربادی ہوتی ہے،
لھٰذا ایسے تمام فضول قسم کے خیالاتی، تصوراتی اور موہوماتی یا طلسماتی ہوشربا خوفناک بلاؤں، ڈائنوں اور بدشگونیوں کے خاتمے کا اعلان کردیا گیا، اور نفسیات میں بیٹھے خوف و ہراس اور بد شگونی جیسی بد اعتقادیوں کا خاتمہ کردیا گیا۔
مگر المیہ یہ ہے کہ علم و عرفان ، تعلیم و تعلم ، سائنس اور ٹیکنالوجی میں عروج و ترقی کے باوجود عصر حاضر کے انسان آج بھی جہالت پر مبنی عقیدے کے بد اثرات کا خوف پایا جاتا ہے جو اس ماہ کو منحوس قرار دیتے ہوئے نہ خود کچھ کرتے ہیں نہ کسی اور کو کچھ کرنے دیتے پیں، بلکہ سختی کے ساتھ آج بھی اس جہالت پر مبنی نحوست کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں جو کہ سراسر غلط اور بے بنیاد ہے۔

نوٹ:

اللہ رب العزت ہمیں ان بے بنیاد توہمات سے نجات عطا کرے۔ آمین یا رب العالمین ۔

نحوست و برکت پر تفصیلی دلائل کیلئے 25 اگست 2023 اور یکم ستمبر 2023 کے خطباتِ جمعہ جامع مسجد المجید کے فیس بک آفیشل پیج سے انے جا سکتے ہیں۔

