Ansar Abbasi

Ansar Abbasi Official page of Ansar Abbasi, Editor Investigation, The News.
(11)

18/11/2024

میں نے جو کالم روکا!

انصار عباسی

آج کا اخبار ادارتی صفحہ 18 نومبر ، 2024

یہ کالم میں نے جنگ کے گزشتہ سوموار کے شمارے کیلئے ایک دن قبل لکھ کر جنگ کے ادارتی ڈسک کو بھیج دیا تھا لیکن اُسی دن جب مجھے کسی نے ایک یوٹیوبر کا یہ دعویٰ بھیجا کہ مریم نواز صاحبہ کو گلے کا کینسر ہے جس کے علاج کیلئے وہ جنیوا گئی ہیں تو میں نے اس کالم کو شائع ہونے سے روک دیا۔ اب چونکہ مریم صاحبہ نے اس خبر کی تردید کر دی اور شکر ہے کہ وہ کسی موذی بیماری کا شکار نہیں تو میرا کالم جسے میں نے شائع ہونے سے روک دیا تھا اپنے قارئین کیلئے حاضر ہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز صاحبہ اپنے صوبے کی ترقی اور اپنے اور اپنے والد میاں نواز شریف اور چچا میاں شہباز شریف کی حکومتوں کے دوران ترقیاتی کاموں کا اکثر ذ کرکرتی رہتی ہیں اور اس پر فخر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ کسی دوسری سیاسی جماعت نے اتنے کام نہیں کیے جتنے ن لیگ نے اپنے مختلف ادوار میں کیے۔ وہ تعلیم اور صحت کے شعبوں کے متعلق ن لیگ کی سابقہ حکومتوں اور اپنی موجودہ حکومت کے حوالے سے بھی بہت بلند بانگ دعوے کرتی رہتی ہیں۔ آج کل مریم صاحبہ جنیوا گئی ہوئی ہیں اور وہاں سے وہ لندن کا سفر کر کے پھر پاکستان واپس لوٹیں گی۔ میاںنواز شریف بھی آجکل لندن، امریکا اور یورپ کے سفر پر ہیں۔ مریم نواز کا جنیوا جانے کا مقصد اپنے گلے کا علاج کرانا ہے۔ میاں نواز شریف کے بیرون ملک جانے کا بنیادی مقصد بھی اپنا علاج اور چیک اپ ہے۔ میاں شہباز شریف بھی اپنی کمر کے چیک اپ کیلئے ضرورت پڑنے پر لندن ہی جاتے ہیں۔ سب کی صحت کیلئے دعا کرنی چاہیے اور ہر ایک کو بہتر سے بہتر علاج کرانے کا حق بھی حاصل ہے۔ لیکن یہاں ایک سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ جس ن لیگ نے پاکستان اور پنجاب میں کئی بار حکومت کی، بڑے بڑے پروجیکٹس مکمل کرنے کے دعوے کیے، علاج معالجے اور صحت کے شعبے میں کھربوں خرچ بھی کیے اور یہ بھی کہا کہ بہترین ہسپتال بنائے، اُس سیاسی جماعت کے اعلیٰ ترین رہنما اپنے علاج اور چیک اپ کیلئے بیرون ملک کیوں جاتے ہیں؟ کیا اُن کواپنے علاج کیلئے پاکستان کے کسی ہسپتال اور یہاں کے ڈاکٹروں پر اعتبار نہیں؟ بار بار حکومتوں میں رہنے کے باوجود ایسے ہسپتال کیوں نہیں بنائے گئے کہ پاکستان کی اشرافیہ اور شریف فیملی کے افراد اپنے ملک میں اپنا علاج کروائیں۔ یا تو یہ دعوے کرنا چھوڑ دیں کہ آپ نے پاکستان یا پنجاب میں صحت کے شعبہ میں بہت اچھا کام کیا۔ میرا تعلق مری سے ہے جو پنجاب میں آتا ہے ۔ مری میں علاج معالجہ کی حالت اتنی خراب ہے کہ جس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ بڑی تعداد میں مریض مری سے راولپنڈی اسلام آباد علاج کیلئے آتے آتے ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ یہاں تو راولپنڈی اور اسلام آباد کے اکثر سرکاری ہسپتالوںکا حال دیکھ کر بھی افسوس ہوتا ہے۔ ہمارے سیاستدان، ہمارے حکمران اگر واقعی پاکستان میں صحت کے شعبہ کو ترقی دینا چاہتے ہیں تو پہلے فیصلہ کر لیں کہ وہ اپنا اور اپنے خاندان کے افراد کا علاج پاکستان میں ہی کروائیں گے۔ اگر بار بار اقتدار میں آنے کے باوجود کوئی ایک بھی ایسا ہسپتال نہیں بنایا جا سکا جہاں حکمران اپنا اور اپنے خاندان کے افراد کا علاج کروا سکیں تو پھر اتنے بڑے بڑے دعوئوں کی کوئی حیثیت نہیں، پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ بار بار حکومتوں میں آنے کے باوجود کوئی کام نہیں کیا، صرف دعوے اور نعرے ہی عوام کو دیے۔ سال 2015 میں نواز شریف ،جب وہ وزیراعظم تھے،نے اعلان کیا کہ وہ مری میں ایک بہترین ہسپتال بنائیں گے۔ اس سلسلے میں سرکاری فائلیں بھی چل پڑیں لیکن معاملہ فائلوں سے آگے نہ بڑھ سکا اور آج بھی تقریباً دس سال گزرنے کے باوجود معاملات وعدوں اور اعلانوں سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ اب پھر اعلانات کیے جا رہے ہیں لیکن جو پہلے کہا گیا تھا اور جو وعدے پہلے کیے گئے تھے اُن کے برعکس ایک ایسے پرانے ہسپتال پر توجہ مرکوز ہے جو مری کے رہنے والوں کی اکثریت کی پہنچ سے ہی دور ہے۔ مری جس کو شریف خاندان بہت پسند کرتا ہے اُس کی اگر یہ حالت ہے تو پھر باقی پنجاب کے علاقوں کا کیا حال ہو گا، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ بلاول بھٹو اور پیپلز پارٹی بھی پاکستان کے بہترین ہسپتال کراچی اور سندھ میں بنانے کے دعوے کرتے ہیں لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ آصف علی زرداری صاحب اپنے علاج معالجہ اور چیک اپ کیلئے اکثر دبئی ہی جاتے ہیں۔

