Sublimegate Urdu Stories

Sublimegate Urdu Stories Urdu Stories with Urdu font, quotes, Islamic Stories in Urdu, Moral Stories in Urdu
(2)

Welcome to Shajee Voice Urdu Stories - Quotes, Quotes Realm, motivational quotes, life quotes, Moral stories, Urdu moral stories, life changing stories, best quotes, love quotes, Urdu Islamic Stories, islamic Stories in Urdu, Moral Stories in Urdu.

قسمت کا انوکھا کھیل - سبق آموزکہانیاسٹامپ پیپر کو سلیقے سے تین تہوں میں موڑ کر جب میں ، کمرے میں داخل ہوئی تو بابا جان ک...
14/10/2024

قسمت کا انوکھا کھیل - سبق آموزکہانی

اسٹامپ پیپر کو سلیقے سے تین تہوں میں موڑ کر جب میں ، کمرے میں داخل ہوئی تو بابا جان کو اپنا منتظر پایا اور اس کے ساتھ مجھے امی جان کا جملہ بھی سنائی دے گیا۔ چلتی بھی تو آہستہ ہے۔ آنے میں وقت تو لگے گا۔ گو ساری دنیا کو معلوم تھا کہ میں بچپن میں پولیو کا شکار ہو گئی تھی جس جس کے باعث میری دائیں ٹانگ چھوٹی رہ گئی تھی ۔ میری چال میں ہلکی سی لنگڑاہٹ آگئی تھی اور مجھ سے بھاگنا تو دور کی بات تیز چلا بھی نہ جاتا تھا مگر امی جان ہر وقت ہر کسی کے سامنے اور ہر موقعے پر میری لنگڑاہٹ پر ایک آدھ جملہ کسے بغیر نہیں رہ پاتی تھیں۔ وہ شاید اور بھی کچھ کہتیں مگر مجھے دیکھ کر خاموش ہوئیں۔

بابا جان نے ہمیشہ کی طرح بہت تپاک سے میرا استقبال کیا اور میری آنکھیں بھیگ گئیں۔ بابا جان کا رویہ ہمیشہ مجھ سے ایسا ہی والہا نہ رہا مگر صرف رویه . وہ بھی کبھی مجھے، میری ذات یا میری انا کو تحفظ نہ دے سکے۔ جب بھی میں نے ان سے مدد چاہی وہ بڑی شدومد سے مجھے یقین دلاتے کہ وہ میرے مطالبے کے لیے امی جان کو ضرور راضی کرلیں گے اور میرے مطالبے تھے بھی کیا جو بچین میں تو کبھی کیے ہی نہیں کیونکہ اتنی عقل ہی نہ تھی مگر ایک عمر کے بعد چھوٹی چھوٹی خواہشات نے سر اٹھایا کہ اچھے رزلٹ کے باعث جس بڑے کالج میں داخلہ مل رہا ہے وہاں داخلہ لے لوں، کالج کا بلا وجہ ناغہ نہ کروں اور پڑھائی کے لیے دن بھر میں کچھ وقت اور اس دو منزلہ بڑے سے گھر میں میرا کمرا نہ سہی مگر پڑھائی کی جگہ مختص کر لوں جہاں کم از کم میری کتب تو سلیقے سے رہ سکیں۔

کچھ ایسے گھریلو کام جو میری توانائی و ہمت سے بڑھ کر تھے، وہ کسی اور کے ذمے ڈال دوں یا پھر اتناہی ہو کہ گھر کا بھی کوئی فرد یا ملازم باورچی خانے میں میری مدد کرے۔گھر کے ڈھیروں کاموں کے ساتھ ساتھ بڑی بھا بھی جو کہ شرعی پردہ کرتی ہیں اور بڑے بھیا کے اصرار پر ان کو گھر کی تقر یباً خالی اور کم استعمال کی جانے والی دوسری منزل میں رہائش دی گئی تھی تا کہ بڑی بھا بھی سکون واطمینان سے کمرے سے باہر بھی بے حجاب رہ سکیں ہمارے ملازم اور گھر کے تمام مرد جو بھابھی کے لیے غیر محرم تھے سب کو سختی سے ہدایات تھیں کہ دوسری منزل پر جانے سے پہلے سیڑھی کے دروازے کو کھٹکھٹا کر جائیں اور بھابی کے جواب کا انتظار کریں۔ ایسے میں چند ہی دنوں میں بھیا، بھابھی کو کھانا، چائے یا کوئی بھی سامان پہنچانے ، دھلے یا میلے کپڑوں کے لینے دینے کی ذمہ داری مجھ پر آپڑی۔ اس کے علاوہ بھی اکثر کئی کام کروانے کے لیے بھا بھی مجھے ہی آواز دیا کرتیں شاید وہ بھی گھر میں میری حیثیت سے واقف ہو چکی تھیں۔
ویسے تومجھے بھائی کے کام کرنا اچھا لگتا تھا میں اپنی بہنوں کے بھی تو کام کیا ہی کرتی تھی مگر مسئلہ یہ ہوتا کہ ایک سے دوبارہی سیڑھیاں چڑھ اتر کر میری جان پر بن آتی۔ میری دائیں ٹانگ میں بے تحاشا درد ہو جاتا شکایت کی صورت میں یہی کہہ دیا جاتا کہ یہ پیر کا درد کالج جاتے ہوئے کیوں نہیں ہوتا یا پھر کالج کی چھٹی کر کے کم کیا جا سکتا ہے۔ میں ڈر کر چپ کر جاتی اور ہر روز ہی مجھے دو سے تین بار اوپر نیچے کرنا ہی پڑتا۔ میں نے بابا جانی کو بہت بار کہا کہ کسی طرح امی جان سے کہہ کر، بھابھی کی خدمت مجھے معاف کروادیں مگر ہمیشہ ہی ایسا ہوا کہ بابا مجھے امید دلا کر خاموشی اختیار کر لیتے اور میں تھک ہار کر تکلیف سہتی رہتی۔ یہ بھی میری بے خبری تھی کہ میں بابا جان کے اس والہانہ رویے کو اپنے لیے محبت سمجھتی تھی اور اب جا کر حقیقت کا اندازہ کر سکتی تھی۔ خیر گزرگئے وہ دن بھی۔

مکمل اردو کہانی کا لنک پہلے کمنٹ میں

اک ناکام مرد کی کہانیسامعہ ! میں بہت شرمندہ ہوں۔ مجھے اپنے کئے پر سخت ندامت ہے۔ میں اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اس کا ...
14/10/2024

اک ناکام مرد کی کہانی

سامعہ ! میں بہت شرمندہ ہوں۔ مجھے اپنے کئے پر سخت ندامت ہے۔ میں اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اس کا ازالہ کرنا چاہتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ تم بھی میرے بغیر ادھوری ہو اور میں بھی تمہارے بنا ادھورا اور نامکمل ہوں ۔ تمہارے لئے بھی زندگی کا لمبا سفر تنہا کا ٹنا ممکن نہیں۔ مجھے ایک بار موقع دو، میں تمہارے پیر پکڑ کر تم سے معافی مانگنا چاہتا ہوں۔ میں تمہارے بنا نہیں رہ سکتا۔ سامعہ پلیز! مجھے معاف کر دو اور لوٹ آؤ میرے پاس ہمیشہ کے لئے ۔ میں تمہیں پلکوں پر بٹھا کر رکھوں گا، بہت پیار دوں گا۔ بس ایک بار میرے پاس لوٹ آؤ۔ میرے دل اور گھر کے دروازے تمہارے لئے کھلے ہوئے ہیں۔

اف…. سامعہ نے صبح صبح بہرام کا اتنا لمبا میسج دیکھا تو سر تھام لیا۔ یوں تو دو تین بار اس کی طرف سے بلینک میسجز ملے تھے، جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اس سے بات کرنا چاہتا ہے ،لیکن وہ نظر انداز کر رہی تھی۔ بھلا یہ کیسے ممکن تھا؟ بہرام نے خود اپنے منہ سے اسے تین طلاقیں دے کر، اس کی ساری محبت ، ریاضت کو بھاڑ میں جھونک کر رشتے کی پاکیزگی ، خلوص ، ہم آہنگی، ہمدردی، سامعہ کی خدمتوں کو اپنی مردانگی حیثیت کا ناحق و نا جائز استعمال کر کے اپنے پیروں تلے کچل ڈالا تھا اور آج ، بہ مشکل دو سال گزرنے کے بعد، وہ اپنے کئے پر ندامت کا اظہار کر رہا تھا، پچھتا رہا تھا۔

