BBC Urdu-club

BBC Urdu-club یے بی بی سی اردو کی دوسری آفیشل فیس بوک پیج ہے۔جسکے تحت ?

24/09/2021

طالبان کی سپیشل فورس بدری 313 نے اب کابل ایئرپورٹ کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ امریکی جا چکے ہیں لیکن پیچھے چھوڑے ہوئے اسلحے اور ہیلی کاپٹرز کو ناکارہ بنا گئے ہیں۔ طالبان کا دعوی ہے کہ اس کو ٹھیک کرنے کے لیے ان کے پاس ٹیم موجود ہے۔۔۔
🎥: محمد ابراہیم

ایپل کے نئے آئی فون 13 اور نئی سیون سیریز سمارٹ واچ میں کون کون سے فیچرز ہیں؟کرسٹینا کریڈل & ڈیوڈ مولیٹیکنالوجی رپورٹرام...
15/09/2021

ایپل کے نئے آئی فون 13 اور نئی سیون سیریز سمارٹ واچ میں کون کون سے فیچرز ہیں؟
کرسٹینا کریڈل & ڈیوڈ مولی
ٹیکنالوجی رپورٹر

امریکی ٹیکنالوجی کمپنی ایپل نے اپنا نیا آئی فون 13 متعارف کروا دیا ہے۔ اس نئے آئی فون ماڈل میں ویڈیوز کو 'پورٹریٹ موڈ' میں بنانے کا فیچر متعارف کروایا گیا ہے۔

'پورٹریٹ موڈ' فیچر میں بنائی گئی ویڈیو میں اب صارفین کو منظر اور پس منظر کی گہرائی اور بہتر رزلٹ مل سکے گا۔

ایپل کمپنی کے مطابق اس نئے آئی فون 13 میں ویڈیوز کے لیے ایک نیا فیچر 'سنیماٹک موڈ' بھی متعارف کروایا گیا ہے جس میں کیمرہ فریم میں آنے والے فرد کی شناخت کر کے فوکس اس جانب کر دے گا۔ کمپنی نے کیمرے فوکس کی تبدیلی کو 'پل فوکس' کا نام دیا ہے۔

کمپنی کے سی ای او ٹم کک کا نئے آئی فون 13 کو متعارف کرواتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ واحد سمارٹ فون ہے جو صارفین کو ویڈیو بنانے کے بعد بھی یہ ایفکٹ ایڈٹ کرنے کی سہولت دیتا ہے۔

تاہم، آئی فون کے نئے ماڈل کی زیادہ تر دیگر خصوصیات پچھلے ورژن کے فیچرز کی اپ ڈیٹس ہیں۔

آئی فون 13 متعارف کروانے تقریب میں ایپل فونز میں ایک نئی خرابی کی خبروں کا چرچا بھی رہا جو صارفین کے پیغامات کو بے نقاب کر سکتی ہے۔

ایپل نے پیر کو اس انجان خرابی کو دور کرنے کے لیے ایک نیا سکیورٹی پیچ جاری کیا ہے۔ اس خرابی کے باعث حملہ آور بنا آئی فون صارفین کے کسی نقصان دہ فائل یا لنک کے کلک کیے بنا ان کے آئی میسیج تک رسائی حاصل کر سکتے تھے۔

ایپل کے نئے آئی فون 13 میں تیز پروسیسنگ کے لیے اے 15 چپ لگائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اس کا ڈسپلے زیادہ روشن ہے، اور اس کی بیٹری لائف ڈھائی گھنٹے زیادہ چلتی ہے۔

اس نئے آئی فون کو دیدہ زیب گلابی، نیلے، 'مڈنائٹ سٹارلائٹ' اور لال رنگوں میں متعارف کیا گیا ہے۔

ایپل آئی فون،تصویر کا ذریعہAPPLE
نئے آئی فون میں پانچ سو جی بی تک کی سٹورج دی گئی ہے اور اس ماڈل میں کم سے کم سٹوریج 128 جی بی ہے جو گذشتہ ماڈلز میں 64 جی بی تک تھی۔

آئی فون پراڈکٹ مارکیٹنگ کی نائب صدر کیانے ڈرانس کا کہنا تھا کہ ایپل اپنے نئے فونز کی تیاری ماحولیات کو ذہن میں رکھ کر کی گئی ہے اور اس میں بہت سی ری سائیکل اشیا کا استعمال کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس صنعت میں پہلی مرتبہ اس فون کے انٹینا کو ری سائیکل کی گئی پانی کی پلاسٹک کی بوتلوں سے بنایا گیا ہے۔

ایپل نے آئی فون 13 کے ساتھ ساتھ آئی فون 13 منی، آئی فون 13 پرو، اور آئی فون 13 پرو میکس ماڈل بھی متعارف کروائے ہیں۔ آئی فون 13 پرو اور آئی فون 13 پرو میکس ماڈلز میں تین کیمرے ہیں جنھیں ایپل 'اب تک کے سب سے جدید کیمرہ سسٹم' قرار دیتا ہے۔

اس کے پریمیم ماڈلز میں سپر ریٹینا ایکس ڈی آر ڈسپلے اور پرو موشن جیسے فیچرز بھی ہے۔ جو ویڈیو کو ایک نئی جدت دیتے ہیں۔

اس کے باعث سکرولنگ، اینیمیشن اور گیمنگ میں نئی جدت اور آسانی پیدا ہوتی ہے۔

نئے آئی فون 13 منی کی قیمت 679 برطانوی پاؤنڈز سے شروع ہوتی ہے، آئی فون 13 کی قیمت 779 پاونڈز، آئی فون 13 پرو کی قیمت 949 پاؤنڈز سے شروع ہوتی ہے جبکہ آئی فون پرو میکس کی قیمت 1049 پاؤنڈز سے شروع ہوتی ہے۔

نئے ایپل آئی فون کو ایک ایسے وقت میں متعارف کروایا گیا ہے جب صارفین نئے فونز لینے کی بجائے زیادہ عرصہ تک اپنے فونز استعمال کر رہے ہیں۔ ایک سرمایہ کار کمپنی ویڈ بش کے اندازے کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 25 کروڑ آئی فون صارفین نے گذشتہ ساڑھے تین برسوں میں اپنا فون اپ گریڈ نہیں کیا ہے۔

پی پی فورسائٹ نامی کمپنی کے تجزیہ کار پاؤلو کا کہنا ہے کہ ’ایپل کے لیے سب سے منافع بخش پراڈکٹ آئی فون ہی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ 'البتہ بہت سے صارفین اپنے فونز کو اپ گریڈ کرنا ضروری سمجھے گے کیونکہ اب بھی لاکھوں ایسے صارفین ہیں جو فائیو جی ٹیکنالوجی پر اب تک منتقل نہیں ہوئے ہیں۔‘

واضح رہے کہ فائیو جی کا فیچر صرف آئی فون 12 اور اس سے نئے ماڈلز میں ہی ہے۔

ایک تجزیہ کار کمپنی آئی ڈی سی کے مطابق رواں برس کی دوسری سہ ماہی میں ایپل نے دنیا بھر میں 25.9 فیصد فونز فائیو جی ٹیکنالوجی والے فروخت کیے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

نیا آئی فون لوگوں کو ’بھیانک‘ کیوں لگتا ہے

سمارٹ فون اتنا سمارٹ کیسے بنا؟

آپ کا فون آپ کی شخصیت کے بارے میں کیا کہتا ہے؟

ایپل سمارٹ واچ،تصویر کا ذریعہAPPLE
ایپل واچ سیریز سیون
ٹیکنالوجی کمپنی ایپل نے اپنی نئی ایپل واچ سیریز سیون بھی متعارف کروائی ہے۔ اس کے ڈیزائن کو سنہ 2018 کے بعد پہلی مرتبہ تبدیل کیا گیا ہے۔

اس پہلے کے مقابلے میں سائز میں تھوڑی بڑی ہے۔

اس نئے سائز کی ایپل واچ کی سکرین میں پہلے کے مقابلے میں 50 فیصد زیادہ ٹیکسٹ دکھائی دیتا ہے اور اس میں لکھنے کے لیے کی بورڈ کا فیچر بھی متعارف کروایا گیا ہے۔