04/11/2024

مری ہسپتال کے سلسلے میں میری وزیراعظم شہباز شریف، چیف سیکریٹری پنجاب اور مریم اورنگزیب صاحبہ سے بات ہوئی۔ ہسپتال ایسی جگہ بنایا جائے کہ مری کی بڑی آبادی اُس سے فائدہ اُٹھا سکے۔ ایسا نہ ہو کہ عوام کا پیسہ بھی لگ جائے اور عوام کی اکثریت کو فائدہ بھی نہ پہنچے۔

21/10/2024

میرا استعفٰی!!!

انصار عباسی

آج کا اخبار ادارتی صفحہ 21 اکتوبر ، 2024

حال ہی میں مجھے کسی نے بتایا کہ بین الاقوامی شہرت کے حامل مبلغِ اسلام محترم ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اپنے موجودہ دورہ پاکستان کے دوران یہ بات کی کہ یوٹیوب چینل کی کمائی حرام ہے اور اُس کی وجہ یوٹیوب وڈیوز پر چلنے والے اشتہارات ہیں جو عموماً اسلامی تعلیمات کے خلاف ہوتے ہیں۔ مجھے اس پر پریشانی لاحق ہوئی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ میرا بھی ایک یوٹیوب چینل ہے جس سے مجھے پیسہ بھی ملتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ یوٹیوب چینل پر چلنے والے اشتہارات پر یوٹیوب چینل کے مالک کا کوئی کنٹرول نہیں ہوتا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چاہے یوٹیوب چینل پر آپ کتنی ہی اچھی بات کیوں نہ کریں، اگر آپ کا یوٹیوب چینل مونیٹائزڈ (یعنی یوٹیوب ویوز کی بنیاد پر آپ کو پیسے دیتا ہے) ہے تو اُس پر یوٹیوب مختلف علاقوں اور یوٹیوب چینل دیکھنے والے کے رجحان کے مطابق اشتہارات چلاتا ہے۔ڈاکٹر صاحب کی بات سننے کے بعد میں نے پہلے تو یہ فیصلہ کیا کہ جب تک اس معاملہ یعنی یوٹیوب چینل کی کمائی حلال یا حرام ہونے پر میں کسی نتیجہ پر نہیں پہنچتا میں مزید وی لاگ نہیں کروں گا۔ میں نے فوری طور پر پاکستان کے چند ایک جید علمائے کرام سے رابطہ کیا اور اُن کو ڈاکٹر ذاکر نائیک کے بیان کے حوالے سے اپنی تشویش سے آگاہ کیا اور اُن سے درخواست کی کہ میری رہنمائی فرمائیں۔ مجھے بتایا گیا کہ اس معاملہ پر پہلے ہی چند ایک فتوے موجود ہیں۔ ان فتووں میں اگر ایک طرف یہ کہا گیا کہ چونکہ اشتہارات پر یوٹیوب چینل کے مالک کا کنٹرول نہیں ہوتا تو اس لیے غیر اسلامی اشتہارات چلنے کی وجہ سے کمائی حرام ہو گی۔ تودوسرے فتوے میں یہ بات کی گئی کہ کچھ شرائط کو پورا کرنے کے بعد یوٹیوب چینل (اگر وہ چینل خود کوئی غیر اسلامی مواد شیئر نہیں کر رہا) کی کمائی جائز ہو گی اور اس صورت میں بھی یہ کہا گیا کہ اپنی کمائی کا دس بیس فیصد صدقہ کر دیا کریں تاکہ غیراسلامی نوعیت کے اشتہارات کے حوالے سے آپ کا مال صاف ہو جائے۔ مجھے جو بات سمجھ آئی وہ یہ ہے کہ علماء کرام کی نظر میں یوٹیوب چینل کی کمائی یا تو حرام ہے یا اگر کسی کی نظر میں جائز ہے تو کچھ شرائط کے ساتھ اور حاصل کی گئی کمائی کے مال کے کچھ حصہ کو صدقہ کرنے کی صورت میں یعنی دوسری صورت میں بھی ایسی کمائی گویا مشکوک ہی ہے۔ یہ صورتحال جان کر میں نے یہ فیصلہ کیا کہ اب میں اپنے یوٹیوب چینل پر وی لاگز کو مونیٹائز نہیں کروں گا یعنی یوٹیوب سے اپنی وڈیوز کے پیسے نہیں لوں گا اور اس سے یوٹیوب میرے وی لاگز پر اشتہارات بھی نہیں چلا سکتا۔ دو تین دن کے وقفہ کے بعد میں نے اپنے وی لاگز دوبارہ شروع کیے اوراپنے دیکھنے والوں سے یہ سارا مسئلہ (یوٹیوب چینل کی کمائی حرام ہے یا حلال؟) شیئر کیا اور یہ بھی بتایا کہ میری وڈیوز یعنی وی لاگ پر اب یوٹیوب کوئی اشتہار چلانے کا حق نہیں رکھتا۔ اس پر میرے چند ایک ویورز نے یہ سوال اُٹھایا کہ اب تو پھر آپ کو جیونیوزسے بھی استعفیٰ دے دینا چاہیے کیوں کہ وہاں بھی غیر اسلامی اشتہارات آتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ میرا جیو نیوز سے کوئی تعلق نہیں۔ میں تو دی نیوز اخبار میں ملازمت کرتا ہوں، جنگ اخبار میں میری خبروں کا ترجمہ اور کالم شائع ہوتے ہیں۔ میرا کسی ٹی وی چینل سے کوئی تعلق نہیں، میں تو پرنٹ کا صحافی ہوں اور اگر پھر بھی کسی کو اعتراض ہے تو میری طرف سے اس کالم کے ذریعے میرا جیو نیوز سے استعفیٰ حاضر ہے۔ اصل سوال جو پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر یوٹیوب چینل کی کمائی غیر اسلامی اشتہارات کی وجہ سے حرام یا مشکوک ہوتی ہے تو پھر اینکرز سمیت ٹی وی چینل پر کام کرنے والوں کی کمائی کے بارے میں کیا کہا جائے گا ؟ میں نے یہ سوال علماء کے سامنے بھی رکھا اور جو جواب مجھے ملا وہ یہ تھا کہ یوٹیوب چینل کے مالک آپ خود ہیں اس لیے اس کے اشتہارات کی کمائی کے جائز اور ناجائز ہونے کا ذمہ بھی آپ کے اپنے سر ہے۔ ٹی وی چینلز میں کام کرنے والے صحافی چینل کے مالک نہیں اس لیے وہاں چلنے والے اشتہارات کے حلال اور حرام ہونے کی ذمہ داری چینل کے مالک اور مینجمنٹ پر آتی ہے۔ اس سلسلے میں میں نے محترم مفتی تقی عثمانی کو ایک سوال لکھ کر بھیجا ہے جس کے جواب کا انتظار ہے اور جب یہ جواب ملا تو اُسے بھی اپنے پڑھنے والوں کے ساتھ ضرور شیئر کروں گا۔ بہرحال بحیثیت ایک مسلمان، ایک پاکستانی اور ایک صحافی میں تو پہلے ہی ٹی وی چینلز بشمول جیو پر چلنے والے بے ہودہ اشتہارات ، ڈراموں یا انٹرٹینمنٹ کے نام پر قابل اعتراض مواد کے خلاف آواز اُٹھاتا رہتا ہوں اور یہ بھی مطالبہ کرتا ہوں کہ پیمرا سمیت متعلقہ اتھارٹیز میڈیا کے ذریعے فحاشی اور عریانیت کو معاشرے میں پھیلنے سے روکیں۔یہ وہ ذمہ داری ہے جو ہر پاکستانی پر عائد ہوتی ہے تاکہ ہم اپنے میڈیا کو خرافات سے پاک کر سکیں۔