09/08/2024

تحریر : فضیلۃ الشیخ عبدالسلام بن محمد حفظ اللہ
عن أبى هريرة رضى الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم له المسلم على المسلم ست : إذا لقيته فسلم عليه، وإذا دعاك فأجبه، وإذا استنصحك فائضخه، وإذا عطس فى الله فمنه، وإذا مرض ذه، وإذا مات قالبه [رواه مسلم ]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلم نے فرمایا : ”مسلمان کے حق مسلمان پر چھ ہیں جب تو اس سے ملے تو سلام کہہ، جب وہ تجھے بلائے تو اس کے پاس جا، جب تجھ سے خیرخواہی طلب کرے تو اس کی خیرخواہی کر، جب اسے چھینک آئے اور وہ اللہ کی حمد کرے تو اسے
يرحمك الله کہہ، جب وہ بیمار ہو تو اس کی بیمار پرسی کر اور جب فوت ہو تو اس کے جنازے کے ساتھ جا۔ “ (اسے مسلم نے روایت کیا۔)
تخریج : [صحيح مسلم، السلام – 5] اور دیکھئیے [تحفه الاشراف 10/ 224]
اسلام باہمی اخوت کا دین ہے۔ إنما المؤمنون إخوة ”مومن بھائی ہیں“ مسلمانوں کے ایک دوسرے پر کئی حقوق ہیں جن میں سے یہ چھ بہت اہم ہیں۔ حق المسلم کے الفاظ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ چیزیں مسلمان کے ذمے مسلمان کا حق ہیں کافر کا حق نہیں ہیں۔ اب ہر ایک کی علیحدہ علیحدہ تشرتح کی جاتی ہے۔
سلام :
➊ سلام کے متعلق سب سے قوی بات یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا نام ہے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نام ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے :
الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ [ 59-الحشر:23]
” وہ بادشاہ نہایت پاک، سلام، امن دینے والا، غالب (ہے )۔ “
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے تو یوں کہتے۔
السلام على الله قبل عباده السلام على جبرئيل السلام على ميكائيل السلام على فلان
”یعنی اللہ پر اس کے بندوں کی طرف سے سلام ہو جبرئیل پر سلام ہو میکائیل پر سلام ہو فلاں پر سلام ہو۔ “
جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو ہماری طرف چہرہ پھیر کر فرمایا السلام على الله ”اللہ پر سلام ہو“ مت کہو کیونکہ اللہ خود سلام ہے۔ الحدیث [متفق عليه مشكوة باب التشهد] ، سلام کا معنی وہ ہستی جو ہر عیب اور نقص سے سالم ہے اور جو سب کو سلامتی دینے والا ہے اور السلام علیکم کا معنی یہ ہوا کہ سلام (اللہ تعالیٰ ) تم پر سایہ فگن رہے، تمہارا نگہبان اور محافظ رہے جس طرح کہا جاتا ہے الله معك والله يصحبك ”اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو اللہ تمہارا ساتھی ہو۔ “
بعض کہتے ہیں سلام بمعنی سلامة ہے یعنی سلامة الله عليكم ، تم پر اللہ کی سلامتی ہو۔ جب کوئی شخص دوسرے کو سلام کہتا ہے تو وہ اسے اس بات سے آگاہ کرتا ہے کہ میری طرف سے تم بےفکر ہو جاؤ کہ میں تمہیں کوئی نقصان پہنچاؤں گا کیونکہ جو شخص اللہ سے اس کی سلامتی کی دعا کر رہا ہے وہ خود تکلیف کیسے دے سکتا ہے ؟
➋ ”جب مسلمان سے ملے اسے سلام کہے“ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جدا ہوتے وقت سلام کی ضرورت نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إذا انتهى أحدكم إلى المجلس فليسلم فإن بدا له أن يجلس فليجلسن ثم إذا قام قليسلم فلیست الأولى بأحق من الآخرة [صحيح – مسند أحمد، أبوداود، الترمذي وغيرهم عن أبى هريرة وصحيح الجامع الصغير۔ 40]
”جب تم میں سے کوئی شخص مجلس میں پہنچے تو سلام کہے اگر اس کا ارادہ بیٹھنے کا ہے تو بیٹھ جائے پھر جب اٹھے تو سلام کہے کیونکہ پہلے سلام کا حق دوسرے سے زیادہ نہیں ہے۔“