اس وقت سامعہ کی سسکیاں، تڑپ اور ردا کی معصومیت بھی اسے اس سفاک فیصلے سے روک نہ پائی تھی ۔ یہ بات آج بھی یقینی تھی کہ سامعہ کی زندگی میں بہرام سے پہلے کوئی تھا اور نہ اس سے تعلق ختم ہونے کے بعد کوئی آیا۔ اس کو تو بہرام سے عشق تھا۔ وہ سیدھی سادی اور معصوم سی لڑکی تھی ، جس نے متوسط گھرانے میں جنم لیا تھا۔ صوم وصلوٰۃ کی پابند ، شریف فیملی تھی۔ والد اسکول ماسٹر جبکہ والدہ گھر یلو عورت تھیں۔ سامعہ اور اشعر بس یہ دو بہن بھائی تھے ، جن کی پرورش دینی احکامات اور خاندانی شرافت و روایات کی کسوٹی پر ہوئی تھی، تب ہی اس نے عام لڑکیوں کی طرح مستقبل کے حوالے سے اونچے اونچے سپنے نہیں دیکھے تھے، خوب صورت ہونے کے باوجود کسی خیالی شہزادے کو اپنے خوابوں میں نہیں بسایا تھا۔ اس نے اپنا پیار، محبت، خلوص، اپنے ہونے والے شوہر کی امانت سمجھ کر سنبھال کر رکھا تھا اور اس امانت میں کبھی خیانت نہ کی ۔ یہی بات تھی کہ جب اس کے بی اے کرنے کے فوراً بعد اماں نے اشعر کے لئے لڑکی دیکھنی شروع کی تو ساتھ ہی اس کی شادی کا فیصلہ بھی کر لیا کیونکہ اس کے لئے بہرام کا معقول رشتہ آگیا تھا۔ شریف لڑکا تھا، اچھا کماتا تھا۔ سو جھٹ پٹ شادی ہو گئی ۔

سامعہ بہت خوش تھی۔ بہرام بہت سنجیدہ اور جاذب نظر لڑکا تھا۔ وہ دل میں بے شمار سپنے سجا کر اس کی زندگی میں آگئی۔ وہ بھی اس سے بہت پیار کرتا ، اس کا خیال کرتا اور عزت دیتا تھا۔ شروع کے دن کافی اچھے گزرے۔ بہرام اکثر اس کو میکے لے جاتا تھا۔ دونوں خوش گوار زندگی گزار رہے تھے۔ اس کے میکے کی پڑوس میں جو فیملی رہتی تھی، وہ بہت اچھے لوگ تھے ۔ ذاکر صاحب ، ان کی بیوی عطیہ بیگم اور ایک بیٹا سالک۔ ذاکر صاحب معقول جاب کرتے تھے اور مالی لحاظ سے مستحکم تھے لیکن اللہ پاک کی جانے کیا مصلحت تھی کہ ایک ہی بیٹا تھا ، جو تقریبا اشعر کی عمر کا تھا، مگر ذہنی لحاظ سے نارمل نہیں تھا۔ عموماً وہ کئی کئی دن نارمل رہتا ، ہر بات میں سمجھ داری کا مظاہرہ کرتا اور کبھی عجیب و غریب بچکانہ حرکتیں کرنے لگتا، جیسے ایب نارمل لوگ ہوتے ہیں۔ ذاکر صاحب نے اس کا بہت علاج کروایا لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا ۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ایسے مریض شادی کے بعد ٹھیک ہو جاتے ہیں، لیکن جانتے بوجھتے بھلا کون ،مکھی نگل سکتا ہے۔ مالک کبھی کبھار سامعہ کے گھر بھی آجاتا اور تمام گھر والوں سے بہت اچھی طرح باتیں کرتا، کیرم کھیلتا، لوڈو کھیلتا۔ دردانہ بیگم بالکل اشعر کی طرح اس کا خیال رکھتیں۔

شادی کے کچھ عرصے بعد ہی سامعہ نے محسوس کیا کہ بہرام کچھ شکی مزاج ہے۔ وہ کسی وقت کوئی ایسی بات کر جاتا اور سامعہ محتاط ہو جاتی تاکہ اس کو پھر شکایت نہ ہو۔ اس عرصے میں ان کی زندگی میں ردا آگئی۔

مکمل اردو کہانی کا لنک پہلے کمنٹ میں

ماں اور بیوی کا حقتم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا ؟ مدھم آواز میں بھی تڑپ واضح تھی۔ اس کے کمرے کی طرف آئی عابدہ بیگم چون...
14/10/2024

ماں اور بیوی کا حق

تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا ؟ مدھم آواز میں بھی تڑپ واضح تھی۔ اس کے کمرے کی طرف آئی عابدہ بیگم چونک کر رک گئیں۔میری پریشانی کا تو خیال تھا مگر میری تکلیف کا نہیں ! جو اب یہ سب سن کر ہو رہی ہے۔ اس نے نم لہجے میں کہا اور غور سے دوسری طرف کی بات سننے لگی ۔ دیکھ علی ! ابا کے جانے کے بعد میں امی کی کی طرف سے بہت فکر مند رہتی ہوں۔ انھوں نے ابا کی جدائی کا روگ دل کو لگا لیا اور نتیجہ تمہارے سامنے ہے۔ کہتے ہوئے وہ رو پڑی۔ ایک تو اس کے میکے والے جان نہیں چھوڑتے بھی کوئی مسئلہ تو بھی کوئی۔۔ ! کب سے چائے کا انتظار کر رہی ہوں مگر یہاں محترمہ کو فون پر بات کرنے سے ہی فرصت نہیں ہے ۔ عابدہ بیگم نے جیسے ہی اس کے منہ سے علی کا نام سنا تو تلملا گئیں کیونکہ عالیہ کے غریب بھائی سے وہ اچھی طرح واقف تھیں۔

عالیہ! کہاں ہو؟ کب سے آوازیں دے رہی ہوں۔ انھوں نے اونچی آواز میں پکارا تو اس نے گھبرا کر خدا حافظ کہتے ہوئے فون بند کیا اور اپنی آنکھیں صاف کرتی تیزی سے کمرے سے باہر نکل گئی۔ علی کا فون تھا۔ بتا رہا تھا کہ امی کی ای سی جی ٹھیک نہیں آئی۔ ڈاکٹر نے مزید ٹیسٹ بتائے ہیں کہ کہیں انہیں دل کا مسئلہ تو ! وہ پریشانی سے بتانے لگی۔ اس عمر میں ایسی تکلیفیں ہو ہی جاتی ہیں۔ سر میں درد ہو رہا ہے۔ جلدی سے چائے بنا دو۔ بے زاری سے کہتے ہوئے وہ لاؤنچ کی طرف بڑھ گئیں۔ عالیہ نے لب کاٹتے ہوئے انہیں وہاں سے جاتے دیکھا ۔ کیا میرا قصور یہ ہے کہ میں غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں۔ اس لیے بھی مجھے اور میرے گھر والوں کو عزت نہیں ملی۔ آج پھر وہ مایوس ہو کر منفی ہورہی تھی۔ چائے چولہے پر رکھ کر وہ ماں کے بارے میں سوچنے لگی ۔