پارلیمنٹ کی حرمت کیلئے ایک ہونے والے ہمارے سیاستدان پاکستان کی سلامتی اور اس کو معاشی اور دوسری مشکلات سے نکالنے کیلئے ا...
16/09/2024

پارلیمنٹ کی حرمت کیلئے ایک ہونے والے ہمارے سیاستدان پاکستان کی سلامتی اور اس کو معاشی اور دوسری مشکلات سے نکالنے کیلئے ایک کیوں نہیں ہوتے؟۔

پڑھیے انصار عباسی کا کالم

گزشتہ دنوں نقاب پوش پارلیمنٹ بلڈنگ میں داخل ہوئے...

10/09/2024

گنڈاپور کا استعفی، معافی یا کھڑاک!

عمران خان کو فیصلہ کرنا پڑے گا!

07/09/2024

عمران خان کو فوج کے حوالے کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں!

مئی 9 اور جنرل فیض کیس میں شواہد موجود

انصار عباسی ایکسکلوسو

01/09/2024

اسٹبلشمنٹ، PTI، حکومت مزاکرات!

31/08/2024

ن لیگ اور ٹحریک انصاف مذاکرات!!

مجبوریاں کیا کیا؟

رانا اور اچکزئی کے درمیان رابطہ

30/08/2024

اسٹبلشمنٹ کے اندر کی بڑی لڑائی!!

کیا ہونے والا ہے؟

29/08/2024

مراد سعید, حماد اظہر گرفتاری؟

بڑی کامیابی۔ 3500 ارب کی زمین واگزار

بلوچستان- آپریشن یا مذاکرات

ایف سی کیمپ پر خودکش حملہ آور کالعدم بی ایل اے کا نام نہاد مسنگ پرسن نکلا
29/08/2024

ایف سی کیمپ پر خودکش حملہ آور کالعدم بی ایل اے کا نام نہاد مسنگ پرسن نکلا

دہشت گرد تنظیم بی ایل اے کی ملکی اداروں کو بدنام کرنے کی ایک اور سازش بےنقاب ہو گئی۔

28/08/2024
26/08/2024

موسی خیل دہشتگردی۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ خاموش کیوں؟

رضوان کپتان!!! محسن نقوی فارغ!

26/08/2024

سپریم کورٹ نے غلطی کی اصلاح کرکے اچھا کیا!