سیون سیریز کی اس ایپل واچ کو پہلی مرتبہ دھول اور گردو غبار سے محفوظ بناتے ہوئے ڈسٹ ریزیسٹنٹ بنایا گیا ہے۔

تاہم بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق ایپل کی سیریز سیون کی گھڑی کی تیاری میں تاخیر کا سامنا ہو سکتا ہے جو اس کے صارفین تک فراہمی کے مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔

جبکہ ایپل کمپنی کا کہنا ہے کہ ایپل واچ کا نیا ماڈل اس برس 'موسم سرما کے آخر میں' دستیاب ہو گا۔

ایک مارکیٹ پر تحقیق کرنے والی کمپنی سی سی ایس انسائٹ کے مطابق دنیا بھر کی سمارٹ واچ مارکیٹ میں ایپل 47 فیصد حصہ رکھتا ہے۔

ایپل کی نئی سمارٹ واچ میں آپریٹنگ سسٹم آئی او ایس 8، الیکٹرونک بائکس سمیت سائیکل سواری کو خود جانچنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

ایپل نے اس موقع پر ایک انٹری لیول کے آئی پیڈ کا نیا ماڈل بھی متعارف کروایا ہے۔ کمپنی کے سربراہ کک کا کہنا ہے کہ گذشتہ برس آئی پیڈز کی فروخت میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

اس میں تیز پروسیسنگ کے لیے اے 13 چپ استعمال کی گئی ہے جو کہ اس کے پرانے ماڈلز سے 20 فیصد زیادہ تیز ہے۔

اپیل کا کہنا ہے کہ آئی پیڈ کا یہ نیا ماڈل 'کروم بک سے تین گنا زیادہ تیز ہے۔'

اس نئی آئی پیڈ کی تعارفی قیمت 329 ڈالرز سے شروع ہوتی ہے جبکہ سکولوں کے لیے اس میں رعایت دی گئی ہے اور ان کے لیے اس کی قیمت 299 ڈالرز ہے۔

ایپل نے آئی پیڈ منی کا نیا ماڈل بھی متعارف کروایا ہے جس میں سی ٹائپ یو ایس بی پورٹ فراہم کی گئی ہے۔ اس میں ایپل پینسل کا فیچر بھی ہے تاہم اس کا ہوم بٹن نہیں ہے۔ اس کی قیمت 479 پاؤنڈز سے شروع ہوتی ہے۔

اگاتھا کرسٹی: جب دنیا کی مشہور جاسوسی ناول نگار خاتون برصغیر پہنچیں اور انڈیا میں کسی کو خبر نہ ہوئیعقیل عباس جعفریمحقق ...
15/09/2021

اگاتھا کرسٹی: جب دنیا کی مشہور جاسوسی ناول نگار خاتون برصغیر پہنچیں اور انڈیا میں کسی کو خبر نہ ہوئی
عقیل عباس جعفری
محقق و مورخ، کراچی

ذرا سوچیے کہ دنیا کی سب سے مشہور خواتین میں سے ایک دو ہفتوں تک ایک ملک کے دورے پر جاتی ہیں مگر وہاں کی پریس کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی!

سوشل میڈیا کے دور میں تو ایسا تصور بھی کرنا ممکن نہیں جب مشہور شخصیات اور اداکاروں سے لے کر مصوروں اور لکھاریوں کی بھی پل پل کی خبر انٹرنیٹ پر موجود ہوتی ہے۔

تاہم سنہ 1960 میں کچھ ایسا ہی ہوا تھا جب جاسوسی اور کرائم ناول کی ملکہ اگاتھا کرسٹی اپنے شوہر کے ساتھ برصغیر کے دورے پر آئیں۔

انھوں یہ سفر ’مسز میلووان‘ کے نام سے کیا تاکہ لوگوں کو معلوم نہ ہو کہ دنیا کی سب سے زیادہ بکنے والی ناول نگار اُن کے ملک میں موجود ہیں۔ انڈیا میں تو اُن کا یہ منصوبہ کامیاب رہا اور کسی کو شک نہیں ہوا کہ میوزیم اور دیگر تاریخی مقامات کا دورہ کرنے والی ’بُڑھیا‘ دراصل اگاتھا کرسٹی ہیں۔

لیکن پاکستان پہنچنے کے بعد ان کا راز فاش ہو گیا اور اس کی وجہ بنی ’السٹریٹڈ ویکلی آف پاکستان‘ کے مدیر اجمل حسین کی اُن سے کراچی کی ایک محفل میں ہونے والی حادثاتی ملاقات۔

اگاتھا کرسٹی کا پورا نام اگاتھا میری کلیرسا کرسٹی تھا اور وہ 15 ستمبر 1890 کو برطانیہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ وہ ایک کثیر التصانیف ادیبہ تھیں اور انھوں نے 87 ناول تحریر کیے جن کا ترجمہ دنیا کی 103 زبانوں میں ہوا اور جن کی 30 کروڑ کاپیاں فروخت ہوئیں۔

سنہ 1914 میں ان کی پہلی شادی آرچی بالڈ پیسٹی سے ہوئی مگر 1928 میں ان کی علیحدگی ہو گئی۔ پھر سنہ 1930 میں اُن کی دوسری شادی میکس میلووان سے ہوئی جو آثار قدیمہ کے شعبے سے منسلک تھے اور انھیں مشرق وسطیٰ کی قدیم تاریخ کا ماہر سمجھا جاتا تھا۔

میکس میلووان کا اولین کام میسوپوٹیمیا کی تہذیب کے دارالحکومت ’اُر‘ کو بازیافت کرنا تھا۔ وہیں ان کی ملاقات اگاتھا کرسٹی سے ہوئی تھی جن کے ساتھ بہت جلد وہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے۔ میکس میلووان کی تحقیق اور تحریر کا کام جاری رہا اور انھوں نے مشرق وسطیٰ کی بہت سارے قدیم مقامات پر تحقیقی کام کیا جن میں عراق اور شام کے بہت سے تہذیبی مراکز شامل تھے۔

وہ عراق میں برٹش سکول آف آرکیالوجی کے ڈائریکٹر بھی رہے اور سنہ 1956 میں ان کی پہلی تصنیف '25 ایئرز آف میسوپوٹیمین ڈسکوری' منظر عام پر آئی۔

آثار قدیمہ سے دلچسپی سنہ 1960 میں انھیں پاکستان کھینچ لائی۔ یہ دورہ میکس میلووان کا تھا اور جوڑے نے اس دوران کراچی، موئن جو دڑو، لاہور اور کئی دوسرے شہروں کا دورہ کیا۔ مگر اخبارات نے زیادہ اہمیت اگاتھا کرسٹی کو دی جو اس 15 روزہ دورے میں اُن کے ساتھ ساتھ رہیں۔

اس بات کا اندازہ اس فیچر سے ہوتا ہے جو چھ مارچ 1960 کو ’السٹریٹڈ ویکلی آف پاکستان‘ میں شائع ہوا۔

اگاتھا کرسٹی نے اس جریدے کے مدیر کو بتایا کہ وہ اور ان شوہر بہت عرصے سے اس خطے کی سیاحت کرنے کے خواہش مند تھے۔ انھوں نے کہا: ’میں ابھی پندرہ روز تک انڈیا کا دورہ بھی کر کے آئی ہوں مگر میں نے وہ دورہ مسز میلووان کے نام سے کیا اور وہاں کسی کو میری شناخت معلوم نہ ہو سکی۔‘

شاید یہ اس پاکستانی صحافی کی ذہانت اور حاضر دماغی کی داد دے رہی تھیں جنھوں نے مسز میلووان کا راز بھانپ لیا تھا۔

السٹریٹڈ ویکلی میں شائع ہونے والے انٹرویو میں اگاتھا کرسٹی نے بتایا کہ ان کے شوہر دس سال سے عراق میں میسوپوٹیمیا کی تہذیب پر کام کر رہے تھے اور اب وہ اس موضوع پر اپنی کتاب مکمل کرنے والے ہیں جس کے لیے انڈیا اور پاکستان کے قدیم مقامات اور یہاں سے دریافت ہونے والے آثار قدیمہ کا جائزہ لینا بہت ضروری تھا

