Haroon ur Rashid

Haroon ur Rashid Truth and accuracy, Humanity, Accountability, independence
Fairness and impartiality,

08/10/2024
10/02/2023

آخر کیوں؟
رئوف کلاسرا

ترکوں کی محبت کا جواب دیں

آٹھ اکتوبر 2005 کا دن قیامت بن کر پاکستان کے لیے آیا۔ اس دن ترکی میں پاکستانی ڈپلومیٹ امجد مجید عباسی سفارت خانے میں وقت سے پہلے پہنچ گئے تھےکہ زلزلے کی خبریں آنا شروع ہو گئی تھیں۔انہوں نے ٹی وی لگایا تاکہ وہ پاکستان میں ہونے والی تباہی کا اندازہ لگائیں۔ ابھی صرف اسلام آباد کی حد تک خبریں آرہی تھیں کہ ٹاور گر گیا تھا۔شمالی اور دیگرعلاقوں میں ہونے والی تباہی کا اندازہ کسی کو نہ تھا۔
اس وقت ان کے انٹرکام پر بیل ہوئی۔ آپریٹر نے بتایا کہ ترکی کے وزیراعظم آفس سے فون تھا۔ کوئی ایمرجنسی ہے۔ دوسری طرف سے وزیراعظم طیب اردگان آفس کا ڈائریکٹر جنرل تھا۔
اس نے مجید امجد عباسی کو کہا وزیراعظم اردگان نے انہیں کہا ہے کہ میں آپ تک یہ پیغام پہنچائوں کہ انہیں پاکستان میں زلزلے کا ابھی ابھی پتہ چلا ہے اور وہ افسردہ ہیں۔ وہ چاہتے ہیں آپ ان کا پیغام پاکستان حکومت کوپہنچائیں کہ اس مشکل گھڑی میں ترک قوم آپ کے ساتھ کھڑی ہے۔
ڈی جی نے کہا وزیراعظم طیب اردگان کی ہدایت پر ایک کارگو جہاز امدادی اور دیگر ضروریات کا سامان سے لاد دیا گیا ہے۔ آپ اپنی حکومت سے رابطہ کر کے طیارے کی لینڈنگ کی اجازت کا بندوبست کرائیں۔ جونہی ہدایات موصول ہوگی طیارے اڑان بھریں گے۔
یہ میسج دے کر ڈی جی نے فون بند کردیا۔
جذبات سے لبریز ڈپلومیٹ ہاتھ میں فون پکڑے بیٹھا رہا کہ کیسے وزیراعظم نے زلزلے کے تھوڑی دیر بعد ہی ذاتی دلچسپی لے کر سب کچھ ارینج کر کے انہیں انفارم بھی کر دیا تھا۔ابھی تو خود پاکستانیوں کو اندازہ نہ تھا کہ زلزلے نے کیا تباہی مچائی تھی اور یہاں ایک مسلم برادر ملک نے امدادی سامان کا جہاز تیار کر کے اطلاع بھی دے دی گئی تھی۔
ترکوں کا اس گھڑی بھیجا گیا یہ پیغام ایک غیرمعمولی بات تھی جسے وہ ڈپلومیٹ پوری عمر نہ بھلا سکا۔
اس ڈپلومیٹ نے وزیراعظم طیب اردگان کا یہ پیغام اپنے سفیر کو دیا۔ انہوں نے یہ پیغام پاکستان کے فارن آفس کو بھجوا دیا۔
جونہی حکومت پاکستان نے ترکی کی یہ پیشکش قبول کی،ترکی سے امدادی سامان سے لدے جہاز پاکستان فلائی کرنا شروع ہوگئے۔ایک کے بعد دوسرا جہاز سامان سے بھرا پاکستان کی طرف اڑ رہا تھا۔ صرف جہاز نہیں بلکہ امدادی ٹیمیں بھی پاکستان بھیجی گئی جن میں ٹرکش جیوجیکل انجئینرز اور ڈاکٹرز کی ٹیمیں بھی شامل تھیں۔ ترک ڈاکٹروں نے فورا پاکستان پہنچ کر فیلڈ ہسپتال کھول کر زخمیوں کا علاج شروع کر دیا۔ انجینرز نے امدادی سرگرمیوں کا کام شروع کیا تاکہ ملبے میں پھنسے لوگوں کو بچانے کی کوشش کی جائے۔انہوں نے ہر جگہ ٹینٹ ولیج قائم کر دیے جہاں بے گھر لوگوں کو شفٹ کر دیا گیا۔