➌ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا السلام عليكم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب دیا پھر وہ بیٹھ گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”دس“ (نیکیاں) پھر ایک اور آیا اس نے السلام عليكم ورحمة الله کہا: آپ نے جواب دیا اور وہ بیٹھ گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”بیس“ پھر ایک اور آیا اس نے کہا: السلام عليكم ورحمة الله وبركاته ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” تیس“ [صحيح، ابوداود والترمذي عن عمران بن حصين ديكهئے ابوداود باب كيف السلام]
سلام کے کامل الفاظ اتنے ہی ہیں اس سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔ ومغفرته کے اضافے کی روایت ابوداود میں ہے جس کے متعلق منذری نے فرمایا اس میں ابومرحوم عبدالرحمن بن میمون اور سہل بن معاذ دو راوی ہیں لا يحتج بهما ان کے ساتھ دلیل نہیں پکڑی جاتی (عون باب کیف السلام) اور دیکھئیے ضعیف ابوداود اسی طرح ورضوانه کے الفاظ بھی سلام کے ساتھ ثابت نہیں۔
➍ جب کوئی شخص سلام کہے تو اس سے بہتر جواب دینا چاہئیے یا کم از کم اتنا جواب ضرور دینا چاہئیے۔ [نساء 89]
➎ اگر تھوڑی دیر کے لئے کسی سے علیحدہ ہو تو دوبارہ ملنے پر پھر سلام کہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے ملے تو اسے سلام کہے پھر اگر ان کے درمیان کوئی درخت یا دیوار یا پتھر حائل ہو جائے تو دوبارہ ملنے پر پھر اسے سلام کہے۔ [صحيح ابوداود عن ابي هريرة 4332]
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس فرمان پر بہت اہتمام سے عمل کرتے تھے وہ صحابی جس نے نماز اطمینان سے نہیں پڑھی تھی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ نے اسے واپس بھیجا کہ دوبارہ نماز پڑھو، تم نے نماز نہیں پڑھی تین دفعہ ایسا ہی ہوا تو اس نے ہر مرتبہ آ کر پہلے سلام کہا تھا حالانکہ وہ مسجد میں ہی تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مسجد میں تھے۔ [بخاري و مسلم]
➏ جو شخص قضائے حاجت میں مشغول ہو اسے سلام نہیں کرنا چاہئے۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیشاب کر رہے تھے ایک آدمی گزرا اور اس نے سلام کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا إذا رأيتني على مثل هذه الحالة فلا تسلم على فإنك إن فعلت ذلك لم أرد عليك [ابن ماجه، باب الرجل يسلم عليه وهو يبول – صحيح ابن ماجه 282 ]
جب تم مجھے اس جیسی حالت میں دیکھو تو مجھے سلام مت کہو کیونکہ اگر تم ایسا کرو گے تو میں تمہیں جواب نہیں دوں گا۔
➐ نماز پڑھنے والے کو سلام کہنا چاہئیے البتہ وہ نماز کی حالت میں ہاتھ کے اشارے سے جواب دے زبان سے نہیں۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں میں نے بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کی حالت میں سلام کہتے تھے تو آپ کس طرح جواب دینے تھے ؟ فرمایا آپ اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے تھے۔ [ الترمذى باب ما جاء فى الإشارة فى الصلاة] اور دیکھئیے [صحيح الترمذي 302 اور صحيح ابن ماجه 1017]
اگر نمازی کو سلام کرنا جائز نہ ہوتا تو آپ منع فرما دیتے۔ البتہ نماز کی حالت میں سلام آہستہ کہے جس سے نمازی کو تکلیف نہ ہو ابوسعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلم نے مسجد میں اعتکاف کیا تو لوگوں کو بلند آواز سے قرأت کرتے ہوئے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ ہٹا کر فرمایا :