السٹریٹڈ ویکلی آف پاکستان کے مدیر نے اگاتھا کرسٹی سے پوچھا کہ وہ ناول لکھنے کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کرتی ہیں۔ اگاتھا کرسٹی نے کہا کہ وہ پہلے کہانی کا اختتام سوچتی ہیں اور پھر ناول لکھنا شروع کرتی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ایک ناول لکھنے میں انھیں تقریباً تین ماہ درکار ہوتے ہیں۔

وہ اپنا ناول خود ٹائپ کرتی ہیں اور اس دوران کسی کو اجازت نہیں ہوتی کہ وہ اس ناول کو پڑھ سکے۔ ان کے مطابق تحریر کا سب سے مناسب وقت رات کا پچھلا پہر ہے۔ اس وقت میں تحریر پر توجہ مرکوز کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ اُن کا پسندیدہ ناول ’اینڈ دین دیئر ور نن‘ ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی ناول اگاتھا کرسٹی کی سب سے مقبول کتاب ثابت ہوئی ہے اور اس کی دنیا بھر میں 10 کروڑ سے زائد کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔

اگاتھا کرسٹی سے پوچھا گیا کہ ان کے پسندیدہ جاسوسی ناول نگار کون ہیں تو انھوں نے مائیکل گلبرٹ اور مارجوری ایلنگھم کے نام لیے جبکہ امریکی مصنّفین میں ان کے پسندیدہ جاسوسی ناول نگار الزبتھ ڈیلی اور ارل اسٹینلے گارڈنر تھے۔ انھوں نے کہا ’ان مصنفین کی کردار سازی لاجواب ہے۔‘

اگاتھا کرسٹی سے یہ بھی پوچھا گیا کہ برطانیہ کے مشہور سراغ رساں ادارے سکاٹ لینڈ یارڈ سے ان کے تعلقات کیسے ہیں۔ اس پر جواب ملا کہ وہ صرف چند مرتبہ اس ادارے کے لوگوں سے ملی ہیں۔ ان کے مطابق ادارے کے لوگ ان کے ناولوں کو دلچسپ ضرور تصور کرتے ہیں مگر حقیقت سے دور۔۔

انھوں نے کہا کہ برطانیہ میں ہونے والے کچھ قتل ایسے بھی تھے جن کی پولیس رپورٹ میں نے بڑی دلچسپی سے پڑہی مگر میں نے انھیں کبھی اپنے ناول کے قالب میں نہیں ڈھالا۔

اس انٹرویو میں اگاتھا کرسٹی نے اپنے مشہور کردار ہرکیول پویئرو کے بارے میں بھی بتایا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی مصنف کو جاسوسی ناول کا طویل سلسلہ لکھنا ہو تو اسے کچھ ’سٹاک کریکٹر‘ تخلیق کرنے پڑتے ہیں۔

’ہرکیول پویئرو بھی میرا ایسا ہی ایک کردار ہے۔ یہ کردار میں نے پہلی جنگ عظیم میں بلجیم سے برطانیہ ہجرت کرنے والے ایک پولیس افسر کو سامنے رکھ کر تراشا تھا۔ وہ پولیس افسر تو کب کا وفات پا چکا مگر میرا کردار اب بھی زندہ ہے۔‘

اگاتھا کرسٹی نے ہنستے ہوئے کہا ’اگر وہ پولیس افسر اس وقت زندہ ہوتا تو اس کی عمر 103 سال کے لگ بھگ ہوتی۔‘

جب اگاتھا کرسٹی سے پوچھا گیا کہ کیا وہ پاکستان کے پس منظر میں کوئی ناول تخلیق کرنا چاہیں گی تو انھوں نے اس کا جواب نفی میں دیا۔ انھوں نے کہا کہ کسی ایسے ملک کے پس منظر میں ناول لکھنا بہت مشکل ہے جسے وہ بہت کم جانتی ہیں۔ ’یہ کام صحافی تو کر سکتے ہیں مگر کوئی تخلیقی ادیب نہیں۔‘

کہا جاتا ہے کہ سنہ 1960 کے اس دورے کے بعد اگاتھا کرسٹی ایک مرتبہ پھر پاکستان سے گزریں۔ اس بات کے راوی سہیل اقبال ہیں۔

انھوں نے اپنے ایک مضمون میں جو، ابن صفی میگزین میں شائع ہوا تھا، لکھا ہے کہ سنہ 1965 کے لگ بھگ اگاتھا کرسٹی نے کسی اور ملک جاتے ہوئے کراچی ایئر پورٹ کے وی آئی پی لاﺅنج میں کچھ دیر قیام کیا تھا۔

ان کے اس قیام کا کچھ لوگوں کو پہلے سے علم تھا جن میں ریڈیو پاکستان کے پروڈیوسر رضی اختر شوق اور روزنامہ حریت سے منسلک صحافی اے آر ممتاز شامل تھے اور وہ اگاتھا کرسٹی سے ملنے ایئر پورٹ پہنچ گئے۔

انھوں نے دوران گفتگو پاکستانی جاسوسی ادب کا ذکر کیا تو اگاتھا کرسٹی مسکرائیں اور بولیں: ’مجھے اُردو نہیں آتی لیکن برصغیر کے جاسوسی ادب سے تھوڑی بہت واقفیت رکھتی ہوں۔ اردو میں صرف ایک اوریجنل رائٹر ابن صفی ہیں اور سب اس کے نقال ہیں، کسی نے بھی اس سے ہٹ کر کوئی نئی راہ نہیں نکالی۔‘

سہیل اقبال کے اس بیان کی اب تک کوئی تردید یا تائید نہیں ہو سکی۔

انڈیا میں تین خواتین ججز کی سپریم کورٹ میں تقرری قبل از وقت جشن تو نہیں!گیتا پانڈےبی بی سی نیوز، نئی دہلیخواتین ججزانڈیا...
15/09/2021

انڈیا میں تین خواتین ججز کی سپریم کورٹ میں تقرری قبل از وقت جشن تو نہیں!
گیتا پانڈے
بی بی سی نیوز، نئی دہلی

خواتین ججز

انڈیا کی سپریم کورٹ میں تین خواتین ججوں کی حالیہ تقرریوں کو ایک ’تاریخی لمحہ‘ قرار دیا جا رہا ہے اور ان میں سے ایک جسٹس بی وی ناگرتھنا کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ ایک دن ملک کی پہلی خاتون چیف جسٹس بن سکتی ہیں۔

تینوں ججوں، جسٹس ہیما کوہلی، جسٹس بیلا ایم ترویدی اور جسٹس بی وی ناگرتھنا نے یکم ستمبر کو اپنے عہدے کا حلف لیا ہے۔

انڈیا کے چیف جسٹس این وی رمنا کی خواتین ججز ساتھیوں کے ساتھ تصویر جن میں تین نئی ججز اور جسٹس اندرا بینرجی جو اس عہدے پر سنہ 2018 سے سپریم کورٹ میں ہیں، انڈیا میں سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کی جا رہی ہیں اور اسے اخبارات کے صفحہ اول کی زینت بنایا گيا ہے۔

وزیر قانون کیرن ریجیجو نے اسے ’صنفی نمائندگی کا تاریخی لمحہ‘ قرار دیا ہے۔ امریکہ میں انڈیا کے سفیر نے کہا کہ یہ ایک قابل فخر لمحہ ہے۔ اور بہت سے لوگوں نے نئے ججوں کو ان کے ’اہم دن‘ پر مبارکباد کے پیغامات بھیجے ہیں۔

یہ تقرریاں بلاشبہ خوش آئند ہیں کیونکہ وہ انڈیا کی اعلیٰ عدالت میں صنفی فرق کو کم کرتی ہیں۔ لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کا جشن قبل از وقت معلوم ہوتا ہے کیونکہ جب تک کہ انڈیا کی عدلیہ میں صنفی توازن ٹھیک نہ ہو جائے اس وقت تک یہ قبل از وقت ہے جیسے کہ ایک ریٹائرڈ خاتون جج نے حال ہی میں اسے ’اولڈ بوائز کلب‘ قرار دیا تھا۔