دو سال پہلے باپ کی موت نے اسے بہت خوف زدہ کر دیا تھا۔ وہ ہر لمحہ ماں کی صحت و سلامتی کے لیے فکر مند رہتی ، دعا کرتی مگر آزمائش بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ اچانک علی کی نوکری ختم ہوگئی جس کی وجہ سے ان کے حالات بہت خراب ہو گئے۔ پہلے ہی وہ سفید پوشی کا بھرم رکھ کر جی رہے تھے مگر بڑھتی مہنگائی، بیوی اور دو بچوں کے ساتھ ، ماں کی بیماری کا خرچا اٹھانا آسان نہیں تھا۔ علی نے اس سے بھی مدد نہیں مانگی حالانکہ وہ بڑی بہن تھی اور کھاتے پیتے گھرانے میں بیاہی گئی جہاں وہ اکلوتی بہو تھی مگر سسرال میں سارا کنٹرول اس کی ساس اور شوہر حمزہ کے ہاتھ میں تھا ۔ وہ اپنے خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی جب نو سالہ موسی بھاگتا ہوا کچن میں داخل ہوا۔ اس نے چونک کر بیٹے کی طرف دیکھا۔ امی ! بہت گرمی لگ رہی ہے ۔ جلدی سے مینگو شیک بنادیں ۔ اس نے سرخ چہرے کے ساتھ کہا تو وہ سر ہلانے لگی۔ تم دادو کے پاس جا کر بیٹھو! میں چائے بنا کر لا رہی ہوں۔ اس نے مصروف انداز میں کہا تو وہ کچن سے باہر چلا گیا ۔ کچھ دیر کے بعد وہ عابدہ بیگم کی چائے اور موسیٰ کا مینگو شیک لے کر لاؤنج میں داخل ہوئی۔ عابدہ بیگم خوش گوار موڈ میں لاڈلے پوتے سے باتیں کر رہی تھیں۔ رات کے کھانے میں چاول ضرور بنا لینا۔ آج روٹی کھانے کا دل نہیں کر رہا۔ عالیہ نے گہری سانس لے کر ان کے نئے حکم کو سنا۔ اس کا ارادہ تھا کہ حمزہ کے آتے ہی کچھ دیر کے لیے ماں سے ملنے چلی جائے مگر عابدہ بیگم کی فرمائش پوری کیے بغیر وہ گھر سے باہر نہیں جا سکتی تھی۔ بے دلی سے کچن میں آکر چاول بنانے کی تیاری کرنے لگی ذہن میکے میں ہی اٹکا ہوا تھا۔ مغرب کے وقت تھکا ہارا حمزہ گھر میں داخل ہوا تو وہ سب بھول کر اس کی خدمت کرنے لگی۔

یہ گھر کا خرچا اور آپ کا جیب خرچ ۔ رات کو کھانے کے بعد حمزہ ، ماں کے ساتھ بیٹھ کر حساب کتاب کرتے ہوئے پیسے دے رہا تھا جب چا ئے بنا کر لائی عا لیہ ٹٹھک کر رک گئی۔ عابدہ بیگم نے اس کا ٹھٹکنا محسوس کر لیا ۔ اسی لیے جلدی سے پیسے بٹوے میں رکھتے ہوئے اسے گھورا۔ وہ سر جھٹک کر آگے بڑھی۔ حمزہ نے کچھ نوٹ موسیٰ کو بھی تھما دئے جو اس نے فورا اپنے منی باکس میں رکھ دیے ۔ اس کے منی باکس میں ہر مہینے ایسے کئی سرخ نوٹ جمع ہوتے تھے جنہیں وہ خرچ نہیں کرتا کیونکہ اس کی نوبت ہی نہیں آتی تھی ۔ حمزہ بغیر کہے اس کی ہر ضرورت اور منہ سے نکلی ہر خواہش پوری کر دیتا تھا۔ بابا ! آپ نے امی کو پاکٹ منی نہیں دی؟ موسیٰ نے غور سے دادو کے بٹوے کو دیکھا۔ حمزہ ہنس پڑا۔ تمہاری امی نے پیسوں کا کیا کرنا ہے۔ سارے پیسے گھر میں ہی تو رکھے ہوتے ہیں۔حمزہ نے لا پروائی سے کہا۔ عالیہ کچھ کہتے ہوئے رک گئی۔ تو اور کیا۔ کپڑوں سے لے کر ضرورت کی ہر چیز تو مل جاتی ہے۔ اچھا کھانا پینا ، پہننا اوڑھنا۔۔۔ الگ سے پیسے کیا دینے ؟ عابدہ بیگم نے منہ بنا کر کہا۔ دادو! آپ پیسوں کا کیا کرتی ہیں؟ آپ کو بھی تو سب کچھ مل جاتا ہے نا ! موسیٰ کی ذہانت سے چمکتی نگاہوں میں سوچ کا عکس تھا جیسے اسے اس دوہرے معیار کی سمجھ میں نہیں آئی کہ جو چیز دادو کا حق ہے، وہ اس کی ماں کے لیے کیسے بے کارتھی ؟ فضول کے سوال مت کیا کرو۔ مجھ پر کئی طرح کی ذمہ داریاں ہیں۔ تمہاری دونوں پھوپھیوں اور ان کے بچوں کو کچھ دینا دلانا بھی پڑتا ہے۔ کبھی کسی چیز کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ پیسے پاس ہونے چاہئیں ۔ عابدہ بیگم نے ڈپٹ کر کہا تو، وہ منہ بناتا وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔ دو سالہ ہا نیہ کے رونے کی آواز سن کر عالیہ بھی کمرے میں چلی گئی۔

سب جانتی ہوں ۔ اس کی ماں پٹی پڑھاتی ہے ورنہ بچے کو کیا سمجھ ؟ وہ بڑبڑا ئیں۔ حمزہ نے چونک کر دیکھا۔ اس کی تیوری چڑھ گئی۔ اس لیے جب کمرے میں آیا تو موڈ آف تھا۔ عالیہ سے بات کیے بغیر وہ ہانیہ سے کھیلنے لگا۔ وہ جو اسے اپنی ماں کی بیماری کے بارے میں بتانا چاہ رہی تھی ، اس کا سنجیدہ موڈ دیکھ کر بے بسی سے ہاتھ ملنے لگی۔ کیا بیٹے کو اپنی پٹی پڑھا کر بھی سکون نہیں ملا جو اتنی بے چین پھر رہی ہو؟ اسے کمرے میں یہاں سے وہاں چکر لگاتے دیکھ کر وہ طنزیہ لہجے میں مخاطب ہوا ۔ وہ چونک کر اسے دیکھنے لگی۔ میں نے موسیٰ کو کچھ نہیں سکھایا۔ وہ آج کا بچہ ہے جو بہت کچھ دیکھتا اور محسوس کرتا ہے۔ بہر حال میں پہلے ہی امی کی وجہ سے پریشان ہوں ۔ بے بسی سے کہتے ہوئے وہ سر تھام کر بیٹھ گئی ۔ وہ چونک کر وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ کیا ہوا؟ اس کے پوچھنے کی دیر تھی۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی اور ماں کی بیماری کے بارے میں بتانے لگی۔ تم نے مجھے شام میں کیوں نہیں بتایا ۔ ہم شام میں دیکھ آتے ۔ وہ فکر مندی سے گویا ہوا اور اسے تسلی دینے لگا۔ اگلے دن موسیٰ کو اسکول چھوڑ کر وہ اسے لے کرسسرال چلا گیا۔ عابدہ بیگم کو پتا چلا تو وہ جل بھن کر رہ گئیں ۔ میرے بیٹے کو پاگل بنایا ہوا ہے۔ جب تک وہ واپس نہیں آئی وہ لاؤنج کے چکر کاٹتی رہیں۔

پھر دو گھنٹے بعد وہ دوپہر کو بنانے کے لیے سبزی لے کر گھر واپس آگئی تھی۔ اتنی دیر لگا دی؟ دو پہر کا کھانا کب بنے گا ؟پتا نہیں کہ میں شوگر کی مریضہ ہوں۔ وقت پر کھانا کھاتی ہو ں وہ بلا وجہ ہی غصے میں بول رہی تھیں۔ عالیہ نے جواب نہیں دیا اور تیزی سےکچن کی طرف بڑھ گئی جبکہ حمزہ ہانیہ کو گود میں اٹھائے اندر داخل ہوا تو وہ فورا چپ ہوئیں ۔ آنٹی تو بہت کمزور ہوگئی ہیں۔ آپ بھی کسی دن ان کا حال پوچھ لیجے گا. اس نے ہانیہ کو ان کے پاس بٹھایا اور فکر مندی سے کہتا ہوا کام پر چلا گیا۔ اس کا اپنا ذاتی کاروبار تھا جو بہت اچھا چل رہا تھا۔ اس لیے گھر میں کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ بہت فکر ہو رہی ہے ساس کی ۔ اس کے جانے کے بعد وہ بڑ بڑاتی رہیں۔ عالیہ نے سب سن کر بھی ان سنا کر دیا ۔ وہ اسی بات پہ خوش تھی کہ ماں کو دیکھ آئی ہے۔ بیاہی بیٹیوں کے لیے والدین کو ایک نظر دیکھ لینا ، ان کے ساتھ تھوڑا وقت گزار لینا کتنی بڑی خوشی اور راحت ہے جس کا نعم البدل سسرال کی کوئی آسائش، کوئی سکھ نہیں ہوتا ہے۔ مصالہ بھونتے ہوئے اس نے نم آنکھوں سے سوچا۔ ماں کی بیماری اور میکے کے برے حالات نے اسے بہت زود رنج بنا دیا تھا ۔ وہ بے بس تھی ۔ ان کے لیے کچھ نہیں کر سکتی تھی سوائے دعا کے۔ اس لیے صدق دل سے دعا کرنےلگی۔

