MBUC Media

MBUC Media جامعہ بحرالعلوم چمن کے میڈیا سیکشن
(7)

افیون کی کاشت کاری سے معاشرے کیلئے نقصانات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تحریر : حافظ محمد صدیق مدنی  ا...
17/04/2024

افیون کی کاشت کاری سے معاشرے کیلئے نقصانات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر : حافظ محمد صدیق مدنی
افیون کی کاشت کی ایک طویل تاریخ ہے، جو اکثر معاشی، سماجی اور سیاسی عوامل سے جڑی ہوتی ہے۔ اگرچہ اس نے کچھ لوگوں کے لیے روزی روٹی فراہم کی ہے اور کنٹرول شدہ ماحول میں دواؤں کے مقاصد کی خدمت کی ہے، افیون کی کاشت مجموعی طور پر معاشرے کے لیے اہم نقصانات لاتی ہے۔ صحت کے بحرانوں سے لے کر معاشی بدحالی اور سماجی بدامنی تک، افیون کی کاشت کے اثرات ان کھیتوں سے کہیں زیادہ پھیلے ہوئے ہیں جہاں اسے اگایا جاتا ہے۔ افیون کی کاشت کے سب سے فوری اور وسیع نقصانات میں سے ایک صحت کو لاحق خطرات ہیں۔ افیون اور اس کے مشتقات، جیسے ہیروئن، انتہائی نشہ آور مادے ہیں جو استعمال کرنے والوں میں شدید جسمانی اور ذہنی صحت کے مسائل کا باعث بنتے ہیں۔ ایچ آئی وی/ایڈز اور ہیپاٹائٹس جیسی بیماریوں کا عادی افراد میں سوئی بانٹنے سے پھیلنا صحت کے بحران کو مزید بڑھا دیتا ہے۔
افیون کی کاشت مختلف محاذوں پر معاشی عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہے۔ یہ قیمتی زرعی زمین اور وسائل کو خوراک کی فصلوں سے دور کر دیتا ہے، جس سے خوراک کی حفاظت متاثر ہوتی ہے اور دیہی علاقوں میں غربت میں اضافہ ہوتا ہے۔ مزید برآں، منشیات کا غیر قانونی کاروبار اکثر بدعنوانی کو ہوا دیتا ہے اور جائز معاشی سرگرمیوں کو نقصان پہنچاتا ہے، جس سے مجموعی اقتصادی ترقی اور ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔
افیون کی کاشت کے سماجی نتائج بہت گہرے ہیں۔ خاندان اور کمیونٹیز نشے کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں، بچوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور جرائم کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے۔ منشیات کی لت سے وابستہ بدنما داغ بھی افراد کو الگ تھلگ کر دیتا ہے اور انہیں مدد حاصل کرنے یا معاشرے میں دوبارہ شامل ہونے سے روکتا ہے، سماجی خلل کے ایک چکر کو جاری رکھتا ہے۔
افیون کی غیر قانونی تجارت کا تعلق اکثر منظم جرائم اور تشدد سے ہوتا ہے۔ منشیات کے کارٹلز اور مجرمانہ نیٹ ورک افیون کی کاشت اور اسمگلنگ سے حاصل ہونے والے منافع پر پروان چڑھتے ہیں، جس کے نتیجے میں جنگیں، اغوا اور دیگر پرتشدد سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ اس سے نہ صرف تجارت سے وابستہ افراد کی زندگیوں کو خطرہ ہے بلکہ متاثرہ علاقوں میں خوف اور عدم تحفظ کا ماحول بھی پیدا ہوتا ہے۔ حال ہی میں عید الفطر کی چھٹیوں میں گلستان کے علاقے نورک سلیمان خیل جانا پڑا وہاں پورے گلستان میں گھوم پھرے لیکن افسوس اب وہ گلستان نہیں رہا جو چالیس سال پہلے لوگ میلوں کیلئے آتے تھے ۔ گلستان میں جہاں بھی جاتا وہاں افیون (تریاق) کاشت نظر آتے امسال 90 فیصد سے زائد لوگوں نے افیون کی کاشت کئے تھے۔ جو بہت افسوس ہوئی ۔ افیون کو چھوڑ دے ابھی لوگوں نے آئیس کے کارخانے لگائے تھے جو معاشرے کیلئے سب سے بد تر نشہ آئس تیار کررہے تھے ۔ جب مقامی لوگوں سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ یہاں لوگوں نے اسے اپنے پیسوں کی زیادتی کی خاطر حلال قرار دی ہے بہت سے دیندار لوگوں نے کارخانے لگا کر یہ کام شروع کردی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ضلع قلعہ عبداللہ کے بعض علاقوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی رٹ کمزور ہوئی ہے جس کی بدولت ایسے گھناؤنی اعمال میں لوگ ملوث ہورہے ہیں۔ حکومت وقت توجہ دے کر افیون کی کاشت اور آئس کارخانوں کی خاتمہ کرکے نوجوانوں کی زندگیاں تحفظ اور بچا جاسکے ۔
افیون کی کاشت کے طریقوں، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں اسے غیر قانونی طور پر اگایا جاتا ہے، اکثر جنگلات کی کٹائی، مٹی کا کٹاؤ، اور کیڑے مار ادویات اور کیمیکلز سے آلودگی شامل ہیں۔ اس سے ماحولیاتی انحطاط، حیاتیاتی تنوع کا نقصان، اور ماحولیاتی نظام میں خلل پڑتا ہے، جو ان علاقوں کو درپیش طویل مدتی پائیداری کے چیلنجوں کو مزید بڑھاتا ہے۔
افیون کی کاشت کے نقصانات کو دور کرنے کے لیے ایک کثیر جہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہے جس میں صحت عامہ کی مداخلت، اقتصادی ترقی کی حکمت عملی، قانون نافذ کرنے کی کوششیں، اور بین الاقوامی تعاون شامل ہو۔ منشیات کی موثر پالیسیوں کو روک تھام، علاج اور نقصان میں کمی پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے، جبکہ منشیات کی پیداوار اور اسمگلنگ کی بنیادی وجوہات کو بھی حل کرنا چاہیے۔
اگرچہ افیون کی کاشت کچھ لوگوں کے لیے ایک منافع بخش منصوبہ لگتی ہے، لیکن معاشرے کے لیے اس کے نقصانات کسی بھی مختصر مدت کے فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔ صحت کے بحرانوں سے لے کر معاشی عدم استحکام اور سماجی خلل تک، افیون کی کاشت اہم چیلنجز کا سامنا کرتی ہے جن سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے مقامی، قومی اور عالمی سطح پر مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔

https://www.mbuchaman.wordpress.com

شیخ الحدیث مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ۔۔۔۔۔۔۔ آہ ھم سے بچھڑ گئے۔ (آج پہلی برسی)تحریر: مولانا حافظ محمد صدیق مدنیا...
03/08/2023

