Apna Bagh Ajk

Apna Bagh Ajk God created the heavens and the earth with truth,He made you and make your shapes beautiful.

ابوالکلام کہتے ہیں.ایک رات کھانے کے وقت میری والدہ نے سالن اور جلی ہوئی روٹی میرے والد کے آگے رکھ دی۔۔۔۔۔۔۔ میں والد کے ...
24/11/2023

ابوالکلام کہتے ہیں.
ایک رات کھانے کے وقت میری والدہ نے سالن اور جلی ہوئی روٹی میرے والد کے آگے رکھ دی۔۔۔۔۔۔۔ میں والد کے ردِعمل کا انتظار کرتا رہا کہ شاید وہ غصّے کا اظہار کرینگے لیکن انہوں نے اِنتہائی سکون سے کھانا کھایا اور ساتھ ہی مجھ سے پوچھا کہ آج سکول میں میرا دن کیسا گزرا مجھے یاد نہیں کہ میں نے کیا جواب دیا.
لیکن۔۔۔۔۔۔۔اُسی دوران میری والدہ نے روٹی جل جانے کی معذرت کی.
میرے والد نے کہا کوئی بات نہیں بلکہ مجھے تو یہ روٹی کھا کر مزا آیا.
اُس رات جب میں اپنے والد کو شب بخیر کہنے اُن کے کمرے میں گیا تو اُن سے اِس بارے میں پوچھ ہی لیا کہ۔۔۔۔۔۔۔ کیا واقعی آپ کو جلی ہوئی روٹی کھا کر مزا آیا؟
انہوں نے پیار سے مجھے جواب دیا بیٹا ایک جلی ہوئی روٹی کچھ نقصان نہیں پہنچاتی مگر تلخ ردعمل اور بد زبانی انسان کے جذبات کو مجروح کر دیتے ہے۔۔۔۔۔۔۔
میرے بچے یہ دُنیا بے شمار ناپسندیدہ چیزوں اور لوگوں سے بھری پڑی ہے، میں بھی کوئی بہترین یا مکمل انسان نہیں ہوں اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ۔۔۔۔۔۔۔ہمارے ارد گرد کے لوگوں سے بھی غلطی ہو سکتی ہے ایک دوسرے کی غلطیوں کو درگزر کرنا، رشتوں کو بخوبی نبھانا اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرنا ہی تعلقات میں بہتری کا سبب بنتا ہے ہماری زندگی اتنی مختصر ہے کہ اِس میں معذرت اور پچھتاووں کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے۔
زندگی کو شکر صبر کیساتھ خوشحال بنائیں۔
بیشک اللہ شکر کرنے والوں کو پسند کرتاہے

تُم کیا جانو گاؤں کے ذائقوں کے سُکھ۔۔۔ ❤️تُم نے کبھی پی ہے کوئلوں پہ بنی چائے۔۔۔؟
09/11/2023

تُم کیا جانو گاؤں کے ذائقوں کے سُکھ۔۔۔ ❤️
تُم نے کبھی پی ہے کوئلوں پہ بنی چائے۔۔۔؟

جب بہو کو گھر لے کے آئیں تو خدارا اسے ایڈجیسٹ ہونے کا وقت دیں 20 سے 22 سال کی لڑکی سے آپ پچاس سال کی عورت کی سمجھداری کی...
19/07/2022

جب بہو کو گھر لے کے آئیں تو خدارا اسے ایڈجیسٹ ہونے کا وقت دیں 20 سے 22 سال کی لڑکی سے آپ پچاس سال کی عورت کی سمجھداری کی امید مت کریں جیسے گھر میں بیٹھی آپ کی بیٹی آپ کو بچی لگتی ہے بہو کو بھی بچی سمجھ کے اسکی نادانیوں کو نظر انداز کر دیا کریں آج جس لڑکی سے آپ ایک بیوی بہو بھابھی کی ساری زمہ داریاں پوری کرنے کی امید رکھتے ہیں وہ بھی اپنے والدین کے لیے بچی ہی تھی ساس ماں نہیں بن سکتی تو کیا ہوا اپنی بہو کی دوست بننے کی کوشش کریں کبھی کبھی اسے بولیں آجا بیٹا تیرے سر میں مالش کرتی ہوں وہ کام سے فارغ ہو تو اسکا ماتھا پیار سے چوم کے اتنا کہہ دیں میری بیٹی بہت تھک گئی ہوگی کھانا کھانے لگے تو بہو کو آواز دے کر اپنے پاس بیٹھائیں بیٹے کے سامنے بہو کی تعریف کر دیا کریں
میں یقین سے کہتا ہوں ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے خوش ہو کر وہ دل و جان سے آپکی بن جائے گی اسکی حوصلہ افزائی کریں اس سے گھر کے معاملات میں مشورہ کریں
احساس دلائیں کہ اسکے بنا اپکا گھر ادھورا ہے خوش رہیں خوشیاں بانٹیں

  Sharif of Pakistani origin has been elected the first Muslim woman deputy mayor of Tameside in the UK.Tafheen, who is ...
30/05/2022

Sharif of Pakistani origin has been elected the first Muslim woman deputy mayor of Tameside in the UK.

Tafheen, who is a member of the Labour party, was also named the youngest councillor in 2012. She has also served as deputy police commissioner of Bedfordshire in the past.

Tafheen has been engaged in political activities from the time when she was a student. She belongs to Azad Kashmir in Pakistan. After being elected the deputy mayor, she said the Kashmir dispute needed a serious solution.