انصار عباسی

آخرکار سپریم کورٹ نے مبارک ثانی کیس کا فیصلہ کر دیا اور اس کیس کے متعلقہ اپنے سابقہ دو فیصلوں کے تمام متنازع پیراگراف حدف کرنے کا حکم نامہ جاری کر دیا۔دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تسلیم کیا کہ اُن سے غلطی ہوئی، اُنہوں نے کہا کہ غلطی کو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے، غلطی ہو تو اصلاح بھی ہونی چاہئے۔ اور یوں اپنے پہلے دو سابقہ فیصلوں کی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے وہ فیصلہ کیا جو پاکستان کے مسلمانوں کیلئے نہ صرف قابل قبول ہے بلکہ اس فیصلے نے پاکستان کو ایک ایسے شر اور فتنے سے بچالیا ہے جس سےمبارک ثانی کیس کے پچھلے فیصلوں سے شدید خطرات پیدا ہو گئے تھے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ پر وہاں موجودمذہبی رہنمائوں اور علماء کرام کی طرف سے اطمینان اور خوشی کا اظہار کیا گیا۔ فیصلہ آتے ہی سپریم کورٹ کے باہر مظاہرین واپس چلے گئے اور فیصلے کی خوشی میں مٹھائی تقسیم کی گئی۔ اس فیصلے کے بعد سوشل میڈیا کے ذریعے ایک مخصوص چھوٹے سے طبقے کی طرف سے چیف جسٹس کو کوسا جانے لگا اور یہ تاثر دیا گیا جیسے چیف جسٹس نے یہ فیصلہ مذہبی حلقوں کے دبائو پر دیا۔ مبارک ثانی کیس کے اس فیصلہ سے نالاں طبقے کا مسئلہ سب اچھی طرح سمجھتے ہیں، یہ وہ طبقہ ہے جو قادیانیت کے حوالے سے طے شدہ معاملات کو دوبارہ کھولنا چاہتا ہے۔ یہ کہنا اور تاثر دینا کہ جیسے مبارک ثانی کیس کے سابقہ دو فیصلوں سے صرف مذہبی حلقوں کو اعتراض تھا قطعی درست نہیں۔ مبارک ثانی کیس میں سپریم کورٹ کے پہلے دو متنازع فیصلوں کو نہ صرف تمام مکاتب فکر کے علماء کی طرف سے متفقہ طور پر رد کیا گیا بلکہ قومی اسمبلی میں موجود تمام سیاسی جماعتوں چاہے اُنکا تعلق حکومت سے ہو یا اپوزیشن سے سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ ان فیصلوں کو نہیں مانتے اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان فیصلوں کیخلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرکے اُنہیں ختم کروایا جائے۔ چاہے پیپلزپارٹی ہو، ن لیگ ، پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام، ایم کیو ایم یا کوئی اور سب اس معاملہ میں قومی اسمبلی میں ایک تھے۔اگر کسی کو کوئی شک ہو تو قومی اسمبلی میں اس معاملہ پر کی گئی تقریروں کو سن لے، جو فیصلہ قومی اسمبلی کی کمیٹی نے اتفاق رائے سے کیا وہ پڑھ لے ۔ پیپلز پارٹی کے عبدالقادر پٹیل کی تقریر کو ہی سن لیں تو سمجھ آ جائے گی کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں پیپلز پارٹی جیسی سیکولر سیاسی جماعت اور ٹی ایل پی کے درمیان بھی کوئی فرق نہیں۔ جو اس معاملہ کو صرف مذہبی حلقوں سے جوڑتے ہیں وہ وکلاء کی مختلف تنظیموں اور بار کونسلز کے مبارک ثانی کیس میں سپریم کورٹ کے سابقہ دو فیصلوں کے حوالے سے جاری بیانات بھی پڑھ لیں ۔ قادیانیت کے حوالے سے اگر ایک طرف علماء کرام کا اتفاق رائے ہمیشہ رہا تو آئین پاکستان میں بھی سیاستدانوں کی طرف سے پوری قوم کی نمائندگی کرتے ہوے اسی اتفاق رائےکا اظہارماضی میں بھی ہوا اور اب بھی ہوا۔ گویا مبارک ثانی کیس میں سپریم کورٹ نے جو پہلے دو فیصلے کیے وہ پاکستان کے تمام مسلمانوں کیلئے تکلیف کا بھی باعث تھے اور ناقابل قبول بھی تھے۔ اگر سپریم کورٹ اور چیف جسٹس نے اپنی غلطی تسلیم کی اور جو غلط فیصلہ ہوا اُسے درست کیا تو اس پر اعتراض نہیں بلکہ اس عمل کی تحسین ہونی چاہیے۔ سپریم کورٹ نے 6فروری 2024اور 24جولائی 2024کے سابق فیصلوں میں تصحیح کرتے ہوئے معترضہ پیراگراف حذف کر دیے ہیں، عدالت نے قراردیاہے کہ ان حذف شدہ پیراگرافوں کو مستقبل میں عدالتی نظیر کے طور پر کسی بھی عدالت میں پیش یا استعمال نہیں کیا جا سکے گا،جبکہ ٹرائل کورٹ ان پیراگراف سے متاثر ہوئے بغیر ملزم مبارک ثانی کیخلاف توہین مذہب کے مقدمہ کا فیصلہ قانون کے مطابق کرے۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

24/08/2024

حکومت کون سی اہم ترمیم کرنے جا رہی ہے؟

منصور علی شاہ کو کیا CJ بننے سے روکا جا سکتا ہے؟
پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا لیا گیا

22/08/2024

نیب کی بدمعاشیاں ختم- بڑا فیصلہ! بڑی کاروائی!

آرمی چیف سے اہم سوال!

21/08/2024

عادل راجہ کی پاکستان حوالگی!!!

Address

Islamabad

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Ansar Abbasi posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Ansar Abbasi:

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share