ادھر انقرہ میں ہزاروں ترکوں نے پاکستانی ایمبسی کا رخ کر لیا تاکہ وہ پاکستانیوں کے ساتھ اس مشکل کی گھڑی میں اپنے افسوس کا اظہار کر سکیں کہ وہاں ہزاروں لوگ اور بچے اور عورتیں جاں بحق ہوگئے تھے۔ ہزاروں معذور ہوگئے تھے اور بچے یتیم ہوگئے تھے۔
جوں جوں زلزلے سے ہونے والی تباہی کی تفصیلات سامنے آرہی تھیں ترکی میں غم اور دکھ کی کیفیت بڑھ رہی تھی۔
جو ترک لوگ سفارت خانے کا رخ کررہے تھے عام ترکوں کے علاوہ سکولوں کے بچے بھی شامل تھےجو افسوس کا اظہار کررہے تھے۔ وہ بتا رہے تھے انہیں پتہ تھا جب ترکی میں خلافت ختم ہوئی تھی تو ہندوستان کے مسلمانوں نے ان کے لیے بہت تکلیفیں دیکھی تھیں اور ترکوں کو بہت سپورٹ دی تھی۔ لہذا آج دکھ کی گھڑی میں وہ پاکستان کے مسلمانوں ساتھ کھڑے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے وہ خلافت تحریک میں دکھائی گئی محبت کا جواب دیں۔سکولوں کے بچے بہت سارے نظمیں لکھ کر لائے جنہیں پڑھ کر سفارت خانے کے افسران اور اہلکاروں کی آنکھیں تک بھیگ گئی۔
جتنے بھی ترک سفارت خانے آرہے تھے وہ خالی ہاتھ نہیں تھے۔کمبل،رضائیاں، گرم کپڑے، جیکٹس، کھانے پینے والی چیزیں، جن میں چاکلیٹ، ٹافیاں، جوس، بسکٹس، کافی اور دوائیوں کے پیکٹس اٹھائے ہوئے تھے۔اہم بات یہ تھی کہ یہ سب نئی برانڈ چیزیں تھیں۔ کوئی سکینڈ ہینڈ یا استمعال شدہ چیزیں نہ تھیں۔ بہت جلد ہی ترکی میں پاکستانی سفارت خانے کی پارکنگ اور گیراج کی جگہیں ان امدادی اشیاء سے بھر گئیں۔ پاکستانی سفارت خانے کے پاس ان امدادی اشیاء کو اتنے بڑے پیمانے پر پاکستان بھیجنے کے وسائل نہ تھے۔ اس پر ترکی کی ریڈکراس سے رابطہ کیا گیا۔ ٹرکش ریڈکراس خود بھی ٹرکوں سے بھرا سامان ایران کے راستے پاکستان بھیج رہی تھی۔ انہوں نے سفارت خانے سے سب سامان اٹھایا اور ایک ایک چیز ایران کے راستے پاکستان پہنچائی جو لوگوں میں یہاں تقسیم کی گئی۔ترکوں کا یہ جذبہ اور امداد صرف چند دنوں تک محدود نہ رہی بلکہ کئی ماہ تک وہ امدادی چیزیں بھیجتے رہے۔ شاید کوئی دن ایسا ہوگا جس دن ترکش عورتیں اور بچوں نے وزٹ نہ کیا ہو۔ روزانہ سفارت خانے کا عملہ ان خوبصورت لیکن غمزدہ چہروں کا اسستقبال کرتا اوران کے جذبات دیکھ کر جب وہ شام کو گھر لوٹتے تو ان کی اپنی آنکھیں سوجھی ہوتی تھیں۔ ہر خوبصورت ترک آنکھ میں آنسو ہوتے تھے کہ پاکستان میں ہزاروں لوگ مارے گیے اور تباہی پھر گئی تھی۔ ہر آنکھ میں درد جھلک رہا ہوتا تھا۔
ان سب ترک لوگوں میں دو چیزیں مشترک تھیں۔ ایک تو ہر آنکھ بھرائی ہوئی ہوتی تھی اور دوسرے ان کے اندر یہ احساس تھا کل شاید انہیں جتنا مصیبت کی اس گھڑی میں جو کچھ کرنا چاہئے وہ اتنا نہیں کرپارہے۔بہت سارے واقعات ایسے بھی ہوئے کہ کئی ترک خواتین نے اپنے زیوارت اتار کر وہاں ایمبیسی میں عطیات کے طور پر جمع کرائے جب کہ سینکڑوں ترک بچوں نے اپنے جیب خرچ بنکوں میں جا کر ریلیف فنڈ کے لیے جمع کرائے جن میں زیادہ تر سکے تھے۔