سینیئر وکیل سنیہا کالیتا نے کہا کہ ممکنہ پہلی خاتون چیف جسٹس پر جوش و خروش خاص طور پر بے وجہ ہے کیونکہ اگر سب کچھ منصوبے اور ضوابط کے مطابق ہوتا ہے تو بھی جسٹس ناگرتھنا کی سپریم کورٹ کی سربراہی کی باری سنہ 2027 میں آئے گی اور وہ بھی ان کے ریٹائر ہونے سے تقریبا ایک ماہ قبل۔

انھوں نے کہا: ’کسی خاتون کا چیف جسٹس ہونا جشن کی بات ہے لیکن یہ تقرری صرف علامتی ہے اور اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’جب ایک نیا چیف جسٹس اپنا عہدہ سنبھالتا ہے تو اسے وقت درکار ہوتا ہے تاکہ وہ چیزوں سے ہم آہنگ ہو سکے۔ پہلے دو ماہ عمومی طور پر انتظامی کاموں میں گزر جاتے ہیں۔ وہ ایک ماہ میں کیا کریں گی؟ وہ صرف نام کی چیف جسٹس ہوں گی۔‘

کالیتا خواتین وکلاء کی ایک انجمن کی رکن ہیں جنھوں نے عدالتوں میں خواتین کی منصفانہ نمائندگی کا مطالبہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کر رکھی ہے۔

جب سابق چیف جسٹس کو کلین چٹ دی گئی تو خواتین میں کافی غم و غصہ پایا گیا

جب سابق چیف جسٹس کو کلین چٹ دی گئی تو خواتین میں کافی غم و غصہ پایا گیا

سنہ 1950 میں جب سے انڈیا میں سپریم کورٹ قائم ہوئی ہے ملک کی پہلی خاتون سپریم کورٹ کی جج مقرر ہونے میں 39 سال لگ گئے جب جسٹس فاطمہ بیوی کو سنہ 1989 میں سپریم کورٹ میں بطور جج مقرر کیا گيا۔ انھوں نے سنہ 2018 میں نیوز ویب سائٹ سکرول کو بتایا تھا کہ ’میں نے ایک بند دروازہ کھولا تھا۔‘

لیکن انڈیا کی سپریم کورٹ میں خواتین ججز کے لیے ابھی بھی مشکل سفر ہے کیونکہ گذشتہ 71 برسوں میں سپریم کورٹ کے 256 ججوں میں سے صرف 11 (یعنی 4.2 فیصد) خواتین ہیں۔

موجودہ 34 رکنی سپریم کورٹ ٹیم میں صرف چار خواتین ججز ہیں۔ ریاستوں کے 25 ہائی کورٹس میں 677 ججوں میں 81 خواتین ہیں جبکہ پانچ ریاستوں میں ایک بھی خاتون جج نہیں ہے۔

کالیتا کہتی ہیں کہ ’اعلی عدلیہ میں خواتین کی نمائندگی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہم انڈیا کی آدھی آبادی کی نمائندگی کرتے ہیں تو پھر ہمارے پاس عدلیہ میں آدھی نشستیں کیوں نہیں ہیں؟‘

ان کا کہنا ہے کہ اگر کالجیم، جو ججوں کا تقرر کرتا ہے، کو ضلعی عدالتوں میں کافی اہل ججز مل سکتے ہیں تو اسے سپریم کورٹ بار سے بھی اہل خواتین کو منتخب کرنا چاہیے جہاں ’بہت اچھی خواتین وکلاء موجود ہیں۔‘

چیف جسٹس رمانا سمیت قانونی ماہرین اور ججوں نے حال ہی میں مزید خواتین ججوں کی تقرریوں کا مطالبہ کیا ہے۔

جسٹس رمانا نے رواں ماہ کے اوائل میں کہا تھا کہ ’آزادی کے 75 برسوں بعد کسی کو ہر سطح پر عدلیہ میں خواتین کی کم از کم 50 فیصد نمائندگی کی توقع ہو گی لیکن بہت مشکل سے ہم سپریم کورٹ میں اب تک خواتین کی 11 فیصد نمائندگی تک ہی پہنچ سکے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ اس مسئلے کو اجاگر کرنا چاہیے اور اس پر غور کرنا چاہیے۔

ایک ریٹائیرڈ خاتون جج نے حال ہی میں انڈیا کی عدلیہ کو ’این اولڈ بواز کلب‘ کہا ہے

برطانیہ کی عدالتوں میں 32 فیصد ججز خواتین ہیں جبکہ امریکہ میں 34 فیصد جج خواتین ہیں۔ بین الاقوامی عدالت انصاف میں مجموعی 15 ججز میں سے تین خواتین ہیں جو کہ 20 فیصد بنتا ہے۔

دسمبر میں انڈیا کے اعلیٰ قانونی عہدیدار اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ ’جنسی تشدد سے متعلق معاملات میں زیادہ متوازن اور ہمدردانہ انداز‘ اپنانے کے لیے مزید خواتین ججوں کا تقرر ہونا چاہیے۔

وینوگوپال کا مشورہ ایک ایسے وقت آیا جب ایک ہائی کورٹ کے مرد جج نے ایک خاتون کو ہراساں کرنے کے الزام میں ایک مرد کو حکم دیا کہ وہ خاتون کے گھر مٹھائی لے کر جائے اور ان سے معافی مانگے۔

خواتین وکلا نے متعدد مرتبہ اس طرح کے احکامات کو چیلنج کیا ہے جن میں ججوں نے متاثرہ لڑکی کو شرمندہ کیا ہو یا عصمت دری کے معاملے میں سمجھوتے کی تجویز دی ہو۔ صنفی ماہرین کہتے ہیں کہ زیادہ خواتین ججوں کے ہونے سے ضروری نہیں کہ عدالت میں عورتوں سے نفرت کا خاتمہ ہو۔

نیوز ویب سائٹ آرٹیکل 14 کی جینڈر (صنفی) ایڈیٹر نمیتا بھنڈارے نے حال ہی میں ہندوستان ٹائمز میں لکھا تھا کہ ’خواتین ججز ہمیشہ اپنی جنس کے لوگوں کا بھلا نہیں سوچتی۔‘

’یہ ایک خاتون جج ہی تھیں جنھوں نے ایک 39 سالہ شخص کو ایک بچے سے جنسی زیادتی کے الزام سے بری کیا کیونکہ وہاں جلد سے جلد تک کوئی رابطہ نہیں ہوا تھا۔ اور انڈیا کے سابق چیف جسٹس راجن گوگوئی کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے مقدمے سے بری کرنے کرنے والی تین رکنی کمیٹی میں دو خواتین شامل تھیں۔‘

لیکن نمیتا بھنڈارے نے کہا کہ عدلیہ ’اعلی طبقے، غالب ذات، اکثریت مذہب کے مردوں‘ کا مقام ہی نہیں رہ سکتی اور نئی راہیں اور بند دروازے کھولنے ہوں گے تاکہ ’ہماری جمہوریت کو متحرک بنانے والی مختلف آوازوں‘ کے لیے جگہ بنائی جا سکے۔

انھوں نے کہا کہ ’ضروری نہیں کہ تمام خواتین بہتر جج بن سکیں‘، لیکن زیادہ سے زیادہ خواتین کو قانونی پیشے میں شامل ہونے کی ترغیب ضرور دی جانی چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ ’اگر ہم ایک آزاد قوم کی تلاش میں ہیں تو ہماری عدلیہ میں صنفی برابری ضرور ہونی چاہیے۔ اعلیٰ عدالتوں میں خواتین ججز آنے سے مزید خواتین کو قانون کی تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب ملے گی، اور جب بینچ میں صنفی برابری ہو تو معاشرے کو اس کا بہت فائدہ ہوتا ہے۔‘

طالبان وزیر خارجہ کا امداد کے وعدوں پر عالمی برادری کا شکریہ، ’امریکہ بڑا ملک ہے، دل بھی بڑا ہونا چاہیے‘طالبان کے وزیرِ ...
15/09/2021

طالبان وزیر خارجہ کا امداد کے وعدوں پر عالمی برادری کا شکریہ، ’امریکہ بڑا ملک ہے، دل بھی بڑا ہونا چاہیے‘