ألا إن کلكم مناج ربه فلا يؤذين بعضکم بعضا ولا يرفع بعضكم على بعض فى القراءة أو قال فى الصلاة
”یاد رکھو تم سب اپنے رب سے سرگوشی کر رہے ہو اس لئے ایک دوسرے کو تکلیف ہرگز نہ دو اور قرات میں یا فرمایا کہ نماز میں ایک دوسرے پر آواز بلند نہ
کرو۔ “ [ ابوداود- التطوع] اور دیکھئے [صحيح ابي داود۔ 1183]
➑ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جو شخص قرآن پڑھ رہا ہو یا کھانا کھا رہا ہو یا وضو کر رہا ہو اسے سلام نہ کہے مگر اس کی کوئی دلیل نہیں۔ جب نمازی کو سلام کہہ سکتا ہے تو اس سے زیادہ مصروف کون ہو سکتا ہے۔
دعوت قبول کرنا :
”جب تجھے بلائے تو اس کے پاس جا۔“ الفاظ عام ہیں کسی مقصد کے لئے بھی مسلم بھائی بلائے اس کے پاس جانا حق ہے مثلاً وہ مدد کے لئے بلائے یا مشورہ طلب کرنے کے لئے یا کھانے کے لئے غرض کسی بھی جائز کام کے لئے بلائے اس کی دعوت قبول کرنا اس کا حق ہے۔ خاص طور پر اگر اسے مدد کی ضرورت ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
المسلم أخو المسلم لا يظلمه ولا يسلمه
”ایک مسلم دوسرے مسلم کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ اس کی مدد چھوڑتا ہے۔ “
دعوت ولیمہ میں جانے کی خاص تاکید آئی ہے اور نہ جانے پر وعید آئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت ولیمہ سے متعلق فرمایا :
ومن لم يجب الدعوة فقد عصى الله ورسوله
”جس نے دعوت قبول نہ کی اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔“
ہاں اگر دعوت میں کوئی نامناسب کام دیکھے تو واپس آ جائے۔ ایک دفعہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک قالین خریدا جس پر تصاویر بنی ہوئی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو اسے دیکھ کر دروازے پر کھڑے ہو گئے اندر نہیں گئے (عائشہ رضی اللہ عنہا )کہا : یا رسول اللہ ! میں اللہ کی طرف اور اس کے رسول کی طرف توبہ کرتی ہوں میں نے کیا گناہ کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس قالین کا کیا معاملہ ہے ؟ میں نے عرض کیا میں نے اسے آپ کے لئے خریدا ہے کہ آپ اس پر بیٹھیں گے اور تکیہ لگائیں گے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان تصویروں والوں کو قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا، کہا جائے گا جو تم نے بنایا ہے اسے زندہ کرو اور فرمایا جس گھر میں تصویریں ہوں فرشتے اس میں داخل نہیں ہوتے۔ [بخاري كتاب النكا ح]
ابومسعود رضی اللہ عنہ نے گھر میں تصویر دیکھی تو واپس چلے گئے۔ ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے دعوت دی۔ وہ آئے تو گھر کی دیوار پر پردہ پڑا ہوا دیکھا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا عورتوں نے ہم سے زبردستی یہ کام کرا لیا ہے۔ انہوں نے فرمایا کسی اور پر یہ خطرہ تو ممکن ہے تمہارے متعلق یہ خطرہ نہ تھا اللہ کی قسم میں تمہارا کھانا نہیں کھاؤں گا چنانچہ واپس چلے گئے۔ [بخاري كتاب النكا ح]
اگر پہلے سے معلوم ہو کہ وہاں اللہ کی نافرمانی ہو گی۔ تو دعوت قبول کرنا لازم نہیں۔
وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ [11-هود:113]
”اور ان لوگوں کی طرف مائل نہ ہو جاؤ جنہوں نے ظلم کیا ورنہ تمہیں آگ چھوئے گی۔ “
ہاں اگر ایسی جگہ جا کر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی طاقت رکھتا ہو تو ضرور جائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ”تم میں ایک جماعت ہونی چاہئے جو خیر کی دعوت دیں نیکی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں۔ “ [آل عمران-104]