ایک واقعہ جس نے سب کو متاثر کیا وہ ایک بوڑھی ترک عورت تھی جو اپنے ساتھ ایک بڑا بیگ لائی تھی۔پاکستانی ایمبسی کے افسران سامنے وہ بڑا بیگ کھولا گیا تو ہر عمر کے بچوں کے لیےسوئیٹرز، اونی جرسیاں،سکارف سے بھرا ہوا تھا جو اس نے خود اپنے ہاتھوں سے دن رات لگا کر بنے تھے۔
ایک دن افسوس ناک خبر انقرہ پہنچی کہ ترکی کے وہ انجینرز جو پاکستان میں ریلیف ورک کے لیے موجود تھے ان میں سے تین ورکرز کے کشمیر میں خیمے کو بری طرح آگ لگ گئی تھی جس سے وہ جل گئے تھے اور ان کی زندگیاں خطرے میں تھیں۔ ترک حکومت نے فوری طور پر اپنی ائر ایمبولینس پاکستان بھیجی اور ان کو واپس لا کر ان کا علاج شروع کیا گیا۔جب وہ ائرایمبولنس ائرپورٹ پر اتری تو ڈپٹی ہیڈ مشن امجد مجید عباسی وہاں رات دو بجے موجود تھے تاکہ ترکوں کو احساس ہو کہ ان کی قربانی کی پاکستان کو کتنی قدر تھی۔ تاہم ان میں سے دو انجینرز کی جان نہ بچائی جا سکی۔
بعد میں ان ترک ہیروز کو حکومت پاکستان نے اعلی سول ایوارڈ سے نوازا۔
انقرہ میں پاکستان حکومت کی ہدایت پر ریلیف فنڈ اکاونٹ کھولا گیا جس میں چالیس لاکھ ڈالرز اکھٹے ہوئے جب کہ استنبول میں اس سے بھی ڈبل ڈالرز اکھٹے تھے۔ ٹرکش لڑکیوں اور عورتوں نے اپنے زیوارت تک اس فنڈ میں جمع کرائے اور کہا وہ اس لیے اپنے زیوارات جمع کرانے آئی ہیں کہ انہوں نے اپنے بزرگوں سے سنا اور پڑھا ہے کہ خلافت تحریک کے دنوں میں ہندوستان کی مسلمان عورتوں نے بھی ان کی مدد کے لیے اپنے زیوارات تک اتار کر ترکی بھیجے تھے۔ ہم اس عظیم gesture کو لوٹانے کے لیے آج اپنے زیوارات دینے آئی ہیں کہ عورت کے لیے زیوز سے زیادہ کوئی اہم چیز نہیں ہوتی۔
ترکوں کے گھروں اور بڑی عمارتوں کے باہر یک جہتی کے لیے پاکستان جھنڈے اور بینر ہر طرف دیکھے جاسکتے تھے۔ترکوں نے ایمبسی جا کر تعزیت والی کتاب پر اپنے اتنے جذبات کا اظہار کیا کہ کتابیں کم پڑ گئیں۔
اٹھارہ برس بعد آج وہی ترک مشکل اور مصیبت میں ہیں۔ ترکی غریب ملک نہیں۔ غیرت مند قوم ہے۔ ترک اپنا اور اپنے شہریوں کا خیال رکھ سکتا ہے۔ لیکن کیا ہم آج ان ترکوں کی اس لازوال محبت کو لوٹا سکتے ہیں جو انہوں نے 2005 کے زلزلے کے دنوں میں دکھائی تھی؟جیسے ترک 1922 میں ہندوستانی مسلمان عورتوں کے زیوارت کو نہیں بھولے تھے تو آج 2023 میں ہم پاکستانیوں کو بھی 2005 میں ان خوبصورت ترک خواتین کے جذبات کو نہیں بھولنا چاہئے جنہوں نے پاکستانی سفارت خانے میں کھڑے ہو کر اپنے زیوارات گلے سے اتار کر یہ کہتے ہوئے جمع کرائے تھے کہ ہم سب اپنے اسی نوے سالہ پرانے قرض لوٹانے آئی ہیں۔