مکمل اردو کہانی کا لنک پہلے کمنٹ میں

بہروپیا - ایڈوانچر کہانیسریتا نے اپنی سفید کار کی رفتار ایک دم دھیمی کر لی جیسے کسی کو اپنی سمت آتے ہوئے دیکھا ہو۔ پھر ا...
13/10/2024

بہروپیا - ایڈوانچر کہانی

سریتا نے اپنی سفید کار کی رفتار ایک دم دھیمی کر لی جیسے کسی کو اپنی سمت آتے ہوئے دیکھا ہو۔ پھر اس نے سامنے پہاڑی کی جانب سے آتی ہوئی لڑکی کو دیکھ کر اپنا ہاتھ کھڑ کی سے باہر نکال کر فضا میں بڑی گرم جوشی سے ہلایا۔ لڑ کی بلا کی حسین تھی۔ اس کی قامت نے اس کی دل فریبی کو مزید اجاگر کر دیا تھا۔ یہ کون ہے….؟، شیکھر نے سوال کیا ..؟ وہ سریتا کے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا۔ وجنتی … میری دوست … سریتا نے بے دلی سے بتایا۔ شیکھر کا پوچھنا اسے قدرے ناگوار لگا تھا۔ یہ ہمارےقریب ہی رہتی ہے۔ گاڑی روک لو میری گڑیا ! وہ بولا۔ کس لیے ؟ سریتا نے سوالیہ نظروں سے اسے گھورا۔ اس لیے کہ میں تمہاری دوست سے ملنا چاہوں گا۔ وہ ہنس کر بولا ۔ کیا یہ بد ذوقی اور بداخلاقی نہیں ہو گی کہ تمہاری دوست سے نہ ملوں ؟

سریتا نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔ اسے شیکھر کی آنکھوں میں عجیب سی چمک محسوس ہوئی۔ سریتا کو کوئی تعجب نہیں ہوا اور نہ ہی یہ کوئی نئی بات تھی کیونکہ وہ اس کی فطرت سے بخوبی واقف تھی۔ وہ جانتی تھی کہ شیکھر خوبصورت اور پر کشش لڑکیوں کا دیوانہ ہے۔ وجنتی عام قسم کی لڑکی نہ تھی بلکہ نہایت حسین اور ہزاروں، لاکھوں میں ایک مثالی لڑکی نظر آتی تھی۔ شیکھر اس کے حسن کے سحر میں ایسا گرفتار ہوا کہ وہ لمحے بھر کے لیے دنیا ومافیہا سے بے نیاز ہو گیا۔ اس طرح کسی لڑکی کو دیکھنا بڑی عجیب اور معیوب سی بات تھی۔ جو کسی بھی طرح ایک ایسے مرد کو جو مہذب اور تعلیم یافتہ ہو، زیب نہیں دیتی تھی لیکن وہ کیا کرتی۔ دل مسوس کر رہ گئی۔ اس کے بس میں ہوتا تو شیکھر کے منہ پر ایک تھپڑ رسید کر دیتی یا پھر گاڑی کا رخ کسی اور سمت موڑ کر گزر جاتی۔ اس نے دل پر جبر کر کے وجنتی کے قریب پہنچ کر گاڑی روک لی۔ پھر سریتانے کن انکھیوں سے شیکھر کی طرف دیکھا۔ وہ مسکراتے ہوئے وجنتی کو گھور رہا تھا۔ اس کی دزدیدہ نگاہیں بڑی تیزی سے وجنتی کے شاداب وجود پر پھسل رہی تھیں جیسے کسی تراشیدہ مجسمے کا ناقدانہ جائزہ لے رہی ہوں۔

اس نے دل میں سوچا کہ وجنتی اس وقت دل میں شیکھر کے بارے میں کیا سوچ رہی ہو گی۔ پھر اسے خیال آیا کہ وجنتی کیا ہر حسین اور پر کشش عورت ایسی نگاہوں کی عادی ہو جاتی ہے۔ شیکھر کی اس حرکت سے سریتا خفت اور بے چینی محسوس کر رہی تھی۔ غصے اور نفرت سے اس کی رگوں میں خون کی گردش تیز ہو گئی تھی لیکن وہ مجبور تھی۔ شیکھر کو اس کی گستاخ نگاہوں سے روکنا اس کے بس کی بات نہیں تھی اور نہ ہی ایسے اپنے آپ پر کوئی اختیار تھا۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی شیکھر کی فرمائش بلکہ حکم پر اس کے قریب گاڑی روکنے پر مجبور تھی۔ اس وقت شیکھر کے ہاتھوں میں اس کی حیثیت ایک کھلونے سے زیادہ نہیں تھی۔ سریتا نے اپنا ماضی بھول جانا چاہا تھا لیکن ماضی بھلا دینا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ اس نے اپنا شہر چھوڑ دیا تھا جہاں اس نے اپنا بچپن اور جوانی کے بہترین دن گزارے تھے۔ لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ سب کچھ اسے فراموش کرنا پڑا۔ اپنے بہترین، مخلص اور بے لوث دوست چھوڑ دیے۔ وہ سب کی نظروں سے دور اس پہاڑی علاقے میں چلی آئی تھی۔

مکمل اردو کہانی کا لنک کمنٹ میں

موت کا اندھا کھیل - ایڈوانچر کہانیذیشان کی موت کی اطلاع سب سے پہلے تم نے ہی دی تھی۔ میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ بیمار ...
13/10/2024

موت کا اندھا کھیل - ایڈوانچر کہانی

ذیشان کی موت کی اطلاع سب سے پہلے تم نے ہی دی تھی۔ میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ بیمار تھا یا اس کی موت اچانک ہو گئی ؟ وہ بیمار تھا۔ اسے تقریباً ایک درجن بیماریاں تھیں۔ وہ کسی عمر رسیدہ افراد کے کئیرنگ والے ادارے کی جانب سے وظیفے پر گزارا کرتا تھا، اس لئے وہ مر گیا تو اچھا ہی ہوا۔ نعمان نے طنزیہ انداز میں اس کا جملہ قطع کرتے ہوئے کہا۔ اس لیے کہ اب زندگی اس کے لیے کرب ناک نہیں ہو گئی۔ وہ ساری تکلیفوں سے نجات پا گیا۔ معلوم نہیں نجات پا گیا یا نہیں ، اس کی تکلیفوں میں اضافہ ہوا یا کمی ، یہ کون بتا سکتا ہے ؟ ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اس دنیا سے گزر ضرور گیا ہے۔ کاوئنٹر مین بولا۔ اس ہوٹل میں رہنے والے دنیا سے کچھ زیادہ ہی گزر رہے ہیں۔ کیا موت کے فرشتے سے تمہاری دوستی کچھ گہری ہو گئی ہے ؟ نعمان نے پھر طنزیہ کہا۔ میں نے ریکارڈ چیک کیا ہے۔ اس سے پتا چلا ہے کہ اس مہینے ہوٹل میں درجن بھر اموات ہوئی ہیں۔ مجھے ان بوڑھوں سے شکایت ہے کہ مرنے سے پہلے وہ یہاں کیوں آ گئے ؟ شاکر نے ناگواری سے کہا۔ وہ لاوارث اور کمزور تھے، ان کی موت لکھی ہوئی تھی۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ یہاں آنے کے بعد مرے ہوں ، ان کا پہلے سے کوئی ارادہ نہ ہو۔ تم چاہتے کیا ہو آخر ، مسٹر صحافی ؟اس کی ناگواری بڑھ گئی۔ مرنے والے ہارٹ اٹیک میں مبتلا ہوئے ہیں۔ میرے خیال میں یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے ؟ نعمان نے پوچھا۔ سب ہی کو دل کا دورہ پڑ گیا ؟ کیا یہ حیرت کی بات نہیں؟ اس میں حیرت کی کیا بات ہے ۔ ؟ اس نے ناک سکیڑ کر کہا۔ وہ بوڑھے تھے ، ناتواں تھے۔ دل کے عارضہ میں مبتلا ہوئے اور مر گئے۔ اس میں تشویش کی کوئی بات نہیں ہے۔ تم اتنے پریشان کیوں ہو ؟ کیا ذیشان بیگ تمہارا رشتے دار تھا ؟

ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ میں ان لوگوں پر ایک فیچر لکھنا چاہتا ہوں۔ بوڑھے اور لاوارث لوگوں سے کسی کو دلچسپی کیوں نہیں ہوتی، کیا وہ خود کبھی بوڑھے نہیں ہوں گے ، جو اُن ضعیف العمر لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں۔ نعمان نے چالاکی سے بات آگے بڑھائی۔ یہی میرا مقصد ہے اور کچھ نہیں ، مجھے تعاون کی ضرورت ہے۔ تم خواہ مخوہ اپنے صفحات اور وقت ضائع کرو گے۔ حالاں کہ ان کے ساتھ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ قانونِ فطرت کے مطابق ہے۔ منیجر فلسفیانہ لہجے میں بولا۔ کیونکہ وہ سب بوڑھے گدھ تھے ، سمجھتے ہونا ! بوڑھے گدھ کون ہوتے ہیں ؟ وہی جو اپنی زندگی کے آخری ایام بھی اللہ کو یاد کرنے کی بجائے برائیوں میں گزار دیتے ہیں۔ یہ سب کے سب شرابی اور بد کردار تھے۔ انہوں نے جوانی میں اعتدال سے زندگی بسر نہیں کی، لہٰذا آخری عمر میں اس کا خمیازہ بھگتا- منیجر سے اسے کوئی معلومات حاصل نہیں ہوئیں۔ اس لئے وہ وہاں سے چلا آیا۔ واپسی پر اس نے لابی میں چند بوڑھوں کو مست حال میں اور ایک دوسرے کو مارتے دیکھا۔ ان کے لباس میلے کچیلے تھے اور شیو اتنا بڑھا ہوا تھا کہ داڑھیوں کا گمان ہوتا تھا۔ وہ قہقہے تو لگا ر ہے تھے لیکن ان میں خوشی کے بجائے بے بسی تھی۔ وہ شاید اپنوں کی بے اعتنائیوں کا انتقام خود سے لے رہے تھے۔

مکمل اردو کہانی کا لنک کمنٹ میں

ایمان دار بیوی - مکمل اردو کہانیسری ناتھ اپنے آپ کو عقل کل سمجھتا تھا اور اسے اپنے اوپر اس قدر اعتماد اور خوش فہمی تھی ک...
13/10/2024

ایمان دار بیوی - مکمل اردو کہانی

سری ناتھ اپنے آپ کو عقل کل سمجھتا تھا اور اسے اپنے اوپر اس قدر اعتماد اور خوش فہمی تھی کہ اسے کوئی بھی بے وقوف بنا کر فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ اسے اتنا گھمنڈ تھا کہ اس کا کوئی بھی منصوبہ ناکام نہیں ہو سکتا۔ اس لئے اسے یقین تھا کہ وہ عام شہریوں کی نسبت ذہین اور باصلاحیت ہے۔ وہ یہ بات بھی بخوبی جانتا تھا کہ پولیس والے اس وقت تک ملزم پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے جب تک کہ جرم ثابت نہ ہو جائے۔ وہ اس سے کارروائی کرتے ہیں جب ملزم کے خلاف انہیں شک اور یقین نہ ہو جائے اور پھر اس کے اور ٹھوس ثبوت کے درمیان کوئی فاصلہ نظر نہ آئے۔ وہ جو بھی منصوبہ بناتا تھا تو اس کی ہر ممکن یہ کوشش ہوتی تھی کہ وہ ہر لحاظ سے مکمل، بے عیب اور خامیوں سے پاک ہو۔ جھول ہونے سے ساری محنت اور منصوبہ خاک میں مل جانے کا اندیشہ ہو ہے۔ اسے پورا یقین تھا کہ وہ اپنی ذہانت سے پولیس کو بے وقوف بنانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ وہ اپنے اس منصوبے پر عمل کرنے کیلئے پولیس ہیڈ کوارٹر کی عمارت میں بڑے اعتماد کے ساتھ داخل ہو رہا تھا۔ وہ ہر قسم کی صور تحال کا مقابلہ کرنے کیلئے پوری طرح تیار تھا اور اس کے چہرے سے گھبراہٹ اور پریشانی ظاہر ہو رہی تھی۔ ہر دیکھنے والا بآسانی سمجھ اور جان لیتا کہ یہ شخص کس قدر خوف وہر اس سے دوچار ہے۔ یہ تاثرات اس نے خود ہی اپنے اوپر طاری کر لئے تھے۔

جب وہ ہال میں گھسا تو اس نے دیکھا کہ شکایات درج کرانے کے کائونٹر پر دو لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔ ایک قطار تو لڑکیوں وعورتوں کی تھی جس میں ہر عمر کی لڑکیاں اور عورتیں تھیں۔ وہ سبھی متفکر اور پریشان سی دکھائی دیتی تھیں۔ مردوں کی قطار میں شامل نوجوان اور تیس چالیس برس کی عمر کے مردوں کے علاوہ عمر رسیدہ بھی تھے۔ چونکہ جرائم کی بھر مار تھی اس لئے لوگ روز متاثر ہوتے تھے۔ لڑکیوں اور عورتوں کا اغوا، ان کے ساتھ زیادتی اور جہیز نہ لانے پر دیور، ساس، نندوں کا انہیں جھلسادینا، کوئی دن ایسا نہیں جاتا تھا کہ شہر میں نت نئے جرائم اور طرح طرح کے سنگین واقعات جنم نہ لیتے ہوں۔

تھانوں میں چونکہ اس وقت تک کوئی کارروائی عمل میں نہیں آتی جب تک عملے یا ایس ایچ او کی مٹھی گرم نہ کر دی جائے۔ اس لئے لوگ مجبور اور پریشان ہو کر پولیس ہیڈ کوارٹر کا رخ کرتے تھے۔ ہال میں نہ صرف باور دی وومن پولیس بلکہ مرد بھی کھڑے ہوئے تھے۔ اس نے محسوس کیا کہ جیسے وہ سب کی نظروں کا مرکز بن گیا ہے اور سبھی اسے تعجب خیز نظروں سے دیکھے جارہے ہیں۔ وہ انہیں اپنی طرف متوجہ پا کر دل ہی دل میں بہت خوش ہوا تھا۔ اس کیلئے یہ بڑی دلچسپ بات تھی کہ وہ پولیس والوں کو ان کے ہیڈ کوارٹر میں بے و قوف بنانے آیا تھا۔ آج تک کسی نے انہیں اس طرح بے وقوف نہیں بنایا ہو گا۔ وہ بال میں گھسنے کے بعد ایک سپاہی کی طرف بڑھا جو موٹا، بھدا تھا اور اس کی توند نکلی ہوئی تھی۔ چونکہ یہ لوگ راشی ہوتے تھے اور حرام کی کھاتے تھے ، اس لئے ان کے بدن پر سیروں چربی چڑھی ہوتی تھی۔ سر ! پلیز آپ میری کچھ مدد فرمائیں۔فرمائیں … میں آپ کی کیا سیوا کر سکتا ہوں ؟ وہ بیٹری پی رہا تھا۔ لمبا ساکش لے کر بولا۔ سپاہی کے الفاظ اور لہجے میں مطابقت نہیں تھی۔ وہ جھنجھلایا ہوا اور بیزار سالگ رہا تھا جیسے اسے کوئی شکار ہاتھ نہ لگا ہو۔ میری کار چوری ہو گئی ہے۔ سری ناتھ نے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔ میں اس کی رپورٹ درج کرانا چاہتا ہوں۔ اس طرف جائو۔