خیر خواہی !
مسلم بھائیوں کی خیر خواہی ہر حال میں ہی ضروری ہے ترمذی میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں مومن کے یہی چھ حق بیان کئے گئے ہیں اور خیر خواہی کے متعلق فرمایا : وينصح له إذا غاب او شهد ”کہ وہ حاضر ہو یا غائب ہو اس کی خیر خواہی کرے۔“ [ حديث : 2737 ]
یعنی حاضر ہے تو اس کی جھوٹی تعریف، چاپلوسی اور منافقت نہ کرے غلط مشورہ نہ دے، نہ ہی دھوکا دے اگر غائب ہے تو اس کی غیبت نہ کرے، چغلی نہ کرے، بدخواہی نہ کرے غرض کہ ہر حال میں اس کی بھلائی کی فکر کرے۔
إذا استنصحك فانصحة سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی مسلمان بھائی مشورہ پوچھے تو اس وقت اسے درست مشورہ دینے اور اس کی خیرخواہی کرنے کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔
چھینک پر الحمد للہ کہنے کا جواب :
➊ چھینک کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو الحمد لله کہے اس کا بھائی یا ساتھی اسے
يرحمك الله کہے جب وہ يرحمك الله کہے تو یہ کہے يهديكم الله ويصلح بالكم الله تمہیں ہدایت دے اور تمہاری حالت درست کرے۔ [بخاري عن ابي هريره رضی اللہ عنہ ]
➋ چھینک آنے پر کم از کم الحمد للہ کہنا واجب ہے۔ اگر اس کے ساتھ على كل حال پڑھا جائے تو بہتر ہے ترمذی میں ابوایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم م نے فرمایا : جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو یوں کہے الحمد لله على كل حال دیکھئیے [صحيح الترمذي۔ 2202]
➌ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو وہ کہے۔ الحمد لله رب العالمين جواب دینے والا کہے يرحمك الله اور وہ خود کہے يغفرالله لي ولكم [صحيح الاسناد موقوف صحيح الأدب المفرد 715 – 934] یہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔
➍ على رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ جو شخص چھینک سن کر کہے : الحمد لله رب العالمين على كل حال ما كان اسے کبھی ڈاڑھ اور کان کا درد نہیں ہو گا۔ [الادب المفرد للبخاري 949]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا : اس کے رجال ثقات ہیں اور اس جیسی بات رائے سے نہیں کہی جا سکتی اس لئے یہ مرفوع کے حکم میں ہے۔ [فتح الباري]
مگر شیخ البانی نے فرمایا کہ یہ ضعیف ہے۔ کیونکہ یہ ابواسحاق سبیعی کی روایت سے ہے اور انہیں اختلاط ہو گیا تھا۔ اس لئے حافظ نے بھی اسے صحیح نہیں کہا۔ [ضعيف الادب المفرد 926/148]
➎ رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی مجھے چھینک آئی تو میں نے کہا:
الحمد لله حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه مباركا عليه كما يحب ربنا ويرضى
”ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے تعریف بہت زیادہ پاکیزہ جس میں برکت کی گئی ہے جس پر برکت نازل کی گئی ہے۔ جس طرح ہمارا رب محبت کرتا ہے اور پسند کرتا ہے۔ “
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا : نماز میں یہ الفاظ کس نے کہے ہیں- تین دفعہ پوچھا – میں نے عرض کیا۔ میں نے کہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تیس سے زیادہ فرشتے اس کی طرف جلدی سے بڑھے کہ ان میں سے کون اسے لے کر اوپر چڑھے۔ [ حسن، صحيح ابي داود 700 و صحيح ترمذي 331]
اس سے معلوم ہوا چھینک آنے پر یہ الفاظ کہے تو اور زیادہ ثواب ہے۔
➏ نماز میں چھینک آنے پر بھی الحمد لله ضرور کہنا چاہئیے جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث میں مذکور ہے۔ البتہ نماز کے دوران کسی دوسرے کو جواب دینا جائز نہیں کیونکہ یہ دوسرے آدمی سے خطاب ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلم نے فرمایا نماز میں لوگوں کے کلام میں سے کوئی چیز درست نہیں وہ تو صرف تسبیح، تکبیر اور قرآن کی قرأت ہے۔ [مسلم]
➐ جو شخص چھینک آنے پر الحمد للہ نہ کہے اسے يرحمك الله نہیں کرنا چاہئے۔ [بخاري باب لا يشمت العاطس اذا لم يحمد الله]
➑ غیر مسلم اگر چھینک آنے پر الحمد للہ کہے تو اسے يرحمك الله نہیں کرنا چاہئیے۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چھینکتے اور امید کرتے کہ آپ انہیں يرحمك الله کہیں گے مگر آپ انہیں یہی کہتے : يهديكم الله ويصلح بالكم [صحيح ابي داود 4213 و صحيح الترمذي]
➒ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ان کا قول اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مروی ہے کہ اپنے بھائی کو تین دفعہ يرحمك الله کہو۔ اگر اس سے زیادہ ہو تو زکام ہے۔ [صحيح ابي داود۔ 4210]
➓ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھینک آتی تو اپنے منہ پر اپنا ہاتھ یا کوئی کپڑا رکھ لیتے اور چھینکتے وقت اپنی آواز کو پست رکھتے۔ [صحيح ابوداود 4207 و صحيح الترمذي]
⓫ چھینک آنے پر الحمد للہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ چھینک سے دماغ میں رکے ہوئے فضلات و بخارات خارج ہو جاتے ہیں اور دماغ کی رگوں اور اس کے پٹھوں کی رکا وٹیں دور ہو جاتی ہیں۔ جس سے انسان بہت سی خوفناک بیماریوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ چھینک کو پسند کرتا ہے اور جمائی کو ناپسند کرتا ہے۔ جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے اور وہ الحمد لله کہے تو ہر اس مسلمان پر جو اسے سنے حق ہے کہ اسے يرحمك الله کہے اور جمائی شیطان سے ہے جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے تو جس قدر ہو سکے اسے روکے کیونکہ جب وہ ”ھا “ کہتا ہے تو شیطان اس سے ہنستا ہے۔ [بخاري كتاب الادب]
صحیح مسلم میں ہے کہ جب تم میں سے کسی کو جمائی آئے وہ اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھ لے۔