01/02/2023

اگر کسی کو خون کی ضرورت ہو تو اس نمبروں پر رابطہ کرے آگے شیئر کرے اور ثواب دارین حاصل کرے . شکریہ
03224664551*A-
03066640094*A-
03026609743*B-
03012226886*A+
03354917428*A+
03224233416*A+
03224280633*O-
0324786111*A+
0324786111*O-
03334599345*A+
03324635437*A+
03234646964*AB+
03014060483*O-
03237408916*B+
03224173786*B+
03214881499*A+
03405044744*A+ 03315519033*O+
03404198871*A+
03367044081*b+
03376207548*b+
03055310811*B+
03153932935*B+
03360822050*B+
03422854012*B+
03097902717*0+
03137822547*B+
03328794032*B+ 03401332127*AB+
03055310811*B+
03054532257*O+
03051819120*B+
03043066366*B+
03067040273*A+
03164222062*B+
03224664551*A-
03066640094*A-
03026609743*B-
03012226886*A+
03354917428*A+
03224233416*A+
03224280633*O-
0324786111*A+
0324786111*O-
03334599345*A+
03324635437*A+
03234646964*AB+
03014060483*O-
03237408916*B+
03224173786*B+
03214881499*A+
03405044744*A+ 03315519033*O+
03404198871*A+
03367044081*b+
03376207548*b+
03055310811*B+
03153932935*B+
03360822050*B+
03422854012*B+
03097902717*0+
03137822547*B+
03328794032*B+ 03401332127*AB+
03055310811*B+
03054532257*O+
03051819120*B+
03043066366*B+
03067040273*A+
03110917441*B+
ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کے ایک مرتبہ شیئر کرنے سے کسی انسان کی جان بچ سکتی ہیں

12/01/2023

دنیا کے ساتھ ساتھ
جاوید چوہدری
شرم الشیخ مصر کا ساحلی اور سیاحتی شہر ہے، یہ شہر صحرائے سینا کی ٹپ پر ریڈ سی کے کنارے واقع ہے اور اپنے ریزارٹس، ہوٹلز، سپاز اور ریستورانوں کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے، مجھے چھ مرتبہ وہاں جانے کا اتفاق ہوا، دنیا بھر سے وہاں فلائٹس جاتی ہیں اور ہر سال وہاں لاکھوں سیاح جاتے ہیں۔

مصر نے اپنے اس مقام کو پاپولر بنانے کے لیے اسے ویزہ فری کر دیا ہے، آپ دنیا کے کسی بھی ملک سے تعلق رکھتے ہیں یا آپ کے پاس کوئی بھی پاسپورٹ ہے، آپ فلائٹ لیں اور شرم الشیخ پہنچ جائیں بس آپ کے پاس دو ہزار ڈالرز اور کریڈٹ کارڈ ہونا چاہیے۔