27/05/2022
17/03/2022

*ماں باپ کے لیے گھر میں جگہ نہیں، پشاور ہائی کورٹ میں ہندی فلم ’باغبان‘ کی طرح کا مقدمہ*
عزیز اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور
ایک گھنٹہ قبل
*پشاور ہائی کورٹ*
’ہم تو ان سے کچھ نہیں مانگتے، یہ اپنی بیویوں کو خوش رکھیں لیکن بوڑھے ماں باپ کو بھی بے آسرا نہ چھوڑیں۔‘

یہ الفاظ تھے پشاور ہائی کورٹ میں اپنی اور اپنے شوہر کی کفالت کے لیے درخواست دینے والی بوڑھی ماں کے، جو چھ بیٹے ہونے کے باوجود بڑھاپے میں بے آسرا ہیں اور ان کے بیٹے ماں باپ کو اپنے پاس رکھنے کے لیے رضامند نہیں۔

پشاور ہائی کورٹ میں ایک ایسی دراخوست پر آج سماعت ہوئی جو بوڑھے والدین کی جانب سے عدالت میں دی گئی ہے۔ اس درخواست میں بوڑھے والدین نے موقف اختیار کیا ہے کہ ان کے چھ بیٹے ہیں، جن میں سے پانچ بر سرِ روزگار ہیں اور ایک معذور۔ پانچ بیٹے اپنے اپنے گھروں میں رہتے ہیں معذور بیٹا والدین کے ساتھ ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ انھوں نے اپنے بیٹوں کی تربیت، تعلیم اور شادی بیاہ کے لیے اپنا سب کچھ بیچ دیا تھا اور اب وہ خود کرائے کے مکان میں رہتے ہیں جس کا کرایہ بھی وہ نہیں دے پا رہے۔

یہ مختصر سے روداد آج عدالت میں پیش کی گئی، جس پر جسٹس روح الامین نے کہا کہ اگر بچے اپنے والدین کو اپنے پاس نہیں رکھتے تو ہم انھیں اپنے پاس رکھ لیں گے۔

ان بزرگ والدین کی جانب سے افشاں بشیر ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ آج عدالت میں جب سماعت شروع ہوئی تو ان والدین کا صرف ایک بیٹا عدالت میں پیش ہوا جبکہ باقی چار عدالت میں نہیں تھے ۔ انھوں نے بتایا کہ سماعت کے دوران بیٹے نے کہا کہ وہ والدین کو ماہانہ کچھ روپے دیں گے، جس پر عدالت نے کہا کہ انھیں پیسوں کی نہیں محبت کی ضرورت ہے۔

افشاں بشیر ایڈووکیٹ کے مطابق بوڑھے والدین اس وقت کرائے کے مکان میں رہتے ہیں جس کا کرایہ کوئی 4000 روپے ہے اور وہ یہ کرایہ ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ مقامی صحافی عدالت میں موجود تھے، انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ عدالت نے بیٹے سے پوچھا کہ بوڑھے والدین کو بے سہارا کیوں چھوڑا ہے۔ عدالت نے بزرگ خاتون نثار بی بی سے پوچھا کہ کیا آپ اپنے بچوں سے خوش ہیں، جس پر بیٹوں کی ماں نے کہا ماں کو تو بچے ماریں بھی تو ماں خفا نہیں ہوتی، اور یہ باتیں کرتے ہوئی نثار بی بی کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔

نثار بی بی نے عدالت میں کہا کہ ’ان کے بیٹے اپنی اپنی بیویوں کو خوش رکھیں مگر والدین کو بے آسرا نہ چھوڑیں۔ ہم نے اپنے بچوں کی بہت محنت اور محبت سے پرورش کی ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ان کی شادیوں کے لیے اپنا ذاتی مکان بیچا اور باقی جو جمع پونجی تھی سب خرچ کر دی اور ’اب ہم دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیئے
وہ فلمی کہانیاں جو اب فلمی نہیں رہیں

’امل عمر بل‘ پر والدین کو اعتراض

ماں یا باپ کی دوسری شادی اور بچے

ایسا ملک جہاں بیمار بچوں کی دیکھ بھال پر والدین کو تنخواہ ملتی ہے

اس موقع پر عدالت نے بیٹے سے کہا کہ والدین نے بچوں کے لیے اپنا مکان فروخت کر دیا اور بیٹوں نے والدین کے ساتھ کیا سلوک کیا، صرف ہزار ہزار روپے دینے سے والدین کے اخراجات پورے نہیں ہوتے۔

عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ حکومت کی جانب سے والدین کی فلاح کے لیے جاری آرڈینینس بھی قانون کی شکل اختیار نہ کر سکا، ’کیا یہ آرڈینینس صرف لوگوں کو دکھانے کے لیے تھا‘۔

گزشتہ سال ستمبر میں صدر پاکستان نے تحفظ والدین آرڈینینس 2021 جاری کیا تھا جس کے تحت بچے والدین کو اپنے گھروں سے زبردستی نہیں نکال سکتے چاہے وہ اپنے گھر میں رہ رہے ہوں یا کرائے کے مکان میں۔ اس آرڈیننس کے تحت والدین کو گھروں سے بے دخل کرنے والے بچوں کو ایک سال تک قید اور جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے۔

عدالت نے متعلقہ پولیس تھانے کے ایس ایچ او سے کہا کہ آئندہ سماعت پر تمام بیٹوں کو عدالت میں پیش کیا جائے۔

افشاں بشیر ایڈووکیٹ نے بتایا کہ بزرگ والدین کا ایک بیٹا باہر ملک میں ہوتا ہے جبکہ دو یہاں ملازمت کرتے ہیں، ایک سیکیورٹی میں ہے اور دوسرا منشی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ خاتون ایک دو مرتبہ ان کے پاس آئی تھی اور اپنی مشکلات بیان کی تھیں جس پر انھوں نے انسانی ہمدردی کے تحت عدالت میں یہ درخواست دی ہے۔ اس درخواست میں انھوں نے متعلقہ سرکاری اداروں اور بزرگ والدین کے بیٹوں کو فریق بنایا ہے۔ اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ بزرگ والدین کو احساس پروگرام اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور دیگر اس طرح کے پروگرام سے بھی کوئی معاونت نہیں دی جا رہی۔