طالبان کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے آج کابل میں پاکستانی سفیر منصور علی خان سے بھی ملاقات کی ہے۔

آج اپنی پریس کانفرنس کے دوران امیر خان متقی نے کہا کہ طالبان عالمی امداد کو ضرورت مندوں تک پہنچانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔
خلاصہ
اقوامِ متحدہ کی اپیل پر عالمی برادری نے افغانستان کے لیے ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی امداد کے وعدے کیے ہیں
اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ افغانستان کی صورت حال ’انسانی بحران کی طرح‘ ہے اور عالمی برادری کو فوری طور پر 606 ملین ڈالر کی امداد فراہم کرنی چاہیے۔
قطر نے کہا ہے کہ اس وقت طالبان حکومت تسلیم کرنے پر اصرار کرنے سے کسی فریق کا فائدہ نہیں ہے۔
امریکہ، یورپی یونین اور برطانیہ نے کہا ہے کہ وہ افغان طالبان سے رابطے کریں گے مگر افغانستان میں ان کی نئی حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے
چین اور پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک و عالمی تنظیمیں افغانستان کے عوام کے لیے خوراک اور ادویات سمیت دیگر امداد بھیج رہے ہیں
اقوام متحدہ نے طالبان کی جانب سے اپنے مخالفین کے خلاف ’بڑھتے ہوئے پُرتشدد ردعمل‘ کی مذمت کی ہے
لائیو رپورٹنگ
time_stated_uk

پوسٹ کیا گیا 18:3518:35
’چار سو طرح کے کھیلوں کی اجازت ہوگی، خواتین کے بارے میں مزید سوال نہ پوچھیں‘
افغانستان کے محکمہ کھیل و جسمانی تربیت کے سربراہ بشیر احمد رستم زئی نے کہا ہے کہ طالبان تیراکی سے لے کر فٹ بال اور دوڑ سے لے کر گھڑ سواری تک 400 کھیلوں کی اجازت دیں گے تاہم اُنھوں نے اس بات پر تبصرہ نہیں کیا کہ خواتین کو کھیلنے کی اجازت ہو گی یا نہیں۔

اُنھوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے کہا:’برائے مہربانی خواتین کے بارے میں مزید سوالات مت پوچھیں۔‘ رستم زئی نے کہا کہ ’ہم کسی کھیل پر پابندی نہیں لگائیں گے جب تک کہ وہ شرعی قوانین کے خلاف نہ ہوں۔ چار سو طرح کے کھیلوں کی اجازت ہے۔‘

اُنھوں نے کہا کہ اسلامی قوانین کی پاسداری کرنے سے دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ کچھ نہیں بدلے گا۔

’اس سے زیادہ کچھ تبدیل نہیں ہوتا‘ اور کہا کہ مثال کے طور پر فٹ بال یا موئے تھائی باکسرز کو ’تھوڑے لمبے شارٹس پہننے ہوں گے جو گھٹنوں سے نیچے آتے ہوں۔‘

جب اُن سے کھیلوں میں خواتین کی شرکت کے بارے میں پوچھا گیا تو اُنھوں نے کہا کہ وہ اب بھی طالبان کی اعلیٰ قیادت سے احکامات ملنے کے منتظر ہیں۔

’ہمارے بڑوں (سینیئر طالبان) کی آراء اہم ہیں۔ اگر وہ ہمیں خواتین کو اجازت دینے کا کہیں گے تو ہم دیں گے، ورنہ نہیں دیں گے۔ ہم اُن کے اعلان کا انتظار کر رہے ہیں۔‘

پوسٹ کیا گیا 18:0518:05
’نہیں جانتے کہ ڈرون حملے میں جنگجو کی ہلاکت ہوئی یا امدادی کارکن کی‘
امریکی وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ افغانستان میں امریکی فضائی حملے میں امدادی کارکن کی ہلاکت ہوئی تھی یا شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے جنگجو کی۔

واضح رہے کہ امریکہ کے افغانستان میں آخری دنوں کے دوران کابل ایئرپورٹ کے باہر بم دھماکے میں درجنوں افغان شہری اور امریکی سپاہی ہلاک ہوئے تھے۔

دولتِ اسلامیہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اس کے چند دن بعد ہی ایک ڈرون نے کابل میں ایک کار کو نشانہ بنایا تھا جس کے بارے میں پینٹاگون کا کہنا تھا کہ اس سے کابل ایئرپورٹ پر نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے ایک اور حملے کی منصوبہ بندی ناکام ہوئی ہے۔

تاہم خبر رساں ادارے اے ایف پی کو ہلاک ہونے والے امریکی امدادی کارکن عزمرائی احمدی کے بھائی نے بتایا کہ اُن کے خاندان کے 10 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

بعد میں اخبار نیویارک ٹائمز کی ویڈیو انویسٹیگیشن میں پایا گیا کہ احمدی پانی کے کین منتقل کر رہے تھے جس کی وجہ سے وہ شک کی زد میں آئے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بلنکن سے جب سینیٹ کی اُمورِ خارجہ کمیٹی کے روبرو پوچھا گیا تو اُنھوں نے کہا کہ ’مجھے نہیں معلوم کیونکہ ہم اس کا جائزہ لے رہے ہیں۔‘

پوسٹ کیا گیا 17:3217:32
ازبکستان سے تقریباً 500 ’فوجی اور سویلین‘ افغانوں کو نکالنے کا امریکی دعویٰ
امریکہ نے کہا ہے کہ اُس نے ازبکستان سے تقریباً 500 ’فوجی و سویلین‘ افغانوں کو نکال لیا ہے اور اب ازبکستان کا کہنا ہے کہ اس کی سرزمین پر کوئی افغان پناہ گزین موجود نہیں ہیں۔

واضح رہے کہ طالبان کی جانب سے جب ملک کے مختلف حصوں پر قبضے کی مہم جاری تھی تو کئی افغان فوجی ازبکستان اور تاجکستان فرار ہو گئے تھے۔

ازبکستان نے اب تک افغانستان سے آنے والے پناہ گزینوں کی تعداد اور صورتحال پر تبصرہ نہیں کیا ہے تاہم منگل کو امریکی سفارت خانے کے ترجمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ ازبکستان کے جنوبی ایئرپورٹ ترمیز سے 494 ’فوجی اور سویلین‘ افغانوں کو نکال لیا ہے۔

گذشتہ ماہ افغان سفارت خانے میں ایک اہلکار نے اے ایف پی بتایا تھا کہ طالبان کی جانب سے مزارِ شریف پر قبضے کے بعد ازبکستان آنے والے لوگوں کی تعداد 1500 تک ہو سکتی ہے۔

پوسٹ کیا گیا 15:1715:17
امریکہ: جب تک طالبان بین الاقوامی مطالبات تسلیم نہیں کرتے، پاکستان طالبان حکومت کو تسلیم نہ کرے
امریکی وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ تب تک طالبان حکومت کو تسلیم نہ کرے جب تک کہ طالبان بین الاقوامی مطالبات پورے نہیں کر دیتے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کانگریس کی اُمورِ خارجہ کمیٹی میں خطاب کرتے ہوئے وزیرِ خارجہ بلنکن نے کہا کہ ’پاکستان سمیت تمام ممالک کو عالمی برادری کی اُن توقعات پر اصرار کرنا چاہیے جو اس نے طالبان سے تسلیم کیے جانے کے بدلے میں وابستہ کر رکھی ہیں۔‘

اُنھوں نے کہا کہ ترجیحات یہ ہیں کہ طالبان افغانستان چھوڑنے کے خواہشمند لوگوں کو ملک سے باہر جانے دیں، خواتین، لڑکیوں اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کریں، اور ملک کو دوبارہ ’دوسرے ملکوں کے لیے دہشتگردی کے خطرے‘ کا محفوظ ٹھکانہ نہ بننے دیں۔

’اس لیے پاکستان کو بین الاقوامی برادری کی وسیع اکثریت کے ساتھ مل کر ان مقاصد کے حصول اور ان توقعات کے پورا کرنے کے لیے کام کرنا ہوگا۔‘