آپ سے ایئرپورٹ پر کرنسی کے بارے میں پوچھا جائے گا اور آپ کو ویزہ آن آرائیول دے دیا جائے گا تاہم یہ ویزہ صرف شرم الشیخ کے لیے ہوگا، آپ وہاں سے مصر کے کسی دوسرے شہر نہیں جا سکیں گے، مصر اور اسرائیل کے درمیان فرعون راعمیسس ٹو کے زمانے سے لڑائی چل رہی ہے، دوسری جنگ عظیم کے بعد بھی مصر اور اسرائیل میں چھ جنگیں ہو چکی ہیں۔

دونوں ملکوں کی سرحدیں ملتی ہیں، دونوں میں اختلافات بھی ہیں لیکن ساتھ ساتھ سیاحت بھی چل رہی ہے، اسرائیلی شہری ویزے کے بغیر صحرائے سینا میں آسکتے ہیں، یہ ویزے کے بغیر کوہ طور کی زیارت بھی کر سکتے ہیں۔

اردن بھی اسرائیل کی سرحد پر واقع ہے اور یہ بھی ایک سیاحتی ملک ہے، اس نے بھی گروپ ویزے آسان کر دیے ہیں، آپ اپنا گروپ بنائیں، کسی سیاحتی کمپنی سے رابطہ کریں اور اردن چلے جائیں بس آپ کے پاس کم از کم دو ہزار ڈالرز ہونے چاہییں، میں پچھلے ماہ کمبوڈیا گیا تھا، اس کا ویزہ بھی آن لائن تھا، آپ کا فنانشل بیک گراؤنڈ اگر اچھا ہے۔

کریڈٹ کارڈز ہیں اور آپ اگر ڈالرز میں پے منٹ کر سکتے ہیں تو آپ کمبوڈیا کا ویزہ بھی آن لائن لے سکتے ہیں اور آپ وہاں جا کر موجیں ماریں، اسرائیل دنیا کا مشکل ترین ملک ہے مگر یہ بھی ویزہ فری ہے، آپ اگر سیاحت کے لیے اسرائیل جانا چاہتے ہیں تو آپ بکنگ کرائیں اور چلے جائیں، آپ کو آن آرائیول ویزہ مل جائے گا تاہم یہ سہولت پاکستانیوں کے لیے نہیں ہے، دبئی، قطر، ترکی، سینٹرل ایشیا، ملائیشیا، انڈونیشیا، بھارت، سنگا پور اور چین حتیٰ کہ جاپان کے چند سیاحتی علاقوں کے لیے بھی آن آرائیول یا آن لائن ویزے کی سہولت موجود ہےیورپ کے ملک بھی اب تیزی سے اس ڈائریکشن پر جا رہے ہیں، یہ امکان بھی موجود ہے آج سے دس سال بعد دنیا کے زیادہ تر ملک سیاحوں کے لیے کھل جائیں گے، آپ اگر معاشی طور پر مضبوط ہیں اور اگر آپ کی ٹریول ہسٹری اچھی ہے تو آپ کسی بھی ملک میں ویزے کے بغیر لینڈ کر سکیں گے، سوال یہ ہے ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ جواب بہت آسان ہے۔

سیاحت دنیا کی سب سے بڑی انڈسٹری ہے اور ملک اس انڈسٹری کے ذریعے زیادہ سے زیادہ سرمایہ سمیٹنا چاہتے ہیں لہٰذا یہ زیادہ سے زیادہ سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہے ہیں، آپ چین کے صرف ایک سیاحتی سیکٹر سے اس انڈسٹری کا فیوچر دیکھ لیں، چین نے پچھلے ہفتے اپنا ملک ونٹر اسپورٹس اور سنو ٹورازم کے لیے کھول دیا۔