شیخ الحدیث مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ۔۔۔۔۔۔۔ آہ ھم سے بچھڑ گئے۔ (آج پہلی برسی)
تحریر: مولانا حافظ محمد صدیق مدنی

اللہ تعالیٰ کا امت مسلمہ پر یہ بڑا کرم ہے کہ ہر دور میں وہ اپنے دین کی حفاظت، تبلیغ، اشاعت اور دفاع کاکام اپنے منتخب بندوں سے لیتا رہا ہے۔ اس طرح ایک طرف کتاب وسنت کے ابدی رہنماء اصول ہر دور میں اجاگر ہوتے رہتے ہیں اور دوسری طرف حق کے متلاشی حضرات کی رہنمائی ہوتی رہتی ہے ساتھ ہی مسلمانوں کی اصلاح کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ تاریخ اسلام کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ علمائے امت اور صلحائے امت صدیوں سے اس خدمت میں مصروف ہیں۔ کتاب وسنت کی تبلیغ واشاعت، علوم کی ترویج، فنون کی تدوین، مسائل کے استنباط اور نتائج کے استخراج کے عظیم خدمات کا ہی نتیجہ ہے کہ آج دین کے اصولوں اور جزئیات کا زبردست ذخیرہ ملت اسلامیہ کے پاس موجود ہیں یہ سب حضور کائنات حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی اس تربیت کا نتیجہ ہے جس سے صحابہ کرامؓ فیض یاب ہوئے۔ اور انہوں نے یہ اثاثہ تابعین کو اور انہوں نے تبع تابعین کو منتقل کیا اور علمائے حق آج تک اس مبارک اور عظیم ورثے کی حفاظت کرکے اسے آئندہ نسلوں کو منتقل کر رہے ہیں۔
عجب قیامت کا حادثہ ہے، آستیں نہیں ہے
زمین کی رونق چلی گئی ہے، افق پہ مہر مبین نہیں
تری جدائی سے مرنے والے، وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے
مگر تری مرگ ناگہاں کہ اب تک یقین نہیں ہے
جمعیت علماء اسلام س پاکستان کے سابق مرکزی سالار اعلیٰ اوربلوچستان کے قدیم اور معروف دینی درسگاہ الجامعہ بحرالعلوم جامع مسجد نور گھوڑا ہسپتال روڈ چمن کے بانی و مہتمم حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ ایسی شخصیت تھے کہ اس کے شجر سایہ دار تلے پہنچ کر ہر کس و ناکس راحت وسکون پاسکتا تھا۔ پورے پاکستان میں آپ ؒ کومولانا چمنی صاحب کے نام سے پہچانا جاتاتھا۔ حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ کی شخصیت ایسی دل نواز، حیات افروز اور ایسی باغ و بہار تھی کہ جس کی خصوصیات کو ایک مختصر تحریر میں سمانا مشکل ہے۔ ہر فن میں اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک خاص ملکہ عطاء فرمایا تھا۔ زندگی کے آخر میں حدیث کے فروغ میں بہت خدمت کی اور اس فن حدیث میں پورے پاکستان اور افغانستان میں اچھے اساتذہ علمائے کرام ہیں ان میں سے تھے۔ شیخ الحدیث مولانا فتح محمد چمنی صاحب ؒ ہر فن کی معلومات کا خزانہ تھے، وقت مناظر اسلام تھے،
حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ خوبصورت، درمیانہ قد، سفید ریش بزرگ تھے۔ کوئی اگر آپ ؒ کو دیکھتا تا آنکھ ہٹانے کو اس کا دل نہ چاہتا۔ رنگ گوراسرخی مائل تھا۔ چہرے سے نورانیت ٹپکتی تھی، ڈاڑھی پوری سنت کی مطابق تھی، چہرہ بارعب تھا۔ غصے کے وقت ان کے چہرے پر جلال کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ بات کرتے تو ہر کوئی ان کی گفتگو سے ان کا گرویدہ ہوجاتا۔ صاف صاف الفاظ میں گفتگو فرماتے، جس سے کوئی بھی ان کی بات سمجھے بغیر نہیں رہتا۔ شیخ الحدیث مولانا فتح محمد چمنی کو اللہ تعالیٰ نے جو خطابت کا ملکہ عطاء فرمایا تھاوہ اہل عجم میں شاذونادر ہی کسی کو نصیب ہوتا ہے۔خاص طور پر پشتو اور اردو تقریریں، جو اتنی بے ساختہ، سلیس، رواں اور شگفتہ ہیں کہ ان کے فقرے فقرے پر ذوق سلیم کو حظ ملتا ہے۔ ان میں قدیم و جدید اسالیب اس طرح سے جمع ہوکر یکجان ہوگئے ہیں کہ سننے والے جزالت وسلالت دونوں کا لطف ساتھ ساتھ محسوس کرتا۔ حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ کا شمار ایسے ہی علمائے حق میں ہوتا ہے جنہوں نے پوری زندگی علوم دینیہ کی خدمت اور امت مسلمہ کی اصلاح میں صرف فرمائی۔ وہ نہ صرف مفسرعہد مدبر عصر، عالم بے بدل، فاضل اجل اور فقیہ دوراں تھے بلکہ راہ سلوک کے بے مثل امام تھے۔ ان کی وفات سے نہ صرف علمی دنیا اجڑ گئی بلکہ دنیائے سلوک کا آفتاب غروب ہوگیا۔ وہ حقیقت میں ہمارے عظیم اسلاف کی یادگار تھے۔وہ عالموں کے عالم تھے ان کی زندگی ہم سب کیلئے مشعل راہ اور نمونہ ہدایت تھی ان پر شاعر مشرق علامہ اقبال کا یہ شعر بالکل صادق آتا ہے
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
شیخ الحدیث حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ المعرودف مولانا چمنی صاحب صوبہ بلوچستان کے شہر چمن میں 1953 میں حاجی کرم خان کاکوزئی کے گھرگھوڑا ہسپتال چوک چمن میں پیدا ہوئے۔ 1961 میں تعلیم کے حصول کا آغاز کیا اور ابتدائی تعلیم کلی ارمبی کاکوزئی قلعہ عبداللہ میں اپنے دو ماموں مولوی عبدالستار نوراللہ مرقدہ اور مولوی محمد میر نوراللہ مرقدہ اور اپنے آبائی وطن چمن میں جمعیت علماء اسلام پاکستان کے مرکزی نائب امیر اور سابق ممبر قومی اسمبلی شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالغنی شہیدنوراللہ مرقدہ اور کلی لاجور گلستان میں پیر سید حاجی علی آغا اور سید قطب الدین آغا صاحبان سے حاصل کی اور بعد ازاں 1972 میں اعلٰی تعلیم کیلئے مدرسہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک اور مدرسہ اشرف العلوم باغبانپورہ گوجرانوالہ گئے وہاں شیخ الحدیث، استاد العلماء اور بانی دارالعلوم حقانیہ حضرت مولاناعبدالحق نوراللہ مرقدہ اور ممبر قومی اسمبلی قاضی حمیداللہ جان سے پڑھتے رہے۔ آخر میں بیماری کی وجہ سے 1980میں آخری دورہ حدیث مدرسہ مطلع العلوم کوئٹہ سے کرکے دینی علوم سے فراغت حاصل کی۔ مولوی صاحب مرحوم نے 1980 سے دو اگست 2022 تک تدریسی خدمات کیساتھ سیاسی اور سماجی خدمات بھی سرانجام دیتے رہے۔ دو اور تین اگست کے درمیانی شب ساڑھے دو بجے پر دل کی دورہ پڑنے اور کوئٹہ کے سول ہسپتال میں انتقال فرماگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ انہی عظیم ہستیوں میں سے ایک ہیں جن سے اللہ رب العزت نے بڑے بڑے کام لئے جن کا وجود پورے ملک کیلئے ایک عظیم نعمت تھا جن کے کردار پر آج تک کوئی انگشت نمائی نہیں کرسکا دوست تو دوست دشمن بھی انکے کردار کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکے۔ ذاتی اوصاف سے مولانا صاحب ایک بلند پایہ انسان تھے ہر لحظہ مسکرانے کی عادت مزاج میں نرمی، طبیعت میں انکسار، استقامت، عزیمت، علم، حلم ووقار،تدبر، فراست، ذہانت اور اخلاق کو گوندھ کراگر انسانی وجود تیار کیا جائے تو وہ حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ ہوں گے۔حضرت کی زندگی کے تمام گوشے آج ہمارے سامنے ہیں۔بظاہر تو ہر کوئی دینداری و پاکبازی کا دعویدار ہوتا ہے، لیکن حقیقت کی کسوٹی پر کچھ ہی لوگ اتر پاتے ہیں اسی کیساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج دنیامیں صاحب دل اور خداترس لوگوں کی کمی ضرور ہیں لیکن نایاب نہیں۔ کائنات کا وجود ہی ایسی لوگوں کے دم سے ہیں جن کے دل خوف خدا سے لبریز ہوں اور جن کے دماغ پر ہمہ وقت آخرت کا فکر سوار ہو، جن کے زبانیں ذکر الٰہی سے تروتازہ اور جن کی ہر حرکت اور زندگی کے ہر ہر سانس اطاعت الٰہی اور سنت نبوی کا نمونہ ہو۔ انھیں عظیم انسانوں میں ایک نام حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ کا نمایاں ہے اور وہ ایک عظیم انسان اور ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ ان کے دل میں اللہ رب العزت اور اس کے رسول حضور کائنات حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت، ملت اسلامیہ کا درد اور پوری انسانیت سے خیرخواہی کا جزبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہواتھا۔ دراصل حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ کی شخصیت کی تصویر اتنی پھیلی ہوئی ہے اور اسکے درخشاں گوشے سامنے ہیں کہ ان سب کا احاطہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مولانا صاحب کے اندر ایک داعی حق، ایک متکلم اسلام، ایک مفکر حیات، ایک ادیب، ایک سیاسی قائد، ایک تنظیم کار اور ایک بیباک مجاہد بیک وقت جمع تھے۔ ان کی شخصیت سیاسی وتاریخی اور علمی وانقلابی ہر دو لحاظ سے بے حد اہم ہے۔ اور پھر اس کیساتھ حسن کردارکے اجتماع نے ان کو اپنے دور کی ایک عبقری شخصیت بنادیا ہے مگرکسی ایسی جامع شخصیت کے حسن کو دوسروں تک منتقل کرنا ٹیڑی کھیر ہے۔اسکے یہ معنی نہیں کہ اس کام کو کیا ہی نہ جائے۔کوشش ہی کی راہ کامیابی کی منزل کو جاتی ہے۔
حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ کی انتہائی نمایاں خصوصیت تھی کہ سیاست اور علاقائی مصروفیات میں اس درجہ انہماک کے باوجود ان کا علمی استحصار اور علمی ذوق پوری طرح برقرار رہا۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا فتح محمد چمنی نور اللہ مرقدہ اپنے زندگی میں نظریہ سیکولرزم کے بہت مخالف تھے۔ سیکولرزم نظریئے کیخلاف ایک کتاب بھی تصنیف کی تھی۔ جب کبھی کسی علمی مسئلے کی بات آتی تو معلوم ہوتا کہ اس کے تمام مالہ و ما علیہ پوری طرح مولانا صاحب کے نگاہ میں ہیں اور جب اس موضوع پر بات کرتے تو ایسا محسوس ہوتا جیسے کسی علمی کتاب کا درس ہورہاہے۔بلوچستان کے شہر چمن کا ایک قدیم دینی اور تعلیمی ادارہ مدرسہ بحرالعلوم چمن گھوڑا ہسپتال روڈ چمن میں ایک تعزیتی مولانا فتح محمدچمنی کانفرنس سے حضرت مولانامفتی فدا محمد، مولاناندا محمد حقانی اور حافظ سیف الرحمان صدیق نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ جامع الکمالات انسان تھے۔ اللہ تعالٰی نے بہت سی خوبیوں سے انہیں نوازا تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں کسی عالم دین میں بیک وقت اتنے کمالات جمع نہیں دیکھے۔ آپ بہت بڑے محدث، فقہی، فن منطق کے ماہر فلسفی، اصول پسند، فصیح و بلیغ ہونے کیساتھ ایک عظیم مقرر بھی تھے۔ مجمع میں تمام حاضرین کو اپنے دلائل اور اخلاص سے متاثر کرلیا کرتے تھے کسی کو تابع و گرویدہ بنانا انہی کاکام تھا۔ آپ ظاہری و باطنی، دینی و دنیاوی، علمی اور غیرعلمی کے تمام خوبیوں کا مجموعہ تھے۔بہر حال آپ کی پوری زندگی خدمت اسلام میں گزری اور نہایت لطیف مزاج کے مالک تھے اور آپ کا ہم سے جدا ہونا ایک صبر آزما سانحہ ہے جس میں چشم ماتم گسار خداجانے کب تک اشک بار رہے گی اور موت کے ظالم ہاتھوں نے ایک ایسی ہستی کو ہم سے جدا کردیا جس سے ملک کے تمام مذہبی لوگ ہدایت حاصل کرتے تھے۔
اللہ رب العزت ہمیں ان کے اسلامی نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائیں۔ (آمین ثم آمین)