سپاہی نے ایک سمت اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اس کا انداز ایسا تھا جیسے کہہ رہا ہو ادھر جا کر مرو، میر اوقت اور دماغ خراب کیوں کر رہے ہو ؟ سری ناتھ نے اس سمت دیکھا جہاں سپاہی نے اشارہ کیا تھا۔ وہاں ایک کائونٹر بنا ہوا تھا اور ایک تختی آویزاں تھی جس پر لکھا ہوا تھا مسروقہ کاروں کی رپورٹ یہاں درج کرائیں۔ اس نے شکریہ ادا کرنے کیلئے گردن گھمائی لیکن وہ سپاہی تیز تیز قدموں سے نکل رہا تھا ایک موٹی سی عورت کے ساتھ ! وہ اس کا شکار تھا شاید … وہ عورت اسے شاید کینٹین میں لے جارہی تھی تاکہ اس کی سیوا کر کے معاملہ طے کرے۔

مکمل اردو کہانی کا لنک کمنٹ میں

عقل مند دلہن - مکمل اردو کہانیرامین تین بہنوں میں سب سے بڑی تھی۔ تعلیم کا سلسلہ مکمل ہونے کے بعد وہ نوکری کرنا چاہ رہی ت...
13/10/2024

عقل مند دلہن - مکمل اردو کہانی

رامین تین بہنوں میں سب سے بڑی تھی۔ تعلیم کا سلسلہ مکمل ہونے کے بعد وہ نوکری کرنا چاہ رہی تھی۔ لیکن روایتی ماں باپ کی طرح امی ، پاپا کی بھی یہ ہی کوشش تھی کہ اسے جلد از جلد اس کے گھر بار کا کر دیا جائے۔ ابھی اس کی رشتہ ڈھونڈ و مہم اکتا دینے کی حد تک طویل نہ ہوئی تھی پھر بھی رامین اس پریکٹس سے بیزاری محسوس کرنے لگی تھی۔ وہ بہت حسین جمیل نہ سہی مگر پر کشش شخصیت کی مالک تھی۔ ماں نے گھر داری میں بھی طاق کر رکھا تھا۔ معقول ڈگری بھی ہاتھ میں تھی لیکن اس کا مڈل کلاس پس منظر دیگر خوبیوں کو دھندلا دیتا تھا۔ عام سے گھر جس میں بیش قیمت ساز و سامان تو نہ تھا لیکن گھر کا چپہ چپہ گھر کے مکینوں کی نفاست پسندی اور طریقے سلیقے کا گواہ تھا۔

اس گھر کے سب مکین آپس میں خلوص اور محبت کے اٹوٹ بندھن سے بندھے تھے کرہ ارض پر یہ گھر رامین کی جنت تھا۔ وہ جانتی تھی اس جنت سے بے دخلی کا وقت آن پہنچا ہے۔ ہر لڑکی کی طرح وہ بھی اس مرحلے سے ٹھیک ٹھاک خائف تھی ، اوپر سے ماں کی باتیں اس گھبراہٹ میں مزید اضافہ کر دیتی تھیں۔ ہاجرہ نے خود تو لمبا چوڑا سسرال نہ بھگتا تھا کہ شوہر نامدار کے والدین ان کی شادی سے پہلے جنت مکین ہو چکے تھے پھر بھی یوں لگتا تھا کہ انہوں نے سسرالی معاملات میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔ لڑکے کے گھر والوں سے پہلی ملاقات کے بعد ہی وہ اس کے گھر والوں کے متعلق اندازے لگانا شروع کر دیتی تھیں۔ بہر کیف یہ باتیں رامین کی نظر میں قبل از وقت تھیں۔ سچی بات تو یہ تھی کہ اسے ان لوگوں کے دوبارہ رابطے کی امید بھی نہ تھی لیکن چار دن بعد لڑ کے (فائق کا ذکر اس وقت لڑکا کہ کر ہی کیا جاتا تھا) کے والد کی پاپا کے پاس کال آگئی۔ ریحان بھائی ! ہمیں بچی پسند آئی ہے اگر آپ لوگوں کو اعتراض نہ ہو تو میرا بیٹا بھی بچی کو ایک نظر دیکھنے کا خواہش مند ہے۔ آپ کی اجازت ہو تو ہم کل شام بیٹے کو لے کر آجائیں ۔

مکمل اردو کہانی کا لنک پہلے کمنٹ میں

آخری آنسو کا حساب دلاور نظر آ جائے بس کہیں سے آئینہ نے دل سے دعا کی تھی ، کالج کے لیے لیٹ بھی ہو رہی تھی مگر پھر بھی بار...
13/10/2024

آخری آنسو کا حساب

دلاور نظر آ جائے بس کہیں سے آئینہ نے دل سے دعا کی تھی ، کالج کے لیے لیٹ بھی ہو رہی تھی مگر پھر بھی بار بار اس کا خیال آئے جا رہا تھا۔ صبح ہی ہلکی لپ اسٹک چھپ کر لگائی تھی بس ایسے چلتے چلتے ہی شکر ہے پتا نہیں چلا امی کو ۔ اس نے دل ہی دل میں شکر ادا کیا گیٹ سے باہر سبزی والا حلق پھاڑ کر چیخ رہا تھا۔ پیاز، ٹماٹر، اد رک اور بھنڈی۔ اچھا امی بھنڈی گوشت بنا رکھنا آج موسم اچھا خاصا تپا ہوا تھا مگر اس عمر میں ہر موسم ہی اچھا لگتا ہے دو مہینے پہلے کالج ٹرپ پر جاتے جب وہ بے انتہا خوب صورت لگ رہی تھی اپنی تئیں یا پھر وہ دلاور کی نظر ہوگی جس نے اسے خاص بنا دیا تھا۔

اس نے اپنی فیورٹ میکسی پہنی تھی ساتھ گولڈن بندے اور کھسہ بھی امی کی نظر بچا کر میچنگ ہی پہنا تھا۔ دیکھا تو بہت غور سے بائیو والے سرنے بھی تھا مگر ان کے دیکھنے میں وہ بات کہاں جو دلاور میں تھی۔ لڑکیاں کہتی تھیں کہ دلاور میں کیا رکھا ہے نہ وہ خوش شکل ہے نہ ہی اتنا ذہین اور پیسے والا اور تو اور رنگ بھی صاف نہیں اور تم تو اتنی پیاری ہو۔ یہ تانیہ کی رائے تھی۔ تم کیا جانو کہ دلاور کتنا اہم ہے میرے لیے ، میرے لیے وہ کل جہان ہے اس کے بغیر دنیا ادھوری لگتی ہے مجھے۔

آئینہ نے دل میں کہا۔ دلاور نے بائیک اس کے قریب روک کر ایک گلاب کا پھول دیا تھا قریب ہی گجروں پھولوں کی خوشبو اڑاتی دکان تھی۔ جس میں پان کھاتے آدمی بھانت بھانت کی بولیاں لگا کے تازہ گلاب اور پیتیاں بیچتے تھے وہاں سو گوار لوگ بھی آتے تھے اور منچلے بھی۔ قریب کی دیوار ان کے گاڑھے گیلے تھوک کی وجہ سے گندی سندی ہو رہی تھی۔ یہاں سے ہی رنگین چادروں ، عبایوں اور دوپٹوں کی بہار کا ریلا کالج کو رواں دواں ہوا کرتا تھا۔ دلاور نے یہیں سے ایک ٹہنی والا گلاب آئینہ کو دیا تھا۔ کانٹوں والا اور سرخ، اس کی خوشبو آئینہ کو دنیا میں سب سے الگ لگی تھی۔ آئینہ تم میری زندگی ہو۔ میرا غم ہو میری خوشی ہو۔ دلاور نے بھلے کسی ترنگ میں کہا ہو۔ آئینہ محبت کے رنگ میں سرتا پا رنگ گئی گی۔