کمرہ عدالت میں موجود سینیئر صحافی عامر جمیل نے بتایا کہ اس درخواست کی سماعت کے دوران بھی ماں اپنے بیٹے سے کہہ رہی تھی کہ تم پریشان نہ ہونا ہم مجبور ہیں۔ ان بچوں کے والد گوہر علی عمر رسیدہ شخص ہیں اور جب ان سے بات کرنا چاہی تو انھوں کہا کہ وہ بات نہیں کر سکتے۔

خاتون نثا بی بی نے کہا کہ ’انھیں اب بچوں کے پاس واپس نہ بھیجا جائے، بلکہ ان کے لیے علیحدہ کوئی انتظام اگر ہو سکتا ہے تو وہ کیا جائے کیونکہ ماضی میں بھی ایسے ہی جرگے ہوئے اور رضا مندی سے ہمیں بیٹوں کے حوالے کیا گیا اور بعد میں تمام بیٹے ذمہ داریاں ایک دوسرے پر ڈالنے لگے کے تم اب ماں باپ کو رکھو۔‘

عدالت میں پیش ہونے والے اس مقدمے کی کہانی بھی بالی ووڈ کی فلم ’باغبان‘ سے مشابہت رکھتی ہے جس میں ماں باپ کا کردار امیتابھ بچن اور ہیما مالنی نے ادا کیا تھا۔ اس فلم میں بھی والدین کی ریٹائرمنٹ اور بیٹوں کے برسرِ روزگار ہونے کے بعد والدین کے لیے بیٹوں کے گھروں میں جگہ تنگ ہو جاتی ہے اور بیٹے آپس میں ایک دوسرے پر ذمہ داریاں ڈالتے ہیں کہ ماں باپ کو تم رکھو اور اب تم رکھو۔

Ameen Ya Rabb 🤲🏼 Jummah Dua’s ❤️
14/01/2022

Ameen Ya Rabb 🤲🏼 Jummah Dua’s ❤️

یہ بچہ اپنا نام عمر اور خود کو باغ چوکی کا بتا رہا ہے باپ کا نام آزاد اور ماں کا رخسانہ بتا رہا ہے۔ گھر سے نکلا اور واپس...
13/01/2022

یہ بچہ اپنا نام عمر اور خود کو باغ چوکی کا بتا رہا ہے باپ کا نام آزاد اور ماں کا رخسانہ بتا رہا ہے۔ گھر سے نکلا اور واپسی کا راستہ بھول گیا جو کوئی بھی جانتا ہو اس نمبر پر رابطہ کرے 03425020867 share plz.

08/12/2021

Subhanallah

30/11/2021

اللہ کا حکم ہے ورنہ کوئی بھی باپ اپنی بیٹی کا ایک بال بھی کسی کو نہ دے۔
ایک بیٹی کے لیے اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر جانا بہت ہی مشکل کام ہے۔۔۔😭
اللہ پاک سب بیٹیوں کے نصیب اچھے کرے آمین-

26/11/2021

کوشش کرنے والوں کی کبھی ہار نہیں ہوتی۔۔

تھوڑا تھوڑا ہی میسر رہے کافی ہے مجھ کو 💔🖤دوســــــــت🖤💔وہ میرا سارے کا سارا نہیں ہونے والا
08/11/2021

تھوڑا تھوڑا ہی میسر رہے کافی ہے مجھ کو
💔🖤دوســــــــت🖤💔
وہ میرا سارے کا سارا نہیں ہونے والا

پروفیسر نے ایک married لڑکی کو کھڑا کیااور کہا کہ آپ بلیک بورڈ پہ ایسے 25- 30 لوگوں کے نام لکھو جو تمہیں سب سے زیادہ پیا...
07/11/2021

پروفیسر نے ایک married لڑکی کو کھڑا کیا
اور کہا کہ آپ بلیک بورڈ پہ ایسے 25- 30 لوگوں کے نام لکھو جو تمہیں سب سے زیادہ پیارے ہوں.
لڑکی نے پہلے تو اپنے خاندان کے لوگوں کے نام لکھے، پھر اپنے سگے رشتہ دار، دوستوں، پڑوسی اور ساتھیوں کے نام لکھ دیے ...
اب پروفیسر نے اس میں سے کوئی بھی کم پسند والے 5 نام مٹانے کے لیے کہا ...
لڑکی نے اپنے دوستوں کے نام مٹا دیے ..
پروفیسر نے اور 5 نام مٹانے کے لیے کہا ...
لڑکی نے تھوڑا سوچ کر اپنے پڑوسيو کے نام مٹا دیے ...
اب پروفیسر نے اور 10 نام مٹانے کے لیے کہا ...
لڑکی نے اپنے سگے رشتہ داروں کے نام مٹا دیے ...
اب بورڈ پر صرف 4 نام بچے تھے جو اس کے ممي- پاپا، شوہر اور بچے کا نام تھا ..
اب پروفیسر نے کہا اس میں سے اور 2 نام مٹا دو ...لڑکی کشمکش میں پڑ گئی بہت سوچنے کے بعد بہت دکھی ہوتے ہوئے اس نے اپنے ممي- پاپا کا نام مٹا دیا ...
تمام لوگ دنگ رہ گئے لیکن پرسکون تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ کھیل صرف وہ لڑکی ہی نہیں کھیل رہی تھی بلکی ان کے دماغ میں بھی یہی سب چل رہا تھا.
اب صرف 2 ہی نام باقی تھے ..... شوہر اور بیٹے کا ...
پروفیسر نے کہا اور ایک نام مٹا دو ...
لڑکی اب سہمی سی رہ گئی ........ بہت سوچنے کے بعد روتے ہوئے اپنے بیٹے کا نام کاٹ دیا ...
پروفیسر نے اس لڑکی سے کہا تم اپنی جگہ پر جا کر بیٹھ جاؤ ... اور سب کی طرف غور سے دیکھا ..... اور پوچھا: کیا کوئی بتا سکتا ہےکہ ایسا کیوں ہوا کہ صرف شوہر کا ہی نام بورڈ پر رہ گیا.
سب خاموش رہے .
پھر پروفیسر نے اسی لڑکی سے پوچھا کہ اسکی کیا وجہ ھے؟
اس نے جواب دیا کہ میرا شوہر ہی مجھے میرے ماں باپ، بہن بھائی، حتا کے اپنے بیٹے سے بھی زیادہ عزیز ھے. وہ میرے ھر دکھ سکھ کا ساتھی ھے، میں اس ھر وہ بات شیئر کر سکتی ھوں جو میں اپنے بیٹے یا کسی سے بھی شیئر نہیں کر سکتی،
میں اپنی زندگی سے اپنا نام مٹا سکتی ھوں مگر اپنے شوہر کا نام کبھی نی مٹا سکتی.
بیوی گھر کی ملکہ ھوتی ھے پاوں کی جوتی نھی،