بیمار پرسی :
➊ سلمان کی بیمار پرسی واجب ہے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں باب باندھا ہے باب وجوب عيادة المريض اور اس پر کئی احادیث سے استدلال فرمایا ہے۔
➋ کفار کی تعلیم سے متاثر ڈاکٹروں کی زیادہ سے زیادہ کوشش یہی ہوتی ہے کہ مریض کو کسی سے ملنے نہ دیا جائے حالانکہ بیمار کو دوستوں کے ملنے سے دلی راحت حاصل ہوتی ہے جو دل کی تقویت کا باعث ہوتی ہے جس سے بیماری ختم ہونے میں مدد ملتی ہے . . . ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق . . . وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے . . .
کم از کم اتنی دیر بیمار کی توجہ اپنی بیماری سے کم ہو جاتی ہے جتنی دیر وہ ملنے کے لئے آنے والوں کے ساتھ مشغول رہتا ہے۔
➌ بیمار پرسی کرنے سے مریض کی ضروریات کا علم ہوتا ہے مثلاً اسے کسی طبیب کے پاس لے جانے کی ضرورت ہو۔ یا کسی دوا کی ضرورت ہو یا گھر میں اخراجات کی کمی کا مسئلہ ہو بیمار پرسی ہی سے ضرورت کا علم ہونے پر مسلم بھائی کی مدد کی جا سکتی ہے۔ بعض اوقات بیمار پرسی کرنے والا خود طبیب ہوتا ہے یا اس بیماری میں مبتلا رہ چکا ہوتا ہے وہ بہترین مشورہ بھی دے سکتا ہے۔
➍ بیمار پرسی کے لئے آنے والوں کی دعا اور کتاب و سنت کے الفاظ پر مشتمل دم سے مریض کو صحت ہو سکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کوئی مسلمان کسی مسلمان کی بیمار پرسی کرے اور سات مرتبہ یہ کلمات کہے تو اسے عافیت دی جاتی ہے۔ سوائے اس کے کہ اس کی موت کا وقت آ پہنچا ہو : أسال الله العظيم رب العرش العظيم أن يشفيك ”میں اللہ سے سوال کرتا ہوں جو عظمت والا ہے عرش عظیم کا رب ہے کہ تجھے شفا دے۔“ [ صحيح ] [عن ابن عباس – ترمذي ابواب الطب اور ديكهئے صحيح الترمذي۔ 1698 ]
➎ بیمار پرسی کرنے والے کو چاہئیے کہ مریض کو حوصلہ دلائے اور بیماری کا ثواب ذکر کر کے اس کی ہمت بندھائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی بیمار کی عیادت کے لئے جاتے تو فرماتے : لا بأس طهور ان شاء الله ”کوئی حرج نہیں اگر اللہ نے چاہا تو یہ بیماری پاک کرنے والی ہے۔ “ [بخاري كتاب المرضىٰ عن ابن عباس]
➏ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی بیار کے پاس جاتے یا اسے آپ کے پاس لایا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے۔
أذهب الباس رب الناس واشف وأنت الشافى لا شفاء إلا شفاء شفاءك شفاء لا يغادر سقما [البخاري كتاب۔ المرضي ]
”لے جا بیماری کو اے لوگوں کے پروردگار اور شفا دے اور تو ہی شفا دینے والا ہے تیری شفا کے علاوہ کوئی شفا نہیں، ایسی شفا دے جو کوئی بیماری نہ چھوڑے۔ “ صحیح مسلم میں ہے کہ آپ اس پر اپنا دایاں ہاتھ پھیرتے اور یہ دعا پڑھتے [كتاب السلام ميں : 1722]
➐ زیر بحث حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بیمار پرسی صرف مسلمان کا حق ہے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیر مسلم کی بیمار پرسی بھی کر لیتے تھے۔ جیسا کہ آپ نے ایک یہودی نوجوان کی بیمار پرسی کی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتا تھا۔ اور اسے اسلام قبول کرنے کے لئے کہا تو وہ مسلمان ہو گیا۔ اسی طرح آپ نے اپنے چچا ابوطالب کی وفات کے وقت اس سے ملاقات کی اور اسلام قبول کرنے کی تلقین فرمائی۔ [صحيح بخاري كتاب المرضی]
➑ ابن ماجہ میں انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیمار پرسی نہیں کرتے تھے مگر تین راتوں کے بعد“ مگر یہ روایت موضوع ہے اس میں ایک راوی مسلمہ بن علی متروک ہے۔ [سلسلة الضعيفه 45 ]
اس لئے جتنی جلدی ہو سکے بیمار پرسی کرنی چاہیے۔
فرمان الہٰی ہے :
فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ [5-المائدة:48]
”نیکیوں میں سبقت کرو۔“
➒ ترمذی میں علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کی بیمار پرسی صبح کے وقت کرے تو شام تک ستر ہزار فرشتے اس پر صلاۃ بھیجتے رہتے ہیں اور اگر پچھلے پہر کرے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اس پر صلاۃ بھیجتے رہتے ہیں۔ اور جنت میں اس کے لئے ایک باغ لگ جاتا ہے۔ [ترمذي۔ الجنائز اور ديكهئے صحیح الترمذي 775]
➓ بیمار پرسی کا مقصد بیمارکو راحت پہنچانا ہے اور ظاہر ہے دیر تک بیٹھنے سے اور ہجوم کرنے سے اسے تکلیف ہو گی اس لئے بیمار پرسی کا ایک ادب یہ ہے کہ اس کے پاس زیادہ دیر نہ بیٹھے۔

جنازے کے ساتھ جانا :
➊ اذا مات فاتبعه سے معلوم ہوا کہ مسلمان واقف ہو یا ناواقف اس کے جنازے کے ساتھ جانا اس کا حق ہے۔ حدیث میں اس کا بہت اجر آیا ہے۔ [ديكهئے بلوغ المرام كتاب الجنائز حديث- 534]
➋ جنازے کے ساتھ جاتے ہوئے کلمہ شہادت یا کوئی اور ذکر بلند آواز سے پڑھنا جس طرح لوگوں میں آج کل رائج ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے ثابت نہیں۔

Address

Khairpur

Telephone

03022164649

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Jamiat Ahlehadith khairpur mirs sindh posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share

Category


Other Media in Khairpur

Show All