چینی حکومت کا خیال ہے اگلی دو سردیوں میں ان کے ٹھنڈے علاقوں میں 52کروڑ سیاح ونٹر اسپورٹس اور سنو ٹورازم کے لیے آئیں گے اور چین ان سے 105 بلین ڈالرز کمائے گا، جی ہاں 105 بلین ڈالرز، چین میں پچھلے سال سردیوں میں بھی 34 کروڑ 40 لاکھ سیاح آئے تھے یعنی ہماری آبادی سے دگنے لوگ، ہر سال صرف پیرس شہر دیکھنے کے لیے 10 کروڑ لوگ فرانس جاتے ہیں۔

ترکی میں 45 ملین سیاح آتے ہیں اور اسپین میں 80 ملین، کیوبا جیسا کمیونسٹ ملک بھی سیاحوں سے سالانہ تین بلین ڈالرز کماتا ہے، دبئی نے 2022 میں ٹورازم سے 29بلین ڈالرز کمائے جب کہ ہماری قومی آمدنی میں سیاحت کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے، ہمارے پاس اب پاکستانی بھی نہیں آتے کیوں کہ ہم نے کبھی سیاحت کو انڈسٹری ہی نہیں سمجھا چناں چہ ہم اس سیکٹر میں دنیا میں سب سے پیچھے ہیں۔

آپ حقیقت دیکھیے، ہم دو دو چار ملین ڈالرز کے لیے پوری دنیا سے بھیک مانگ رہے ہیں جب کہ کمبوڈیا جیسے ملک اتنی رقم روزانہ کما لیتے ہیں، ہم جنیوا میں سیلاب کے نام پر ساڑھے گیارہ بلین ڈالرز کے وعدے لے کر خوش ہو رہے ہیں۔

سعودی عرب نے بھی ہم سے 10 ارب ڈالرز سرمایہ کاری کا وعدہ کر دیا، ہم نے آئی ایم ایف سے معافی مانگ لی ہے اور یہ معاہدہ بھی اب بہت جلد ہو جائے گا، ہمیں چین سے بھی مدد مل جائے گی اور دوسرے دوست ملک بھی ہمیں کچھ نہ کچھ دے دیں گے لیکن یہ امداد جلے ہوئے زخم پر برف سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی، یہ رقم بھی ایک دو ماہ میں ختم ہو جائے گی اور ہم ایک بار پھر کشکول لے کر گلی گلی پھر رہے ہوں گے چناں چہ ہمیں بہرحال آمدنی کا کوئی مستقل بندوبست کرنا ہوگا اور ہمارے پاس اب صرف تین آپشن بچے ہیں۔

ہم اپنی سیاحتی انڈسٹری ڈویلپ کر لیں، اپنی آئی ٹی اور سوشل میڈیاانڈسٹری پر توجہ دیں اور راہ داری کے آپشن کھول دیں، ہم بھارت اور سینٹرل ایشیااور چین اور بحیرہ عرب کے درمیان ہیں، چین کو گوادر اور بھارت کو سینٹرل ایشیا اور سینٹرل ایشیا کو بھارت کی ضرورت ہے لہٰذا ہم اگر اپنی تجارتی سرحدیں کھول دیں۔بھارت کے ٹرک افغانستان، ایران اور ازبکستان جائیں اور وہاں سے را مٹیریل لے کر بھارت جانے لگیں، ہم اگر اسی طرح سی پیک مکمل کرلیتے ہیں اور چین اور عرب دنیا ہمارے ذریعے ایک دوسرے سے تجارت کرتی ہے تو اس میں ہمارا کیا نقصان ہے؟ افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی نے عمران خان اور جنرل باجوہ سے کہا تھا، آپ ایک ایک ارب ڈالر کے لیے رو رہے ہیں۔

آپ آج بھارت کو افغانستان تک راستہ دے دیں، آپ 50 بلین ڈالرز سالانہ کما لیا کریں گے، یہ مشورہ ٹھیک تھا مگر شاید ہم ابھی مزید جوتے کھانا چاہتے ہیں، میری درخواست ہے آپ بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات بھی بحال کر دیں اور راہ داری بھی دے دیں، اس سے روزگار بھی ملے گا اور ہمارے معاشی وسائل بھی بہتر ہو جائیں گے۔