ڈھونڈو کے اگر ملکوں ملکوں ملنیں کے نہی نایاب ہیں ہم سدھن گلی سے میر حسین دادا آج اس دنیا فانی کو الوداع کہ گے آج میرا گا...
07/11/2021

ڈھونڈو کے اگر ملکوں ملکوں
ملنیں کے نہی نایاب ہیں ہم
سدھن گلی سے میر حسین دادا آج اس دنیا فانی کو الوداع کہ گے آج میرا گاوں اک عظیم اور ہردلعزیز شخصیت دادا میر حسین عرف
ملنگی استاد
سے محروم ھو گیا
اللہ پاک جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاء کرے آمین

06/11/2021

*پٹرول۔*

*آپ کے پاس پٹرول تو نہیں مگر گنے کی پیداوار میں پوری دنیا میں آپ کا پانچواں نمبر ہے. کیا آپ سستی چینی حاصل کر پا رہے ہیں.*
*Absolutely Not*

*آپ کے پاس پٹرول تو نہیں مگر گندم کی کاشت میں آپ کا آٹھواں نمبر ہے. کیا آپ کو سستی روٹی دستیاب ہے.*
*Absolutely Not*

*آپ کے پاس پٹرول تو نہیں مگر چاول کی پیداوار میں آپ دسویں نمبر پر ہیں.*
*تو کیا عام شہری با آسانی اچھا چاول خرید سکتا ہے.*
*Absolutely Not*

*آپ کے پاس تیل تو نہیں مگر کپاس کی پیداوار میں آپ کا چوتھا بڑا ملک ہے.*
*تو کیا ہر شہری با آسانی تن ڈھاپنے کا کپڑا خرید سکتا ہے*
*Absolutely Not*

*اگر تیل دریافت ہوا بھی تو وہ سرمایہ داروں، جاگیرداروں، وڈیروں، زرداریوں، چوھدریوں، سومروں، ملکوں، نیازیوں, خانوں، ن لیگیوں گیلانیوں، چٹھوں اور خلائی مخلوق والی اشرافیہ پے مشتمل 60 ,70 خاندانوں کی چمکتی ہوئی قسمت کو مزید چمکائے گا۔*

*جب کہ آپ تب بھی اپنی قسمت و نصیب کے نچوڑے تیل کو دیکھ کر ٹھنڈی آہیں بھرتے رہیں گے*
*Absolutely Right*

*دنیا کے ممالک تیل سے نہیں بلکہ وسائل کی منصفانہ تقسیم سے ترقی کرتے ہیں*
*عوام دریافتوں سے نہیں عدل و انصاف سے خوش حال ہوتے ہیں.*

*اس لیئے تھوڑا نہیں پورا سوچیئے۔۔۔۔۔ !!!*

*کرپٹ نظام کے خلاف شعور بیدار کرنے میں اپنا کردار ادا کریں*

*اہل، دیانتدار اور خوفِ خدارکھنے والی پارٹی جماعت اسلامی کو صرف ایک دفعہ آزما لیں۔۔۔*

24/10/2021

لکھاری

شازل سعید

میرا نام کلیم حیدر ہے میں فوج میں میجر تھا میرے والد صاحب نے میری ماں کو مار مار کر ان کے کندھے کی ہڈی توڑ دی تھی مناسب علاج نہ کروانے کی وجہ سے ہڈی نے خون سپلائی کرنے والی نالیوں کو نقصان پہنچایا تھا اور خون کی سپلائی بند ہونے کی وجہ سے میری ماں کا بازو بے جان ہو کر سوکھ گیا تھا پھر جب میری ماں کو فالج اٹیک آیا اور ان کا دوسرا بازو بھی مفلوج ہو گیا تو میں نے اپنی پوسٹ سے استعفیٰ دے کر ماں کی خدمت کا فیصلہ کیا بیوی کی لاکھ کوششوں کے بعد بھی میرا دل مطمئن نہ ہوا اور میں نے استعفیٰ دے دیا ۔۔۔۔۔