بلنکن نے کہا کہ ’کئی مواقع پر‘ پاکستان کی پالیسیاں ’ہمارے مفادات کو نقصان پہنچاتی رہی ہیں اور کچھ مواقع پر ان مفادات کی حمایت میں رہی ہیں۔‘

امریکی وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ ’یہ وہ ملک ہے جو طالبان کے ارکان بشمول حقانیوں کو پناہ دینے میں شامل رہا ہے۔‘

واضح رہے کہ واشنگٹن کی جانب سے دہشتگرد قرار دیے گئے حقانی نیٹ ورک کے ارکان طالبان کی نئی کابینہ میں شامل ہیں۔

وزیرِ خارجہ بلنکن کے علاوہ بھی کئی کانگریس ارکان نے اس موقع پر پاکستان کے حوالے سے سخت مطالبات کیے۔ ڈیموکریٹک رکنِ کانگریس خوکین کاسترو نے امریکہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اسلام آباد کا ’نان نیٹو اتحادی‘ کا درجہ ختم کرنے پر غور کرے جس کے تحت پاکستان کو امریکی ہتھیاروں تک ترجیحی رسائی ملتی ہے۔

لائیوطالبان کی حکومت ’مسلمان بھائی‘ ترکی سے تعاون کی خواہاں، انڈیا افغانستان کی مدد کو تیارطالبان کے ترجمان سہیل شاہین ن...
14/09/2021

لائیوطالبان کی حکومت ’مسلمان بھائی‘ ترکی سے تعاون کی خواہاں، انڈیا افغانستان کی مدد کو تیار

طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا ہے کہ افغانستان اور ترکی کے درمیان تعلقات تاریخی اہمیت کے ہیں اور طالبان کی حکومت ترکی کے ساتھ تعلیم، تعمیرات اور معیشت جیسے شعبوں میں تعاون بڑھانا چاہتی ہے۔
ادھر انڈیا کے وزیر خارجہ نے افغانوں کی مدد کی پیشکش کی ہے۔
خلاصہ
طالبان نے افغانستان میں ایک عبوری حکومت کا اعلان کیا ہے مگر اس کابینہ میں خواتین شامل نہیں
اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ افغانستان کی صورت حال ’انسانی بحران کی طرح‘ ہے اور عالمی برادری کو فوری طور پر 606 ملین ڈالر کی امداد فراہم کرنی چاہیے۔
اقوامِ متحدہ کی اپیل پر عالمی برادری نے افغانستان کے لیے ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی امداد کے وعدے کیے ہیں
امریکہ، یورپی یونین اور برطانیہ نے کہا ہے کہ وہ افغان طالبان سے رابطے کریں گے مگر افغانستان میں ان کی نئی حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے
چین اور پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک و عالمی تنظیمیں افغانستان کے عوام کے لیے خوراک اور ادویات سمیت دیگر امداد بھیج رہے ہیں
اقوام متحدہ نے طالبان کی جانب سے اپنے مخالفین کے خلاف ’بڑھتے ہوئے پُرتشدد ردعمل‘ کی مذمت کی ہے
لائیو رپورٹنگ
time_stated_uk

پوسٹ کیا گیا 8:038:03
انڈیا کی طرف سے افغانوں کی مدد کی پیشکش
انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے افغان شہریوں کی مدد کا اعلان کیا ہے مگر اس سلسلے میں افغانستان میں طالبان کی حکومت کے لیے کسی مالی مدد کا وعدہ نہیں کیا گیا۔

انڈین اخبار ٹائمز آف انڈیا کے مطابق افغانستان کے موضوع پر اقوام متحدہ کے ایک اجلاس میں تقریر کے دوران جے شنکر نے ایک بار بھی طالبان کا ذکر نہیں کیا۔

جبکہ اخبار دی ہندو کے مطابق انڈیا نے افغانستان کے بحران کے حل کے لیے اقوام متحدہ کے کلیدی کردار کی حمایت کی ہے۔

ایس جے شنکر نے عالمی برادری سے کہا کہ ’افغانستان میں کافی سنجیدہ صورتحال پیدا کی گئی ہے۔‘

’انڈیا افغان شہریوں کی مدد کرنا چاہتا ہے۔ ہم نے ماضی میں بھی ایسا کیا ہے۔‘

پوسٹ کیا گیا 6:596:59
’ہم ترکی کو مسلمان بھائی سمجھتے ہیں، تعاون کے خواہاں ہیں‘
طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کا بیان

طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا ہے کہ افغانستان اور ترکی کے درمیان تعلقات تاریخی اہمیت کے ہیں اور ملا حسن اخوند کی نئی حکومت ترکی کے ساتھ تعاون بڑھانا چاہتی ہیں۔

ترک خبر رساں ادارے ہیبرلر کو اس انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ طالبان کی حکومت ترکی کے ساتھ کئی جگہوں پر باہمی تعاون بڑھا سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ترک اور دیگر انجینیئر افغانستان میں کام کر رہے ہیں اور ان کی کارکردگی اہمیت رکھتی ہے۔

سہیل شاہین نے بتایا کہ ’ہم ترکی کے ساتھ تعلیم، تعمیرات اور معیشت میں تعاون بڑھانا چاہتے ہیں۔‘

ترک صدر طیب اردوغان کی خارجہ پالیسی سے متعلق ایک سوال پر طالبان کے ترجمان نے کہا کہ ہر ملک اپنی خارجہ پالیسی اپنے مفادات کو مدنظر رکھ کر بناتا ہے اور ’ہم اس کی عزت کرتے ہیں۔‘

’اگر ترکی ایک مسلمان بھائی بن کر سامنے آتا ہے تو ہم اس کا خیر مقدم کریں گے۔ ہم ترکی کو ایک ’مسلمان بھائی‘ کے طور پر دیکھتے ہیں۔‘

طالبان کے ترجمان نے یہ بھی لکھا کہ کابل ایئرپورٹ کا آپریشن سنبھالنے کے سلسلے میں ترکی اور قطر سے بات چیت جاری ہے۔

خیال رہے کہ ترک صدر اردوغان نے افغانستان کی عبوری حکومت بننے پر کہا تھا کہ وہ یہ نہیں جانتے کہ یہ عبوری حکومت کتنی دیر تک قائم رہ سکے گی۔ انھوں نے کہا تھا کہ اسے مستقل حکومت کہنا مشکل ہے اور یہ کہ ترکی افغانستان کی عبوری حکومت پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

ترک وزیر خارجہ نے واضح کیا تھا کہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے حوالے سے ترکی کسی جلدی میں نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’امید ہے افغانستان خانہ جنگی کی طرف نہیں جائے گا۔۔۔ ہم کابل ایئرپورٹ کے حوالے سے قطر اور امریکہ سے بات چیت کر رہے ہیں۔‘

پوسٹ کیا گیا 6:266:26
ازبکستان میں پھنسے کچھ افغان پائلٹ ’متحدہ عرب امارات چلے گئے‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ازبکستان میں ایک ماہ سے پھنسے کچھ افغان پائلٹ پہلے مرحلے میں اپنے خاندانوں کے ساتھ متحدہ عرب امارات روانہ ہو رہے ہیں۔

افغان ایئر فورس کے یہ پائلٹ اس وقت اپنے خاندانوں کے ساتھ ازبکستان چلے گئے تھے جب طالبان نے افغانستان پر کنٹرول سنبھالنا شروع کر دیا تھا۔

روئٹرز کے مطابق امریکی حکام ان پائلٹس کے مستقبل کے حوالے سے طالبان سے بات چیت کر رہے ہیں۔ طالبان چاہتے تھے کہ یہ پائلٹ فوجی طیاروں اور ہیلی کاپٹروں سمیت واپس افغانستان آئیں۔ مگر متعدد ذرائع ابلاغ کی خبروں میں بتایا گیا کہ انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

ایک پائلٹ نے نام ظاہر کیے بغیر روئٹرز کو بتایا کہ ’پہلے مرحلے میں کچھ پائلٹ متحدہ عرب امارات پہنچ گئے ہیں اور امید ہے انھیں وہاں سے امریکہ لے جایا جائے گا۔‘

