12/05/2024
...ایک لومڑ کی دُم پہ پتھر آگرا،
دُم کٹ گئی۔
ایک دوسرے لومڑ نے جب اسے دیکھا تو پوچھا۔۔۔!
یہ تم نے اپنی دُم کیوں کاٹ لی؟
دُم کٹا لومڑ بولا اس سے بڑی خوشی وفرحت محسوس ہوتی ہے۔
ایسے لگتا ھے کہ جیسے ہواوں میں اڑ رہا ہوں۔
واہ۔۔۔!! کیا تفریح ہے۔۔۔۔!
بس گھیر گھار کر اس دوسرے لومڑ کو اس نے دُم کاٹنے ہی راضی کرہی لیا۔
اس نے جب یہ دُم کٹائی کی مہم سرکرلی تو بجائے سکون کے شدید قسم کا درد محسوس ہونے لگا۔۔۔!! پوچھا میاں۔۔۔!! جھوٹ کیوں بولا مجھ سے؟
پہلا کہنے لگا جو ہوا سو ہوا۔۔۔!
اب یہ درد کی داستان دوسرے لومڑوں کو سنائی تو انہوں نے دُمیں نہیں کٹوانی اور ہم دو دُم کٹوں کا مذاق بنتا رہےگا۔۔۔!
بات سمجھ لگی تو یہ دونوں دُم کٹے پوری برادری کو یہ خوش کن تجربہ کرنے کا کہتے رہے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ لومڑوں کی اکثریت دُم کٹی ہوگئی۔
اب حالت یہ ہوگئی یہ جہاں کوئی دُم والا لومڑ دکھلائی دیتا اسکا مذاق اُڑایا جاتا۔۔۔!
[جب بھی فساد عام ہوکر پھیل جاتا ہے عوام نیکوکاروں کو انکی نیکی پہ طعنے دینے لگ جاتے ہیں اور احمق لوگ انکا مذاق اڑاتے ہیں]
حضرت کعب رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ
فرمایا لوگوں پہ ایسا زمانہ آئے گا کہ مومن کو اسکے ایمان پہ ایسے ہی عار دلائی جائے گی جیسے کہ آجکل بدکار کو اسکی بدکاری پہ عار دلائی جاتی ہے۔
یہاں تک کہ آدمی کو طنزاً کہا جاےگا کہ
واہ بھئی۔۔۔!
تم تو بڑے ایمان دار فقیہ بندے ہو۔۔۔!!
بگڑا ہوا معاشرہ جب نیکوکاروں میں کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں تلاش کرپاتا تو انکی بہترین خوبی پہ ہی انکو عار دلانے لگ جاتا ہے۔۔!
لوط علیہ السلام کی قوم نے کیا نہیں کہا تھا نکال دو لوط علیہ السلام اور ان کے گھر والوں کو اپنی بستی سے۔۔۔!!
یہ تو بہت نیک بنے پھرتے ہیں۔
یہ ہمارے معاشرہ کی حقیقت ہے کہ جسمیں ہم جیتے ہیں
عربی پوسٹ سے ترجمہ