میرا تعلق ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ سے ہے میری ماں کی عمر تیرہ برس تھی جب میری نانو کا انتقال ہوا میری نانو کی وفات کے بعد میرے نانا نے میری ماں کی پرورش کا بیڑہ اٹھایا مگر انہیں جلد ہی یقین ہو گیا کہ وہ یا تو میری ماں کو کما کر کھلا سکتے ہیں یا پھر ان کے محافظ بن کر گھر بیٹھ سکتے ہیں لہذا جب میری ماں سولہ برس کی عمر کو پہنچی تو میری ماں کا نکاح میرے نانا نے اپنے بھتیجے ( میری ماں کے چچا زاد ) سے یہ سوچتے ہوئے کر دیا کہ گھر کا دیکھا بھالا لڑکا ہے میری بیٹی کو اچھی طرح سمجھتا ہے میرا بھتیجا بھی ہے اس لئیے خوش رکھے گا مگر یہ بات میرے نانا کی خام خیالی ہی ثابت ہوئی میرے نانا میری ماں کی شادی کے بعد ڈیڑھ برس زندہ رہے ان ڈیڑھ برسوں میں میری ماں تین بار روٹھ کر اپنے باپ کی دہلیز پر آئی ہر بار میرے نانا نے اپنے بھائی ( میرے دادا) کی منت سماجت کر کے میری ماں کو واپس بھجوا دیا ۔۔۔۔۔

ڈیڑھ برس بعد میرے نانا کا انتقال ہوا تو میری ماں بالکل لاوارث ہو گئی میرے دادھیال والوں کو کھلی چھٹی مل گئی اب میرے والد محترم کے ساتھ ساتھ میری دادو اور دونوں پھوپھیاں بھی میری ماں کو پیٹنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتیں یہاں تک کہ ایک بار میرے والد صاحب نے جمعہ کی نماز کے لیے جانا تھا اور میری ماں طبعیت خرابی کی وجہ سے ان کے کپڑے استری نہ کر کے رکھ پائی تو اس بات پر انہوں نے میری ماں کو کپڑے دھونے والے ڈنڈے سے مار مار کر ان کے کندھے کی ہڈی توڑ دی کندھے کی ہڈی توڑنے کے بعد کسی ڈاکٹر تک کو دکھانے کی زحمت نہ کی گئی بلکہ الٹا میری ماں درد سے کراہتی تو اسے اور پیٹا جاتا اور بہانے خور جیسے القابات سے نوازا جاتا یہاں تک مسلسل حرکت میں رہنے کی وجہ سے ٹوٹی ہوئی ہڈی نے انگلیوں اور بازو کو خون سپلائی کرنے والی نالیوں کو بھی کٹ کر دیا۔۔۔۔۔

جب خون سپلائی کرنے والی نالیاں کٹ ہو گئیں تو خوں کی سپلائی آہستہ آہستہ انگلیوں تک پہنچنا بند ہو گئی اور بازو بے جان ہونا شروع ہو گیا یہاں تک بازو بے جان ہو کر سوکھ گیا اور ساتھ ہی لٹک کر رہ گیا جب میرے دادھیال والوں کو یقین ہو گیا کہ میری ماں بالکل مفلوج ہو چکی ہے تو انہوں نے میری ماں پر بد کردار ہونے کا الزام لگا کر اسے طلاق دلوا کر گھر سے نکلوا دیا جب میری ماں کو طلاق دے کر گھر سے نکالا گیا اس وقت میں اپنی ماں کے پیٹ میں سات ماہ کا ہو چکا تھا دو ماہ تک میری ماں کو گاؤں کی دائی نے اپنے گھر پناہ دئیے رکھی دو ماہ بعد جب میری پیدائش ہوئی تو میرے دادھیال والوں کو خطرہ پیدا ہو گیا کہیں میں ان کی جائیداد نہ ہتھیا لوں اس لئیے انہوں نے میری ماں کو دائی کے گھر بلکہ گاؤں سے بھی نکلوا دیا گاؤں سے نکالے جانے کے بعد میری ماں کے پاس اور کوئی ٹھکانہ نہیں تھا اس لیے میری مجھے کپڑے کی ایک گانٹھ میں لپیٹ کر کبھی دانتوں کی مدد سے کبھی کندھے سے لٹکا کر ٹوبہ ٹیک سنگھ شہر پہنچی اور پہلی رات میری ماں نے مجھے لےکر ایک گوشت والے پھٹے کے نیچے گزاری اور ساری رات میری ماں مجھے گود میں رکھ کر جاگتی رہی تا کہ کوئی آوارہ کتا مجھے چبا نہ ڈالے ۔۔۔۔۔

وقت گزرتا ہے پہلے پہل میری ماں فروٹ والی ریڑھیوں کے آس پاس پڑا گندا فروٹ اٹھا کر اپنا پیٹ بھرتی ہے پھر اللہ تعالیٰ کے بنائے نظام کے ذریعے اس خوراک کو دودھ میں بدل کر میرے لئیے خوراک کا بندوبست کرتی ہے اور میرا پیٹ بھرتی جب میری ماں کو بازار میں رہتے کچھ عرصہ گزرتا ہے تو مقامی دوکاندار میری ماں پر اعتبار کرنے لگتے ہیں یوں انہیں دوکانوں میں صفائی کا کام مل جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔

دوکانوں میں مجھے اٹھا کر اپنے پیچھے جھولی نما کپڑے میں ڈال کر اپنے پیچھے لٹکانے کے بعد صرف ایک ہاتھ سے صفائی کرنا بہت مشکل ہو جاتا اس لئیے میری ماں کچھ پیسے جمع کر کے برش پالش اور ہتھوڑی کیل دھاگہ اور سوئے خریدنے کے بعد جوتے سلائی کرنے کا کام شروع کر دیتی ہے میری ماں مجھے گود میں لٹا کر ایک ہاتھ اور منہ کی مدد سے جوتے سلائی کرتی ہے کچھ خدا ترس لوگ میری ماں کو اجرت سے زیادہ پیسے دے جاتے ہیں جبکہ کچھ اوباش نوجوان جان بوجھ سیوریج کی نالی میں جوتا گندا کر کے میری ماں کو پالش کرنے کے لئے دیتے ہیں اور جب اس جوتے منہ اور کپڑے کی مدد سے میری ماں صاف کرتی ہے تو میری ماں کی بے بسی پر ہنستے ہیں ۔۔۔۔۔