ہمیں اسی طرح آئی ٹی پر بھی توجہ دینی چاہیے، ہمارے ملک میں سوشل میڈیا کی ایک بھی یونیورسٹی نہیں، ہم ٹک ٹاک، فیس بک، انسٹا گرام، ٹوئٹر اور یوٹیوب کے لیے انسٹی ٹیوٹ کیوں نہیں بناتے؟ حکومت پرائیویٹ سیکٹر کوپروموٹ کرے، ملک میں تعلیمی ادارے بنیں اور ہم آئی ٹی ایکسپورٹ سے ٹھیک ٹھاک سرمایہ کما لیں گے۔

ہم نے آج تک گوگل کو پاکستان نہیں آنے دیا، فیس بک مونیٹائزیشن کا معاہدہ بھی بلاول بھٹو نے اب 9دسمبر 2022 کو کیا، آپ اس سے ہمارا فوکس دیکھ لیں اور ہماری تیسری لائف لائن سیاحت ہے، ہم عالمی سطح پر پاکستان کی تین چیزوں کو مارکیٹ کر سکتے ہیں، مذہبی ٹورازم، پہاڑ اور صحرا، پاکستان میں سکھوں، ہندوؤں اور بودھوں کی مقدس ترین عبادت گاہیں ہیں۔

لاکھوں زائرین ہر سال پاکستان آنا چاہتے ہیں مگر انھیں ویزہ نہیں ملتا، ہم بھارت میں پیدا ہونے والوں کو امریکی اور یورپی پاسپورٹ پر بھی ویزہ نہیں دیتے، ہم اگر زائرین کے لیے ویزہ فری کنٹری بن جائیں، دنیا بھر سے سکھ، ہندو اور بودھ آئیں، ایئرپورٹ سے دو ہزار ڈالرز دے کر پاکستانی روپے حاصل کریں۔

امیگریشن آفیسر کو رسید دکھائیں اور آن آرائیول ویزہ لے لیں، یہ سہولت زمینی سفر کے دوران بھی حاصل ہو تو ہم دو چار بلین ڈالرز آسانی سے کما سکتے ہیں، اسی طرح 1947 میں 30 لاکھ خاندان پاکستان سے بھارت گئے تھے، ہمارے ملک میں آج بھی ان کی جائیدادیں موجود ہیں، حکومت ان خاندانوں کو یہ جائیدادیں خریدنے کی اجازت دے دے بس دو شرائط ہوں۔

یہ لوگ یہ جائیدادیں امریکی ڈالرز میں خریدیں گے اور خریداری کے بعد انھیں فیملی میوزیم میں تبدیل کریں گے یا ریستوران اور ہوٹل بنا ئیں گے، آپ جائیدادیں خریدنے والوں کو آمدورفت کا کارڈ جاری کر دیں تاکہ یہ آتے اور جاتے رہیں، ہمیں اس سے بھی کروڑوں ڈالرز مل سکتے ہیں، حکومت اسی طرح ہنزہ اور گوادر کو انٹرنیشنل سٹی ڈکلیئر کر دے۔یہ لبرل سٹی ہوں اور ویزہ فری ہوں اور ان کی ثقافت دبئی، استنبول، ملائیشیا، انڈونیشیا کے سیاحتی جزیرے بالی اور سعودی عرب کے نیوم شہر جیسی ہو تاہم خریدوفروخت کا میڈیم ڈالرز ہونے چاہییں تاکہ ملک کے فارن ایکسچینج ریزروز بہتر ہو سکیں، حکومت اسی طرح کسی صحرائی علاقے کو بھی سیاحتی مقام ڈکلیئر کر دے اور انٹرنیشنل کمپنیوں کو وہاں ریزارٹس کی اجازت دے دے، اس شہر کے قوانین بھی عالمی ہوں۔

