14/10/2024
قسمت کا انوکھا کھیل - سبق آموزکہانی
اسٹامپ پیپر کو سلیقے سے تین تہوں میں موڑ کر جب میں ، کمرے میں داخل ہوئی تو بابا جان کو اپنا منتظر پایا اور اس کے ساتھ مجھے امی جان کا جملہ بھی سنائی دے گیا۔ چلتی بھی تو آہستہ ہے۔ آنے میں وقت تو لگے گا۔ گو ساری دنیا کو معلوم تھا کہ میں بچپن میں پولیو کا شکار ہو گئی تھی جس جس کے باعث میری دائیں ٹانگ چھوٹی رہ گئی تھی ۔ میری چال میں ہلکی سی لنگڑاہٹ آگئی تھی اور مجھ سے بھاگنا تو دور کی بات تیز چلا بھی نہ جاتا تھا مگر امی جان ہر وقت ہر کسی کے سامنے اور ہر موقعے پر میری لنگڑاہٹ پر ایک آدھ جملہ کسے بغیر نہیں رہ پاتی تھیں۔ وہ شاید اور بھی کچھ کہتیں مگر مجھے دیکھ کر خاموش ہوئیں۔
بابا جان نے ہمیشہ کی طرح بہت تپاک سے میرا استقبال کیا اور میری آنکھیں بھیگ گئیں۔ بابا جان کا رویہ ہمیشہ مجھ سے ایسا ہی والہا نہ رہا مگر صرف رویه . وہ بھی کبھی مجھے، میری ذات یا میری انا کو تحفظ نہ دے سکے۔ جب بھی میں نے ان سے مدد چاہی وہ بڑی شدومد سے مجھے یقین دلاتے کہ وہ میرے مطالبے کے لیے امی جان کو ضرور راضی کرلیں گے اور میرے مطالبے تھے بھی کیا جو بچین میں تو کبھی کیے ہی نہیں کیونکہ اتنی عقل ہی نہ تھی مگر ایک عمر کے بعد چھوٹی چھوٹی خواہشات نے سر اٹھایا کہ اچھے رزلٹ کے باعث جس بڑے کالج میں داخلہ مل رہا ہے وہاں داخلہ لے لوں، کالج کا بلا وجہ ناغہ نہ کروں اور پڑھائی کے لیے دن بھر میں کچھ وقت اور اس دو منزلہ بڑے سے گھر میں میرا کمرا نہ سہی مگر پڑھائی کی جگہ مختص کر لوں جہاں کم از کم میری کتب تو سلیقے سے رہ سکیں۔
کچھ ایسے گھریلو کام جو میری توانائی و ہمت سے بڑھ کر تھے، وہ کسی اور کے ذمے ڈال دوں یا پھر اتناہی ہو کہ گھر کا بھی کوئی فرد یا ملازم باورچی خانے میں میری مدد کرے۔گھر کے ڈھیروں کاموں کے ساتھ ساتھ بڑی بھا بھی جو کہ شرعی پردہ کرتی ہیں اور بڑے بھیا کے اصرار پر ان کو گھر کی تقر یباً خالی اور کم استعمال کی جانے والی دوسری منزل میں رہائش دی گئی تھی تا کہ بڑی بھا بھی سکون واطمینان سے کمرے سے باہر بھی بے حجاب رہ سکیں ہمارے ملازم اور گھر کے تمام مرد جو بھابھی کے لیے غیر محرم تھے سب کو سختی سے ہدایات تھیں کہ دوسری منزل پر جانے سے پہلے سیڑھی کے دروازے کو کھٹکھٹا کر جائیں اور بھابی کے جواب کا انتظار کریں۔ ایسے میں چند ہی دنوں میں بھیا، بھابھی کو کھانا، چائے یا کوئی بھی سامان پہنچانے ، دھلے یا میلے کپڑوں کے لینے دینے کی ذمہ داری مجھ پر آپڑی۔ اس کے علاوہ بھی اکثر کئی کام کروانے کے لیے بھا بھی مجھے ہی آواز دیا کرتیں شاید وہ بھی گھر میں میری حیثیت سے واقف ہو چکی تھیں۔
ویسے تومجھے بھائی کے کام کرنا اچھا لگتا تھا میں اپنی بہنوں کے بھی تو کام کیا ہی کرتی تھی مگر مسئلہ یہ ہوتا کہ ایک سے دوبارہی سیڑھیاں چڑھ اتر کر میری جان پر بن آتی۔ میری دائیں ٹانگ میں بے تحاشا درد ہو جاتا شکایت کی صورت میں یہی کہہ دیا جاتا کہ یہ پیر کا درد کالج جاتے ہوئے کیوں نہیں ہوتا یا پھر کالج کی چھٹی کر کے کم کیا جا سکتا ہے۔ میں ڈر کر چپ کر جاتی اور ہر روز ہی مجھے دو سے تین بار اوپر نیچے کرنا ہی پڑتا۔ میں نے بابا جانی کو بہت بار کہا کہ کسی طرح امی جان سے کہہ کر، بھابھی کی خدمت مجھے معاف کروادیں مگر ہمیشہ ہی ایسا ہوا کہ بابا مجھے امید دلا کر خاموشی اختیار کر لیتے اور میں تھک ہار کر تکلیف سہتی رہتی۔ یہ بھی میری بے خبری تھی کہ میں بابا جان کے اس والہانہ رویے کو اپنے لیے محبت سمجھتی تھی اور اب جا کر حقیقت کا اندازہ کر سکتی تھی۔ خیر گزرگئے وہ دن بھی۔
مکمل اردو کہانی کا لنک پہلے کمنٹ میں