خیر وقت گزرتا ہے میں سکول جانے کی عمر کو پہنچتا ہوں تو میری ماں مقامی امام مسجد اور چند معزز لوگوں کے ذریعے میرے والد صاحب اسے اس وعدے پر شناختی کارڈ کی کاپی لے لیتی ہے کہ میرا بیٹا بڑے ہو کر کبھی دادھیال کی جائیداد میں سے حصہ طلب نہیں کرے گا شناختی کارڈ کی کاپی مل جانے پر میری ماں مجھے سکول داخل کرواتی ہے میرے استاد محترم سید ظفر صاحب کو جب میرے حالات کا پتہ چلتا تو مجھے اور میری ماں کو بازار سے اٹھا کر اپنے گھر لاتے ہیں ہمیں ایک الگ کمرہ دیتے ہیں اور ہمارا سارا خرچ برداشت کرتے ہیں بدلے میں میری ماں سید ظفر شاہ کے انکار کے باوجود ان کے گھر کے کام کاج کا زمہ اٹھا لیتی ہے میں پڑھتا رہتا ہوں یہاں تک کہ استاد محترم میرے لئیے آرمی میں بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ اپلائی کرتے ہیں میں سلیکٹ ہو جاتا ہوں اور میرا شمار ٹاپ ٹین کیڈٹس میں ہوتا ہے میں کورس مکمل کرتا ہوں اور میری شادی استاد محترم کی بیٹی سے کر دی جاتی ہے ۔۔۔۔۔

جب میں بطور کیپٹن انٹیلیجنس کے ایک مشن پر ہوتا ہوں تو ہرٹ اٹیک سے میرے استاد محترم ،سسر سید ظفر صاحب انتقال کر جاتے ہیں میں ان کے جنازے میں شامل نہیں ہو سکتا اور مشن مکمل کرنے کے بعد میں پورا ہفتہ پورا پورا دن ان کی قبر پر بیٹھ کر ان کے جنازے کو کندھا نہ دے سکنے پر معذرت کرتا رہتا ہوں جب دل کا غم ہلکا ہوتا تو واپس ڈیوٹی جائن کرتا ہوں میں اپنے پورے بیج میں واحد اور منفرد آفیسر تھا جو پہلے خود جاسوس بن کر دشمن کا سراغ لگاتا پھر اپنی ٹیم تیار کر کے دشمن کا قلع قمع کرتا میں بلوچستان میں ایک مشن پر تھا جب مجھے پتہ چلا کہ میری ماں کو فالج کا اٹیک آیا ہے میں نے اپنے سینئرز بیج میٹس یہاں تک اپنی شریک حیات کے روکنے کے باوجود فوج سے استعفیٰ دیا اور اپنی ماں کی خدمت میں مصروف ہو گیا مجھے یاد ہے کرنل لطیف اور برگیڈئیر امتیاز نے مجھے کہا تھا اس فیصلے کے بعد تم پچھتاؤ گے میری بیگم نے مجھے قسم دی تھی کہ وہ میری ماں کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی میں اپنے عہدے پر قائم رہوں مگر میرا دل نہیں مانا ۔۔۔۔۔

میرے دل میں کہیں نہ کہیں خلش رہتی تھی کہ میری ماں جو کچھ مجھ سے کہہ سکتی ہے وہ میری بیوی سے نہیں کہہ سکتی لہذا میں نے استعفیٰ دے دیا اور خود اپنی ماں کی خدمت کرنے لگا میری ماں جب تک زندہ رہی میں نے شاید ہی کوئی رات گھر سے باہر گزاری ہو نہیں تو میں چوبیس میں سے اٹھارہ گھنٹے ماں کے ساتھ گزارتا تھا میں نے چھوٹا سا گاڑیوں کا شو روم بنایا تھا جس پر ملازم بیٹھتا تھا میں سارا دن ماں کے ساتھ گزارتا تھا اللہ تعالیٰ نے مجھے ماں کی خدمت کے صدقے میں اتنی برکت دی کہ میرے پاس آج بیرون ملک ناروے میں سات شو روم ہیں آج پاکستان میں میری اپنی انڈسٹری ہے آج میری ماں فوت ہو چکی ہے میرے بچے جوان ہو چکے ہیں میری بیٹی امریکہ میں زیر تعلیم ہے دونوں بیٹوں نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد ناروے میں بزنس سنبھال رکھا ہے میری اولاد منتظر رہتی ہے کہ کب ان کے والدین کوئی حکم دیں اور وہ بجا لائیں کچھ عرصہ قبل میں اپنی بیوی کے ہمراہ امریکہ میں اپنی بیٹی کو ملنے گیا تو بیٹی کے کہنے پر ہم اولڈ ہوم چلے گئے وہاں پر مقیم ایک پاکستانی جسے شکل دیکھتے ہی میں نے پہچان لیا تھا کہ وہ برگیڈئیر امتیاز ہے کو دیکھ کر میں حیران رہ گیا پاکستان میں اس کا رعب دبدبہ اس کی شان و شوکت سب کچھ امریکہ میں ختم ہو چکا وہ بالکل ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا میرے لاکھ یاد دلانے پر بھی وہ مجھے نہیں پہچان پایا تھا انتظامیہ سے پوچھنے پر پتہ چلا اس کا بیٹا اسے یہاں چھوڑ گیا تھا اور اس کی موت پر مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے کی نصیحت کر گیا تھا اولڈ ہوم سے واپسی پر میں تھک کر اپنی رہائش پر پہنچا تو میری بیٹی اور بیوی نے مجھے دبانا اور میرا میساج کرنا شروع کر دیا تھا میی بنا کسی قسم کی ناگواری کا اظہار کئیے پاؤں کی مالش کرتی بیٹی کو دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ واقعی ہی ماں باپ سے حسن سلوک ایک ایسا عمل ہے جسے آج آپ لکھیں گے کل آپ کی اولاد آپ کو پڑھ کر سنائے گی اور برگیڈئیر امتیاز کی حالت نے میری اس سوچ پر مہر ثبت کر دی تھی ۔۔۔
اختتام