https://mbuchaman.wordpress.com/2023/07/29/shaikh-molana-fateh-muhammad-chamani-nowarallah-marqadaho/

"اطلاع برائے طلباء و والدین"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الحمداللہ سالانہ تعطیلات کے بعد یکم مارچ سے  تعلیمی ا...
28/02/2023

"اطلاع برائے طلباء و والدین"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الحمداللہ سالانہ تعطیلات کے بعد یکم مارچ سے تعلیمی ادارے کھلے جارہے ہیں ۔ ھم انتہائی مسرت کے ساتھ تعلیمی ادارہ گورنمنٹ پرائمری سکول مدرسہ بحرالعلوم چمن میں یکم مارچ 2023 سے تعلیمی سلسلہ شروع کر نے جا رہے ہیں. لہٰذا تمام والدین سے گزارش ہے کہ بروقت اپنے بچوں کو سکول میں داخلہ دلوادیں تاکہ مزید ان کی وقت ضائع نہ ہو.

ھیڈ ماسٹر گورنمنٹ پرائمری سکول مدرسہ بحرالعلوم جامع مسجد نور گھوڑا ہسپتال روڈ چمن بلوچستان
03337752771
03137752771
www.mbuchaman.wordpress.com

"اطلاع برائے طلباء و والدین"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الحمداللہ سالانہ تعطیلات کے بعد یکم مارچ سے  تعلیمی ا...
25/02/2023

"اطلاع برائے طلباء و والدین"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الحمداللہ سالانہ تعطیلات کے بعد یکم مارچ سے تعلیمی ادارے کھلے جارہے ہیں ۔ ھم انتہائی مسرت کے ساتھ تعلیمی ادارہ گورنمنٹ پرائمری سکول مدرسہ بحرالعلوم چمن میں یکم مارچ 2023 سے تعلیمی سلسلہ شروع کر نے جا رہے ہیں. لہٰذا تمام والدین سے گزارش ہے کہ بروقت اپنے بچوں کو سکول میں داخلہ دلوادیں تاکہ مزید ان کی وقت ضائع نہ ہو.

ھیڈ ماسٹر گورنمنٹ پرائمری سکول مدرسہ بحرالعلوم جامع مسجد نور گھوڑا ہسپتال روڈ چمن بلوچستان
03337752771
03137752771
www.mbuchaman.wordpress.com

https://wp.me/peecsI-6b
09/01/2023

https://wp.me/peecsI-6b

آج سے تقریباً 43/سال قبل ”مدرسہ عربیہ بحرالعلوم چمن” کا قیام وقت کے بزرگ ہستیوں کے ہاتھوں عمل میں آیا، یہ ادارہ جہاں قائم ہے، چاروں طرف بددینی اور بد عملی کا دور دورہ ....

بریکنگ نیوز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دینی مدارس کے بینک اکاؤنٹس کھولنے پر غیراعلانیہ پابندی ختم کرنےکا فیصلہ اسلام آباد حکومت نے...
07/01/2023

بریکنگ نیوز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دینی مدارس کے بینک اکاؤنٹس کھولنے پر غیراعلانیہ پابندی ختم کرنےکا فیصلہ

اسلام آباد حکومت نے دینی مدارس کے بینک اکاؤنٹس کھولنے پر غیر اعلانیہ پابندی ختم کرنےکا فیصلہ کرلیا۔

وزیراعظم شہبازشریف سے اتحادِ تنظیماتِ مدارس کے وفد نے ملاقات کی جس میں مولانا فضل الرحمان، مفتی تقی عثمانی،مولانا حنیف جالندھری، مفتی منیب الرحمان، صاحبزادہ عبدالمصطفیٰ ہزاروی، پروفیسر ساجد میر، مولانا عبدالکبیرآزاد، مولانا فضل رحیم اشرفی اور دیگر علما شریک تھے۔

وفد نے وزیراعظم کو مدارس کو درپیش مسائل سے آگاہ کیا جس پر وزیراعظم نے کہا کہ مدارس کی رجسٹریشن کا طریقہ کارمزید سہل کرنے میں مدد دیں گے، مدارس میں جدید تقاضوں کے مطابق تعلیم کی فراہمی میں بھی مدد فراہم کریں گے۔

وزیراعظم سے مولانافضل الرحمان کی قیادت میں دینی مدارس کے رہنماؤں کی ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آگئی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہےکہ حکومت نے اتحاد تنظیمات المدارس دینیہ کے مطالبات تسلیم کرلیے جس کے تحت حکومت مدارس کی رجسٹریشن کیلئے قانون میں ترمیم لانے پر آمادہ ہوگئی ہے۔

مجوزہ ترمیم کے تحت رجسٹریشن ایکٹ میں سیکشن 21 کا اضافہ کیا جائے گا، اس ترمیم سے مدارس کی رجسٹریشن متعلقہ ضلع کے ڈپٹی کمشنرز کرسکیں گے۔

وزیراعظم نے وزارت قانون کو قانونی مسودہ جلد تیار کرنے کی ہدایت کردی جب کہ دینی مدارس کی رجسٹریشن پر طاقتور اداروں کو بھی اعتماد میں لے لیا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق دینی مدارس کے بینک اکاؤنٹس کھولنے پر بھی غیراعلانیہ پابندی ختم کرنےکا فیصلہ کیا گیا ہے۔


بریکنگ نیوز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دینی مدارس کے بینک اکاؤنٹس کھولنے پر غیراعلانیہ پابندی ختم کرنےکا فیصلہ۔ اسلام آباد حکومت نے دینی مدارس کے بینک اکاؤنٹس کھولنے پر غیر...