امریکہ، ازبکستان یا اقوام متحدہ نے اس موضوع پر اب تک بات نہیں کی ہے۔ افغان ایئر فورس کے وہ طیارے جن کی مدد سے یہ پائلٹ ملک سے فرار ہوئے تھے ان کا مسقبل بھی تاحال غیر واضح ہے۔

ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ ممکنہ طور پر کچھ ہیلی کاپٹر امریکی حکومت کو واپس کر دیے جائیں گے۔

پوسٹ کیا گیا 4:224:22
طالبان پنجشیر میں: وادی پر قبضے کے بعد کی صورتحال
View more on YoutubeView more on youtube
افغانستان کے دارالحکومت کابل سے 150 کلومیٹر شمال مشرق میں واقع وادیِ پنجشیر کو طالبان کے خلاف مزاحمت کا گڑھ کہا جاتا رہا ہے۔

لیکن گذشتہ چند دنوں میں طالبان جنگجو اور کمانڈر اس علاقے کا کنٹرول سنبھالنے میں کامیاب رہے ہیں۔

مزاحمت کا آخری گڑھ سمجھے جانے والی یہ وادی آخر طالبان کے لیے اتنی اہم کیوں ہے؟

پوسٹ کیا گیا 4:184:18
’میرے کپڑوں کو ہاتھ مت لگاؤ‘
افغان خواتین کی سوشل میڈیا پر مہم

افغانستان کی بعض خواتین نے طالبان کی مخالفت میں سوشل میڈیا پر ایک مہم شروع کی ہے جس کا نام ’ڈو ناٹ ٹچ مائی کلوتھس‘ یعنی میرے کپڑوں کو ہاتھ مت لگاؤ‘ ہے۔

اس مہم میں خواتین آن لائن اپنے روایتی کپڑوں میں اپنی تصاویر پوسٹ کر رہی ہیں۔

افغانستان کا سوشل میڈیا ہو یا پاکستان اور انڈیا کا، کچھ تصاویر جو ہر جگہ گذشتہ چند دن سے وائرل نظر آ رہی ہیں ان میں متعدد خواتین کو سر تا پا سیاہ لباس اور برقع پہنے کابل یونیورسٹی کے لیکچر تھیٹر میں دیکھا جا سکتا ہے۔

ان نقاب پوش خواتین کی تصاویر نے ملک میں افغان طالبان کی حکومت میں خواتین کی حیثیت اور اہمیت کے علاوہ اس بات پر بھی بحث چھیڑ دی ہے کہ آیا اس قسم کا لباس جس میں عورت کی آنکھیں تک دکھائی نہ دیں کیا افغانستان کی ثقافت کا حصہ ہے؟

سوشل میڈیا پر چند افغان اور پاکستانی صارفین اس برقعے کو ’سعودیہ سے امپورڈ شدہ سلفی نظریات کا تحفہ‘ یا ’عربنائزیشن‘ قرار دے رہے ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ ’سیاہ برقع ہمارے معاشروں کو سعودی عرب کی طرف سے ملنے والے سخت گیر نظریات کا تحفہ ہے۔‘

چند خواتین صارفین کا کہنا ہے کہ یہ سیدھا سیدھا ’سعودی فیشن‘ ہے کیونکہ افغان خواتین یا تو نیلے ٹوپی والے برقعے پہنتی ہیں یا سفید برقع یا چادر یا سکارف لیتی ہیں۔

مزید پڑھیے

طالبان کی حامی خواتین کی وائرل تصاویر: کیا سر تا پا سیاہ برقع افغان کلچر ہے؟

پوسٹ کیا گیا 3:473:47
’افغانستان کے مستقبل پر امریکہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کا جائزہ لے گا‘
انٹونی بلنکن

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ آئندہ ہفتوں میں امریکہ پاکستان کے ساتھ اپنی تعلقات کی طرف توجہ مرکوز کرے گا۔ اس دوران یہ جائزہ لیا جائے گا کہ افغانستان کے مستقبل میں واشنگٹن کیا کردار ادا کرنا چاہتا ہے اور پاکستان سے کیا توقعات رکھتا ہے۔

کانگریس میں خارجہ امور کی کمیٹی کے اجلاس کے دوران انٹونی بلنکن کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ’متعدد مفادات ہیں جن میں سے کچھ ہمارے مفادات سے اختلاف رکھتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ان (مفادات) میں سے ایک افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے مستقل طور پر کوششیں کرنا ہے۔ طالبان کے ممبران کی پشت پناہی۔۔۔ (ان مفادات میں) ہمارے ساتھ انسداد دہشتگردی کے لیے تعاون شامل ہے۔‘

جب ان کے پوچھا گیا کہ آیا وقت آگیا ہے کہ امریکہ کو پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظرثانی کرنا چاہیے، بلنکن نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ جلد یہ کرنے جا رہی ہے۔

’یہ ان چیزوں میں سے ہے جن میں ہم آئندہ دنوں اور ہفتوں میں نظر رکھیں گے۔ گذشتہ 20 برسوں کے دوران پاکستان نے جو کردار ادا کیا ہے (اور) وہ کردار جو ہم آئندہ برسوں میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور اس کے لیے کیا درکار ہوگا۔‘

انٹونی بلنکن نے امریکی پارلیمان میں خارجہ امور کی کمیٹی سے مزید کہا کہ امریکہ نے افغانستان میں بدترین صورتحال کے لیے منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔

’ہمیں ڈیڈ لائن ملی تھی۔ (گذشتہ انتظامیہ کی طرف سے) ہمیں کوئی منصوبہ نہیں دیا گیا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ کی ترجیح امریکیوں کی زندگیوں کو محفوظ بنانا تھی۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ امریکی افواج کی موجودگی میں حکومتی فورسز کابل میں اتنی جلد پسپا ہوجائیں گی اس کی پیشگوئی نہیں کی گئی تھی۔

بلنکن کا کہنا تھا کہ طالبان نے کابل کی طرف تیز مارچ کر کے معاہدے کی خلاف ورزی کی۔

پوسٹ کیا گیا 0:200:20
طالبان حکومت کے ڈپٹی وزیر اعظم ملا عبدالغنی برادر منظر نامے سے غائب کیوں ہیں؟
خدائے نور ناصر

بی بی سی، اسلام آباد

طالبان تحریک کے ذرائع کے مطابق اگرچہ حقانی نیٹ ورک اور قندھاری یا عمری طالبان کے درمیان اختلافات ایک عرصے سے تھے، لیکن اب عمری یا قندھاری طالبان کے اندر بھی ملا محمد یعقوب اور ملا عبدالغنی برادر کے الگ الگ گروہ ہیں اور دونوں طالبان تحریک پر قیادت کے دعویدار ہیں۔

مزید پڑھیے
پوسٹ کیا گیا 18:16 13 ستمبر 202118:16 13 ستمبر 2021
پنجشیر میں طالبان کے ہاتھوں 20 شہریوں کا قتل
بی بی سی کو علم ہوا ہے کہ طالبان اور قومی مزاحمتی محاذ کے درمیان ہونے والی لڑائی کا مرکز رہنے والی افغانستان کی وادی پنجشیر میں کم از کم 20 شہریوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔

پنجشیرسے اطلاعات کا حصول مشکل ہے لیکن بی بی سی کے پاس ثبوت ہیں کہ طالبان کی جانب سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کے اعلانات کے باوجود انھوں نے شہریوں کو ہلاک کیا۔

پنجشیر سے ملنے والی ایک فوٹیج میں فوجی وردی پہنے ایک شخص کو طالبان کے نرغے میں دیکھا جا سکتا ہے۔ پھر فائرنگ کی آواز آتی ہے اور وہ شخص زمین پر گر جاتا ہے۔

یہ واضح نہیں کہ مرنے والا شخص افغان فوج کا رکن تھا کہ نہیں۔ ویڈیو میں ایک راہ گیر ضرور یہ کہہ رہا ہے کہ وہ ایک عام شہری تھا۔

بی بی سی نے تصدیق کی ہے کہ پنجشیر میں ایسی 20 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ مرنے والوں میں عبدالسمیع نامی دکاندار بھی تھا جو دو بچوں کا باپ تھا۔