‏موت کے دن قبر کھودنے محلے کے غریب آتے ہیں، جبکہ شادی کے دن الگ کھانا امیر کے لیے لگتا ہے. ہم اجتماعی منافق ہیں۔
23/10/2021

‏موت کے دن قبر کھودنے محلے کے غریب آتے ہیں، جبکہ شادی کے دن الگ کھانا امیر کے لیے لگتا ہے.
ہم اجتماعی منافق ہیں۔

ایک محفل میں کسی صاحب سے سنا تھا کہ کشمیر بہت ترقی کر گیا ھے ۔
30/09/2021

ایک محفل میں کسی صاحب سے سنا تھا کہ کشمیر بہت ترقی کر گیا ھے ۔

ﻗﺪﯾﻢ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﯿﺐ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺑﮍﺍ ﺩﺭﺧﺖ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﺩﺭﺧﺖ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﮨﯽ ﺍﯾﮏ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﻟﮍﮐﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﻟﮍﮐﮯ ﮐﻮ ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ﺍﺱ ﺩﺭﺧﺖ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﻧﺎ...
22/09/2021

ﻗﺪﯾﻢ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﯿﺐ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺑﮍﺍ ﺩﺭﺧﺖ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﺩﺭﺧﺖ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﮨﯽ ﺍﯾﮏ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﻟﮍﮐﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﻟﮍﮐﮯ ﮐﻮ ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ﺍﺱ ﺩﺭﺧﺖ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮭﯿﻠﻨﺎ ﺍﭼﮭﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ﻭﮦ ﺍﺱ ﺩﺭﺧﺖ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﭼﮍﮪ ﺟﺎﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﮭﻞ ﺗﻮﮌ ﺗﻮﮌ ﮐﺮ ﮐﮭﺎﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺋﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺟﺎﺗﺎ۔ﻭﮦ ﻟﮍﮐﺎ ﺍﺱ ﺩﺭﺧﺖ ﮐﻮ ﺑﮩﺖ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﺱ ﺩﺭﺧﺖ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﻟﮍﮐﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﮭﯿﻠﻨﺎ ﺍﭼﮭﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻭﻗﺖ ﮔﺰﺭﺗﺎ ﺭﮨﺎ ﺍﻭﺭ ﻟﮍﮐﺎ ﺑﮍﺍ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔ ﺍﺏ ﻭﮦ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ﺍﺱ ﺩﺭﺧﺖ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮐﮭﯿﻠﻨﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﯾﮏ ﺭﻭﺯ ﻭﮦ ﻧﻮ ﺟﻮﺍﻥ ﺩﺭﺧﺖ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁﯾﺎ۔ﻭﮦ ﻣﺎﯾﻮﺱ ﻟﮓ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺩﺭﺧﺖ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ": ﺁﺅ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﮭﯿﻠﻮ۔ " ﻧﻮ ﺟﻮﺍﻥ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ " ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺑﭽﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺎ ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﺧﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﺭﺩ ﮔﺮﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﯿﻠﺘﺎ۔ﻣﺠﮭﮯ ﮐﭽﮫ ﮐﮭﻠﻮﻧﮯ ﭼﺎﮨﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺧﺮﯾﺪﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﭘﯿﺴﻮﮞ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﮯ۔ " ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺩﺭﺧﺖ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ": ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﮨﮯ، ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﭘﯿﺴﮯ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻭﭘﺮﺟﻮ ﺳﯿﺐ ﻟﮕﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻢ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺗﻮﮌ ﮐﺮ ﺑﯿﭻ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﻮ۔ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﭘﯿﺴﮧ ﺁ ﺟﺎﺋﯿﮕﺎ۔ " ﻧﻮ ﺟﻮﺍﻥ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺩﺭﺧﺖ ﮐﮯ ﺳﺒﮭﯽ ﺳﯿﺐ ﺗﻮﮌﮮ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺷﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ۔ﺳﯿﺐ ﺗﻮﮌﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻧﻮ ﺟﻮﺍﻥ ﻭﺍﭘﺲ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﺗﻮ ﺩﺭﺧﺖ ﮐﻮ ﻣﺎﯾﻮﺳﯽ ﮨﻮﺋﯽ ۔ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻭﮦ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺁﯾﺎ۔ ﺍﺏ ﻭﮦ ﺟﻮﺍﻥ ﮨﻮ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ۔ﺩﺭﺧﺖ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﺍ : ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﻥ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ " ﺁﺅ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﮭﯿﻠﻮ " ۔ﺣﺴﺐ ﺗﻮﻗﻊ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ": ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﮐﮭﯿﻠﻨﮯ ﮐﺎ ﻭﻗﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ﻣﯿﺮﮮ ﻟﺌﮯ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﻨﺒﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻭﮞ۔ﮨﻤﯿﮟ ﺭﮨﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﮑﺎﻥ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﮯ۔ ﮐﯿﺎ ﺁﭖ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺪﺩ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ " ﺩﺭﺧﺖ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ": ﺍﻓﺴﻮﺱ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﮐﻮﺋﯽ ﮔﮭﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﺎ ﮔﮭﺮ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺗﻢ ﻣﯿﺮﯼ ﭨﮩﻨﯿﺎﮞ ﮐﺎﭦ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﻮ۔ " ﺍﺱ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮯ ﺩﺭﺧﺖ ﮐﯽ ﺳﺎﺭﯼ ﭨﮩﻨﯿﺎﮞ ﮐﺎﭦ ﻟﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺷﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ۔