اسلامی اقدار کو کسی بھی صورت میں نیلام نہیں کرنے دیں گے۔حافظ محمد صدیق مدنی
03/10/2022

اسلامی اقدار کو کسی بھی صورت میں نیلام نہیں کرنے دیں گے۔
حافظ محمد صدیق مدنی

شیخ الحدیث مولانا فتح محمد  چمنی نوراللہ مرقدہ ۔۔۔۔۔۔۔ آہ ھم سے بچھڑ گئے۔تحریر : مولانا حافظ محمد صدیق مدنیاللہ تعالیٰ ک...
19/09/2022

شیخ الحدیث مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ ۔۔۔۔۔۔۔ آہ ھم سے بچھڑ گئے۔

تحریر : مولانا حافظ محمد صدیق مدنی
اللہ تعالیٰ کا امت مسلمہ پر یہ بڑا کرم ہے کہ ہر دور میں وہ اپنے دین کی حفاظت، تبلیغ، اشاعت اور دفاع کاکام اپنے منتخب بندوں سے لیتا رہا ہے۔ اس طرح ایک طرف کتاب وسنت کے ابدی رہنماء اصول ہر دور میں اجاگر ہوتے رہتے ہیں اور دوسری طرف حق کے متلاشی حضرات کی رہنمائی ہوتی رہتی ہے ساتھ ہی مسلمانوں کی اصلاح کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ تاریخ اسلام کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ علمائے امت اور صلحائے امت صدیوں سے اس خدمت میں مصروف ہیں۔ کتاب وسنت کی تبلیغ واشاعت، علوم کی ترویج، فنون کی تدوین، مسائل کے استنباط اور نتائج کے استخراج کے عظیم خدمات کا ہی نتیجہ ہے کہ آج دین کے اصولوں اور جزئیات کا زبردست ذخیرہ ملت اسلامیہ کے پاس موجود ہیں یہ سب حضور کائنات حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی اس تربیت کا نتیجہ ہے جس سے صحابہ کرامؓ فیض یاب ہوئے۔ اور انہوں نے یہ اثاثہ تابعین کو اور انہوں نے تبع تابعین کو منتقل کیا اور علمائے حق آج تک اس مبارک اور عظیم ورثے کی حفاظت کرکے اسے آئندہ نسلوں کو منتقل کر رہے ہیں۔
عجب قیامت کا حادثہ ہے، آستیں نہیں ہے
زمین کی رونق چلی گئی ہے، افق پہ مہر مبین نہیں
تری جدائی سے مرنے والے، وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے
مگر تری مرگ ناگہاں کہ اب تک یقین نہیں ہے
جمعیت علماء اسلام س پاکستان کے سابق مرکزی سالار اعلیٰ اوربلوچستان کے قدیم اور معروف دینی درسگاہ مدرسہ الجامعہ بحرالعلوم جامع مسجد نور گھوڑا ہسپتال روڈ چمن کے بانی و مہتمم حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ ایسی شخصیت تھے کہ اس کے شجر سایہ دار تلے پہنچ کر ہر کس و ناکس راحت وسکون پاسکتا تھا۔ پورے پاکستان میں آپ ؒ کومولانا چمنی صاحب کے نام سے پہچانا جاتاتھا۔ حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ کی شخصیت ایسی دل نواز، حیات افروز اور ایسی باغ و بہار تھی کہ جس کی خصوصیات کو ایک مختصر تحریر میں سمانا مشکل ہے۔ ہر فن میں اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک خاص ملکہ عطاء فرمایا تھا۔ زندگی کے آخر میں حدیث کے فروغ میں بہت خدمت کی اور اس فن حدیث میں پورے پاکستان اور افغانستان میں اچھے اساتذہ علمائے کرام ہیں ان میں سے تھے۔ شیخ الحدیث مولانا فتح محمد چمنی صاحب ؒ ہر فن کی معلومات کا خزانہ تھے، وقت مناظر اسلام تھے،
حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ خوبصورت، درمیانہ قد، سفید ریش بزرگ تھے۔ کوئی اگر آپ ؒ کو دیکھتا تا آنکھ ہٹانے کو اس کا دل نہ چاہتا۔ رنگ گوراسرخی مائل تھا۔ چہرے سے نورانیت ٹپکتی تھی، ڈاڑھی پوری سنت کی مطابق تھی، چہرہ بارعب تھا۔ غصے کے وقت ان کے چہرے پر جلال کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ بات کرتے تو ہر کوئی ان کی گفتگو سے ان کا گرویدہ ہوجاتا۔ صاف صاف الفاظ میں گفتگو فرماتے، جس سے کوئی بھی ان کی بات سمجھے بغیر نہیں رہتا۔ شیخ الحدیث مولانا فتح محمد چمنی کو اللہ تعالیٰ نے جو خطابت کا ملکہ عطاء فرمایا تھاوہ اہل عجم میں شاذونادر ہی کسی کو نصیب ہوتا ہے۔خاص طور پر پشتو اور اردو تقریریں، جو اتنی بے ساختہ، سلیس، رواں اور شگفتہ ہیں کہ ان کے فقرے فقرے پر ذوق سلیم کو حظ ملتا ہے۔ ان میں قدیم و جدید اسالیب اس طرح سے جمع ہوکر یکجان ہوگئے ہیں کہ سننے والے جزالت وسلالت دونوں کا لطف ساتھ ساتھ محسوس کرتا۔ حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ کا شمار ایسے ہی علمائے حق میں ہوتا ہے جنہوں نے پوری زندگی علوم دینیہ کی خدمت اور امت مسلمہ کی اصلاح میں صرف فرمائی۔ وہ نہ صرف مفسرعہد مدبر عصر، عالم بے بدل، فاضل اجل اور فقیہ دوراں تھے بلکہ راہ سلوک کے بے مثل امام تھے۔ ان کی وفات سے نہ صرف علمی دنیا اجڑ گئی بلکہ دنیائے سلوک کا آفتاب غروب ہوگیا۔ وہ حقیقت میں ہمارے عظیم اسلاف کی یادگار تھے۔وہ عالموں کے عالم تھے ان کی زندگی ہم سب کیلئے مشعل راہ اور نمونہ ہدایت تھی ان پر شاعر مشرق علامہ اقبال کا یہ شعر بالکل صادق آتا ہے
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