مقامی ذرائع کے مطابق طالبان کے پنجشیر میں آنے کے بعد اس نے انھیں بتایا کہ ’میں ایک غریب دکاندار ہوں جس کا جنگ سے کوئی واسطہ نہیں۔‘ تاہم اسے گرفتار کر لیا گیا اور اس پر مزاحمتی محاذ کے ارکان کو سم کارڈ بیچنے کا الزام لگایا گیا اور پھر چند دن بعد اس کی لاش اس کے گھر کے پاس پھینک دی گئی۔

عینی شاہدین کے مطابق عبدالسمیع کی لاش پر تشدد کے نشانات بھی موجود تھے۔

پوسٹ کیا گیا 18:13 13 ستمبر 202118:13 13 ستمبر 2021
اقوامِ متحدہ کی اپیل پر افغانستان کے لیے ایک ارب ڈالر سے زائد کی امداد کا وعدہ
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گتیریس نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ تعلقات استوار کریں اور افغان عوام کو انتہائی ضروری امداد کی ’لائف لائن‘ فراہم کریں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سیکریٹری جنرل گتیریس پیر کو جنیوا میں تھے جہاں اُنھوں نے افغانستان کے لیے عطیات اکٹھے کرنے کی ایک کانفرنس میں شرکت کی۔

کانفرنس کا مقصد 60 کروڑ ڈالر کے عطیات جمع کرنا تھا مگر کانفرنس کے نصف تک پہنچنے تک ہی مختلف ممالک کی جانب سے ایک ارب ڈالر سے زائد کے عطیات کا وعدہ کیا جا چکا تھا۔

اس موقع پر انتونیو گتیریس نے کہا: ’ملک کے ڈی فیکٹو حکام (طالبان) سے بات چیت کیے بغیر افغانستان کے اندر انسانی امداد پہنچانا ناممکن ہے۔

اس وقت طالبان کے ساتھ تعلقات قائم کرنا نہایت اہم ہے۔‘ اُنھوں نے دنیا پر زور دیا کہ وہ ’افغان معیشت کو رقم کا سہارا دینے کے لیے طریقے ڈھونڈیں‘ تاکہ معیشت کا انہدام روکا جا سکے جس کے ’افغانستان اور وسیع تر خطے کے لیے تباہ کُن نتائج ہوں گے۔‘

پوسٹ کیا گیا 15:25 13 ستمبر 202115:25 13 ستمبر 2021
’طالبان حکومت تسلیم کرنا ترجیح نہیں ہے، طالبان مثبت بیانات پر عمل کریں‘
قطر کے نائب وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمان آل ثانی نے کہا ہے کہ اس وقت طالبان کی افغانستان پر حکومت کو تسلیم کرنا ’ترجیح نہیں ہے‘ بلکہ اس گروپ کے لیے اہم یہ ہے کہ یہ دنیا کے ساتھ تعلقات استوار کرے۔

فرانسیسی وزیرِ خارجہ یاں ویز لیدریان کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا: ’ہم نے طالبان کو یقین دہانی کروائی ہے کہ بطور ثالث قطر کا کردار حقیقت پسندانہ ہے اور دنیا سے تنہائی اختیار کرنا حل نہیں ہے۔‘

واضح رہے کہ گذشتہ روز قطری وزیرِ خارجہ نے افغانستان کا دورہ کیا تھا جہاں اُنھوں نے طالبان کے وزیرِ اعظم ملّا محمد حسن اخوند سمیت افغانستان سے سابق صدر حامد کرزئی اور سابق چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ سے ملاقات کی تھی۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اُنھوں نے کہا کہ ’اس وقت تسلیم کرنے پر زور دینے سے کسی فریق کو فائدہ نہیں ہوگا‘۔

ساتھ ہی شیخ محمد نے مزید کہا کہ طالبان کے لیے یہ مددگار ثابت ہو گا کہ وہ اپنے دیے گئے ’مثبت بیانات‘ پر قائم رہتے ہوئے اُن پر عمل پیرا ہوں۔

شیخ محمد بن عبدالرحمان نے مزید کہا کہ طالبان نے اُنھیں بتایا ہے کہ وہ عالمی برادری سے تعلقات قائم کرتے ہوئے سفارت خانے کھولنا چاہتے ہیں۔

قطری وزیرِ خارجہ کا اس معاملے پر کہنا تھا کہ اس کے لیے ’اُن کی جانب سے بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘

اس کے علاوہ دیگر افغان رہنماؤں سے ملاقاتوں کے بارے میں اُنھوں نے کہا کہ قطر نے افغانستان میں قومی مفاہمت پر زور دیا ہے۔

’افغانستان میں مستقبل کے استحکام کے لیے قومی مفاہمت واحد راستہ ہے۔‘

پوسٹ کیا گیا 13:35 13 ستمبر 202113:35 13 ستمبر 2021
’شاید میں اپنے والد کی طرح اپنے بچوں کو یہ نہ کہہ سکوں کہ ہم پھر افغانستان جائیں گے‘
بی بی سی کی نامہ نگار حمیرا کنول نے ایک ایسے افغان شخص سے بات کی ہے جنھوں نے طالبان کے دونوں دور دیکھے اور دو بار اپنا گھر چھوڑ کر دوسرے ملک میں پناہ لی۔

مزید پڑھیے
پوسٹ کیا گیا 11:07 13 ستمبر 202111:07 13 ستمبر 2021
کابُل: طالبان حکومت کے قیام کے بعد پی آئی اے کی ’پہلی کمرشل پرواز‘
افغانستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد پی آئی اے کی ’پہلی بین الاقوامی کمرشل پرواز‘ کابل پہنچ گئی ہے۔

سی ای او پی آئی اے مارشل ارشد ملک کے مطابق پرواز کا مقصد پاکستان اور افغانستان کے مابین خیر سگالی کو فروغ دینا اور انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر آپریشن کو مضبوط کرنا ہے۔

View more on FacebookView more on facebook
پوسٹ کیا گیا 10:38 13 ستمبر 202110:38 13 ستمبر 2021
طالبان کا امراللہ صالح کے گھر سے لاکھوں ڈالر اور سونا برآمد کرنے کا دعویٰ
طالبان سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ان کی سکیورٹی فورسز کو افغانستان کے سابق نائب صدر امراللہ صالح کے گھر سے 65 لاکھ ڈالر اور سونے کی متعدد اینٹیں ملی ہیں۔

ان وائرل ویڈیوز میں طالبان جنگجوؤں کو مختلف سفری بیگوں سے نقدی کے بنڈل اور سونے کی اینٹیں گنتے اور واپس رکھتے دیکھا جا سکتا ہے۔

طالبان کے اس دعوے پر امراللہ صالح کی جانب سے اب تک کوئی ردِعمل نہیں دیا گیا۔

بی بی سی آزادانہ طور پر طالبان کے اس دعوے کی تصدیق نہیں کر سکا۔

View more on TwitterView more on twitter
پوسٹ کیا گیا 9:59 13 ستمبر 20219:59 13 ستمبر 2021
افغانستان کا مستقبل: کیا چین طالبان حکومت کو عالمی تنہائی سے بچا پائے گا؟
جان سمپسن

مدیر عالمی امور، بی بی سی

اگر بیجنگ فیصلہ کرتا ہے کہ اسے افغانستان سے کافی معاشی اور سیاسی فائدہ حاصل ہو سکتا ہے تو وہ طالبان کو ماضی جیسے حالات میں جانے سے روک سکتا ہے۔ اگر نہیں تو پھر طالبان تنہا رہ جائیں گے۔

مزید پڑھیے
پوسٹ کیا گیا 9:29 13 ستمبر 20219:29 13 ستمبر 2021
طالبان کی خواتین کے متعلق پالیسیاں: تین افغان خواتین برطانوی پارلیمنٹ کے سامنے بھوک ہڑتال پر
طالبان کی خواتین کے حوالے سے پالیسیوں کے خلاف تین افغان خواتین چار روز سے برطانوی پارلیمنٹ کے سامنے بھوک ہڑتال پر ہیں۔

ان تین افغان خواتین کا کہنا ہے کہ وہ طالبان کے دور میں متاثرہ خواتین کے لیے ’آواز اٹھانا‘ چاہتی ہیں۔

Address

Karachi

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when BBC Urdu-club posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share


Other News & Media Websites in Karachi

Show All