مکمل اتدو کہانی کا لنک پہلے کمنٹ میں

   اللہ کی پکڑ - مکمل اردوکہانیوارث نے اچانک اپنی آنکھیں کھول دیں۔ اسے لگا جیسے اس کے آس پاس شازیہ ہے۔ اس نے متلاشی نگاہ...
12/10/2024


اللہ کی پکڑ - مکمل اردوکہانی

وارث نے اچانک اپنی آنکھیں کھول دیں۔ اسے لگا جیسے اس کے آس پاس شازیہ ہے۔ اس نے متلاشی نگاہوں سے دائیں بائیں دیکھا تو اس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ اسے اس بات کا غم تھا کہ ڈاکٹر کہہ رہا تھا کہ اس کے پاس وقت نہیں ہے۔ جانے کب وہ زندگی کی بازی ہار جائے اور کامران کل کسی وقت پہنچ رہا تھا۔ ابھی کئی گھنٹے پڑے تھے۔ ان گھنٹوں میں وہ اپنا عہد پورا کر سکتا ہے کہ نہیں … موت اس کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے۔ اسے پتا نہیں تھا اور وہ یہ سوچ کر مزید غمگیں ہو گیا تھا۔ وہ ہر حال میں اپنا عہد نبھانا چاہتا تھا۔ کامران کو مارنا چاہتا تھا لیکن نہیں جانتا تھا کہ وہ ایسا کر بھی سکے گا یا نہیں۔ اچانک وارث کو کھانسی آنے لگی۔ کھانسی میں شدت آ گئی اور کھانستے کھانستے وہ فرش پر گر گیا۔ کچھ دیر کے بعد کھانسی رک گئی۔ وہ لمبے لمبے سانس لینے لگا۔ اسے لگ رہا تھا جیسے اس کے جسم میں جان نہیں رہی۔ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ کامران سے انتقام لینے کی طاقت نہیں رکھتا۔ وہ اس کے آنے سے پہلے مر جائے گا۔ وہ اٹھنا چاہتا تھا لیکن اٹھ نہیں سکا۔ اس نے اٹھنے کے لئے اپنے جسم کو جھٹکا دینے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا اور وہ ساکت لیٹا رہا۔ اس غم نے اسے شدت سے گھیر لیا تھا کہ وہ کامران کو اپنے ہاتھوں سے نہیں مار سکے گا۔ وہ اس سے انتقام لینے سے پہلے خود مر رہا تھا۔ یہ غم اسے موت سے بھی زیادہ اذیت ناک محسوس ہو رہا تھا۔ صبح کا سورج طلوع ہو گیا تھا۔ دن کا اجالا رفتہ رفتہ پھیلنے لگا تھا۔ وارث ناچار اسی طرح فرش پر پڑا ہوا تھا۔ اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔ اس کے چہرے پر کرب تھا۔ شازیہ کا انتقام نہ لینے کا تاسف اس کے چہرے سے عیاں تھا۔ اس کے ہونٹ تھر تھرائے اور وہ شکستہ دل سے بولا۔ شازیہ میں تمہارا انتقام نہیں لے سکا۔ میں کامران کو بھی تڑپا کر مارنا چاہتا تھا لیکن بیماری نے مجھے مہلت نہیں دی۔ اچانک دروازہ آہستہ سے کھلا۔

آواز سن کر اس نے اپنی آنکھیں گھما کر دروازے کی طرف دیکھا۔ چمکتے ہوئے جو توں پر نظر پڑی تو اس نے سوچا کون ہے؟ پھر وہ قدم اس کی طرف بڑھے۔ وہ اس کے قریب آکر کھڑا ہو گیا۔ وارث نے آنکھیں اوپر اٹھا کر دیکھا اور پھر جیسے ہی اس کی نظر آنے والے کے چہرے پر پڑی وہ حیران نگاہوں سے اس کا چہرہ دیکھتا رہ گیا۔ آنے والا کامران تھا۔ اس کے چہرے پر مکار مسکراہٹ تھی اور اس کی شکل پر پھٹکار برس رہی تھی۔ کامران اس پر جھکا اور بولا ۔ دیکھو میں سیدھا تمہارے پاس آیا ہوں۔ آٹھ سال سے تم میرے انتظار میں ہو اور میرے دوست سے اکثر باتوں باتوں میں پوچھتے رہے ہو کہ میں کب آ رہا ہوں۔ تم نے بھی اس پر یہ ظاہر نہیں کیا کہ تمہارا میرے ساتھ کیسا تعلق تھا۔ تم نے اس کو بس اتنا بتایا تھا کہ میں تمہاری گیلری میں چند بار آیا تھا لیکن وہ میرا دوست تم سے ہونے والی ہر ملاقات میں مجھے بتاتا تھا کیونکہ میں نے اسے سب کچھ بتا دیا تھا۔ میں جانتا تھا کہ تم میرا انتظار کر رہے ہو۔ شاید مجھ سے شازیہ کا انتقام لینا چاہتے ہو… لو میں آ گیا ہوں۔ اگر انتقام لینا چاہتے ہو تو میں تمہارے سامنے ہوں۔ وارث بے بسی سے اس کی طرف دیکھتا رہا۔ وہ اپنے اندر ہمت اور طاقت جمع کرتا رہا کہ کسی طرح اپنے دونوں ہاتھوں سے اس کا گلا پکڑ کر دبا دے لیکن وہ کچھ نہیں کر سکا، بس بے بسی سے دیکھتا رہا۔ کامران پھر بولا۔ میرے دوست نے بتایا تھا کہ تم کینسر کے مریض ہو اور موت کے بہت قریب پہنچ چکے ہو۔ دراصل جس میڈیکل اسٹور سے تم دوائیں لے رہے تھے، اتفاق سے وہ بھی وہاں موجود تھا۔ تمہارے جانے کے بعد میرے دوست نے میڈیکل اسٹور والے سے پوچھا کہ یہ کس بیماری کی دوائیں لے کر گیا ہے۔

کامران یہ کہہ کر فاتح انداز میں مسکرایا۔ پھر یکدم کامران دائیں بائیں دیکھنے لگا۔ اس کی نظر وارث کی رپورٹس پر پڑی تو اس نے وہ کاغذات اٹھا کر پڑھے اور ان کا غذات کو ایک طرف رکھ کر زور سے ہنسا۔ ارے تم تو موت کے منہ میں ہو۔ تم مر رہے ہو۔ تم کیا خاک مجھ سے انتقام لو گے ۔ کامران پاگلوں کی طرح ہنسنے لگا۔ پھر کا غذات اچھال کر اس کی طرف دیکھ کر بولا۔ میں نے اپنے دوست کے ذریعے پتا کرایا تھا کہ کسی تھانے میں میرے خلاف کوئی مقدمہ تو درج نہیں۔ تسلی ہونے پر واپس آیا ہوں اور تمہارے پاس سیدھا اس لئے آیا تھا، یقینا تمہارے دل میں مجھ سے انتقام لینے کی آگ ضرور بھڑک رہی ہو گی۔ مجھے پتا چل چکا تھا کہ تم کینسر کے مریض ہو، اس لئے تمہارے پاس آ گیا کہ تم میرا کیا بگاڑ لو گے۔ تم بے بس اور لاچار پڑے ہوئے ہو۔ مجھ سے انتقام کیا لو گے۔ تم مر رہے ہو اور میں زندہ رہوں گا۔ کامران نے نفرت سے کہا اور باہر چلا گیا۔ وارث اسے جاتا ہوا دیکھتا رہا۔ اس کا دل پھٹ رہا تھا۔ اپنی بے بسی پر رونا آنے لگا تھا۔ اچانک ایک بار پھر دروازہ کھلا۔ اس بار کون اندر آیا وہ نہیں جان سکا کیونکہ اس کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔

مکمل اردو کہانی کا لنک پہلے کمنٹ میں

   قسمت کے انوکھے فیصلے - اردو کہانیسچ کہتی ہوں شگو آپا ! زندگی اجیرن کر کے رکھ دی ہے میری ساس نے۔ ایسی پتھر دل عورت نہ ...
12/10/2024