شیخ الحدیث حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ المعرودف مولانا چمنی صاحب صوبہ بلوچستان کے شہر چمن میں 1956 میں حاجی کرم خان کاکوزئی کے گھرگھوڑا ہسپتال چوک چمن میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے آبائی وطن چمن سے حاصل کی اور بعد ازاں اعلٰی تعلیم مدرسہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک اور مدرسہ اشرف العلوم باغبانپورہ گوجرانوالہ سے حاصل کی۔ آخر میں بیماری کی وجہ سے آخری دورہ حدیث مدرسہ مطلع العلوم کوئٹہ سے کرکے دینی علوم سے فراغت حاصل کی۔حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ انہی عظیم ہستیوں میں سے ایک ہیں جن سے اللہ رب العزت نے بڑے بڑے کام لئے جن کا وجود پورے ملک کیلئے ایک عظیم نعمت تھا جن کے کردار پر آج تک کوئی انگشت نمائی نہیں کرسکا دوست تو دوست دشمن بھی انکے کردار کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکے۔ ذاتی اوصاف سے مولانا صاحب ایک بلند پایہ انسان تھے ہر لحظہ مسکرانے کی عادت مزاج میں نرمی، طبیعت میں انکسار، استقامت، عزیمت، علم، حلم ووقار،تدبر، فراست، ذہانت اور اخلاق کو گوندھ کراگر انسانی وجود تیار کیا جائے تو وہ حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ ہوں گے۔حضرت کی زندگی کے تمام گوشے آج ہمارے سامنے ہیں۔بظاہر تو ہر کوئی دینداری و پاکبازی کا دعویدار ہوتا ہے، لیکن حقیقت کی کسوٹی پر کچھ ہی لوگ اتر پاتے ہیں اسی کیساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج دنیامیں صاحب دل اور خداترس لوگوں کی کمی ضرور ہیں لیکن نایاب نہیں۔ کائنات کا وجود ہی ایسی لوگوں کے دم سے ہیں جن کے دل خوف خدا سے لبریز ہوں اور جن کے دماغ پر ہمہ وقت آخرت کا فکر سوار ہو، جن کے زبانیں ذکر الٰہی سے تروتازہ اور جن کی ہر حرکت اور زندگی کے ہر ہر سانس اطاعت الٰہی اور سنت نبوی کا نمونہ ہو۔ انھیں عظیم انسانوں میں ایک نام حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ کا نمایاں ہے اور وہ ایک عظیم انسان اور ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ ان کے دل میں اللہ رب العزت اور اس کے رسول حضور کائنات حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت، ملت اسلامیہ کا درد اور پوری انسانیت سے خیرخواہی کا جزبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہواتھا۔ دراصل حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ کی شخصیت کی تصویر اتنی پھیلی ہوئی ہے اور اسکے درخشاں گوشے سامنے ہیں کہ ان سب کا احاطہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مولانا صاحب کے اندر ایک داعی حق، ایک متکلم اسلام، ایک مفکر حیات، ایک ادیب، ایک سیاسی قائد، ایک تنظیم کار اور ایک بیباک مجاہد بیک وقت جمع تھے۔ ان کی شخصیت سیاسی وتاریخی اور علمی وانقلابی ہر دو لحاظ سے بے حد اہم ہے۔ اور پھر اس کیساتھ حسن کردارکے اجتماع نے ان کو اپنے دور کی ایک عبقری شخصیت بنادیا ہے مگرکسی ایسی جامع شخصیت کے حسن کو دوسروں تک منتقل کرنا ٹیڑی کھیر ہے۔اسکے یہ معنی نہیں کہ اس کام کو کیا ہی نہ جائے۔کوشش ہی کی راہ کامیابی کی منزل کو جاتی ہے۔
حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ کی انتہائی نمایاں خصوصیت تھی کہ سیاست اور علاقائی مصروفیات میں اس درجہ انہماک کے باوجود ان کا علمی استحصار اور علمی ذوق پوری طرح برقرار رہا۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا فتح محمد چمنی نور اللہ مرقدہ اپنے زندگی میں نظریہ سیکولرزم کے بہت مخالف تھے۔ سیکولرزم نظریئے کیخلاف ایک کتاب بھی تصنیف کی تھی۔ جب کبھی کسی علمی مسئلے کی بات آتی تو معلوم ہوتا کہ اس کے تمام مالہ و ما علیہ پوری طرح مولانا صاحب کے نگاہ میں ہیں اور جب اس موضوع پر بات کرتے تو ایسا محسوس ہوتا جیسے کسی علمی کتاب کا درس ہورہاہے۔بلوچستان کے شہر چمن کا ایک قدیم دینی اور تعلیمی ادارہ مدرسہ بحرالعلوم چمن گھوڑا ہسپتال روڈ چمن میں ایک تعزیتی کانفرنس سے حضرت مولانامفتی فدا محمد، مولاناندا محمد حقانی اور حافظ سیف الرحمان صدیق نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ جامع الکمالات انسان تھے۔ اللہ تعالٰی نے بہت سی خوبیوں سے انہیں نوازا تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں کسی عالم دین میں بیک وقت اتنے کمالات جمع نہیں دیکھے۔ آپ بہت بڑے محدث، فقہی، فن منطق کے ماہر فلسفی، اصول پسند، فصیح و بلیغ ہونے کیساتھ ایک عظیم مقرر بھی تھے۔ مجمع میں تمام حاضرین کو اپنے دلائل اور اخلاص سے متاثر کرلیا کرتے تھے کسی کو تابع و گرویدہ بنانا انہی کاکام تھا۔ آپ ظاہری و باطنی، دینی و دنیاوی، علمی اور غیرعلمی کے تمام خوبیوں کا مجموعہ تھے۔بہر حال آپ کی پوری زندگی خدمت اسلام میں گزری اور نہایت لطیف مزاج کے مالک تھے اور آپ کا ہم سے جدا ہونا ایک صبر آزما سانحہ ہے جس میں چشم ماتم گسار خداجانے کب تک اشک بار رہے گی اور موت کے ظالم ہاتھوں نے ایک ایسی ہستی کو ہم سے جدا کردیا جس سے ملک کے تمام مذہبی لوگ ہدایت حاصل کرتے تھے۔
اللہ رب العزت ہمیں ان کے اسلامی نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائیں۔ (آمین ثم آمین)