ﺍﺳﮯ ﺧﻮﺵ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺩﺭﺧﺖ ﺧﻮﺵ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺁﺩﻣﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻭﺍﭘﺲ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﻮﭨﺎ ﺗﻮ ﺩﺭﺧﺖ ﮐﻮ ﭘﮭﺮ ﺳﮯ ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﯾﻮﺳﯽ ﮐﺎ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﭘﮭﺮﺟﺐ ﺩﮬﻮﭖ ﻧﮑﻠﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﮔﺮﻣﯽ ﮐﺎﻓﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﮭﯽ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺁﯾﺎ۔ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺩﺭﺧﺖ ﺧﻮﺵ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺣﺴﺐ ﻋﺎﺩﺕ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ": ﺁﺅ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﮭﯿﻠﻮ " ۔ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ " ﻣﯿﮟ ﺑﮍﺍ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﻔﺮ ﮐﺮﻭﮞ ﺗﺎﮐﮧ ﺧﻮﺵ ﺣﺎﻝ ﮨﻮﺟﺎﺅﮞ۔ ﮐﯿﺎ ﺁﭖ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﺸﺘﯽ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ " ۔ ﺩﺭﺧﺖ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ": ﻣﯿﺮﮮ ﺗﻨﮯ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺸﺘﯽ ﺑﻨﺎ ﻟﻮ۔ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺗﻢ ﺩﻭﺭ ﺗﮏ ﺳﻔﺮ ﮐﺮ ﻟﻮﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺵ ﺣﺎﻝ ﮨﻮ ﺟﺎﺅﮔﮯ۔ " ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮯ ﮐﺸﺘﯽ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺩﺭﺧﺖ ﮐﺎ ﺗﻨﺎ ﮐﺎﭨﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﻤﻨﺪﺭﯼ ﺳﻔﺮ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻧﮑﻞ ﭘﮍﺍ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﻓﯽ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﻮﭨﺎ۔ ﺳﺎﻟﻮﮞ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﭘﮭﺮ ﺁﯾﺎ۔ ﺩﺭﺧﺖ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ": ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﯿﭩﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺍﺏ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﭽﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﺳﮑﻮﮞ۔ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻟﺌﮯ ﺍﯾﮏ ﺳﯿﺐ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﭽﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ": ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ، ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺍﺳﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺩﺍﻧﺖ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ۔ " ﺩﺭﺧﺖ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ": ﻣﯿﺮﺍ ﺗﻨﺎ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﭽﺎ ﮐﯽ ﺗﻢ ﺍﺱ ﭘﺮ ﭼﮍﮪ ﺳﮑﻮ " ۔ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ": ﺍﺱ ﭘﺮ ﭼﮍﮬﻨﮯ ﮐﯽ ﺍﺏ ﻣﯿﺮﯼ ﻋﻤﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﯽ۔ " ﺩﺭﺧﺖ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ
ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯﺍٓﻧﺴﻮ ﺟﺎﺭﯼ ﺗﮭﮯ ": ﺣﻘﯿﻘﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﺎ۔ ﺁﺧﺮﯼ ﭼﯿﺰ ﺟﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﮨﮯ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﯼ ﺟﮍﯾﮟ ﮨﯿﮟ۔ " ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺍﺱ ﺁﺩﻣﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ": ﺍﺏ ﻣﺠﮭﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ، ﺍﺏ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﯽ ﺟﮕﮧ ﭼﺎﮨﺌﮯ ﺟﮩﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﺭﺍﻡ ﮐﺮ ﺳﮑﻮﮞ۔ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﮭﺮ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﮐﺮﮐﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﮏ ﭼﮑﺎ ﮨﻮﮞ۔ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﺩﺭﺧﺖ ﮐﯽ ﺟﮍ ﭨﯿﮏ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺁﺭﺍﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﺟﮕﮧ ﮨﮯ۔ " ﺗﺐ ﺩﺭﺧﺖ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ " ﺁﺅ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺑﯿﭩﮭﻮ ﺍﻭﺭ ﺁﺭﺍﻡ ﮐﺮﻭ " ۔ ﺁﺩﻣﯽ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﯿﺎ، ﺩﺭﺧﺖ ﺧﻮﺵ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﺟﺎﺭﯼ ﺗﮭﮯ۔ "
ﻭﮦ ﺑﭽﮧ ﺍٓﭖ ﺧﻮﺩ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺳﯿﺐ ﮐﺎ ﻭﮦ ﺩﺭﺧﺖ ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮨﯿﮟ
ﻧﺼﯿﺤﺖ :
ﺩﺭﺧﺖ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﮯ۔ﺟﺐ ﮨﻢ ﺑﭽﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﮭﯿﻠﻨﺎ ﺍﭼﮭﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﮨﻢ ﺑﮍﮮ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﮨﻢ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﭼﻠﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﺐ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﻥ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﻗﯿﻤﺘﯽ ﺳﮯ ﻗﯿﻤﺘﯽ ﭼﯿﺰ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﯾﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﺮﺩﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ﺟﻮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﭽﮯ ﮨﯽ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ❤❤

22/09/2021

غیر سیاسی 🐒🙈🙉🙊🐵🐒 پوسٹ
بیچارا باندر کوشش تو کررہا ہے اور باندر کی نیت بھی صاف ہے

Address

Bagh

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Apna Bagh Ajk posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share

Category


Other Newspapers in Bagh

Show All