قسمت کے انوکھے فیصلے - اردو کہانی

سچ کہتی ہوں شگو آپا ! زندگی اجیرن کر کے رکھ دی ہے میری ساس نے۔ ایسی پتھر دل عورت نہ دیکھی نہ سنی۔ بھنڈی بناتی شکو آپا جن کا نام شگفتہ تھا مگر ساجی نے اپنے دل کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے انہیں اپنی شگو آپا بنا لیا تھا۔ شگو آیا صبح سویرے روٹی ناشتے سے فارغ ہو کے جیسے ہی گرم پانی سے برتن مانجھ کر چمکانے لتیں، فورا ساچی بھی آجاتی۔ آٹھ جماعت پاس ساجی خود کو پڑھے لکھے اور فلاسفروں سے کسی طرح بھی کم نہ سمجھتی تھی۔ کل جب میں نے پیاز کاٹتے ہوئے اپنی ساس کا غرور بھرالہجہ اور اللہ سے نہ ڈرنا دیکھا تو میں نے ذرا بھی پتا نہیں لگنے دیا تھا کہ میں رو رہی ہوں۔

میرے تو دشمن روئیں، میں کیوں روؤں۔ سارے آنسو پیاز کی پرتوں تلے چھپا لیے، پر دل ہے ناں شگو آپا ! کڑھتا تو ہے ہی۔ اس میں شکوے شکایتوں کے بھی انبار لگے رہتے ہیں، جو اگر ہم تم نہ ہوں ناں ایک دوسرے کی سننے کے لیے تو سچی بندہ ان بو جھل سخت پہاڑوں تلے دب کر دوسری سا نس نہ لے پائے۔ لے اب میری اولاد نہیں تو اس میں میرا کیا قصور ، پورا ایک سال، اس ایک سال کی ایک ایک سانس میں نے دعائیں کی ہیں۔ پیروں فقیروں کے پیر پکڑے ہیں۔ ۔ ارشد کی مار کھائی ہے۔ جیٹھ جیٹھانی کی باتیں سنی ہیں ۔ شگو آپا نے اس کی طویل سانس جو سینے میں کہیں گم ہو چکی تھی ، ایک ایسی ہی سانس انہوں نے بھی لی تھی۔ بچوں کی فیس ، نمک مرچ ، آٹا ، دالیں کتنی مصیبتیں ان کی جان کو بھی چمٹی تھیں۔ ایک روز صبح ہی صبح جانے کیسے گھر کے کام کاج نبٹا وہ ان کی طرف چلی آئی اور پھر یہ معمول ہی بنا لیا۔ ان کے پاس بہت وقت ہوا کرتا تھا جسے ایسے ہی استعمال میں لایا جاتا تھا۔

سجواری بوا! تمہارے ٹوٹکے نے تو خوب کام دکھایا۔ بھئی جیسے ہی ارشد کے لیے دودھ گرم کیا ، اس میں دم کی ہوئی چھوٹی پیاز کاٹ کے ڈالی ، الایچیاں بھی ڈھیر ساری ڈالیں مگر وہ بندہ پیاز کی بو بھانپ گیا اور پھر جو میرے ساتھ اس نے سلوک کیا سارے گھر نے سنا ہے۔ بوا! یہ کیسا مشورہ اٹھائے پھرتی ہو ۔ ساجی کو سجواری بوا پر بھی بہت بھروسہ تھا۔ گائے کا دودھ گائے بھی وہ جس نے بچھڑا دیا ہوا کسیر نسخہ ہے۔ سو رد پے دے مجھے، میں ڈھونڈ ڈھانڈ لا دوں تجھے تو میری پوتیوں، بیٹیوں جیسی ہے، تیرے لیے اتنا بھی نہ ہو سکے گا کیا۔ صبح صبح کا وقت تھا، دودھ والا آیا نہیں تھا۔ وہ گیٹ کے ساتھ اس کے انتظار میں کھڑی تھی۔ سجواری ہوا جو مشوروں کی پٹاری ساتھ ساتھ لیے گھوما کرتی تھیں۔ رات ہی اس نے بڑی پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ارشد کی جیب سے دو سو روپے نکال کر اپنے تکیے تلے چھپا رکھے تھے۔ اتنے سارے نوٹوں میں سے دو سو کی کیا گنتی ، وہی کڑکڑاتے دو نوٹ کجواری بوا کو منتقل ہوئے اور وہ چلتی نہیں۔

پتا نہیں اس چھوٹی کالونی کے سرسبز سایوں کے کس کونے میں وہ گائے بندھی ہوئی ہو گی جس نے پچھڑا دیا ہے۔ جب تک ساچی کی ساس باتھ روم سے نکلیں ، وہ دکھ سکھ بانٹنے کے بعد ایک نئی تجویز کے ساتھ دودھ چولہے پر رکھ چکی تھی۔ دودھ میں دودھ کم پانی زیادہ تھا مگر دل کڑا کر کے پی گئی تھی۔ اس کے لیے کیا اکیسر ہے، اسے کیا معلوم مگر پینے سے تو نہ رہ جائے۔ جیٹھانی کی دو بیٹیاں تھیں ۔ ایک پیر صاحب نے اسے ایک نیلی پڑیا بھی دی تھی کہ اگر وہ کسی طرح جیٹھانی کے بچے کو کھلا دے اور وہ مر جائے تو اس کی گود ہری ہو جائے گی مگر وہ ڈر گئی تھی اگر پولیس نے پکڑ لیا تو ۔ پولیس کے ڈر اور کچھ اپنی بزدلی نے اسے یہ قدم اٹھانے سے روک دیا اور وہ راستے میں ہی پڑیا گھول کر پھینک آئی۔ ارشد کے پاؤں کے تلوے پر سرخ مار کر سے ایک لفظ لکھنا تھا مگر وہاں تو بات کرنا ہی مصیبت ہو گیا تھا۔ وہ اولاد شاید چاہتا ہی نہیں تو تھا صرف بات بی بات ساجی کو کوستا رہتا۔ وہ زندگی سے ہار جاتی پھر ہار نہ مانتے ہوئے دوبار ہ سرپٹ دوڑ نے لگتی۔ ماں باپ کا سایہ سر پر تھا نہیں۔ چچا نے جیسے تیسے کھلا پلا کر سنبھال کرسگی پھوپھی کے بیٹے سے نکاح پڑھوا دیا اور پھر بیس سال کی ساجی کے اولاد ہی نہ ہو سکی۔ فرح کے بچے بہت پیارے تھے۔ پیاری پیاری باتیں کرتے تھے۔ وہ ان کے فیڈر بنایا کرتی ، کبھی کبھار چھپ کر چوم بھی لیتی۔ فرح شوہر کی لاڈلی تھی اور اس کا شوہر اس پر صرف شک کیا کرتا تھا۔ ہر شے چھان پھٹک کر اس کے ہاتھ سے لیتا۔

گھر کے کام میں وہ بہت اچھی تھی ۔ جلدی کام سے فارغ ہو کر لوگوں کے دکھ سکھ بانٹنے بھی نکل جایا کرتی۔ آپ کو مجھ سے محبت نہیں ہے ارشد ،نہ میں بہت حسین ہوں ، نہ بھرے پرے، کھاتے پیتے میکے والی ہوں اور سب سے بڑھے میری تو کوئی اولاد بھی نہ ہو سکی ۔ اس کے آنسو گالوں پر بھر چکے تھے۔ ایسا بالکل نہیں ہے سا جو! ایسے نہ سوچا کرو ۔ محبت تو تھی ۔ یہ آپ جناب والے الفاظ اسے ارشد نے ہی سکھائے تھے۔ شاید شروع شروع میں تو وہ تم ہی کہا کرتی تھی۔ اسے تم سے اپنائیت کا زیادہ اظہار محسوس ہوا کرتا تھا مگر ارشد نے بری طرح ٹوک دیا ایسے نہیں کہتے ،میں بچی تو نہیں ہوں ۔ تم ابھی بچی ہی ہو ساجدہ اختر ! تمہارا معصوم ساذہن ابھی ان نزاکتوں کو سمجھ نہیں پا رہا۔ آہستہ آہستہ وہ بہت سیکھ گئی تھی۔

مکمل کہانی کا لنک پہلے کمنٹ میں

Address

Chishtian Mandi

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Sublimegate Urdu Stories posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share

Nearby media companies


Other News & Media Websites in Chishtian Mandi

Show All