شیخ الحدیث مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ ۔۔۔۔۔۔۔ آہ ھم سے بچھڑ گئے۔تحریر : مولانا حافظ محمد صدیق مدنیاللہ تعالیٰ کا...
18/09/2022

شیخ الحدیث مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ ۔۔۔۔۔۔۔ آہ ھم سے بچھڑ گئے۔

تحریر : مولانا حافظ محمد صدیق مدنی
اللہ تعالیٰ کا امت مسلمہ پر یہ بڑا کرم ہے کہ ہر دور میں وہ اپنے دین کی حفاظت، تبلیغ، اشاعت اور دفاع کاکام اپنے منتخب بندوں سے لیتا رہا ہے۔ اس طرح ایک طرف کتاب وسنت کے ابدی رہنماء اصول ہر دور میں اجاگر ہوتے رہتے ہیں اور دوسری طرف حق کے متلاشی حضرات کی رہنمائی ہوتی رہتی ہے ساتھ ہی مسلمانوں کی اصلاح کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ تاریخ اسلام کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ علمائے امت اور صلحائے امت صدیوں سے اس خدمت میں مصروف ہیں۔ کتاب وسنت کی تبلیغ واشاعت، علوم کی ترویج، فنون کی تدوین، مسائل کے استنباط اور نتائج کے استخراج کے عظیم خدمات کا ہی نتیجہ ہے کہ آج دین کے اصولوں اور جزئیات کا زبردست ذخیرہ ملت اسلامیہ کے پاس موجود ہیں یہ سب حضور کائنات حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی اس تربیت کا نتیجہ ہے جس سے صحابہ کرامؓ فیض یاب ہوئے۔ اور انہوں نے یہ اثاثہ تابعین کو اور انہوں نے تبع تابعین کو منتقل کیا اور علمائے حق آج تک اس مبارک اور عظیم ورثے کی حفاظت کرکے اسے آئندہ نسلوں کو منتقل کر رہے ہیں۔
عجب قیامت کا حادثہ ہے، آستیں نہیں ہے
زمین کی رونق چلی گئی ہے، افق پہ مہر مبین نہیں
تری جدائی سے مرنے والے، وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے
مگر تری مرگ ناگہاں کہ اب تک یقین نہیں ہے
جمعیت علماء اسلام س پاکستان کے سابق مرکزی سالار اعلیٰ اوربلوچستان کے قدیم اور معروف دینی درسگاہ مدرسہ الجامعہ بحرالعلوم جامع مسجد نور گھوڑا ہسپتال روڈ چمن کے بانی و مہتمم حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ ایسی شخصیت تھے کہ اس کے شجر سایہ دار تلے پہنچ کر ہر کس و ناکس راحت وسکون پاسکتا تھا۔ پورے پاکستان میں آپ ؒ کومولانا چمنی صاحب کے نام سے پہچانا جاتاتھا۔ حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ کی شخصیت ایسی دل نواز، حیات افروز اور ایسی باغ و بہار تھی کہ جس کی خصوصیات کو ایک مختصر تحریر میں سمانا مشکل ہے۔ ہر فن میں اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک خاص ملکہ عطاء فرمایا تھا۔ زندگی کے آخر میں حدیث کے فروغ میں بہت خدمت کی اور اس فن حدیث میں پورے پاکستان اور افغانستان میں اچھے اساتذہ علمائے کرام ہیں ان میں سے تھے۔ شیخ الحدیث مولانا فتح محمد چمنی صاحب ؒ ہر فن کی معلومات کا خزانہ تھے، وقت مناظر اسلام تھے،
حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ خوبصورت، درمیانہ قد، سفید ریش بزرگ تھے۔ کوئی اگر آپ ؒ کو دیکھتا تا آنکھ ہٹانے کو اس کا دل نہ چاہتا۔ رنگ گوراسرخی مائل تھا۔ چہرے سے نورانیت ٹپکتی تھی، ڈاڑھی پوری سنت کی مطابق تھی، چہرہ بارعب تھا۔ غصے کے وقت ان کے چہرے پر جلال کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ بات کرتے تو ہر کوئی ان کی گفتگو سے ان کا گرویدہ ہوجاتا۔ صاف صاف الفاظ میں گفتگو فرماتے، جس سے کوئی بھی ان کی بات سمجھے بغیر نہیں رہتا۔ شیخ الحدیث مولانا فتح محمد چمنی کو اللہ تعالیٰ نے جو خطابت کا ملکہ عطاء فرمایا تھاوہ اہل عجم میں شاذونادر ہی کسی کو نصیب ہوتا ہے۔خاص طور پر پشتو اور اردو تقریریں، جو اتنی بے ساختہ، سلیس، رواں اور شگفتہ ہیں کہ ان کے فقرے فقرے پر ذوق سلیم کو حظ ملتا ہے۔ ان میں قدیم و جدید اسالیب اس طرح سے جمع ہوکر یکجان ہوگئے ہیں کہ سننے والے جزالت وسلالت دونوں کا لطف ساتھ ساتھ محسوس کرتا۔ حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ کا شمار ایسے ہی علمائے حق میں ہوتا ہے جنہوں نے پوری زندگی علوم دینیہ کی خدمت اور امت مسلمہ کی اصلاح میں صرف فرمائی۔ وہ نہ صرف مفسرعہد مدبر عصر، عالم بے بدل، فاضل اجل اور فقیہ دوراں تھے بلکہ راہ سلوک کے بے مثل امام تھے۔ ان کی وفات سے نہ صرف علمی دنیا اجڑ گئی بلکہ دنیائے سلوک کا آفتاب غروب ہوگیا۔ وہ حقیقت میں ہمارے عظیم اسلاف کی یادگار تھے۔وہ عالموں کے عالم تھے ان کی زندگی ہم سب کیلئے مشعل راہ اور نمونہ ہدایت تھی ان پر شاعر مشرق علامہ اقبال کا یہ شعر بالکل صادق آتا ہے
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