ہمارے پاس 8 ہزار میٹر سے بلندپانچ اور 7 ہزار میٹر سے بلند36 چوٹیاں ہیں، ہم ان علاقوں کو بھی ماؤنٹ ایورسٹ، مونٹ بلیک اور ایلپس کی طرح سیاحتی بنا سکتے ہیں، آپ یہ پہاڑی علاقے بھی بین الاقوامی کمپنیوں کو کرائے پر دے دیں اور ان کی کرنسی بھی ڈالر بنا دیں، ہمیں رقم آنا شروع ہو جائے گی۔

ہم آخر دنیا سے اتنے دور کیوں ہیں؟ ہم کیوں بھول جاتے ہیں، ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جس میں سعودی عرب دنیا کا ایک بڑا سیاحتی شہر بنا رہا ہے اور اس شہر میں"سب کچھ" جائز ہوگا، ہم ایک ایسی دنیا میں بھی رہ رہے ہیں جس میں دبئی نے پچھلے ہفتے شراب پر ٹیکس بھی واپس لے لیا، جس میں ترکی میں شراب، شباب، کباب اور جواء خانے قانونی ہیں، جس میں ملائیشیا اور انڈونیشیا جیسے بڑے اسلامی ملکوں میں کیسینوز، بارز، ڈسکوز اور مساج پارلرز ہیں۔

جس میں اس ازبکستان میں آج بھی ہر چیز عام ہے جس میں احادیث کی دو بڑی کتابیں لکھی گئی تھیں اور جس میں ویٹی کن سٹی کے سائے میں شراب خانے اور دیوار گریہ سے چند میٹر کے فاصلے پر کلب ہیں جب کہ ہم ہنگلاج، راج کٹاس، ٹیکسلا اور موہن جودڑو کے زائرین کو ویزہ تک دینے کے لیے تیار نہیں چناں چہ پھر ہمارے پاس ڈالرز کہاں سے آئیں گے؟

میری درخواست ہے آپ اگر اس دنیا میں رہنا چاہتے ہیں تو پھر دنیا کے ساتھ ساتھ چلیں ورنہ کسی دوسرے سیارے پر تشریف لے جائیں، یہ زمین پھر آپ کے قابل نہیں

انتہائی غریب پرور ،سماجی اور کاروباری شخصیت حبیب الرحمن اور بعثت عزیز جن کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے اور تحصیل نصیرا باد میں...
11/01/2023

انتہائی غریب پرور ،سماجی اور کاروباری شخصیت حبیب الرحمن اور بعثت عزیز جن کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے اور تحصیل نصیرا باد میں دن رات اپنی پارٹی کی مضبوطی کہ لیے کوشاں رہتے ہیں ،دونوں کی اگلاقدم کہ آفس میں آمد ۔اور تفصیلی بات چیت ۔
بعثت عزیز کا کہنا ہے کہ پٹہکہ میں انتطامیہ کہ اعلی افسران کی طر ف سے کھلی کچہری کہ انعقاد کہ لیے کوشاں ہیں اور اس سلسلے میں اگلاقدم انتطامیہ کا تعاون درکار ہے ۔
یقیناً بہت خوشی ہوتی ہے ایسے لوگوں کو مل کر جو علاقے کہ مسائل کہ لیے ہر وقت مصروف عمل رہتے ہیں ۔
چوہدری حبیب الرحمان صاحب کی بھی ایک بہت بڑی کوالٹی ہے ا نکا کہنا ہے کہ وہ کوئی بھی نئی اوٹ لٹ بناتے ہیں تو انکی نیت پیسہ کما نا نہیں بلکہ لوگوں کہ لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے ہوتے ہیں اس طرح کاروبار بھی چل پڑتا ہے ۔

11/01/2023
11/01/2023

اپنی اولاد کو مالدار بنانا کمال نہیں❤
اپنی اولاد کو باکردار اور دین دار بنانا کمال ہے"💯

Address

NPF0-9 Block A Main Double Road
Islamabad
45710

Telephone

+923350059766

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Haroon ur Rashid posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Haroon ur Rashid:

Videos

Share

Category