10/12/2022
مصنوعی گوشت !!
آج سے کم و بیش دس سے گیارہ ہزار سال پہلے انسانوں نے کھیتی باڑی کرنا شروع کی۔ اس سے پہلے انسان شکار کئے جانور یا جنگلی پھل وغیرہ کھا کر اپنی بھوک مٹاتے۔ اس وجہ سے انسانی آبادی کم تھی۔ خوراک کے ذرائع محدود تھے۔ آج سے بارہ ہزار سال پہلے جب آئس ایج کا دور ختم ہوا تو گندم اور دیگر اناج کے پودے شدید موسم سے بچ کر زیادہ بہتر طور پر اُگنے کے قابل ہوئے۔ انسانوں نے کھیتی باڑی کر کے مستقل آبادیاں بنائیں۔ اب کھانے کے لیے شکار کی ضرورت کم ہو گئی مگر گوشت کھانا انسان نے نہ چھوڑا۔ جانوروں کو پالنا شروع کیا گیا۔ بکریاں، گائے، سور ان سب کو گوشت، دودھ, اُون وغیرہ کے لئے رکھا گیا۔ خوراک کے بہتر ذرائع سے انسان کی نشو و نما بہتر ہونے لگی۔ آبادی بڑھنے لگی۔ دیکھتے ہی دیکھتے انسانی آبادی چند ہزار سالوں میں لاکھوں سے اربوں میں چلی گئی۔
آج جانوروں کا گوشت وسیع پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے۔ انسانوں نے مصنوعی چناؤ سے جانوروں کی ایسی نسلیں تیار کی ہیں جو کم وقت میں زیادہ گوشت اور زیادہ دودھ دیتی ہیں۔ مگر گوشت کی اس انڈسٹری سے ماحولیاتی آلودگی اور گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج بڑھ رہا یے۔ سائنسی جریدے نیچر کے مطابق محض جانوروں سے حاصل کردہ ایک کلوگرام بیف کے لئے اوسطاً 15 ہزار لیٹر پانی درکار ہوتا ہے۔ اسی طرح گوشت کی انڈسٹری عالمی خوراک کی سالانہ کی پیداوار سے خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں میں 60 فیصد حصہ ڈالتی ہے۔
ماحولیاتی اثرات کے اس تناظر میں اور گوشت کی بڑھتی ہوئی کھپت کے پیشِ نظر اب جدید طریقوں سے گوشت بنانے کا سوچا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم پیش رفت لیبارٹری میں تیار کردا گوشت کے حوالے سے ہے۔
اسے عرف عام میں Lab Grown Meat یا مصنوعی گوشت بھی کہا جاتا ہے۔ ہم جسے گوشت کہتے ہیں وہ دراصل جانور کے پٹھے ہوتے ہیں۔ اس میں مسل ٹشوز اور چربی ہوتی ہے۔ مصنوعی گوشت کی تیاری کے عمل میں جانور کو مارے بغیر اسکے کچھ خلیے پٹری ڈش میں نکال کر اُنہیں خاص حالات اور خوراک مہیا کی جاتی ہے جس سے وہ بڑھتے ہیں اور کچھ وقت میں گوشت کا ٹکڑا بن جاتے ہیں۔ اس طرح کے مصنوعی گوشت کا تصور 21 ویں صدی کے اوائل میں پیش کیا گیا۔ اس طرح سے لیبارٹری میں گوشت بنانے کے اور اسکے ذائقے کا موازنہ جانور سے حاصل کئے گئے گوشت سے کیا گیا۔ پہلے تجربوں میں اسے بنانا بے حد مشکل اور مہنگا تھا۔ لیب میں بنایا گیا ایک پاؤنڈ گوشت 3 لاکھ اور 30 ہزار ڈالر کا۔۔مگر وقت کیساتھ ساتھ ٹیکنالوجی میں بہتری کے باعث اسے بنانا سستا ہوتا گیا ۔ آج اسکی قیمت تقریباً 7 سے 8 ڈالر فی پاؤنڈ تک پہنچ چکی ہے۔ بہت سی نئی کمپنیاں آج اس طرح سے بنے مصنوعی گوشت کو سستا سے سستا اور کھانے کے لیے محفوظ بنا کر مارکیٹوں میں لانے کی کوشش میں ہیں۔ سنگاپور پہلا ملک ہے جہاں ایک امریکی کمپنی "جسٹ ایٹ". کا تیار کردہ مصنوعی چکن مارکیٹ میں دستیاب ہے۔ دیگر ممالک بھی عنقریب اس روش کو اپنائیں گے۔
مصنوعی گوشت کی پیداوار سے ماحول پر برے اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے کہ یہ طریقہ کار موثر ہے اور اس میں وسائل کا استعمال روایتی گوشت حاصل کرنے کے طریقے سے کم ہے۔ اسکے علاوہ بہت سے لوگ مستقبل میں یہ گوشت کھانا بھی چاہیں گے کیونکہ بقول اُنکے اس میں کسی جانور کی ہلاکت یا اس پر ظلم شامل نہیں۔