17/06/2024
گلگت نمائندہ خصوصی اگلا قدم شر عباس ۔تصاویر دیکھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے ۔۔صدیوں پرانے صنوبر اور دیودار کے درختوں کا بہیمانہ قتل ان کے لاشے بے گورو کفن پڑے تھے ۔۔
سب جانتے ہیں کہ بلندیوں پر بارشوں کے پانیوں کو روکنے والے جنگل صاحبان اقتدار کی ملی بھگت سے نابود کر دیے گئے یہ کروڑوں اربوں کے معاملے تھے اور پھر کہا گیا کہ یہ سیلاب تو عذاب الٰہی تھے۔ جب جنگل نہ رہے تو پانیوں کے دھاروں کو کون روکتا۔
لیکن کیا جنگلات کے عملے کی ڈیوٹی صرف موسم بہار میں ہوتی ہے جہاں جسم اور آنکھوں دونوں کو ٹھنڈک پہنچائ جاسکے ۔۔۔
ایوبیہ سے نتھیا گلی اور پھر ٹھنڈیانی سے ندی بنگلہ ،منور ویلی شوگران تک انگریز سرکار نے ایسا نظام بنا دیا تھا کہ کسی کی جرات نہ تھی کہ یہاں سے درخت تو دور ٹہنی بھی کاٹ سکے ۔۔۔لیکن پھر ہم آزاد ہوگئے ۔۔۔
مادر پدر آزاد ۔۔۔
اخلاقیات واحساسات سے آزاد ۔۔۔
آزادی سے جنگلات کاٹ رہے ہیں ۔۔۔کوئ پوچھ کے تو دیکھے ۔۔۔ہم غلام تھوڑی ہیں ۔۔۔لیکن ستر سالوں کے اس بے دریغ قتل عام کے بعد آج موسمیاتی تغیرات سے شدید ترین متاثرہ ملکوں میں اولین نمبر ہمارا ہے ۔۔۔ہمارے موسم بدل گئے ہیں ،بے وقت کی بارشیں ،بے وقت کی برفباری نے جہاں ہماری فصلوں کو نقصان پہنچایا ہے وہاں ہماری معیشت بھی تباہی کے دہانے پر ہے ۔۔۔ہمارے گلیشیر پگھل رہے ہیں ،گرمی کی لہر ہر سال تیز ہورہی ہے ۔۔۔اور ہمارے ارباب اقتدار کو احساس تک نہیں کہ ہمارے بچوں کے ساتھ کیا ہونیوالا ہے ۔۔۔
ہم قدرت کی عطا کردہ امانتوں کو ان کے حقداروں تک پہنچانے میں ناکام ہوچکے ہیں بلکہ ناکام کیا ہونا تھا ہم تو خائن ہیں ۔۔بدتدین منافق ۔۔۔
ناقابل فراموش وادی بر نگر کے جنگلات کو فراموش کرنیوالی گلگت بلتستان حکومتیں سب کی سب اس قتل عام اور قومی سانحہ کی مجرم ہیں ۔۔۔لیکن یہاں نہ کوئ فرد جرم ہے ،نہ کوئ مقدمہ ،نہ کمیشن ،نہ عدالت ۔۔۔کیونکہ حمام میں سب ننگے ہیں ۔۔۔
میری التجا ہے گلگت بلتستان کے عوام سے کہ آپ خود اپنے اس قومی اثاثہ کی حفاظت کریں ۔۔خون کا بدلہ خون اور جان کا بدلہ جان ہے ۔۔۔جب تک اس قتل عام میں شامل افراد کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جائے گا ۔۔۔جب تک قاتلوں کی لاشوں کو مقتولین کے ریزہ ریزہ بکھرتے اجساد کے سامنے تختہ دار پر نہیں لٹکایا جائے گا یہ کام رکے گا نہیں ۔۔۔اب صرف جرمانوں اور پابند سلاسل کردینے سے بات بہت بڑھ چکی ہے ۔۔۔
گلگت بلتستان کے غیور باسیو ۔۔۔حکومتیں اور ادارے سورہے ہیں ۔۔۔
وادی بر نگر کو ناقابل فراموش رکھنے کیلیے ۔۔
اسے فراموش کردینے والے کرداروں کو ۔۔۔
خواب خرگوش سے اٹھانا ۔۔۔
اب آپ کی ذمہ داری ہے ۔۔۔
اگر آپ یہ نہ کر پائے تو پھر شاید یہ آپ کے وجود کی آخری صدی ہو ۔۔۔
میں جس جگہ رہتا ہوں یہاں قریب ہی ٹیکسلا ہے جو ہزاروں سال پہلے ایک ہنستا بستا شہر تھا ۔۔ایک تعلیم یافتہ ترقی یافتہ شہر ۔۔۔لیکن شاید وہ بھی قدرت کی عطاؤں کی ناقدری کرنیوالے ہونگے ۔۔۔آج وہاں سرکپ ،سر سکھ ،بھمالا ،دھرماراجیکا نام کے شہروں کی صرف باقیات ہیں ۔۔جہاں ہم جیسے لوگ صرف تصویریں بنانے اور عبرت حاصل کرنے جاتے ہیں ۔۔
کل کو وادی بر کو فراموش کرنیوالے سب کردار ،مقامات سمیت قصہ پارینہ نہ بن جائیں ۔۔۔
گھن کے ساتھ گیہوں بھی پستا ہے یہ ایک اصول ہے ۔۔۔یہی قدرت کی چکی کا ضابطہ ہے ۔۔۔بلکہ خاموش رہنے والے فراموش کرنیوالوں سے پہلے انجام کو پہنچیں گے ۔۔۔
کیونکہ خاموشی ایک ناقابل تلافی جرم ہے ۔۔۔
ہم سب کو مل کر اس کے خلاف آواز بلند کرنا ہوگی ۔۔۔
تاکہ وادی بر ہمیشہ ناقابل فراموش رہے