شیخ الحدیث حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ المعرودف مولانا چمنی صاحب صوبہ بلوچستان کے شہر چمن میں 1956 میں حاجی کرم خان کاکوزئی کے گھرگھوڑا ہسپتال چوک چمن میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے آبائی وطن چمن سے حاصل کی اور بعد ازاں اعلٰی تعلیم مدرسہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک اور مدرسہ اشرف العلوم باغبانپورہ گوجرانوالہ سے حاصل کی۔ آخر میں بیماری کی وجہ سے آخری دورہ حدیث مدرسہ مطلع العلوم کوئٹہ سے کرکے دینی علوم سے فراغت حاصل کی۔حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ انہی عظیم ہستیوں میں سے ایک ہیں جن سے اللہ رب العزت نے بڑے بڑے کام لئے جن کا وجود پورے ملک کیلئے ایک عظیم نعمت تھا جن کے کردار پر آج تک کوئی انگشت نمائی نہیں کرسکا دوست تو دوست دشمن بھی انکے کردار کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکے۔ ذاتی اوصاف سے مولانا صاحب ایک بلند پایہ انسان تھے ہر لحظہ مسکرانے کی عادت مزاج میں نرمی، طبیعت میں انکسار، استقامت، عزیمت، علم، حلم ووقار،تدبر، فراست، ذہانت اور اخلاق کو گوندھ کراگر انسانی وجود تیار کیا جائے تو وہ حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ ہوں گے۔حضرت کی زندگی کے تمام گوشے آج ہمارے سامنے ہیں۔بظاہر تو ہر کوئی دینداری و پاکبازی کا دعویدار ہوتا ہے، لیکن حقیقت کی کسوٹی پر کچھ ہی لوگ اتر پاتے ہیں اسی کیساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج دنیامیں صاحب دل اور خداترس لوگوں کی کمی ضرور ہیں لیکن نایاب نہیں۔ کائنات کا وجود ہی ایسی لوگوں کے دم سے ہیں جن کے دل خوف خدا سے لبریز ہوں اور جن کے دماغ پر ہمہ وقت آخرت کا فکر سوار ہو، جن کے زبانیں ذکر الٰہی سے تروتازہ اور جن کی ہر حرکت اور زندگی کے ہر ہر سانس اطاعت الٰہی اور سنت نبوی کا نمونہ ہو۔ انھیں عظیم انسانوں میں ایک نام حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ کا نمایاں ہے اور وہ ایک عظیم انسان اور ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ ان کے دل میں اللہ رب العزت اور اس کے رسول حضور کائنات حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت، ملت اسلامیہ کا درد اور پوری انسانیت سے خیرخواہی کا جزبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہواتھا۔ دراصل حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ کی شخصیت کی تصویر اتنی پھیلی ہوئی ہے اور اسکے درخشاں گوشے سامنے ہیں کہ ان سب کا احاطہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مولانا صاحب کے اندر ایک داعی حق، ایک متکلم اسلام، ایک مفکر حیات، ایک ادیب، ایک سیاسی قائد، ایک تنظیم کار اور ایک بیباک مجاہد بیک وقت جمع تھے۔ ان کی شخصیت سیاسی وتاریخی اور علمی وانقلابی ہر دو لحاظ سے بے حد اہم ہے۔ اور پھر اس کیساتھ حسن کردارکے اجتماع نے ان کو اپنے دور کی ایک عبقری شخصیت بنادیا ہے مگرکسی ایسی جامع شخصیت کے حسن کو دوسروں تک منتقل کرنا ٹیڑی کھیر ہے۔اسکے یہ معنی نہیں کہ اس کام کو کیا ہی نہ جائے۔کوشش ہی کی راہ کامیابی کی منزل کو جاتی ہے۔
حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ کی انتہائی نمایاں خصوصیت تھی کہ سیاست اور علاقائی مصروفیات میں اس درجہ انہماک کے باوجود ان کا علمی استحصار اور علمی ذوق پوری طرح برقرار رہا۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا فتح محمد چمنی نور اللہ مرقدہ اپنے زندگی میں نظریہ سیکولرزم کے بہت مخالف تھے۔ سیکولرزم نظریئے کیخلاف ایک کتاب بھی تصنیف کی تھی۔ جب کبھی کسی علمی مسئلے کی بات آتی تو معلوم ہوتا کہ اس کے تمام مالہ و ما علیہ پوری طرح مولانا صاحب کے نگاہ میں ہیں اور جب اس موضوع پر بات کرتے تو ایسا محسوس ہوتا جیسے کسی علمی کتاب کا درس ہورہاہے۔بلوچستان کے شہر چمن کا ایک قدیم دینی اور تعلیمی ادارہ مدرسہ بحرالعلوم چمن گھوڑا ہسپتال روڈ چمن میں ایک تعزیتی کانفرنس سے حضرت مولانامفتی فدا محمد، مولاناندا محمد حقانی اور حافظ سیف الرحمان صدیق نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حضرت مولانا فتح محمد چمنی نوراللہ مرقدہ جامع الکمالات انسان تھے۔ اللہ تعالٰی نے بہت سی خوبیوں سے انہیں نوازا تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں کسی عالم دین میں بیک وقت اتنے کمالات جمع نہیں دیکھے۔ آپ بہت بڑے محدث، فقہی، فن منطق کے ماہر فلسفی، اصول پسند، فصیح و بلیغ ہونے کیساتھ ایک عظیم مقرر بھی تھے۔ مجمع میں تمام حاضرین کو اپنے دلائل اور اخلاص سے متاثر کرلیا کرتے تھے کسی کو تابع و گرویدہ بنانا انہی کاکام تھا۔ آپ ظاہری و باطنی، دینی و دنیاوی، علمی اور غیرعلمی کے تمام خوبیوں کا مجموعہ تھے۔بہر حال آپ کی پوری زندگی خدمت اسلام میں گزری اور نہایت لطیف مزاج کے مالک تھے اور آپ کا ہم سے جدا ہونا ایک صبر آزما سانحہ ہے جس میں چشم ماتم گسار خداجانے کب تک اشک بار رہے گی اور موت کے ظالم ہاتھوں نے ایک ایسی ہستی کو ہم سے جدا کردیا جس سے ملک کے تمام مذہبی لوگ ہدایت حاصل کرتے تھے۔
اللہ رب العزت ہمیں ان کے اسلامی نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائیں۔ (آمین ثم آمین)

Address

Office MBUC Taj Road P. O Box # 5
Chaman
86000

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when MBUC Media posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to MBUC Media:

Videos

Share

جامعہ بحرالعلوم چمن

ایڈریس : جامعہ بحرالعلوم چمن

گھوڑا ہسپتال روڈ پوسٹ بکس نمبر 5 چمن 86000 بلوچستان

پاکستان

00923337752771